امریکہ ، انسانی حقوق اور عالم اسلام
بیسویں صدی محیر العقول سائنسی ایجادات، علمی تحقیقات و اکتشافات کے بے نظیر کارناموں کی صدی ہے۔ اس صدی کے ایک ایک عشرے کے دوران انسانی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں جو تیز رفتار ترقی دیکھنے میں آئی، وہ معلوم انسانی تاریخ کے پورے عرصہ کی اجتماعی ترقی کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔ لیکن سیاسی اور اخلاقی ترقی کی رفتار کا جائزہ لیا جائے تو اکیسویں صدی کی دہلیز پر پہنچی روشن خیال یک قطبی دنیا اٹھارویں اور انیسویں صدی کی استعماری ظلمتوں میں ابھی تک محصور دکھائی دیتی ہے۔ آزادی، مساوات، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے ضخیم دفاتر کی روشنائیاں، وحشت و بربریت، ظلم و ناانصافی، جارحیت و بہیمیت کی سیاہیوں کا اثر زائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ظلم و جبر کے بوجھ تلے سسکتی انسانیت آج بھی ابلیسیت کے ہاتھوں زخم خوردہ ہے۔ سائنسی ایجادات نے زماں و مکاں کے فاصلے سمیٹ کر دنیا کو "انسانی بستی" کی شکل تو عطا کر دی ہے لیکن وائے افسوس! انسانی قلوب کے فاصلوں کو ختم نہیں کر سکی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ "عالمی بستی" بھی عملا ایک روایتی بستی سے مختلف نہیں ہے، اس میں بھی طاقت و وسائل پر قابض وڈیرے موجود ہیں اور ذلت و پستی کی گہرائی میں ڈوبے ہوئے ہاری بھی باقی ہیں۔ عالمی وڈیرہ سائنسی ترقی کے تکبر میں اندھا ہو کر کمزور ہاریوں کو جب چاہے، وحشت و بربریت کا نشانہ بنا ڈلے، مگر اس کے ظالم ہاتھوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا سطور میں اخذ کردہ نتائج کا عراق کے خلاف حالیہ بلا جواز بلا اشتعال وحشیانہ جارحیت کے تناظر میں جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ کسی قنوطی سوچ کا مظہر نہیں بلکہ ان ننگے حقائق کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی ہے کہ جن سے عالمی برادری بالعموم اور مسلم دنیا بالخصوص دوچار ہے۔ اینگلو امریکن استعمار نے 16 دسمبر سے 19 دسمبر 1998ء کے دوران عراق کے نہتے عوام پر رات کی تاریکی میں میزائلوں کی بارش اور وحشیانہ بمباری کا جو رقص ابلیس پیش کیا، اس نے ایک دفعہ بھی ان خدشات کو زندہ کر دیا ہے جو سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ کی یک قطبی حیثیت کے متعلق پیدا ہوئے تھے۔
تاریخ شاہد ہے، سامراج اپنے استعماری (Imperialistic) جارحانہ عزائم کو ہمیشہ فریب انگیز پردوں میں چھپا کر پایہ تکمیل تک پہنچاتا آیا ہے۔ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک نے افریقی اور ایشیائی اقوام کو غلام بنا کر انہیں تاخت و تاراج کیا لیکن انہوں نے محکوم عوام کو ہمیشہ "سفید چمڑی والی اقوام پر بوجھ" “White man’s burden” ہی سمجھا اور ان "غیر مہذب" اقوام کو تہذیب کا درس دینے کے لیے ان کو اپنی غلامی کے زیر بار لانا ضروری جانا۔ گویا نو آبادیاتی استحصال ان اقوام پر ایک "احسانِ عظیم" سے کم نہ تھا۔ جدید یورپ کے ذہین ترین فیلسوف اور حکماء نے یورپی استعماریت کے جواز کے لیے دلائل کے انبار لگا دئیے۔ جان لاک اور جان اسٹورٹ مل، جن کے ذکر کے بغیر آزادی، مساوات اور شرفِ آدم کے یورپی ترانے نامکمل سمجھے جاتے ہیں، نے برطانوی سامراج کے ہاتھو ں افریقی اور ایشیائی اقوام کی فتوحات کو محکوم اقوام کی تہذیبی ترقی کے لیے اَز حد ضروری قرار دیا اور اس ضمن میں طویل مقالہ جات تحریر کئے۔ آج امریکہ جو انسانی حقوق اور لبرل جمہوری نظام کا بزعم خویش سب سے بڑا چمپئن ہے، اپنی وحشیانہ اور جارحانہ سرگرمیوں کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی خوبصورت جواز ڈھونڈ نکالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیج کی جنگ 1991ء کے بعد سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بے حد ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا:
"امریکہ کبھی ایسے مقصد کا دفاع، اپنی جانوں سے نہیں کرے گا، جس کا دفاع وہ اپنے ضمیر سے نہیں کر سکتا" (1)
آنجہانی رچرڈ نکسن اگر زندہ ہوتے تو عراق پر امریکہ اور برطانیہ کی تازہ ترین مشترکہ جارحیت کے لیے بھی کوئی نہ کوئی جواز اپنے ضمیر کے اطمینان کے لیے ضرور نکال لیتے، 1991ء کی خلیجی جنگ برپا کرنے سے پہلے امریکہ نے اپنی انسانیت سوز کاروائیوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا ٹھپہ لگانے کا "تکلف" ضرور کیا تھا۔ اُس وقت اسے یک قطبی سپر پاور کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہونے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ سردجنگ کے تلخ تجربات کے منفی اثرات ابھی باقی تھے۔ اسی لیے امریکہ کو اپنی بربریت کو مشترکہ کاروائی کا رنگ دینا پڑا پھر 1991ء میں عراقی صدر صدام حسین کی طرف سے کویت پر فوجی قبضے نے خلیجی جنگ کے لیے بڑا آسان اور معقول بہانہ فراہم کر دیا تھا، اگرچہ بعد کے واقعات نے اس خیال کو تقویت دی کہ کہ صدام حسین کی پیٹھ ٹھونکنے والا بھی امریکہ ہی تھا۔
لیکن 1998ء میں آپریشن "صحرائی لومڑی" (Desert Fox) کے نام سے اچانک اور غیر متوقع طور پر 16 اور 17 دسمبر کی درمیانی شب امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر میزائلوں کی بارش کر دی۔ اس مرتبہ سیکورٹی کونسل سے قرارداد منظور کرائی گئی، نہ ہی اس کے مستقل ارکان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس دفعہ صدام حسین کا "ناقابل معافی جرم" صرف یہ تھا کہ اس نے اقوامِ متحدہ کے انسپکٹروں کے ساتھ تعاون سے انکار کیا تھا کیونکہ اس کے خیال میں وہ "انسپکشن" کے بہانے جاسوسی کے گھناؤنے جرم اور سازش میں مبتلا تھے۔ اپنے ضمیر کے اطمینان اور دنیا پر اپنی جمہوریت نوازی بھرم قائم رکھنے کے لیے امریکی استعمار نے اس دفعہ اقوامِ متحدہ کی انسپکشن ٹیم کے سربراہ رچرڈ بٹلر کی رپورٹ کے تنکے کا سہارا لیا۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ رچرڈ بٹلر اقوامِ متحدہ کی بجائے امریکی ایجنڈے پر گامزن تھا اور یہ کہ اس کی ٹیم کے ارکان کے ساتھ امریکی ایجنسیوں کے اہل کار بھی خفیہ جاسوسی مشن کی انجام دہی میں مصروف تھے۔ اس کا اعتراف امریکی پریس نے بھی کھل کر کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے پردے میں جاسوسی
اس رپورٹ کی خاص بات کیا تھی ۔۔۔ "ٹائم" کے الفاظ ہیں:
"یہ ظاہر کرتی تھی کہ عراقی اپنے معمول کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے یعنی ایسے آلات کو چھپانا جو حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہو سکتے تھے، مشکوک مقامات پر کام کرنے والے ورکروں سے ملاقات میں رکاوٹیں ڈالنا، ماضی میں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کے متعلق سربمہر دستاویزات کے متعلق غلط بیانی ۔۔" (4)
ذرا غور فرمائیے "بھرپور فوجی حملے" (Full Blooded Military Assault) (5) (ٹائم کے اپنے الفاظ کے مطابق) کے لیے مندرجہ بالا الزامات کسی بھی درجہ میں جواز بنائے جا سکتے ہیں۔ لندن سے شائد ہونے والے مؤقر ہفت روزہ "اکانومسٹ" نے بھی 19 دسمبر 1998ء کی اپنی "لیڈ سٹوری" میں رچرڈ بٹلر کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیا۔
شیطانِ اعظم کو اپنی ابلیسیت کے اظہار کے لیے محض ایک بہانے کی تلاش تھی ۔۔ع
خوئے بدر ابہانہ بسیار ۔۔ ورنہ اس رپورٹ میں کوئی سنگین شکایت ہرگز نہ تھی۔ بقول جنرل اسلم بیگ:
"دھاندلی اور سینہ زوری کی بھی حد ہوتی ہے۔ امریکہ نے خود ہی منصفی کے فرائض انجام دئیے اور خود ہی گستاخ صدام کو ٹھکانے لگانے کا بھی فیصلہ کر لیا" (7)
ہفٹ روزہ "ٹائم" نے “Bugging Saddam” کے عنوان سے اس موضوع پر مفصل مضمون شائع کیا ہے۔ اس کے درج ذیل اقتباسات کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے امریکی استعمار ایک خود مختار ریاست کے خلاف کس قدر بھونڈے اور گھٹیا انداز میں اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل میں ملوث رہا ہے:
"پچھلے کئی برسوں سے عراقی ڈکٹیٹر یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کے ملک میں خفیہ ہتھیاروں کی تلاش کی غرض سے آئے ہوئے اقوامِ متحدہ کے انسپکٹرز CIA کے ایجنٹ ہیں جو واشنگٹن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اب یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ امریکی جاسوسوں نے انسکام Unscom جو کہ اقوام متحدہ کا غیر جانبدار کمیشن فرض کیا جاتا ہے، کو صدام کے متعلق مہلک معلومات کو جمع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس دوران وہ آزاد انسپکٹرز کا روپ ہی دھارے رہے۔ یہ ایک پریشان کن الزام تھا جس پر امریکی حکام نے فورا رد عمل ظاہر کیا: ہم نے جاسوسی کی ہو گی، مگر ہم نے ایسا محض اقوام متحدہ کی معاونت کے لیے کیا ہے۔"
"Unscom کو 1991ء میں خلیجی جنگ کے خاتمے پر ایک معاہدہ کے نتیجے میں قائم کیا گیا۔ اس کا مشن بے حد سادہ تھا یعنی صدام کے باقی ماندہ میزائل، کیمیکل اور بائیولاجیکل ہتھیاروں کی صلاحیت کو تباہ کرنے کی تصدیق کرے۔ لیکن انہوں نے معائنے سے آگے بڑھ کر صدام کے خفیہ ہتھیاروں کا کھوج لگانے کی جاسوسی کا فریضہ اپنا لیا۔ وائٹ ہاؤس کے ایک ذمہ دار افسر نے وضاحت کی کہ Unscom کا تمام تر مقصد ہی عراق کی جاسوسی کرنا تھا" (8)
۔۔ "امریکی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور سی-آئی-اے کے جاسوسی آلات (Bug-Lets) نے ایسی معلومات ریکارڈ کیں جو صدام کی سیکورٹی ٹیم اور ممکنہ اہداف پر بمباری کے لیے استعمال ہو سکتی تھی۔" (10)
ٹائم کی مندرجہ بالا رپورٹ میں جاسوسی آلات کی اقسام، ان کی تنصیب کے مقامات، ان کا ہیڈ کوارٹر سے مسلسل مواصلاتی رابطہ، ان کا خود کار جاسوسی نیٹ ورک وغیرہ کے متعلق مفصل معلومات شائع ہوئی ہیں۔ اس سے ملتی جلتی رپورٹ ہفت روزہ اکانومسٹ (11)، واشنگٹن پوسٹ (12)، نیویارک ٹائمز (13) اور نیوز ویک نے بھی شائع کی ہیں۔
کیا کوئی آزاد، خود مختار ریاست اپنی حدود میں اپنی سالمیت کے خلاف اس طرح کی مذموم کاروائیوں کی اجازت دے سکتی ہے؟ پھر آخر کس ضابطہ اخلاق، بین الاقوامی قانون یا اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی شق کی روشنی میں عراق کے احتجاج کو مسترد کر کے اسے ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی؟
اصل محرکات
قارئین کرام! مندرجہ بالا سطور سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ عراق کی مزعومہ گستاخیاں یا عدمِ تعاون کی شکایت محض بہانہ سازی ہے۔ رچرڈ بٹلر کی جانبدارانہ اور جاسوسانہ رپورٹ بھی عراقی عوام پر آگ و آہن کی بارش کے جواز کے لیے کوئی جاندار مواد پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ یہ محض منافقانہ سخن سازیاں اور آمرانہ حیلہ جوئیاں ہیں، اس بلاجواز جارحیت کے پس پشت کچھ اور محرکات کار فرما ہیں جنہیں سامراجی پراپیگنڈہ مشین اپنی تمام تر ابلاغی قوت کے باوجود چھپانے میں ناکام رہی ہے۔ غیر جانبدار، باضمیر دانشور ان محرکات کی نشاندہی واشگاف الفاظ میں کر رہے ہیں ۔۔ یہاں ان مذموم عزائم اور محرکات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(1)امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کی تمام تر صنعتی و سائنسی ترقی کا دارومدار تیل کے وسائل تک رسائی اور خام تیل کی بغیر کسی رکاوٹ کے ترسیل پر ہے۔ یہی جہ ہے کہ مشرق سطیٰ کی تیل کے ذخائر سے مالا مال مسلمان خلیجی ریاستیں مغربی سامراجی قوتوں کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ اور ان کی غیر معمولی توجہ کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ تیل کی پیداوار، قیمتوں کا تعین اور غیر منفصل آزادانہ ترسیل جیسے معاملات میں امریکی منشاء و خواہش کی پاسداری کو یقینی بنانا امریکی خارجہ پالیسی کا اہم ہدف رہا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے متعلق کئی کتابوں کا منصف والٹر رسل میڈ، اپنے حالیہ مضمون میں واشگاف الفاظ میں لکھتا ہے:
"تیل بلاشبہ اس سارے قضیہ کا بنیادی نکتہ ہے۔ یہ ہماری تیل کی ضرورت ہی ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو خلیج کے پر پیچ معاملات میں اس قدر والہانہ طور پر الجھائے رکھتی ہے۔ انڈیا کی جو حیثیت برطانوی ایمپائر کے لیے تھی، تیل کی حیثیت ہمارے لیے بالکل وہی ہے۔ یہ امریکی طاقت کے لیے بیک وقت بنیادی پتھر کا درجہ رکھتا ہے، اور اس کی عالمی پوزیشن کے لئے زخمی ایڑی بھی (Achilles Heel) خصوصا امریکی طاقت تیل کی دولت سے مالا مال خلیج فارس کی ریاستوں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور کویت سے وابستہ ہے۔ امریکہ کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایران اور عراق جیسے طاقتور ہمسایہ ممالک کی یلغار سے ان ریاستوں کو تحفظ عطا کرے۔ اور یہ ذمہ داری امریکہ کے لیے ہر صورت میں اڈوں کے نیٹ ورک کا پھیلاؤ، معاہدات، سیاسی تعلقات، تمام مشرقِ وسطیٰ اور اس کے گردونواح میں عساکر کی تعیناتی جیسے اقدامات کو ناگزیر بناتی ہے" (14)
1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد مذکورہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے ذخائر پر امریکہ بالفعل بلا شرکت غیرے قابض ہو چکا ہے۔ خلیجی جنگ کے ٹھیک سات برسوں بعد امریکی معیشت نے وہ عروج اورافزائش پائی ہے کہ ماہرین معاشیات کے جائزوں کے مطابق گذشتہ پچاس برسوں کے دوران امریکی معیشت اس قدر خوشحالی نہیں دیکھ سکی تھی۔ 1998ء/1999ء کا امریکی بجٹ 75 بلین ڈالر فالتو (Sur-plus) کا بجٹ ہے۔ درحقیقت یہ سب خلیجی جنگ کی "برکات" کا ہی نتیجہ ہے۔ امریکہ خلیجی جنگ کے بعد سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات سے کھربوں ڈالر "جنگی اخراجات" کے نام سے وصول کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ سات برسوں میں سستے تیل کی خریداری کے نتیجے میں کھربوں ڈالر کے اضافی اخراجات میں بھی بچت کر چکا ہے۔ یہ یاد رہے کہ 1974ء میں تیل کی قیمت 14 ڈالر فی بیرل تھی، 1991ء میں یہ نرخ 22 ڈالر فی بیرل تھا اور 1999ء میں یہ صرف 10 ڈالر فی بیرل ہے۔ اس کے برعکس خلیج کی ریاستیں شدید معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں بالواسطہ طور پر دبے الفاظوں میں امریکی افواج کی واپسی کی بات کرتی رہتی ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ان کو صدام حسین کا ہوا دکھا کر اِن کے ہوش و حواس اڑائے رکھے اور یہ کہ اپنی طاغوتی طاقت کے ہلاکت خیز مظاہروں سے ان کے اعصاب کو بھی لرزہ براندام کئے رکھے ۔۔ بعض تجزیہ نگار حالیہ امریکی بربریت کو اس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کی اکثریت نے امریکہ صدر بل کلنٹن کے مذکورہ بالا حکم کا فوری کا سبب اپنے خلاف تحریکِ مؤاخذہ سے توجہ ہٹانے کو ہی قرار دیا ہے۔ دوسروں کی بات تو خیر اپنی جگہ ہے خود امریکی عوام اور ری پبلکن کے راہنماؤں نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ" عراق پر حملہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے تاکہ صدر کلنٹن کے خلاف مواخذے کی کاروائی کے نتائج کو اپنے حق میں ہموار کیا جا سکے۔ ہفت روزہ "ٹائم" کا مضمون نگار یوں رقم طراز ہے:
"یہ صرف ری پبلکن ارکان ہی نہ تھے جن کا خیال ہے کہ کلنٹن نے (Wag the Dog) جیسی کوشش کے طور پر مواخذہ سے بچنے کے لیے حملہ کا حکم دیا تھا۔ اسی خیال کی بازگشت برطانوی پارلیمنٹ اور فرانسیسی اخبارات کے اداریوں میں بھی سنائی دی۔ قاہرہ کی جامع مسجد کے سامنے مظاہرے کے دوران ایک کتبہ لہرا رہا تھا ۔۔ "مونیکا کی خاطر عراقی بچے قتل کئے جا رہے ہیں۔" (15)
(Wag the Dog) کے نام سے ایک امریکی فلم بنی تھی جس کی کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک امریکی صدر نے اپنے آپ کو جنسی سکینڈل سے بچانے اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک دوسرے ملک پر بلاجواز حملہ کر دیا تھا۔
صدر بل کلنٹن اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان مندرجہ بالا تعبیر کا جتنا بھی انکار کریں، تحریک مواخذہ اور عراق پر حملے کے اوقات کی قربت سے یہ دلیل قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے اور حملے کے فوری محرک کے طور پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی اس خیال کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "ایک بدقماش عورت کے حوالے سے عراقی عوام کو خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ یہ یقینا ایک ناقابل معافی جرم ہے اور پوری انسانیت اس پر نوحہ کناں ہے۔" (16)
(3) راقم الحروف کے خیال میں 16 دسمبر کو امریکی جارحیت کا ایک فوری سبب صدر کلنٹن کی طرف سے یہودی لابی کی خوشنودی کا حصول اور اسرائیلی قیاست کے ساتھ بااعتماد تعلقات کی بحالی کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اکثریت طبقہ کی رائے یہ ہے کہ مونیکا سکینڈل یہودی لابی کی سازش کا نتیجہ ہے۔بل کلنٹن نے جب مغربی پر یہودی آبادیوں کے خاتمے کے لیے اسرائیلی حکومت پر زور دیا اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورے کے دوران وائٹ ہاؤس میں سرد مہری کا رویہ اپنایا، تو بااثر یہود لابی نے بل کلنٹن کو سبق سکھانے کے لیے مونیکا سکینڈل کو آگے بڑھایا۔ امریکی ذرائع ابلاغ یہودی ملکیت میں ہیں یا کم از کم ان کے زیر اثر ہیں۔ انہوں نے اس جنسی سکینڈل کو جنون خیز انداز میں تشہیر دی۔ کینتھ سٹار، مونیکا لیونسکی اور بل کلنٹن کے ناقدین کی اکثریت کا یہودی ہونا محض حسن اتفاق نہیں ہے، یہودی لابی کی حمایت کے بغیر کسی امریکی صدر کا وائٹ ہاؤس میں براجمان رہنا اگر ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ صدر بل کلنٹن کو اس حقیقت کا جلد ہی ادرک ہو گیا۔
عراق پر امریکی حملے سے تین روز قبل صدر بل کلنٹن اسرائیل کے دورے پر تھے۔ "ٹائم" کی رپورٹ کے مطابق 13 دسمبر بروز اتوار کو بٹلر کی رپورٹ کے متعلق جب صدر بل کلنٹن کو پیشگی اطلاع دی گئی، تو اس وقت وہ یروشلم میں تھے۔ وہیں انہوں نے پینٹگان کو 72 گھنٹے قبل حملے کی تیاری کا نوٹس دیا" (17) اسی ہفت روزہ کے مطابق منگل کی صبح 15 دسمبر مشرقِ وسطیٰ سے واپسی کے فورا بعد صدر کلنٹن نے اپنے فوجی مشیروں اور نائب صدر کے ساتھ بٹلر رپورٹ پر غور کرنے کے لیے میٹنگ منعقد کی۔ بل کلنٹن یروشلم کے دورے کے دوران ہی عراق پر حملے کا حتمی فیصلہ کر چکے تھے۔ یہ اجلاس محض کاروائی ڈالنے اور اپنے قریبی ارکانِ حکومت کو اعتماد میں لینے کے لیے بلایا گیا تھا۔
امریکہ کے مالیاتی نظام اور ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا کنٹرول محتاجِ وضاحت نہیں۔ ابھی رچرڈ بٹلر کی رپورٹ پوری طرح منظر عام پر ہی نہ آئی تھی کہ یہودی ذرائع ابلاغ نے عراق کے خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کا طوفان کھڑا کر دیا تھا تاکہ 16 دسمبر کے حملہ کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عراق پر امریکی حملے کے بعد صیہونی ذرائع ابلاغ نے بل کلنٹن کے حق میں فضا ہموار کرنا شروع کر دی اور ری پبلکن کے ان ارکان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جو اس کے خلاف تحریک مؤاخذہ کو کامیاب کر دینے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ بالآخر 12 جنوری 1999ء کو امریکی سینٹ نے صدر بل کلنٹن کو باعزت طور بری کر دیا۔ 13 جنوری 1999ء کے پاکستانی اخبارات میں اس خبر کو نمایاں جگہ دی گئی۔ اب امریکی پریس کلنٹن کے مخالفین کی خوب خبر لے رہا ہے۔
(4) امریکی قوم کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ موجودہ گورے امریکیوں کے آباؤ اجداد کی اکثریت مختلف یورپی ممالک کے بھگوڑوں اور وحشی تاجروں پر مشتمل تھی۔ امریکی قوم کی تاریخ کا آغاز ہی مقامی "ریڈ انڈین" کی نسل کشی اور مادرِ وطن کی انگلینڈ کے خلاف باغیانہ جنگ و جدل سے ہوا۔ وحشت و بربریت امریکی قوم کے اجتماعی مزاج میں شامل ہے۔ طاقت اور دولت ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو ہمیشہ ظلم و جبر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دوسری قوم کے خلاف قتل و غارت سے امریکی عوام مریضانہ حظ اٹھاتے ہیں۔
(5) امریکہ نے عراق کو اپنے جھوٹے وقار کی تسکین کے لیے تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ امریکی قوم کی خودی بقول علامہ اقبال فساد زدہ خوری (Preverted Ego) ہے۔ ان کے خیال میں اس فساد کا آغاز یورپ میں لوتھر کی مذہبی اصلاح کی تحریک سے ہوا تھا جس میں عیسائیت کے آفاقی اخلاق کو قومی اخلاق نے بے دخل کر دیا۔ (21) امریکی وحشت و بربریت کے پس پشت یہ محرک بھی اہم ہے۔ کیونکہ اس قوم کی خودی فساد زدہ نہ ہو تو دیگر محرکات خطرناک صورت ہرگز نہ اختیار کر سکیں۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادیں اور بین الاقوامی قانون
امریکہ اور برطانیہ کی عراق کے خلاف مشترکہ بمباری بین الاقوامی قانون کی صریحا خلاف ورزی، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین بے توقیری اور ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے اندرونی و بیرونی اقتدارِ اعلیٰ میں بدترین مداخلت کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں امریکی حکومت کی تاویلات و تعبیرات "خوئے بدرابہانہ بسیار" کے زمرے میں آتی ہیں۔ ذیل کی سطور میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی آراء، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے متعلقہ حصوں کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے کہ امریکی جارحیت ہر اعتبار سے بلاجواز ہے۔
بین الاقوامی قانون کے ماہر پروفیسر اوپن ہائم Oppen Heim کے مطابق حالاتِ موجودہ کو برقرار رکھنے یا ان میں تبدیلی کی غرض سے ایک ریاست کی دوسری ریاست کے معاملات میں بے جا دخل اندازی دراصل "آمرانہ مداخلت" ہے۔ ایک دوسرے قانون دان کوئنسی رائٹ Quincy Wright کے الفاظ میں مداخلت سفارتکارانہ بھی ہو سکتی ہے اور عسکری بھی، ایک دھمکی آمیز لہجہ میں لکھا گیا خط، جس میں فوجی طاقت کے ممکنہ استعمال یا جابرانہ اقدامات سے خبردار کیا گیا ہو، بھی مداخلت شمار کیا جائے گا۔ (22)
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 (4) میں تمام رکن ریاستوں کے لیے ہدایت موجود ہے:
"تمام رکن ریاستوں بین الاقومی تعلقات کی انجام دہی میں کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خود مختاری کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے باز رہیں گی۔ وہ کوئی ایسا قسم نہیں اٹھائیں گی جو اقوامِ متحدہ کے مقاصد سے مطابقت نہ رکھتا ہو"
اس اصول کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 2131 (XX) دسمبر 1965ء میں دوبارہ ان الفاظ میں دہرایا:
"وجہ کچھ بھی ہو، کسی بھی ریاست کو دوسری ریاست کے دخلی یا بیرونی معاملات میں براہِ راست یا بالواسطہ مداخلت کرنے کا قطعا کوئی حق نہیں ہے"
1970ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کی جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں ریاستوں کے درمیان دوستاانہ تعلقات اور تعاون اور عدم مداخلت کے اصولوں کو ایک دفعہ پھر واضح کیا گیا تھا ۔۔ قرارداد کے مطابق:
"ہر ریاست کا فرض ہے کہ وہ دوسری ریاست میں دہشت گردی یا خانہ جنگی کو منظم کرنے، بھڑکانے، اس میں کسی بھی طور پر حصہ لینے یا اس ریاست کی علاقائی حدود میں منظم دہشت گردی کو ہوا دینے سے باز رہے۔ ہر ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہے جس میں طاقت کا استعمال یا دھمکی پائی جاتی ہو۔
کسی ایک ریاست یا ریاستوں کے ایک گروہ کو قطعا حق حاصل نہیں کہ وہ دوسری ریاست کے داخلی اور بیرونی معاملات میں، براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی قسم کی مداخلت یا اس کے سیاسی، ثقافتی اور معاشی مفادات کے خلاف مسلح مداخلت کرے، کسی بھی نوعیت کی دخل اندازی یا مزعومہ دھمکی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔" (23)
1990ء میں جب عراق نے کویت پر فوج کشی کی تو اس کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا، سیکورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس طلب کئے گئے۔ اس واقعہ کے پس منظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کئی قراردادیں منظور کیں۔ سب سے پہلی قرارداد نمبر 660 تھی جس میں عراق سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر کویت سے اپنی افواج واپس بلا لے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب نمبر 7 کی روشنی میں سلامتی کونسل نے ایک اور قرارداد نمبر 661 منظور کی جس کے ذریعے عراق کے ساتھ بین الاقوامی تجارت اور برآمدات پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ان قراردادوں کے باوجود عراق نے کویت سے اپنی فوج نہ ہٹائی تو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 678 منظور کی، اس قرارداد نے رسمی طور پر اجتماعی ایکشن کی اجازت دی۔ اس کے ذریعے رکن ممالک کو کویت سے عراق کو نکالنے کے لیے "یہ تمام ضروری ذرائع استعمال کرنے کا اختیار" دیا گیا۔ اس قرارداد کے متعلق دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں کسی مخصوص ریاست کا ذکر نہ کیا گیا جو کہ عراق کے خلاف "ضروری اقدامات" کرے گی۔ البتہ امریکہ نے بزعم خویش ہی یہ فرض کر لیا کہ اس اجتماعی اقدام کی قیادت اس کے ذمہ ہے۔ اس قرارداد نے جو قانونی پردہ عطا کیا، اس کی روشنی میں امریکہ نے "آپریشن ڈیزرٹ سٹارم" کے نام سے عراق پر اجتماعی فوج کشی کی قیادت کی۔
آپریشن "صحرائی طوفان" کا خاتمہ بھی سیکورٹی کونسل کی ایک قرارداد نمبر 687 کے ذریعے کیا گیا۔ اس قرار داد کے ذریعے عراق پر بہت ساری شرائط مسلط کی گئیں جسے اس نے حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے منظور کر لیا۔ چونکہ امریکہ اور برطانیہ کی تازہ ترین جارحیت کا دفاع کرنے کے لیے ان دو ممالک کی طرف سے اسی قرارداد نمبر 687 کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس قرارداد میں شامل بعض شرائط کو یہاں بیان کر دیا جائے، اس قرارداد میں شامل تھا:
1۔ کویت عراق سرحدوں کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کے نگران گروہ (Observer group) کا قیام
2۔ عراق کی طرف سے زہریلی گیس کے متعلق جنیوا پروٹوکول پر عمل درآمد
3۔ بین الاقوامی نگرانی کے تحت کیمیکل اور حیاتیاتی ہتھیاروں اور میزائل کی تباہی اور ان کو محفوظ کرنے کے مقامات کی بندش
4۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 29 کی روشنی میں اقوام متحدہ کے خصوصی مشن (Unscom) کی تشکیل
5۔ عراق کی طرف سے تمام کیمیکل اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے ذخیروں کو کمیشن کی پڑتال کے لئے کھولنا
6۔ عراق پر دوسرے ملکوں سے نیوکلئیر ہتھیاروں کے حصول پر پابندی اور NPT کی شقوں پر عمل درآمد کی یقین دہانی
7۔ عراق کی جانب سے بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کو تمام نیوکلئیر سہولتوں کی فہرست کی فراہمی اور AEA کے انسپکٹرز کو ایسی سہولتوں کے معائنہ کا حق
عراق نے مندرجہ بالا جنگ بندی کی شرائط کو قبول کرتے ہوئے اس پر دستخط کر دئیے۔ اس طرح اس نے بہت ساری پابندیوں کا اپنے آپ کو پابند بنا لیا۔ امریکہ اور برطانیہ نے "آپریشن ڈیزرٹ فاکس" (صحرائی لومڑی) کو شروع کرنے کے لیے اس قرارداد کی شرائط کی عراق کی طرف سے عدمِ تعمیل کا عذر تراشا۔ لیکن درج ذیل وجوہات کی بنا پر ان کا یہ خود تراشیدہ عذر نامعقول، لغو اور حقائق کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے:
(1)اگر تازہ اینگلو امریکن جارحیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہی کی گئی ہے تو اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے دکھ اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "بغداد پر کروز میزائلوں کی بارش کر کے امریکہ اور برطانیہ نے ننگی جارحیت کا ثبوت دیا ہے اور اقوام متحدہ کے تقدس کو اپنے پاؤں تلے مسل ڈالا ہے" ۔۔ انہوں نے بڑے دلفگار لہجے میں کہا:
"امریکہ کا حالیہ اقدام، اقوام متحدہ کے لئے تاریخ میں ایک کربناک باب کے طور پر رقم ہو گا۔ اس بربریت نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔" (24)
(2) امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ سیکورٹی کونسل کے بقیہ تمام مستقل ارکان ممالک: روس، چین اور فرانس نے "آپریشن ڈیزرٹ فاکس" کی سخت مخالفت کی ہے، روس کے صدر بورس یلسن نے کہا:
"امریکہ اور برطانیہ نے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں اور ریاستوں کے ذمہ دارانہ رویے کے قواعد کی بے حد بے دردی سے خلاف ورزی کی ہے" (25)
فرانس نے احتجاج کرتے ہوئے کہا:
"رچرڈ بٹلر کی رپورٹ کو سب سے پہلے سیکورٹی کونسل کے سامنے پیش کرنا چاہئے تھا۔ مگر حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ یہ رپورٹ اپنے اصل مقام تک پہنچنے کی بجائے امریکی صدر کے ہاتھوں تک پہنچ گئی۔ اور پھر اس رپورٹ کو صحیفہ آسمانی سمجھ کر امریکہ نے عراق پر آگ اور لوہا برسانے کا فیصلہ کر لیا" (26)
چنانچہ روس اور چین نے احتجاجا واشنگٹن اور لندن سے اپنے سفیر واپس بلائے۔
(3) سیکورٹی کونسل سے بالا کوئی بھی قدم عراق کے خلاف نہیں اٹھایا جا سکتا تھا۔ چین اور روس کا مؤقف بھی یہی ہے کہ جب سیکورٹی کونسل نے وہ شرائط خود عائد کی تھیں، تو ان پر عمل درآمد تہ ہونے کی صورت میں ایکشن لینے کا اختیار بھی سیکورٹی کونسل کے پاس تھا۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں منظور کردہ کسی بھی قرارداد کے نفاذ کے لیے کوئی بھی رکن ریاست آزادانہ اور یکطرفہ قدم خود نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہ اختیار کسی ایک ریاست کو دے دیا جائے تو طاقتور ممالک کمزور ممالک کے خلاف جارحیت کے لیے سیکورٹی کونسل کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے اور اس طرح جارحیت کا ایک خطرناک دروازہ کھل جائے گا۔
(4) قرارداد نمبر 678 کے برخلاف قرارداد نمبر 687 میں "اجتماعی اقدام" یکطرفہ طور پر اٹھانے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ لہذا اس کی رو سے ایسا کوئی قانونی اختیار کسی رکن ریاست کو حاصل ہی نہیں ہے۔ مزید برآں قرارداد نمبر 678 میں جس اجتماعی اقدام Collective Action کا ذکر ہے وہ تو صرف ایک ہی وقت کے لیے مخصوص تھا۔ 1991ء میں جب عراق پر اس قرارداد کے سہارے حملہ کیا گیا تو اس کے مقصد کی تکمیل ہو گئی تھی۔ اس کا سہارا لے کر بار بار اجتماعی ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد 678 واضح طور پر عراق کی کویت کے خلاف جارحیت کو ختم کرنے کے لیے منظور کی گئی تھی، اب اسے دوبارہ دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
(5) جیسا کہ بعد میں رپورٹ نے ثابت کیا کہ Unscom عراق میں جاسوسانہ کاروائیوں میں ملوث تھی۔ اور رچرڈ بٹلر کی رپورٹ میں عراق کی طرف سے کسی ایسی سنگین خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی جس کی سزا وحشیانہ بمباری کی صورت میں دی جا سکے۔ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ عراق نے اقوام متحدہ کی قرارداد 687 پر پوری طرح عمل نہ کیا، تب بھی کسی ایک ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں تن تنہا سنبھالتے ہوئے خود ہی کسی ملک کے خلاف ننگی جارحیت کا فیصلہ کر لے۔
(6) بین الاقوامی قانون کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب بھی کسی ریاست کے اقدام کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کے بارے میں واضح فیصلہ کرنا دشوار ہو تو ایسی صورت میں اس کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے دوسری طرف سے رد عمل کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ اگر رد عمل اس کے خلاف ہو تو وہ ایکشن غیر قانونی کہلائے گا۔ اینگلو امریکن جارحیت کے متعلق عالمی سطح پر احتجاج کیا گیا، گویا ان کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون کی روشنی میں بلا جواز اور غیر قانونی تھا۔
امریکہ اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی
انسانی حقوق کی جس قدر تکرار گذشتہ چند برسوں میں سننے میں آئی ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ انسانی حقوق کا آفاقی اعلامیہ Universal Declaration of Human Rights اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948ء کو پاس کیا تھا، اس کا اس قدر مبالغہ آمیز پراپیگنڈہ کیا گیا کہ گویا انسانیت واقعی مساوات، انصاف اور آزادی اظہار کے اصولوں کے سامنے سربسجود ہو گئی ہے۔ اس اعلامئے کو کبھی ورلڈ میگنا کارٹا (27) کا نام دیا گیا، کبھی اسے انسانی تمناؤں کی تاریخ کی عظیم ترین دستاویز (28) کہا گیا اور کبھی اسے بیسویں صدی کی اہم ترین دستاویزات میں سے ایک (29) کا نام دے کر اس سے زبانی عقیدت کا اظہار کیا گیا۔ کسی نے اسے "انسانیت کے حقوق پر پہلا بین الاقوامی سمجھوتہ" (30) کہہ کر اس کی اہمیت جتلائی۔ خود اس ڈیکلریشن کی تمہید میں اسے تمام لوگوں اور اقوام کی مطلوبہ کارکردگی کے لیے "مشترکہ معیار" قرار دیا گیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے اسے "انسانی حقوق کی تاجپوشی" کا لقب عطا کیا تھا ۔۔۔ آفقی اعلامئے کی تمہید کا آغاز ان سنہری حروف سے ہوتا ہے:
"ہر گاہ انسانی فیملی کے تمام ارکان کے پیدائشی وقار اور ان کے مساوی اور ناقابل انفکاک حقوق کو تسلیم کرنا ہی درحقیقت آزادی، انصاف اور امن عالم کی بنیاد فراہم کرتا ہے"
UDHR کے پہلے آرٹیکل کے الفاظ یہ ہیں:
“All human being are born free and equal in dignity and rights”
"تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں، ان کا وقار اور حقوق مساوی ہیں" (31)
آفاقی اعلامیہ بعض اعتبارات سے خاصا مبہم اور عمومی تاثر کا حامل تھا۔ اس لیے اس کی بعض شقات کی تصریحات اور اس کے نفاذ کے لیے معاون اخلاقی اور قانونی داتاویزات، معاہدات یا کنونشن کی تیاری کی ضرورت جلد ہی محسوس کی گئی۔ 1995ء تک اس طرح کی 65 دستاویزات سامنے آ چکی تھیں۔ ان میں سے دو دستاویزات:۔
٭ "بین الاقوامی میثاق برائے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق" (32)
٭ "بین الاقوامی میثاق برائے شہری اور سیاسی حقوق" (33) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان دونوں Covenants میں آفاقی اعلامیہ کی 30 شقات کی تمام تفصیلات کو سمونے کے ساتھ ساتھ رکن ریاستوں کو ان کی پاسداری کا پابند بھی بنایا گیا ہے اور کچھ اضافی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں۔ شہری اور سیاسی حقوق کے میثاق کی تمہید میں منجملہ دیگر باتوں کے زور دیا گیا ہے کہ رکن ممالک ایسی فضا پیدا کریں گے کہ جس میں شہری اور سیاسی آزادیوں کے نصب العین کا حصول آسان ہو۔ اسی تمہید میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے اس حصے کو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں رکن ممالک پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انسانی حقوق اور آزادیوں پر عملدرآمد اور ان کے عالمی احترام کو فروغ دیں۔ مذکورہ میثاق چھ حصوں میں تقسیم اور کل 53 آرٹیکلز پر مشتمل ایک ضخیم دستاویز ہے۔ اس کی چند شقات کے اقتباسات ہماری آنے والی بحث کے حوالے سے مفید رہیں گے:
آرٹیکل 1: تمام لوگوں کو حق خود ارادیت حاصل ہے۔ اس حق کی بنا پر وہ اپنے سیاسی مرتبے کا تعین آزادنہ طور پر کرتے ہیں اور اپنی معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لئے آزادانہ فیصلہ کے مجاز ہیں۔
آرٹیکل 2: رکن ریاستیں حق خود ارادیت کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کو فروغ دیں گی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اس حق کا احترام کریں گی۔
آرٹیکل 6: اور ہر انسان کو زندگی کا پیدائشی حق حاصل ہے۔ اس حق کی قانون کے مطابق حفاظت کی جائے گی۔ کسی کو یک طرفہ طور زندگی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
1968ء میں UDHR کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے تہران میں انسانی حقوق پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے آخر میں "اعلانِ تہران" میں ایک دفعہ پھر اعادہ کیا گیا:
"امن بنی نوع انسانی کی آفاقی خواہش ہے اور بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق کی مکمل عمل پذیری کے لیے امن اور انصاف ناگزیر ہیں'َ (34)
نومبر 1989ء میں اقوامِ متحدہ کی اسمبلی نے "لوگوں کے حقوق برائے امن کا اعلامیہ" (35) منظور کیا جس کی تمہید میں کہا گیا:
1۔ جنرل اسمبلی ایک دفعہ پھر تصدیق کرتی ہے کہ اقوام متحدہ کا بنیادی مقصد بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کو قائم کرنا ہے۔
2۔ جنرل اسمبلی بنی نوع انسانی کی تمنا اور خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ انسانیت کی زندگی سے جنگ کا خاتمہ کیا جانا اورپرامن زندگی کا قیام ہر ریاست کا مقدس فریضہ ہے۔
اس کے آرٹیکل 1،2،3 کے الفاظ یہ ہیں:
"1۔ جنرل اسمبلی نہایت سنجیدگی سے اعلان کرتی ہے کہ ہمارے سیارے کے انسان، امن کا مقدس حق رکھتے ہیں۔
2۔ لوگوں کے حق برائے امن کا تحفظ اور اس کا نفاذ ہر ریاست کے بنیادی فریضے میں شامل ہے۔
3۔ حق برائے امن کو عملی جامہ پہنانے کا امر اس بات کا متقاضی ہے کہ ریاستیں جنگ کے خطرے کے انسداد کے لیے پالیسیاں وضع کریں، بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال کی مذمت کریں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کریں۔"
لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ
مندرجہ بالا اعلامئے، میثاق اور اعلانات ایک زبانی جمع خرچ اور لفظی بازی گری سے زیادہ نہیں ہیں۔ ویت نام کی جنگ، کوریا کی جنگ، افغانستان پر روسی فوج کشی، عراق پر دوبار اتحادی اور امریکہ افواج کی ننگی جارحیت، بوسنیا، کوسوو اور کشمیر میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی، روانڈا کی نسل کشی اور صومالیہ جیسے ممالک میں خانہ جنگی وغیرہ کے واقعات ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان نہ تو "آزاد" ہیں اور نہ ہی "مساوی" ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی استعماری چیرہ دستیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے امتیازی برتاؤ کو سامنے رکھا جائے تو یہ انسانی حقوق کا وعظ و نصیحت محض دھوکہ، فریب اور پرلے درجے کی منافقت ہے۔ "انسانی حقوق" سے فی الواقع مراد گورے اور یہودی انسان کے حقوق ہیں۔ امریکہ اور اہل مغرب مسلمانوں کو "انسان" سمجھنے میں تامل کا شکار ہیں۔
انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بزعم خویش امریکہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس قدر انسانی حقوق کی پامالی یہ جدید استعمار، جمہوریت، آزادی اور مساوات کے پردے میں کر رہا ہے، کسی اور ریاست کا مقابلہ اس سے نہیں کیا جا سکتا۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکی صدور نے انسانی حقوق کے دردِ و تذکرہ کا شغل اختیار کیا ہوا ہے۔ اس کی ابتداء صدر جمی کارٹر نے کی تھی جس کے بعد سے اب تک انسانی حقوق امریکی خارجہ پالیسی کا مسلسل حصہ بنے رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے سربراہ سے ان کی ملاقات انسانی حقوق کی صورتحال کو زیر بحث لائے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ جب سے چین نے تیاتامن سکوائر میں مشتعل ہجوم کو سختی سے کچلا تھا، امریکہ کے ہاتھ میں چین کو تنقید کا نشانہ بنانے کا آسان بہانہ ہاتھ آ گیا ہے، ورنہ اس واقعہ کے بعد 1991ء کی خلیجی جنگ میں اور اب دسمبر 1998ء میں عراق کے خلاف بلاجواز جارحانہ کاروئیاں جو امریکہ نے کی ہیں، ان کا چین کے "جرم" سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ امریکہ انسانی حقوق کو نفسیاتی سرد جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ وہ اپنے مخالفوں کو نفسیاتی دباؤ میں رکھنے کے لئے انسانی حقوق کی پامالی کی مبالغہ آمیز رپورٹ پیش کرتا ہے۔
1997ء میں چین کے صدر ژینگ زیمن جب امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے تو صدر بل کلنتن نے استقبالیہ تقریر میں چین میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات پر اپنی تشویش کا اس قدر تواتر سے تذکرہ کیا کہ چینی صدر کو اخلاق و مروت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجبورا امریکہ صدر کو کھڑے ہو کر ٹوکنا پڑا۔ انہوں نے بل کلنٹن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: جناب صدر! آپ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں، مناسب ہو گا آپ اپنے ملک پر انسانی حقوق کی اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ پر توجہ دیں۔" گذشتہ برس چینی وزیر خارجہ نے "نیوزویک" کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ کو طعنہ دیا کہ چین نے اقوامِ متحدہ کے 17 کنونشن پر دستخط کئے ہیں، جب کہ امریکہ نے ایسے صرف 15 کنونشن پر دستخط کئے ہیں۔
امریکی صدور کی منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے بعد پہلی تقریر جنہیں وہ State of the union تقریر کا نام دیتے ہیں، سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ امن، انصاف، آزادی، مساوات اور امریکہ کی امن عالم کے قیام کے لیے ذمہ داریوں کا والہانہ اور پرجوش تذکرہ سن کر ایک دفعہ تو گماں گذرتا ہے گویا کوئی امن کا فرشتہ، آسمان سے نازل ہو گیا ہے جو اپنی مسیحائی سے اولادِ آدم کی تمام مشکلات کا مداوا کر دے گا۔ مگر یہی صدور اس قدر شقی القلب واقع ہوئے ہیں کہ لاکھوں انسانوں کے قتل کا حکم صدر کرتے ہوئے ان کے ضمیر معمولی سی خلش کا شکار نہیں ہوتے۔
10 دسمبر 1998ء کو انسانی حقوق کے آفاقی اعلامیہ کا پچاس سالہ جشن منایا گیا۔ صدر کلنٹن نے حسبِ معمول امریکی صدور کی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اعلامیہ کے مقدس اصولوں سے اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے اسے انسانی تاریخ کی عظیم دستاویز قرار دیا۔ انہوں نے اپنے پرجوش خطاب میں ایک دفعہ پھر یاد دلایا: "دستاویز کی زبان صاف طور پر بتا رہی ہے کہ تمام انسان آزاد اور برابر پیدا ہوئے ہیں" انہوں نے فرمایا کہ "اس کے اصول ہمارے لیے وہ معیار مقرر کرتے ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنے آپ کو پرکھنا ہے" (36)
یہی بل کلنٹن صاحب صرف تین دن بعد جب بیت المقدس (یروشلم) میں تھے تو انہوں نے عراق پر حملہ کی ذہنی تیاری کر لی تھی اور پھر 16 دسمبر کو قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے انہوں نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں عراق پر وحشیانہ حملے کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا:
"دنیا کو امریکی طاقت باور کرانے کے لیے بمباری ضروری تھی" (37)
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کو جو یک قطبی سپرپاور کا مرتبہ ملا تھا، گویا ابھی تک دنیا کو امریکی قوت کا علم نہیں تھا۔ اس کے لیے ایک مسلمان ملک کے عوام پر وحشیانہ بمباری کے ذریعے اپنی قوت کی دھاک بٹھانے کو ضروری سمجھا گیا۔ خلیج کی جنگ میں بھی امریکی قوم کے ذوقِ بربریت کی تسکین نہیں ہو پائی تھی جس میں لاکھوں بے گناہ عراقی مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ امریکی صدر وہ مقدس اصول جلد ہی فراموش کر گئے جن کی تبلیغ وہ پورے عالم کو 10 دسمبر کو کر رہے تھے۔ انہوں نے امن، اخوت، انصاف، آزادی کا تو محض نقاب چڑھایا ہوا ہے، اصل میں ان کا چنگیزی چہرہ وہی ہے جو ہمیں عراق کے خالف حالیہ جارحیت میں ایک دفعہ پھر دیکھنے کو ملا۔ ہم ہی ہیں جو ابھی تک ان کی اصلیت کے بارے میں دھوکے کا شکار ہیں ورنہ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ تو بہت پہلے ان کے چہرے سے نقاب الٹ چکے تھے
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر
امتِ مسلمہ کے راہنماؤں کی بصارت صرف ان کا روشن چہرہ دیکھ سکی ہے، وہ اس بصیرت سے محروم ہیں جو اس روشنی کے پس پردہ ظلمتوں کے جوار بھاٹے کا مشاہدہ کر سکے۔ طوالت کا خوف دامن گیر ہے لیکن پھر بھی جی چاہتا ہے کہ استعماری منافقت کا پول ذرا کچھ اور کھولا جائے:
امریکی صدر کی دانشور زوجہ محترمہ ہیلری کلنٹن نے 10 دسمبر 1997ء کو اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب سے جو خطاب کیا وہ فصاحت و بلاغت اور حسن بیان کا شاہکار ہے۔ اور انہوں نے نہایت سوز مندی سے نازی جرمنی کے مظالم سے لے کر پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے درد ناک مناظر کی بے حد جذباتی تصویر کھینچی۔ انہوں نے اسلام کا نام تو نہیں لیا البتہ "بعض مذاہب میں عورت کی نصف شہادت اور طلاق کا حق میسر نہ ہونے پر" بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن وائے افسوس کہ ان کی دل فگار مفصل تقریر میں ایک جملہ بھی عراق، بوسنیا، فلسطین اور کشمیر کے بے گناہ مسلمانوں کے انسانی حقوق کی سنگین پامالی کے متعلق نہیں تھا۔ انہوں نے امریکی آئین کے بانیوں Founding Fathers کے انسانی وقار کی پاسداری کے متعلق نظریات بیان کرتے ہوئے کہا:
"ان کے انسانی وقار کی پاسداری کے متعلق نظریات اپنے وقت سے بہت آگے تھے، جب انہوں نے اعلان کیا تھا کہ تمام انسان برابر تخلیق کئے گئے ہیں"
ہیلری کلنٹن نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"نصف صدی گذر جانے کے باوجود ہم نے انسانی وقار کے دائرے کو زیادہ وسیع نہیں کیا ہے۔ ابھی تک ہمارے بہت سے خواتین و حضرات ہیں جو اعلامیہ میں بیان کردہ بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن کے متعلق ہم قساوتِ قلبی کا شکار ہیں، بہت سے ایسے ہیں جن کے مصائب کو ہم دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے میں ناکام رہے ہیں" (38)
محترمہ نے جس قساوتِ قلبی کا اظہار کیا، اس سے مراد امریکہ نہیں بلکہ دوسرے ممالک ہیں۔ جو بات انہوں نے دوسروں کے متعلق کی، وہ اصل میں امریکہ اور امریکیوں پر صادق آتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کی اس تقریر دل پذیر کے بعد جب ان کے شوہر موصوف کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عراق پر بمباری کی گئی تو ان کی طرف سے ایک بھی حرفِ ندامت ادا نہیں ہوا۔
انسانی حقوق کے اعلامیہ کی سلور جوبلی کے ضمن میں 14 ستمبر 1998ء کو امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینٹ نے قرارداد منظور کی جس میں ایک دفعہ پھر آفاقی اعلامیہ اور اس کی روشنی میں کئے جانے والے معاہدات کے "عملی نفاذ اور احترام کے لیے ایک دفعہ پھر تمام مساعی بروئے کار لانے کے عذم صمیم" کا اظہار کیا گیا۔ اس قرارداد میں تمام امریکی قوم پر زور دیا گیا کہ "وہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کو برداشت (Tolerance) افہام و تفہیم اور انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینے کے لیے بطور ایک مؤثر ہتھیار کے استعمال کرے۔" (39)
اس قرارداد کے ٹھیک تین ماہ بعد پوری دنیا نے امریکی قوم کی "برداشت" افہام و تفہیم اور "انسانی حقوق کے احترام" کا مظاہرہ عراق میں دیکھ لیا۔
جیرالڈین فرارو (Geraldine Ferraro) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں 1994ء اور 1996ء کے دوران امریکی نمائندہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہیں۔ یہ وہی محترمہ ہیں جنہوں نے 1988ء میں جارج بش کے خلاف نائب صدارت کا الیکشن لرا تھا۔ ان کے خطاب کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے جو پوری امریکی قوم کی منافقت کا عکس لیے ہوئے ہے ۔۔۔ فرماتی ہیں:
"انسانی حقوق کے کمیشن میں بیٹھ کر ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم بنی آدم کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا کھل کر اظہار کریں۔ ہماری بات کو سناجانا چاہئے۔ ہماری صدا مظلوموں کی صدا ہے۔ اس بچے کی آواز جس کے پاس کھانے کو غذا نہیں ہے، اس کم عمر نوجوان کی آواز جس کے کندھے پر زبردستی فوجی بندوق رکھ دی گئی، اس ماں کی آواز جو رو رہی ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو کچھ کھلا نہیں سکتی، اس باپ کی آوز جو پابہ زنجیر ہے کیونکہ اس نے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی جسارت کی تھی۔" (40)
مظلوم بچوں، ماؤں، باپوں اور انسانوں کی "آواز" بن کر جذباتی تقریر کرنے والی جیرالڈین اور اس کے انسانی حقوق کمیشن کے دیگر انسانیت نواز ارکان کو عراق کے وہ لاکھوں بھوکے بچے دکھائی نہیں دئیے جو ظالمانہ پابندیوں کا شکار ہو کر موت کے اندھے غار میں اتر گئے۔
قارئین کرام! عراقی مسلمانوں کو جس تباہی سے گزرنا پڑا، اس کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق خلیجی جنگ کے دوران اور اس کے بعد پانچ سال کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے جو بچے ہلاک ہوئے، ان کی تعدادساڑھے تین لاکھ سے زئد تھی۔ (41)
امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل ریمزے کلارک ان چند امریکی شہریوں میں شامل ہیں جن کے ضمیر کی آواز نے اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف انہیں آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ 16 اگست 1995ء کو لاس اینجلز میں انہوں نے بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے خلیجی جنگ کے متعلق جو لرزہ خیز حقائق بیان کئے، اسے سن کر لوگ تڑپ اٹھے۔ ان کی تقریر کو بہت سے اخبارات اور رسائل نے شائع کیا ۔۔۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
"بمباری کا مقصد انسانی آبادی کی لازمی بنیادی ضروریات کو تباہ کرنا تھا۔ پینٹاگون کے مطابق چوبیس دنوں کی جنگ کے دوران ایک لاکھ دس ہزار ہوائی حملے کئے گئے جن سے پانی کے بڑے بڑے ذخائر (ڈیم)، پانی صاف کرنے کے کارخانے، زمین سے پمپ کے ذریعے پانی نکالنے کے سٹیشن اور نہروں کو کنٹرول کرنے کا نظام تاراج ہو گئے۔ پہلے ہی چار دنوں کے اندر اندر پانی کی سپلائی کا کوئی ایک مرکز بھی سالم نہ بچا، ماسوائے چند کنوؤں کے جہاں لوگ ہاتھ سے پانی نکالتے تھے۔ جنگ شروع ہونے کے صرف تیس منٹ کے اندر اندر بجلی کا نوے فیصد نظام ناکارہ کر دیا گیا جس سے خوراک پیدا کرنے کے ذرائع تباہ و برباد ہو گئے۔ دو ماہ کے اندر نوے فیصد پولٹری، چار ماہ کے اندر ساٹھ فیصد دودھ اور گوشت مہیا کرنے والے جانور ہلاک کر دئیے گئے۔ اناج پیدا کرنے یا اناج درآمد کرنے کی اہلیت نہ رہی۔ اناج کا کوئی ذخیرہ باقی نہ بچا۔ عراق اپنی خوراک کا چالیس فیصد درآمد کیا کرتا تھا اور ساٹھ فیصد خود پیدا کرتا تھا۔ شدید بمبادی کے نتیجے میں آئندہ چار سال میں خوراک کی پیداوار اور دو تہائی کم ہو گئی۔ صرف بیالیس دنوں کے دوران 88 ہزار ٹن گولہ بارود برسایا گیا جو ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے ساڑھے سات گنا زیادہ تباہی لایا۔ اس بمباری کی وجہ سے عراق اپنی آبادی کی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے سے قاصر رہا۔ اس خلیجی جنگ کے دوران اور مابعد جنگ پانچ سال کے دوران پانچ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔" (42)
(ترجمہ: چوہدری مظفر حسین)
اقوام متحدہ کے خوراک اورزراعت کے ادارے FAO کے اعداد و شمار کے مطابق 1995ء تک عراق پر عائد پابندیوں نے 5 لاکھ عراقی بچوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ڈینس ہالیڈے Denis Holli-day، جو بغداد میں تیل کے بعد خوراک کی سکیم کا کو آرڈی نیٹر تھا، اس کی رپورٹ کے مطابق روزانہ پانچ سے چھ ہزار عراقی بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر اخلاقی دیوالیہ پن کا الزام لگاتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک اور صاحب کولن رواٹ Colin Rowat جن کا تعلق کیمبرج سے ہے، انہوں نے اسی غیر اخلاقی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
"جب صدام حسین ہماری طرف تھا، تو ہم نے اس بات کی پرواہ نہ کی کہ وہ کرد ہیں، اب جب کہ وہ ہمارا دشمن ہے ہمیں اس بات کی قطعا پرواہ نہیں ہے کہ پابندیوں کا شکار بے گناہ بچے ہیں۔" (43)
اوپر کی سطور میں جن افراد کا حوالہ دیا گیا ہے وہ محض اِکا دُکا افراد ہیں کہ جن کے ضمیر ابھی زندہ ہیں اور جو قومی مفادات سے بالاتر ہو کر انسانیت کے تناظر میں سوچنے کی اہلیت رکھتے ہیں، ورنہ جہاں تک امریکی قوم کے اجتماعی ضمیر کی بات ہے، وہ اس کے برعکس ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے سروے کے مطابق 80 فیصد امریکی عراق پر بمباری کے حق میں ہیں۔ (44)
قارئین کرام! یہ ہے کردار اس قوم کا جو عالمی قیادت کے منصب پر اپنے آپ کو فائز سمجھتی ہے اور جس کی حکومت دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی معمولی سی پامالی پر بھی اپنی طرف سے مداخلت کو جائز سمجھتی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کردار کس قدر "حیوانی" کارناموں پر مشتمل ہے۔ اس کی چند جھلکیاں مندرجہ بالا سطور میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ورنہ اس کی تفصیلات کے لیے تو ضخیم دفاتر درکار ہیں۔ اگر انسانی حقوق کا معمولی سا احترام بھی امریکی صدر اور امریکی عوام میں ہوتا تو وہ کویت کی آزادی یا صدام حسین کو سبق سکھانے کے پردے میں لاکھوں عراقی مسلمانوں کے خون سے ہولی کبھی نہ کھیلتے۔ ان کے پاس اس قدر جدید ٹیکنالوجی ہے کہ فوجی ٹھکانوں کو ہی نشانہ بناتے، لیکن انہوں نے بے دریغ انسانی آبادیوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ ان کا مقصد عراقی عوام کو مکمل طور پر اپاہج کرنا تھا تاکہ ان کو ہمیشہ کے لیے نمونہ عبرت بنا دیا جائے کہ امریکی مخالفت کا انجام کیا ہوتا ہے!!
امریکی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ، ان کے سابق صدر فرینکلن روز ویلٹ کے ذہن کی تخلیق (Brain Child) تھا اور انسانی حقوق کا آفاقی اعلامیہ اس کی بیوی ایلیز روز ویلٹ Eleaner کی کاوشوں سے منظور ہوا۔ لیکن امریکہ کا انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے فروغ سے متعلق اپنا ریکارڈ کیا ہے؟ اس کا تذکرہ "اکانومسٹ" کی رپورٹ میں ملاحظہ فرمائیے:
"یکے بعد دیگرے آنے والے امریکن صدور نے انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حاکمیت کو اپنی خارجہ پالیسی کی راہنما قدروں کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے ہمیشہ بین الاقوامی قانون کو اپنے دفاع اور دوسروں پر تنقید کی غرض سے استعمال کیا۔ لیکن خود امریکہ نے بین الاقوامی قانون کی ترقی کے لیے روڑے اٹکائے ہیں، اس کا اس معاملے میں ریکارڈ افسوسناک ہے۔ آگے بڑھ کر خود اپنی مثال پیش کرنے کی بجائے امریکہ نے انسانی حقوق کے بہت سے معاہدوں پر اس وقت دستخط کئے جب بہت سے ممالک ایسا کر چکے تھے۔ امریکہ نے نسل کشی کے کنونشن کو 40 سال بعد، نسلی امتیاز کے خلاف کنونشن کو 26 سال بعد، سماجی اور سیاسی حقوق کے میثاق جو کہ سب سے اہم میثاق ہے، کو 26 سال بعد Ratify کر دیا ہے لیکن امریکہ نے اب تک نہیں کیا۔ صرف دو ممالک نے اب تک بچوں کے حقوق کے متعلق کنونشن کی تصدیق نہیں کی: ایک امریکہ اور دوسرا صومالیہ اور جن معاہدوں کی امریکہ نے تصدیق کی ہے، ان کے ساتھ بھی اضافی تحفظات منسلک کر دئیے ہیں جس سے امریکہ میں وہ ناقابل عمل ہو گئے ہیں۔ 1990ء میں امریکہ نے روانڈا اور سابق یوگو سلاویہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے ٹربیونل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا لیکن اب اپنے اتحادیوں میں یہ واحد ملک ہے جو مستقل بین الاقوامی فوجداری عدالت کی مخالفت کرتا ہے حالانکہ جولائی 1998ء میں اقوامِ متحدہ کی کانفرنس کے دوران 120 ممالک اس کی حمایت کر چکے ہیں، وجہ یہ تھی کہ یہ اپنے فوجیوں کو اس سے مستثنیٰ کروانا چاہتا ہے اور امریکہ کا یہ رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تمام امریکی حکومتوں نے بین الاقوامی قانون کو دوسری اقوام کو بدنا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور اسے اپنے اوپر عملا لاگو کرنے سے انکار کیا ہے" (45)
سربیا اور روانڈا کے بعض راہنماؤں کو "انسانیت کے خلاف جرائم" کی پاداش میں عالمی عدالت کی طرف سے سزا سنائی جا چکی ہے۔ کیا اقوام متحدہ کے رکن ممالک امریکی صدر بل کلنٹن کے بلاجواز جنگ کے احکامات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے بے گناہ انسانوں کی اموات کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دے کر اسے عالمی عدالتِ انصاف کے روبرو پیش ہرنے کا مطالبہ کر سکیں گے؟ اگر نہیں، تو اس کا مطلب سوائے اس کے کیا ہے کہ عالمی انصاف اب بھی طاقتور اقوام کے مفادات کے تابع ہے ۔۔
بقول علامہ اقبال
جمہوری نظام ہے وہی سازِ کہن مغرب کا
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں ہے پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری (باقی آئندہ شمارہ میں)
حوالہ جات
(16) جنرل اسلم بیگ "امریکہ کی اندھی طاقت کی چیرہ دستیاں": روزنامہ جنگ لاہور، 28 دسمبر 1998ء
(24) جنرل اسلم بیگ کا مضمون: روزنامہ جنگ لاہور، 28 دسمبر 1998ء
(26) جنرل اسلم بیگ کا مضمون ۔۔۔ ایضا
(37) شفیق الاسلام فاروقی "عراق پر فوجی بمباری اور امریکی فوجی طاقت": نوائے وقت، 10 جنوری 1999ء
(44) روزنامہ نوائے وقت لاہور، 10 جنوری 1999ء
(41) چوہدری مظفر حسین "نکسن کا نوحہ"
(1) Richard Nixon: “Beyound Peace” Random House, Newyork 1994. (P.38)
(4) “What Good Did it do” Time: Dec. 28, 1998- Jan. 4, 1999 (P. 23)
(5) IBID
(7) The Economist: Jan. 9, 1999 “Gun boat Diplomacy” (P.4)
(8) “Bugging Saddam” Time: Jan. 18, 1999.
(9) IBID Page 32, 33
(10) IBID
(11) The Economist: Jan. 9, 1999 (P.35)
(12) The Washington Post: Jan. 6, 1999
(13) N.Y. Time Jan. 7, 1999
(14) Walter Ressell Mead: “A Fading Coalition on Iraq”, The Los Angeles Times, Dec. 20, (Reproduced by the Friday Times, Lahore: Dec. 25. 1998.)
(15) “What Good did it do” Time: Dec. 28, 1998 (P.22)
(17) Time Dec. 28, 1998 (P.23)
(21) “The Reconstruction of Religious Thought in Islam” hy Dr. Muhammad Iqbal
(22) International Law: Vol. 1, Oppen Hein (P.305)
(23) General Assembly Resolution No: 2625 (xxv) of October 24, 1970.
(25) Time: Dec. 28, 1998 (P.23)
(27) U,Thant From Burma, Ex-Sec. General of U.N. in 1960, special edition of the electronic
(43) “Issues of Democracy” Oct. 1998, Vol. 3 (P.43)
(28) Mary Robinson U.N. High Commissioner for H.R. ibid (P.24)
(29) Bill Clinton: ibid (P.6)
(30) Hillary Clinton: ibid (P.8)
(31) Winston E. Langolly, Human Rights: Sixty Major Global Instruments UDHR UNGA, Res 217 A (iii) of Dec. 10, 1948.
(32) International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights, Adopted by GA Res: 2200 of Dec. 16, 1966.
(33) International Covenant on Civil and Political Rights, Adopted Dec. 16, 1986.
(34) Prolamation of Tehran: May, 13, 1968.
(35) Declaration on the Rights of people to Peace, Apvd, GA Res. 39/11 of Nov. 12, 1984.
(36) The Electronic Journal, “Issues of Democracy” (P.6)
(38) Issues of Democracy (P.10)
(39) IBID (P.27), (40) IBID (P.40)
(42) Ramsey Clarke, Impact International, (Vol. 25, No. 9, Sep. 1995) London UK
(43) The Economist: Dec. 5. 1998.
(45) The Economist: Dec. 5. 1998.