غناء اور سماع

اہل تصوف کے نزدیک غناء (قوالی) رقص، تواجد، دف بجانا، مزامیر سننا، ذکر و تحلیل کے نام پر اصوات منکرہ بلند کرنا اور پھر یہ دعویٰ کرنا کہ یہ تمام اشیاء قربِ الہیٰ کی انواع سے ہیں، بہت عام ہے۔ ان تمام امور کے متعلق شیخ الاسلام امام المجتہد علامہ موفق الدین ابی محمد عبداللہ ابن احمد بن محمد المقدسی الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 620ھ) المعروف بابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دقیع فتویٰ مختصر کتابچہ کی شکل میں استاذ زھیر الشاویش حفظہ اللہ (صاحب المکتب الاسلامی بدمشق) کی کوشش سے سئہ 1984ء میں بار سوم طبع ہوا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل ان امور سے متعلق ہمارے بیشتر اکابرین اور علمائے حق زور قلم صرف کر چکے ہیں، بالخصوص امام حافظ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی الحنبلی رحمۃ اللہ علیه نے (م سئہ 597ھ) "تلبیس ابلیس" اور "ذم الھویٰ" میں، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے "فتاویٰ" میں امام ابن القیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے "اغاثۃ اللہفان فی مکاید الشیطان" میں امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے "کف الرعاع" میں اور ابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ  نے "ذم الملاھی" وغیرہ میں ان امور پر اس قدر سیر حاصل بحث و جرح کی ہے کہ مزید کچھ لکھنے کی حاجت باقی نظر نہیں آتی۔ فجزاھم اللہ۔ مگر چونکہ راقم اسلاف و اکابرینِ ملت کی دینی خدمات اور ان کے آثارِ مبارکہ سے عام مسلمانوں کو متعارف کرانا اپنے لیے باعثِ سعادت تصور کرتا ہے، لہذا ذیل میں علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ ، کہ جن کی شخصیت علم دین سے واقفیت رکھنے والے کسی شخص کے لیے محتاج تعارف نہیں ہے، کے اس اہم فتویٰ کو اردو قالب میں ڈھال کر مختصر تخریج و تحقیق کے ساتھ استفادہ عام کی خاطر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔مترجم
" الحمد لله وصلى الله على محمد واله وسلم:
سوال:
کیا فرماتے ہیں فقہائے کرام " أحسن الله توفيقهم" اس شخص کے بارے میں جو دف[1]، شبابہ [2]اور غناء[3] کو سنتا، تواجد[4] اور رقص کرتا ہے؟ کیا یہ تمام چیزیں شرعا جائز ہیں؟ ایسا کرنے والا شخص یہ اعتقاد بھی رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عاشق ہے اور اس کا یہ سماع، تواجد اور رقص صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے؟ کن حالات میں دف بجانا جائز ہے؟ کیا اس کا جواز مطلق ہے یا صرف مخصوص حالات میں اس کی اجازت ہے؟ نیز کیا اماکن شریفہ مثلا مساجد وغیرہ میں اشعار کا الحان یعنی راگ کے ساتھ گانا اور سننا جائز ہے؟ اس سلسلہ میں فتویٰ عنایت فرما کر ماجور ہوں۔ رحمکم اللہ
الجواب و باللہ التوفیق:
ایسا کرنے والا شخص خطاکار اور ساقط المروت ہے۔ جو شخص ہمیشہ اس فعل کو کرتا ہو، شریعت میں اس کی شہادت مردود اور اس کا قول غیر مقبول ہے۔ اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سلسلہ میں اس کی کوئی روایت قبول نہ کی جائے، نہ ھلال رمضان کی رؤیت کے سلسلہ میں اس کی شہادت قابل قبول ہے اور نہ ہی دین کے معاملہ میں اس کی کوئی خبر۔
جہاں تک اس کی اللہ عزوجل کے ساتھ محبت کا اعتقاد کا تعلق ہے، تو یہ بعید از امکان نہیں ہے، ہو سکتا ہے وہ ان امور کے علاوہ بعض دوسری باتوں میں اللہ کا مطیع فرمان ہو اور اس خلاف شریعت مقام کے علاوہ اُس کے دوسرے اعمال صالحہ بھی ہوں جن کے باعث وہ اپنے محب اللہ ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو، اور اُس کے اِس فعل کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ مگر جہاں تک ان مسئولہ امور کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہ معصیت اور لہو و لعب کی چیزیں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ[5] اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم [6]نے مذمت فرمائی ہے۔ علماء نے ان افعال کو مکروہ جانا، ان کا نام بدعت رکھا، اور ان کے ارتکاب سے منع فرمایا ہے۔ کوئی شخص ان معاصی کے ذریعہ اللہ سبحانہ کا تقرب ہرگز حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان امور کا ارتکاب کر کے اس کا مطیع و فرمانبردار ہو سکتا ہے۔ جس شخص نے اپنے معاصی (گناہوں) کو اللہ سبحانہ کی طرف اپنا وسیلہ بنایا تو اللہ تعالیٰ سے بعد ہی اس کا مقدر ہے۔ نیز جس نے لہو و لعب کو دین کے طور پر اپنایا تو اس کی یہ کوشش فساد فی الارج کے مشابہ قرار پائے گی۔ اگر کوئی شخص اللہ سبحانہ سے وصل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے اور آں صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے طلب کرے تو وہ ہرگز اپنی مراد تک نہیں پہنچ سکتا۔
ابوبکر الاثرم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ میں نے ابوعبداللہ یعنی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ "تغبیر[7]" محدث ہے۔" اور ابوالحارث رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: " میں نے ابوعبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے تغبیر کے متعلق سوال کیا اور بتایا کہ یہ دلوں پر رقت طاری کرتا ہے تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ بدعت ہے۔"[8] بعض اور علماء نے بھی روایت کی ہے کہ آں رحمہ اللہ نے اس کی کراہت بیان کی ہے اور اس کے سماع سے منع فرمایا ہے۔
حسن بن عبدالعزیز الجروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "میں نے محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عراق میں ایک ایسی چیز چھوڑی ہے جس کا نام انہوں نے تغبیر رکھا ہے، اس کو زندیقوں نے ایجاد کیا ہے۔ اس کی مدد سے وہ لوگوں کو قرآن سننے سے باز رکھتے ہیں۔"[9]
یزید بن ھارون رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "فاسقوں کے علاوہ کوئی تغبیر نہیں کیا کرتا۔ (اسلام میں) تغبیر کب ہے؟"
عبداللہ بن داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"میری رائے میں صاحبِ تغبیر کو پیٹا جائے۔"
تغبیر: سماع کا دوسرا نام ہے، ائمہ نے اس کی کراہت بیان فرمائی ہے جیسا کہ اوپر آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ان ائمہ کرام نے اس سماع کے ساتھ دوسری اشیائے مکروھات مثلا دف اور شبابہ وغیرہ کا ذکر نہیں کیا ہے پس اگر یہ چیزیں بھی اس سماع میں شامل ہو جائیں تو ان کو دین کے طور پر کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ ایسا کرنے والوں کی مثال تو بالکل ویسی بھی ہے۔ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ... ٣٥﴾...الأنفال
"ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں اور تالیاں بجانا۔"
بعض علماء فرماتے ہیں کہ " مكاء" اور "تصفیر" سیٹی بجانے کو اور " تصفیر" اور "تصدية"او ر"تصفیق" تالی بجانے کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے:
﴿وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ... ٧٠﴾...الأنعام "
اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی کر لو جنہوں نے اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔"
یہ معلوم بات ہے کہ اللہ سبحانہ تک پہنچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے یعنی وہ جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائی ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ھادی، مبین، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ نے تمام امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ جوڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی محبت کی دلیل بتایا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله ...﴿٨٠﴾ ...النساء
"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔"
اور
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦﴾ ..." الأحزاب
اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو گنجائش نہیں ہے جب کہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں کہ پھر ان کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار باقی ہو اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں جا پڑا۔"
اور
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ...﴿٣١﴾ ... آل عمران
"اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔"
یہ بات بھی معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے انتہائی شفیق، ان کی ہدایت کے شدید خواہاں اور ان کے ساتھ بے حد رحم دل تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا طریقہ نہیں چھوڑا جو امت کے لیے سچائی کی طرف ہدایت کرنے والا ہو بلکہ ایسی تمام باتوں کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے مشروع فرمایا، اپنے قول و فعل سے اس کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم خیر اور اطاعت کے شدید طالب تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے خصالِ خیر میں کوئی ایک خصلت بھی ترک نہیں کرتے تھے بلکہ اس کر کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس طریقہ کو کبھی اختیار کیا ہو یا اللہ سبحانہ کے تقرب کی خاطر محفل سماع منعقد کی ہوں اور ان میں شب بیداری کی ہو، اور نہ ہی ان حضرات میں سے کسی نے یہ فرمایا کہ "جس نے رقص کیا اس کے لیے ایسا اور ویسا اجر ہے۔" اور نہ ہی یہ فرمایا: "غناء دل میں ایمان کو اگاتا اور پروان چڑھاتا ہے۔" اور نہ کبھی شبابہ وغیرہ سننے کی خواہش ظاہر کی، نہ اس کی تحسین فرمائی اور نہ ہی اس کے استماع کو باعث اجر قرار دیا تو ایسی کسی چیز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے منقول نہ ہونا بلاوجہ اور بلا مقصد نہیں ہے۔ اگر اس بات کو صحیح تسلیم کیا جائے تو لازم آتا ہے کہ ان افعال کے ذریعہ اللہ سبحانہ کی قربت ممکن نہ ہو، اور یہ وہ راستہ ہو جو سرے سے اس کی جانب پہنچتا ہی نہ ہو۔ لہذا ممکنات میں سے اب صرف ایک ہی چیز باقی رہ جاتی ہے۔ یعنی یہ افعال "شرالامور" میں سے ہوں کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"خير الهدى هدى محمد وشر الأمور محدثاتها " [10]
"بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور شرالامور اس میں نئی باتیں پیدا کرنا ہے۔"
چونکہ ان امور کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پُر ہدایت طریقہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے نہیں ہے، لہذا ان کو "شرالامور" ہی کہا جا سکتا ہے۔ دین میں ہر نئی بات پیدا کرنے کے متعلق ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:
" كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة [11]
"دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
ائمہ کرام نے ان افعال کو اسی باعث "بدعت" سے تعبیر کیا ہے، جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔
مسموعات دف و شبابہ اور سماع غناء وغیرہ میں سے ہر ایک کی تفصیل آگے ان شاءاللہ علیحدہ علیحدہ بیان کی جائے گی، اگرچہ یہ تمام چیزیں مجموعی اعتبار سے لہو و لعب ہی ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ پس جس نے ان کو اپنی عادت بنایا یا اپنے اس فعل کی تشہیر کی یا اس کو سنا، یا اس کے مواضع اور محافل کا قصد کیا وہ ساقط المروت ہے، امور شریعت میں اس کی شہادت قابل قبول نہیں ہے، نیز اس کا شمار اہل عدالت سے خارج ہے، اور یہی حال تمام رقاص[12] کا بھی ہے۔"
ان آلات میں سب سے زیادہ غلیظ شئے "شبابہ" ہے جو اصلا مزامیر کی ہی ایک قسم ہے۔ ایک حدیث جسے سلیمان بن موسیٰ نے حضرت نافع سے روایت کیا ہے، میں مروی ہے:
"میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک راستہ میں (جا رہا) تھا، (ہم نے راستہ میں) مزامیر کی آواز سنی تو (آپ رضی اللہ عنہ نے) وہ راستہ بدل دیا، اور اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کر لیں (اور مجھ سے) پوچھا کہ اے نافع! کیا (اب بھی تمہیں وہ آواز) سنائی دیتی ہے؟ کیا تم (اسے) سنتے ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں، پھر آپ رضی اللہ عنہ کچھ (دور اور) چلے اور پھر سوال کیا اے نافع! کیا (اب بھی) تم (وہ آواز) سنتے ہو؟ میں نے کہا نہیں، تب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ اپنے کانوں سے نکالے اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔"
اس حدیث کو خلال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "جامع" میں " عن  عوف بن محمد  المصرى عن مروان الطاطرى  عن سعيد بن عبد العزيز عن سليمان بن موسى " روایت کیا ہے۔ یہ حدیث بطریق عثمان بن صالح الانطاکی " عن محمود بن خالد عن ابيه عن المطعم بن المقدام عن نافع" بھی مروی ہے۔[13] جب امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا:"یہ سلیمان بن موسیٰ عن نافع عن ابن عمر مروی ہے۔
مزامیر کی تحریم کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر مبالغہ فرمایا کہ اس کی آواز سن کر اپنے گوش مبارک بند فرما لئے اور وہ راستہ بھی بدل دیا (جیسا کہ اوپر حدیث میں بیان ہو چکا ہے)وہاں ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر کھڑے مزامیر کی آواز سنتے نہ رہے اور کیونکہ شبابہ و طنبورہ مزامیر ہی کی قسم ہے بلکہ اس سے زیادہ اغلظ شئے ہے کیونکہ اس کی آواز میں جو تاثیر اور برائیاں پوشیدہ ہیں وہ مزامیر کی آواز میں نسبتا کم ہیں اور علمائے حق میں سے کسی کا مزامیر کی رخصت بیان کرنا ہم تک نہیں پہنچا ہے۔ پس شبابہ و طنبورہ پر بھی اسی حکم کا اطلاق ہو گا جو مزامیر کے بارے میں ہے۔
غناء کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ اہل مدینہ اس کی رخصت دیتے ہیں جبکہ اکثر اہل علم اس معاملہ میں ان کے خلاف[14] ہیں اور ان کی رخصت کے عیوب بیان کرتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
"الغناء ينبت النفاق فى القلب"[15]
"یعنی غناء دل میں نفاق کو اُگاتا ہے۔"
مکحول کا قول ہے:
"جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کے پاس کوئی مغنیہ ہو تو اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔"
معمر  رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ:
"اگر کوئی شخص سماع یعنی غناء کے متعلق اہل مدینہ کے اقوال کو اپنائے، متعہ اور صرف کے متعلق اہل مکہ کے قول کو لے اور مسکرات کے متعلق اہل کوفہ کے قول کو دلیل بنائے، تو یقینا وہ " شر عباد الله" بن جائے گا۔"[16]
جب حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے اہل مدینہ کے نزدیک غناء کی رخصت کے متعلق سوال کیا گیا، تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا:
"ہمارے نزدیک یہ فعل فاسقوں کا ہے۔"[17]
ابراہیم بن المنذر الخزامی سے بھی غناء کے متعلق ایسا ہی منقول ہے۔ پس غناء ہر حال میں مکروہ اور دین داروں کی شان سے خارج ہے۔ مساجد میں اس کا اہتمام کرنا قطعا ناجائز ہے۔[18] کیونکہ مساجد ان مقاصد کے لئے ہرگز نہیں ہوتیں بلکہ ان کی صیانت اور وقار کا تحفظ ہر مسلمان پر واجب ہے پس وہ چیز جو فساق کا شعار ہے اور نفاق  کو اُگانے والی ہے وہاں کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟
جہاں تک "دف" کا تعلق ہے، تو وہ ان خصال کی سب سے سہل شئے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برموقع نکاح اس کے بجانے کا حکم دیا ہے۔[19] نکاح کے علاوہ بعض دوسرے مواقع (مثلا عید اور اعلانِ جنگ وغیرہ) کے لئے بھی اس کی رخصت ہے۔ میرے نزدیک اس کی تحریم واضح نہیں ہے بجر اس کے کہ اس کا بجانے والا اگر مرد ہے، تو وہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے اور اگر کوئی مرد کسی بھی طرح عورتوں کی مشابہت اختیار کرے،  تو اس کے لئے ایساکرنا حرام ہے۔[20] یا اگر "دف" میت کے قریب بجایا جائے کیونکہ یہ قضائے الہی کے ساتھ غصہ و غضب اور اس کے ساتھ محاربت کا اظہار ہے اگر "دف" کا بجانا ان دونوں قباحتوں سے پاک ہو، تو کسی بھی حال میں اسے بجانے میں کوئی حرام چیز نظر نہیں آتی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب، دفوف کو پھاڑ دیا کرتے تھے اور اس معاملہ میں بہت متشدد رویہ رکھتے تھے۔[21] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے آں رضی اللہ عنہ کے اصحاب کے اس رویہ کے متعلق ذکر کیا ہے، لیکن خود اس فعل کی موافقت میں نہیں گئے ہیں۔[22] کیونکہ سنت میں اُس کی رخصت وارد ہے، جو مستحق اتباع ہے۔ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ، جو ایک عید کے موقع پر "انبار" نامی مقام پر موجود تھے، سے مروی ہے:
"کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ تقلیس کرتے ہیں؟ وہ عہد رسالت میں بھی اسی طرح تقلیس کیا کرتے تھے۔"
زید بن ہارون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"تقلیس کا معنی دف بجانا ہے۔"
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
"جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر قبیلہ بنی نجار کے جوار میں ہوا، تو وہاں قبیلہ کی عورتیں "دف" بجا کر یہ اشعار پڑھ رہی تھیں۔
نحن جوار من بنى النجار وحبذا محمد من جار
پس فرمایا:
"الله يعلم أنى أحبكم"[23]
ایک اور حدیث میں مروی ہے کہ:
"ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامت رکھا تو میں (غزوہ سے واپسی پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال میں دف بجاؤں گی۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تو نے یہ نذر مانی تھی، تو ایسا کر، ورنہ نہیں۔"[24]
حدیث میں یہ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ مروی ہیں:
فی الجملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاعب دف کے لئے اگرچہ اس کی رخصت فرمائی ہے، لیکن ہمارا اعتقاد یہی ہے کہ یہ بھی لہو و لعب ہے، پس جو شخص اس کو دین بنا لے یا اسے اور غناء کے استماع کو اللہ سبحانہ کی قربت اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھے، تو وہ ہرگز اس دھوکہ میں نہ رہے کہ کبھی ان چیزوں کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ وہ ان باتوں سے اللہ کے غضب اور اس کی نفرت و کراہت کو دعوت دیتا ہے۔ اگر اس محفلِ سماع میں عورتیں اور خوبرو لڑکے بھی موجود ہوں (جیسا کہ عموما ہوتا ہے) اور حاضرین ان کی طرف دیکھیں[25] بھی تو بلاشبہ ان کا دین سلب ہو جاتا ہے نتیجتا ان کے دل فتنہ سے لبریز ہو جاتے ہیں۔


[1] دف موسیقی کا وہ آلہ ہے جو عموما گوں پہیہ نما ہوتا ہے، اور اس کے ایک طرف باریک جلد چڑھی ہوتی ہے۔
[2] شبابہ موسیقی کا وہ آلہ ہے جو مزامیر کی قسم سے ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ اس کی تاثیر بتائی جاتی ہے یعنی اس کی آواز شہوت نفس کو شباب پر پہنچا دیتی ہے۔
[3] غناء کسی نظم کے اشعار کو راگنی کے ساتھ گانے کو کہتے ہیں۔ موجودہ دور میں اس کی ایک شکل قوالی بھی ہے۔
[4] تواجد یعنی وجد میں آ کر جھومنے لگتا، یہ کثرتِ طرب کی وجہ سے ہوتا ہے، بعض لوگ اسے حال آنا بھی کہتے ہین۔ صوفیاء اس اصطلاح کا استعمال وجود کے معنی میں کرتے ہیں، یعنی جب اللہ تعالیٰ انسان کے کم ظرف جسم میں حلول کر لیتا ہے تو وہ مستی میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ نعوذباللہ
[5] چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿٦﴾ ...لقمان " ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں اور اسے ہنسی بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسواء کرنے والا عذاب ہے۔" اس آیت کی تفسیر میں علامہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " یہاں ان بدبختوں کا ذکر ہو رہا ہے جو کلام اللہ کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے غناء، مزامیر اور آلات طرب (یعنی گانے باجے اور ڈھول تاشے) سنتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قسم خدا کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے تین دفعہ قسم کھا کر فرمایا اس سے مراد غناء یعنی گانا اور راگ راگنیاں ہیں۔ حضرت ابن عباس، جابر بن عبداللہ، عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب، علی ابن بذیمہ، قتادہ اور ابراہیم نخعی وغیرہ رحمہم اللہ نے بھی "لھو الحدیث" کے معنی غناء ہی بتائے ہیں۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت غناء اور مزامیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو اس لہو ولعب کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں بلکہ یہاں خریدنے سے مراد محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ وہ باطل بات کو حق پر پسند کرے اور نقصان کی چیز کو نفع کی بات پر مقدم کرے الخ۔" تفصیل کے لیے تفسیر ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ، تفسیر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 378، تلبیس ابلیس لامام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ مترجم ص 301 اور عون المعبود للشیخ شمس الحق عظیم آبادی جلد نمبر 4 ص 437 وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[6] غناء اور آلات ملاہی کی مذمت میں بہت سی احادیث وارد ہیں جن میں سے چند یہاں پیش کی جاتی ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ قَالَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ "
وَنَهَى عَنِ الْخَمْرِ، وَالْمَيْسِرِ، وَالْكُوبَةِ، وَالْغُبَيْرَاءِ قَالَ: " وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ " یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے شراب، میسر، کوبہ، غبیراء اور تمام نشہ آور چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں۔ اور "  عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ الأَشْعَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي: سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ " یعنی میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فرج، ریشم، شراب اور معازف کو حلال کر لیں گے۔ اور "  عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ، يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ، وَالْمُغَنِّيَاتِ، يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ، وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ» " مندرجہ بالا احادیث میں "معازف" سے مراد آلات لہو میں سے ایک آلہ ہے، بعض لوگوں کا قول ہے کہ معازف ملاہی کی آواز کو کہتے ہیں۔ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے جوہری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ معازف سے مراد غناء ہے، اور حواشی الدمیاطی میں ہے کہ معازف دفوف وغیرہ کو بولتے ہیں جنہیں بجایا جاتا ہے اور اس کا تعلق غناء سے ہے۔ اسی طرح "کوبہ" طبل کو کہتے ہیں جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیہقی والی حدیث میں مروی ہے۔ "غبیراء" کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اسے ضنبور، بعض عود، بعض بربط بتاتے ہیں لیکن ابن عربی ط کا قول ہے کہ "کوبہ" نرد کو بولتے ہیں (تفصیل کے لئے عون المعبود للعظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ ج نمبر 4 ص 436 ملاحظہ فرمائیں)
[7] تغبیر اور مغبرہ صوفیاء کی مخصوص اصطلاح ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ صوفیاء اللہ تعالیٰ کے ذکر و تہلیل کے لئے مختلف النوع آوازین بلند کرتے ہیں مثلا ہو حق، حق باہو، بے شک باہو وغیرہ کی ضربین۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ صوفیاء اس غابرہ کی وجہ سے انسانوں کو رغبت دلاتے ہیں حالانکہ انسانوں کو آخرت کی ترغیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسنون طریقہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ و ارشادات اور رقائق مباحہ کے ذریعہ دلانی چاہئے۔
[8] کذا فی تلبیس ابلیس لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ مترجم ص 298
[9] ایضا ص 299
[10] یہ متفق علیہ حدیث کا ایک قطعہ ہے۔
[11] یہ ایک صحیح حدیث کا قطعہ ہے جسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ مکمل حوالہ جات ان شاءاللہ آگے پیش کئے جائیں گے۔
[12] اہل تصوف راگ و قوالی سن کر اس قدر سرور میں آتے ہیں کہ ان میں سے کچھ پر "وجد" اور "حال" کا ہذیانی دورہ پڑ جاتا ہے، اور کچھ اٹھ کر ناچنے لگتے ہیں۔ علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ان رقاص کے متعلق فرماتے ہیں: "پھر جب ان کو کامل سرور ہوتا ہے تو رقص کرتے ہیں" (تلبیس ابلیس مترجم ص 326) اور "جب کہ صوفیہ میں بحالت رقص خوب طرب قرار پکڑتا ہے ان میں سے ایک کسی بیٹھے ہوئے کو کھینچ لیتا ہے کہ اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو اور ان کے مذہب میں یہ بات جائز نہیں کہ جس کو کھینچا جائے وہ بیٹھا رہے۔ جب وہ کھڑا ہوتا ہے تو اس کی پیروی میں باقی لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔" (ایضا ص 328) نیز فرماتے ہیں: بعض مشائخ نے مجھ کو غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے خبر پہنچائی ہے کہ انہوں نے کہا رقص ایک حماقت ہے دونوں شانوں میں جو بغیر تھکن کے زائل نہیں ہوتی۔ ابن عقیل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ قرآن میں قطعی طور پر رقص سے ممانعت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا... ٣٧﴾... الإسراء " یعنی زمین پر خوش ہوتا ہوا اکڑ کر نہ چل۔ اللہ تعالیٰ نے مختال یعنی اترا کر چلنے والے کی مذمت فرمائی اور رقص نہایت ہی خوشی اور اترانا ہوتا ہے۔۔۔کیا تم پسند کرتے ہو کہ جس شخص کے سامنے موت اور سوال قبر اور حشر اور صراط ہوں پھر اس کا ٹھکانا بہشت و دوزخ میں سے کوئی ایک جگہ ہو وہ رقص سے یوں اچھلے کودے جیسے چوپائے اچھلتے ہیں الخ۔" (ایضا ص 327) صوفیاء کے وجد و حال کے متعلق آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: "جب یہ لوگ راگ سنتے ہیں تو وجد کرتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں، شور مچاتے ہیں اور کپرے پھاڑتے ہیں، حالانکہ یہ سب ان کو ابلیس نے فریب دیا ہے، اور اپنا حیلہ کمال کو پہنچا دیا ہے۔" (ایضا ص 320) اور "پھر جب لاہل تصوف راگ سن کر سرور میں آتے ہیں تو تالیاں بجاتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت ابن بنان وجد کرتے تھے اور حضرت ابوسعید الخزاز تالیاں بجاتے تھے (میں کہتا ہوں کہ) تالیاں بجانا برا اور منکر ہے جو طرب میں لاتا ہے اور اعتدال سے باہر کر دیتا ہے۔ اہل عقل ایسی باتوں سے دور رہتے ہیں، اور ایسا کرنے والا مشرکین کے مشابہ ہے، جیسا کہ ان کا فعل بیت اللہ کے پاس آ کر تالیاں بجانا تھا۔ اسی کی مذمت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے: ﴿وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ... ٣٥﴾...الأنفال(امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا کہ نیز اس میں عورتوں سے مشابہت ہے اور عاقل آدمی اس بات سے پرہیز کرتا ہے کہ وقار کو چھوڑ کر مشرکین اور عورتوں کی حرکتیں کرے ۔"(ایضا ص 325) ابن عقیل رحمۃ اللہ علیہ سے ان لوگوں کے وجد کرنے اور کپڑے پھاڑنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو جواب دیا کہ خطاء حرام ہے۔" (ایضا ص 329) امام ابن الجوزی فرماتے ہیں: "یہ طرب اور سرور جس کو اہل تصوف وجد کہتے ہیں۔ اگر اس میں صادق ہیں تو طبیعت پر نشہ غالب ہو گیا اور اگر کاذب ہیں تو باوجود ہوش میں ہونے کے مال ضائع کرتے ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں سلامتی نہیں اور شک و شبہ کے مقام سے بچنا واجب ہے۔" (ایضا ص 329)
[13] اس حدیث کو ابوداؤد نے اپنی "سنن" میں اور ابوبکر الخلال نے اپنی "جامع" میں بوجودہ متعدد روایت کیا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی "مسند احمد" ج2، ص 8، 38 میں اس کی تخریج باسناد حسن کی ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے "مجموع الفتاویٰ" ج 20، ص 212 میں اس کو ذکر کیا ہے۔ لیکن امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ: "ہپ حدیث منکر ہے۔" شارح سنن ابوداؤد علامہ ابی الطیب شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں: "اس کی نکارت کا سبب معلوم نہ ہو سکا۔ کیونکہ اس حدیث کے تمام رواۃ ثقہ ہیں۔ نیز یہ روایت اس باب میں وارد ثقات کی عمومی روایات کے خلاف بھی نہیں ہے۔" (عون المعبود ، ج4، ص 434) علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے "تخریج المشکاۃ" میں حدیث 4811 کے تحت اس پر کلام کیا ہے۔
[14] علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: آلاتِ ملاہی کے ساتھ اور آلاتِ ملاہی کے بغیر غناء سننے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ جمہور اس کی تھریم کی طرف گئے ہیں، لیکن اہل مدینہ اور ان کی موفقت کرنے والے علمائے ظاہر اور صوفیہ کی جماعت نے سماع، غناء اور عود وغیرہ جلانے کی رخصت فرمائی ہے" (نیل الاوطار للشوکانی و عون المعبود للعظیم آبادی ج4، ص 436) علامہ شوکانی نے اس ضمن میں ہر دو فریق کے تمام دلائل کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے اور بحث کے اختتام پر فرماتے ہیں: "ان تمام دلائل کے مطالعہ سے کم از کم یہ تو پتہ چلتا ہے کہ یہ فعل محلِ نزاع ہے۔ اگر یہ حرام نہ ہو تو بھی اشتباہ کے دائرے سے خارج نہیں ہے۔" (ایضا) غناء کے بارے میں ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام مالک کا مسلک اپنے فتویٰ میں آگے بیان کیا ہے، جو مختصرا اس طرح ہے: "عبداللہ بن احمد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ اسحق بن عیسیٰ نے کہا میں نے مالک بن انس سے اس غناء کی نسبت سوال کیا، جس کی اہل مدینہ اجازت دیتے ہیں، تو آں رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ یہ فعل فاسقوں کا ہے۔ ابوبکر الطرطوشی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تحریم السماع کے خطبہ میں اور ابوالطیب طبری بیان کرتے ہیں: "امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے راگ اور اس کے سننے سے منع کیا ہے اور کہا کہ اگر کسی نے لونڈی کو خریدا اور اس کو گانے والی پایا تو اس عیب کی وجہ سے اس کا مشتری کو لوٹا دینا جائز ہے۔" (کذا فی اغاثۃ اللہفان لابن قیم وتلبیس ابلیس لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ مترجم ص 299، و عون المعبود للعظیم آبادی ج4، ص 437) غناء کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی بابت علامہ شمس الحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ غناء کو مکروہ اور گناہ قرار دیتے ہیں اور یہی مذہب تمام اہل کوفہ یعنی سفیان الثوری رحمۃ اللہ علیہ، حماد رحمۃ اللہ علیہ، ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ وغیر کا بھی ہے۔ اس کے مکروہ اور ممنوع ہونے کے بارے میں اہل بصرہ کے مابین بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔" (ایضا) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "ادب القضاء" میں فرماتے ہیں: "غناء بے شک لہو، مکروہ اور باطل چیز کے مشابہ ہے۔" آپ کے اصحاب، جو آپ کے مسلک سے بخوبی واقف ہیں مثلا قاضی ابی الطیب طبری رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الصبا وغیرہ نے اس کی تحریم کی صراحت کی ہے اور جس نے ان کی نسبت اس کی حلت بیان کی ہے، ان کا رد کیا ہے۔ حسن بن عبدالعزیز الجروی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: " میں نے محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کو کہتے ہوئے سنا کہ "میں عراق میں ایک چیز چھوڑ آیا ہوں جسے زندیقوں نے نکالا ہے اور اس کا نام تغبیر رکھا ہے۔" ابن الجوزی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب "ادب القضاء" میں قطعی طور سے کہا ہے کہ جو آدمی راگ سننے پر مداومت کرے اس کی شہادت مردود اور عدالت باطل ہے۔"(ایضا) اور غناء کے متعلق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ ان کے زمانے کا غناء زہدیہ قصیدے تھے، جن کو لوگ الحان سے پڑھتے تھے، لیکن غناء کے متعلق ان کے فرزند عبداللہ آں رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ "غناء دل میں نفاق اگاتا ہے، مجھ کو اچھا معلوم نہیں ہوتا۔" اسماعیل بن اسحاق ثقفی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے کسی شخص نے قصیدے سننے کی بابت سوال کیا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا "میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ یہ بدعت ہے۔ ایسی مجلس میں نہ بیٹھنا چاہئے۔ (ایضا) قاسم بن محمد سے کسی نے غناء کے متعلق پوچھا تو آپ نے جواب دیا: "میں تم کو غناء سے منع کرتا ہوں اور تمہارے لئے برا جانتا ہوں،" وہ ولا" کیا بھلا غناء بھی حرام ہے؟" قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: "اے برادر زادے! جب اللہ تعالیٰ نے حق و باطل میں تمیز کر دی، تو غناء کو کس میں داخل رکھو گے؟ شعبی نے فرمایا کہ "گانے والے اور گوانے والے دونوں پر لعنت ہے۔" ایسا ہی ایک حدیث میں مروی بھی ہے، لیکن امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اور زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا ہی فرمایا ہے لیکن سیوطی نے سکوت اختیار کیا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں اسنی المطالب للحوت ص 250، مقاصد الحسنہ للسخاوی ص 335، تمیز الطیب للشیبانی رحمۃ اللہ علیہ ص 1147، کشف الخفاء للعجلونی رحمۃ اللہ علیہ ج2، ص 186، اسرار المرفوعہ للقاری رحمۃ اللہ علیہ، ص 185، مصنوع ھدیث 240 اور درد المنتشرہ للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ حدیث 340 وغیرہ۔ ابوحفص عمر بن عبیداللہ ازدی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کے اتالیق کو تحریر کیا کہ "تمہاری تعلیم میں سے پہلا عقیدہ ان لوگوں کا یہ ہونا چاہئے کہ لہو کی چیزوں سے سخت نفرت رکھیں۔ لہو کی چیزوں کا آغاز شیطان کی طرف سے ہے اور انجام اس کا خدا کی ناراضی ہے میں نے علمائے ثقات سے سنا ہے کہ باجوں کی محفل میں جانا اور غناء کا سننا اور ان کا دلدادہ رہنا دل میں نفاق اُگا دیتا ہے جس طرح گھاس کو پانی اُگاتا ہے۔" فضیل بن عیاض کا قول ہے: "غناء زنا کا منتر ہے۔" ضحاک کا قول ہے: " غناء دل کو خراب اور خدا کو ناراض کرتا ہے۔" یزید بن ولید نے کہا: "اے بنی امیہ! تم غناء سے دور رہو، کیونکہ غناء شہوت کو بڑھاتا ہے اور آدمیت کی بنیاد ڈھاتا ہے، شراب کا قائم مقام ہے اور نشہ کا عمل کرتا ہے۔" امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غناء اعتدال سے خارج کر دیتا ہے اور عقل میں تغیر لاتا ہے۔ توضیح اس کی یہ ہے کہ انسان جب طرب و نشاط میں آتا ہے تو باوجود صحت ہوش و حواس کے ایسی حرکتیں کر گزرتا ہے، جو بُری معلوم ہوتی ہیں مثلا سر ہلانا، تالی بجانا۔، زمین پر پاؤں ٹپکنا وغیرہ جو رکیک عقل والے کرتے ہیں اور راگ ایسی حرکتوں کا باعث ہوتا ہے۔ الخ" ابو عبداللہ بن بطہ عکبری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:"مجھ سے ایک شخص نے غناء سننے کی نسبت سوال کیا میں نے اس کو منع کیا اور بتایا کہ غناء کو علماء بُرا سمجھتے ہیں اور بے وقوف لوگ اچھا جانتے ہیں۔ ایک گروہ اس حرکت کے مرتکب ہیں جن کو صوفیاء کہتے ہیں۔ اہل تحقیق نے ان کا نام احمق، برے لوگ، کم ہمت والے، بدعت کے طریقوں والے، رکھا ہے یہ لوگ زُہد کا اظہار کرتے ہین اور ان کی سب باتیں تیرہ دلی کی ہیں۔ امید و بیم سے آزاد ہو کر شوق و محبت کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ نامردوں اور عورتوں کا گانا سُن کر طرب میں آ جاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں۔ بے ہوش اور مردہ بن جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شدتِ محبت اور کثرتِ شوق میں ان کا یہ حال ہو گیا ہے۔ نعوذباللہ" اور امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "غناء میں بعض خواص مضمر ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ غناء دل کو لہو میں مشغول کرتا ہے۔ اس کو فہم قرآن اور اس پر تدبر کرنے نیز اس پر عمل کرنے سے روکتا ہے۔ قرآن اور غناء ایک دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قرآن اتباعِ ہویٰ سے روک کر شائستگی، وقار اور عفت کا حکم دیتا ہے۔ برخلاف اس کے غناء ان باتوں کا حکم دیتا ہے جو اس کے خلاف ہوں ان کی تحسین کرتا اور نفوس کو شہوات کی جانب مائل کرتا ہے۔ بعض عارفین کا قول ہے کہ سماع کسی قوم میں نفاق، عناد، تکذیب، فجور، غیر محرم عورتوں سے عشق اور فواحش کو پسندیدہ بنا دیتا ہے، دل پر قرآن کو اس طرح بھاری کر دیتا ہے کہ اس کی تلاوت اور اس کے سننے سے کراہت پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کا راز یہ ہے کہ بے شک غناء شیطان کا قرآن ہے۔ چنانچہ غناء اور رحمن کا قرآن ایک دل میں کس طرح جمع ہو سکتے ہیں۔" وغیرہ (تفصیل کے لئے تلبیس ابلیس لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ مترجم ص 302-306، عون المعبود للعظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ، ج4 ص 435-436 اور اگاثۃ اللہفان لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[15] اس حدیث کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بھی روایت کیا ہے جس کی تخریج امام ابوداؤد نے اپنی "سنن" (مع عون المعبود ج4، ص 435) میں اور ابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ نے "ذم الملاہی" (حدیث 12،13 میں مرفوعا و موقوفا ہر دو طرح کی ہے۔ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تخریج بطریق مسلمہ بن علی حدثنا عمر مولیٰ غفرہ عن انس مرفوعا اس طرح کی ہے: " الغناء يورث النفاق فى القلب كما بنيت الماء البقل والذى نفسى بیدہ ؐن القرآن  والذكر لينبتان الإيمان فى القلب كما ينبت الماء العشب " امام ابن حجر نے اس کی تخریج کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: "اس کو بیہقی نے بھی موقوفا روایت کیا ہے اور اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایک حدیث مروی ہے جس کو ابن عدی نے روایت کیا ہے۔ "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تخریج دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان الفاظ کے ساتھ کی ہے: " حب الغناء ينبت النفاق فى القلب كما ينبت الماء الزرع" علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "جامع الصغیر" میں ابن مسعود والی حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اسی طرح بھی روایت کیا ہے۔ " الغناء ينبت النفاق فى القلب كما ينبت الماء الزرع" اس کی تخریج امام بیہقی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے لیکن امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ضعف کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ علامہ مناوی فرماتے ہیں: "اس کو ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور دیلمی رحمۃ اللہ علیہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ابن قطان فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کی توقیر کی ہے۔ علامہ عراقی فرماتے ہیں اس کو مرفوع کرنا غیر صحیح ہے کیونکہ اس کی اسناد میں مجہول الاسم رواۃ موجود ہیں۔ علامہ مناوی مزید فرماتے ہیں: "اس کی اسناد میں علی بن حماد ہے جسے دارقطنی نے متروک بتایا ہے۔ ایک دوسرا راوی عبداللہ بن عبدالعزیز بن ابی رواد ہے جس کے متعلق ابوحاتم کا قول ہے کہ اس کی احادیث منکر ہوتی ہیں اور ابن جنید کا قول ہے کہ وہ ایک کوڑی کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس کا تیسرا راوی ابن طہمان یعنی ابراہیم بن طہمان مختلف فیہ ہے۔" علامہ عبدالقادر احمد عطا مرحوم فرماتے ہیں: " ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کا مرفوعا کے مقابلہ میں موقوفا روایت کرنا زیادہ صحیح ہے۔ ابن صصری رحمۃ اللہ علیہ نے "امامى" میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کی تخریج تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ یوں کی ہے: إياكم و سماع المعازف والغناء  فإنهما ينبتان النفاق فى القلب كما ينبت الماء البقل" علامہ محمد اسماعیل عجلونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "ابن الخرس کا قول ہے کہ ابو حامد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے فضیل بن عیاض کی طرف منسوب کیا ہے۔" حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ "اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں: "اس حدیث کو ابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "ذم الملاہی" میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے، لیکن اس کا موقوفا روایت کرنا زیادہ صحیح ہے مزید تفصیل کے لئے اسنی المطالب للحوت بیرونی رحمۃ اللہ علیہ ص 211، کتاب الادب والزہد ص 254، جامع الصغیر للسیوطی، حدیث 5809-5810، ضعیف الجامع الصغیر للالبانی، حدیث 3940، 3941، جامع الکبیر حدیث 11383، 11384، مقاصد الحسنہ للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ، ص 296، تمیز الطیب للشیبانی رحمۃ اللہ علیہ، ص 126، کشف الخفاء للعجلونی ج2، ص 103، 104، تخریج المشکاۃ المصابیح للالبانی حدیث 4810، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی حدیث 2430، الاسرار المرفوعہ للقاری ص 164، درد المنتشرہ للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ حدیث 307، تذکرۃ الموضوعات للزرکشی رحمۃ اللہ علیہ ص 62، فواعد المجموعہ للشیوکانی رحمۃ اللہ علیہ ص254، ذم الملاہی لابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ حدیث 12،13، فیض القدیر للمناوی رحمۃ اللہ علیہ ج4، ص 413، نیل الاوطار للشوکانی رحمۃ اللہ علیہ، ج8، ص 98، کف الرعاع لابن حجر ص 270، ہذا حلال و ہذا حرام للعطاء رحمۃ اللہ علیہ، ص 204، اللماز علی الغمار للسمہودی رحمۃ اللہ علیہ ص 154-155، احیاء العلوم الدین للغزالی، ج2، ص 283، تلبیس ابلیس لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ مترجم ص 303، سنن ابوداؤد، مع عون المعبود للعظیم آبادی ، ج4، ص 435، 436، التلخیص الحبیر لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ، ج4، ص 199 اور اغاثہ اللہفان لابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[16] عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں: "میں نے والد کو کہتے ہوئے سنا کہ قطان کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص ہر رخصت پر عمل کرنے لگے یعنی اہل کوفہ کی نبیذ کے بارے میں، اہل مدینہ کی سماع کے بارے میں اور اہل مکہ کی متعہ کے بارے میں تو وہ یقینا فاسق ہو جائے گا۔" اسی طرح سلیمان التیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اگر تو تمام دنیا کی رخصت یا ذلت کو اپنانے لگے، تو تیرے اندر تمام شر جمع ہو جائے گا۔ (کذا فی اغاثۃ اللہفان لابن القیم رحمۃ اللہ علیہ و عون المعبود للعظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ، ج4، ص 437 وغیرھا)
[17] کذا فی اغاثۃ اللہفان لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ و عون المعبود للعظیم آابادی رحمۃ اللہ علیہ، 4، ص437
[18] وکذا فی تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری رحمۃ اللہ علیہ، ج2، ص 170 وغیرھا۔
[19] یہاں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے " قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم :أعلنوا  هذا النكاح واجعلوه فى المسجد واضربوه عليه بالدفوف" (جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، مع تحفۃ الاوحوذی ج2، ص 170) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نکاح کا اعلان کرو، اس کو مساجد میں منعقد کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ۔" لیکن اس حدیث کے متعلق خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس کی اسناد میں راوی عیسیٰ بن میمون ضعیف ہے۔ رواۃ پر جرح اور تصنیفِ حدیث کی تفصیل کے لئے راقم کے مضمون "شادی بیان کی تقریبات کی ضمن میں ایک اصلاحی تحریک کا جائزہ" (طبع در ماہنامہ "محدث" لاہور، ج17، عدد شمارہ 9-11، بمطابق ماہ مئی تا جولائی 1987ء) کی طرف رجوع فرمائیں۔ نکاح اور ولیمہ کے موقع پر دف بجانے کی رخصت بعض اور کتب احادیث میں بھی مروی ہے۔ مثلا صحیح البخاری مع فتح الباری، ج9، ص 202، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی، ج72، ص 170، سنن نسائی رحمۃ اللہ علیہ مع تعلیقاتِ سلفیہ ج2، ص 80، سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب 21، مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ، ج3، ص 418، ج4 ص 77، مسند طیالسی رحمۃ اللہ علیہ ، حدیث 1221، سنن الکبریٰ للبیہقی رحمۃ اللہ علیہ، ج7 ص 390، مجمع الزوائد للہیثمی رحمۃ اللہ علیہ، ج4، ص 288 و کذا فی المغنی لابن قدامہ ج6، ص 538 وغیرہ۔
[20] وکذا فی تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری رحمۃ اللہ علیہ ، ج2، ص 170
[21] امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ: تابعین کی ایک جماعت دفوں کو توڑ دیا کرتی تھی۔ حالانکہ اس وقت ایسے دف نہ تھے جیسے آج کل ہیں۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: "پیغمبروں کی سنت میں سے دف کسی چیز میں داخل میں داخل نہیں ہے۔ ابوعبید قاسم بن سلام نے کہا کہ صوفیاء میں سے جو دف کو جائز رکھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجت لاتے ہیں وہ خطاء پر ہیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک ا اس کے معنی یہ ہیں کہ نکاح کا اعلان ہو، سب میں اس کا شعور مچ جائے اور لوگوں میں اس کا چرچا ہونے لگے۔" (تلبیسِ ابلیس لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ مترجم ،ص 308)
[22] "مسائل امام احمد روایہ ابن ہانی النیسا بوری" بتحقیق استاذ زہیر الشاویش، ج2، ص 74، طبع المکتب الاسلامی بدمشق۔
[23]اس کی تخریج امام حاکم نے بطریقِ اسحٰق بن ابی طلحہ عن انس رضی اللہ عنہ  یہ کی ہے، لیکن امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس پر "حسن صحیح غریب" ہونے کا حکم لگایا ہے۔ تفصیل کے لئے تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری رحمۃ اللہ علیہ، فتح الباری لابن حجر ج7، ص 261-262 اور تخریج مشکوٰۃ المصابیح للالبانی حدیث 6039 وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک اور حدیث میں مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قدوم فرمایا تو وہاں کے بچے ، بچیاں اور عورتیں یہ اشعار پڑھ رہی تھیں " طلع البدر علينا من ثنيات الوداع  زحب الشكر علينا ما دعا لله داع " ابوحامد غزالی اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ: "عورتیں اور لڑکیاں ان اشعار کو خوش الحانی سے گا رہی تھیں اور ساتھ میں دف بجا رہی تھیں۔" لیکن اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ جیسا کہ حافظ عراقی نے تخریج الاحیاء میں اشارہ کیا ہے: " وليس فيه ذكر للدف والإلحان كما أورده الغزالى" فی نفسہ یہ دوسری روایت بھی "ضعیف" بلکہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں "معضل" ہے۔ اس کی تخریج ابوسعید نے "شرف المصطفیٰ" میں ابوالحسن الخلعی رحمۃ اللہ علیہ نے "فوائد" ج2، ص 59 میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے "دلائل النبوۃ" ج2 ص 233 میں کی ہے۔ حافظ عراقی  رحمۃ اللہ علیہ نے تخریج الاحیاء، ج2، ص 244میں۔ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ ج5، ص 23 میں۔ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے تلبیس ابلیس (ص 251 (عربی بتحقیق خیر الدین وانلی) میں۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد ج3، ص 13 میں۔ خضری نے نور الیقین ص 86 میں۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث القصاص ص، 63-64 میں۔ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری، ج7، ص 262 اور محمد ناصر الدین الالبانی نے سلسلۃ احادیث الضعیفۃ والموضوعۃ، ج2 ص 63 پر اس کو وارد کیا ہے۔
[24] اس حدیث کو ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "صحیح" میں ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "سنن" میں، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "جامع" میں اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "مسند" میں روایت کیا ہے۔ ابن قطان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ: "میرے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے ضعف کا سبب علی بن حسین بن واقد ہے۔ لیکن ابوداؤد کی سند میں یہ راوی موجود نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: سنن ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ مع عون المعبود، ج، ص 225، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی، ج4، ص 216، 217 اور مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ، ج5، ص 353-356 وغیرہ۔
[25] امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ: "ابوعبدالرحمن السلمی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب موسوم بہہ سنن الصوفیہ تصنیف کیا ہے۔ آخر کتاب میں اس عنوان کا باب باندھا ہے۔ باب ان چیزوں کے بیان میں جن کے لئے صوفیہ کے نزدیک رخصت ہے۔ اس باب میں غذا اور اچھی صورت کا دیکھنا بیان کیا ہے (تلبیس ابلیس، لابن الجوزی (ص 334، مترجم) اور محمد بن ناصر الحافظ ہمارے شیخ نے بیان کیا ہے کہ ابن طاہر المقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں اَمردوں کو لکھنے کا جواز لکھا ہے۔ مصنف (ابن الجوزی) نے جس شخص کی شہوت اَمرد کی طرف دیکھنے میں حرکت میں آئے تو اس کو دیکھنا حرام ہے اور جب انسان یہ دعویٰ کرے کہ خوبصورت اَمرد کے دیکھنے سے اس کی شہوت کو جوش نہیں آتا، تو وہ جھوٹا ہے۔" (ایضا ص 335) ابوالطیب الطبری نے ہم سے بیان کیا کہ اس قوم کی نسبت جو راگ سنتی ہے مجھ کو خبر ملی ہے کہ یہ لوگ سماع کے ساتھ اَمرد کی طرف نظر کرنے کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں اور بسا اوقات اَمرد کو زیورات اور رنگین کپڑوں اور زریں لباس سے آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں اور گمان رکھتے ہیں کہ یہ حرکت عین ایمان ہے اور امرد کو دیکھنے سے عبرت حاصل ہوتی ہے اور صنعت سے صانع پر استدلال لانا ہے۔ حالانکہ ان باتوں میں نہایت ہی خوہشِ نفسانی کا بندی ہونا عقل کو فریب دینا اور علم کے خلاف کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿٢١﴾ ... الذاريات " یعنی اللہ تعالیٰ کی آیتیں خود تمہاری ذاتوں میں موجود ہیں کیا تمہیں نظر نہیں آتا۔ جس چیز سے عبرت حاصل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اس کو چھوڑ کر یہ لوگ اس میں پڑ گئے جس سے منع فرمایا۔ اور اصل یہ ہے کہ اس گروہ کے لوگ فقط عمدہ عمدہ غذائیں اور لذیذ کھانے کھا کھا کر مذکورہ حرکتیں کرتے ہیں۔ جب غذاؤں سے ان کے جی خوب بھر جاتے ہیں تو ناچ اور راگ اور خوب صورت اَمردوں کو دیکھنا اس قسم کی خاہشوں میں پڑ جاتے ہیں۔" (ایضا ص 337-338)