بیاد حافظ عبدالحئی کیلانی مرحوم
چند ہی ماہ قبل میرے حقیقی بڑے بھائی محمد سلیمان کیلانی مورخہ 2 نومبر 1988ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے، یہ صدمہ ابھی بھولا بھی نہ تھا کہ مورخہ 17 فروری سئہ 1989ء بمطابق 10 رجب المرجب سئہ 1409ھ میں میرے حقیقی چچا جناب حافظ عبدالحئی صاحب ولد مولوی امام الدین صاحب کیلانی بھی بعمر 96 سال قمری بمقام کوٹ چاندی عالم جاودانی کو سدھار گئے ﴿إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾...البقرة" اللہ تعالیٰ آپ کی خطاؤں سے در گزر فرمائے، اعمالِ صالحہ کو قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں بلند درجات پر فائز فرمائے آمین۔
ابتدائی تعلیم
آپ 13 رجب المرجب 1313ھ بمطابق یکم نومبر سئہ 1895ء کو بمقام حضرت کیلیانوالہ (ضلع گوجرانوالہ) پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدِ بزرگوار مولوی امام الدین صاحب سے حاصل کی، مولوی امام الدین صاحب (یعنی میرے دادا مرحوم) ایک جید اور معروف عالمِ دین تھے۔ جنہوں نے مدرسہ غزنویہ امرتسر سے اکتسابِ علم کیا تھا۔ علم النحو اور عربی زبان میں آپ کی مہارت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے بخاری شریف پر اعراب آپ ہی نے لگائے تھے۔ عالم دین ہونے کے علاوہ آپ اعلیٰ درجہ کے خوشنویس بھی تھے۔ تیسیر الباری (شرح صحیح بخاری) جو علمائے غزنویہ کے زیر اہتمام تحت السطور ترجمہ اور حواشی کے ساتھ تیس پاروں کی شکل میں شائع ہوئی۔ اس کا متن آپ نے، اور ترجمہ اور حاشیہ آپ کے بھائی محمد الدین نے کتابت کیا تھا۔ اگرچہ آپ اردو عربی ہر دو رسم الخط کے ماہر تھے تاہم زیادہ تر شغف عربی کی کتابت سے ہی تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے عہد کر رکھا تھا کہ وہ زندگی بھر قرآن و حدیث کے سوا اور کسی کتاب کی کتابت نہ کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس عہد کو پورا فرمایا۔ آپ کو کتابت کے سلسلہ میں اکثر لاہور اور امرتسر میں قیام پذیر ہونا پڑا۔ اس دوران آپ حافظ صاحب کو اپنے ساتھ رکھتے، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے حافظ صاحب کو حفظ قرآن کے مدرسہ میں داخل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ حافظ صاحب نے کسی ایک جگہ سے قرآن مجید حفظ نہیں کیا، بلکہ جہاں ان کے والد جاتے، تعلیم و تربیت کے سلسلے میں حافظ صاحب کو بھی ساتھ ہی رکھتے۔ 12 سال کی عمر میں آپ حفظ قرآن سے فارغ ہو گئے۔ اسی دوران آپ نے اپنے والد بزرگوار سے شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی گلستان اور بوستاں بھی پڑھی۔
نکل مکانی اور عصری علوم
زمین کی آباد کاری کے منصوبے کے تحت کیلیانوالہ اور اس کے مضافات کے کچھ زمیندار موضع کوٹ شاہ محمد المعروف چاندی کوٹ ضلع شیخوپورہ میں منتقل ہوئے تو ان لوگوں نے مولوی امام الدین صاحب کو اپنے ہاں لے جانے پر مجبور کر لیا۔ چنانچہ آپ اپنے دو چھوٹے بیٹوں عبدالحی اور عبدالواحد کے ہمراہ سئہ 1908ء میں کوٹ چاندی میں، جو منڈی وار برٹن سے تین میل کے فاصلہ پر ہے، منتقل ہو گئے۔
یہاں آ کر ایک قریبی گاؤں مچھرالہ کے پرائمری سکول میں حافظ صاحب کو داخل کر دیا گیا۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ کو مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ لاہور میں داخل کر دیاگیا۔
سئہ 1919ء میں آپ کے مشفق والد بزرگوار مولوی امام الدین صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس وقت آپ میٹرک کی تعلیم حاصل کر رہے تھے کچھ گھریلو اور کچھ گاؤں کی امات و خطابت کی ذمہ داریوں نے آپ کو تعلیم چھوڑنے اور گھر واپس آنے پر مجبور کر دیا۔ اسی بناء پر میٹرک کے امتحان میں شامل نہ ہو سکے۔ لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مسجد صونیاں والی یا مسجد چینیاں والی میں آپ رہائش پذیر رہے۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آپ ساتھ ساتھ صرف و نحو اور عربی ادب کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے اور مولانا عبدالوحد غزنوی اور دوسرے ممتاز علمائے دین کی علمی مجلسوں سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔
کوٹ چاندی رہائش پذیر ہونے کے فورا بعد آپ نے زمینداروں کی ضرورت اور ماحول سے نبٹنے کے لیے پٹوار کا کورس بھی پاس کر لیا۔ یہ امتحان یونیورسٹی کی طرف سے مقرر کردہ بورڈ نے لیا۔ جس میں آپ سب سے اول آئے۔ لیکن اسے گورنمنٹ کی ملازمت کے طور پر قبول نہیں کیا۔ بلکہ اُسے گاؤں کی ضرورت کی حد تک استعمال کیا۔ آپ کسی پٹواری کو رشوت نہیں لینے دیتے تھے۔ جو پٹواری بھی آتا وہ ٹھیک طرح سے کام کرنے پر مجبور ہوتا یا پھر تبادلہ کروا لیتا۔ اس علاقہ کے زمینداروں سے مالیہ بھی آپ ہی وصول کر کے جمع کرواتے تجھے۔ آپ کی اس خدمت پر زمینداروں کی طرف سے آپ کو معقول منشیانہ مل جاتا تھا۔
علمی رجحانات
آپ کو زرعی حسابات، تعمیری نقشے اور ان کے اخراجات کے اندازے، تقویم، تاریخ متعلقہ سیرت نبوی اور جغرافیہ متعلقہ ارض القرآن سے دلی لگاؤ تھا۔ چلتے پانی کی مقدار اور وزن معلوم کرنا۔ تقویمِ ہجری اور شمسی کا حساب کرنا۔ قمری سننین سے عیسوی اور عیسوی سننین سے قمری تاریخیں معلوم کرنا آپ کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ یہ سب چیزیں آپ کی قوتِ حافظہ اور قوتِ ادراک کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ جس دن چودھویں صدی ہجری کا اختتام ہوا، اس دن آپ نے شمسی اور قمری سننین دونوں کی تاریخین گن کر بتلا دیا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کو 514828 دن گزر چکے ہیں۔ خاندان کے افراد کی موت اور پیدائش کی تاریخیں اکثر آپ کے ذہن میں محفوظ رہتی تھیں۔
سکول کے طلبہ کو جو مسئلہ بھی درپیش ہوا۔ اس کا تعلق خواہ حساب سے ہو یا جغرافیہ سے، اردو سے ہو یا عربی اور فارسی سے ان سب میں بلا معاوضہ طلبہ کی رہنمائی فرمایا کرتے۔ انگریزی پڑھنے والوں کو ڈکٹیشن لکھواتے اور ان کی اصلاح فرماتے۔ آپ سے فیض یافتہ ایک صاحب جناب عبدالرشید، جو اس وقت سرگودھا میں ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہیں، کہتے ہیں کہ منڈی وار برٹن کے گورنمنٹ ہائی سکول کے ریاضی کے ایک استاد ماسٹر محمد اشرف نے ہمیں تقویم کا ایک مشکل سا سوال سمجھایا۔ جو میرے ذہن میں نہ اتر سکا۔ وہی سوال میں نے حافظ صاحب سے پوچھا تو انہوں نے مجھے اپنے طریقے سے سمجھا دیا، جو مجھے فورا ذہن نشین ہو گیا اور میں نے اسی طریق پر یہ سوال اپنی کاپی میں حل کیا۔ جب ماسٹر صاحب نے میری کاپی چیک کی تو اُسے بار بار دیکھا پھر مجھے پوچھا کہ تم نے یہ طریقہ کہاں سے سیکھا؟ میں نے حافظ صاحب کا نام لیا تو پھر مزید غور سے حل دیکھا۔ پھر اسی طریق سے بلیک بورڈ پر دوسرے طلبہ کو یہ قاعدہ بتلایا۔ اس واقعہ سے جہاں ماسٹر محمد اشرف کے وسیع الظرف اور حق بات کو فورا قبول کر لینے کا پہلو نکلتا ہے وہاں حافظ صاحب کی علمِ تقویم (Calander) میں مہارت کا پتہ بھی چلتا ہے۔
بایں ہمہ آپ کا سب سے زیادہ شغف قرآنِ مجید کی زبانی تلاوت سے تھا۔ چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے ، نیز سفر و حضر میں تلاوت کرتے رہتے تھے۔ تین پارے نمازِ تہجد میں اور تین پارے عام منزل، یہ آپ کا معمول تھا۔ آخری ایام میں جب نظر نے۔۔۔دوسرے علمی اشغال و مطالعہ سے سبکدوش کر دیا تو زیادہ وقت تلاوت میں ہی صرف ہوتا۔ بعض اوقات دس دس پارے بھی پڑھ لیتے تھے اور مرض الموت میں جب منزل کا حساب نہ رکھ سکتے تھے تو جب چاہا، جہاں سے چاہا پڑھتے رہتے تھے۔ خاندان کا کوئی بھی نونہال جو حفظ کر رہا ہوتا۔ آپ سے ملنے جاتا تو اس سے ضرور کچھ نہ کچھ زبانی سنتے۔ پھر اس کی حوصلہ افزائی بھی فرمایا کرتے تھے۔ برادری کے کئی حافظوں سے دورہ قرآن بھی کیا کرتے تھے۔
مرآۃ القرآن کی تصنیف:
ایک دفعہ آپ کے بڑے بھائی (یعنی راقم الحروف کے والد ماجد) مولوی نور الہیٰ صاحب مرحوم نے آپ سے پوچھا کہ اُمَۃ کا لفظ قرآن مجید میں کتنے معنوں میں استعمال ہوا ہے؟ اور جب حافظ صاحب اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو انہوں نے بتلایا کہ یہ لفظ قرآن مجید میں چار (4) مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے، پھر وہ معانی اور ان کے مقاماتِ استعمال بتلائے۔ میرے والد صاحب مرحوم حافظ نہ ہونے کے باوجود قرآن مجید پر حفاظ کرام سے زیادہ ضبط رکھتے تھے اور یہ ایک ایسی خداداد خوبی تھی جس کا مولانا محمد اسمعیل سلفی مرحوم نے برملا اظہار فرمایا تھا۔ اس معمولی سے واقعہ نے حافظ صاحب کے ذہن کا رُخ اس تجسس کی طرف موٹ دیا کہ قرآن کریم کے الفاظ قرآن میں کن کن مختلف معنوں میں اور کہاں کہاں استعمال ہوئے ہیں۔ یہی چیز بالآخر آپ کی مستقل اور زندہ جاوید تصنیف " مرآة القرآن فى لغة القرآن" کا سبب بنی۔ جس میں عربی مادہ کے الفاظ کے مختلف معانی کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ابواب و افعال کے حوالے نیز سورت و آیت کے حوالے بھی درج ہیں۔
آپ کے کاروباری مشاغل:
اگرچہ کتابت آپ کا موروثی پیشہ تھا تاہم آپ نے دیگر مشاغل کی وجہ سے اُسے اپنایا نہیں۔ آپ نے عربی کتابت سیکھی۔ ابتداء چند قرآن کریم بھی لکھے، لیکن یہ شغل جاری نہ رکھ سکے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ درج ذیل مشاغل میں گزرا:
(1)۔۔۔امامت و خطابت: یہ آپ کا اصل مشن تھا۔ اگرچہ آپ مسلکا اہل حدیث تھے لیکن آپ کے طرزِ عمل اور حکمت نے تمام فرقوں کو آپ کا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ گاؤں میں ایک ہی مسجد تھی اور آج تک ایک ہی ہے۔ سب لوگ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھتے رہے۔ آپ مسائل کا جواب مسلک کے حوالے سے نہیں، بلکہ کتاب و سنت کے حوالے سے دیتے تھے۔ مولانا عبدالواحد غزنوی کے مشورہ کی بناء پر آپ نے ابتداء میں رفع الیدین اور آمین بالجہر پر عمل نہیں کیا اور جب آپ کی اولاد نے یہ دونوں باتیں شروع کیں تو اختلاف بھی ہونے لگا، اتفاق سے ان دنوں حج کی فلمیں چلنی شروع ہو گئیں، نیز جو حاجی حج کر کے واپس لوٹتے وہ بھی بتلاتے کہ مسلمانوں کی اکثریت حرمین شریفین میں آمین بالجہر اور رفع الیدین کرتی ہے تو یہ مخالفت بھی بند ہو گئی اور آپ نے بھی ان پر عمل شروع کر دیا۔
(2)۔۔پٹوار: زمینداروں کے مالیہ کا حساب اور ان کی وصولیاں وغیرہ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
(3)۔۔ طب: گاؤں میں کوئی طبیب نہیں تھا، اور آپ کو علاج بالمثل (ہومیو پیتھی) سے بھی خاصا شغف تھا اور طبِ یونانی سے بھی۔ پہلے زمانے میں علماء حضرات کو طِب یونانی سے اکثر شغف رہا اور یہ بات حافظ صاحب میں بھی موجود تھی۔ علاج بالمثل میں آپ نے جو کمال حاصل کیا وہ آپ کی عصری علوم سے واقفیت اور گہرے مطالعہ کا مرہونِ منت ہے۔ اس طرح آپ نے گاؤں کی ایک انتہائی ضرورت کو پورا کیا۔
آپ کے عادات و خصائل: (امانت و دمانت)۔ آپ کے کردار میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر آپ کی امانت و دیانت ہے۔ سب لوگ آپ کو امین سمجھ کر اپنی امانات آپ کے پاس ہی رکھتے تھے۔ آج سے کوئی چالیس پچاس سال پہلے بینکوں کی شاخوں کی یہ افراط نہ تھی جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ کے گھر میں لوہے کی ایک بڑی سیف رکھی ہوتی تھی۔ اسی میں لوگوں کی امانتیں محفوظ کیا کرتے تھے۔ آپ کی ذات گویا ایک چلتا پھرتا بلا معاوضہ بینک تھی۔ مشہور سیاسی لیڈر چوہدری محمد حسین چٹھہ بھی اس گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی والدہ کی وفات اچانک حرکتِ قلب بند ہونے کی بنا پر ہو گئی۔ اس وقت اس کا تیس ہزار روپیہ حافظ صاحب کے پاس بطورِ امانت رکھا ہوا تھا۔ جس کا اس کے گھر کے کسی فرد کو علم نہیں تھا۔ وفات کے فورا بعد آپ نے ایک پوٹلی میں محفوظ یہ رقم چوہدری محمد حسین کے والد چوہدری بہاول خاں چٹھہ کے حوالے کر دی۔ حالانکہ اس وقت حافظ صاحب خود مقروض اور جرورتمند تھے۔ حافظ صاحب کی اس دیانت نے اس خاندان پر جو اثر چھوڑا وہ ظاہر ہے اور اس واقعہ کے راوی چوہدری محمد حسین کے لرکے نعیم حسین چٹھہ ہیں۔
ایک دفعہ آپ کو لاہور سے منڈی وار برٹن جانا تھا۔ ان دونوں ذریعہ آمدورفت صرف ریل تھا۔ اضطرارا آپ بلا ٹکت چھپتے چھپاتے منڈی وار برٹن پہنچ گئے اور یہاں آ کر پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ گھر سے پیسے لے کر منڈی وار برٹن سے لاہور کا ٹکٹ خرید کر اُسے پھاڑ ڈیا۔ مقصد یہ تھا کہ ریلوے کی جو رقم میرے ذمہ واجب الادا ہے وہ اس کے خزانے میں چلی جائے۔
زمینداروں سے مالیہ وصول کرنے کے دوران ایک دفعہ رمضان ارائیں سے چار آنے زیادہ وصول ہو گئے، تو آپ نے اُسے اگلے سال کے حساب میں درج کر دیا۔ نیز آپ حساب کتاب کی کتابیں کبھی تلف نہ ہونے دیتے تھے۔
سیف میں پری ہوئی ہزاروں روپوں کی امانتوں کے بارے میں فرمایا کرتے کہ یہ ہمارے لیے غلاظت کا ڈھیر ہیں۔
ایثار: آپ کی آمدنی کا ایک ذریعہ امامت و خطابت بھی تھا۔ اِس آمدنی کا پورا نصف آپ اپنے چھوٹے بھائی حکیم عبدالوحد صاحب کو دے دیا کرتے تھے حالانکہ وہ تمام تر ذمہ داریوں سے سبک دوش تھے۔
گاؤں کے ایک چوہدری سردار احمد صاحب نے ان کی خدمات کے صلہ میں منڈی وار برٹن میں مسجد اہل حدیث کے پاس 13 مرلہ زمین ہبہ کر دی۔ آپ نے یہ ساری زمین اپنے چھوٹے بھائی عبدالوحد کے حوالہ کر دی کیونکہ انہوں نے منڈی وار برٹن میں طب کی دکان کھول رکھی تھی اور روزانہ گاؤں سے وہاں آنا جانا پڑتا تھا۔ چنانچہ اس زمین پر انہوں نے مکان تعمیر کرایا۔
آپ کی آمدنی اس زمانہ میں آج کل کے پانچ ہزار روپے ماہوار کے لگ بھگ تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا مکان کچے کا کچا ہی رہا۔ طرز بود و باش بھی بالکل سادہ تھی۔ آپ نے اس رقم کا کثیر حسہ اپنی برادری کے مستحق افراد پر خرچ کیا۔ خاندان کے نونہالوں کو اپنے پاس رکھ کر ان کی تربیت کی اور سکھلایا پڑھایا۔ نیز ان کی کفالت کی۔ حتیٰ کہ برادری کا کوئی گھرانہ ہی شاید ایسا رہ گیا ہو۔ جس کے کسی نہ کسی فرد نے آپ کی ذات سے بلواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ مہمان دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور آنے والے کا شکریہ ادا کرتے۔ مہمان نوازی گویا آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔
تقویٰ:
آپ سارے گاؤں کے استاد تھے۔ بعض گھرانوں کی چار چار پشتیں بھی آپ سے فیض یاب ہوئیں۔ زمینداروں کی بچیوں کی پڑھائی کے سلسلہ میں اکثر ان کے گھروں میں بھی آنا جانا رہتا تھا۔ یہ ان لوگوں کے آپ پر بھرپور اعتماد کی درخشاں مثال ہے۔ گاؤں کے سب لوگ آپ کو اپنا مربی سمجھتے اور انہیں باپ کا درجہ دیتے تھے۔ تاہم آپ نے چھ پشتوں کا زمانہ پایا۔
رواداری:
آپ گاؤں کی سیاست سے بھی ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ زمینداروں میں آج بھی اکثر چپقلش چلتی رہتی ہے اور نوبت مقدمات تک جا پہنچتی ہے۔ انتکابی مہموں میں وہ ایک دوسرے کے حریف بن جاتے ہیں۔ لیکن ایسے حالات میں آپ نے ہمیشہ غیر جانبداری کا یا پھر مساویانہ رویہ اختیار کیا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام گھرانے آپ کی عزت کرتے تھے۔
برادری کے معاملات میں بھی آپ اسی اصول پر کاربند رہے۔ کبھی کسی دھڑلے بازی میں حصہ نہیں لیا۔ ہر ایک سے یکساں محبت آپ کا شعار تھا۔ لہذا برادری کے اکثر جھگڑے فیصلہ کے لیے آپ کے پاس ہی آتے تھے۔
امتیازات:
آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں برادری ہوں میں پہلا شخص ہوں جس نے:
(1)سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کیا۔
(2) سب سے پہلے حج کیا۔ (آپ نے زندگی میں تین بار حج کیا۔ اپنے پاس تو کبھی اتنی رقم جمع نہ ہو سکی۔ بس اللہ تعالیٰ ہی کوئی سبب پیدا کر دیتا تھا)
(3) سب سے پہلے انگریزی تعلیم حاصل کی۔
(4) سب سے پہلے علاج بالمثل کا آغاز کیا۔
(5) مستقل کتاب تصنیف کی۔
کرامات:
یہاں کرامت کا لفظ ہم معروف معنوں میں استعمال نہیں کر رہے جو کسی "ولی اللہ" سے خرقِ عادت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ اسے لغوی مفہوم کے اعتبار سے استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی مستجاب الدعوات ہونے کے ناطے سے ان کی زندگی میں کچھ ایسے تکریمی امور پائے جاتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں بھی آپ محروم نہیں تھے۔ مثلا:
1۔ کسی وقت بھی مالی استطاعت نہ ہونے کے باوجود آپ نے زندگی میں تین بار حج کیا۔
2۔ آپ کا سب سے چھوٹا بیٹا (عبدالسلام) ابھی شکمِ مادر میں تھا کہ آپ نے دعا کی:
﴿إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٥﴾...آل عمران
عنی میں اپنے اس بیٹے کو دینی تعلیم کے لیے وقف کرتا ہوں اور آپ کی یہ دعا حرف بحرف قبول ہوئی۔
3۔ دوسری بار سئہ 1962ء میں جب آپ حج کو گئے تو آپ نے مولانا عبدالحق صاحب ہاشمی رحمۃ اللہ علیہ کو بیت اللہ شریف میں بخاری شریف کا درس دیتے دیکھ کر دعا کی کہ یا اللہ! مکرے بیٹے کو یہاں آنے کے اسباب مہیا فرما۔ اس دعا کی قبولیت یوں ہوئی کہ سئہ 1963ء میں عبدالسلام صاحب کو مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جو آج کل سعودی عرب کی حکومت کے مبعوث کی حیثیت سے علماء اکیڈمی (شاہی مسجد لاہور) میں لیکچرار کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
4۔ آپ کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حافظ صاحب کی کمر پر تھپکی دی۔ جس کی ٹھنڈک سارے جسم میں پھیل گئی۔ اسی سال آپ کو حج بھی نصیب ہوا اور اسی سال مرآۃ القرآن کی تصنیف کا آغاز ہوا۔
5۔ ایک دفعہ آپ گھوڑے پر سوار دریائے چناب کے جو کالیاں والے پتن سے دریا کے پار جانا چاہتے تھے۔ ایک جگہ گھوڑا دلدل میں پیٹ تک پھنس گیا۔ گھوڑے پر آپ کے پیچھے حکیم محمد صدیق آف پھالیہ بیٹھے ہوئے تھے جو اس واقعہ کے راوی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آاپ نے سورہ یٰس پڑھنا شروع کر دی اور مجھے کہا کہ نیچے اُتر کر گھوڑے کی دم سے زور لگاؤ۔ ادھر سورت مکمل ہوئی، ادھر فورا ہی گھوڑا دلدل سے باہر نکل آیا۔
6۔ دفن کے وقت دو تین بار خوشبو کی لپٹیں آئیں، جنہیں تمام حاضرین نے محسوس کیا اور ایک دوسرے سے موقعہ پر توثیق کی اور متعجب ہوئے۔ وغیرہ ذلک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ فی الواقعہ برادری کے مرکزان کے ملجا و ماویٰ اور جامع کمالات شخصیت تھے۔ جو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے پس ماندگان اور متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور آپ کی قبر کو نور سے بھر دے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے