اسلامی فقہ اور اس کے تعلیمی اور تحقیقی حالات

5۔اسلامی فقہ نے فیصلہ دو منصفوں اور ججوں کے سپرد کیا ہے،ان میں سے ایک دنیوی ہوتا ہے جو ظاہری امور کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے،دوسرا اخروی ہوتا ہے،یہ حقیقت اور اصل واقعہ کے متعلق ہوتا ہے بخلاف وضعی نظام کے،کیونکہ اس میں عموماً ظاہری حالات کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے خواہ نفس الامر کے خلاف ہو۔

6۔اسلامی فقہ کا قانون اخلاق کے مطابق ہوتا ہے اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے موافق!کیونکہ اخلاق سے انسان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔بدیں وجہ اس فقہ کی فروع اور قواعد اخلاق حمیدہ کے منافی نہیں ہوتے۔بلکہ ان کے موافق ہوتے ہیں۔لیکن وضعی نظام میں اخلاق کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی کیونکہ اس نظام کا کام حالات کو منظم کرنا ہوتا ہے۔خواہ اخلاق حمیدہ کا فقدان ہوجائے۔

7۔انسان وضعی نظام کی بہ نسبت فقہ کے احکام کو قبول کرنے کے لئے جلد تیار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے احکام کی پابندی نے اسے لوگوں کے لئے طاقتور بادشاہ بنادیا لیکن وضعی نظام میں لوگ شوق سے حکمران کے حکم کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کی قوت سے خوفزدہ ہوکر مجبوراً اس کے حکم کی تعمیل کرتےہیں۔ ان کے دلوں میں اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ مفقود ہوتا ہے۔

8۔اسلامی فقہ کی غرض وغایت دونوں جہانوں میں انسانوں کی سعادت اور بہتری ہوتی ہے بلکہ وضعی نظام کا نقطہء نگاہ یہ ہوتا ہے کہ جو قانون وضع کیا گیا ہے، معاشرہ اور عوام اس پر قائم رہیں اور اس کی پابندی کریں۔خواہ اس میں ان کا مفاد ہو یا نقصان۔

4۔اسلامی فقہ کی خصوصیات


یہ فقہ بہت سی خصوصیات سے ممتاز ہے ان میں سے چند اہم مندرجہ زیل ہیں:

1۔یہ زمانہ اور حالات کے ساتھ ساتھ درجہ بدرجہ ترقی کرتی رہی ہے۔چنانچہ نبوت کے زمانہ میں خواص اسباب کی بناء پر کچھ احکام نازل ہوئے۔اس امر کی اطلاع اس سے ہوتی ہے کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بعض احکام کے سلسلے میں کچھ آیات وارد ہوئی ہیں جو اس کے موافق میں اس میں حکمت یہ تھی کہ بتدریج احکام شریعت کو قبول کرنا اور ان کی تعمیل کرنا آسان تھا خصوصاً ایسے لوگوں کے لئے جو ہر کام اور ہر شے کو جائز سمجھتے تھے اور امور شاقہ اور تکلیف دہ کاموں سے گریزاں تھے۔پھر یہ تدریج کا معاملہ کسی ایک امر میں نہیں بلکہ شریعت کے ایک ایک حکم میں ایسا ہوا۔حتیٰ کہ وہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ۔جیسا کہ نما ز اور زکواۃ کے احکام میں اور شراب کی حرمت اور ممانعت میں ہوا۔

2۔اسلامی فقہ میں تخفیف اور عدم حرج کو ہمیشہ مد نظر رکھا گیا۔چنانچہ اس فقہ کے احکام کی پیروی کرنے والے ان احکام میں اتنی مشقت محسوس نہیں کرتے جس کی بناء پر اس کی ادائیگی دشوار ہوجائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ...١٨٥﴾... سورة البقرة

"اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے وہ تمہاری تکلیف کا خواہاں نہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امور شریعت میں آسانی پیدا کرنےکا حکم فرمایا اور جس امر کے متعلق کوئی وحی نازل نہیں ہوئی اس کے متعلق خوامخواہ سوالات کرنے سے منع فرمایا چنانچہ معذور لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق رعایت اور رخصت دینا کہ وہ ان امور کو ترک کرکے ان کی بجائے آسان کام کرلیں عدم حرج کی بہت بڑی مثال ہے۔

3۔یہ بنی نوع انسان کے مفاداور مصلحت کے پیش نظر وضع کی گئی ہے۔خواہ معاشرہ اور ماحول میں انقلاب آجائے یا زمانہ اور حالات میں تبدیلی ہوجائے کیونکہ اس کے احکام بعض علتوں اور حکمتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ شرعی نصوص ان کی وضاحت کرتی ہیں اور بتلاتی ہیں کہ یہ احکام مکلفین کے فوائد اور مصالح پر مبنی ہیں۔

4۔اسلامی فقہ کے احکام لوگوں میں عدل ومساوات کو برقرار رکھتے ہیں،عدل کو قائم رکھنا شریعت کا ایک اہم مقصد ہے اس میں مسلمان اور کافر میں کوئی تمیز نہیں، اپنے اور بیگانے میں کوئی امتیاز نہیں۔اعلیٰ خاندان اور ادنیٰ خاندان کے لوگ سب مساوی ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى....﴿٩٠﴾... سورة النحل

"اللہ تعالیٰ تم کو عدل وانصاف اور نیکی،نیز رشتہ داروں کو(کچھ مال) دینے کا حکم فرماتا ہے۔"

نیز فرمایا

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ...﴿١٣٥﴾... سورة النساء

"اے ایمان والو !تم اللہ کی خاطر انصاف کی گواہی پر پختہ رہو۔''

اسی اصول کو اُمت کے سلف نے اپنایا اور ان کی زندگی پختہ ہوگئی۔ یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔جو مسند خلافت پر بیٹھتے ہیں فرماتے ہیں:

"لوگو! میری نگاہوں میں جو شخص کمزور وناتواں ہے وہ طاقتور ہے حتیٰ کہ میں اس کا حق ادا کروں اور جو تم میں طاقتور ہے وہ میری نگاہ میں ضعیف و ناتواں ہے حتیٰ کہ اس سے حق لے سکوں۔"

5۔یہ جماعت کے ایک ایک فرد کی مصلحت اور اس کے مفاد کا خیال کرتی ہے ایک فر د کی مصلحت جماعت کی مصلحت ہے چنانچہ یہ انفرادی جدو جہد اور تحریک کا تزکیہ کرتی ہے ۔عمل کے اسباب میں طاقت پیدا کرتی ہے اس کی جدوجہد کے ثمرہ کی حفاظت کرتی ہے۔نیز جماعت کی اصلاح اور پختگی بھی مقصود ہوتی ہے یہ معاشرہ کی حفاظت کرتی ہے تاکہ معاملات میں کوئی کجی واقع نہ ہو ۔اگر اس کے اصولوں کی پابندی کی جائے تو کوئی ایک فرد جماعت پر تسلط نہیں جما سکتا۔اس کی انفرادی جدوجہد کو رائیگاں تصور نہیں کیا جاتا تاکہ اس کی فطرت مسخ نہ ہوجائے بلکہ ان کے مابین توازن کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔جس سے جماعت کے اجتماعی اور انفرادی امور درست رہیں لیکن اگر کسی انفرادی مصلحت اجتماعی مصلحت سے ٹکرائے تو ایسی صورت میں اجتماعی حقوق اور مصلحت کو ترجیح ہوگی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فقہ کا مزاج در اصل عام لوگوں کو مصلحتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔اور بُرائی فساد اور بگاڑ سے ان کی حفاظت کرتی ہے یہ بات اس کے ابتدائی چند اصولوں سے واضح ہوتی ہے ۔ان سے اہم مساوات ،اتحاد اور ایک دوسرے سے تعاون کا قانون ہے۔اس کا پہلاضابطہ یہ ہے کہ حقوق کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔اس نے اہل حقوق کو پیدا کیا اور ان کے حقوق مقرر کیے ہیں ۔اس نے اپنے بندوں کو کچھ حقوق عنایت کیے ہیں۔تاکہ ان کی فضیلت ظاہر ہو لیکن یہ حقوق کسی فرد کو مطلقاً نہیں دیے۔بلکہ ساتھ ساتھ کچھ شرائط لگائی ہیں۔ اور دیگر لوگوں کی مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔تاکہ جماعتی طور پر نقصان نہ ہو،اس کی واضح مثال یہ مال ہے شریعت نے یہ قانون بنایا ہے کہ اس کا کوئی مال ہو اور اس سے فائدہ اٹھائے جو فرد اور جماعت کے فائدہ پر مبنی ہو۔چنانچہ شریعت نے دھوکا بازی ،حیلہ وفریب،خیانت وغیرہ سے منع کیا ہے۔

دوسرا ضابطہ اور قاعدہ اکثر شرعی احکام میں واضح ہوتا ہے۔جیسے مالی واجبات جو محتاج کی حاجت پوری کرتے ہیں۔اور معاشرے کی حفاظت کرتے ہیں۔اور اسے حسد،اور کینہ کی بیماری سے محفوظ رکھتے ہیں۔یہ ضابطہ زکواۃ اور صدقہ دینے اور سود اور ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی میں واضح تر نظر آتا ہے۔"

اسلامی فقہ کےمختلف ادوار


اب ہم فقہ کے مختلف ادوار کا ذکر کریں گے۔

دور اول

یہ دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت پر ختم ہوجاتا ہے۔اور یہ سن 12ہجری تک کا زمانہ ہے جسے دو مرحلوں میں منقسم کیا جاتا ہے مکی اور مدنی۔چنانچہ مکی زندگی میں سب سے پہلے عقیدہ کی اصلاح اور درستی پر زور دیا گیا۔کیونکہ عمل کی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں نازل شدہ آیات اور قرآنی سورتیں اللہ کی حمد وثنا سے بھری ہوئی ہیں۔جہاں میں جو اس کے آثار اور نشانیاں نظر آتی ہیں ان کا ذکر ہے لوگوں کو قرآن کریم میں تدبر اور غوروفکر کا حکم ہے۔مسلمانوں کو اپنی عقل سے صحیح فائدہ اٹھانے کا حکم اور انبیائے کرام علیھم السلام کی صداقت کا ذکر ہے۔ اس دور میں قرآن کریم نے صرف چند ایک عملی امور کے سوا سب ایسی باتیں ذکر کی ہیں جن کا تعلق عقیدہ سے ہے یا جو عقیدہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔جیسا کہ مردار اور حیوانی خون کو حرام قرار دیا۔اسی طرح جس شے پر غیر اللہ کا نام لیا جائے یا اس کے بندوں کے نام پر دی جائے وہ بھی سراسر حرام ہے یا پھر ایسے اعمال کا ذکر کیا ہے جو انسان کا رشتہ اپنے خالق سے استوار کرنے میں ممدو معاون ہوتے ہیں اور انسانی نفس کو نیکی کے راستہ کی طرف رغبت دلاتے ہیں۔جیسے نماز،چنانچہ تقریباً تیرہ سال تک قرآن کریم کا نزول اسی انداز سے ہوتا رہا۔

جبکہ مدینہ منورہ میں اسلامی سلطلنت کی بنیاد رکھی گئی اور عہد جدید کے تقاضوں کےمطابق امت کو جس بات کی طلب ہوتی اُس کے متعلق وحی نازل ہوتی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر جو کچھ نازل ہوتا اسے لوگوں تک پہنچاتے۔نیز ان کے سامنے اس کی وضاحت اور تشریح فرماتے تھے۔اس وقت شریعت نے لوگوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں انفرادی اوراجتماعی تنظیم پر زور دیا۔ چنانچہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ باقی نہ رہا جس میں مضبوط تنظیم نہ ہو ۔نبوت کے زمانہ کی چند اہم خصوصیات مندرجہ زیل ہیں:

1۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت سے پہلے شریعت کے اصول اور قواعد کی تکمیل ہوگئی۔اس کے بعد تطبیق اور استنباط کا مسئلہ ر ہ گیا۔

2۔شریعت کا حکم نافذ کرنے والی صرف ایک اتھارٹی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔شریعت کا منبع دونوں کی قسم کی وحی الٰہی تھی۔بدیں وجہ اس میں اختلاف کی گنجائش نہ تھی۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اجتہاد کو اس وقت تک شریعت کا درجہ نہیں دیا گیا جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تصدیق اور توثیق نہیں فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی توثیق کے بعد یہ سنت میں داخل ہوگیا۔

3۔اس زمانہ میں فقہ کسی واقعہ سے متعلق ہوتی تھی۔

لوگ کسی واقعہ کے بعد اس کے متعلق سوال کرتے کہ اب اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ وہ کسی واقعہ سے خود بخود کوئی حکم فرض نہیں کرلیتے تھے۔اور ان کے سوالات کے جواب میں آیات نازل ہوتی تھیں۔جو احکام کی وضاحت کر تی تھیں۔یا اس واقعہ کے حکم کی وضاحت کرتی تھیں۔اور اسی طرح دیگر امور سے باخبر کرتی تھیں۔

4۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی فقہ ایک ہی مرتبہ مقرر نہیں ہوتی بلکہ واقعات کے ظہور کے مطابق آیات اوراحادیث سے مقرر ہوئی۔

5۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں فقہ کو مدون نہیں کیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے متبعین کو اس کے تمام قواعد وضوابط سے آگاہ فرمایا اور استنباط کا طریقہ بتلایا جو ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لوگوں کی حاجتوں کے لئے مناسب اور موزوں ہوتا۔

دوسرا دور:

یہ دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت سے شروع ہوتا ہے۔اور بنو امیہ کی حکومت کے خاتمے پر ختم ہوجاتا ہے۔اپنی خصوصیات کےلحاظ سے اس کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

پہلا مرحلہ،خلفائے راشدین کا رضوان اللہ عنھم اجمعین کا زمانہ


فقہی حالات میں تغیر وتبدل کا آغاذ:

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے انتقال کے بعد اسلامی فتوحات کا سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا گیا اور اسلامی سلطنت کے زیر نگیں کئی اقوام آگئیں،چنانچہ،مصر،شام،عراق اور فارس کے ممالک پر اسلامی جھنڈا لہرانے لگا۔یہ لوگ اپنی اپنی تہذیب وتمدن کےحامل تھے۔ان کے کچھ مخصوص عادات وخصائل تھے ۔ان کا مالی نظم و نسق،زراعت کا طریق کار اور دیگر اداروں کا نظم وضبط جزیر ہ عرب کے نظم وضبط سے مختلف تھا۔بدیں وجہ مسلمانوں کو امور حیات میں متعدد مسائل کی ضرورت پیش آئی۔اس میں وہ شریعت کے محتاج تھے،چنانچہ دین کی ر وشنی میں فقہ مختلف ادوار سے گزرنے لگی۔اس عرصہ میں ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے جب کوئی نیا واقعہ پیش آتا تو اس کے متعلق قرآن کریم میں حکم تلاش کرتے۔اگر کوئی حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔اگر اس میں کوئی حکم نہ ملتا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں تلاش کرتے۔اگر وہاں بھی حکم صریح نہ پاتے تو کتاب وسنت کی روشنی میں اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ۔اور ان دونوں سے جو اسرار اور حکم ملتے ان پر عمل کرتے تھے۔اس عمل کی شہادت اس واقعہ سے ہوتی ہے جو ابو عبیدہ نے کتاب القضاء میں بیان کیا ہے کہ:

"کہ ہمیں کثیر بن ہشام نے ،اس کو جعفر بن برقان نے ،اس کو میمون بن مہران نے بتلایا کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی قضیہ آتا تو اس کا حل قرآن مجید میں تلاش کرتے۔اگر وہاں مل جاتا تو اس کے ساتھ فیصلہ کرتے۔اگر نہ ملتا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں تلاش کرتے۔اگر اس میں مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے ۔ورنہ لوگوں کو جمع کرتے اور ان سے مشورہ لیتے جب ان کی رائے کسی معاملہ میں متفق ہوجاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بھی یہی د ستورتھا۔"(اعلام الموقعین جلد 2 ص 33)

اس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے مصادر چار تھے۔(1) قرآن مجید (2) سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(3) اجماع صحابہ رضوان اللہ اجمعین (4) رائے۔پھر رائے دو اقسام پر منقسم تھی۔ایک اجتماعی رائے اور دوسری انفرادی رائے۔جب ہم ان کی رائے کے استعمال کرنے کے مواقع پر غور وفکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ دلائل کی ان تمام انواع پر مشتمل ہے جو اپنے خاص ناموں کے ساتھ مشہور ہیں جیسے قیاس اور استحسان وغیرہ۔جب وہ اپنی رائے استعمال کرتے تو اسے اللہ کا حکم تصور نہیں کرتے تھے بلکہ اگر وہ غلط ثابت ہوتا تو اسے اپنی طرف منسوب کرتے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے تھے۔

اجتہاد میں اختلاف کے اسباب:

شورٰی اور اجتماعی اجتہاد کے باوجود ا ن میں اختلاف ہوا،مثلاً بعض ایسے الفاظ کے بارے میں جو دو معنوں میں مشترک ہیں،یا یہ اختلاف کہ آیا یہ حقیقی معنیٰ پر مبنی ہیں یا ان کے مجازی معنیٰ مراد ہیں ،یا ظاہری نصوص آپس میں متعارض ہیں۔تاہم ان کا دائرہ اختلاف محدود تھا۔اس کے کچھ اسباب تھے ان سے چند اہم درج زیل ہیں:

1۔وہ امور دین میں ہمیشہ مشورہ سے کام لیتے تھے جس کی بناء پر ان کے اکثر اختلافات کا خاتمہ ہوجاتا تھا۔

2۔ان کا اجماع آسان تھا کیونکہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ منورہ میں رہتے تھے۔

3۔فتوےٰ دیتے وقت ورع اور پرہیز گاری کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔

4۔اس زمانے میں تو ازل کی قلت تھی جبکہ بعد میں زیادہ ہوگئے۔

5۔حدیث کی روایت کم تھی۔

دوسرا مرحلہ:

یہ خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے زمانے کے اختتام سے شروع ہوکر بنو امیہ کی حکومت کے خاتمہ تک ہے۔اس مرحلے میں کوئی نئے واقعات وحوادث پیش آئے۔

جن کی وجہ سے وہ اپنی ابتدائی حالت پر نہ رہی۔بلکہ حالات اورواقعات کے مطابق اسی کے اسلوب میں تبدیلی ہوتی رہی۔ان میں سے چند اہم واقعات اورحوادث درج زیل ہیں:

1۔خلافت کے نزاع میں امت مسلمہ تین گروہوں میں بٹ گئی۔

الف۔خوارج:یہ مسلمانوں کی ایک جماعت تھی۔ان کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیاست پسند نہ تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کو شکوہ تھا کہ انھوں نے تحکیم کا فیصلہ کیوں منظور کیا۔بنا بریں ان کے خلاف ہوگئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت سے بھی نالاں تھے۔ان وجوہات کی بنا ء پر وہ ان سب کے مخالف تھے انہوں نے اپنا ایک ضابطہ مقرر کیا کہ آزادانہ انتخاب کے ذریعے مسلمانوں میں خلیفہ کا منتخب کرنا ضروری ہے ۔اس ضابطے کی پابندی کرنے میں انہوں نے ضد بازی سے کام لیا۔

ب۔شیعہ:یہ وہ لوگ تھے جن کا ایک علیحدہ گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کی حمات میں معرض وجود میں آیا ان کا سب سے بڑا مسئلہ خلافت کا تھا۔یہ خلافت کا حقدار صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو تسلیم کرتے تھے۔یہ کہتے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کی وصیت فرمائی تھی۔ان میں کچھ لوگ اعتدال پسند تھے اور کچھ انتہا پسند۔پھر ان کی کئی شاخیں ہوگئیں۔

ج۔جمہور معتدل:

تیسرا گروہ اہل سنت جماعت کا تھا۔ان کی رائے یہ تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خلافت کی کسی کو وصیت ہرگز نہ فرمائی۔یہ تینوں گروہ اپنے اپنے معتقدات اور نظریات کی بناء پر ایک دوسرے سے مختلف ہوئے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اول الذکر دو گروہوں نے سنت سے استدلال پکڑنے میں اختلاف کیا۔

2۔اموی خلفاء سیاست میں داخل ہوکر سلف کی سیرت سے بیگانہ ہوگئے۔انہوں نے کئی غیر مشروع امور ایجاد کئے۔جن کی بناء پر علماءان کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھنے لگے جیسے کہ انہوں نے ولی عہدی کی رسم کا اجراء کیا اور عالیشان اور خوبصورت محلات اور مکانات بنائے وغیرہ۔

3۔علمائے اسلام مختلف شہروں میں پھیل گئے۔اور یہ امر اختلاف کا باعث ہوا۔کیونکہ ہر عالم اپنی صوابدید کے مطابق فتویٰ دیتاتھا۔اور فتویٰ دینے سے پیشتر کسی دوسرے عالم سے مل کر اس مسئلہ پر تحقیق وتنقید نہیں کرتا تھا۔

4۔حدیث کے راوی عام ہوگئے۔اور وضعی حدیثیں بنانے والے بھی پیدا ہوگئے۔

5۔جمہو اپنے فقہی مسلک میں دو گروہوں میں بٹ گئے ان میں سے ایک گروہ نے ظاہری نصوص کو پکڑا۔

جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ اللہ کے احکام کسی مقصد کے لئے مشروع ہوتے ہیں اور اس کے کچھ اسباب ہوتے ہیں۔بدیں وجہ وہ احکام کے علل او ر اسباب کے پیچھے پڑ گئے اور رائے کا استعمال عام شروع کردیا۔یہ اہل رائے کے نام سے پکارے جانے لگے ۔پہلے فریق کا مرکز مدینہ اور دوسرے فریق کا کوفہ تھا۔پہلے مدرسے کے علماء نے حدیث کی تالیف میں کوشش کی اور مسائل کا مفروضہ اور اس کے احکا م بنانے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔دوسرا مدرسہ اہل رائے کا تھا۔اس مدرسہ کے علماء کا پہلا کام رائے قائم کرنا پھر مفروضہ بنا کر اس کے احکام مقرر کرنا تھا۔

دونوں مدارس میں اختلاف کیوجہ یہ تھی کہ حجاز میں زندگی پر سکون تھی۔لوگ امن وسلامتی سے زندگی بسر کرتے تھے۔وہاں کوئی شاذونادر نیا واقعہ پیش آتا۔اس کے حل کے لئے حدیثیں اور فتوے کثرت سے موجود تھے۔بنابریں وہاں پر شاذونادر ہی رائے استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔اس کے برعکس کوفہ میں نئی زندگی اور نئی تہذیب وتمدن کا دور آیا۔اس میں کئی حوادث اور واقعات پیش آئے۔مدینہ کی طرح وہاں پر احادیث کی کثرت نہیں تھی۔اور علماء نے حدیث قبول کرنے میں تشدد سے کام لیا۔کیونکہ کچھ لوگ وضعی حدیثیں بنانے لگے تھے۔بناء بریں حدیث کی بجائے اپنی رائے کو کثرت سے استعمال کرنے لگے۔

تیسرا دور:یہ دور اموری حکومت کے خاتمے اور عباسی حکومت کے قیام سے شروع ہوتا ہے۔اور چوتھی صدی کے نصف اول پر ختم ہوجاتا ہے۔یعنی جب عباسی حکومت کو زوال آیااور موالی کی حکومت قائم ہوئی اور یہ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوکر دوسرے ممالک کا حصہ بن گیا۔

یہ زمانہ عباسی حکومت کا پورے جوبن کا تھا۔کیونکہ اس زمانہ میں وہ ہمہ قسم کی تہذیب وتمدن سے آراستہ تھے اور کوئی تہذیبوں کا مرکز تھے۔حتیٰ کہ یہ زمانہ بیداری قوت،فکر ونظر کی پختگی،عملی زندگی،گہری بحث وتمحیص ،فقہی رغبت،اجتہاد مطلق اور استنباط کا تھا۔

اس دور میں فقہ کے احیاء اور بیداری کے کئی عوامل اور اسباب تھے ان میں سے چند بہت اہمیت کے حامل تھے جو مندرجہ زیل ہیں:

1۔عباسی خلفاء نے فقہ اور فقہاء کی طرف خصوصی توجہ دی۔

2۔سیاسی امور کے ماسوا ان کو مکمل آزادی رائے تھی۔

3۔علمی بحث ومباحثہ اور نقد ونظر کی مجلسیں ہر وقت قائم ر ہتی تھیں۔

4۔اس دور میں کثرت سے واقعات رونما ہوئے۔

5۔علمی میدان میں موالی دلچسپی لینے لگے۔

6۔مختلف قوموں کی تہذیب وتمدن نے عقل انسانی کو متاثر ک یا۔

7۔علم کی تدوین کی گئی اور اس کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کیا گیا۔جیسے فارسی،یونانی اور ہندوستانی زبانوں میں جو علمی موادتھا، اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔

شریعت کے مصادر:

اس د ور میں شریعت کے مصادر جن پر احکام کی بنیاد تھی متعدد تھے لیکن ان میں علماء کا اتفاق نہیں تھا۔

اس دور کی خصوصیات:

یہ اسلامی فقہ کا بہترین زمانہ تھا۔اس زمانہ میں فقہ کی تکمیل ہوئی۔خصوصاً دوسری اور تیسری صدی ہجری میں یہ پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔اس دور کی چند اہم خصوصیات مندرجہ زیل ہیں:

1۔فقہ نے بہت ترقی کیاور وسیع تر ہوگئی۔اس کے قواعد اوراصول ،زندگی کے تمام امور پر حاوی ہوگئے۔

2۔اس دور میں کثرت سے نابغہ روز گار فقہاء پیدا ہوئے۔جن کی امامت ،عظمت اور علم کا جمہور نے اعتراف کیا۔اس دور میں سب سے زیادہ علماء اور مجتہد پیدا ہوئے جوتمام شہروں میں پھیل گئے۔

3۔اس زمانے میں متعدد فقہی مذاہب کاظہور ہوا۔اس میں اہلسنت کے بارہ ائمہ کے مذاہب پھیلے جو یہ ہیں۔امام مالک،امام ابو حنیفہ،امام شافعی،امام احمد بن حنبل،امام اوزاعی،امام ثوری،امام لیث،امام سفیان بن عینیہ،امام اسحاق بن راہویہ،امام ابو ثور، امام داؤد ظاہری اور امام ابن جریر کا مذہب ان کے علاوہ زیدیہ،امامیہ،اور شیعہ مذہب کا ظہور ہوا۔

4۔شریعت کے بعض مصادر میں سخت اختلاف ہوگیا اور طریقہ استنباط بھی مختلف ہوگیا۔

5۔عہدہ قضاء احتساب اور دیگر عہدوں پر ایسے اشخاص کو مقرر کیا گیا جو حکومت کے ہم مذہب تھے۔

6۔لوگوں کے طور اطوار اور عادات کا فقہ پر اثر ہوا۔اس پر احکام کی بنیاد رکھی گئی۔اور مجتہدوں کے مذاہب میں اس کا اثر ہوا۔

7۔اس دور کے اوائل میں فقہ کی علمی تدوین ہوئی ۔اسی طرح اصول فقہ کی تدوین بھی اسی زمانہ میں ہوئی۔

8۔اسی دور میں فروع مسائل کثرت سے پیدا ہوئے ،نیز مفروضات پر فقہ تیار کی گئی۔

9۔اس زمانہ میں متعدد فقہی اصطلاحات کا ظہور ہوا۔

چوتھا دور:

اس دور کا آغاذ چوتھی صدی کے نصف آخر سے ہوتا ہے اور 756 ہجری میں سقوط بغداد کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔اس زمانہ کے سیاسی حالات مضطرب تھے۔ملک میں بغاوتوں کالگاتار سلسلہ جاری تھا۔اور متواتر فتنے جنم لے رہے تھے۔ان حالات کا اثر اسلامی فقہ پر بھی پڑا کیونکہ اس کے لئے پرسکون فضا اور مکمل حریت کی ضرورت تھی۔چنانچہ ایک وقت تھا کہ علماء اجتہاد مطلق سے کام لیتے تھے۔اور شرعی حالات کو سیاسی حالات پر فوقیت دی جاتی تھی۔لیکن اب اسلامی فقہ کی طاقت حسب سابق نہ رہی ۔بلکہ زوال پزیر ہوگئی اور علمی تحریکات ماند پڑ کر ترقی کے بعد تنزلی سے دو چار ہوئیں حتیٰ کہ ہم نے ابن جریر ؒ جو 330ہجری میں فوت ہوئے،کہ بعد کسی کودرجہ اجتہاد مطلق تک پہنچا نہیں دیکھا علماء نے اس کا پورا حق ادا نہ کیا اور سمجھا کہ ہم اس پرنظر کرنے اور اس سے استنباط کرنے کے اہل نہیں اور تقلید امام پر راضی ہوئے۔بنا بریں انہوں نے اجتہاد کادروازہ بند کردیا۔ حالانکہ ان میں کچھ ایسے لوگ تھے جو سلف صالحین کا نمونہ تھے۔ اصول شریعت کا علم انہیں اسلاف کے مانند تھا اور استنباط کے طریقے بھی ان کے پاس ان سے کم نہ تھے۔اس زمانہ میں علماء کیاہم تحریکات مندرجہ زیل تھیں۔

1۔ائمہ سابقین نے جو احکام بغیر کسی علت ذکر کرنے کے بیان کئے تھے ،ان کی علت پر بحث کرتے تھے اور تلاش کرتے تھے۔

2۔کسی مذہب میں اگر مختلف آراء ہوتیں تو ان میں سے ایک کوترجیح دیتے تھے۔

3۔اپنے اپنے مذاہب کی مجمل او تفصیلاً مدد کرتے تھے حتیٰ کہ ان پر مذہبی تعصب کا غلبہ ہوگیا جس کی بناء پر مبالغہ آمیزی سے کام لینے لگے۔

پانچواں دور:

یہ دور سقوط بغداد سے شروع ہوکر تیرہویں صدی کے خاتمہ پر ختم ہوتا ہے۔اس زمانہ میں فقہ میں ضعف واضمحلال آگیا اور یہ جمود وتعطل کا شکار ہوگئی۔اس سے پہلے کبھی ایسا جمود نہیں آیا تھا۔فقہی تالیفات کا بھی یہی حال تھا ۔سوائے چند ایک کتب کے تمام تالیفات کے خلاصے لکھے گئے۔اس کے اختصاراور خلاصہ کا لوگوں کو اس قدر جنون پیدا ہوا کہ فروعات کی اکثر کتب مختصر عبارت میں لکھی گئیں جو ایک معمہ کے مشابہ ہوگئیں اور متن کا طریقہ ابہام تک پہنچ گیا حتیٰ کہ اس کی تشریح کافی وقت اور سخت محنت کی متقاضی ہوئی۔

جمود کے اثرات:

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی فقہ کا کام رک گیا۔چنانچہ یہ وقتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوسکی۔اور قومی تحریکات کا ساتھ نہ دے سکنے کی وجہ سے ضروریات زندگی کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہوگئی۔فقہ کے احکام میں الجھن پیدا ہوگئی۔اور ان کو سمجھنا مشکل ہوگیا بنا بریں لوگ اس سے بے رغبتی کا اظہار کرنے لگے اور وضعی نظام کی طرف مائل ہوئے کیونکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ ان کے تقاضے پورے کرتاتھا۔اور اسی طرح وہ فقہ جو کئی صدیوں سے ان کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔اس سے ا نہوں نے منہ موڑ لیا اور وہ کسمپرسی کی حالت میں ہوگئی۔

لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس تاریک رات میں اس چمکتے ہوئے ستارے کا ذکر کریں جس نے رات کو دن میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ترک تقلید اور اجتہاد کے دروازے پر دستک دینے کی پوری قوت سے دعوت دی اس دعوت کا پرچم سب سے پہلے امام ابن تیمیہ ؒ متوفی 728ہجری اور ان کے شاگرد ابن قیم جوزیہ ؒ متوفی 751ہجری نے اٹھایا۔ان دونوں نے تقلید اور مقلدین پر سخت حملے کئے انہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے اور اسلامی مسائل میں اجتہاد کرنے کی دعوت دی۔پھر ان کے بعد امام محمد ؒ بن عبدالوہاب متوفی 1206ہجری اجتہاد اور تقلید کے معاملے میں امام ابن تیمیہ ؒ کے مسلک پر چلے اور اسے خوب فروغ دینے کی کوشش کی اور لوگوں کو کتاب وسنت کی دعوت دی۔

دور ہذا میں فقہ کے تاخر کے اسباب :

گذشتہ سطور کی روشنی میں ہم اسکے اسباب تلاش کرسکتے ہیں۔ان میںسے چند اہم درج زیل ہیں۔

1۔حکومت کا شیرازہ بکھر کر یہ زوال پزیر ہوگئی۔حکومت پر غیر عرب قابض ہوگئے۔اس سیاسی زوال کا اثر علمی اور دینی حالات پر پڑا۔

2۔مختلف شہروں میں رہنے والے علماء کا باہمی رشتہ منقطع ہوگیا۔جس کی وجہ سے شرعی علوم زوال پزیر ہوئے۔

3۔علمائے اسلام اپنے آرام کی خاطر یا اسے مشکل تصور کرتے ہوئے اجتہاد کے کام سے ہٹ گئے۔

4۔آئمہ کی کتب سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہ رہی کیونکہ انہوں نے طریقہ تالیف میں اختصار سے کام لیا اور ان کی کتب لوگوں کے لئے معمہ بن گئیں۔

چھٹا دور:

جو کچھ ہم سطور بالا میں بیان کرچکے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان پست ہمت ہوگئے۔فقہ رُوبہ انحطاط ہوئی اور حالات حاضرہ کے ساتھ مطابقت نہ کرسکی ان حالات کو دیکھ کر اسلامی ممالک میں کچھ مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔انہوں نے لوگوں کو اسلامی فقہ کی دعوت دی۔اور اس بات کو ان کے ذہن سے نکالا کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔اور تقلید کی ضرورت ہے۔انہوں نے زندگی کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کی دعوت دی کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ...﴿٣٨﴾... سورةالانعام

"ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کمی نہیں چھوڑی!"

اصلاحی دعوت کا آغاز:

تیرہویں صدی ہجری کے اوائل مین اس دعوت کا آغاز ہوا۔اس کا سب سے بڑا مقصد دینی اصلاح تھا ۔اگرچہ ہر ملک میں دعوت کے وسائل مختلف تھے تاہم یہ تین امور میں مشترک تھے۔

1۔فقہ کے پہلے مصادر یعنی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے میں اور تقلید اور جمود کے پنجے سے نجات حاصل کرنے میں۔

2۔مشکل اور پیچیدہ کتابیں،جو علمی اور عملی زوال کے دور میں لوگوں میں نشر ہوئیں،ان سے نجات حاصل کرنے کےلئے آسان اور سہل کتب کی تالیف کے کام میں۔

3۔تمام اسلامی فقہ سے فائدہ اٹھانے اور لوگوں کو کسی خاص مذہب کی فقہ کا پابند نہ کرنے میں۔

فقہی تحریک کے مظاہر:

اس دور میں فقہی تحریک کے اہم مظاہر مندرجہ زیل تھے:

1۔تمام بڑے فقہی مذاہب کی تعلیم کا انتظام کیا گیا اور کسی ایک مذہب کی فقہ کو ترجیح نہیں دی گئی۔

2۔مفید موضوعات کی تعلیم کا انتظام کیا گیا اور بے سود فقہی تراکیب کو ترک کیا گیا یا اس میں معمولی سی بحث تمحیص کی گئی۔

3۔ایسی فقہ کا اہتمام کیا گیا جو تمام مذاہب اسلامیہ کو قریب تر کرنے والی تھی،خواہ کسی ایک مسئلہ میں ہویا کسی ایک قاعدہ میں یا شریعت اسلامی کے تمام مذاہب اور وضعی قوانین میں ہو۔ان تعلیمات کی غرض وغایت یہ تھی کہ اسلامی فقہ کے فضائل اور فوائد بیان کئے جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ شریعت کے اختلافی مسائل کا حل اسلامی فقہ ہے۔

4۔لوگ عام نظریات سے ہٹ کر اسلامی فقہ کے نظریے اور تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔

5۔اسلامی فقہ کی تعلیم کا خصوصیت سے انتظام کیا گیا۔یہ یقینی امر ہے کہ ایسی تعلیم انسان میں اہلیت پیدا کرتی ہے اور اسے ایک جید عالم بنا دیتی ہے جو اسلامی فقہ کے قوانین پر گہری نگاہ ڈال سکتا ہے۔

خاتمہ:

اس بحث کے خاتمہ پر ہم دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔اسلامی فقہ ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لوگوں کے لئے قابل قبول ہے۔خواہ معاشرہ میں اختلاف انتشار ہو کیونکہ اس کے احکام دو اقسام میں منقسم ہیں۔

1۔ایسے احکام جو پختہ ہیں جن کی عام اصولوں اور قواعد کلیہ میں تعمیل ضروری ہے،جو ضروری مقاصد کی حفاظت کے لئے ناگزیر ہیں اور جن پر زندگی کا انحصار ہے۔

2۔ایسے احکام جو انسانی زندگی میں لوگوں کی نئی نئی ضروریات اور مختلف قوموں کے حالات کے مطابق قابل قبول ہیں۔اسلامی فقہ اپنی حقیقت اور شرعی اصول کے لحاظ سے حالات سے عین مطابقت ر کھتی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ"ہم نے اپنی کتاب میں کسی بات کی کمی نہیں رہنے دی"

اسلامی فقہ میں تبدیلی کے اہم وسائل میں سے ایک صحیح اجتہاد ہے جو شریعت کے اسرار ومقاصد پر گہرے ادراک پر مبنی ہو اور اس کے احکام ،اسباب اور استنباط احکام میں قابل اعتماد دلائل پر مبنی ہو اور ان کو سمجھنے کے لئے فہم دقیق ہو۔چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں احکام کی علت اور شریعت کے مقاصد میں اجتہاد کرتے تھے۔اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال فرمانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں کے مطابق اجتہاد کرتے تھے۔ان کے بعد علمائے امت ان کے اصولوں کے مطابق اجتہاد کرتے تھے۔ وہ شرعی نصوص کو سمجھانے کے لئے اجتہاد کرتے اور ان کے اسرار سے واقفیت حاصل کرتے تھے اس طرح امت کے علمائے مجتہدین نئے نئے واقعات کو مد نظر رکھ کر ان کے لئے احکام تلاش کرتے تھے۔

استنباط میں اس قسم کے فہم نے اُمت کے سلف کے لئے شریعت اسلامی میں ان کی ضروریات کے مطابق فتویٰ دینے اور فیصلہ کرنے کو ممکن بنادیا۔چنانچہ ان کو ہزاروں ایسے مسائل سے واسطہ پڑا جن کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ان مسائل کے لئے احکام تلاش کئے جو بعد میں آنے والے لوگوں کےلئے چراغ ثابت ہوئے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اجتہاد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اجتہاد میں صرف یہ فرق تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں جب وہ اجتہاد کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے د رست یا غلط ہونے کی وضاحت فرما دیتے تھے،جیسے کہ بنو قریظہ میں جاکر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا عصر کی نماز پڑھنے کا واقعہ ہے۔بعض نے وہاں جانے سے پہلے پڑھ لی۔اور بعض نے بنو قریظہ میں جا کر پڑھی۔ایسے ہی بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا کسی قوم کو کلمہ توحید پڑھنے کے بعدقتل کرنے کا واقعہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غلط قرار دیا۔لیکن نمازیوں کے کام کو درست قراردیا۔

اسلامی فقہ میں قوموں کی مصلحتوں کو نظر انداز نہیں کیاگیا بلکہ ان کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا گیا۔اس میں ایسے وسائل موجود ہیں جو مجتہدوں کے لئے دینی امور میں مشکلات اور مسائل کا حل آسان بنا دیتے ہیں جو ہرزمانہ اور ہر مقام کے لوگوں کے حالات سےمطابقت رکھتے ہیں اوراسلامی فقہ کے دوام کے متقاضی ہیں۔

اور دوسری بات یہ کہ اسلامی فقہ بہت اہم ہے۔یہ اپنے خالق سے انسان کا رشتہ استوار کرتی ہے۔ یہ افراد اور جماعتوں کے مابین تعلقات قائم کرتی ہے۔یہ امن اور جنگ کے زمانے میں اسلامی حکومت کے دیگر حکومتوں سے تعلقات بڑھاتی ہے۔یہ دور دراز تک پھیل گئی۔اس کا میدان وسیع تر ہوتا گیا اور زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوؤں پر حاوی ہوگئی۔اور ہر مقام پر اس نے ایک بلند مثال اور اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔وضع نظام میں اسماء اور اصطلاحات کی کثرت کے باوجود اسلامی فقہ نے ان تمام امور کو گھیرا ہوا ہے۔ اور ہر بات اس میں موجود ہے ۔لیکن آپ جب آپ وضعی نظام پر غور کریں گے اور دیکھیں گے کہ اس نظام میں اسلامی فقہ کی کئی باتیں مفقود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں۔اس میں اضطراب ہے استقرار نہیں۔اس میں آئے دن تغیر وتبدل ہوتا رہتا ہے۔علاوہ ازیں اس میں شفقت اور انسانی ضمیر کا فقدان ہے۔وضعی قانون ساز لوگوں نے اسلامی فقہ کی کچھ خصوصیات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس میں زندگی کی مشکلات کا بہترین حل موجود ہے۔چنانچہ انہوں نے اسلامی فقہ کے اکثر قواعد وضوابط کو قبول کیا اور اس کااعتراف کیا کہ یہ قانون کے مصادر میں سے ایک مصدر ہے اور یہ مستقل ہے اسے کسی اور کی ضرورت نہیں۔یہ باتیں انہوں نے عام اجتماعات میں کہیں چنانچہ 1932ء میں لاہائی شہر میں کئی حکومتوں کے نمائندوں کا اجلاس ہوا۔اس اجلاس کا مقصد قانون وضع کرنا تھا۔جس میں جرمنی،انگریزی،فرانسیسی،قانون دان موجود تھے۔ان سب نے اعتراف کیا کہ اسلامی شریعت حالات کے تغیر وتبدل کے باوجود قابل قبول ہے اور یہ بنیادی شریعتوں میں سے ایک ہے۔ پھر 1937ء میں اسی شہر میں اجتماع ہوا ۔اس میں یہ بات متفقہ رائے سے پاس ہوئی کہ شریعت اسلامیہ دیگر شریعتوں کی مصادر کی مصدر ہے اور یہ حالات کی تبدیلی کے باوجود ابھی تک مقبول عام ہے۔نیز بنفسہ قائم ہے کسی کی محتاج نہیں اور نہ کسی سے ماخوذ ہے۔

1948ء میں حکومتوں کے نمائندوں کا پھر اجلاس ہوا۔اس میں انہوں نے شریعت اسلامیہ کی فضیلت اور اہمیت کا اعتراف کیا اور کہا کہ تمام نمائندوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی تعلیمات کی بنیاد اس شریعت پر رکھیں اور اسے اپنائیں۔

خلاصہ کلام:

اسلامی فقہ ایک ایسا نظام ہے۔جو ہر لحاظ سے کامل ہے اور عام اور خاص لوگوں کی ضروریات زندگی پر حاوی ہے۔خواہ ضروریات انفرادی ہوں یا اجتماعی یہ ایسا نظام ہے جو ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لوگوں کے لئے موزوں اور مناسب ہے ۔شریعت اسلامیہ ایک ایسی شریعت ہے کے جس کے منافع اور فوائد امت مسلمہ تک محدود نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہیں کیونکہ وہ ایسے قواعد پر مبنی ہے۔ جس کے اسرار کو سمجھنا انسانی دماغ سے بالا تر ہے۔اس کے تمام احکام میں عدل وانصاف جھلکتا نظر آتا ہے۔اس کے احکام افراط و تفریط سے محفوظ ہیں۔شریعت اسلامیہ نے انسان کی چھوٹی سے چھوٹی مصلحت سے لے کر بڑی سے بڑی مصلحت تک کو گھیرا ہوا ہے۔ اس میں ان سب امور کا ذکر ہے جو انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔اسی طرح یہ اس لائق ہے کہ اسے درست اور صحیح راستہ تسلیم کیا جائے جس پر امت مسلمہ اپنےتمام احوال میں قائم رہی اور دیگر قوموں کی بھلائی اورسعادت بھی اسی میں ہے کہ اسے اپنا مسلک تسلیم کریں۔

والصلوة والسلام على المصطفى خاتم النبين واكرم المرسلين وعلى اله واصحابه والحمدالله رب العالمين!


حاشیہ

1. جیسے بیمار کو رخصت دی گئی ہے۔کہ اگر وہ کھڑا ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتا تو بیٹھ کر ادا کرلے۔اگر وضو کرنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو تیمم کرکے نماز ادا کرلے وغیرہ۔اسلام میں عدم حرج کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔