وسیلہ کی حقیقت
قرآن وحدیث اور اقوال سلف کی روشنی میں!
ساتویں دلیل
اذا اعليكم الامور فعليكم باهل القبور
"جب تم کو مشاغل عاجز کریں تو قبر والوںسے مدد طلب کرو!"
جواب:یہ بھی حریص الدنیا اور قبوری ملاؤں کا من گھڑت جملہ ہے۔جو اسلام کی بنیادی تعلیمات، قرآن کریم کی روشن آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات کے منافی ہے کیونکہ قرآن کریم نے کھلم کھلا اعلان فرمایا ہے:
﴿ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾
"مجھے پکارو،میں تمہاری پُکار سنوں گا!:"
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ﴾
"کون ہے جو بے قرار کی فریاد رسی کرتا ہے جو وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے!"
اور حدیث میں ہے«اذا استعنت فاستعن بالله»
"جب تو مدد مانگنا چاہے تو اللہ سے مدد مانگ!"
تو کیا یہ شریعت اسلامیہ کے ساتھ مذاق نہیں؟ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قبور سے استعانت کا حکم فرمایا:
سید صاحب کا تبصرہ:
آئیے سید محمود آلوسی کے قلم سے اس من گھڑت جملہ کے متعلق ریمارکس ملاحظہ فرمائیں:
وأعظم من ذلك أنهم يطلبون من أصحاب القبور نحو إشفاء المريض وإغناء الفقير ورد الضالة وتيسير كل عسير، وتوحي إليهم شياطينهم خبر- إذا أعيتكم الأمور- إلخ، وهو حديث مفترى على رسول الله صلّى الله عليه وسلّم بإجماع العارفين بحديثه، لم يروه أحد من العلماء، ولا يوجد في شيء من كتب الحديث المعتمدة، وقد نهى النبي صلّى الله عليه وسلّم: عن- اتخاذ القبور مساجد ولعن على ذلك- فكيف يتصور منه عليه الصلاة والسلام الأمر بالاستغاثة والطلب من أصحابها؟! سبحانك هذا بهتان عظيم.
ما حصل یہ ہے کہ"(آج لوگ اللہ کریم کو قسمیں دینے میں حد سے گزر گئے اور اللہ تعالیٰ کو ہر کہ ومہ (ایرے غیرے نتھو خیرے) کا واسطہ دیتے ہیں) اور اس سے بُری بات یہ ہے کہ قبر والوں سے شفاء،فراخ دستی،گمشدہ چیز کی واپسی اور ہر مشکل کی آسانی کا سوال کرتے ہیں اور ان کے شیاطین نے ان پر ایک روایت القاء کررکھی ہے کہ" جب تم امور میں تھک ہار کر بیٹھ جاؤ تو اہل قبور سے مددطلب کرو" یہ روایت علماء حدیث کے اجماع سے رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے ،اسے کسی بھی عالم نے روایت نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کی معتبر کتابوں میں اس کا نشان ملتا ہے۔بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایااور اس فعل پر لعنت بھی کی ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کیونکر تصور کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر والوں سے مدد کے لئے دعاء وفریاد کا حکم صادر فرمایا ہو؟! سبحانك هذا بهتان عظيم.
شاہ ولی اللہ کا تبصرہ:
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ:
" ایں حدیث از قول مجاوراں است برائے اخذ نیاز ونزر برمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم افتراء کردہ اند۔(البلاغ المبین)
" یعنی" یہ مجاوروں نے نذرونیاز بٹورنے کے لئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان تراشی کی ہے۔العیاذ باللہ العظیم!"
ایک دلچسپ واقعہ:
اسی ضمن میں فقیہ عراق حضرت نعمان بن ثابت المعروف بابی حنیفہ ؒ کا ایک سبق آموز واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
رأى الامام ابو حنيفة من ياتى القبور لاهل الصلاح فيسلم ويخاطب ويتكلم ويقول يا أهل القبور هل لكم من خبر وهل عندكم من اثر انى اتيتكم من شهور وليس سؤلى الاالدعافهل دريتم ام غفلتم فسمع ابوحنيفة بقول يخاطبه بهم فقال هل اجابولك قال لافقال له سحقا لك وتربت يداك كيف تكلم اجسادا لايستطيعون جوابا ولايملكون شياء ولا يسمعون صوتا وقراوما انت بمسمع من فى القبور
یعنی" امام ابو حنیفہ ؒ نے ایک شخص کو دیکھا جو صالحین کے مزاروں پر آتا اورکہتاتھا " اے قبر والو،میں کئی مہینوں سے تمہارے پاس آتا اور تمہیں پکارتا ہوں میرا سوال یہی ہے کہ تم میرے حق دعا کرو ،کیا تمھیں کوئی خبر یا اس کا کچھ اثر ہے؟۔۔۔تم جانتے ہو یا غافل ہو؟" امام صاحب ؒ نے اس کے یہ الفاظ سنے تو فرمایا،" ان بزرگوں نے تیری فریاد رسی کی ہے ؟"بولا"نہیں" تو امام صاحب ؒ نے فرمایا،خدا تمھیں غارت کرے، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں،تو ایسے حبثوں سے ہمکلام ہوتا ہے جو جواب نہیں دے سکتے ،جن کے اختیار میں کوئی چیز نہیں آواز بھی نہیں سن سکتے۔پھر یہ آیت تلاوت کی ﴿وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿٢٢﴾... سورةفاطر
اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تو قبر والوں کو نہیں سنا سکتا،(الغرائب فی تحقیق المذاہب)
صاحب روح المعانی کا فتویٰ:
سید صاحب تفسیر روح المعانی میں رقمطراز ہیں کہ:
أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه
"اللہ کے سوا زندہ اور وفات یافتہ اولیاء سے دعا کرنے میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں،مثلاً اے فلاں،میرے سردار،میری مدد فرما! یہ توسل مباح نہیں۔اور مومن کی شان کے لائق یہ ہے کہ اس پر التفات نہ کرے اور بہت سے علماء نے اسے شرک قرار دیا ہے۔اگر شرک نہ بھی تو شرک کے قریب ضرور ہے!"
بستان العارفین میں ہے:
واعلم ان طلب الحوائج من الموتى عالما بانه سبب لانجا حها كفر!
"جاننا چاہیے کہ مردوں سے یہ جانتے ہوئے حاجتیں طلب کرنا کہ وہ حاجتیں پوری ہونے کا سبب ہیں، کفر ہے!"
امام ابو حنیفہ ؒ وصاحبین ؒ کافتویٰ:
ولهذا قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم: يكره أن يقول الداعي: أسألك بحق فلان أو بحق أنبيائك ورسلك، وبحق البيت الحرام، والمشعر الحرام، ونحو ذلك. اذليس لاحد على الله حق
(شرح فقه اكبر مطبوعه كانبور ص160)
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور صاحبین رحمہم اللہ نے فرمایا کہ"کوئی شخص اللہ تعالیٰ کہے کہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بحق فلاں، تیرے نبیوں علیہم السلام کے حق سے یا تیرے رسولوں علیھم السلام کے حق سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیت اللہ یا مشعر الحرام کے حق سے ،تو یہ مکروہ ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا حق نہیں !"(مذید تفصیل کے لئے دیکھئے ،در مختار ج 2 ص 248 کنز الدقائق ص 373 زیلعی علی الکنز ص373 فتاویٰ سراجیہ ص172 شرح وقایہ ص 59 ہدایہ ج4 ص 473 عالمگیری ص 16)
علاوہ ازیں مسئلہ ہذا میں امام ابو حنیفہ ؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ وسیلہ میں کسی کے حق اور وجاہت سے سوال کرناجائز نہیں:
قال القدوري: المسألة بخلقه لا تجوز، لأنه لا حق للمخلوق على الخالق. وقال البلدجي في (شرح المختار) : ويكره أن يدعو الله تعالى إلا به، فلا يقول: أسألك بفلان أو بملائكتك أو بأنبيائك ونحو ذلك، لأنه لا حق للمخلوق على الخالق.(صيانة الانسان ص 266)
"علامہ قدوری نے کہا کہ" مخلوق کے وسیلہ سے سوال کرنا جائز نہیں کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں۔" اور بلوجی نے شرح مختار میں فرمایا کہ" اللہ کے سوا کسی کو پکارنا مکروہ ہے!"
مذید برآں معدن حاشیہ کنز باب الکراہۃ میں ہے کہ:
عن أبي حنيفة رحمه الله أنه قال: لا ينبغي لأحد أن يدعو الله سبحانه وتعالى إلا به. وفي جميع متونهم أن قول الداعي المتوسل بحق الأنبياء والأولياء وبحق البيت والمشعر الحرام مكروه كراهة تحريم، وهي كالحرام في العقوبة بالنار عند محمد. عن أبي يوسف أنه قال قال أبو حنيفة رحمه الله: لا ينبغي لأحد أن يدعو الله إلا به. وذكر العلائي في شرح التنوير عن التتار خانية عن أبي حنيفة أنه قال: لا ينبغي لأحد أن يدعو الله سبحانه إلا به. وفي جميع متونهم أن قول الداعي المتوسل بحق الأنبياء والأولياء وبحق البيت والمشعر الحرام مكروه كراهة تحريم، وهي كالحرام في العقوبة بالنار عند محمد، وعللوا ذلك كلهم بقولهم: لأنه لا حق للمخلوق على الخالق.
(علاقی نے شرح تنویر میں تتار خانیہ سے نقل کیا ہے کہ) امام ابو حنیفہ ؒ سے روایت ہے کہ کسی کو یہ مناسب نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے اللہ کے وسیلے کے سوا دعا کرے اور یہ (احناف کی) متون کی جمیع کتابوں میں ہے کہ دعا کرنے والے (وسیلہ پیش کرنے والے) کا قول بحق الانبیاء، بحق الاولیاء بحق بیت اللہ وغیرہ سب مکروہ ہے،اور کراہت تحریمی ہے جو امام محمد ؒ کے نذدیک حرام کی طرح مستوجب جہنم ہے اور سب نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں۔"
حق ووجاہت کے متعلق فتویٰ:
سید محمود آلوسی وجاہت کے متعلق فرماتے ہیں:
وجعل من الإقسام الغير المشروع قول القائل- اللهم أسألك بجاه فلان- فإنه لم يرد عن أحد من السلف أنه دعا كذلك، وقال: إنما يقسم به تعالى وبأسمائه وصفاته فيقال: أسألك بأن لك الحمد لا إله إلا أنت يا الله، المنان بديع السماوات والأرض يا ذا الجلال والإكرام يا حي يا قيوم، وأسألك بأنك أنت الله الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد، وأسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك الحديث، ونحو ذلك من الأدعية المأثورة، وما يذكره بعض العامة من
قوله صلّى الله عليه وسلّم:- إذا كانت لكم إلى الله تعالى حاجة فاسألوا الله تعالى بجاهي فإن جاهي عند الله تعالى عظيم-
لم يروه أحد من أهل العلم، ولا هو شيء في كتب الحديث)ص296)
کہ"غیر مشروع وسیلہ کی ایک قسم ،قائل کا یہ قول بھی ہے کہ"الٰہی میں تجھ سے بجاہ فلاں دعا کرتا ہوں،،بلا شک وشبہ سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی ایسا منقول نہیں کہ انہوں نے اس طرح دعاء کی ہو اور جو بعض عوام کہتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "جب تمھیں اللہ کریم کی طرف کوئی حاجت ہو تو میرے جاہ کے وسیلہ سے دعا کیا کرو کیونکہ اللہ کے نذدیک میرا مرتبہ بہت بڑا ہے،اسے کسی اہل علم نے روایت نہیں کیا اور نہ کتب حدیث میں اس کا نشان ملتا ہے!"
در مختار کا فتوےٰ:
لا ينبغي لاحد أن يدعو الله إلا به، والدعاء المأذون فيه المأمور به ما استفيد من قوله تعالى: * (ولله الاسماء الحسنى فادعوه بها) * قال:
وكذا لا يصلي أحد على أحد إلا على النبي (ص).
(و) كره قوله (بحق رسلك وأنبيائك وأوليائك) أو بحق البيت لانه لا حق للخلق على الخالق (درمختارص 662)
یعنی"اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے د عا کرنا لائق نہیں،دعا یہی معمور ہے،جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ"اللہ تعالیٰ کے لئے اچھے اچھے نام ہیں،ان کے ساتھ اس کو پکارا کرو"
"(اور اس سے د عا کیا کرو) اور یہ کہنا مکروہ ہے کہ "اے اللہ میں تجھ سے تیرے رسولوں نبیوں اور ولیوں کے حق سے سوال کرتا ہوں یا بیت اللہ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں،کیونکہ خلقت کاخالق پر کوئی حق نہیں!'
خلاصہ:
برادران عزیز!تمام مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ متوسلین بالقبور وبالذات کے جملہ دلائل بودے،ضعیف اور اختراعی ہیں،جن سے استدلال جائز نہیں۔نیز مسئلہ ہذا کا توحید کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ذرہ بھر بھی افراط وتفریط اس میں گوارا نہیں۔اکثر جہلاء تو اس مسئلے میں بالکل نافہم ہیں جن کا بھروسہ خدا کے بزرگوں کی ارواح پر ہے،جو اٹھتے بیٹھتے غیر مشروع وظائف کو معمول بنائے ہوئے ہیں۔لیکن بعض توحید پرست بھی اس طوفان کی لپیٹ میں آگئے جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کی مایہ ناز کتاب"نشر الطیب فی ذکر الحبیب"سے آشکارا ہے۔
اسی طرح حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ نے بھی "اسماء اصحاب کہف کے برکات" کے عنوان سےتفسیر سورہ کہف کے دیباچہ ص 776 پر تحریر فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:"جنات سے حفاظت،دشمن کے شر سے امان،دشمن پر فتح پانے،نیز مال واسباب پر آگ ،چور اور ڈاکو کے خطرہ سے بچنے اور عسر ولادت کی تکلیف سے نجات پانے کے لئے اصحاب کہف کے ناموں کو لکھ کر پاس رکھنا مجرب ہے۔"
اسی طرح مولانا نواب صدیق الحسن ؒ خاں صاحب نے کتاب التعویذات کے صفحہ 71 پر اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ:
"آسیب زدہ اور مصروح کے لئے بھی نافع ہیں!"
اس لئے اس مسئلہ میں احتیاط ضروری ہے۔ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب!
اللہ غفور ورحیم کےحضور دعا ہے کہ وہ حق سمجھنے کی توفیق ارزانی فرمائے،حق پر عمل کرنے کی قوت نصیب فرمائے،بندگان خدا میں شامل فرمائے اور حشر زمرہ صالحین میں کرے،آمین یا الٰہ العالمین!