اسلام میں چُھوت کا تصور؟
جناب محمد رفیع صاحب علی پور چٹھہ (ضلع گوجرانوالہ) سے لکھتے ہیں:
"محترمی مولانا صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سائل برص کا مریض ہے۔ میں دیوبندی مکتبِ فکر کی ایک مسجد میں نماز پڑھتا تھا۔ اس مسجد کے امام صاحب نے مجھے فرمایا کہ تم صف کے درمیان کھڑے ہونے کی بجائے صف کے دائیں یا بائیں دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرو۔ یہ چھوت کی بیماری ہے جو دوسروں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
آپ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا اسلام میں چھوت کا کوئی تصور موجود ہے؟ والسلام"
الجواب بعون الوهاب____ اقول وبالله التوفيق
معلوم ہو کہ دنیا کی عام مخلوقات کی طرح صحت و بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں، اللہ رب العزت جب چاہیں کسی بھی انسان کو کسی بھی بیماری میں مبتلا کر دیں اور جب انہیں منظور ہو تو مریض کو صحت سے نواز دیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو مریض کی صحت منظور نہ ہو تو ہزاروں لاکھوں علاج و دوا کے باوجود مریض صحت یاب نہیں ہو سکتا۔
بیماریوں کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کا علاج اور توڑ بھی پیدا فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے:
أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء»(صحيح البخارى:ح 5478)
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی مگر اس کی شفاء بھی نازل فرمائی ہے۔"
تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ خوب غوروفکر اور سوچ بچار کے بعد بیماری کے لیے دوا کا تعین اور اس کے بعد اس کا صحیح اور مناسب استعمال کیا جائے۔
عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ، فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ»(2204)
"حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہر بیماری کی دوا ہے، پس جب کسی بیماری کو کوئی دوا موافق آ جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفا ہو جاتی ہے۔"
اس سے معلوم ہوا کہ مرض اور بیماری کے ساتھ دوا کی موافقت کی صورت میں جو صحت ہوتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے۔ ورنہ دیکھا گیا ہے کہ ایک بیماری کے دو مریضوں کا ایک سا علاج کیا گیا، لیکن ایک کو شفاء ہو گئی اور دوسرا متواتر مریض رہتا ہے۔
بیماریوں کے متعدی ہونے کا تصور:
ہمارے معاشرہ میں ایک جاہلانہ تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بیماریاں متعدی ہوتی ہیں اور ایک مریض کی بیماری دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
طبِ جدید میں نزلہ، زکام، خارش اور ٹی-بی وغیرہ بیماریوں کے مریضوں کو عام لوگوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ اس کا بھی یہی فلسفہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کی یہ بیماری دوسروں کو نہ لگ جائے۔ حالانکہ یہ سراسر غلط اور عقل و نقل کے خلا ہے۔
عرب جہلاء میں بھی بیماری کے متعدی ہونے کا تصور موجود تھا۔ نیز وہ لوگ اُلو کو اپنے لیے منحوس اور ماہِ صفر کو نامبارک خیال کرتے تھے۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اس تصور کی تردید یوں فرمائی کہ:
"تعدی کی کوئی حقیقت نہیں، "ہامہ" (کی بھی کچھ حقیقت) نہیں اور ماہِ صفر (کی نحوست کا خیال بھی) کچھ نہیں"
اس پر ایک اعرابی نے کہا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، پھر اونٹوں کو کیا ہوتا ہے کہ وہ ریگستانوں میں ہرنوں کی مانند خوبصورت ہوتے ہیں، لیکن جب کوئی خارش زدہ اونٹ ان صحت مند اونٹوں سے آن ملے تو دوسروں کو بھی اس بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطورِ انکار) فرمایا "تم یہ بتلاؤ کہ اس پہلے اونٹ کو کس نے خارش کا مریض بنایا (جس سے یہ بیماری دوسروں تک پھیلی)؟"۔۔صحیح بخاری بروایتِ ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ۔
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ بیماریوں کی تعدی کا تصور خلافِ حقیقت ہے۔
تعدی کے قائلین کی ایک دلیل اور اس کا صحیح مفہوم:
بعض مغربیت زدہ حضرات امکانِ تعدی کے اثبات میں صحیح مسلم کی وہ حدیث پیش کیا کرتے ہیں، جس میں ہے کہ:
بنو ثقیف کا ایک وفد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے والا تھا، اس میں ایک کوڑھ کا مریض بھی تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مریض کو پیغام بھیجا کہ "ہم نے تیری بیعت قبول کر لی، تو واپس چلا جا"۔۔چنانچہ اگر یہ بیماری چھوت نہیں تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آبادی اور شہر میں آنے سے منع کیوں فرما دیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اصل بات تو وہی ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ باقی رہا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے روکنا، تو اس کا سبب یہ تھا کہ اگر وہ آدمی شہر میں آ گیا اور اس کے بعد اتفاقا شہر کے لوگوں میں سے کسی کو یہ بیماری لاحق ہو گئی تو وہ سمجھے گا کہ فلاں آدمی کے آنے کے سبب میں بیمار ہو گیا۔۔۔اور یہ بات ایمان کے خلاف ہوتی۔۔۔چونکہ اس سے کسی بھی شخص کے ایمان میں کمزوری کا پہلو نکل سکتا تھا، اس لیے احتیاطا اسے آبادی اور شہر میں آنے سے روک دیا گیا۔
ہماری اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھانا تناول فرما رہے تھے، ایک کوڑھی آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیالے میں رکھا اور فرمایا: "تو بھی کھا، اللہ ہی پر توکل اور اعتماد ہے" (ابن ماجہ بروایت جابر رضی اللہ عنہ)
اگر بیماری کی تعدی والی بات درست ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوڑھی کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک نہ فرماتے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ بیماری کی تعدی کا تصور ایمان و اسلام کے خلاف ہے۔
ہمارا ایک اپنا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ایک گھر کے تیرہ میں سے بارہ افراد ٹی-بی کے مریض ہیں۔ پورے اہل خانہ میں سے صرف ایک آدمی اس بیماری سے محفوظ ہے، جبکہ اس کی رہائش، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا انہی کے ہمراہ ہے۔ بلکہ ان کے کپڑے، بستر استعمال کر لیتا، ان کے برتنوں میں کھاتا پیتا حتیٰ کہ ان کا بچا ہوا کھانا بھی کھا لیتا ہے۔
یہی معاملہ خارش کا ہے کہ ایک ہی جگہ رہنے والے متعدد افراد میں سے اگر چند کو یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے، تو بہت سے لوگ محفوظ بھی رہتے ہیں۔
پس یہ تصور غلط ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے۔
هذا ماعندي والله اعلم بالصواب!
باقی رہا مولوی صاحب کا آپ کو یہ نصیحت کرنا کہ صف کے درمیان کی بجائے دائیں یا بائیں کھڑے ہوا کریں، تو کیا مولوی صاحب کے خیال میں اس طرح وہ اس بیماری سے بچ جائیں گے؟
ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جب مریض صف کے دائیں یا بائیں کھڑا ہو، نماز شروع ہو چکی ہو تو بعد میں آنے والا نمازی کیا کرے؟ وہ کہاں اور کیسے کھڑا ہو؟ صف کے پیچھے اکیلا یا پہلی صف میں مریض سے دائیں یا بائیں؟ ۔۔۔ یا پھر مریض کو دھکیل کر دیوار کی جانب کر دے اور خود اس کی جگہ براجمان ہو جائے؟ آخر اس بیچارے کو نماز میں کس حد تک دھکیلا جائے گا؟ اور کون کون دھکیلے گا؟ ۔۔ اور اگر وہ ابتداء ہی میں لوگوں سے دور ہٹ کر لیکن دیوار کے ساتھ کھڑا یو گا تو کیا یہی صف بندی ہے؟
حاشیہ
1. عربوں کا عقیدہ تھا کہ جس مقتول کا قصاص اور بدلہ نہ لیا جائے، اس کی قبر سے ایک جانور نکلتا ہے جس کی وجہ سے مقتول کے وارثوں پر نحوست وارد ہو جاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصور کی تردید فرمائی۔