غیبت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں!

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

"صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا،بندہ اگر معاف کرے تو اللہ تعالیٰ اسے مقام عزت عطا فرماتا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے انکساری کی،اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند فرماتا ہے"اس معنی کی حدیث متعدد کتب میں موجود ہے۔

غیبت کی جائز شکلیں:

خاتم المرسلین سید الاولین والآخرین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے مطالعے سے یہ قانون وقاعدہ سمجھ میں آتا ہے کہ غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جب شرعاً اس کی ضرورت ہو اور واقعۃً یہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو۔لہذا محدثین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل شکلیں جائز قرار دی ہیں:

1۔مظلوم اپنی شکایات ظالم کے خلاف عدالت یا حاکم کے سامنے پیش کرے۔

2۔بغرض اصلاح کسی فرد یا ادارے کی شکایات کسی فرد یا ادارے کوکرے جو اس کی اصلاح کرسکتا ہو۔

3۔مفتی کے سامنے بغرض فتویٰ صورت مسئلہ پیش کرے۔

4۔مسلمانوں کو شر سے محفوظ کرنے کےلئے حدیث کے راویوں ،مقدمہ کے گواہوں یا اہل تصنیف وتالیف کی کمزوریوں سے آگاہ کرے۔

اسی طرح رشتے ناطے کے مشورے ،کاروباری معاملے،امانتوں کے بارے میں اعتماد کی خاطر کسی کے بارے میں نامناسب بات کرنا بھی شامل ہے۔

5۔ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنا جو فسق وبدعت علی الاعلان کررہے ہوں۔اور ان کی وجہ سے معاشرے کا دینی معیار تباہ ہورہا ہو۔

6۔افراد کا ایسا نام لینا جن سے وہ مشتہر ہوں،اگرچہ الفاظ نا مناسب ہی کیوں نہ ہوں۔جیسے اعمیٰ(اندھا) اعمش(بھینگا) اعرج(لنگڑا) وغیرہ وغیرہ۔تاہم نشاندہی یا شناخت کی حد تک ،اس میں تحقیر مقصود نہ ہونی چاہیے۔جن احادیث کو بنیاد بنا کر محدثین کرام نے قاعدے وضع کئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:

1۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،"آنے دو مگر قوم کابدترین فرد ہے۔"

2۔ام المومنین حضرت عائشہ ر ضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا،"فلاں فلاں آدمی ہمارے دین کو بالکل نہیں سمجھتے۔"(بُخاری)

3۔حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ کہتی ہیں،میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایاکہ ابو الجہم اور معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)نے مجھے پیغام نکاح بھیجا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا،معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تو غریب آدمی ہے۔اور ابو الجہم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاٹھی ہمیشہ کندھے پر ہوتی ہے(بہت مارتا ہے یا بہت سفر کرتا ہے)

4۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ "ہند رضی اللہ عنہا"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا،"ابو سفیان بخیل آدمی ہے،وہ اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میری اولاد کو پورا ہو۔الا یہ کہ از خود بلا اطلاع لے لوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،مناسب طریقے سے جتنا تجھے اور تیری اولاد کو پورا ہو لے لیا کرو!"(بخاری ومسلم)

الدین النصیحۃ:

غیبت کا باعث عام طور پر کسی بھائی سے ذاتی رنجش یا اس کی کسی شرعی خلاف ورزی کی بنا پر دینی حمیت ہوتی ہے۔لہذا بجائے اس بھائی کی غلطی کو نامناسب طریقے سے اچھا لنے کے (جس سے غلطی اور بُرائی کو تشہیر بھی ملے اور بھائی کی عزت بھی جائے) مناسب اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس مسلمان بھائی سے براہِ راست رابطہ قائم کرکے اس سے وضاحت طلب کرلی جائے۔اسطرح اگر کسی کوکوئی غلط فہمی ہوگی تو اس کا زالہ ہوجائے گا اور اگر واقعتاً اس سے خطا سرزد ہوئی ہے تو اس کو بہتر اور مناسب طریقے سے توجہ دلائی جائے وہ یقیناً اس پر شرمسار ہوگا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرت ہوئے معذرت چاہیےگا اور اگر کسی وجہ سے اس سے رابطہ ناممکن ہوتو کسی دوسرے صاحب اثر مسلمان بھائی کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔خیر خواہی کا بھی یہی تقاضا ہے۔خیر القرون سے دو مثالیں برائے غور حاضرخدمت ہیں،خالی الذہن ہوکر ان پر غور فرمائیں:

حضرت ابو درداء رضی للہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان کسی بات پر تکرار ہوگئی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض ہو کر چلے گئے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پیچھے معذرت کے ارادے سے گئے لیکن انہوں نے معذرت قبول نہ کی بلکہ دروازہ بند کرکے بیٹھ گئے ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں،"تمہارا یہ ساتھی نیکی میں آگے بڑھ گیا ہے"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اپنے کئے ہوئے پر شرمساری ہوئی، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے،سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے،جبکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلسل یہ کہے جارہے تھے ،اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بخدا قصور میرا زیادہ ہے۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتکرار فرمایا:"کیا تم میرے ساتھی سے درگزر نہیں کرسکتے؟کیونکہ اس نے میرا اس وقت ساتھ دیا جب تم نے جھٹلایا تھا۔الخ۔"(بخاری کتاب التفسیر)

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو شدید صدمہ ہوا۔ حتیٰ کہ بعض تو بالکل پریشان حال ہوگئے میرا حال بھی یہی تھا میں اسی حال میں تھا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گزرے اور سلام کیا جس کی مجھے قطعاً خبر نہ ہوئی ،چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس شکایت کی،پھر وہ دونوں میرے پاس آئے اور سلام کیا،حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،

"کیا بات تھی کہ تم نے اپنے بھائی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلام کا جواب نہیں دیا" میں نے کہا،میں نے تو ایسا نہیں کیا"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً کہا"بخدا تم نے ایسیا ہی کیا ہے۔"حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں " میں نے کہا،مجھےآپ کے گزرنے اور سلام کرنے کی قطعاً خبر نہیں۔" حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:"عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سچ کہتا ہے،ہاں تجھے اس اہم معاملے (وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے بےخبر کردیا تھا۔"(مشکواۃ بحوالہ مسند الامام احمد)

آخری گزارش:

قارئین کرام!!!اس ساری بحث میں کوشش یہی کی گئی ہےکہ صرف آیات مبارکہ اور سنت ثابتہ کو من وعن بلا تبصرہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔اقوال وغیرہ سے دانستہ اعراض کیا گیا ہے۔تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور قابل اعتماد سنت آپ کے سامنے آجائے اور آپ من وجہ البصیرۃ اس پر صدق دل سے عمل کرسکیں۔امید ہے آپ اس پر غور کر کے یہ فیصلہ کریں گے ہمارا موجودہ رویہ بہتر ہے یا کہ سنت کے مطابق عمل کرتے ہوئے غیبت کو ترک کرنا؟

﴿رَ‌بَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الـٔاخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ‌ ﴿٢٠١﴾... سورةالبقرة

پروردیگار!ہمیں دنیا وآخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کی سزا سے محفوظ کردے۔آمین یا رب العالمین!