وسیلہ کی حقیقت
پہلی دلیل:
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، جب آدم علیہ السلام سے خطاء کا ارتکاب ہوا تو انہوں نے بارگاہ، ایزدی میں التجا کی:
يارب اسئلك بحق محمد الاغفرت لى
اے میرے پروردگار میں بواسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم درخواست کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرمادے"
اللہ تعالیٰ نے فرمایا، "اے آدم علیہ السلام تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پہچانا؟
ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا" عرض کی، "اے پروردگار، تو نے جب مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر اٹھایا اور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ تو میں نے معلوم کر لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ ایسے ہی شخص کے نام کو ملایا ہو گا جو تیرے نزدیک تمام مخوق سے افضل ترین اور محبوب ہو گا۔" اللہ کریم نے فرمایا "اے آدم (علیہ السلام) تو نے سچ کہا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات سے زیادہ محبوب ہیں۔ جب تو نے ان کے واسطہ سے اپنی مغفرت کا سوال کیا تو میں نے تجھے معاف کر دیا:
لولا محمد لماخلقتك(حاكم)
"اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا" (دلائل النبوت لامام بیہقی، حاکم، بحوالہ بشر الطیب از تھانوی صاحب ص7)
جواب:
محترم قارئین، آپ الحمد سے الناس تک اس لاریب اور منزل من اللہ کتاب (قرآن مجید) کا بغور مطالعہ فرمائیں، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور معصوم انبیاء علیھم السلام کی دعائیں تو درکنار، کسی غیر معصوم امتی کی بالواسطہ دعا کا بھی آپ کو تذکرہ نہ ملے گا۔ بلکہ تمام انبیاء و رسل اور مومنین کی دعائیں ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ کے تحت بلا واسطہ منقول و مرقوم ہیں۔
قرآن مجید اور احادیث صحیحہ پر غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی خطاء ان کے توبہ و استغفار کرنے سے معاف ہوئی، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جو کلمات حضرت آدم علیہ السلام نے خدائے قدوس سے سیکھے اور دعاء کی تھی، وہ یہ تھے:
لااله الاانت سبحانك بحمدك عملت سوأ وظلمت نفسى فارحمنى انك انت ارحم الراحمين
اور حضرت مجاہد، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابوالعالیہ، حضرت ربیع بن انس، حضرت حسن، حضرت قتادہ اور حضرت عطاء خراسانی کا بیان ہے کہ وہ کلمات یہ تھے:
﴿رَبَّنا ظَلَمنا أَنفُسَنا وَإِن لَم تَغفِر لَنا وَتَرحَمنا لَنَكونَنَّ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٢٣﴾... سورةالاعراف
حضرت عبدالعزیز بن رفیع، حضرت عبید بن عمیر کا بیان ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا "اے اللہ کریم جو میں نے غلطی کی ہے، تو نے اسے میرے اوپر میری پیدائش سے پہلے نہیں لکھ دیا تھا؟" اللہ تعالیٰ نے فرمایا "ہاں ، میں نے تیری پیدائش سے قبل ہی لکھ دیا تھا۔" عرض کی "اے غفور رحیم، جس طرح تو نے مجھ پر لکھا اسی طرح معاف بھی فرما دے۔" تب انہیں دعا سکھائی گئی جیسا کہ﴿ فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾سے ظاہر ہے۔
پھر حضرت آدم علیہ السلام کا سر اٹھانا اور عرش کے پایوں پر : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ لکھا ہوا دیکھنا کسی مستند حدیث میں مذکور نہیں، صرف اسی موضوع حدیث میں اس کا تذکرہ ہے جس حدیث کو معیارِ فضیلت تصور کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں لولا محمد ماخلقتك کے جملہ کو اللہ کی طرف منسوب کرنا ستم ظریفی ہے، کیونکہ اللہ کریم کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾... سورةالذاريات
"میں نے جن اور انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں گے"
جب تخلیق جن و انس کا مقصدِ وحید خالص عبادت ہے تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام خداوند قدوس کے حضور میں مخلوق کا وسیلہ دے کر اپنی غلطی معاف کروائیں جبکہ اللہ کریم اس کو پسند ہی نہیں کرتا۔ ﴿وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ﴾ (سورة الزمر)"جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا تو کفر سکھانے کو کیسے پسند کرے گا؟ ﴿سبحانك هذابهتان عظيم﴾ پھر یہ حدیث نہایت درجہ کی ضعیف بلکہ موضوع ہے، چنانچہ الصارم المنكى فى الرد على السبكى میں ہے کہ:
حديث موضوع یہ روایت موضوع ہے اور ہر اہل علم اس کو جانتا ہے۔
وقد حكم عليه بعض الائمةبالوضع
صیانۃ الانسان میں ہے:
انه حديث غير صحيح والاثابت بل هو حديث ضعيف الاسناد جدا وقد حكم عليه بعض الائمة بالوضع(ص124)
کہ "یہ حدیث انتہائی درجہ کی ضعیف اور کمزور ہے اور بعض ائمہ رحمۃ اللہ علیھم نے اس کے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔"
پھر اس روایت کا دارومدار عبدالرحمن بن زید بن اسلم پر ہے جو ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف اور متروک قررا دیا ہے۔ ابوحاتم بن حبان کا بیان ہے کہ
"عبدالرحمن بن زید بے خبری میں احادیث کو الٹ پلٹ کر بیان کرتا تھا، مرسل کو مرفوع اور موقوف کو مسند قرار دے دیتا تھا لہذا اس کی مرویات کو ترک کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔" امام حاکم کتاب الضعفاء میں رقم طراز ہیں:
انه روى عن ابيه احاديث موضوعة
کہ "اس نے اپنے باپ سے موضوع روایتیں نقل کی ہیں۔"
لہذا یہ حدیث بلحاظ روایت و درایت قابلِ استدلال نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ)
دوسری دلیل:
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک نابینا نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میری عافیت کی دعا فرمائیے، حضور علیہ السلام نے فرمایا، "اگر تو چاہے تو دعا کروں اور اگر تو صبر کرے تو صبر تیرے لیے بہتر ہے، اندھے نے عرض کی، "دعا ہی فرما دیجئے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اچھی طرح وضو کر کے یہ دعا مانگ:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ»(رواه الترمذى مستدرك حاكم مشكوة ج1ص219نشرالطيب ص 186مطبوعه لاهور)
کہ "اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ کرتا ہوں آپ کو اپنے رب کی طرف اپنی حاجت کے لیے تاکہ پوری ہو جائے۔ اے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش میرے حق میں قبول فرمائیے۔"
جواب:
علامہ ابن حجر المکی بیان فرماتے ہیں کہ:
سأ ل اولا باذن الله لنبيه ان يشفع له ثم اقبل على النبى ﷺ ملتمسا ان يشفع له ثم كرر مقبلا على الله ان يقبل شفاعة قائلا فشفعه فى اى فى حقى-(تنقيح الرواة ص 108)
کہ "سائل نے پہلے اللہ تعالیٰ سے اذن طلب کیا کہ وہ حضور علیہ السلام کو سفارش کرنے کی اجازت عطا فرمائے، پھر نبی کریم علیہ السلام کی طرف دعا میں متوجہ ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفارش کرین پھر مکرر اللہ کریم کی طرف متوجہ ہو کر عرض کی، "اے اللہ کریم اپنے برگزیدہ نبی کی سفارش صحت میرے حق میں قبول فرما، تو اس سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوا کہ اس نابینا نے بھی دعا کی اور نبی علیہ السلام نے بھی سفارش (دعا) کی جو مقبول ہوئی اور وہ بینا ہو گیا۔ (بیہقی)
صیانہ الانسان میں حدیثِ اعمیٰ کے متعلق لکھا ہے:
إذ التوسل بالأعمال الصالحة ثابت بالكتاب والسنة الصحيحة، بخلاف التوسل بالذوات الفاضلة فإن أمثل ما يستدل به على هذا المطلب هو حديث عثمان بن حنيف، وهو غير ثابت لأن في سنده أبا جعفر الرازي وهو سيئ الحفظ يهم كثيراً فلا يحتج بما ينفرد به، وعلى تقدير ثبوته فالمراد بقوله "بنبيك" بدعاء نبيك وشفاعته، بل هذا متعي
یعنی "اعمال صالحہ سے وسیلہ لینا کتاب و سنت سے ثابت ہے، علاوہ ازیں بزرگوں کا وسیلہ لینا جائز نہیں۔ اس بارہ میں قوی دلیل ، جس سے استدلال کیا جاتا ہے، وہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اس کی سند میں ایک راوی ابو جعفر الرازی ہے جو بڑے حافظے والا اور وہمی ہے۔ اگر کسی روایت میں منفرد ہو تو قابل حجت نہیں، برتقدیرِ ثبوت اس سے مراد حضور علیہ السلام کی دعا اور سفارش ہو گی اور یہی مراد متعین ہے۔"
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے خیال کے مطابق ابو جعفر الرازی التمیمی عیسی بن عیسی ماہان ہے، تو اس کے ضعف پر اکثر ائمہ حدیث متفق ہیں۔ چنانچہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ليس بالقوى امام فلاس رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حجر نے سئى الحفظ ابوزرعہ نے "وہمی" اور امام ابن مدینی رحمۃ اللہ علیہ نے "خطاء کرنے والا" کہا ہے اور اگر ابوجعفر المدینی ہے تو وہ مجہول ہے۔ اگر بقول شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ابوجعفر الحظمی ہے، جو ثقہ ہے تو بھی اس روایت سے توسل بالذات مراد نہ ہو گا بلکہ توسل بالدعاء مراد ہو گا۔
حدیث اعمیٰ پر شاہ ولی اللہ کا تبصرہ:
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حدیث اعمیٰ کر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
" اس حدیث میں دو طریق غیر صحیح ہیں۔ اقبح، قبیح۔ اول الذکر بہت برا اس لیے ہے کہ گور پرستوں نے بزعمِ خود یہ سمجھا ہے کہ بزرگوں کی روحوں کو پکارنا اور حاجت براری کی درخواست کرنا سنت اور مستحب ہے مگر یہ گناہ کو حلال تصور کرنا ہے اور گناہ کو حلال سمجھنا کفر ہے۔
آخر الذکر اس لیے برا ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اپنی حاجتوں میں نیک روحوں کو پکارنا اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بزرگوں کو خدا کے ہاں سفارشی بنانا اور سفارش کو اپنے حق میں مقبول سمجھنا درست ہے مگر یہ امورِ دین میں بغیر اذنِ شارح، اس رائے سے اباحت اور جواز پیدا کرنا ہے اور یہی وجہ اصل برائی کی ہے۔ فرمان خداوندی ہے:
﴿أَم لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...٢١﴾... سورةالشورىٰ، ﴿أَمِ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ شُفَعاءَ ۚ قُل أَوَلَو كانوا لا يَملِكونَ شَيـًٔا وَلا يَعقِلونَ ﴿٤٣﴾... سورةالزمر
"کیا ان کے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے شرع مقرر کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اذن نہیں دیا، کیا اللہ تعالیٰ کے سوا انہوں نے سفارشی بنائے ہیں اگرچہ وہ کسی شے کے مالک نہ ہوں اور نہ سمجھتے ہوں پھر بھی ان کو سفارشی بنائیں گے۔" بعض لوگ انتہائی ضلالت میں ہیں۔ شافع اور مشفوع میں فرق نہ کرتے ہوئے "ياشيخ عبدالقادر جيلاني شيئا لله کہتے ہیں۔ اس کام میں خدا کو سفارشی اور جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو دینے والا بنایا ہے اور واقعہ اس کے برعکس ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں سے حاجت چاہنا خدا کو کمزور سمجھنا ہے اور مخلوق کو قوی اور دانا خیال کرنا ہے۔ معاذاللہ" (بلاغ المبین ص61)
تیسری دلیل
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا، "جو شخص گھر سے نکلا اور یہ دعا پڑھی:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ، وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا، وَلَا بَطَرًا، وَلَا رِيَاءً، وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ، سُخْطِكَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِكَ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُعِيذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، أَقْبَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُ سَبْعُونَ أَلْفِ مَلَكٍ " (ابن ماجه حديث:778)
کہ "اے اللہ میں تجھ پر سائلین کے حق سے سوال کرتا ہوں اور میرے اس چلنے کے حق سے کیونکہ میں گھر سے نہ تکبر سے نکلا، نہ دکھلاوے کے لیے، نہ پروپیگنڈے کے لیے بلکہ تیری ناراضگی سے بچنے کے لیے اور تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں سوال کرتا ہوں کہ مجھے جہنم کی آگ سے بچا لے اور میرے گناہوں کو معاف فرما دے کیونکہ تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیں۔"
۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ اس پر ستر ہزار فرشتوں کو مقرر کر دے گا کہ وہ اس کے لیے استغفار کریں"
جواب:
یہ روایت بہت ہی ضعیف ہے۔ محدثین نے اس پر سخت کلام کیا ہے۔ اس روایت کی سند میں ایک راوی عطیہ بن سعید العوفی ہے، اس کے متعلق صیانۃ الانسان میں لکھا ہے:
الراجع والمحقق انه ضعيف
"راجح اور محقق بات یہ ہے کہ وہ ضعیف ہے۔"
امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ، امام منذری رحمۃ اللہ علیہ، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور امام یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ضعف نقل کیا ہے۔ دوسرا راوی فضیل بن مرزوق ہے، جس کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن سعید رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے منکر الحدیث اور ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے بہت وہمی لکھا ہے۔
اس حدیث کا ایک اور بھی طریق ہے جو ابن السنی نے "عمل الیوم واللیل" میں ذکر کیا ہے جو بروایت حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضور علیہ السلام تک پہنچتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی وازع بن نافع عقیلی ہے جس کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے "اذکار" میں اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے "شرح اذکار' میں ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث واہی ہے۔امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ اور ایک جماعت نے وازع کو متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "ضعیف" اور ابن معین اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے غیر ثقہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "منکر" اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں "ضعیف اور متروک" کہا ہے۔
انہی الفاظ کے ساتھ ایک روایت میں طبرانی کبیر میں ہے جس میں فضالہ بن جبیر راوی ضعیف ہے۔ مجمع الزوائد میں ہے:
وهوضعيف مجمع على ضعيفه
یعنی "محدثین کا اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔"
2۔ اگر ذواتِ سائلین اور ان کے حقوق سے سوال نہ کیا جائے بلکہ اس حق سے سوال کیا جائے جو اللہ کریم نے اپنے فضل و کرم سے سائلین اور داعین سے اجابت و انابت کا وعدہ کیا ہےکہ جب وہ مجھ سے سوال کریں گے تو میں قبول کروں گا، تو یہ سوال اللہ کریم کی صفاتِ فعلیہ سے ہے جس میں کوئی نزاع و اختلاف نہیں۔ اس لئے حاجی کے لیے صفا مروہ پر« اللهم انك قلت ادعونى استجب لكم وانك لاتخلف الميعاد »پڑھنا مشروع ہے۔ تو "بحق السائلین علیک" سے مراد "سائلین کو عطا کرنے اور عابدین کو ثواب دینے کا وعدہ" ہے۔ اس کی منشا کچھ اور ہے اور انبیاء علیھم السلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیھم کے حق و مرتبہ سے سوال کی منشاء اور ہے۔ اول الذکر مشروع اور آخر الذکر غیر مشروع اور بدعت ہے۔
چوتھی دلیل:
عن اميةبن خالد بن عبدالله بن اسيد عن النبى ﷺ انه كان يستفتح بصعاليك المهاجرين(رواه شرح السنة مشكوة ص 447 مطبوعه كراجى)
"یعنی نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم فتح کے لئے فقراء مہاجرین کا وسیلہ ڈالتے تھے۔ لہذا توسل بالذات ثابت ہوا۔
جواب:
اس کا مختصر اور جامع جواب حضرت ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ ی زبان سے سماعت فرمائیے۔ آپ اس حدیث کے تحت رقمطراز ہیں:
أَيْ: يَطْلُبُ الْفَتْحَ وَالنُّصْرَةَ عَلَى الْكُفَّارِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى (بِصَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ) أَيْ: بِفُقَرَائِهِمْ وَبِبَرَكَةِ دُعَائِهِمْ. وَفِي النِّهَايَةِ أَيْ: يَسْتَنْصِرُ بِهِمْ، وَمِنْهُ قَوْلُهُ تَعَالَى: {إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ} [الأنفال: 19] وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: بِأَنْ يَقُولَ: اللَّهُمَّ انْصُرْنَا عَلَى الْأَعْدَاءِ بِحَقِّ عِبَادِكَ الْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ، وَفِيهِ تَعْظِيمُ الْفُقَرَاءِ وَالرَّغْبَةُ إِلَى دُعَائِهِمْ وَالتَّبَرُّكِ بِوُجُوهِهِمْ أَقُولُ: وَلَعَلَّ وَجْهَ التَّقْيِيدِ بِالْمُهَاجِرِينَ لِأَنَّهُمْ فُقَرَاءُ غُرَبَاءُ مَظْلُومُونَ مُجْتَهِدُونَ مُجَاهِدُونَ، فَيُرْجَى تَأْثِيرُ دُعَائِهِمْ أَكْثَرَ مِنْ عَوَامِّ الْمُؤْمِنِينَ وَأَغْنِيَائِهِمْ، (مرقاة شرح مشكاة)
ماحصل یہ ہے کہ "نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم فقراء اور مہاجرین سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فتح اور نصرت کی دعا کرواتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ فقیر، غریب، مظلوم تھے۔ دین میں کوشش کرنے والے مجاہد تھے، ان کی دعائ بنسبت عام مسلمانوں کے قبولیت کا زیادہ درجہ رکھتی تھی۔"
محترم قارئین، غور فرمائیں، اس روایت سے توسل بالذات مراد لینا جہالت نہیں؟ جبکہ یہ روایت توسل کی تشریح پر فیصلہ کن ہے اور اس سے کھلے طور پر واضح ہو رہا ہے کہ یہ توسل بالدعاء ہے۔ اگر لفظ "ب" سے مراد فقراء اور مساکین کو لیا جائے تو نبی علیہ السلام کی توہین لازم آئے گی کہ نبی علیہ السلام سے فقراء اور مساکین کا وجود بہتر تھا اور یہ کہنے کے لیے کوئی مسلمان تیار نہیں اور اسی طرح:
كان النبى ﷺ يستفتح ويستنصر بصاليك المسلمين-(راه اين ابي شيبه والطبرانى)
نیز:
أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ابغوني في ضعفائكم فإنما ترزقون - أو تنصرون - بضعفائكم» . رواه أبو داودمشكوة جلدثاني ص447)
۔۔۔۔ مطلب وہی جو اوپر گزر چکا ہے:
ان روایات سے ثابت ہوا کہ مسلمان کو مسلمان بھائی سے انفرادا و اجتماعا دعا کروانا جائز ہے۔ نیز افضل فاضل اور مفضول سے دعا کرواسکتا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا، جبکہ وہ عمرہ کی نیت سے مدینہ منورہ سے چلنے لگے:
لاتنسنايا اخى من صالح دعائك(ابوداؤد بمع عون المعبود مطبوعه دهلى مسند امام احمد ص29)
کہ "اپنی نیک دعاؤں میں اپنے بھائی کو نہ بھولیے گا"
پانچویں دلیل:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی علیہ السلام کو دفن کیے تین دن گزر چکے تھے، ایک اعرابی آیا اور حضور علیہ السلام کی قبر پر گر پڑا اور قبر کی مٹی سر پر ڈالنے لگا اور التجا کی "یا رسول اللہ، آپ نے اللہ کی طرف سے سنا اور قبول کیا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور قبول کیا۔ اللہ کریم کا کلام جو آپ پر نازل ہوا اس کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ:
﴿وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُوا اللَّهَ وَاستَغفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوّابًا رَحيمًا ﴿٦٤﴾... سورةالنساء
"اور میں نے اپنے اوپر ظلم کیا اور آپ کے پاس آیا ہوں، میرے لیے معافی چاہیں۔"
فنودى من القبر انه غفرلك
"قبر سے آواز آئی کہ اللہ نے تم کو بخش دیا۔"
پس ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر کہنا کہ: "یا رسول اللہ ہمارے لیے دعا فرمائیے۔" جائز ہے
جواب:
اولا یہ روایت صحیح نہیں "الصارم المنکی فی الرد علی السبکی" میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ:
ان هذا خبرمنكر موضوع واثر مختلق مصنوع لايصلح الاعتماد ولايحسن المصبر واسناده ظلمات بعضها فوق بعض
"یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔ منکر ہے، قابلِ اعتماد نہیں۔ اس کی سند پر تاریکی کے تہ بتہ پردے پڑے ہوئے ہیں۔"
ثانیا: اس کی سند میں ایک راوی ہیثم بن عدی ہے جس کو یحییٰ بن معین اور ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے "کذاب" اور ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ، نسائی رحمۃ اللہ علیہ، ازدی رحمۃ اللہ علیہ نے "متروک الحدیث" لکھا ہے۔
دوسرا راوی ابو صادق ہے جس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
ثالثا: یہ روایت صحیح احادیث کے مخالف ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے صراط مستقیم کے صفحہ 187 پر ذکر کیا ہے کہ سہیل بن ابی سہیل کا بیان ہے کہ مجھے حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم نے قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دیکھا تو بلایا، اور وہ اس وقت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کے گھر عشاء کا کھانا کھا رہے تھے، دعوتِ طعام دی۔ اس نے عرض کی، "مجھے کوئی حاجت نہیں۔" آپ نے فرمایا:
ما لي رأيتك عند القبر؟ فقلت: سلمت على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إذا دخلت المسجد فسلم. ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تتخذوا بيتي عيدا، ولا تتخذوا بيوتكم مقابر، لعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد، وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم» (3) [ما أنتم ومن بالأندلس إلا سواء] (4) .
"قبر کے پاس کیا کر رہے تھے؟" عرض کی "نبی علیہ السلام پر درود پڑھا ہے۔" فرمایا 'مسجد میں اس لیے داخل ہوا تھا؟" پھر فرمایا "نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے "میرے گھر کو عید نہ بناؤ اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ اور مجھ پر درود بھیجو تم جہاں بھی ہو، تمہارا درود مجھے پہنچتا ہے، تم میں اور اندلس میں درود پڑھنے والا شخص دونوں برابر ہیں۔"
اسی طرح مسند ابو یعلی الموصلی میں ہے کہ علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر دیکھا جو دعا کر رہا تھا، اس کو منع کیا اور فرمایا:
ألا أحدثكم حديثا سمعته عن أبي عن جدي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تتخذوا قبري عيدا، ولا بيوتكم قبورا، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم»
"میں نے اپنے باپ سے، اس نے میرے نانا سے بیان کیا ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا، "میری قبر کو عید نہ بناؤ اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ، کیونکہ تمہارا سلام، تم جہاں بھی ہو، مجھے پہنچ جاتا ہے۔"
اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی "بلاغ المبین" میں رقمطراز ہیں کہ:
"درمصنف خود ابوبکر بن ابی شیبہ کہ از محدثین سلف است آوردہ اند کہ مردے درمدینہ منورہ قریب روضہ اطہر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایستادہ چیزے عرض میکرد۔ امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ اور امنع فرمود و گفت آں سرور صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ است : لاتتخذواقبرى رثنا کہ "ابوبکر بن ابی شیبہ اپنی مصنف میں یہ روایت لائے ہیں کہ ایک شخص نبی علیہ السلام کے روضہ مبارک کے پاس کھڑا کوئی دعا کر رہا تھا۔ امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے اس کو منع کیا اور فرمایا: "نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ میری قبر کو بت نہ بناؤ۔"
ان روایات سے روزِ روشن کی طرح ظاہر کہ قبر کے پاس ایسا کرنا اسے بُت بنانے کے مترادف ہے۔
بنا بریں نبی علیہ السلام نے ایامِ مرض الموت میں ربِ کائنات کے حضور یہ التجاء کی تھی کہ:
«اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد"الہی میری قبر کو پوجا گاہ نہ بنانا"
اور ساتھ ہی فرماتے تھے:
«لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد
"یہود و نصاریٰ پر خدا لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء علیھم السلام کی قبروں کو پوجا گاہ بنا لیا۔"
یہی وجہ ہے کہ آج کل روضہ اطہر ، ان خرافات اور خلافِ شرع حرکات سے بالکل محفوظ ہے۔ جیسا کہ آج کل کے قبوری ملا، بزرگوں کے مزارات پر اعتقاد کر رہے ہیں۔ العیاذباللہ
چھٹی دلیل:
ابوالجوزاء سے روایت ہے کہ "اہل مدینہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قحط سالی کی شکایت کی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی علیہ السلام کی قبر اور چھت میں سوراخ کردو تاکہ قبر اور آسمان کے درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور خوب بارش ہوئی۔ گھاس اور چارہ اتنا پیدا ہوا کہ جانور کھا کر بہت موٹے ہوئے اور چربی سے بدن پھٹنے لگے۔" سنن الدارمی ص43، جلد اول طبع جدید، مشکوۃ المصابیح ج2 ص)
جواب:
ملا علی قاری حنفی زیرِ حدیث رقمطراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ کفار کے مرنے پر آسمان نہیں روتا۔ ابرار کے مرنے پر آسمان روتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو دیکھے گا تو ممکن ہے کہ آسمان روئے اور اس کے رونے سے نالے بہہ پڑیں اور پانی کی کثرت ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ عربی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
هَذَا وَقَدْ قِيلَ فِي سَبَبِ كَشْفِ قَبْرِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: إِنَّ السَّمَاءَ لَمَّا رَأَتْ قَبْرَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - سَأَلَ الْوَادِي مِنْ بُكَائِهَا. قَالَ تَعَالَى: {فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ} [الدخان: 29] حِكَايَةً عَنْ حَالِ الْكُفَّارِ، فَيَكُونُ أَمْرُهَا عَلَى خِلَافِ ذَلِكَ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْأَبْرَارِ،(مرقاةشرح مشكاة المصابيح:باب الكرمات)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا تبصرہ
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ولو قال عالم يستحب عند الاستسقاء أو غيره أن يكشف عن قبر النبي أو غيره من الأنبياء والصالحين لكان مبتدعا بدعة مخالفة للسنة المشروعة عن رسول الله وعن خلفائه
"اگر کوئی عالم استسقاء یا مصیبت کے وقت نبی علیہ السلام یا دوسرے انبیاء علیھم السلام اور صالحین کی قبر کو کھولنا اور ان کی استمداد کو مشروع اور جائز کہے تو وہ بدعتی ہے اور نبی علیہ السلام اور خلفائے اربعہ کا مخالف ہے۔"
پھر فرماتے ہیں کہ:
أن هذا الفعل ليس حجة على محل النزاع سواء أكان مشروعا أو لم يكن فإن هذا استنزال للغيث على قبره والله تعالى ينزل رحمته على قبور أنبيائه وعباده الصالحين وليس في ذلك سؤال لهم بعد موتهم ولا طلب ولا استغاثة بهم والاستغاثة بالميت والغائب سواء كان نبيا أو وليا ليس مشروعا ولا هو من صالح الأعمال إذ لو كان مشروعا أو حسنا من العمل لكانوا به أعلم وإليه أسبق ولم يصح عن أحد من السلف أنه فعل ذلك
ماحصل یہ ہے کہ "کشف قبر میں یہ ہرگز دلیل نہیں کہ اہل قبور سے استمداد یا استغاثہ ہو، اس میں تو صرف یہ ہے کہ قبر کھول دی گئی، تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو اور اللہ کی رحمت ہمیشہ انبیاء علیھم السلام اور الحین پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں نہ تو سوال ہے، نہ کسی چیز کی طلب ہے اور نہ فریاد ہے کیونکہ میت اور گائب کو فریاد رس سمجھنا جائز نہیں، خواہ ولی ہو یا نبی، اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سب سے پہلے یہ عمل کرتے۔ حالانکہ سلف صالحین سے کسی نے بھی ایسا نہیں کیا۔ پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے توسل بالقبور پر دلیل پکڑنا لغو اور باطل ہے۔" فافہم و تدبر 0کتاب الاستغاثہ فی الرد علی البکری ص28)
روشن دان کی کیفیت:
روشن دان کے متعلق شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين ولو صح ذلك لكان حجة ودليلا على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت ولا يسألون الله به وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه فأين هذا من هذا(ايضا)
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں روشندان کا چھت میں وجود ہی مفقود اور صریح کذب ہے۔ بالفرض والمحال اگر تسلیم کر لیا جائے تو اس میں ہماری دلیل ہےکیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنی دعاؤں میں نبی علیہ السلام کا وسیلہ نہیں پکڑتے تھے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دے کر سوال کرتے تھے صرف انہوں نے قبر کے اوپر سے جگہ کھول دی تاکہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ پس کجا یہ فعل اور کجا اہل بدعت کا اہل قبور سے استمداد و استغاثہ؟
اہل قبور سے استمداد حرام ہے:
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ "اقتضاء الصراط المستقیم" میں اہل قبور سے استمداد کے متعلق رقمطراز ہیں کہ:
"اہل قبور سے مدد چاہنا، جلب منفعت و رفع مضرت کی غرض سے پکارنا، یا ان کی قبر کے پاس سے دعا کرنا، (کہ ان کی برکت سے دعا قبول ہوتی ہے) یا ان سے استغاثہ و استسقاء کرنا حرام ہے اور شرک ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر مصائب کے پہاڑ امڈ آئے مگر کسی نے نبی علیہ السلام کی قبر پر آ کر فریاد نہیں کی۔ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کشفِ قبر کا حکم دیا۔ تاکہ اللہ کی رحمت نازل ہو، نبی علیہ السلام سے پانی نہیں مانگا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی، نہ کسی قسم کی فریاد کی، عربی عبارت ملاحظہ ہو:
عن عائشة رضي الله عنها أنها كشفت عن قبر النبي صلى الله عليه وسلم لينزل المطر، فإنه رحمة تنزل على قبره ولم تستسق عنده ولا استغاثت هناك نیز مصباح الظلام میں ہے کہ:
وليس في إنزال المطر إذا كشفت أجساد الأنبياء أو قبورهم ما يُستدل به على جواز التوسل الشركي
"انبیاء علیھم السلام کے جسم یا کشفِ قبر انبیاء سے بارش ہونے پر وسیلہ شرکیہ کے جواز پر استدلال قطعا غلط ہے۔" (دیکھئے مصباح الظلام فی الرد علی الشیخ الامام لمولانا شیخ عبدالطیف صاحب ص110)
حدیث صحیح نہیں
اس روایت کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
ماروى عن عآئشة من فتح الكوة من قبره الى السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت اسناده (كتاب الرد على البكرى)
کہ "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت صحیح نہیں اور نہ اس کی اسناد ثابت ہیں۔"
2۔ "یہ حدیث موقوف ہے اور محدثین محققین کے نزدیک موقوف حدیث حجت نہیں۔"
3۔ "یہ حدیث واقعہ عباس رضی اللہ عنہ (توسل بالدعاء) ، واقعہ یزید بن اسود رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث (ابوالعالیہ) سے ٹکرا رہی ہے جس کا تفصیلی تذکرہ گزر چکا ہے۔"
4۔ "صیانۃ الانسان میں ہے کہ "مسند دارمی کی روایتوں کو صحیح کہنا درست نہیں۔" (التوصل الی الحقیقۃ التوسل)
5۔ حضرت علامہ عراقی کا بیان ہے کہ "مسند دارمی میں مرسل، مفصل، منقطع اور مقطوع حدیثیں موجود ہیں۔" (ایضا)
6۔ "حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ "کسی معتمد شخص نے مسند دارمی کی حدیثوں کو صحیح نہیں کہا۔" (ایضا)
7۔ "اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن فضل ابوالنعمان البصری ہے جس کا لقب عارم تھا۔ اس کے متعلق تقریب میں لکھا ہے:
ثبت تغير فى اخر عمره
یعنی (راوی) آخری عمر میں خللِ دماغ اور نسیان کا شکار ہو گیا تھا"
میزان میں ہے کہ "اگر ابوالنعمان البصری کا سماع 220ھ سے پہلے کا ہو تو روایت درست ہو گی، بصورت دیگر صحیح نہ ہو گی۔" (اب استدلال کنندگان کو چاہئے کہ اس روایت کو قبل از اختلاط و تغیر ثابت کریں)
8۔ دوسرا راوی سعید بن زید ہے۔ میزان میں اس کو "ضعیف" کاشف میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "غیر قوی" اور خلاصہ میں امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے "غیر قوی" قرار دیا ہے۔"
9۔ تیسرا راوی عمرو بن مالک النکری ہے۔ اس کے متعلق تقریب میں ہے: اوهام) (یہ بہت وہمی ہے)
10۔ چوتھا راوی ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ ہے۔ تقریب میں ہے:
يرسل كثيرا (درمیان میں راوی چھوڑ جاتا تھا)
میزان میں یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں:
قتل فى الجماجم فى اسناده نظر ويختلفون فيه
"یہ واقعہ جماجم میں قتل ہوا، اس کی سند میں نظر ہے اور محدثین اس میں اختلاف کرتے تھے۔"
قال البخارى فى اسناده نظر
صیانہ الانسان میں ہے:
قدثبت من هناك ان هذا الحديث ضعيف منقطع
"اس بحث اسنادی سے یہ ثابت ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور منقطع ہے۔"
فتلك عشره كاملة
(جاری ہے)
حاشیہ
سالم المرادی کا بیان ہے کہ عطیہ شیعہ تھا۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے وہ صدوق ہے، کثرت سے غلطی کرتا ہے، نیز شیعہ تھا، تدلیس بھی کرتا تھا۔ جس حدیث کا راوی شیعہ ہو اور جس کے ضعف پر محدثین و علماء رجال کا فتویٰ صادر ہو چکا ہو، اس کی حدیث کو عقیدہ کی بحث میں حجت بنانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ (عزیزی الہ آبادی)
اگر اہل قبور سے استمداد جائز ہوتی تو خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت مصائب و آلام اور قحط و حزن کے موقعہ پر ان سے حاجت براری ہو جاتی۔ شیخ عبدالطیف نے "مصباح الظلام" میں اس کی وجہ بیان کی ہے کہ:
قدخاف عمر من ان يشرك به ويجعل ندالله-
یعنی "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت دانیال علیہ السلام کی لاش کو اس لیے دفن کرادیا کہ کہیں مشرک لوگ اسے اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر اللہ کا شریک نہ بنا لیں۔"
"جب ہم نے تستر فتح کیا تو ہرمزن کے بیت المال میں دیگر اشیاء کے ساتھ ایک چارپائی بھی ملی جس پر ایک شخص کی لاش تھی اور اس کے سرہانے ایک مصحف تھا۔ ہم نے وہ مصحف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ بحکمِ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اس کا عربی ترجمہ کیا۔ حضرت ابوالعالیہ کا بیان ہے کہ میں نے اس کو قرآن کی طرح پڑھ کر سنا دیا۔ حضرت خالد بن دینار اور ابوالعالیہ کی یہ گفتگو ملاحظہ ہو:
خالد بن دینار: "اس میں کیا لکھا تھا؟"
ابوالعالیہ: احکام، جنگی حالات اور پیشن گوئیاں تھیں"
خالد: تم نے اس لاش کے ساتھ کیا سلوک کیا؟"
ابوالعالیہ: "ہم نے دن میں تیرہ قبریں کھودیں اور پھر رات کی تاریکی میں اس میت کو قبر میں دفن کر دیا اور سب کو برابر کر دیا تاکہ نشاندہی نہ ہو سکے۔"
خالد: اس لاش کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے، وہ کون تھا؟"
ابوالعالیہ: وہ حضرت دانیال علیہ السلام نبی کی لاش تھی۔"
خالد: اس کی وفات کو کتنا عرصہ گزرا ہو گا؟"
ابوالعالیہ: "قریبا تین سو سال"
خالد: جسم میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی تھی؟"
ابوالعالیہ: "ہرگز نہیں، کیونکہ انبیاء علیھم السلام کے جسم کو مٹی خراب نہیں کر سکتی۔" (فتح مجید)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ کے متعلق رقمطراز ہیں کہ:
"مجاہدین صحابہ رضی اللہ عنھم، مہاجرین و انصار نے حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر کو اس لیے برابر اور لوگوں کی نظروں سے غائب کر دیا تھا کہ آئندہ نسلیں شرک و بدعت کے فتنہ کا شکار نہ ہو جائیں۔ اگر قبر کو ظاہر کر دیا جاتا تو دعا اور تبرک حاصل کرنے کے لیے لوگ قبر کی پوجا شروع کر دیتے" (کتاب الاستغاثہ ص29)
علامہ ابن کثیر نے بھی سورہ کہف میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں عراق کے اندر حضرت دانیال علیہ السلام کی لاش پائی گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے دفن کر دینے کا حکم دیا:
ان يخفى عن الناس وان تدفن تلك الرقعة التى وجد واعند فيها شئى من الملاحم وغيرها-
کہ "اسے لوگوں کی نظروں سے مخفی رکھو اور جو رقعہ ان کے پاس سے ملا تھا، ان میں جنگوں وغیرہ کے حالات درج تھے۔" (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے صیانۃ الانسان ص 253، الدرالفرید ص23، کتاب الاستغاثہ لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ص29، کتاب المغازی لابن اسحاق و بیہقی شعب الایمان)۔۔۔(عزیز)