وسیلہ کے احکام ، زنا کار کی امامت ؟....
٭ وسیلہ کا لغوی و شرعی معنی اور وسیلہ مشروع و ممنوع کی قسمیں
٭ دعا کے بعد چہرے پر ہاتھوں کو پھیرنا
٭ کیا امام زہری رحمۃ اللہ علیہ مجروح ہیں
٭ متهم بالزنا کی امامت کا حکم
٭ مسئلہ وراثت اور اس کا حل
٭ سوال: ان سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں دے کر عنداللہ ماجور ہوں:
(1) وسیلہ کسے کہتے ہیں؟
(2) وسیلہ کتنے قسم کا ہے ۔۔ جائز وسیلے کون کون سے ہیں اور ناجائز وسیلے کون کون سے؟
(3) وسیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں؟
(4) مکمل اور شرعی وسیلے کے بارے میں دیگر معلومات (طاہر اعظم، بلتستان)
الجواب بعون الوہاب: وسیلہ کا مطلب ہے "مطلوب تک تقرب حاصل کرنا اور رغبت کے ساتھ اس تک پہنچنا" (النہایہ) ۔۔ وسیلہ کا ایک معنی اور بھی ہے: "بادشاہ کے پاس مرتبہ اور درجہ اور قربت" جیسا کہ حدیث میں اس کو جنت کا سب سے اعلیٰ مقام کہا گیا ہے۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ (وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ) کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: "(اطلبوا القربة إليه بالعمل بما يرضيه )" یعنی اللہ کی طرف اس عمل کے ذریعہ قربت حاصل کرو جسے اللہ پسند کرتا ہے۔
شریعت میں وسیلہ "اللہ تعالیٰ کے تقرب حاصل کرنے" کو کہتے ہیں، اس کی اطاعت اور عبادت کر، اس کے انبیاء و رسل کی اتباع کر کے اور ہر اس عمل کے ذریعہ جس کو اللہ پسند کرے اور خوش ہو۔
(2) مشروع وسیلہ کی تین قسمیں ہیں: (1) اللہ کی ذات اوراس کے اسماء و صفات کا وسیلہ (2) مومن کے اعمالِ صالحہ کا وسیلہ (3) مومن کی غائبانہ دعا کا وسیلہ
ممنوع وسیلہ کی بھی اسی طرح تین قسمیں ہیں:
(1) اللہ کی بارگاہ میں مخلوقات کی ذات اور شخصیت کا وسیلہ
(2) بارگاہِ الہیٰ میں کسی کے جاہ و حق اور حرمت و برکت کا وسیلہ
(3) جس کا وسیلہ لیا گیا ہے، اللہ پر اس کی قسم کھانا
وسیلہ مشروع کی جملہ اقسام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔۔۔
(ماخوذ از کتاب "مشروع وسیلہ و ممنوع وسیلہ")
٭ سوال: دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا کیسا ہے؟ کیوں کہ کئی سلفی بھائیوں سے سنا ہے کہ یہ بدعت ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کا جواب دیں۔
جواب: دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے والی روایات میں ضعف ہے، اگرچہ بعض اہل علم نے ان کو حسن درجہ تک بنانے کی سعی کی ہے لیکن بہتر ہے کہ منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بغیر ہی ہاتھوں کو چھوڑ دیا جائے لیکن اسے بدعت قرار دینا ثقیل امر ہے کیونکہ بعض آثارِ صحابہ اس کی تائید میں موجود ہیں جو سندا صحیح ہیں۔
٭ سوال: بعض حضرات نے ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ پر جرح کی ہے اور کئی ایک نے اُن کو شیعہ اور ضعیف کہا ہے۔ مہربانی فرما کر ان کے بارے میں علم رجال کے ماہر علماء کے فتاویٰ سے اس مسئلے کا صحیح حل بتائیں۔ (ضیاءاللہ بٹ سلفی، لاہور)
الجواب بعون الوہاب: ذخیرہ حدیث کا اکثر و بیشتر اعتماد چونکہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ پر ہے اس لیے منکرین حدیث نے ہر دور میں تارِ عنکبوت ک سہارا لے کر ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ کسی طرح ان کی ذات میں تشکیک پیدا کر کے شریعت کے ماخذِ ثانی (حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم) کے انہدام کا چور دروازہ کھول دیں اور قرآن میں خود ساختہ تاویلیں کر سکیں۔ لیکن ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ابھی تک امام مالک، احمد بن حنبل، زہری اور بخاری رحمہم اللہ کے وارث زندہ ہیں جو بتوفیق اللہ ان کے گھروں تک تعاقب کر کے ان کو اپنے انجام تک پہنچائیں گے ۔۔۔
اسماء الرجال کی کتابوں میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب و محاسن بھرے پڑے ہیں، تفصیل کی ضرورت نہیں، بطورِ مثال: حافظ ابن حجر ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
الفقيه الحافظ، متفق على جلالته واتقانه
"زہری فقیہ اور حافظ ہیں، ان کی جلالت و اتقان پر سب کا اتفاق ہے۔"
٭ سوال: متهم بالزنا کی امامت کا کیا حکم ہے ۔۔ کیا زانی کو امام بنایا جا سکتا ہے؟
الجواب: بشرطِ صحتِ سوال: شخص مذکورہ امامت کے لائق نہیں، اُسے فورا منصبِ ہذا سے معزول کر دینا چاہئے۔ سنن ابوداؤد میں حدیث ہے کہ ایک شخص نے لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت قبلہ کی طرف تھوک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ "یہ شخص تمہیں پھر نماز نہ پڑھائے" ۔۔ اس شخص نے اس واقعہ کے بعد اِن لوگوں کو پھر نماز پڑھانا چاہی تو انہوں نے اس کو روک دیا اور اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذکر کیا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس امر کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ہاں! ۔۔ سائب بن خلاد (راوی) کہتا ہے کہ مجھے یہ گمان ہے کہ آپ نے اس کو فرمایا کہ "تحقیق تو نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی۔ (باب في كراهية البزاق في المسجد) ابوداؤد اور منذری نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے۔
جب اس تھوڑی سی بات پر اس شخص کو امامت سے معزول کر دیا گیا تو مرتکبِ کبیرہ، زناکار کو فورا امامت سے معزول کر دینا چاہئے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ خلیفہ ثانی عمر (رضی اللہ عنہ) بن خطاب نے سعد (رضی اللہ عنہ) بن ابی وقاص کو اہل کوفہ کی بے جا شکایت کی بنا پر، امامت و امارتِ کوفہ سے فتنہ و فساد کے خوف سے یا بسببِ رعایت قوم کے معزول کر دیا تھا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا جس شخص کو کسی امر دینی کے سبب مقتدی نہ چاہتے ہوں، اسے امامت سے علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ اسی طرح ابوداؤد اور ابن ماجہ میں حدیث ہے "تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی: "ان میں سے ایک وہ ہے جو قوم کا امام بننا چاہتا ہے لیکن نمازی اسے پسند نہیں کرتے۔"
اور ایک روایت میں ہے کہ "اگر تمہیں اپنی نمازوں کا قبول ہونا پسند ہے تو چاہئے کہ تم میں سے بہتر اور پسندیدہ آدمی تم کو نماز پڑھائے، اس لیے کہ امام تمہارے اور اللہ کے درمیان ایلچی ہیں"
اس حدیث کی شاہد ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے کہ "جو تمہارے درمیان برگزیدہ اور بہتر ہو اس کو امام بنایا کرو کیونکہ وہ تمہارے اور اللہ کے درمیان ایلچی ہیں۔"
امام مالک اور عترت کے نزدیک "غیر عادل کی اقتداء میں نماز درست نہیں۔"
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "جھگڑا تو غیر عادل امام کی جماعت کی صحت میں ہے، کراہت میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں۔" یہ بھی یاد رہے کہ محض ذاتی یا دنیاوی عناد پر کسی کو امامت سے ہٹانا درست نہیں ۔۔ مابہ النزاع میں بظاہر یہ معاملہ نہیں۔ والله اعلم بحقيقة الخال واليه المرجع والمآب
٭ میرے والد صاحب کو آج فوت ہوئے تقریبا 20 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، ہم 6 بھائی اور 3 بہنیں ہیں۔ میرے والد صاحب نے وراثت میں 330 ایکڑ زمین چھوڑی تھی جو تقریبا ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپے میں فروخت ہوئی۔ جب زمین موجود تھی تو اس سے حاصل ہونے والی ہر فصل کی کمائی ہمارے چھ بھائی ہی کھا جاتے تھے، ہم نے کبھی اُن سے مطالبہ نہ کیا تھا۔ اب جبکہ انہوں نے والدہ صاحبہ کی زمین بھی ان سے دستخط کروا کر اپنے نام کروالی اور ہمارے حصہ والی زمین بھی فروخت کی غرض سے خود ہی جعلی دستخط کے ذریعے اپنے نام کروالی ہے اور زمین کو فروخت کر کے آپس میں ہی حصہ کو تقسیم کر لیا ہے جس میں سے چھ بھائیوں میں سے ہر بھائی کے حصہ میں تقریبا اٹھارہ اٹھارہ لاکھ روپے آئے اور ہمیں انہوں نے کلی طور پر محروم کر دیا ہے۔
اب ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ہم تینوں بہنوں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ والدہ صاحبہ حیات ہیں اور اس معاملہ میں اس ڈر سے بولتی نہیں کہ کہیں جھگڑا نہ ہو اور پھوٹ نہ پڑ جائے۔ براہِ کرم ہماری رہنمائی فرمائی جائے کہ قرآن و سنت نے اس صورت میں ہم تین بہنوں کا حصہ کیا مقرر کیا ہے اور چونکہ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے، کیا اس صورت میں ہم عدالتی کاروائی کرنے کی حق دار ہیں یا نہیں؟ عدالتی کاروائی کے جواز کی شکل میں بتلائیں کہ اگر ہم یہ کاروائی کروائیں تو ہمارے حق میں یہ بہتر ہو گا یا نہیں؟ (ایک سائلہ، فیصل آباد)
الجواب بعون الوہاب: آپ اپنے حق کی وصولی کے لیے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیں، امید واثق ہے کہ آپ کے ساتھ انصاف ہو گا۔ جائیداد کی شرعی تقسیم یوں ہے کہ میت کی بیوی کے لیے کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ہے جیسا کہ قرآن میں ہے فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ "پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو بیویوں کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے" اور بقیہ مال اولاد میں (لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ) کے اصول پر تقسیم ہو گا یعنی ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے ۔۔ تفصیل بصورتِ نقشہ حسبِ ذیل ہے
کل حصص: 120
بیوی | لڑکا | لڑکا | لڑکا | لڑکا | لڑکا | لڑکا | لڑکی | لڑکی | لڑکی |
15 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 |