شریعت کی روشنی میں فتح و شکست اور جمہوریت
پاکستان میں 16 اور 19 نومبر 1988ء کو بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مکمل ہوئے۔ ان کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے پر جہاں ملک اور بیرون ملک سے تحسین و آفرین کے پیغامات مل رہے ہیں، وہاں ملک میں جمہوریت کا سہرا لگنے پر مبارک بادیں بانٹی جا رہی ہیں۔ عموما تبصروں میں فتح و شکست کی سیاسی وجوہ پیش کی جا رہی ہیں۔ ہماری نظر میں کامیابی اور ناکامی کے کچھ دوسرے اہم پہلو بھی ہیں اور اسباب و وجوہ کے اسلامی پیمانے بھی جو قرآن کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سامنے آتے ہیں۔ قرآن مجید کوئی اساطیر الاولین (گئی گزری کہانیاں) نہیں، بلکہ دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات پر پیشگی تبصرہ اور مکمل ہدایت ہے۔ علاوہ ازیں شریعت کی نظر میں کامیابی کے اپنے اصول ہیں، جو اللہ کے نزدیک حقیقی فتح و شکست ہے۔ لہذا ہم سطورِ ذیل میں جمہوریت کے بالمقابل وحی الہیٰ کی روشنی میں معاملات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں مدیرِ اعلیٰ "محدث" نے کلیۃ الشریعہ لاہور کی جامع مسجد میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل 18 نومبر کو خطبہ جمعہ دیا جس میں جنگِ حنین کے حوالے سے گفتگو کی اور پھر 25 نومبر کے خطبہ میں سورہ دم کی ابتدائی آیات کی روشنی میں جمہوریت اور انتخابات پر تبصرہ کیا۔ انہی دو خطبوں سے یہ تحریر تیار کر کے فکرونظر کے کالموں میں پیش کی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی خوشیاں نصیب کرے۔ آمین۔۔۔۔۔ادارہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾ فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٤﴾ بِنَصْرِ اللَّـهِ ۚ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴿٥﴾... الروم
"الم، (اہلِ) روم مغلوب ہو گئے۔ نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے، چند ہی سال میں، پہلے بھی اور پیچھے بھی خدا ہی کا حکم ہے اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے (یعنی) خدا کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے۔"
دنیا کے اندر ہمیشہ سے خیروشر، حق اور باطل کی کشمکش چلی آ رہی ہے اور اس سلسلے میں جو نتائج سامنے آتے ہیں، ان کی توجیہات مبصرین اپنے نظریات اور اندازِ فکر سے کرتے رہتے ہیں، لیکن ایک مسلمان کی سوچ ہمیشہ ایسے موقعوں پر قرآن کریم سے روشنی حاصل کرتی ہے۔
میں نے قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد گزشتہ جمعہ قرآن مجید سے ہی جنگِ حنین کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح "تیروں" سے مسلمان ایک دفعہ بدحواس ہوئے، لیکن اس کے بعد جب انہوں نے اپنی غلطی کا احساس کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُسی تیر انداز قوم کو شکست دے کر مسلمانوں کو فتح نصیب کر دی۔
آج اسی سلسلے میں قرآن کریم سے سورہ روم کی ابتدائی آیات تلاوت کی ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے روم اور فارس کی جنگ کا ذکر کیا ہے۔ روم میں اس وقت صبائی حکمران تھے جبکہ فارسی، مجوسی (آگ پرست) تھے۔
اس جنگ میں روسیوں کو شکست ہوئی۔ یہ دور نبوت کا آغاز تھا۔ یعنی ابھی بعثت کو پانچ ہی سال ہوئے تھے۔ ابتداء میں مسلمانوں کو بت پرستوں سے واسطہ تھا۔ اس لئے مسلمان خود کو اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے قریب تر سمجھتے تھے کہ ان کے ہاں شریعت کا تصور معروف تھا، لیکن پارسی (آتش پرست) مادی اشیاء کو پوجنے کی وجہ سے بت پرستوں کے قریب تر سمجھے جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ رومیوں کی شکست پر مسلمان بددِل ہوئے اور قریشِ مکہ بغلیں بجانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنی قدرتِ کاملہ کا اظہار کر کے مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ یہ چند سالوں کی بات ہے، عنقریب یہ بے پناہ وسائل رکھنے والے مجوسی (ایرانی) سرنگوں ہوں گے اور اس پر مسلمانوں کو خوشی ہو گی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جب رومیوں کو دس سال کے اندر اندر کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں، تو انہی دنوں بے وسیلہ 313 مسلمانوں کو کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار کافروں پر جنگ بدر میں فتح ہو گئی۔ اس طرح مسلمانوں کو دوھری خوشی نصیب ہوئی اور اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ جنگ حنین میں بھی اول جب مسلمانوں کو یہ زعم تھا کہ وہ آج بارہ ہزار(12000) میں اور کافر صرف پانچ ہزار(5000)۔ اس کا اظہار بھی بعض کمزور مزاج افراد کرنے لگے تو شکست ہو گئی۔ واضح رہے کہ جنگ حنین فتح مکہ سے دو ہفتہ بعد ہوئی تھی اس میں دس ہزار مدینہ سے آنے والے مسلمانوں کے علاوہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والے اور بعض مشرک (صفوان وغیرہ) بھی شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح یہ بارہ ہزار (12000) ہوئے۔ یہ دنیاوی وجاہتوں کا برملا ذکر اللہ کو پسند نہ آیا، تو جب مسلمانوں نے اہل حنین ہوازن پر حملہ کیا، تو ہوازن نے قلعہ بند ہو کر تیر چلائے جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہی مسلمان، جو فتح مکہ سے سرشار ہو کر زمین کی وسعتیں سمیٹ رہے تھے۔ انہیں چھپنے کو جگہ نہ مل رہی تھی کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے چند جانثار ساتھیوں (ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ، عباس رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ اور ابن سعد رضی اللہ عنہ وغیرہ) کے ہمراہ میدانِ جنگ میں رہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں اپنے ساتھیوں کو تسلی دینے کے لئے پُر اعتماد کلمات بھی کہے۔ اسی موقعہ پر یہ شعر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:
أنا النبى لا كذب أنا ابن عبد المطلب
میں بلاشبہ نبی ہوں اس میں کچھ جھوٹ نہیں۔ میں تو عبدالمطلب کا بیٹا ہوں
اس موقعہ پر اپنی اعلیٰ دینی حیثیت نبوت کے اظہار کے علاوہ اپنی خاندانی نجابت کا بھی ذکر کیا۔ تاکہ مسلمانوں کو اس شکست کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی مدد بھی یاد دلائی جائے اور اپنے بارے میں بھی اعتماد دلایا جائے کہ عبدالمطلب قائدِ قریش کے بیٹے ہیں۔ میدان چھوڑ کر بھاگنے والے نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس تنبیہ کے بعد نبی کی اس پکار " إلى عباد الله إنى رسول الله " (اے اللہ کے بندو! میری طرف آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں) پر بکھرے ہوئے مسلمانوں کو پھر جمع کر دیا اور انہوں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے پھر اس زور سے حملہ کیا کہ وہی تیز انداز قوم جنہیں اپنی تیر اندازی پر بڑا مان تھا۔ اس حملہ کی تاب نہ لا کر مغلوب ہو گئے گویا یہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہی تھی جو کامیابی کا سبب بنی۔ کثرتوں ، قلتوں کے پیمانے غلط ثابت ہوئے۔ اسلام میں تو یہ کثرت و قلت کا اصول تسلیم ہی نہیں۔ کیونکہ یہاں جنگ قوتِ ایمانی سے ہوتی ہےاور صحیح ایمان دس گنا کفر سے بھی طاقت ور ہوتا ہے۔ سورۃ انفال کے آخر میں فرمایا:
﴿إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴿٦٥﴾ الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٦٦﴾...الأنفال
"اگر تم میں بیس (20) آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے، تو دو سو (200) کافروں پر غالب رہیں گے اور اگر سو (100) (ایسے) ہوں گے، تو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اس لئے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے۔ اب خدا نے تم پر بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور معلوم کر لیا کہ (ابھی) تم میں کس قدر کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے، تو دو سو (200) پر غالب رہیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے، تو خدا کے حکم سے دو ہزار (2000) پر غالب رہیں گے۔ اور خدا ثابت قدم رہنے والوں کا مددرگار ہے۔"
یعنی یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ سو (100) ایمان والے ہزار (1000) پر غالب رہیں گے، لیکن کمزور ایمان والوں کو بھی حکم دیا کہ کافروں کی دُگنی تعداد کے باوجود میدان چھوڑ کر نہ بھاگیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس تحقیقی حکم میں بھی یہ بشارت موجود ہے کہ ایک سو (100) کا پلہ دو سو (200) پر بھاری رہے گا۔ لہذا جمہوریت کے اصول مسلمانوں پر نہیں چل سکتے، کیونکہ جمہوریت لادینی نظام ہے اس لئے کہ یہاں فیصلے عقیدہ و کردار کی بنیاد پر نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی علم و شعور کا یہاں چال چلن ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب تجزیہ کیا ہے
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
جبکہ قرآن کریم نے بھی اس بالغ رائے دہی کے تصور کی مخالفت کی ہے، ارشاد ہے:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ ... ٩﴾...الزمر
"کہہ دیجئے، بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے، دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔"
اسی بناء پر فرمایا:
﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ ... ١١٦﴾...الأنعام
"اور اکثر لوگ، جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لوگے، تو وہ تمہیں خدا کا رستہ بھلا دیں گے۔"
بلکہ جمہوری نظام میں بظاہر اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی، دوسری پارٹیوں کی مجموعی تعدادِ ارکان سے اقلیت رکھنے کے باوجود حکمران بن جاتی ہے، جو اکثریت کے فیصلے کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ بہرصورت جمہوریت کے برعکس شریعت کی روشنی میں فتح و شکست کے پیمانے مختلف ہیں۔ وہاں پر تعمیرِ کردار پر زور ہے اور اسی کی اہمیت ہے۔ خود تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے اس موقف کو کہ انسانوں کی اکثریت فساد کرے گی اور خون بہائے گی۔ اس دلیل سے رد کیا کہ تم انسانوں کی اکثریت کی بناء پر رائے قائم کر رہے ہو، جبکہ اللہ کے نزدیک تھوڑوں کے بھی اعلیٰ کردار کی اہمیت ہے، چونکہ انسانوں میں صالحین تھوڑے ہو کر بھی زیادہ بھاری ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اپنی کامل علم و حکمت کی بناء پر ہے جس میں اکثریت کے غلط کردار کے علاوہ تھوڑے شکرگزار بندوں کا وزن زیادہ ہے۔ لہذا فیصلہ تخلیقِ آدم کے حق میں ہوا۔ دنیا دارالابتلاء ہے، دارالجزاء نہیں۔ اس لئے انسان من مانی کرتے ہیں اور پھر اس پر دلیر ہوتے ہیں کہ ہماری چل رہی ہے۔ جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ ... ١٧٨﴾...آل عمران
"اور کافر لوگ یہ نہ خیال کریں کہ ہم جو ان کو مہلت دئیے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے (نہیں بلکہ) ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ وہ اور گناہ کر لیں۔"
لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت یوں ہے:
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ ﴿٤٢﴾ فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَـٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿٤٤﴾فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٥﴾...الأنعام
"اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔ پھر (ان کی نافرمانیوں کے سبب) ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں، تو جب اُن پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے مگر ان کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے اور جو کام وہ کرتے تھھے شیطان اُن کو (ان کی نظروں میں) آراستہ کر دکھاتا تھا۔ پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی فراموش کر دیا، تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے۔ یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئی تھیں، خوب خوش ہو گئے، تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے۔ غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریف اللہ رب العالمین ہی کو (سزاوار) ہے۔
حاصل یہ ہے کہ دنیا کے اندر اللہ تعالیٰ بسا اوقات وہ لوگ، جو برے نہیں ہوتے۔ انہیں بھی نیچا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ انعام کی تلاوت شدہ آیات میں ہمارے لئے سبق ملتا ہے۔ ارشاد ہے:
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ ﴿٤٢﴾... الأنعام
"ہم نے قوموں کی طرف، امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔ جب پیغمبر آئے تو ان کے آنے سے بظاہر برکت نہیں ہوئی۔ ان کے آنے کے ساتھ مصیبتیں،آفتیں، تکلیفیں پہنچیں۔"
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ تکلیفیں اس لئے دیں تاکہ یہ دوہری آزمائش ہو جائے، آزمائش ان لوگوں کی جو ایمان لا رہے ہیں، پھر بھی تکلیفوں میں ہیں تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں۔ کیونکہ انبیاء اور نیک لوگوں کی جو دعوت ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے جوڑنے کی ہوتی ہے۔ تکلیف کا اچھا پہلو یہ ہے کہ انسان اس حالت میں رب سے قریب تر ہوتا ہے، لیکن اس سے برے لوگوں کی آزمائش اس طرح ہوتی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نحوست آئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جب سی طرح سے آفتیں آئیں، تو ﴿يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ... ١٣١﴾...الأعراف" انہوں نے کہا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے ساری تکلیفیں آ رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں جو کردار ہونا چاہئے اس کا یوں ذکر کیا ہے:
﴿فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَـٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾...الأنعام
"تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا، کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے، مگر ان کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے اور جو کام وہ کرتے تھے شیطان ان کو (ان کی نظروں میں) آراستہ کر دکھاتا تھا۔"
لیکن اللہ سے غافل لوگوں پر جب تکلیفیں آتی ہیں، تو عاجزی کرنے کی بجائے ان کے دل تنگ ہو جاتے ہیں۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ تکلیفیں اس لئے ہیں کہ ہر طرح کی جائز و ناجائز تدبیریں استعمال کر کے ان کا علاج کریں اور اس وقت وہ اپنی تدبیروں کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں، لہذا وہ تدبیروں کو سب کچھ سمجھتے ہوئے تدبیروں کے اندر دن رات مگن رہتے ہیں اور رب سے غافل ہو جاتے ہیں۔ تدبیر اگرچہ ضروری ہے اور انسان کو تدبیر چھوڑ نہیں دینی چاہئے، لیکن عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ فیصلے تدبیر کے تابع نہیں ہوتے، تقدیر کے تابع ہوتے ہیں، کیونکہ فیصلے اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ جب اللہ کا حکم تدبیروں کے مطابق نہ ہو تو یوں ہوتا ہے کہ
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
کسی نے کچھ نہ کام کیا
حاصل یہ ہے کہ ظاہری تکلیف و آسائش اصل نہیں بلکہ اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے۔ جب اللہ پر توکل ہو جائے تو پھر انسان مطمئن رہتا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے دنیا میں خاص مدد ہے، اصل تکلیف و آرام بھی قلبی ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ ظاہری رنگ بھی دنیا میں دکھاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
﴿إِن يَنصُرْكُمُ اللَّـهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ... ١٦٠﴾...آل عمران
"اگر خدا تمہارا مددگار ہے، تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے۔"
میری اس ساری گفتگو سے یہ نہ سمجھئے کہ میں موجودہ انتخابات کو کفر و اسلام کا معرکہ سمجھ کر کسی پارٹی کی حمایت یا دوسری کی مخالفت کر رہا ہوں۔ میں نہ تو سیاستدان ہوں اور نہ موجودہ سیاست کو دین کا معرکہ سمجھتا ہوں۔
میں نے سورۃ روم کی جو آیات پڑھی ہیں، ان میں بھی مقابلہ کفر و اسلام کا نہیں، بلکہ دونوں غیر مسلم (عیسائی اور مجوسی) تھے، البتہ عیسائی توحید و رسالت کے قائل تھے خواہ وہ فلسفیانہ مباحث میں کتنی بھی بگڑ چکی ہوں۔ اسی طرح مجوسی (پارسی) بھی دین و مذہب سے بالکل لاتعلق نہ تھے۔ آگ کی پرستش بھی تو آخر عبادت ہے، جو مذہب کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ حکومت میں ان سے جزیہ لیا ہے اور فرمایا:
’’سنوهم سنة اهل الكتاب‘‘
"ان سے اہل کتاب والا معاملہ کرو۔"
لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے پاس دین و مذہب کا کوئی باضابطہ نظام نہیں ہے۔ جس طرح عیسائیوں کے پاس توریت وانجیل ہے۔ زوردشتِ یا زرتشت نبی کا مسئلہ بھی ان کے ہاں غیر واضح ہے، گویا ثبوت کا مسئلہ بھی ان کے ہاں دھندلا سا ہے۔ اسی وجہ مسلمانوں کی ان کی بجائے عیسائیوں سے قربت و مناسبت تھی۔ یہاں بھی صورتحال ایسی ہے کہ ہم انتخابات میں شریک دونوں بڑے دھڑوں میں سے کسی کو اس طرح اسلام کا اجارہ دار نہیں سمجھتے کہ دوسرا ان کے مقابل اسلام دشمن ہے۔ کیونکہ اسلام کا نعرہ لگانے والوں کو بھی ہم نے دیکھا کہ وہ اسلام کا نعرہ لگا کر اپنا اقتدار محفوظ کرتے ہیں اور نفاذِ اسلام کے سلسلے میں ان کے اقدامات کھوکھلے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ گیارہ (11) سال میں اسلام تو نہ آیا، لیکن جمہوریت ضرور بحال ہو گئی، جس پر معرکہ میں شریک دونوں فریق خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں خوشی حقیقی بنائے، جو شریعت کے نفاذ سے ہی مکمل ہو گی۔ ہم اپنے رب سے ناامید نہیں ہیں:
﴿إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾...یوسف
"خدا کی رحمت سے بے ایمان لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔"
ہمارا معاملہ یوں ہونا چاہئے:
" عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله له خير إن أصابته سرآء شكر فكان خيرا له و إن أصابته ضرآء صبر فكان خيرا له "
یعنی "مومن کے معمالہ پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام ہی بہتر ہے، اگر خوشی ملے تو شکر ادا کرتا ہے، جو اس کے لئے بہتر ہوتا ہے اور اگر رنج پر پہنچے تو صبر کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔"
ظاہری خوشی اس لحاظ سے کافی نہیں کہ بسا اوقات یہ ڈحیل ہوتی ہے کہ جب نفاذِ شریعت کے نعرے سن کر بھی ہم نفاذِ شریعت کی بجائے جمہوریت پر اکتفاء کر لیں تو یہ ظاہری بحالی ناگہانی عذاب عذاب کا بھی پیش خیمہ بن سکتی ہے جیسا کہ سورۃ الانعام میں پیش کردہ اگلی آیت میں ہے:
﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿٤٤﴾فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٥﴾...الأنعام
"پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو ان کو کی گئی تھی، فراموش کر دیا، تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے، جو ان کو دی گئی تھیں، خوب خوش ہو گئے، تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے۔ غرض، ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریف خدائے رب العالمین ہی کو (سزاوار) ہے۔
اب اگر آزادی کی بحالی سے خوش ہو کر ہم اسلام کی عملداری کو بھول جاتے ہیں، تو ناگہانی عذاب ہی نہیں نہ آ جائے اور ہمارا جمہوری اور اسلامی تشخص ہی ختم ہو جائے۔ اس لئے میں کہتا ہوں جو اچھائی ملی ہے اس پر شکر ادا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس میں زیادتی ہو۔ سورۃ ابراہیم میں ہے:
﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ... ٧﴾...ابراهيم
"اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔"
ہمیں دکھ ہے کہ اگر مارشل لاء سے آزادی ملی تھی، تو اس کا شکر تو یہ تھا کہ ہم سوچتے کہ اسلام کیوں نافذ نہ ہو سکا؟ اس کی محرومی کا تو کسی کو احساس نہیں بلکہ وہی لوگ اسلام کا پھر سے نعرہ لگانے والے تھے جن سے نفاذ اسلام میں مایوسی ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ نعرہ اب کے غیر موثر رہا۔ دراصل جمہوری انتخابات میں شکست اسی وقت ہوتی ہے جب کسی پارٹی کے متعلق یہ احساس اجاگر کر دیا جائے کہ وہ محرومیوں کا باعث ہے۔ ہمارے ہاں طریق کار یہ رہا ہے کہ احساسِ محرومی کا علاج جبری دباؤ سے کیا جاتا ہے اور غدار ، ڈاکو، وطن دشمن قرار دے کر سرکوبی کی جاتی ہے جس کا فائدہ بالآخر یہی سیاسی مخالفین اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنے حقیقی جرائم پر اسی پروپیگنڈا کے ختم ہوتے ہی یہ کہہ کر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ وہ سیاسی مخالفت تھی۔
اس سے پہلے سئہ 1970ء میں بھی یہی ہوا۔ بنگلہ دیش کے اندر محرومی کا احساس پیدا کیا گیا کچھ محرومی ہوتی ہے کچھ احساس اجاگر کیا جاتا ہے اس نے اتنی شدت اختیار کی کہ پورے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ مثالی کامیابی سے جیت گئی۔ مغربی پاکستان والوں کی حمایت میں وہاں صرف دو (2)سیٹیں تھیں ایک نورالامین کی اور دوسری محمود علی کی جو جیتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان بعد میں الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ آج بھی صورت حال یہ دیکھئے کہ اس ملک کے اندر جو گیارہ سالہ دور تھا اس کے اندر اسلام کا نعرہ بھرپور لگایا گیا، لیکن یہ اسلام کا نعرہ لگانے والے خود اقرار کرتے ہیں اور اسلام کو پسند کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ اسلام کی برکات ملک میں نہیں آئیں اس کی وجوہات بہت سی ہیں۔ دفاع میں بھی زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس سلسلے میں اقدامات کئے گئے وہ یا تو ناواقفی کی بناء پر صحیح نہیں تھے یااقدامات میں وہ خلوص نہیں تھا، جو ہونا چاہئے۔ بلکہ ان سے یہ مقصود تھا کہ کسی طرح اپنا اقتدار مضبوط کیا جائے۔ لہذا مخالفین کو زیادہ سے زیادہ یہ موقع ملا کہ وہ لوگوں کے اندر احساسِ محرومی کو اجاگر کریں۔ خصوصا سندھ کے اندر وہ احساسِ محرومی اس قدر اُبھارا گیا کہ آج سندھ کے انتخابات وہ نقشہ پیش کر رہے ہیں جو مشرقی پاکستان کے اندر ہوا تھا۔ اگرچہ سندھ کا مسئلہ زیادہ تر اسلام کی بجائے سیاسی آزادی کی محرومی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں سیاسی جبر سے ان لوگوں کو انتخابات میں کوئی سیٹ نہیں ملی جو گیاری (11) سالہ حکومت میں شامل رہے ہیں یا اس کے کسی گونہ مؤید رہے بلکہ جن لوگوں نے بعد میں کسی وجہ سے تائید کر دی وہ بھی نضرت کا نشانہ بن گئے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ دوسروں کو صرف دو سیٹیں ملی ہیں۔ ایم کیو ایم کی کراچی اور حیدرآباد میں کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی محرومیوں کی ساری وجوہات کی ذمہ داری مرکزی حکومت اور اس کی نمائندہ حکومت ندھ پر ڈال دی اور خود ہمدرد بن گئے۔ گویا محرومیاں حکومت کی طرف سے ہوئیں اور تحفظ دینے والے ایم کیو ایم جبکہ وہ لیڈر بھی حمایت سے محروم رہے جو حکومت سے قرب کے باوجود تحفظ نہ دے سکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمہوری انتخابات میں بھی کام آنے والی چیز ہمدردی اور احساس تحفظ ہے، قرآن مجید نے بھی اس مثبت پہلو کو اپنی دعوت کی بنیاد بنایا ہے۔ سورۃ الماعون میں فرمایا: ﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾" نماز پڑھنے والوں کے لیے بھی ویل جہنم ہے جو دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں، جس سے اُن کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور آپس کے احسان و سلوک کا خیال نہیں رکھتے کہ معمولی معمولی ضروریات کی چیزوں کا بھی انکار کرتے ہیں۔ جیسے گھروں میں توا، چمٹا، تھالی، پیالی وغیرہ استعمال کی چیزیں جب مانگی جاتی ہیں تو قریبی ہمسایہ انکار کر دیتا ہے کہ میرے پاس نہیں ہیں یا میں نہیں دیتا۔ اس سے انسان کی طبیعت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کتنا ہمدرد ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر واقعی ہمدردی کو اسلام سے خارج کر دیا جائے جیسا کہ آج کل ہمارے سامنے اسلام کا جو نقشہ آتا ہے تو اسلام صرف روحانی مذہب ہی رہ جاتا ہے۔ جیسا کہ اسے مستشرقین نے پیش کیا ہے اب چونکہ اسلام صرف نعرہ رہ گیا ہے اور خدمتِ خلق کا پہلو اس کے اندر سے نکال کر غیروں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ اس لیے وہ اب محروم طبقوں میں پھیل رہے ہیں۔ عیسائیت آج اسی طرح پھیل رہی ہے، بلکہ خدمت خلق کا جو تصور غیر استعمال کرتے ہیں وہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ دیکھئے ہم تو انسان کی خدمت کرتے ہیں اور مسلمان مذہب کی وجہ سے پھوٹ ڈالتے ہیں اور فرقے بازی پیدا کرتے ہیں گویا کہ اب اسلام یا مذہب کا تصور یہ ہے کہ فرقے بازی پیدا کرو۔ جبکہ غیر مسلموں نے جو کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہسپتال کھولو، یتیموں کے لئے مراکز کھولو، تعلیمی ادارے کھولو، تفریحی مراکز قائم کرو اور اس طرح سے تفریحی مراکز اور مختلف انجمنیں قائم کر کے وہ اپنے مذاہب کی تبلیغ کر رہے ہیں حالانکہ یہ بگڑا ہوا مذہبی تصور اسلام کا نہیں تھا۔ اسلام کا تصور تو یہ تھا کہ سارے کے سارے کام بہترین انسان بن کر خدمت خلق اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر ہوں پھر تبلیغ کام آءے گی اور اسلام کو فروغ بھی حاصل ہو گا۔
میں اس سے پہلے کئی دفعہ یہ بیان کر چکا ہوں کہ انبیاء کی زندگی دیکھئے کہ اُن کی پہلی زندگی یوں نظر آئے گی، بہترین انسان، بہترین ہمدرد، اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل، یہی وجہ ہے کہ وہ جو بات کہتے تھے اس کا اثر ہوتا تھا بلکہ دوسروں نے جب ظلم کا رویہ اختیار کیا تو یہی اخلاق و کردار دشمنوں کے متاثر ہونے کا سبب بن گیا۔ اسلام برائی کا دفاع بھی اچھائی سے کرتا ہے اور تبلیغ کے لیے اچھے جذبات کو اجاگر کر کے اپنا پیغام دیتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر لوگ مذاق اڑا رہے ہیں تو اس مجلس سے تم اٹھ جاؤ: ﴿ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ... ٦٨﴾...الأنعام" کج بحثی شروع ہو جائے، مذاق شروع ہو جائے اس وقت اُن کے اندر شرارت پیدا ہو جاتی ہے۔ لہذا تبلیغ اثر نہیں کرے گی۔ انسان کو ایسے مواقع کی تلاش میں رہنا چاہئے جبکہ مخاطب کے اندر اچھے جذبات موجود ہوں۔ اچھی بات کو سننے کے لیے تیار ہوں، تو میں ذکر یہ کر رہا ہوں کہ اصل میں اسلام کی دعوت کا طریقِ کار یہ ہے کہ ہمدردی ضرور کرو لیکن جمہوریت کا یہ منفی طریقِ کار اسلامی نہیں ہے کہ محرومی کا احساس پیدا کر کے، یا کسی کو سبز باغ دکھا کر اس کو کہو کہ تم مسلمان ہو جاؤ یا مجھے ووٹ دو۔ بلکہ مسلمانی اس چیز کا نام ہے کہ تمہاری ہمدردی ہو تو کسی انسان پر احسان جتانے کے لئے نہیں، صرف اللہ تعالیٰ کے لئے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے، اور اگر تم کسی کو بلاتے ہو تو اپنے گروہ کی طرف اپنے فرقے کی طرف نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ جوڑنے کے لیے اور تمہاری دعوت یہ ہوتی ہے کہ مجھے بھی اسی طرف جانا ہے اور تمہیں بھی اسی طرف جانا ہے۔ اس لیے سب کے سب مل کر اللہ کی طرف جائیں ﴿وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي ... ٢٢﴾...یس
" یہ نبیوں کی تبلیغ ہے کہ مجھے کیا ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں جو مجھے پیدا کر کے پالیتا ہے۔ یعنی یہ انداز ہے اسلام کا لیکن موجودہ جمہوری سیاست کا رویہ یہ ہے کہ محرومی کا احساس پیدا کر دو۔ کیونکہ اس کے ذریعہ عموما وہ طبقے جن کے اندر کوتاہیاں ہوتی ہیں، کمزوریاں ہوتی ہیں۔ رزق کے اعتبار سے، وسائل کے اعتبار سے ان کو ابھارنا مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ یہاں انسان اپنے اخلاق و کردار سے تولا نہیں جاتا بلکہ بندے گنے جاتے ہیں، اس لیے عموما وہ طبقے جو محروم آسائش ہوتے ہیں ان کی حماہت وہ لوگ حاصل کر لیتے ہیں جو لوگ ان کو اِن کی محرومیوں کا احساس دلا کر ان کو باور کراتے ہیں کہ تمہاری محرومیوں کی وجہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت حکمران تھے۔ اسلام کا اگر واقعی نقشہ اس ملک کے اندر وہ ہوتا ہے جو صحیح اسلام ہے تو ان شاءاللہ تعالیٰ یہ محرومیاں بھی نہ ہوتیں اور اس کے علاوہ ہمارے ہاں وہ برکتیں جن کی ہم اس وقت خواہش رکھتے ہین وہ برکتیں ہمیں نظر آئیں۔ اس وقت میں لادین سیاست کا مکمل تجزیہ کرنے کے بجائے صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ پورے کا پورا انتخابی نظام کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں صرف وہ قدریں کام کرتی ہیں جو لادین قدریں ہیں اس لیے تجزیہ کرنے والوں نے بھی انہی قدروں کے پیشِ نظر تجزیہ کیا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں اگر کسی کو فتح ملی ہے تو وہ فتح بھی اُسے کراب نہ کرے وہ اس بات سے ڈر جائے کہ کہیں یہ فتح چند روز کے لیے ہو بلکہ یہ ناگہانی عذاب کی تمہید نہ بن جائے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا اور اگر کسی کو شکست ہوئی ہے تو وہ شکست بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جن کو بظاہر شکست تھی پنجاب کے اندر، دیگر صوبوں کے اندر وہی لوگ اب صوبائی سطح پر برتر ہیں، اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جب شکست کھانے والوں کے بھی حوصلے نہیں ٹوٹے تو وہی لوگ تین صوبوں میں جیت گئے حالانکہ یہ وہی لوگ جن کے متعلق بہت امید یہ تھی کہ انہیں صوبوں میں اس سے بھی زیادہ شکست ہوگی، لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ صرف تین دن کے بعد پانسا پلٹ گیا جیسے جنگِ حنین میں ہوا کہ پھر اللہ کی مدد سے مسلمانوں کو فتح ہو گئی۔ حالانکہ پہلے انہی مسلمانوں نے شکست کھائی تھی لہذا واضح ہوا کہ فتح اور شکست صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس دنیا کی شکست اور فتح یہ ہمارے لیے معیار بھی نہیں جو فتح پانے والے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ڈریں کہ ناگہانی عذاب نہ آئے اور جو شکست کھانے والے ہیں وہ مایوس نہ ہوں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ وسائل کے محتاج نہیں۔ یہ سارے کا سارا سلسلہ جو ہے وہ اللہ احکم الحاکمین کے قبضہ قدرت میں ہے۔
بہرصورت اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بنائے اور جو کچھ مصیبتیں آتی ہیں ان سے ہمیں عبرت پکڑنے کی توفیق دے، اور جو ہمیں خیر ملتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا شکریہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(و أخر دعونا أن الحم لله رب العلمين)