اشتراکیت کی درآمد قرآن کے جعلی پرمٹ پر
پاکستان کی مذہبی فضا میں غلام احمد پرویز ایک ایسی شخصیت واقع ہوئے ہیں جس نے اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش میں مغربی افکار و کردار کو اصل قرار دے کر قرآن کے نام پر اجتہاد کی قینچی سے اسلام کی کتربیونت میں وہ کچھ کیا ہے جو پاکستان میں کوئی اور شخص نہیں کر سکا۔ یہاں تک کہ اشتراکیت کو من و عن قبول کر کے، اسے عین اسلام ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کو جس طرح عمر بھر تکتہ مشق بنائے رکھا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ پرویز صاحب نے مارکسزم کو قرآن کریم کے جعلی پرمٹ درآمد کرنے کے لئے جو پاپڑ بیلے ہیں اور جو اشتراکیت کو بہا لانے کے لئے قرآنی تعلیمات میں مسخ و تحریف کی راہ میں جو کوہ کنی کی ہے، پروفیسر محمد دین قاسمی صاحب نے اس کا خوب جائزہ لیا ہے، انہوں نے اس طویل جائزے میں اس امر کو بے نقان کر دیا ہے کہ پرویز صاحب نے کس طرح تصریفِ آیات کے نام پر صرفِ آیات سے کام لیا ہے اور محاورات عرب کی پابندی کے التزام کا دعویٰ کر کے کس طرح اس سے گریز کیا ہے اور قرآنی الفاظ کے قطعی ہونے کی دہائی دے کر کس طرح ان الفاظ میں اپنے خود ساکتہ معانی داخل کئے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے یہ جائزہ منکرینِ حدیث کی مخصوص ذہنی ساخت کے پیشِ نظر صرف قرآن کریم کی روشنی میں لیا ہے۔ اس ماہ سے ہم ماہنامہ "محدث" میں اس جائزے لے کر بالاقساط پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)ملکیتِ ارضی۔۔۔اور۔۔۔قرآن مجید
پرویز صاحب بغیر کسی حجاب و ہچکچاہٹ اور شرم و حیا کے برملا یہ کہتے ہیں کہ "جہاں تک کمیونزم کے معاشی نظام کا تعلق ہے وہ قرآن کے تجویز کردہ معاشی نظام کے متماثل ہے۔" (نظامِ ربوبیت، ص 358)
چونکہ کمیونزم کو افراد کی ذاتی ملکیت کا وجود مسلم نہیں ہے۔ اس لئے اگر قرآن کا معاشی نظام اور کمیونزم کا معاشی نظام باہم متماثل ہیں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اسلام شخصی ملکیت کا قائل ہو۔
چنانچہ پرویز صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:
" ألأرض لله " کہنے سے مقصود، خدا کی شانِ ملکوتی کا اظہار نہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ زمین کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی، ایسا نہ سمجھنا (یعنی کسی انسان کو ذمین کے رقبے کا مالک قرار دینا) کفر ہے، شرک ہے۔" (نظام، ربوبیت، ص280-281)
"زمین پر کسی شخص کی انفرادی ملکیت قائم نہیں ہو سکتی۔" یہ وہ بات ہے جسے پرویز صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں بتکرارِ بسیار دہرایا ہے۔ ملکیتِ زمین کے مسئلہ میں مابہ النزاع چیز یہ نہیں ہے کہ اس کا اصل مالک خدائے قدوس یا انسان ہے؟ (ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ زمین کیا کائنات کی ہر چیز حتیٰ کہ خود انسان اور اس کی ہر چیز بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے) اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ آیا اللہ کے حکم کے تحت، خدائی قانون کی رُو سے، کوئی شخص، اللہ کی عطاء و عنایت سے بھی زمین کا مالک ہو سکتا ہے یا کہ نہیں۔ جناب پرویز صاحب کے نزدیک وسائل پیداوار خواہ بصورتِ زمین ہوں یا بصورتِ سرمایہ، فطری ہوں یا مصنوعی، کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہو سکتے۔
"قرآن کریم کسی کے پاس فاضلہ دولت رہنے نہیں دیتا اور وسائل پیداوار پر (خواہ وہ فطری ہوں یا مصنوعی) کسی کی ذاتی ملکیت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتا۔" (نظامِ وربوبیت ص 23)
اسی بنیاد پر پرویز صاحب ذاتی ملکیت کو کفروشرک قرار دیتے ہیں جیسا کہ پہلے حوالہ گزر چکا ہے۔ چنانچہ وہ ان الفاظِ قرآنی کا کہ’’ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا" کا مفہوم ہی یہ بیان کرتے ہیں کہ:
"کسی کو زمین کا مالک سمجھنا اسے خدا کا شریک بنانا ہے۔" (نظامِ ربوبیت، ص 280)
الارض للہ اور الحکم للہ
الارض للہ کا یہ مفہوم تو ایک متفق علیہ حقیقت ہے کہ زمین بلکہ پوری کائنات کا اصلا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر یہ کہ وہ کسی کو اس کی آزمائش کے لئے عارضی طور پر بھی زمین کے کسی حصے کا مالک نہیں بنا سکتا (یا نہیں بناتا) ہے، خلافِ حقیقت ہے۔ جس طرح قرآن کریم نے " الارض للہ " کہہ کر ملکیت زمین کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے، بالکل اسی طرح وہ أرضنا أرضكم،أرضهم" اور " أموالكم" کے الفاظ سے مال و دولت اور زمین کی ملکیت کو افراد کی طرف بھی منسوب کرتا ہے اور جب کوئی شخص، خدا کی ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے، اسی قوانین کے مطابق زمین پر تصرف کرتا ہے اور خدا ہی کی مقرر کردہ حدود کے اندر ایسا کرتا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے ملکیتِ زمین سے بے دخل کیا جائے۔ اب دیکھئے قرآن نے جس طرح "ألأرض لله " کہا ہے بالکل اسی طرح "ألحكم لله" بھی کہا ہے بلکہ﴿ فَالْحُكْمُ لِلَّـهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ ﴿١٢﴾...غافر " ساتھ ساتھ یہ کہتے ہوئے بھی کہ ﴿وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾...الكهف" قرآن کریم برملا یہ اعلان کرتاہے کہ اللہ تعالے نے جملہ انبیاء کرام’’الحکم‘‘دیا ہے ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ... ٨٩﴾...الأنعام پس جس طرح ’’فالحکم للہ‘‘کی حقیقت قطعیہ کے بعد، خدائے قدوس کا کسی کو اپنے ’’الحکم‘‘ سے سرفراز فرمانا کہ ’’له االحكم لله‘‘ کے منافی نہیں ہے بالکل اسی طرح ’’الارض للہ‘‘ کے ارشاد خداوندی کے بعد ’’ارضہم،ارضکم، اور اموالہم‘‘ وغیرہ کے الفاظ میں مذکور ملکیتِ مال و دولت کو افراد کی طرف منسوب کرنا بھی خلافِ قرآن نہیں ہے۔
الارض للہ کی وضاحت ایک اور مثال سے:
قرآن کریم سے اسی قسم کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے۔قرآن کریم استفہامِ انکاری کے اسلوبِ بیان میں یہ واضح کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی "حکم" نہیں ہے۔﴿ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْتَغِي حَكَمًا ... ١١٤﴾...الأنعام، "پھر کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا حکم تلاش کر لوں۔" اس کے بعد خود ہی ایک اَمرِ خداوندی کو بایں الفاظ پیش کرتا ہے۔
﴿فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا ... ٣٥﴾...النساء (میاں بیوی کے باہمی نزاع کی صورت میں) ایک حکم شوہر کے خاندان میں سے اور ایک حکم بیوی کے خاندان میں سے مقرر کر لو۔"
اب جبکہ قرآن، خود ہی یہ کہہ کر کہ "اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں ہے۔" اہل ایمان کو ایک ازدواجی معاملے میں حکم بنانے میں حکم دیتا ہے، تو اس کا مطلب آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا ہی کے فرمان کے تحت کسی کو حکم بنانا اِس امر کے منافی نہیں ہے کہ "اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں ہے۔" بالکل یہی حال ملکیتِ زمین کا ہے کہ خدا کے اذن و حکم کے تحت کسی شخص کا مالک زمین بن جانا الارض للہ کی حقیقت کے منافی نہیں ہے، کیونکہ قرآن الارض للہ کے اعلان کے ساتھ یہ بھی برملا کہتا ہے کہ:
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ... ٢٩﴾...البقرة
"وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔"
بہرحال، اگر کوئی شخص زمین کی شخصی اور انفرادی ملکیت کے بارے میں پہلے سے اشتراکی نقطہ نظر کو قبول نہ کر چکا ہو، تو الارض للہ کے الفاظ سے وہ مفہوم کشید نہیں کیا جا سکتا جو کیا جا رہا ہے۔
﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ﴿٧١﴾ ...یس
"کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم نے اپنی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے مویشی پیدا کئے ہیں، جن کے یہ لوگ مالک ہیں۔"
جس طرح آج کے دور میں بار برداری کے لئے ٹرک، ٹرالی، ٹریکٹر، مال گاڑیاں، ہوائی اور بحری جہاز ذرائع پیداوار ہیں۔ بالکل اسی طرح دورِ نزول قرآن میں مویشی ذرائع پیداوار میں داخل تھے۔ ان پر شخصی ملکیت کو قرآن نے " فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ " کہہ کر واضح کر دیا ہے۔
پرویز صاحب کے ایک فکری ہمنوا مولانا عمر احمد عثمانی صاحب نے اس آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ:
" فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ " کہہ کر قرآن نے افراد کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ان پر تعریض کی ہے کہ وہ ان مویشیوں کے مالک بن بیٹھے ہیں، جن کو خود انہوں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔"
لیکن یہ تاویل درست نہیں ہے۔ قرآن نے یہاں لوگوں کو ان نعمتوں کی طرف متوجہ کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کی ہیں۔ مویشیوں کو پیدا کر کے ان کو بنی نوع انسان کے لئے مطیع و منقاد کرتے ہوئے ان کی ملکیت میں سونپ دینا خدا کا وہ احسان، انعام اور فضل و رحمت ہے جس پر انسان کو متوجہ الی اللہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت بنی نوعِ انسان کے حق میں تعریض کا پہلو رکھتی ہے یا تحدیثِ نعمت کا۔ خود پرویز صاحب کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے:
"سورۃ یٰسین میں " فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ " کے بعد " وَذَلَّلْنَاهَا " نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مالک وہ ہے، جس کے تابع دوسرا ہو جائے۔" (لغات القرآن، ص 1557)
یہاں بنی نوع انسان کے سامنے جانوروں کو اس طرح تابع قرار دیا گیا ہے کہ وہ ان کی ملکیت قرار پاتے ہیں۔
علاوہ ازیں، قرآن پاک نے غلاموں، لونڈیوں اور دیگر اشیاء کے لئے " مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ "جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے" کے الفاظ بکثرت استعمال کئے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم نے " مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ "جس کا مالک تمہارا داہنا ہاتھ ہوا" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہ الفاظ بجائے خود ذاتی اور شخصی ملکیت پر کھلی دلیل ہیں۔ اسلام نے اس معاملے میں صرف یہ اصلاح فرمائی ہے کہ انسان کے انسانی جان پر حق ملکیت کو ساقط کر دیا ہے، اس کے علاوہ باقی اشیاء پر جن میں پیداوار کے جملہ ذرائع و وسائل بھی شامل ہیں، ذاتی ملکیت کے اصول کو برقرار رکھا ہے۔ واضح رہے کہ کلمہ "مَا" اصلا بے جان اشیاء کے لئے ہی آتا ہے (بجز چند مستثنیات کے) اور کلمہ "من" جاندار اشیاء کے لئے مستعمل ہے۔ اس لئے اب " مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ " کے الفاظ میں انسانی ملکیت کے خاتمے کے بعد دیگر بے جان اشیاء کی ملکیت کا انفرادی حق بہرطور مسلم ہے۔ چونکہ شخصی ملکیت کی یہ بحث آگے بھی آ رہی ہے۔ اس لئے ہم یہاں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
اشیاء مُستعملہ اور ذرائع پیداوار
البتہ ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے، جناب پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
"اگر کسی کا کوئی ترکہ ہو گا تو وہ ان اشیاءِ مستعملہ تک محدود ہو گا، جنہیں حکومت نے ذاتی ملکیت میں رکھنے کی اجازت دے رکھی ہو گی۔" (تفسیر مطالب الفرقان، ج3، ص 84)
میں نے پرویز صاحب کا جملہ لٹریچر پڑھ ڈالا ہے۔ الا ماشاءاللہ، مجھے کسی مقام پر بھی ان کے اس فرق و تفاوت کی کوئی دلیل نہیں مل پائی، جو انہوں نے "اشیاء مستعملہ" اور "ذرائع پیداوار" میں کیا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر وہ اول الذکر کی ذاتی ملکیت کے قائل ہیں اور ثانی الذکر کی شخصی ملکیت کے منکر ہیں۔ قرآن سے اگر ذاتی ملکیت کا اثبات ہوتا ہے، تو یہ اثبات دونوں قسم کی اشیاء پر مشتمل ہے اور اگر بقول پرویز صاحب، قرآن ذاتی ملکیت کی نفی کرتا ہے، تو یہ نفی بھی ان دونوں قسم کی اشیاء کو محیط ہے، شخصی ملکیت کے بطلان پر قرآن سے دلیل کشید کرنا اور پھر اس دلیل میں سے ایک قسم کی اشیاء کو داخل کرنا اور دوسری قسم کی اشیاء کو خارج کرنا قطعی طور پر غیر قرآنی طرزِ عمل ہے، جو قرآن کا نام لے کر اختیار کیا جاتا ہے۔
زمین کی شخصی ملکیت کا وجود عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں:
بہرحال زمین کی شخصی ملکیت کی نفی پر قرآن میں سرے سے کوئی دلیل نہیں ہے، پھر عملا قرآن کی بنیاد پر، جو معاشرہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ میں متشکل ہو چکا تھا۔ اس میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں، جو زمین کی شخصی ملکیت کا منہ بولتا ثبوت ہین مگر میں ان بے شمار واقعات کو صرف اس لئے پیش نہیں کر سکتا کہ پرویز صاحب کی تقلید میں، ان کے مقلدین یہ کہہ دیں گے کہ یہ سب تاریخی واقعات ہیں اور:
"دین میں سند نہ تاریخ کے مشمولات ہیں اور نہ مسلمانوں کے متواتر و متوارث عقائد و مسالک، سند رہے خدا کی کتاب۔" (نظامِ ربوبیت، ص 192)
اس لئے میں اپنے آپ کو مجبور پا رہا ہوں کہ ان بے شمار واقعات سے صرفِ نظر کر لوں۔ تاہم مجھے ان واقعات کو پیش کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے، جو پرویز صاحب کی قرآنی "بصیرت" کی کسوٹی پر پورے اُتر کر ان کی کتب میں استشہادا (نہ کہ تردیدا) جگہ پا چکے ہیں۔
عہدِ نبوی میں زمین کی شخصی ملکیت
غزوہ خیبر میں اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی۔ یہود نے اہل اسلام سے صلح کی درخواست کی۔ جس کے نتیجے میں:
"یہودیوں کی زمین اُن سے لے لی گئی۔ اس زمین کا نصف بیت المال میں تمام ضروریات کے لئے رکھ لیا گیا اور باقی نصف مجاہدین میں برابر تقسیم کر دی گئی۔ پیدل کو ایک (1) حصہ اور سوا دو (2) امیر وقت، امامِ امت، سالارِ جیش (سپہ سالار فوج) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عام مجاہدین کے برابر ایک ہی حصہ ملا۔" (معارف القرآن، ج4، ص565)
پرویز صاحب کا یہ اقتباس اس اَمر کو شک و شبہ سے بالا کر دیتا ہے کہ غزوہ خیبر کے بعد تک اراضی و اموال میں ذاتی ملکیت کا اصول رائج تھا۔ اس بناء پر خیبر کی اراضی کا نصف مجاہدین میں تقسیم کیا گیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ اور زمین کی شخصی ملکیت:
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا جو معاشی نظام قائم فرمایا تھا۔ اس میں افراد کی شخصی ملکیت کا اصول رائج و متداول تھا۔ یہں تک کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اپنی ملکیت میں بھی کچھ اراضی تھی، جسے آپ کی وصیت کے مطابق فروخت کیا گیا اور اس معاوضے کے عوض، جو آپ نے کارِ خلافت سرانجام دیتے ہوئے بیت المال سے وصول کیا، اس قطعہ اراضی کی قیمت داخل بیت المال کر دی گئی۔ خود پرویز صاحب کو بھی ایک مقام پر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں بنی:
"خلافت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے اور اچھے خوشحال تھے، خلافت کی ذمہ داریوں نے آپ کا سارا وقت لے لیا، تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورے سے بیت المال کا وظیفہ لینا قبول کر لیا۔ لیکن وہ اتنا ہی تھا جس میں آپ کا اور آپ کے اہل و عیال کا غریبانہ انداز میں گزارا ہو سکے۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا، تو آپ کو یہ خیال بار بار ستا رہا تھا کہ معلوم نہیں، میں نے مسلمانوں کے بیت المال سے جس قدر لیا ہے، اس کے مطابق ان کی خدمت بھی کر سکا ہوں یا نہیں۔ اس اضطراب کو مبدل بہ سکون کرنے کے لئے انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ ایک مختصر سا قطعہ زمین ان کے پاس ہے، اسے فروخت کر دیا جائے اور جس قدر رقم انہوں نے بیت المال سے لی ہے، اسے واپس کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور وہ اس حساب کو یہیں بے باق کر کے خدا کے سامنے گئے۔" (شاہکارِ رسالت، ص359، ایڈیشن 1987ء)
خلافتِ راشدہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذاتی ملکیتِ اراضی کا یہ واقعہ جس میں ان کی وصیت کے مطابق اسے فروکت کر ڈالنے کا بھی ذکر ہے۔ اسلامی نظامِ معیشت میں زمین کی شخصی ملکیت کا کھلا ہوا ثبوت ہے جس کا انکار کوئی حق پرست شخص نہیں کر سکتا۔ پرویز صاحب کا افراد کی نجی ملکیت کے اصول کی نفی کرنا محض اس لئے ہے کہ وہ بدل و جان اشتراکیت پر ایمان لا چکے تھے۔ پھر اس پیشگی ایمان کے بعد انہوں نے تحریف کی راہ سے اُسے مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہے، جو بالآخر ان کے قلم سے ٹپک پڑی۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر اسلام نے شخصی ملکیت کو ناجائز قرار دیا ہوتا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اپنی ملکیت میں کوئی اراضی رہتی؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین ساتھی اور سب سے زیادہ انہیں ہی صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت حاصل ہوئی پھر وہ مجمع عام میں اپنی زمین کو فروخت کر ڈالنے کی وصیت کرتے ہیں اور کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ جب اسلام میں شخصی ملکیت کا وجود ہی ثابت نہیں، تو آپ کے ہاں یہ اراضی کیسی؟
عہد فاروقی رضی اللہ عنہ اور زمین کی شخصی ملکیت:
عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں بھی لوگوں کو زمین پر شخصی ملکیت کا حق حاصل تھا۔ اس کی دلیل وہ واقعہ ہے جسے پرویز صاحب نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تھا کہ کسی مسلمان کا مال، اس کی رضا مندی کے بغیر نہیں لیا جا سکتا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص نے شکایت کی کہ اس کی زمین تک پانی اس صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ پانی کی نالی فلاں شخص کی زمین میں سے گزرے اور وہ اس کے لئے رضامند نہیں ہوتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ وہ شخص اسے پانی لے جانے دے اور اس کے راستہ میں بالکل مزاحم نہ ہو۔" (طلوعِ اسلام ، جنوری 1971ء)
یہ واقعہ اس حقیقت کو آفتابِ نیمروز کی طرح واضح کر دیتا ہے کہ وہ نہ صرف دورِ نبوت میں بلکہ دورِ خلفائے راشدین میں بھی افراد معاشرہ کو اراضی کی ذاتی ملکیت کا حق حاصل تھا اور اس کا نظامِ معیشت اسی اصل و اساس پر قائم تھا۔ اگر اسلام نے افراد کو یہ حق ملکیت نہ دیا ہوتا اور اراضی ملکیتِ ریاست ہوتی اور اس پر کام کرنے والے کی حیثیت محض سرکاری مزارع کی ہوتی، تو پانی کی نالی نکالنے کا یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا۔ آپ خود سوچئے کہ اگر کسی لینڈ لرڈ کی ملکیت میں دو سو مربع اراضی ہو اور اس پر دو سو مزارع کام کر رہے ہوں تو اس مزارع کو آقائے زمین کی خواہش کی مزاحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے، اگر زمین واقعی کاشتکار کی ذاتی ملکیت میں ہو تو بلاشبہ وہ مزاحم ہو سکتا ہے مگر جب زمین سرے سے اس کی ہے ہی نہیں اور کوئی دوسرا شخص اس کا مالک ہے اور وہ مالک ہی کی حیثیت سے کوئی کھال کیا، نہر بھی کھودنا چاہے، تو مزارع کس طرح مانع و مزاحم ہو سکتا ہے۔ عہدِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ میں ایک شخص کا دوسرے شخص کو اپنی زمین میں سے پانی کا راستہ دینے میں مزاحم ہونا، خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی اراضی کا مالک تھا اس لئے وہ کسی دوسرے کو بذریعہ کھال پانی فراہم کرنے کے لئے اپنی زمین کے نقصان کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اجتماعی مصالح کے پیش نظر ذاتی ملکیت کے اصول کو قربان کئے بغیر مالکِ زمین کو اگر کچھ قربانی و ایثار سے کام لینا پڑے، تو اسے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
عراقی اراضی کے علاوہ دیگر زمینوں کی افراد میں تقسیم:
زمین کے افراد کی شخصی ملکیت میں رہنے کا ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ صدیقی رضی اللہ عنہ میں ہر قسم کا مالِ غنیمت (جس میں مزروعہ اراضی بھی شامل تھی) افراد، معاشرہ یا مجاہدین میں تقسیم کی گئی۔ عہدِ فاروقی میں مخصوص وجہ سے عراقی زمین کی تقسیم عمل میں نہیں آئی، لیکن اس کے علاوہ ہر قسم کی زمین عام اُصولِ اسلام کے مطابق تقسیم ہو کر افراد کی نجی ملکیتوں میں داخل کی جاتی رہی ہے۔ پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
"رسول اللہ اور خلافت صدیقی میں، قانون یہ تھا کہ مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ فتح عراق کے وقت، مالِ غنیمت میں کثیر مزروعہ زمینیں بھی ملیں، سابقہ قاعدہ کے مطابق مطالبہ ہوا کہ انہیں بھی سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ ان زمینوں کی پیداوار پر ساری امت اور آنے والی نسلوں کا دارومدار ہے۔ اس لئے انہیں انفرادی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا۔ یہ مملکت کی تحویل میں رہیں گی۔" (شاہکار رسالت، ص 279)
عہد فاروقی میں صرف عراق کی زمینوں کا تقسیم نہ کیا جانا اور باقی ممالک کی اراضی اور غنائم کا افراد میں تقسیم کیا جانا، خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام نجی ملکیت کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کی معیشت نجی ملکیت کے اصول پر استوار ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، دورِ صدیقی رضی اللہ عنہ اور خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ میں شخصی ملکیت کے اصول کی کارفرمائی کو دیکھتے ہوئے جب ہم ان استدلالات کو دیکھتے ہیں، جو طلوعِ اسلام نے بالعموم اور پرویز صاحب نے بالخصوص " سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ " اور " وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ " کے قرآنی الفاظ سے کشید کئے ہیں، تو ہمیں وہ بیرونی نظریات کو قرآن میں گھسیڑنے کی بھونڈی کوشش دکھائی دیتے ہیں۔ (جاری ہے)