فقاہتِ ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ

اس سے قبل کہ ہم بعض لوگوں کے اس مفروضہ پر نقد کریں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غیر فقہیہ تھے اور یہ نظریہ قائم کرنے سے ان کی اصل غرض کی نشاندہی کریں، ضروری سمجھتے ہیں کہ لفظِ "فقہ" کی جامع و مانع تعریف کی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ قرآن و حدیث میں یہ لفظ کن معانی میں استعمال ہوا ہے؟

مادہ فقہ، قرآن میں:

اس مادہ سے قرآن پاک میں بیس مقامات پر الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آیتِ ذیل ہمارے موضوع سے قریبی مناسبت رکھتی ہے:

﴿فَلَولا نَفَرَ‌ مِن كُلِّ فِر‌قَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ...﴿١٢٢﴾... سورةالتوبة

"ہر طبقہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں نکلی تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں؟"

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں تین احتمال تحریر کئے ہیں:

1۔ ایک یہ کہ اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مسلمان دو حصوں میں ہو جائیں۔ ایک وہ جو جہاد کے لئے جائیں اور دوسرے وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں اور احکامِ شریعت کی تعلیم حاصل کریں۔ اس قول کی رو سے طائفہ مقیمہ دین میں فقہ (سمجھ) حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہیں گے اور جب بھی کوئی حکمِ شرعی نازل ہو گا، اسے حاصل اور ضبط کریں گے۔ طائفہ نافرہ دشمن کے خلاف نبرد آدما رہے گا تو یہاں ایک فعل محذوف ہو گا۔ اور منشاء ایزدی یہ ہوا کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ جہاد کے لیے کیوں نہیں جاتے؟ اور ایک گروہ مقیم ہو جائے تو دین میں سمجھ اور مہارت حاصل کرے۔

2۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ آیت میں تفقہ جماعت نافرہ کی ہی صفت ہے اور معنیٰ یوں ہے کہ جو لوگ جہاد کے لیے جائیں گے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ دینِ اسلام ہی حق ہے کہ باوجود قلت کے، غلبہ ہر محاذ پر انہی کو ہو رہا ہے، اسی حساس کو تفقہ فی الدین قرار دیا گیا ہے۔

3۔ تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ الگ اور مستقل حکم ہے۔ اس سورۃ میں پہلے ہجرت کے احکام بیان ہوئے ہیں پھر جہاد کے مسائل کا تذکرہ ہوا۔ اور اس آیت میں "تفقہ فی الدین" کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اہل اسلام، جو اپنے گھروں میں آباد ہیں، پر لازم ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ دین میں فقہ اور پوری سمجھ حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ حلال و حرام کا علم حاصل کر کے اپنے وطن جائیں اور عام لوگوں کو اس کی تبلیغ کریں۔"

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں رہ کر بعض قبائل کی طرف سرایا بھیجتے تو اس صورت میں سب لوگوں کو جنگ میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ہی بعض لوگ جاتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد جو قرآن پاک کی آیات نازل ہوتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم ان کو ضبط کرتے اور سریہ میں جانے والوں کو بعد میں سکھا دیتے۔"

قتادہ کہتے ہیں، اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ جائے اور دین سمجھے۔"

مجاہد اور قتادہ کہتے ہیں: "﴿لِيَتَفَقَّهوا﴾" اور "﴿لِيُنذِر‌وا﴾" کی ضمائر اس گروہ کی طرف راجع ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے گا۔ قرطبی نے اس کو ترجیح دی ہے اور آیت کا یہ مفہوم واضح کیا ہے کہ جو جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ جائے گی وہ فقہ (دین) حاصل کرے گی۔ اس آیت میں طلبِ علم کا شوق دلایا جا رہا ہے۔

امام قرطبی مزید فرماتے ہیں:

طلبِ علم دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ جو سب اہل اسلام پر فرض ہے۔ یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کا علم اور اس حدیث میں یہی مراد ہے:

"طلب العلم فريضة" "علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"

دوسرا حصہ فرض علی الکفایہ ہے۔ یعنی حقوق، اقامتِ حدود اور خصوصیات میں فیصلہ کرنے کا علم وغیرہ۔ یہ سب لوگ حاصل نہیں کر سکتے کہ اس طرح نظامِ معیشت تباہ ہو جائے گا۔

مزید لکھتے ہیں:

اس آیت میں کتاب و سنت کے فہم کو واجب قرار دیا گیا ہے مگر سب کے لیے نہیں، بلکہ علی الکفایہ بعض کے لیے اور جو کتاب و سنت کو نہیں جانتے، ان کے لیے ارشاد فرمایا:

﴿فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ‌ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٤٣﴾... سورةالنحل

"اگر تم نہیں جانتے تو قرآن کے عالموں سے پوچھو۔"

نیز قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، "اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ جائے اور دین سمجھے۔"

عوقی، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہر قبیلہ کے کچھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور دین کی باتیں دریافت کرتے اور سمجھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتے اور نماز و زکوٰۃ کی تلقین فرماتے ۔"

ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے آیت کے کئی معانی کی وضاحت کرنے کے بعد اس معنیٰ کو تقویت دی ہے کہ "آیت" میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سفر کرنے کا لوگوں کا حکم دیا جا رہا ہے۔ تاکہ علمِ شرع حاصل کریں اور واپس جا کر پیچھے رہنے والوں کو تبلیغ کریں۔"

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "اس آیت میں اشارہ ہے کہ ایک جماعت کے لیے لازم ہے کہ طلب علم کا راستہ اختیار کرے، اس لیے کہ سب کے لیے عدمِ استعداد وغیرہ کی بناء پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ فقہ کا تعلق علومِ قلب کے ساتھ ہے جو کہ تزکیہ اور تصفیہ، ترکِ مالوفات اور اتباعِ شریعت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں۔"

علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "پس ایسا کیوں نہ کریں کہ ہر قوم سے چند آدمی آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہیں تاکہ دین کی باتوں اور اسرارِ شریعت میں سمجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم میں جائیں تو ان کو سمجھائیں۔ تاکہ وہ بھی برے کاموں بچتے رہیں۔

آیۃ مذکور کے اسی حکم کی تعمیل میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے تین سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں صرف ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ حضر و سفر میں کتاب و سنت اور اسرارِ شریعت کے فہم میں لگے رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مرویات میں نماز، زکوٰۃ، حج اور احکام و عبادات کے علاوہ حدود و تعزیرات و فتن وغیرہ جملہ فنون پر مشتمل احادیث موجود ہیں، جن سے ہر دور کے محدثین و فقہاء نے فہم شریعت میں کام لیا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ صرف الفاظ کے ہی راوی نہ تھے بلکہ ان کے معانی و مقاصد اور اغراض و اسرار دین پر بھی آپ رضی اللہ عنہ کو مکمل عبور حاصل تھا۔

معنیٰ "فقہ" احادیث کی رُو سے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من يردالله به خيرا يفقه فى الدين

"اللہ رب العزت جس کے ساتھ اچھائی کا ارادہ کریں اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں"

نیز فرمایا:

خيركم اسلام احاسنكم اخلاقا اذا تقفهوا

"تم میں سے اس کا اسلام افضل ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہو جب کہ وہ (دین کی) سمجھ حاصل کرے۔"

نیز فرمایا:

الناس معادن فى الخير والشر خيا رهم فى الجاهلية خيارهم فى الاسلام اذا فقهو

"لوگ خیر و شر کی کانیں ہیں۔ ان میں سے جاہلی دور کے اچھے، اسلام میں بھی اچھے ہیں، جبکہ وہ (دین کی) سمجھ حاصل کریں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لیے داخل ہوئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پانی لا کر رکھ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللهم فقه فى الدين

"اے اللہ اس کو دین میں سمجھ دار بنا دے"

نیز فرمایا:

طول صلوة الرجل وقصر خطبته مئنة من فقهه

"نمازلمبی اور خطبہ مختصر، امام کی سمجھداری کی علامت ہے۔"

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

نعم النساء نساء الانصار لم يمنعهن الحياء ان يتفقهن فى الدين

"انصاری عورتیں بہت اچھی ہیں، دین میں سمجھ حاصل کرنے سے وہ شرم نہیں کرتی ہیں۔"

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لم افقه هذا من رسول ﷺ

"میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سمجھ سکا۔"

ایک طویل حدیث میں ہے:

فقال له فقهأء الانصار
"سمجھ دار انصاریوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔"

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فذلك مثل من فقه فى دين الله ونفعه الله بمابعثنى الله به فعلم وعلم الحديث

"یہ اس کی مثال ہے جو اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کرے اور اللہ اس کو اس سے نفع دے۔ وہ علم حاصل کرے اور دوسروں کو سکھائے۔"

ان احادیث و آثار سے صاف ظاہر ہے کہ فقہ سے مراد دین کی واقفیت، سمجھ اور احکام دین پر پورا عبور ہے۔۔۔حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ قرآن پاک اور احادیث نبویہ کے حافظ تھے۔ مقاصد دین پر آپ رضی اللہ عنہ کی پوری نظر تھی۔ اس دور کے مسلمان احکامِ دین حاصل کرنے کے لیے آپ رضی اللہ عنہ کی طرف مراجعت کرتے تھے۔ اور ان کا شمار جلیل القدر فقہیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں ہوتا تھا (اس پر سیر حاصل بحث ہم آگے کریں گے) اس کے باوجود اگر آپ رضی اللہ عنہ کو "غیر فقہیہ" کے لقب سے ملقب کیا جائے، تو اس کے پیچھے مبتدعین معتزلہ وغیرہ کے خصوصی مقاصد کارفرما تھے۔

ایک سوال:

جن لوگوں نے انہیں غیر فقہیہ کہا ہے اس معنیٰ میں نہیں کہا کہ ان کو دین کی واقفیت اور پوری سمجھ نہیں تھی، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ انہیں مجتہدانہ بصیرت حاصل نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان سے فقہ کے اصطلاحی مفہوم کی وہ نفی کرتے ہیں۔"

جواب:

اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے فقہ کے اس اصطلاح مفہوم کو جان لینا چاہئے جو اصولیین متعین کرتے ہیں۔۔۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"فقہ کا لغوی مفہوم "فہم" ہے اور اصطلاحی مفہوم، استدلال کر کے احکامِ شریعت کا ادلہ تفصیلیہ سے جاننا ہے۔"

نیز لکھتے ہیں:

"بعض کے نزدیک نفس کا "(مالها وما عليها)" اعمال کو جاننا فقہ ہے۔۔بعض کے نزدیک ادلہ تفصیلیہ سے احکامِ شرعیہ فرعیہ کا یقین حاصل ہونا فقہ ہے۔"

(امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے معنیٰ کو ترجیح دی ہے)

صاحب توضیح لکھتے ہیں:

"نفس کا ان اعمال کو جاننا، جو انسان کے مفاد یا نقصان میں ہیں، فقہ ہے۔ یہ تعریف ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔ جاننے کا مقصد یہ ہے کہ جزئیات کو دلیل سے معلوم کر سکے۔"

بعض نے یہ تعریف کی ہے: "احکامِ شرعیہ عملیہ کا ادلۃ تفصیلیہ سے معلوم کرنا۔"

"ادلۃ تفصیلیہ سے مراد کتاب و سنت، اجماع اور قیاس ہے۔"

نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "احکامِ شرعیہ اور ان علوم کا جاننا فقہ ہے جو احکامِ شرعیہ کا علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہوں۔"

کیا فقیہ کے لیے کل احکام کا علم ضروری ہے؟

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کس قدر احکام کا علم حاصل ہونے پر انسان کو فقیہ کہا جائے گا؟ اس بارے میں علامہ عبیداللہ بن مسعود رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"فقہ کی تعریف میں مذکور احکام سے کل مراد نہیں ہے۔۔۔اس لیے کہ حوادث لامتناہی ہیں۔ کوئی ایسا ضابطہ بھی نہیں جو سب کو جمع کر سکے۔ ایک ایک مسئلہ کا علم بھی فقیہ کے لیے ضروری نہیں کہ فقہاء سے "(لاادرى)" (میں نہیں جانتا) ثابت ہے۔"کل" سے "بعض" "معین" "نصف" وغیرہ بھی مراد نہیں لیا جا سکتا۔ کہ جب "کل" کا پتہ نہیں، بعض، معین اور نصف کا تعین کیسے ہو گا؟ "تہئیو للکل" بھی مراد نہیں کہ " تہئیو بعید" تو غیر فقیہ میں بھی پایا جا سکتا ہے، جبکہ " تہئیو قریب" ایک مجہول بات ہے۔ یہ بھی مراد نہیں کہ اجتہاد سے ہر مسئلہ کا حکم جان سکے، کیوں کہ بعض علماء مجتہدین کو بعض احکام کا زندگی بھر علم نہیں ہو سکا۔ مثلا ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، انہوں نے دہر کو نہیں جانا۔ اور بعض اوقات اجتہاد میں غلطی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ بعض حوادث ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ اجتہاد کا تعلق نہیں ہوتا۔ پھر حدود یعنی تعریفات میں یہ نہیں ہوتا کہ علم کا ذکر کیا جائے اور اس سے مراد " تہئیو" ہو۔ کیوں کہ لفظ اس پر دلالت نہیں کرتا۔ تو پھر فقہ کتنے احکام کے علم کا نام ہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ "فقہ" ان تمام احکامِ شرعیہ عملیہ کو ادلۃ سے جاننے کا نام ہے جن کے بارے میں نزولِ وحی ظاہر ہو چکی ہے اور جن پر اس وقت تک اجماع ہو چکا ہے۔ اور ساتھ ساتھ ان سے ملکہ استنباط بھی صحیح ہو۔"

چنانچہ فقہ کی مذکورہ تعریفات کی رُو سے بھی حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اپنے وقت کے فقیہ اور مجتہد تھے۔ احکامِ قرآن اور احکامِ سنت کا آپ رضی اللہ عنہ کو مکمل علم تھا۔ اور کتاب و سنت سے استنباط کا ملکہ بھی ان کو بدرجہ اتم حاصل تھا۔

مؤلف "توضیح" رقم طراز ہیں:

"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عربی زبان کے ماہر ہونے کی وجہ سے مذکورہ احکام کے عالم تھے اور ان میں استنباط کرنے والوں پر فقیہ کا اطلاق کیا گیا۔ ہاں مسائل اجماعیہ کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شرطِ فقہ نہیں تھا کہ اس دور میں اجماع ہوا ہی نہیں۔"

صاحب "توضیح" کی تعریف فقہ پر علامہ سعد الدین تفتازانی نے کئی اعتراضات کئے ہیں۔ ان پر بحث کرنا ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ اس کے لئے "التلویح" (ص 49) کا مطالعہ مفید ہو گا۔

اجتہادِ ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ:

کتاب و سنت سے استنباطِ مسائل، نیز استفتاء کے جواب میں عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح قرآن پاک کی آیت تلاوت کرتے یا کوئی حدیث پیش کرتے، جس سے سائل کی تسلی و تشفی ہو جاتی۔ یوں حکم کے بیان کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل کی نشان دہی بھی ہو جاتی۔ اور یہ طریق افتاء زیادہ محفوظ اور غلطیوں سے مبرا تھا۔

علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"فتویٰ میں سب سے بہترین طریقہ مفتی کے لیے یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو، جواب میں نصوص پیش کرے کہ اس طرح حکم کا اظہار بھی ہو گا اور دلیل بھی معلوم ہو جائے گی۔ جبکہ فقیہ معین کے اپنے الفاظ میں یہ خوبی نہیں ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا طریقِ افتاء یہی تھا۔ اور ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم میں سے، جو ان کے منہاج اور نقشِ قدم پر چلنے کا التزام کرتے تھے، ان کا طریقِ فتویٰ بھی یہی تھا۔ البتہ بعد کے لوگوں میں یہ طریقہ قائم نہ رہ سکا اور الفاظ و نصوص سے ہٹ کر اپنے زور بیان سے جوابات دینا شروع کر دئیے، اور اس سے اُمت میں وہ خرابیاں پیدا ہو گئیں جنہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الفاظِ نصوص کے التزام میں تحفظ تھا اور ان میں خطاء، تناقض، نعقید اور اضطراب سے بچ رہنے کی فطری ضمانت موجود تھی۔ چونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اصول میں یہ بات داخل تھی، یہی وجہ ہے ان کے فتاویٰ میں غلطیاں بعد کے لوگوں سے بہت کم وقوع پذیر ہوئیں۔۔۔اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا وہ جواب میں "(قال الله كذا)" فرماتى یا "(ياقال رسول ﷺیافعل رسول الله)" فرماتے۔ جہاں تک ممکن ہوتا، اس سے نہیں ہٹتے تھے۔"

عام صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل:

1۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے دریافت کیا، "جنابت میں میرے سر کے لیے کتنا پانی کافی ہو گا؟ جواب میں فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر تین بار ہاتھ سے پانی ڈالتے تھے۔" اس شخص نے کہا "میرے بال بہت ہیں؟" جواب دیا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تجھ سے زیادہ اورصاف تھے۔"

2۔ ایک تابعی بزرگ نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے کھڑے ہو کر پانی پینے کا مسئلہ پوچھا، تو فرمایا "میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی بٹھائی، میں اس کی باگ پکڑے ہوئے تھا۔ قریش کے کچھ لوگ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں دودھ پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا ہی پر ہی پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں طرف والے کو دیا اس نے کھڑے کھڑے پیا اور پھر سب لوگوں نے کھڑے کھڑے ہی پیا۔"

3۔ محمد بن سیرین کہتے ہیں، "میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ ایک شخص نے ان سے کوئی بات پوچھی جو معلوم نہ ہو سکی۔ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا "اللہ اکبر یہ تیسرا شخص ہے جو مجھ سے اس بارے میں دریافت کر رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان رجالا سترتفع بهم لمسئلة حتى يقولو : الله خلق لخلق فمن خلقه)

لوگ سوال کرتے کرتے یہ پوچھنے لگیں گے کہ مخلوق کو تو اللہ نے پیدا کیا، اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟"

4۔ ابومیمونہ کہتا ہے، "ایک فارسی شخص اور اس کی بیوی کا ان کے بیٹے کے بارے میں جھگڑا ہوا کہ کون اس کی تربیت کرے اور اپنے ساتھ لے جائے؟ وہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کے لیے آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا "میں تمہارے مابین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے فیصلہ کرتا ہوں۔ ایسی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو اختیار دیا ہے، چاہے ماں کے ساتھ جائے چاہے باپ کے ساتھ۔"

5۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، "میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گیا اور ان سے عرفات میں یومِ عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔"

6۔ ایک شخص حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا "کیا آپ نے لوگوں کو جوتے پہن کر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے؟" فرمایا: "نہیں میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقامِ ابراہیم علیہ السلام کی طرف منہ کر کے جوتوں کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"

7۔ حرث بن کعب کہتا ہے، "میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک شخص آیا اور پوچھا، "آپ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے؟" جوابا ارشاد فرمایا، "اللہ کی قسم اور اس بابرکت گھر کی قسم، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:

(لايصومو من احدكم يوم الجمعة الا فى ايام يصومه فيها)

"جمعہ کے دن تم میں سے کوئی روزہ نہ رکھے الا یہ کہ کوئی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو۔"

ایک اور شخص آیا اور کہا "کیا آپ نے لوگوں کو جوتوں میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے؟" فرمایا، "نہیں! اللہ کی قسم، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقامِ ابراہیم علیہ السلام کی طرف نماز پڑھتے دیکھا ہے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہنے ہوئے تھے۔"

8۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان فرمائی:

(قَالَا: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَهِيَ خِدَاجٌ» يَقُولُهَا ثَلَاثًا بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ

"جس شخص نے نماز میں ام القرآن (سورۃ الفاتحہ) نہ پڑھی اس کی نماز ناقص ہے، پوری نہیں۔ تین بار فرمایا۔"

ان کے شاگردوں میں سے ایک نے پوچھا، اگر ہم امام کے پیچھے ہوں تو؟" فرمایا:

"اے فارسی اسے آہستہ پڑھ لیا کر کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(قال الله قسمت الصلوة بينى وبين عبدى(الحديث)

"اللہ تعالیٰ نے فرمایا، "میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے مابین تقسیم کیا ہوا ہے۔۔۔"

اس کے بعد حدیث میں فاتحہ الکتاب کی تقسیم کا بیان ہے۔۔۔اس سے بھی حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ استنباط فرماتے ہیں کہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اکیلا ہو یا امام کے پیچھے۔ اس لیے کہ اس حدیث میں فاتحہ کو ہی نماز کہا گیا ہے، جو کہ فاتحہ کی رکنیت اور جزوِ نماز ہونے کی دلیل ہے۔"

فقہ ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظر میں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں واضح ہے کہ سب لوگ اپنے مسائل کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی مراجعت کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت موجود تھی، جو امت کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہی تھی۔ ان میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ ایک عظیم محدث اور فقیہ و مفتی کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ چند حوالجات ملاحظہ ہوں:

1۔ "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بحرین نماز پڑھانے اور لوگوں کے جھگڑے اور تنازعات کے فیصلے کرنے کے لئے بھیجا۔"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے محتاط، اور فقہ اسلام کے ماہر کا حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ پر اس قدر اعتماد واضح کرتا ہے کہ اس بارے میں وہ ان کو ذہین و فطین اور اجتہادی اہلیت کا حامل سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے بعض فیصلہ جات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان بھی ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی تصدیق و تائید فرمائی۔

2۔ بحرین سے ایک دفعہ واپس آ رہے تھے، ربذہ میں اہل عراق نے شکار کے گوشت کے بارے میں سوال کیا، جو اہلِ ربذہ کے ہاں سے انہیں ملا۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کھانے کا حکم دیا۔ بعد ازاں وہ مسئلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے انہوں نے پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے تائید فرمائی۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس مسئلہ میں ان کی ہمنوائی کی۔"

3۔ حضرات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ "ایک شخص محرمِ حج نے اپنی بیوی سے مجامعت کر لی؟" تو تینوں نے جواب دیا، "وہ حج پورا کرے لیکن اگلے سال حج کی قضاء دے اور "ہدی" بھی دے"

پس مسلمہ فقہاء کے ساتھ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ذکر آپ رضی اللہ عنہ کو اس مقامِ رفیع میں حصہ دار بناتا ہے۔

4۔ ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچا، "میں نے دس (10) اونٹ فی سبیل اللہ خیرات کر دئیے ہیں۔ کیا ان کی زکوٰۃ ہے؟" ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یہ "مشکل مسئلہ ہے، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ، آپ جواب دیں۔" ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، " میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں، اس میں زکوٰۃ نہیں ہے" ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی تائید فرمائی۔

5۔ ایک اور شخص نے حضرات ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، "ایک مرد نے اپنی منکوحہ غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں؟" ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یہ مشکل مسئلہ آپ کے سامنے ہے ابوہریرۃ، آپ جواب دیں۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اس کو ایک طلاق بائن کرتی ہے اور تین طلاقیں حرام کرتی ہیں۔"

اس مسئلہ میں عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ اور عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ نے محمد بن ایاس کو ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ ان سے یہ مسئلہ پوچھو۔

6۔ حاملہ کی عدت کے بارے میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فقیہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں ابوسلمۃ رضی اللہ عنہ کی تائید فرمائی۔

کیا ایک غیر فقیہ، کسی مسئلہ میں فقیہ کے نظریہ کو اس کے سامنے دلائل کے ساتھ رو کر سکتا ہے؟ ۔۔۔یہ فقیہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تھے، جن کے بارے میں رسول اللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

(اللهم فقه فى الدين)

"اے اللہ! اسے دین میں فقیہ بنا دے"

پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض مشکل مسائل میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو جواب دینے کی تکلیف دیتے ہیں۔ تو کیا ایک فقیہ مجتہد، غیر فقیہ مجتہد کو مشکل مسائل حل کرنے کے لیے فرما رہے ہیں؟

ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مابین ذاتی مراسم اور ان کے علمی مذاکرات کا کچھ تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔۔۔مزید دیکھئے:

7۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے، قنفذ (خاردار چوہا) کو حدیث کی روشنی میں، حرام قرار دینے کے فیصلہ کو تسلیم کیا۔ جبکہ پہلے اس کی حلت کے قائل تھے۔"

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فتویٰ میں مراجع انام تھے:

ابن سعد لکھتے ہیں، عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ منورۃ میں جو فتویٰ میں مراجع انام تھے، یہ ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ" (ملخصا)

چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:

1۔ حضرات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا،"ایک شخص اپنی عورت کو اس کے معاملہ کا مالک بناتا ہے، عورت اس کو رد کر دیتی ہے؟" دونوں نے جواب دیا: "یہ طلاق نہیں ہے۔"

2۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، "سمندر جس مچھلی کو پھینک دے، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔"

3۔ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا "ایک شخص پر ایک غلام آزاد کرنا ہے، کیا وہ ولد الزنا کو آزاد کر سکتا ہے؟"فرمایا "ہاں کافی ہو جائے گا۔"

4۔ محمد بن سیرین کہتے ہیں: لوگوں میں اختلاف ہو گیا کہ بہشت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں؟ سب اکٹھے ہو کر فیصلے کے لیے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا"ایک بہشتی مرد کے لیے دو دو عورتیں ہوں گی۔ اور بہشت میں کوئی بھی مرد غیر شادی شدہ نہ ہو گا۔"

5۔ مروان نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ "رسول اللہ رضی اللہ عنہ جنازہ میں کیا پڑھتے تھے؟" ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بولے "میرے اور تیرے درمیان ایک بات پر تنازع ہو چکا ہے، تم اس کے باوجود مجھ سے پوچھتے ہو؟" مروان نے کہا "ہاں" فرمایا، "یہ دعاء پڑھتے تھے: "(اللهم انت ربها)" الخ"

6۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا: "ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے" فرمایا "ہاں" پھر سوال ہوا، "کیا آپ بھی ایسا کرتے ہیں؟" فرمایا، ہاں۔ میں ایک کپڑا میں نماز پڑھتا ہوں جب کہ میرے باقی کپڑے مشجب (کھونٹی) پر موجود ہوتے ہیں۔"

7۔ زید بن اسلم کہتے ہیں "ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دونوں روزہ دار کے لیے بوسہ لینے کی اجازت دیتے تھے۔"

8۔ ابومرۃ عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مولیٰ نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ "ایک بکری ذبح کی گئی ہے، اس کے جسم کا کوئی حصہ متحرک ہوا ہے" اس کا کھانا کیسا ہے؟ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے اس کے کھانے کا حکم دیا۔ مگر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا، میتہ کے جسم کا کوئی بھی حصہ حرکت کرتا ہے اور اس سے منع کیا۔"

اس بارے میں اگرچہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی رائے ظاہرا درست نہ تھی، مگر اس سے یہ واضح ہے کہ خیروالقرون میں ان کی رائے مجتہدین کے ہم پلہ سمجھی جاتی تھی۔ ورنہ ایک غیر فقیہ اور غیر مجتہد سے اس دور میں مسئلہ پوچھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس دور کا ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے:

9۔ کچھ لوگ مروان کے پاس آئے اور سمندر کی پھینکی ہوئی مچھلی کے بارے میں پوچھا۔ مروان نے کہا" مجھے اس میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا۔ ویسے تم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے پوچھو اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی بتاؤ۔" چنانچہ آپ دونوں حضرات کا جواب یہ تھا کہ "اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔"


حوالہ جات

1. المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم

2. التفسیر الکبیر ج 16 ص225-226

3. تفسیر القرآن لابن کثیرج2 ص401

4. تفسیر القرآن لابن کثیر ج2ص401

5. تفسیر القرطبی ج 8 ص295

6. ایضا

7. تفسیر القرطبی ج8 ص294

8. تفسیر ابن کثیر ج2 ص401

9. ایضا

10. زاد المسیر ج 3 ص516

11. روح المعانی ج11 ص56

12. تفسیر ثنائی ج4 ص61

13. صحیح بخاری ج1 ص16، صحیح مسلم ج1 ص333، ج2 ص144، مسند ابی یعلیٰ و معجم ابی یعلیٰ رقم 2، مسند احمد ج2 ص234، سنن ابن ماجہ ص20 ورواہ الخطیب فی الفقہ والمتفقہ ج1 ص3 وابن عبدالبر فی جامع بیان العلم ج1 ص19۔

14. مسند احمد ج2 ص469۔ 481

15. مسند احمد ج2 ص485۔498۔525۔539 و صحیح مسلم ج2 ص268۔307۔331

16. صحیح بخاری ج1 ص26، صحیح مسلم ج2 ص298

17. صحیح مسلم ج1 ص286

18. سنن ابی داؤد ج1 ص24

19. صحیح بخاری ج1 ص25

20. صحیح مسلم ج1 ص338

21. ایضا ج 2 ص284

22. ارشاد الفحول ص2

23. ارشاد الفحول ص3

24. التوضیح فی حل غوامض التنقیح ص28

25. ایضا ص30

26. ایضا ص34

27. فتح البیان ج4 ص218

28. التوضیح فی حل غوامض التنقیح ص45۔46

29. التوضیح صفحہ 46

30. اعلام الموقعین ج2 ص238

31. مسند احمد ج13 ص151 و سنن ابن ماجہ و مسند حمیدی ج2 ص431

32. مسند احمد ج 13 ص267 مع تعلیقات احمد شاکر

33. مسند احمد ج14 مع التعلیقات ص 203، 204، صحیح مسلم ج1 ص79 معناہ

34. مسند حمیدی ج2 ص464، سنن ابی داؤد مع العون ج2 ص251 وسنن دارمی

35. مسند احمد بن حنبل ج15 ص180 و ج 2 حلبی ص446

36. مسند احمد ج2 ص537

37. ایضا ص422

38. صحیح مسلم ج1 ص169-170 مؤطا مالک ج1 ص80۔81

39. فتوح البلدان ص92

40. مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص121

41. ایضا ص272

42. الاموال لابی عبید رحمۃ اللہ علیہ ص495

43. مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص26

44. ایضا

45. صحیح بخاری ج1 ص 26، صحیح مسلم ج2 ص298

46. سنن ابی داؤد ج3 ص 417، مسند احمد ج2 ص 381

47. طبقات ابن سعد ج2 ص 372

48. مؤطا امام مالک ج2

49. ایضا ج1 ص 326

50. مؤطا مالک ج2 ص 140

51. مسند حمیدی ج2 ص484

52. سنن ابی داؤد ج3 ص188

53. مؤطا امام مالک ج1 ص121

54. مؤطا امام مالک ج1 ص215

55. مؤطا امام مالک ج1 ص 256

56. مؤطا امام مالک ج1 ص 326