کیا ماں کے قدموں تلے جنت ہے ؟

اپنے مسلم معاشرہ میں یہ بات عام طور پر کہی اور سنی جاتی ہے کہ:
"جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔"
بعض علماء واعظین اور خطباء بھی "(ألجنة تحت أقدام الأمهات)" (جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے) کا تذکرہ اپنی تصانیف اور پُر نصائح وعظ و تقاریر میں بلاتکلف کرتے نظر آتے ہیں گویا یہ اَمرِ ثابت ہو حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ مرذج و مشہور الفاظ کسی جید اور قابلِ اعتماد اسناد کے ساتھ مرفوعا ثابت ہی نہیں ہیں۔ اس موضوع کی جتنی روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں۔ شارحینِ حدیث نے ان کا کیا معنی و مطلب متعین کیا ہے اور ان روایات کا محدثین کے نزدیک کیا مقام و مرتبہ ہے۔ یہ واضح کرنے کے لئے یہ مختصر مضمون ہدیہ ناظرین ہے۔
زیرِ مطالعہ حدیث کا ایک مرفوع اس طرح بیان کیا جاتا ہے:
(حدثنا عباس بن الوليد الخلال حدثنا موسى بن محمد بن عطاء ثنا ألو المليح ثنا ميمون عن ابن عباس عن النبى  صلى الله عليه وسلم )
اس کی تخریج ابن عدی [1]نے کی ہے۔ علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن عدی کے علاوہ عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی الضعفاء میں بطریق موسیٰ بن محمد بن عطاء ثناء ابوالمیلح ثنا میمون عن ابن عباس مرفوعا روایت کی ہے۔ نیز عقیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: "یہ حدیث منکر ہے۔"[2] لیکن تلاش بسیار کے باوجود کتاب الضعفاء الکبیر للحافظ ابی جعفر محمد بن عمرو بن موسیٰ بن حماد العقیلی المکی کی ہر چہار مجلدات میں یہ حدیث کہیں نہ مل سکی۔ غالبا علامہ موصوف کو اس سلسلہ میں سہوا ہوا ہے۔ واللہ اعلم۔ البتہ حافظ ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذھبی رحمۃ اللہ علیہ (م 748ھ) نے "میزان الاعتدال فی نقد الرجال"[3] میں موسیٰ بن محمد بن عطاء کے ترجمہ میں اس حدیث کو بطورِ نمونہ نقل فرمایا ہے۔
علامہ بدرالدین ابی عبداللہ محمد بن عبداللہ الزرکشی رحمۃ اللہ علیہ (م 794ھ) نے "(اللآلى المنشور فى الأحاديث المشهورة المعروف بالتذكرة فى الأحاديث المشهورة المعروف بالتذكرة فى الأحاديث المشهورة )"[4] میں حافظ شمس الدین ابوالخیر محمد بن عبدالرحمن السخاوی رحمۃ اللہ علیہ (م 902ھ) نے "مقاصد الحسنه فی بیان کثیر من الاحادیث المشتهرة علی الالسنة"[5] میں اور علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی (م 1162ھ) نے "کشف الخفاء و مزیل الالباس عما الشتهر من الاحادیث علی السنة الناس"[6] میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس طریق کا تذکرہ کیا ہے اور ساتھ ہی اس کے "ضعیف" ہونے کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ کی تحقیق کے مطابق "یہ حدیث موضوع" ہے۔[7]
اگر مذکورہ بالا طریق کو فن رجال اور جرح و تعدیل کی کسوٹی پر پرکھا جائے، تو اس میں ایک راوی موسیٰ بن محمد بن عطاء الدمیاطی المقدسی البلقاوی الواعظ انتہائی مجروح نظر آئے گا۔ جس کے متعلق علامہ عقیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"ثقات کی جانب منسوب کر کے موضوعات میں بواطیل بیان کرتا ہے۔"
ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"سارق الحدیث تھا۔"
محمد بن حبان بن احمد ابی حاتم التمیمی البستی رحمۃ اللہ علیہ (م 254ھ) فرماتے ہیں:
"ثقات پر احادیث گھڑا کرتا تھا اور اثبات کی جانب منسوب کر کے ایسی روایات بیان کیا کرتا تھا جن کی کوئی اصل نہ ہوتی تھی۔ اس سے کسی حدیث کی روایت کرنا اور اس کی کوئی حدیث لکھنا جائز نہیں ہے۔"
ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں:
"وہ کذاب (جھوٹا) تھا اور اباطیل لاتا تھا۔ موسیٰ بن سہل الرملی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں اس پر گواہی دیتا ہوں کہ وہ جھوٹا تھا اور ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کو جھوٹا بتاتے ہیں۔"
علامہ حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ (م 807ھ) کا قول ہے کہ "متروک ہے۔" علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"ابوزرعہ اور ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تکذیب کی ہے۔"
حافظ ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی (م 303 ھ) کا قول ہے کہ "ثقہ نہیں ہے"۔ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسے "متروک" بتایا ہے۔ علامہ برہان الدین حلبی رحمۃ اللہ علیہ (م 841ھ) نے بھی امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کی آراء کو ہی پیش کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔ علامہ شیخ محمد ناصرالدین الالبانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ وہ شخص ہے جس کی تکذیب پر آئمہ کے کلمات کا اتفاق ہے اور اسی باعث امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو "تلقاء میں سے شمار کیا ہے۔"
علامہ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان الاعتدال میں اس کی متن احادیث بطورِ نمونہ نقل کی ہیں جن میں سے ہر ایک پر کذب، دوسری پر باطل اور تیسری پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔ موسیٰ بن محمد بن عطاء کے تفصیلی ترجمہ کے لئے کتاب "الضعفاء والمتروکون" للدارقطنی رحمة اللہ علیه، الضعفاء الکبیر للعقیلی رحمة اللہ علیه، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم رحمة اللہ علیه، کتاب مجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکون لابن حبان رحمة اللہ علیه، الکامل فی الضعفاء لابن عدی رحمة اللہ علیه، میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذهبى رحمة اللہ علیه، لسان المیزان لابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیه، مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان، کشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث للحلبی رحمة اللہ علیه، مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمی رحمة اللہ علیه، فهارس مجمع الزوائد للزغلول، تنزیه الشریعة المرفوعة عن الاخبار الشنیعة والموضوعة لابن عراق الکتانی رحمة اللہ علیه اور سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعۃةللالبانی وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔[8]
زیر مطالعہ حدیث کا ایک دوسرا مرفوع طریق اس طرح وارد ہوا ہے:
"عن منصور بن المهاجر البزدری عن ابی النضر الابار عن انس بن مالک عن النبی صلی اللہ علیه وسلم"
اس کی تخریج ابوبکر الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے "الرباعیات"[9] میں، ابوالشیخ رحمۃ اللہ علیہ نے "الفوائد[10]" اور اپنی "تاریخ''[11]  میں، ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "تفسیر[12]" میں، قضائی رحمۃ اللہ علیہ نے "مسند الشھاب[13]" میں خطیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "جامع[14]" میں، علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے "فیض القدیر[15]" میں، جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "الجامع الصغیر[16]" میں اور دولابی [17]رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کی ہے، لیکن یہ طریق بھی "منکر" ہے۔
علامہ زرکشی، علامہ شیبانی اور علامہ سخاوی رحمہم اللہ بیان کرتے ہیں:
"(ابوالفضل) ابن طاہر الحافظ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس روایت میں منصور اور ابوالنضر غیر معروف راوی موجود ہیں اور یہ حدیث منکر [18]ہے۔"
علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
"اس میں منصور اور ابوالنضر غیر معروف راوی موجود ہیں۔"[19]
علامہ محمد درویش حوت البیرونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اس میں مجہول راوی موجود ہیں، پس یہ منکر [20]ہے۔"
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی منصور بن المہاجر کو تقریب التہذیب میں "مستور[21]"، یعنی مجہول الحال لکھا ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی ابوالفضل ابن الطاہر الحافظ رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"پس عامری رحمۃ اللہ علیہ کا اپنی شرح میں یہ فرمانا کہ یہ حسن ہے فی الواقع غیر حسن ہے۔"[22]
مندرجہ بالا طریق ان راویوں "(يعنى منصور بن المهاجر البزورى اور ابو النضر الأبتر ) کے لئے مقاصد الحسنۃ للسحاوی ،ص 176 اللآلی المنشورۃ للزرکشی ،ص192،193 تمیمۃ الطیب من الخبیث فیما یدور علی السنۃ الناس من الحدیث للحافظ  عبد الرحمن بن علی بن محمد بن عمر التیبانی  الشافعی الازری (م944ھ) ص75، کشف الخفآء للعجلونی  ج 1، ص 401 اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ  والموضوہۃ للالبانی ج 2،ص59)" وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
تنبیہ:
حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اس طریق کے متعلق بعض علماء (مثلا دیلمی رحمۃ اللہ علیہ، زرکشی، سخاوی رحمۃ اللہ علیہ، عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ) کو یہ وہم ہوا ہے کہ اس کی تخریج امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی ہے، [23]لیکن واقعہ یہ ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تخریج نہیں فرمائی ہے۔ جہاں تک مذکورہ بالا علماء کا اس کی تخریج کو آں رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنے کا تعلق ہے، تو وہ ایک بڑی خطاء ہے جس کا سبب محض بلاتحقیق دیلمی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرنا ہے۔علامہ محمد درویش الحوت بیروتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جس نے اس کی تخریج کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب کیا تو اس نے رھل کیا۔"[24]
شیخ الاسلام علامہ حافظ ابن تیمیہ ط نے "احادیث القصاص[25]" میں اس حدیث کو بلا سند نقل فرمایا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"میں اس حدیث کو باسناد ثابت مرفوعا ان الفاظ کے ساتھ نہیں جانتا، بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرفوع حدیث اس طرح روایت کی ہے: "(ألوالد  أو سط  أبواب الجنة فأوضع ذلك الباب  أو حفظه)"[26]
علامہ مرعی بن یوسف الکرمی رحمۃ اللہ علیہ نے "الفوائد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ[27]" میں اور علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے "ضعیف الجامع الصغیر[28]" اور "سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ[29]" میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے اسے غیر ثابت اور قطعا ناقابل اعتماد بلکہ موضوع قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں معاویہ بن جاھمہ السلمی کا ایک مشہور واقعہ ہمیں زیر مطالعہ حدیث "(ألجنة تحت أقدام الأمهات)" سے مستثنیٰ کر دیتا ہے۔ کتبِ احادیث میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے:
(ألرخصة فى التخلف لمن  له والدة : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ طَلْحَةَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ، أَنَّ جَاهِمَةَ، جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ فَقَالَ: «هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ عِنْدَ رِجْلَيْهَا»)[30]
"معاویہ بن جاہمہ السلمی روایت کرتے ہیں کہ جاہمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں غزوہ میں شرکت کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورہ کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تیری کوئی ماں (زندہ) ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اس کا التزام کر، کیونکہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔"
اس حدیث کی تخریج امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مستدرک علی الصحیحین[31] میں، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن[32] میں، طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معجم [33]میں، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں، امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے شعب الایمان میں کی ہے۔ خطیب التبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ المصابیح[34] میں، علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص المستدرک میں، علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے الترغیب والترہیب[35] میں، علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد[36] میں، علامہ شیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے تمییز الطیب[37] میں، علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے مقاصد الحسنۃ [38]میں، علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ نے کشف الخفاء[39] میں اور علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعہ[40] میں اس حدیث کو وارد کیا اور اس کی تصحیح و توقیر کی ہے۔
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"طبرانی کے رجال ثقات ہیں۔"
حاکم فرماتے ہیں:
"یہ صحیح الاسناد ہے، لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہم نے اس کی تخریج نہیں کی ہے۔"
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص المستدرک میں حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی تصحیح سے اتفاق کیا ہے۔ علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی توقیر کی ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی فرماتے ہیں:
"ان شاءاللہ! اس کی سند حسن ہے۔"
لیکن علامہ محمد درویش الحوت، علامہ اسماعیل عجلونی، علامہ سخاوی اور علامہ شیبانی حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی تصحیح نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
"اس حدیث میں اضطراب موجود ہے جس کے باعث اس پر تعقب کیا گیا ہے۔"
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث "(ألجنة تحت أقدام الأمهات)" ان مشہور الفاظ کے ساتھ باسناد ثابت مرفوعا مروی نہیں، بلکہ "موضوع" ہے۔ اس مفہوم کی جس دوسری حدیث کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا معنی و مطلب مشہور آئمہ اور شارحین حدیث میں سے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ، ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ شیبانی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور صاحب التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی محمد عطاء اللہ حنیف وغیرہ رحمہم اللہ کے نزدیک یہ ہے:
" اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کی خدمت و تواضع، ان کی اطاعت و فرمانبرداری، ان کی رضا کا حصول، ان کی خواہش پر اپنی خواہشات کا ایثار اور ان کی عدمِ مخالفت (بجر خلافِ شرع باتوں کے) یا اس جیسے اور دوسرے کام اولاد کے لئے جنت میں دخول کا سبب ہیں۔" واللہ اعلم بالصواب
[1] الکامل فی الضعفاء لابن عدی، ج1، ص 325، طبع دارالفکر بیروت
[2] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج2، ص 59 طبع المکتب الاسلامی دمشق 1399ھ
[3] میزان الاعتدال للذہبی ج4، ص 220 طبع دارالمعرفہ بیروت
[4] اللآلی المنثورہ للزرکشی ص 93، طبع دارالکتب العلمیہ بیروت 1986ء
[5] مقاصد الحسنہ للسخاوی ص 176، طبع دارالکتب العلمیہ بیروت 1979ء
[6] کشف الخفاء للعجلونی ج1، ص 401 طبع موسسۃ الرسالہ بیروت 1985
[7] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج2، ص 59
[8] الضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ 524، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4، ص 166، طبع دارالکتب العلمیہ بیروت 1984ء، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج4، ص 161 طبع حیدرآباد دکن 1371ھ، کتاب مجروحین لابن حبان ج2، ص 242 طبع دارالباز مکۃ المکرمۃ، الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج6 ترجمہ 2346، میزان الاعتدال للذہبی ج4 ص 219، لسان المیزان لابن حجر ج6 ص 127، طبع حیدرآباد دکن 1329ھ، المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص 376 طبع دارالقلم بیروت 1985، کشف الحثیث للحلبی ص 435، طبع احیاء التراث الاسلامی بغداد 1984، مجمع الزوائد للہیثمی ج10، ص 108 طبع دارالکتب العربی بیروت 1982ء، فہارس مجمع الزوائد لزغلول ج3 ص 407 طبع دارالکتب العمیہ بیروت 1989ء، تنزیہ الشریعۃ لابن عراق ج1 ص 121، طبع دارالکتب العلمیہ بیروت 1981ء، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج2، ص 58، 59، 60، 251، 252
[9] الرباعیات لابی بکر الشافعی ج2، ص 25
[10] فوائد لابی الشیخ حدیث 357
[11] تاریخ لابی الشیخ ص 253
[12] تفسیر للثعلبی ج3، ص 53
[13] مسند الشاب للقضاعی ج2، ص 21
[14] جامع للخطیب بحوالہ مقاصد الحسنۃ للسخاوی ص 176 وکشف الخفاء للعجلونی ج1 ص 401 وتمییز الطیب للشیبانی ص 75 طبع  دارالکتب العلمیہ بیروت 1981ء
[15] فیض القدیر للمناوی ج3 ص 361
[16] الجامع الصغیر للسیوطی حدیث 3642
[17] دولابی ج2، ص 138
[18] اللآلی المنثورۃ للزرکشی ص 193 وتمییز الطیب  الشیبانی ص 75 و مقاصد الحسنۃ للسخاوی ص 176
[19] کشف الخفاء للعجلونی ج1 ص 401
[20] اسنی المطالب فی احادیث مختلفۃ المراتب للحوت بیروتی ص 124 طبع دارالکتب العربی بیروت 1983ء
[21] تقریب التہذیب لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 277 طبع دارالمعرفۃ بیروت 1975ء
[22] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج2 ص 59
[23] اللآلی المنثورۃ للزرکشی ص 192 مقاصد الحسنۃ للسخاوی ص 176، کشف الخفاء للعجلونی ج1، ص 401، الدرالمنتشرۃ فی الاحادیث المشترۃ للسیوطی ص 178 ، طبع جامعۃ الملک السعود بالریاض 1983ء
[24] اسنی المطالب للحوت ص 124
[25] احادیث القصاص لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ص 90 طبع المکتب الاسلامی بیروت 1985ء۔
[26] مسند طیالسی حدیث 981 مسند احمد ج5 ص 96 198 ج6 ص 445 طبع المطبیعۃ الیمنیۃ بمصر 1313ھ، سنن ابن ماج حدیث 2089، 3663 طبع المطبعۃ العلمیہ بمصر 1313ھ، مستدرک للحاکم ج3 ص 197 و ج4 ص 152، مشکل الآثار للطحاوی ج2، ص 158، مسند حمیدی حدیث 395، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج3 ص 116 طبع دہلی 1243ھ، صحیح ابن حبان، حدیث 2023، تاریخ لابن عساکر ج1 ص 153، فیض القدیر للمناوی ج3 ص 371 طبع مصطفیٰ محمد بمصر 1938، الترغیب والترہیب للمنذری ج3، ص 137، ریاض الصالحین من کلام سید المرسلین لابی زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف النووی  (م 676ھ) ص 196 طبع موسسہ مناہل العرفان، رسالہ فی برالوالدین لامام ابن الجوزی حدیث 25، مشکوٰۃ المصابیح مع تنقیح الرواۃ ج3، ص 328 وکما فی المرقاۃ والسراج المنیر وتلخیص المستدرک للذہبی و شعب الایمان للبیقی وسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی ج2 ص 617-619 وغیرہ۔
[27] الفوائد الموضوعۃ للکرمی ص 93 طبع دارالعربی بیروت
[28] ضعیف الجامع الصغیر للالبانی ج3 ص 86 طبع المکتب الاسلامی بدمشق 1969ء
[29] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوع للالبانی ج2 ص 59
[30] سنن نسائی مع التعلیقات السلفیۃ ج2 ص 47،48 طبع المکتبۃ السلفیہ لاہور
[31] المستدرک علی الصحیحین للحاکم ج4 ص 151 طبع حیدرآباد دکن 1333ھ
[32] سنن نسائی مع التعلیقات السلفیہ ج2 ص 47-48
[33] المعجم للطبرانی ج1 ص 235
[34] مشکوٰۃ المصابیح مع تنقیح الروا ج3، ص 330 طبع المجلس العلمی السلفی لاہور 1983ء
[35] الترغیب والتریب للمنذری ج3 ص 214
[36] مجمع الزوائد للبیہقی ج8، ص 138
[37] تمییز الطیب للشیبانی ص 75
[38] مقاصد الحسنۃ للسخاوی ص 176
[39] کشف الخفاء للعجلونی ج1 ص 401
[40] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للالبانی ج2، ص59