حدیث " أطلبوا العلم ولو كان بالصين" پر تعاقب کا جواب
اس کے آگے محترم ڈاکٹر صاحب نے نفسِ مضمون سے ہٹ کر، کذب کی اقسام، کذب بصورتِ اکراہ، توریہ، قانونی مشیر، طبیب اور زہر و تریاق کی غیر متعلق [1]بحثوں کو چھیڑ کر خلطِ مبحث کرنا چاہا ہے، ہم غیر ضروری طوالت سے بچنے کے لیے اس حصہ پر کلام کرنے سے قصدا گریز کرتے ہیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
"زیرِ بحث، حدیث کے مطعون راوی عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی نسلوں بلکہ کئی صدیوں بعد کے لوگ ہیں، اگر آئندہ خوش قسمتی سے اُن سے پہلے کے راویوں (صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین رحمۃ اللہ علیہم، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ) کی کتابیں دستیاب ہو جائیں (اور الحمدللہ ہو رہی ہیں) اور ان میں یہ حدیث بھی مل جائے تو ظاہر ہے کہ متاخر زمانے کے کسی ضعیف یا جھوٹے راوی نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہو تو اس سے اصل حدیث کی صحت متاثر نہ ہو سکے گی۔"[2]
یہاں محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ بھی قطعی باطل ہے کہ زیر بحث حدیث کے مطعون راوی عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی نسلوں بلکہ کئی صدیوں بعد کے لوگ ہیں۔" لفظ "صدیوں" بتاتا ہے کہ تمام مجروح رواۃ کم از کم دو سو سال یا اس کے بعد کے لوگ ہیں۔ احوال الرواۃ سے عدم ممارست کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب کے اِس دعویٰ کے بطلان میں ہم یہاں صرف چند شواہد پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے طریق دوم کا ایک مجروح راوی "حفص بن سلیمان" جو عندالمحدثین "متروک الحدیث" ہے۔ سئہ 180ھ میں فوت ہوا تھا۔ اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کے طریقِ ہفتم نمبر 7 میں ایک ضعیف راوی "اسماعیل بن عیاش" ہے جس کی وفات سئہ 181ھ یا سئہ 182ھ میں ہوئی تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے طریق دو ازدہم کا ایک مجروح راوی "معان بن رفاعۃ" جو عندالمحدثین مستحق ترک ہے۔ 150ھ کے کچھ بعد فوت ہوا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کے ایک اور طریق (پانزدہم (15)) میں ایک راوی "عبدالوہاب بن الضحاک" کذاب ہے جو سئہ 145ھ میں فوت ہوا تھا۔ اب حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کے طریق کا مجروح راوی "عطیہ العوفی" ملاحظہ ہو جو ایک مشہور تابعی ہے اور سئہ 111ھ میں فوت ہوا تھا۔ اس طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طریق دوم (2) کا ضعیف راوی "لیث بن ابی سلیم" سئہ 148ھ میں فوت ہوا تھا۔ مزید تتبع سے محترم ڈاکٹر صاحب کے دعویٰ کی تردید میں اس طرح کی اور بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
فاضل ڈاکٹر صاحب کا اگلا قول کہ "اگر آئندہ خوش قسمتی سے ان سے پہلے کے راویوں صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین رحمۃ اللہ علیہم، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ کی کتابیں دستیاب ہو جائیں۔۔۔اور ان میں یہ حدیث بھی مل جائے تو ظاہر ہے متاخر زمانے کے کسی زمانے کے کسی ضعیف یا جھوٹے راوی نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہو تو اس سے اصل حدیث کی صحت متاثر نہ ہو سکے گی۔" بظاہر بالکل درست اور عقلی اعتبار سے انتہائی موزوں معلوم ہوتا ہے۔ لیکن کیا محض اس خوش فہمی اور موہوم سی اُمید کی بناء پر تمام ضعیف و موضوع احادیث کو زیرِ مطالعہ حدیث کی طرح قبول کرتے چلے جانا، کیا درست ہو گا؟ پھر اہل تشیع کی طرح اس بات کا منتظر رہنا مناسب ہو گا کہ جب کبھی سُرمن رائے کے غار سے ہمارا پوشیدہ، صحیح و مستند ذخیرہ احادیث برآمد ہو کر منصہ شہود پر آئے گا تو ہم اس میزان کی مدد سے صحیح و سقیم (ضعیف و موضوع احادیث) کے مابین امتیار کر کے قطعی فیصلہ کریں گے کہ کن احادیث کو رد کیا جائے اور کن کو قبول۔ ایسی صورت میں تو ہمیں تمام موجود کتبِ احادیث پر عمل کو غیر معئنہ مدت تک کے لئے مؤخر بلکہ معطل کرنا پڑے گا۔ بہرحال اگر فاضل ڈاکٹر صاحب مستقبل میں جب بھی کسی ایسے نایاب ذخیرہ حدیث میں زیرِ مطالعہ "پیاری حدیث" کا کوئی قابلِ احتجاج طریق پا لیں اور اس کی نشاندہی فرمائیں تو ہم انہیں خیر مقدم کہیں گے اور ان کے انتہائی شکرگزار ہوں گے نیز ہمیں اس کو تسلیم کرنے میں قطعی کوئی تامل نہ ہو گا۔ "قابل احتجاج طریق" کی شرط ہم نے اس لیے لگائی ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب تابعین اور تبع تابعین کے طبقات کو کلی طور پر ضعفاء و کذاب رواۃ سے پاک سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر ہم تاریخ فنِ حدیث اور جرح و تعدیل کی کتب کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اکثر صحابہ عدول اور ان کی اتباع کرنے والے اکثر غیر صحابی (یعنی تابعین) ثقات تھے۔ پہلی صدی ہجری کا دور انہی مبارک اور با سعادت علمائے حدیث کا دور گزرا ہے۔ لیکن اس دور میں بھی ہمیں ضعیف رواۃ نظر آتے ہیں، اگرچہ ان کی تعداد کم ہے۔ مثال کے طور پر "حارث بن عبداللہ الہمدانی الاعور" (م سئہ 65ھ) جو کبار علمائے تابعین میں سے تھا۔ مگر ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک "ضعیف" مشہور ہے۔ شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور علی بن المدینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو "کذاب" اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے "غالی متشیع[3]" لکھا ہے۔ اسی طرح مختار بن ابی عبید الثقفی" (م سئہ 67ھ) کذاب تھا اور اس بات کا مدعی تھا کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس پر نازل ہوتے ہیں [4]۔ صلح بن نہما المدنی مولیٰ القوائمہ بھی ثقہ نہ تھا۔[5] ان کے علاوہ عطاء بن السائب[6]، معبد الجہنی[7] (م سئہ 80ھ اور عاصم بن ضمرہ [8]صاحب علی وغیرہ پر بھی کلام کیا گیا ہے۔
اب محترم ڈاکٹر صاحب کا اگلا اقتباس اور اس پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
"علم جرح و تعدیل میں صرف "روایت" سے نہیں بلکہ "درایت" سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ روایت کے لحاظ سے کوئی حدیث صحیح قرار پائے لیکن درایت کے لحاظ سے وہ ناممکن ہو تو حدیث کو رد ہی کرنا پڑے گا اور خیال کرنا پڑے گا کہ راوی سے سہوا ہوا ہے مثلا جس لمحے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرما رہے تھے، کسی کی چھینک سے راوی پورا فقرہ نہیں سن سکا اور اسی طرح اُسے غلط فہمی ہو گئی۔ اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ روایۃ تو حدیث رد کرنے کے قابل ہو لیکن دیگر شواہد موجود ہوں تو اس کو قبول کرنے میں تامل نہیں کیا جائے گا۔"[9]
یہاں غالبا محترم داکٹر صاحب جوشِ تعاقب میں اپنا مؤقف بھول گئے ہیں کہ "جرح و تعدیل" میں "درایت" سے کام لیا جاتا ہے یا متنِ "حدیث" میں۔ چنانچہ مذکورہ اقتباس کے شروع میں رقم طراز ہیں: "علم جرح و تعدیل میں صرف روایت سے نہیں بلکہ درایت سے بھی قائم لیا جاتا ہے۔" پھر اگلے ہی جملہ میں "علم جرح و تعدیل" کو "حدیث" سے اس طرح بدل دیتے ہیں: "ہو سکتا ہے روایت کے لحاظ سے کوئی حدیث صحیح قرار پائے لیکن درایت کے لحاظ سے وہ ناممکن ہو الخ۔" علمِ حدیث کی اصطلاح "درایت اور اس کے محلِ استعمال پر ان شاءاللہ آگے روشنی ڈالی جائے گی، فی الحال مختصرا یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ "جرح و تعدیل" اور "حدیث" دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔
حاجی خلیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1067ھ) علم "جرح و تعدیل" کے متعلق فرماتے ہیں:
"یہ وہ علم ہے جس میں رواۃِ حدیث پر مخصوص الفاظ کے ساتھ "جرح اور تعدیل" کی بحث کی جاتی ہے۔"[10]
شیخ عبدالوہاب عبدالطیف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جرح کسی روایت کی علتِ قادحہ کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلا اس کے راوی میں آیا فسق ہے یا تدلیس یا کذب یا شذوذ وغیرہ اور تعدیل سے مراد راوی کا وہ وصف بیان کرنا ہوتا ہے جو اس کی روایت کو قبول کرنے کا متقاضی ہو۔"[11]
شیخ عزالدین بلیق فرماتے ہیں:
"علم جرح و تعدیل میزان الرجال کا علم ہے۔ اس میں رواۃ کے احوال یعنی اُن کی امانت، ثقاہت، عدالت، ضبط یا اس کے برعکس کذب، غفلت، اور نسیان وغیرہ پر بحث کی جاتی ہے۔ الخ"[12]
حاکم نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ "جرح و تعدیل" کو دو (2) علیحدہ اور مستقل علم بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ علم اصول الحدیث کی معرفت کا "ثمرہ" اور "مرقاۃ کبیر" ہے۔ [13]اسی طرح ابو عبداللہ عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ (م 327ھ) سے "جرح و تعدیل" کی بابت مروی ہے:
"یہ علم اہلِ علم حضرات کے احوال ظاہر کرتا ہے کہ ان میں کون ثقہ اور کون غیر ثقہ ہے۔"[14]
جب کہ "حدیث" کی اصطلاحی تعریف ابوالبقاء رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں اس طرح ہے:
"حدیث، تحدیث یعنی اخبار کا اسم ہے۔ اس سے ہی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کے گئے فعل، یا قول یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے۔[15]
علامہ شیخ محمد جمال الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"محدثین کے نزدیک حدیث سے مراد وہ خبر ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کا علم حاصل ہوتا ہے۔"[16]
مولانا عبدالرحمن عبیداللہ الرحمانی حدیث کی تعریف میں فرماتے ہیں:
"وہ قول، فعل، تقریر یا وصف خلق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو یا اسی طرح وہ قول بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور تابعین کی طرف منسوب ہو حدیث کہلاتا ہے۔"[17]
"حدیث" اور علم "جرح و تعدیل" کی دو (2) علیحدہ علیحدہ تعریفوں اور ان کے مابین فرق واضح ہونے کے باوجود ہم محترم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہوئے آں محترم کا ان دونوں اصطلاحوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کرنا ان کی عدم واقفیت کے بجائے سہو پر محمول کرتے ہیں۔
منقولہ بالا اقتباس میں "درایت" سے محترم ڈاکٹر صاحب کی مراد کیا ہے یہ بات واضح تو نہیں۔ لیکن گمان غالب یہی ہے کہ اس سے آں مھترم کی مراد کسی چیز کا عقل کی کسوٹی پر کھرا اُترنا ہے۔ ہمارے لیے اس گمان کو ڈاکٹر صاحب کے زیرِ مطالعہ تعاقب کے اختتام پر موجود ان الفاظ: "جو قرینِ قیاس ہے" سے مزید تقویت پہنچتی ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال ذیل میں "علم درایۃ الحدیث" (جسے علمِ حدیث کی دو قسموں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے) کی ایجاد، اس کے اصطلاحی معنی اور حدیث کی تحقیق میں اس سے کام لیا جاتا ہے بتانے کے لیے مختصرا خاکہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس سلسلہ میں عصرِ حاضر میں پائے جانے والے عقلی کسوٹی کے غلط تصور کا ازالہ ہو سکے۔
علامہ شیخ عبدالوہاب عبداللطیف (سابق استاذ بکلیۃ اصول الدین بجامعۃ الازہر) فرماتے ہیں:
"علم درایت الحدیث متاخرین لکی اصطلاح ہے یعنی ان علماء کی جو خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اور علامہ ابن الاکفانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں آئے۔ پھر اس اصطلاح کو جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "تدریب" میں اکتیار کیا لیکن اس سے پہلے تمام متقدمین کے نزدیک احادیث کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کیفیتِ اتصال کی معرفت جو رواۃ کی کیفیتِ احوال یعنی ضبط و عدالت اور سند کی کیفیتِ اتصال و انقطاع وغیرہ سے حاصؒ ہوتی تھی، علم الحدیث کہلاتی تھی۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر متاخرین کے نزدیک علم درایت الحدیث میں بحث کی جاتی ہے اور راوی اور مروی کی معرفت پر من حیث القبول والرد رجوع کیا جاتا ہے۔"[18]
"علم درایت الحدیث وہ علم ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو سماع متصل اور ضبط و تحریر کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔"[19]
شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"علم درایت الحدیث وہ علم ہے جس کے ذریعہ انواعِ روایت، اس کے احکام، شروط الرواۃ، اصناف، مرویات اور استخراجِ معانی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ جزائری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ مصطلح الحدیث کے اس فن کو پہلی بار ابن الاکفانی رحمۃ اللہ علیہ نے علم درایت الحدیث کا نام دیا تھا۔" الخ[20]
"علم درایت الحدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے راوی و مروی کے حال کی معرفت من حیث رد و قبول حاصل ہوتی ہے۔ الخ[21]
صاحب کشف الظنون فرماتے ہیں:
(العلم بدراية الحديث وهو علم باحث عن المعنى المفهوم من ألفاظ الحديث، وعن المراد منها مبنياً على قواعد العربية، وضوابط الشريعة، ومطابقاً لأحوال النبي صلى الله تعالى عليه وسلم.)[22]
"علم درایت الحدیث وہ علم ہے کہ جس میں احادیث نبویہ کے الفاظ کے معانی اور مقاصد سے عربی زبان کے قواعد اور شریعت کے ضوابط اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کے مطابق غور کیا جاتا ہے۔"
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
(فال الشيخ شمس الدين بن الأكفانى السنجاوى : دراية الحديث علم تعرف منه أنواع الرواية و أحكامها وشروط الرواية و أصناف المرويات واستخراج معانيها و يحتاج إليه علم التفسير من اللغة و النحو و التصريف والمعانى والبيان و البديع والأصول و بحتاج إلى تاريخ النقلة )[23]
"شیخ شمس الدین ابن الاکفانی السنجاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم درایت حدیث سے روایت کی اقسام شروط، احکام، مرویات کی اقسام اور ان کے معانی کا استخراج ہوتا ہے اور اس میں لغت، نحو، صرف معانی، بیان و بدیع کی اسی قدر ضرورت ہے جس قدر کہ علمِ تفسیر میں ہے اور ناقلینِ حدیث کے متعلق تاریخی معلومات (مثلا موالید اور وفیات وغیرہ) کا علم بھی ضروری ہے۔"
علامہ شیخ محمد جمال الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی "قواعد التحدیث" میں علامہ ابن الاکفانی رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے، اگرچہ الفاظ میں تھوڑا سا اختلاف ہے مگر مفہوم و مدعیٰ تقریبا یہی ہے۔[24]
علم "درایت الحدیث" کے متعلق علامہ احمد بن مصطفیٰ طاش کبریٰ زادہ رحمۃ اللہ علیہ (م 962ھ) اور شیخ عبدالرحمن عبیداللہ الرحمانی فرماتے ہیں:
(هو علم يبحث فيه عن المعنى المفهوم من ألفاظ الحديث وعن المعنى المراد منها مبينا على قواعد العربية و ضوابط الشريعة مطابقا لأحوال النبي صلى الله غليه وسلم)[25]
"یہ وہ علم ہے جس میں الفاظ حدیث کے معنی و مفہوم پر بحث ہوتی ہے اور اس کے مرادی معنی عربی قواعد، ضوابطِ شریعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کی روشنی میں بیان کئے جاتے ہیں۔"
اگر علم "درایت الحدیث" کی ان تمام تعریفوں کو جمع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اصلا یہ کوئی مدون فن نہیں ہے، بلکہ اس کا زیادہ تر انحصار علومِ لسانیہ مثلا صرف، نحو، معانی، بیان و بدیع اور اصولِ فقہ و اصولِ حدیث وغیرہ پر ہے نیز اس سے کسی حدیث کے مفہوم کو متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کسی روایت کو محض عقل کی کسوٹی پر پرکھنا "درایت" نہیں کہلاتا۔ "درایت" کی یہ جدید تعبیر جو آج چہار سو معروف ہے قطعی باطل اور اسی چودھویں صدی کی ایجاد ہے۔ اس کے موجد غالبا مولانا شبلی نعمانی مرحوم اور ان کے حواری تھے۔ "درایت" کے متعلق مولانا مرحوم کا یہ قول بہت مشہور ہے۔
"درایت" سے یہ مطلب ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعت کے اقتضاء، زمانہ کی خصوصیتیں، منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائن عقل کے ساتھ کیا نسبت رکھتا ہے۔"
ڈاکٹر صاحب محترم کی عبارت کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ آں محترم بھی "درایت" کی اسی نعمانوی تعبیر سے کلی طور پر متفق نہیں تو کم از کم عقلی قرائن کی حد تک ضرور اتفاق رکھتے ہیں۔ حالانکہ اقتضاء طبیعت میں انسانی طبائع کی طرح انتہائی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہر زمانہ کی خصوصیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ جو عہدِ رسالت کی خصوصیات تھیں۔ وہ عہدِ تابعین میں نہیں ہو سکتیں اور جو عہدِ تابعین و تبع تابعین میں تھیں وہ ان کے بعد کے دور میں نہیں ہو سکتیں۔ اس طرح ہر شخص کی قوت، فہم و فراست، پروازِ تخیل، عقل کی نشوونما اور دانشمندی کا حاصلِ قسمت جسے انگلش میں (Intelligence Qoutient) یا I.Q. کہتے ہیں، مختلف ہوتا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ امورِ شریعت میں ہمارے لیے نہ اقتضائے طبیعت معیار بن سکتے ہیں اور نہ زمانہ کی خصوصیتیں اور عقلی قرائن۔ جس چیز کو اصل اور بنیادی معیار ہونا چاہئے وہ فقط کتاب و سنت ہے اگر دین میں عقل کو معیار بنا لیا گیا تو سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے تمام معجزات کا انکار کرنا ہو گا، کیونکہ یہ تمام چیزیں بظاہر عقل و فطرت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں اور درایت کی اس تعبیر (یعنی عقلی قرائن) سے ان کا ثابت کرنا محال ہے۔
اُوپر "درایت" کی تعریف کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے کہ حدیث کی تحقیق اور اس کے معنی و مفہوم کی تعیین میں یہ علم کیا اور کس طرح رول (Role) ادا کرتا ہے۔ اب محترم ڈاکٹر صاحب کے قول:
"ہو سکتا ہے کہ روایت کے لحاظ سے کوئی حدیث صحیح قرار پائے لیکن درایت کے لحاظ سے وہ ناممکن ہو تو حدیث کو رد ہی کرنا پڑے گااور خیال کرنا پڑے گا کہ راوی سے سہو ہوا ہے۔ مثلا جس لمحے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرما رہے تھے، کسی کی چھینک سے راوی پورا جملہ نہ سن سکا، اور اُسے غلط فہمی ہو گئی، الخ۔"
جہاں تک اس قول کے پہلے حصہ کا تعلق ہے تو وہ محترم ڈاکٹر صاحب کی "علم درایت الحدیث" کے مبادی و اصول، اس کی تایخ اور اس کے دائرہ عمل سے لا علمی کا مظہر ہے۔ ہم ڈاکٹر صاحب محترم سے یہ سوا ل کرتے ہیں کہ شیخ شمس الدین محمد بن ابراہیم بن ساعد السنجاری المہدی (م سئہ 794ھ) جو بقول شیخ احمد رافع الحسینی القاسمی الطہطاوی حنفی کوئی مشہور محدث یا فقیہ نہیں بلکہ اصلا "علومِ ریاضی، طب، معرفۃ الجواہر والعقاقیر کے ماہر اور حذاق الاطبار [26]تھے" سے قبل (یعنی تقریبا سات سو اسی (780) سال تک) جب اس اصطلاح "درایت" کا کوئی وجود نہ تھا اور ابن الاکفانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد تقریبا سوا سو سال (125) (یعنی امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے دور) تک اس اصطلاح نے محدثین، علماء اور محققین کے نزدیک قبولِ عام حاصل نہ کیا تو آخر تمام اولین جلیل القدر محدثین، احادیث کی تحقیق کے لئے کن معیاروں ہر اعتماد کرتے تھے؟ کیا وہ علوم روایت الحدیث اور مراتب الحدیث نہ تھے؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا ہے تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آج ان علومِ حدیث پر متاخرین کی ایجاد "علم درایت الحدیث" کو ترجیح دے کر اس عظیم فن کی تحقیر و تخفیف کی جا رہی ہے؟ پھر اس پر بس نہیں بلکہ "درایت الحدیث" کی اصل تعریف بھی بدل کر اُسے "عقلی قرائن" کا متبادل بنا دیا گیا ہے۔ فانا للہ ۔، الخ۔ کیا محترم ڈاکٹر صاحب اپنے اندر یہ حوصلہ پاتے ہیں کہ واضح الفاظ میں اس امر کا انکشاف و اعلان فرمائیں کہ سابقہ تمام جلیل القدر محدثین کے زمانوں میں احادیث کی تحقیق کے لیے جو مروجہ نظام و معیار تھا وہ موجودہ دور کی درایت (یعنی عقلی قرائن) کے نہ ہونے کے سبب ناقص تھا؟
مختصر یہ کہ خواہ کوئی روایت اقتضائے طبیعت، قواعد لسانیات، زمانہ کی خصوصیات اور عقلی قرائن کے خلاف ہی کیوں نہ وارد ہو اگر علم روایت الحدیث اور علم مصطلحات کے معیار پر پوری اترتی ہو تو اسے صحیح اور حجت ہی قرار دیا جائے گا، محض عقلی استحالات کی بنیاد پر اس مستند روایت کو رد کرنا سراسر ظلم و زیادتی کی بات ہو گی۔ اگر صحیح روایات کی تغلیط عقلی قرائن اور احتمالا مثلا راوی کا سہو، خیالی چھینک کے سبب آں صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا جملہ نہ سن سکنے یا اس کے باعث راوی کا غلط فہمی میں مبتلا ہو جانے والے مفروضوں کی بنیاد پر کی جائے تو اس کا مطلب اس مستند روایت کی تکذٰب کے ساتھ اس کے تمام ثقہ رواۃ کی امانت و صداقت پر طعن کرنا، اصولِ حدیث میں تشکیک پیدا کرنا اور رواۃ و ناقلینِ حدیث کی بالواسطہ تکذیب کرنا ہو گا۔
اسی طرح محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ قول:
"اسی طرح ہو سکتا ہے کہ روایۃ تو حدیث رد کرنے کے قابل ہو لیکن دیگر شواہد موجود ہوں تو اس کو قبول کرنے میں تامل نہیں کیا جائے گا، الخ۔
بھی قطعا لغو ہے کیونکہ تمام محدثین اور علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر کسی روایت کی سند میں وضاع، کذاب، مہتم بالکذب یا فاحش الخطاء راوی موجود ہو تو اس روایت کو قطعا قبول نہیں کیا جائے گا، نہ احکام و عقائد میں اور نہ ہی فضائل الاعمال، ترغیب و ترہیب، مواعظ و مناقب وغیرہ میں خواہ وہ روایت کتنی ہی "قرینِ قیاس" کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم کے مشہور شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"ائمہ حدیث کسی بھی حال میں ضعفاء سے کوئی چیز روایت نہیں کرتے اور نہ ہی اُن سے احتجاج کرتے ہیں۔ ائمہ محدثین اور علمائے محققین میں سے کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کیا ہے، مگر بہت سے فقہاء بلکہ اکثر فقہاء ایسا کرتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ صواب نہیں بلکہ انتہائی قبیح ہے، الخ"[27]
جہاں تک کسی ناقابلِ احتجاج روایت کے دیگر شواہد کی موجودگی کا تعلق ہے تو ان دیگر شواہد کو ضرور قبول کیا جائے گا۔ بشرطیکہ وہ بھی روایۃ قابلِ احتجاج ہوں۔ مزید تصدیق و تفصیل کے لئے مصطلحات الحدیث کی کسی کتاب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی اس طویل علمی تمہید پر تبصرہ کے بعد اب ان چند تاریخی شواہد کا جائزہ لیا جاتا ہے جو آں محترم نے زیرِ بحث حدیث کی تائید میں پیش کئےہیں۔ چنانچہ اسواق العرب قبل از اسلام کی بابت کتاب المجر (ص 265-266، طبع حیدرآباد) سے نقل فرماتے ہیں:
(ثم سوق دباء وهى احدى فرضتى العرب يأتيها تجار السند و الهند والصين . و أهل المشرق والمغرب فيقوم سوقها أخر يوم من رجب)
"پھر وباء[28] کا میلہ، یہ عرب کی دو بڑی بندرگاہوں میں سے ایک ہے وہاں سندھ، ہندوستان، چین اور مشرق و مغرب سے لوگ آتے تھے اور یہ کہ اس کا میلہ ماہ رجب کے آخری دن لکھتا تھا۔"[29]
اس کے بعد مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (ج4 ص 206) کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں:
"وہاں قبیلہ عبدالقیس کے وفد کا ذکر ہے جو اسی علاقے میں رہتا تھا اور اپنے اسلام کے اعمال کے لیے مدینہ آیا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کے سردار سے اس کے ملک کے بعض آدمیوں اور بعض مقاموں کے متعلق کچھ دریافت فرمایا تو اس نے بے ساختہ کہا: یا رسول اللہ آپ ہمارے ملک سے ہم سے بھی زیادہ واقف نظر آتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا میں نے تمہارے ملک کو روندا ہے اور مجھے وہاں بہت دن رہنے کا موقع ملا ہے۔"[30]
پھر فرماتے ہیں:
"ان دونوں تذکروں کو ملائیں تو گمان ہوتا ہے کہ غالبا اسلام سے قبل حضرت خدیجہ کا مالِ تجارت لے کر حضور اس علاقے کو تشریف لے گئے تھے۔ تعجب نہ ہو کہ آپ نے وہاں چینی تاجروں کو دیکھا اور ان کے سامان مثلا ریشم، چینی برتن وغیرہ دیکھ کر کاریگری سے متاثر ہوئے ہوں اور ان سے پوچھا ہو کہ تمہیں اپنے ملک سے یہاں (مشرقی عرب تک) آنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ پھر اسی تاثر کے باعث بعد میں ارشاد ہو کہ " أطلبوا العلم ولوا بالصين"[31]
اس کے آگے فرماتے ہیں:
"اس استنباط کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ دباء کے میلے میں چینی ہی نہیں ہندی اور سندھی تاجروں کا بھی ذکر ہوا ہے۔ حدیث ذیل سے (جو ابن ہشام، طبری، ابن سعد وغیرہ بکثرت مؤلفوں نے بیان کی ہے۔ اور جو قبیلہ عبدالقیس کے مذکورہ بالا وفد کی ہم عصر ہے) کون واقف نہیں؟ سئہ 10ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو یمن بھیجا۔ انہوں نے اطلاع بھیجی کہ قبیلہ (بنی حارث بن کعب) مسلمان ہو گیا ہے۔ تو حضرت خالد کو خط بھیجا کہ اب مدینہ واپس آ جاؤ۔ اور نو مسلم قبیلے کے چند لوگوں کو بھی ساتھ لاؤ، جب وہ آئے تو دور سے دیکھ کر پوچھا " مَن هؤلآء الذين كأنهم رجال الهند؟" یہ کون لوگ ہیں جو اہل ہند کےسے معلوم ہوتے ہیں؟ (اس کا پس منظر بھی وہی دَبَاء کا میلہ ہونا چاہئے۔ جہاں تیس چالیس سال قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہندوستانی نبیوں کو دیکھ چکے تھے)۔[32]
اور پھر اختتامِ تعاقب پر زیرِ مطالعہ حدیث کہ جس کی صحت خود آں محترم کے نزدیک بھی یقینی نہیں بلکہ مشتبہ ہے، کے متعلق فرماتے ہیں:
"ان شواہد کی موجودگی میں یہ ناممکن نہیں کہ بعض ضعیف راویوں کی موجودگی کے باوجود " أطلبوا العلم ولوا بالصين " کی حدیث (جو قرینِ قیاس ہے) صحیح ہو، واللہ اعلم بالصواب۔"[33]
محترم ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ بالا عبارتوں کے خط کشیدہ جملوں پر غور کرنے سے ایک عامی شخص بھی بہ آسانی یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ باتیں قطعی شواہد سے کہیں زیادہ مفروضوں، گمان اور قیاسِ محض پر مبنی ہیں کہ ایسا اور ویسا ہوا ہو گا۔ حالانکہ امور شریعت ظن اور گمان یا مفروضوں اور قیاس آرائیوں کی بنیاد پر ثابت نہیں ہوتے بلکہ قطعی نصوص اور ناقابلِ تردید برہان کی بنیاد پر ثابت ہوتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس (25) سالہ عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مالِ تجارت لے کر دوسری بار شام کے سفر پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلہ وادی الظہران، وادی القریٰ، مدائن اور ارضِ ثمود وغیرہ سے گزرتا ہوا بصرہ پہنچا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے عیسائی پادریوں اور راہبوں وغیرہ کو دیکھا اور اُن سے گفتگو فرمائی تھی۔[34]
بنو عبد القیس کے علاقہ (بحرین و عمان)[35] تک آں صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے پر کسی مستند تاریخی کتاب سے شہادت لانا یقینا مشکل ہے۔ جہاں تک مسندِ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ بالا روایت کے ان جملوں:
(فقال بأبى و أمى يا رسول الله لأنت أعلم بأسماء قرانا ما فقال إنى قد وطئت بلادكم و فسح لى فيها الخ)[36]
سے اس امر کے ثابت ہونے کا تعلق ہے تو واضح ہو کہ مسندِ احمد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ روایت کوئی زیادہ پختہ شہادت نہیں بلکہ خود محلِ نظر ہے۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل حدیث میں ان جملوں کو روایت کیا ہے۔ جس کا طریق حسبِ ذیل ہے:
(حدثنى أبى أحمد بن حنبل حدثنا يونس بن محمد حدثنا يحيى بن عبد الرحمن العصرى قال حدثنا شهاب بن عباد أنه سمع بعض وفد عبد القيس وهو يقول فذكره مرفوعا به)[37]
اسی طریق کے راوی "یحییٰ بن عبدالرحمن العصری بصری" کے متعلق امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " لا يعرف له عن شهاب بن عباد"[38] اور علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" لم أعرفه"[39] نیز علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں۔ "عصری کے علاوہ اس طریق کے باقی رجال ثقات ہیں۔ الخ"[40]
مسندِ احمد رحمۃ اللہ علیہ کی اس محلِ نظر روایت کی مذکورہ علت سے قطع نظر اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم بنو عبدالقیس کے علاقہ تک تشریف لے گئے تھے، تو بھی اس سے کسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دَبَاء کے میلہ میں، جو سال میں صرف ایک مرتبہ (یعنی ماہ رجب کے آخری دن) لگتا تھا اور جس میں کہ بقول ابن الکلبی و ابن حبیب رحمۃ اللہ علیہم ہندوستانی، چینی، سندھی اور مشرق و مغرب کے تاجر شریک ہوا کرتے تھے، ضرور شرکت فرمائی تھی۔ پھر وہاں آں صلی اللہ علیہ وسلم کا چینی تاجروں کو دیکھ کر ان کے ریشم، برتن اور کاریگری وغیرہ سے متاثر ہونا اور ان سے ان کے ملک سے دَبَاء تک کی مسافت کی بابت استفسار کرنا اور بعدہ، انہی تاثرات کے زیرِ اثر بحث حدیث کو ارشاد فرمایا محض ڈاکٹر صاحب محترم کے ذہن کی پیداوار نہیں تو اور کیا ہے؟ یقینا اگر ڈاکٹر صاحب محترم کے پاس اپنے اس دعویٰ کی تائید میں کوئی ٹھوس تاریخی دلیل موجود ہوتی تو اس طرح قیاس آرائی اور جدل کی راہ اختیار نہ فرماتے۔
وفد بنی الحارث بن کعب کہ جن میں قیس بن الحصیں ذوالعضہ، یزید بن عبدلمدان، یزید بن المحجل، عبداللہ بن قراد الزیادی، شداد بن عبیداللہ القنانی اور عمرو بن عبداللہ الضبایی وغیرہ شامل تھے، کو دیکھ کر آں صلی اللہ علیہ وسلم کے " من هؤلآء الذين كأنهم رجال الهند " ارشاد فرمانے کو علی تقدیر صحت دَبَاء کے میلہ کی بجائے ارضِ شام کے ہر دو تجارتی سفروں کے تجربات و مشاہدات کے زیرِ اثر کہنا زیادہ محتاط اور معقول بات ہے کیونکہ دَبَاء کے میلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت موثوق نہیں ہے۔ البتہ لنکا، سندھ، ہندوستان کے مغربی سواحل، براعظم افریقہ کے جنوب مشرقی سواحل، خلیج فارس، اور بحرِ عرب کے مکتلف جزیروں کے باشندوں کی بصرہ یا دوسری نواحی تجارتی منڈیوں میں آمد ورفت کتبِ تاریخ سے ثابت ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وفد کے لوگوں کو دیکھ کر ہندوستانی باشندوں کے مشابہ بیان کرنا بھی قطعی طور پر معلوم اور ثابت نہیں ہے جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا۔ فی الحال تاریخی روایات، ان کی شرعی حیثیت اور ان کو قبول کرنے کی شرائط مختصرا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ محترم ڈاکٹر صاحب کے شواہد کا بہتر طریقہ پر جائزہ لیا جا سکے۔
یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے کہ حدیث کی طرح اکثر تاریخی روایات بھی ہم تک اگرچہ اسانید کے واسطہ ہی سے پہنچی ہیں مگر تاریخی روایات کی اسانید کے رواۃ کی تحقیق میں اس قدر اہتمام و احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ جس طرح کہ حدیث کی تحقیق و تصحیح کے بارہ میں رکھا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اکثر کتبِ تاریخ کے مؤلفین، محقق، محدث اور نقاد نہیں بلکہ فقط اخباری ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تاریخی کتب میں ہم کو بے شمار غیر مستند اور بے سروپا باتین نظر آتی ہیں۔ بایں سبب تمام علماء کے نزدیک تاریخ شرعا حجت نہیں ہوتی جبکہ حدیث کو حجتِ شرعی تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاریخی روایات کے متعلق کلیہ یہ ہے کہ اگر کوئی تاریخی روایت کسی صحیح حدیث کے خلاف آ جائے تو ائمہ حدیث اُسے تعارض نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس کی تطبیق و تاویل کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ حدیث اور اس کی تحقیق کو تاریکی روایات پر ترجیح دیتے اور حتمی تصور کرتے ہیں۔ اگر یہاں کوئی شخص اس بات پر مصر ہو کہ تاریخی واقعات کی جانچ پرکھ میں سند کی اس قدر حاجت نہیں ہوتی جس قدر کہ احکام شریعت میں یا تاریخی روایات حدیث کی تحقیق و تنقید کے سخت معیار پر کسے جانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں، ورنہ ہم کو اپنی تاریخ کے نوے فیصد سے زیادہ حصہ سے دست بردار ہونا یا پھر اُسے دریا برد کرنا پڑے گا۔ تو ہم اُسے علامہ ابوالحسنات عبدالحئی لکھنوی مرحوم (م 1304ھ) کی مندرجہ ذیل تحریر پر، کہ جسے آں محترم نے تمام امور دین میں اسناد کے لزوم کی بابت تحریر فرمایا ہے، غور کرنے کا مشورہ دیں گے:
"پس یہ عبارت بصراحت یا بالاشارہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تمام دینی امور میں اسناد کی موجودگی اور ان پر اعتماد ضروری ہے خواہ یہ امور اخبارِ نبویہ، احکامِ شرعیہ، مناقب، فضائل، مغازی سیر یا فواضل وغیرہ کی قبیل سے ہوں کیونکہ ان سب کا تعلق دینِ متین اور شرع مبین سے ہے پس ان امور میں سے کسی ایسی چیز پر اعتماد نہیں کیا جائے گا، جس کی تاکید اسناد سے نہ ہوتی ہو۔الخ"[41]
اب وفد بنی الحارث بن کعب کے مذکورہ بالا واقعہ پر غور فرمائیں۔ ابن ہشام رحمۃ اللہ علیہ نے "سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم" میں اور ابن کثیر نے "البدایۃ والنہایۃ" میں اس واقعہ کو ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے بلاسند نقل کیا ہے۔[42] طبری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آں صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ " من هؤلآء الذين كأنهم رجال الهند " نقل کیا ہے مگر ابن کثیر کی "الکامل فی التاریخ" میں اس قول کا سرے سے کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔[43] اور جہاں تک "الطبقات الکبریٰ" لابن سعد الكامل في التاريخ میں ان جملوں کے مذکور ہونے کا تعلق ہے تو آں رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بیان کرتے وقت سندِ روایت کا التزام کیا ہے جو اس طرح ہے:
(قال أخبرنا محمد بن عمر قال حدثنى إبراهيم بن موسى المخزومى عن عبد الله عكرمة بن عبد الرحمن بن الحارث عن أبيه قال فذكره)[44]
مگر اسے محض اتفاق ہی کہئے کہ ابن سعد الكامل في التاريخ کا مذکورہ یہ طریق بھی ہالک ہے۔ اس میں محمد بن عمر دراصل مشہور مورخ محمد بن عمر بن واقد الاسلامی الواقدی المدنی القاضی نزیر بغداد ہے۔ جس کے کذاب، متروک، غیر ثقہ اور وضاع وغیرہ ہونے پر علمائے جرح و تعدیل کا اتفاق ہے۔[45] پس واقدی کی یہ روایت اور محترم ڈاکٹر صاحب کا آخری سہارا بھی باطل اور ناقابلِ احتجاج ثابت ہوا۔
اب محترم ڈاکٹر صاحب اور معزز قارئین کو اختیار ہے کہ محض ظن و تخمین، ذاتی قیاس، بے بنیاد مفروضوں اور مشکوک و مشتبہ شواہد کی بنیاد پر زیرِ مطالعہ حدیث پر حکم صحت صادر فرمائیں یا پھر تاوقتیکہ اس کا کوئی صحیح اور قابل احتجاج طریق دریافت نہ کر لیں۔ ہماری سابقہ تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے اسے غیر ثابت ہی سمجھیں۔
[1] ماہنامہ محدث ج19، عدد 1-2، ص ص 91
[2] ماہنامہ محدث ج 19۔ عدد 1-2 ص 91
[3] تفصیلی ترجمہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں: تاریخ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ، ج3 ص 268، العلل لابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 147، التاریخ الکبیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 273، التاریخ الصغیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 149، الضعفاء الصغیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ نمبر 60، الضعفاء الکبیر للعقیلی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 208، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 78، کتاب المجروحین لابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 222، الکامل فی الضعفاء لابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ترجمہ 604، الضعفاء والممتروکون للنسائی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ ص 114، الضعفاء والمتروکون للدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ ص 153، میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 435، مغنی فی الضعفاء للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 141، تہذیب التہذیب لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 146 وغیرہ۔
[4] تفصیلی ترجمہ کے لیے میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 80 وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[5] تفصیلی ترجمہ کے لیے التاریخ الکبیر للبخاری ج4 ص 291، الضعفاء الکبیر للعقیلی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 204، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج4 ص 416، الکامل فی الضعفاء لابن دی رحمۃ اللہ علیہ ج4 ترجمہ نمبر 1373، میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 302، للضعفاء والمتروکون للنسائی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ ص 301 اور تقریب التہذیب لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 363 وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
[6] تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 403 التاریخ الکبیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ ج3، ص 465، الضعفاء الکبیر للعقیلی رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 398، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ ج3، ص 333، الثقات لابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج7، ص 251، میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 70، تہذیب التہذیب لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج7 ص 203، تقریب التہذیب لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 22 اور الضعفاء الصغیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ ص 276 وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
[7] تفصیلی ترجمہ کے لیے الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 280، میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 57، مغنی فی الضعفاء للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 640، لسان المیزان لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 490، تقریب التہذیب لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 262 الضعفاء والصغیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ ص 359، الضعفاء والمتروکون للدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ نمبر 497 وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
[8] تفصیلی ترجمہ کے لئے میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص352 وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[9] ماہنامہ محدث ج19، عدد 1-2، ص91
[10] کشف الظنون ج1، ص 582
[11] مختصر فی علم رجال الاثر ص 45
[12] مقدمۃ منہاج السنۃ للبلیق ص 40-41-52
[13] معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص 52 کفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ص 82
[14] قواعد التحدیث للقاسمی رحمۃ اللہ علیہ ص 61
[15] ایضا
[16] مقدمہ تحفۃ الاحوذی للمبارکفوی رحمۃ اللہ علیہ ص 1 وکذا فی کشف الظنون و تحفۃ اہل الفکر للرحمانی ص 5۔
[17] تحفۃ اہل الفکر للرحمانی ص6
[18] خطبۃ المحقق تدریب الراوی ص 5-6
[19] مقدمۃ تحفۃالاخوذی للمبارکفوری رحمۃ اللہ علیہ ص 2
[20] ایضا
[21] الحِطۃ بذکر الصحاح الستہ للبوفالی ص 36
[22] کشف الظنون ج1 ص 123
[23] ابجد العلوم لصدیق حسن خان ج2 ص 483
[24] قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ص 75
[25] تحفۃ اہل الفکر للشیخ عبدالرحمن ص 5
[26] التنبیہ والایقاظ فی ذیول تذکرۃ الحفاظ للطہطاوی رحمۃ اللہ علیہص 56-57
[27] شرح صحیح مسلم للنووی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 126
[28] دَبَاء کے اسی میلہ کا ذکر محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب “Introduction to Islam” میں "ابن الکلبی" کے حوالہ سے نقل کیا ہے (ملاحظہ ہو کتاب مذکورہ ص 5-6 طبع کویت سئہ 1977ء) ہو سکتا ہے امام ابن قتیبہ الدنیوری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ محمد بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب المحبر میں دَبَاء کے اس میلے کا جو ذکر کیا ہے وہ "ابن الکلبی" کی تحقیق سے ہی ماخوذ ہو۔ یہ "ابن الکلبی" کون ہے، یقینی طور پر معلوم نہ ہو سکا۔ اگر "ابن الکلبی" سے محترم ڈاکٹر صاحب کی مراد محمد بن سائب بن بشر ابوالنضر الکلبی الکوفی ہے تو وہ تو وہ عند المحدثین تہم بالکذب، کٹر رافضی اور متروک الاحتجاج ہے۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ یہ "ابن الکلبی" محمد بن سائب نہیں بلکہ کوئی دوسرا شخص ہے کیونکہ محمد بن سائب 146ھ میں وفات پا گیا تھا۔ جبکہ محترم ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے مطابق ثانی الذکر "ابن الکلبی" کا سئہ وفات سئہ 819ء یعنی تقریبا سئہ 197ھ ہے نیز ثانی الذکر ایک مؤرخ اور عرب قبل از اسلام کی نوادرات کا ماہر ہے (ملاحظہ ہو Introduction to Islam Page: 256
[29] ماہنامہ محدث ج19، عدد 1،2 ص 91-92
[30] ماہنامہ محدث ج 19، عدد 1-2 ص 91-92
[31] ایضا ص 92
[32] ماہنامہ محدث ج19، عدد 1-2 ص 91-92
[33] ایضا ص 93
[34] کذا فی حیوۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم للدکتور محمد حسین ہیکل مصری (ترجمہ انگریزی ص 61 طبع امریکہ
[35] Introduction to Islam By Dr. Mohammad Hamidullah, P: 5
[36] مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 206 تا ص 207 طبع المکتب الاسلامی
[37] مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 206-207 طبع المکتب الاسلامی
[38] میزان الاعتدال للذھبی رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 393
[39] المجمع الزوائد للہیثمی رحمۃ اللہ علیہ ج9 ص 268
[40] سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ج4 ص 461
[41] الاجوبۃ الفاضلۃ للاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ للکنوی رحمۃ اللہ علیہ ص 27 طبع بالریاض
[42] سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم لابن ہشام رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 594 طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت والبدایۃ والنہایۃ لابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ج (؟) ص 98، طبع دارالفکر بیروت
[43] الکامل فی التاریخ لابن اثیر ج2 ص 199-200 طبع دارالکتاب العربی بیروت سئہ 1983ء
[44] الطبقات الکبریٰ لابن سعد رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 340-341 طبع دار صادر بیروت
[45] "واقدی" کے تفصیلی ترجمہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں: تاریخ یحییٰ بن معین ج3 ص 160، الضعفاء الکبیر للعقیلی رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 107، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 20، کتاب المجروحین ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 290، الکامل فی الضعفاء لابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ج6 ترجمہ 2245، الضعفاء المتروکون لنسائی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ ص 531، الضعفاء والمتروکون للدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ نمبر 477، الضعفاء الصغیر للبخاری رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ نمبر 334، میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبی ج3، ص 663، تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ، ج9 ص 368 اور تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 194 وغیرہ۔
46۔ پرویز صاحب کو سوءِ فہم لاحق ہوا تھا، انفاق یہاں "خرچ ہونے" کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ فقر و افلاس کے لاحق ہونے کے معنوں میں آیا ہے۔ "(عربی)" آدمی نے انفاق کیا یعنی وہ فقیر ہوا اور جو کچھ مال اس کے ہاں تھا وہ (اس کے ہاتھ سے) نکل گیا۔ (معجم مقاییس اللغۃ۔لسان العرب)