حسبنا كتاب الله
مندرجہ بالا جملہ اس مشہور حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جو حدیثِ قرطاس کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ حدیث بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحاح ستہ کی دوسری کتابوں میں بھی مذکور ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلے ہوئے اس جملہ نے بعد کے پیدا ہونے والے امت کے دو فرقوں پر متضاد اثر ڈالا۔ اسی جملہ کے ادا کرنے سے شیعہ فرقہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سخت ناراض ہے اور دوسرا فرقہ جس میں مختلف طرح کے منکرینِ حدیث شامل ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اتنا خوش ہے کہ وہ اس حدیث کو ، احادیث کے ذخیرہ کو بے کار سمجھنے کے باوجود صحیح ترین حدیثوں میں شمار کرتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی اس مجلس میں سے، جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ زبان سے نکالا تھا، کوئی شخص بھی نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے خفا ہوا، نہ ہی کسی نے فرطِ مسرت کا اظہار کیا۔
آج ہم دوسرے فرقہ کی ان چند باتوں کا جائزہ لینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسی جملہ کو بنیاد قرار دے کر صرف قرآن کو ہی مکمل دین سمجھ لیا ہے اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی لحاظ سے ایک فالتو ارو زائد از ضرورت چیز خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اسوہ حسنہ یا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بہت بڑا ماخذ احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو یہ لوگ حدیث کو دین سے خارج ثابت کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر احادیث بھی دین کا حصہ ہوتیں تو جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو مکمل شکل میں امت کے حوالہ کر گئے تھے، اسی طرح حدیث کا بھی کوئی مجموعہ امت کے حوالے کر جاتے اور قرآن کریم کی مکمل شکل سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ سورہ فاتحہ سے لے کر سورہ والناس تک اسی موجودہ ترتیب سے لکھا ہوا قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے حوالے کیا تھا۔ چنانچہ ادارہ طلوعِ اسلام کے مدیر جناب پرویز صاحب فرماتے ہیں:
لفظ کتاب کے پرویزی معنی:
"قرآن اپنے آپ کو بار بار کتاب کہتا ہے، پہلی آیت ہی ﴿ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ﴾ سے شروع ہوتی ہے اور عرب اس لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے تھے جو مدون شکل میں سِلی ہوئی صورت میں موجود ہو۔" (قرآنی فیصلے ص 218)
لیکن آپ دیکھیے کہ ﴿ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيه﴾ سورہ بقرۃ کی دوسری آیت کا ایک حصہ ہے اور سورہ بقرۃ کا بیشتر حصہ مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا تھا، چنانچہ یہ حصہ جو زیرِ بحث ہے، بالخصوص اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ مدنی زندگی کے آغاز میں ہی مومنوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا فریق بھی معرضِ وجود میں آیا۔ جو منافقین کے نام سے مشہور ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت قرآن مجید مکمل ہی کب ہوا تھا جو "کتاب" سے مراد، ایک مدون اور سلی ہوئی کتاب مراد لی جا سکے اور جس آیت میں دین کی تکمیل کا ذکر ہے یعنی ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوئی، اس میں دین کی تکمیل کا ذکر ہے، کتاب کا ذکر نہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدون شکل میں اور سلی ہوئی صورت میں امت کو کیا چیز دی تھی؟
پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ "عرب اس لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے تھے جو مدون شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو" لیکن اس معاملہ میں ہمیں عرب پر انحصار کرنے کی ضرورت تو تب ہو، جبکہ قرآن اس سلسلہ میں خاموش ہو، لہذا کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم قرآن سے وہ مختلف معانی پوچھ لیں جن میں اس نے لفظ کتاب کو استعمال کیا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ مندرجہ ذیل چار معنوں میں آیا ہے:
قرآن کی رُو سے لفظ کتاب کے معانی
(1)بمعنی چھٹی، خط نامہ (Letter) حضرت سلیمان علیہ السلام پرندہ ہدہد سے کہتے ہیں:
﴿اذهَب بِكِتـٰبى هـٰذا فَأَلقِه إِلَيهِم ثُمَّ تَوَلَّ عَنهُم فَانظُر ماذا يَرجِعونَ ﴿٢٨﴾... سورةالنمل
"میرا یہ خط لے جا اور ان کے آگے ڈال دے، پھر ان سے پیچھے ہٹ جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں؟"
چنانچہ ہدہد نے یہ چٹھی ملکہ سبا کے سامنے اس وقت پھینکی جب وہ اپنے ساتھیوں سمیت سورج دیوتا کی پرستش کرنے جا رہی تھی۔ اس خط (کتاب) میں صرف یہ مضمون درج تھا:
﴿إِنَّهُ مِن سُلَيمـٰنَ وَإِنَّهُ بِسمِ اللَّهِ الرَّحمـٰنِ الرَّحيمِ ﴿٣٠﴾ أَلّا تَعلوا عَلَىَّ وَأتونى مُسلِمينَ ﴿٣١﴾... سورةالنمل
"بے شک یہ (خط یا کتاب) سلیمان کی طرف سے ہے اور (مضمون یہ ہے کہ) شروع خدا کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ (بعد اس کے یہ) کہ مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع و منقاد ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔"
اب سوال یہ ہے کہ اتنے مختصر سے مضمون کو "مدون اور سلی ہوئی کتاب" سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ ۔۔۔اور دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ پرندہ ہُدہُد کون سی مدون شکل میں اور سلی ہوئی صورت میں کتاب لے کر گیا تھا؟
2۔ بمعنی نوشتہ تقدیر الہی
دیکھیے یہاں کسی ایسی تحریر کی ضرورت نہیں جس کا ادراک مادی حواس سے کیا جا سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما كانَ لِنَفسٍ أَن تَموتَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ كِتـٰبًا مُؤَجَّلًا...﴿١٤٥﴾... سورة آل عمران
"اور کوئی بھی شخص خدا کے حکم کے بغیر مَر نہیں سکتا، اس نے اس کا مقررہ وقت لکھ رکھا ہے۔"
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿لَولا كِتـٰبٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُم فيما أَخَذتُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٦٨﴾... سوة الانفال
"اگر اللہ کا لکھا (حکم) پہلے نہ ہو چکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے (اُساریٰ بدر) سے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب (نازل) ہوتا۔"
اب دیکھئے ان ہر دو آیات میں "مدون اور سلی ہوئی صورت میں" کی کوئی قید لگانے کی گنجائش نظر آتی ہے؟
3۔۔۔ بمعنی فریضہ یا ڈیوٹی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الصَّلوٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورةالنساء
"بلاشبہ مومنوں پر نماز کا وقت پر ادا کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔"
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورةالبقرة
"اے ایمان والو! روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔"
ان آیات میں بھی کتاب کے اس معنی "مدون شکل اور سلی ہوئی صورت" کی گنجائش نظر نہیں آتی۔
بمعنی صحیفہ:
ان معنوں میں اگر آپ چاہیں تو "مدون شکل اور سلی ہوئی صورت" کی گنجائش موجود ہے لیکن اگر سلی ہوئی یا جلد شدہ نہ ہو تو بھی وہ کتاب ہی ہو گی کیونکہ اس لحاظ سے کتاب کے معنی محض لکھی ہوئی چیز کے ہیں۔ سلا ہوا مجلد ہونا اجافی چیز ہے۔ ان معنوں میں بھی یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَكِتـٰبٍ مَسطورٍ ﴿٢﴾ فى رَقٍّ مَنشورٍ ﴿٣﴾... سورةالطور
"قسم اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے، کھلے کاغذ میں"
بات دراصل یہ نہیں کہ عرب ہر اس چیز کو جو مدون شکل میں اور سلی ہوئی صورت میں ہو، کتاب کہتے تھے بلکہ کتاب کا یہ عام معنی ہمارے اردو محاورہ میں مستقمل ہے اور جدید دور میں جب کاغذ عام ہے اور جلد سازی کے لیے وسائل بھی مہیا ہیں، کتاب کو عموما اس معنی میں ہم استعمال کرتے ہیں۔ لیکن عربی محاورہ کے لیے ہمارے اردو محاورہ کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ جبکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس محاورہ نے دینی معاشروں اور علوم و فنون میں پرورش پائی ہو۔ لیکن جس طرح مرزا غلام قادیانی نے لفظ "توفی" یا "وفات" کے اردو محاورہ سے بعض قرآنی آیات سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، حالانکہ عربی زبان میں "توفی" کے معنی "پورا لینے" کے ہیں جو زندہ اٹھانے اور جان قبض کرنے، دونوں معنوں میں مستعمل ہے، اسی طرح غلام پرویز نے لفظ کتاب کے عام اُردو مفہوم سے دھوکا دینے کی کوشش کی ہے جس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ خود پرویز صاحب نے بھی لفظِ کتاب کو "مدون شکل میں اور سلی ہوئی صورت" کے علاوہ محض پروگرام کے معنیٰ میں بھی لیا ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب "قرآنی نظامِ ربوبیت" ص240 پر﴿ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ﴾
کا ترجمہ یوں کیا ہے:
"اس پروگرام کے صحیح اور یقینی ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں"
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ کتاب کے معنیٰ ہی "قانون" ہیں۔ (معراج انسانیت ص206)
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ واضح ہوا کہ لفظ کتاب اگرچہ لغوی اعتبار سے چٹھی، نوشتہ تقدیر، فریضہ اور صحیفہ وغیرہ معنوں میں استعمال ہوا ہے، لیکن اس کا اصطلاحی مفہوم شریعت ہے جو قرآن و حدیث دونوں پر مشتمل ہے۔
کتاب و سنت یا قرآن و حدیث
عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کتاب اور قرآن مترادفات ہیں اور اسی طرح سنت اور حدیث بھی، لیکن یہ عوامی خیال ہے۔ علمی مفہوم کے اعتبار سے کتاب اور قرآن کا باریک فرق ہے۔ قرآن سے مراد وہ الفاظِ وحی ہیں جو جبریل کے واسطہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے گئے اور ان کی تلاوت کی جاتی ہے جبکہ کتاب کی معنیٰ شریعت کے ہیں اور اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کے وہ گوشے بھی موجود ہیں جو قرآن مجید میں بظاہر موجود نہیں لیکن شریعت کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ آئندہ واقعات سے معلوم ہو گا۔ اسی طرح سنت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل اور اسوہ حسنہ ہے لیکن احادیث، روایات کا وہ مجموعہ ہیں جن میں یہ طرز عمل اور اسوہ حسنہ بیان ہوا ہے۔ اگرچہ بعض احادیث جن کا تعلق عرب عادات و رواج وغیرہ سے تھا، انہیں بہ ظاہر سنت نہیں کہا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ الفاظ کے متناسب استعمال کا لحاظ رکھتے ہیں وہ یا تو کتاب و سنت کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یا قرآن و حدیث کا، پس قرآن و حدیث کو صحیفوں اور کتابوں کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے لیکن کتاب و سنت کا مفہوم شریعت کا فکری اور عملی بیان ہے یعنی جدید انداز میں اگر ہم یوں کہیں کہ ایک کے اندر نظریاتی (Theoratical) پہلو زیادہ ہے تو دوسرے کے اندر عملی (Prhctical)، تو بے جا نہ ہو گا۔
درحقیقت کتاب و سنت ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔ ایک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت نازل ہونے کے اعتبار سے ربوبیت اور حاکمیت کا پہلو اجاگر ہے تو دوسرے میں شریعت کی عملی تعبیر کے اعتبار سے اطاعت اور نمونہ کا پہلو، گویا کتاب میں الفاظ کا پہلو غالب ہے اور سنت میں معنیٰ اور مفہوم کا پہلو۔ یہی وجہ ہے کہ عموما کتاب اللہ کے بالمقابل لفظِ قرآن مستعمل ہوتا ہے اور سنت کے بالمقابل لفظِ حدیث لیکن فنی اعتبار سے قرآن و حدیث دو الگ الگ فن ہیں اور ان کے مجموعے بھی علیحدہ ہیں جبکہ کتاب و سنت کا فرق صرف اعتباری ہے اور وہ ایک ہی شریعت کے دو پہلو ہیں۔ لہذا اگر یہ کہا جائے کہ حسبنا كتاب الله (ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے) تو اس سے سنت کا رد نہیں ہوتا۔ اسی طرح اہل سنت کہلانے سے قرآن کا انکار لازم نہیں آتا۔
اب ہم چند مثالوں سے یہ واضح کریں گے کہ قرآن و حدیث کے مجموعے تو علیحدہ ہیں لیکن قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح ذکر ہے۔ اسی طرح حدیث میں بھی بسا اوقات کتاب اللہ کا ذکر موجود ہے۔
قرآن میں سنتِِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذ غَدَوتَ مِن أَهلِكَ تُبَوِّئُ المُؤمِنينَ مَقـٰعِدَ لِلقِتالِ ۗ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿١٢١﴾... سورةآل عمران
"اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر متعین کر رہے تھے۔"
اس آیت میں اسوہ حسنہ کا ایک پہلو سامنے لایا جا رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے متعلق ہے۔ ایسے ہی عمل کو عام اصطلاح میں سنتِ فعلی کہتے ہیں۔ اس کی دوسری مثال ملاحظہ ہو:
2. ﴿إِنَّ رَبَّكَ يَعلَمُ أَنَّكَ تَقومُ أَدنىٰ مِن ثُلُثَىِ الَّيلِ وَنِصفَهُ وَثُلُثَهُ...٢٠﴾... سورةالمزمل
"بلاشبہ تیرا پروردگار جانتا ہے کہ آپ رات کا دو تہائی یا نصف یا اس کے تیسرے حصہ کے لگ بھگ کھڑے ہوتے ہیں۔"
اور درج ذیل آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا ذکر ہے:
3. ﴿إِذ يَقولُ لِصـٰحِبِهِ لا تَحزَن إِنَّ اللَّهَ مَعَنا...﴿٤٠﴾... سورةالتوبة
"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"
اس آیت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ہے، لہذا یہ سنتِ قولی ہوئی۔
غرضیکہ قرآن کریم میں جا بجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کا ذکر ملتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کتاب میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکثر آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت و اخلاق کو قرآن سے تعبیر کیا ہے۔ خلقه القرآن
احادیث میں کتاب اللہ کا ذکر
جس طرح قرآن مجید میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر ذکر آیا ہے حالانکہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ماخذ احادیث ہیں۔ اسی طرح احادیث میں کتاب اللہ کا بھی ذکر موجود ہے، حالانکہ اس کا بڑا اولین ماخذ قرآن مجید ہے۔ اب اس کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
1۔ کتاب اللہ اور "واقعہ سیف" : دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ ہوا جو "واقعہ عسیف" (بمعنی مزدور) کے نام سے مشہور ہے۔ یہ واقعہ صحیح بخاری میں بی تکرار اور صحاح کی دیگر کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اور یہ واقعہ یوں ہوا کہ:
ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا، "یا رسول اللہ! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئے۔ اب دوسرا فریق جو پہلے سے کچھ زیادہ سمجھدار تھا، کہنے لگا کہ ہاں یا رسول اللہ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق فرمائیے اور بات کرنے کی مجھے اجازت دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ، بیان کر" اس نے کہا کہ "میرا بیٹا اس شخص (فریق ثانی) کے پاس نوکر تھا۔ اور اس نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ میں نے سو بکریاں اور ایک غلام دے کر اپنے بیٹے کو چھڑا لیا۔ اس کے بعد میں نے کئی عالموں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کے لیے سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس شخص کی بیوی کے لیے "رجم" ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:
«والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله جل ذكره، المائة شاة والخادم رد، عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، واغد يا أنيس على امرأة هذا، فإن اعترفت فارجمها»(بخارى حديث6827)
"اس پروردگار کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کا ذکر بلند ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام (جو تو نے دیے) تجھے واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔اور اے انیس رضی اللہ عنہ! کل صبح اس عورت کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دو۔" چنانچہ انیس رضی اللہ عنہ صبح اس عورت کے پاس گئے تو اس نے اعتراف کر لیا تو انیس رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کر دیا۔"
اس واقعہ سے درج ذیل امور سامنے آتے ہیں:
1۔کتاب اللہ کا ذکر صرف قرآن کریم میں نہیں بلکہ احادیث میں بھی موجود ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم اٹھا کر بیان کر رہے ہیں۔
2۔ رجم کی سزا کتاب اللہ کے مطابق ہے۔
3۔ اس واقعہ سے پہلے بھی بعض عام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ معلوم تھا کہ شادی شدہ کی سزا رجم ہے اور یہ سزا کتاب اللہ کے مطابق ہے۔ چنانچہ وہ یہی سزا مذکورہ شخص کو بتاتے رہے۔
2۔ کتاب اللہ اور حقِ تولیت
دوسرا واقعہ جو دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوا، کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ (جو لونڈی تھیں) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ کر کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ سالانہ پر مکاتبت کر لی ہے آپ اس سلسلہ میں میری کچھ مدد کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر تمہارے مالک اس بات پر آمادہ ہوں کہ تمہاری ولاء میرے لیے ہو گی تو میں تمہیں خرید کر آزاد کر دوں گی، بریرہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئی اور واپس آ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جواب دیا کہ وہ آپ کی ولاء والی شرط تسلیم نہیں کرتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "عائشہ رضی اللہ عنہا! بریرہ رضی اللہ عنہا کی قیمت ادا کر کے اسے لے لو اور ان کی ولاء والی شرط بھی بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہو کہ تسلیم کر لے، کیونکہ ولاء تو اس کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ رضی اللہ عنہا کی قیمت ادا کر کے اسے آزاد کر دیا۔ اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ دیا:
ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: «أما بعد، ما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، وإن كان مائة شرط، قضاء الله أحق، وشرط الله أوثق، وإنما الولاء لمن أعتق»(بخارى:2168)
"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ جو شرط بھی کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے۔ اگرچہ سو چرطیں ہوں۔ اللہ کا فیصلہ سب سے صحیح اور اللہ کی شرط ہی سب سے مضبوط ہے۔ ولاء اسی کی ہے جو غلام کو آزاد کرتا ہے۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:
1۔ اس بات کے باوجود کہ "الولاء لمن أعتق" کی شرط قرآن مجید میں کہیں مذکور نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بہ تاکید کتاب اللہ قرار دے رہے ہیں۔
2۔ عرب محض اسی چیز کو جو مدون شکل میں اور سلی ہوئی صورت میں ہو، کتاب نہیں کہتے تھے اور کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن ہی نہیں بلکہ وہ اس سے مراد پوری شریعت لیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب "حسبنا کتاب اللہ" فرمایا تھا، آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے صرف قرآن مجید کی تکمیل ہی نہ تھی بلکہ جملہ شریعت کی تکمیل تھی۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے درج ذیل باب سے کتاب اللہ کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ جس میں بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام مذکور ہے، عنوان یہ ہے:
باب المكاتب وما لا يحل من الشروط التي تخالف كتاب الله وقال جابر بن عبد الله رضي الله عنهما في المكاتب: «شروطهم بينهم» وقال ابن عمر، أو عمر: «كل شرط خالف كتاب الله فهو باطل، وإن اشترط مائة شرط» قال أبو عبد الله: «ويقال عن كليهما عن عمر وابن عمر»
"مکاتب کا بیان اور ان شرطوں کا بیان جو جائز نہیں اور کتاب اللہ کے مخالف ہیں اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایسی شرطوں کے بارے میں کہا، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی، کہ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ کے خلاف ہو، وہ باطل ہے، اگرچہ ایسی سو شرطیں باندھی جائیں۔"
ان تصریحات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے "حسبنا کتاب اللہ" کہا تو اس کا وہ مفہوم قطعا ان کے ذہن میں نہ تھا جو منکرینِ حدیث سمجھتے ہیں۔ منکرینِ حدیث، کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن مجید لیتے ہیں جبکہ صحابہ کرام اور دیگر اہلِ عرب اور بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کتاب اللہ سے پوری شریعت مراد لیتے تھے۔
کتاب اللہ اور کلام اللہ کا فرق:
قرآن مجید کلام اللہ بھی ہے اور کتاب اللہ میں بھی، کلام اللہ کا لفظ خاص ہے جبکہ کتاب اللہ عام ہے۔ ہر وہ چیز جس پر کتاب اللہ کا اطلاق ہو کلام اللہ نہیں۔ اس کے برعکس کلام اللہ کتاب اللہ ضرور ہے۔ کلام اللہ کے لیے ضروری ہے کہ اس کے الفاظ بھی منزل من اللہ ہوں جبکہ کتاب اللہ کے لیے یہ شرط ضروری نہیں بلکہ مفہوم کا الہامی ہونا کافی ہے۔ اس فرق کی مزید وضاحت کے لیے مسئلہ خلقِ قرآن کو سامنے لائیے۔ جب حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ عباسی اور معتزلی خلفاء کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے اور ڈروں سے پٹ رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ نعرہ ہوتا تھا "القرآن کلام اللہ غیر مخلوق" یعنی "قرآن اللہ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے" آپ نے کسی وقت بھی یہ نہ کہا کہ "القرآن کتاب اللہ غیر مخلوق"۔
اب تک ہم نے جو بحث کی ہے اس میں صرف کتاب اور کتاب اللہ کے وہ معنی بیان کیے ہیں جو اہل عرب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سمجھتے تھے۔ اب ہم پرویز صاحب کے اقتباس کے دوسرے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
مدون شکل میں:
یہ تو شاید آپ کو معلوم ہو گا کہ:
1۔ قرآن کریم کا بیشتر حصہ مدنی دور میں نازل ہوا ہے تاہم مکی سورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کل 114 سورتوں میں سے 86 مکی ہیں باقی مدنی۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مکی دور میں جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں اکثر چھوٹی چھوٹی ہیں اور مدنی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے اکثر لمبی ہیں۔
2۔ سب سے پہلی وحی میں سورہ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں، گویا ترتیبِ نزول کے لحاظ سے اس کا نمبر پہلا ہے مگر موجودہ تدوینِ قرآن کے لحاظ سے اس کا نمبر 96 ہے۔
3۔ چھوٹی چھوٹی سورتیں تو یکبارگی: نازل ہوتی رہیں لیکن لمبی سورتوں کے مضامین بالاقساط اور کافی وقفہ کے بعد حسبِ موقعہ نازل ہوتے رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ سورہ بقرۃ کا اکثر حصہ مدنی دور کے آغاز ہی میں نازل ہوا تھا، لیکن اسی سورت میں سود کی حرمت کا تفصیلی بیان موجود ہے اور یہ آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئیں۔ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ رہنمائی فرمائی کہ فلاں مضمون کی آیات کو فلاں سورۃ میں فلاں مقام پر رکھا جائے۔ اس ترتیب کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضامین کی مناسبت کو مدنظر رکھ کر یہ فریضہ سرانجادم دیا۔
4۔ نہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ پابندی تھی اور نہ اب ہے کہ قرآن کو نماز میں یا نماز کے علاوہ ترتیبِ نزول کے لحاظ سے پڑھا جائے۔ یہ فقط سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا تقاضا تھا کہ جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرت کو دوسری سورت کے بعد ملا کر پڑھتے، صحابہ رضی اللہ عنھم بھی ایسے کیا کرتے تھے لیکن سارے قرآن کی سب سورتوں کی تدوینِ کی ضرورت نہ بلحاظ نزول ضروری سمجھی گئی، نہ بلحاظ موجودہ ترتیبِ تلاوت۔ البتہ کسی سورت کی آیات میں تقدیم تاخیر کر کے پڑھنا ناجائز تھا۔
5۔ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾والی آیات حجہ الوداع کے دوران نازل ہوئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم 91 دن زندہ رہے۔
6۔ سب سے آخر میں سورۃ النصر نازل ہوئی۔ نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر 114 ہے یہ سورت گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا پیغام تھا، چنانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سورت کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا، "اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مراد ہے۔" (بخاری، کتاب التفسیر)
7۔ جوں جوں قرآن کی کوئی سورت یا کسی سورت کی آیات نازل ہوتیں تو ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو لکھواتے جاتے تھے۔"
اب دیکھیے کہ جب تک قرآن مکمل طور پر نازل نہیں ہو چکتا اس سے پہلے موجودہ ترتیب سے قرآن کو مدون کرنا محال تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری سورت نازل ہوئی تو ساتھ ہی پیغامِ اجل بھی آ پہنچا، تو کیا اس درمیانی وقفہ میں سارے قرآن کو ازسرِنو موجودہ ترتیب کے لحاظ سے لکھوا کر امت کے حوالہ کرنا ممکن نظر آتا ہے؟
"طلوعِ اسلام" کا دعویٰ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ شکل میں قرآن مجید کو مدون کر کے ایک کتاب کی صورت میں امت کے حوالہ کیا تھا۔ اس کی ممکن صورت یہی نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سامنے قرآن کریم کا یہ کتابی نسخہ کسی ایک شخص یا مجلسِ شوریٰ کے افراد، یا کسی ادارہ یا کمیٹی کے حوالہ کیا ہو اور باقی افراد کو اس پر شاہد بنایا ہو۔ اتنا بڑا اہم واقعہ ہو اور اس سلسلہ میں کتبِ احادیث و تواریخ کلیۃ خاموش ہوں، ناممکن نظر آتا ہے اور جس چیز پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے گواہی لی وہ پیغامِ رسالت تھا جس کے پہنچانے کی گواہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجہ الوداع کے موقعہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ایک انبوہ کثیر سے لی تھی۔ پیغامِ رسالت کے لوگوں پر پہنچانے اور اس پر گواہی لینے کی بات درست تھی لہذا اس کے واضح ثبوت بھی مل جاتے ہیں لیکن قرآن کو اسی موجودہ ترتیب سے مدون شکل میں امت کے حوالے کرنے کا واقعہ محتاجِ ثبوت ہے۔ کیا ادارہ مذکور یہ زحمت گوارا فرمائے گا کہ ایسا علمی ثبوت اور مستند حوالہ پیش فرما کر ہمارے علم میں اضافہ کا باعث بنے۔
سلی ہوئی شکل:
یہ تو غالبا آپ جانتے ہی ہوں گے کہ:
1۔ کاغذ کی ایجاد 134ھ (بمطابق 751ء) میں ہوئی۔ اس کے موجد چینی ہیں جنہوں نے کتان اور سن کے چیتھڑوں اور ریشوں سے کاغذ بنانے کی صنعت رائج کی۔ اس سے پیشتر اسلامی ثقافت کے ارتقاء کے زمانہ میں اہلِ مشرق کے پاس صرف قرطاس ہی ایسی چیز تھی جس پر لکھا جائے۔ یہ کاغذ کی ابتدائی اور رَف سی شکل تھی جو قدیم مصر میں رائج تھی اور ایسا کاغذ نرسل کے گودہ سے تیار کیا جاتا تھا، لیکن یہ کاغذ بھی اتنا عام نہ تھا کہ ہر جگہ حسبِ ضرورت میسر آ سکے۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھنے کے لیے دو ہی چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ (1) قرطاس جو بہت کم یاب تھا۔ (2) رَق۔ جس کا ترجمہ "طلوعِ اسلام" کے مطابق ایسے ورق ہیں جو باریک کھال سے بنائے گئے ہوں۔ (طلوعِ اسلام فروری 1982ء ص10) گویا ایسے ہی اوراق پر قرآن لکھا جاتا تھا۔ لیکن احادیث و تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رَق بھی اتنا عام نہ تھا۔ قرآن کی کتابت کے لیے ہر وہ چیز جو پتلی اور چوڑی ہو (حقیقتا یہی اس لفظ کا لغوی معنیٰ ہے) استعمال کی جاتی تھی۔ مثلا پتلی اور چوڑی یا پھیلی ہوئی ہڈی، اسی قسم کے پتھر، چمڑا اور کھال اور کھجور کی چھال وغیرہ سب کاغذ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔
2۔ کاتبِ وحی صرف ایک شخص ہی نہیں بلکہ بہت سے تھے۔ مکہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور مدینہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس خدمت پر مامور تھے۔ اگر یہ حضرات بروقت موجود نہ ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حی لکھنے کے لیے ارشاد فرما دیتے تھے۔ چنانچہ چاروں خلفاء رضی اللہ عنھم اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم کو بھی اس خدمت کی بجا آوری کا موقع میسر آتا رہا۔ مثلا خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود قرآن نے نبی اُمی کہا ہے، یعنی جو لکھان پڑھنا نہ جانتا ہو اور جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے اسے بھی "امیین" کا لقب دیا ہے۔ گویا عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا۔ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ اساریٰ بدر میں سے پڑھے لکھے قیدیوں کا فدیہ ہی یہ مقرر کیا گیا کہ وہ دس دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں۔ ان تصریحات سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں پڑھے لکھے حضرات کی تعداد کم ہی تھی اور جو حضرات لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ اپنے طور پر قرآن کریم کی کتابت بھی کرتے جاتے تھے۔ چنانچہ ان سب کے مصاحف الگ الگ تھے۔ جیسے مصحفِ علی رضی اللہ عنہ، مصحفِ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، مصحفِ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ مگر مصحف النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثبوت نہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نازل شدہ وحی کو بالترتیب لکھوا کر اپنے پاس محفوظ رکھتے جاتے۔
ان حالات میں آپ اندازہ فرمائیے کہ جب (1) اعراق یا کاغذ کے بجائے پتھر، ہڈیاں، ٹھیکرے، کھال، چمڑا استعمال ہو اور بقول پرویز صاحب صرف پتلی کھال ہی استعمال ہو۔ (2) دورانِ کتابت 23 سال کا عرصہ ہو۔
(3) لکھنے والے الگ الگ حضرات ہوں، جن کے مصاحف بھی الگ الگ ہوں تو کیا ایک سلی ہوئی اور مدون کتابت کا تصور ذہن میں آ سکتا ہے؟
اب یہ صورتِ حال بھی سامنے رکھیے اور "طلوعِ اسلام" کا درج ذیل اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں:
"اس طرح یہ کتاب (قرآن) ساتھ کے ساتھ محفوظ ہوتی چلی گئی اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں تو یہ بعینہ اسی شکل اور اسی ترتیب میں جس میں یہ اس وقت ہمارے پاس ہے، لاکھوں مسلمانوں کے پاس موجود اور ہزاروں کے سینوں میں محفوظ تھی۔ اس کی ایک مستند کاپی (Master Copy) مسجد نبوی میں ایک ستون کے قریب، صندوق میں رکھی رہتی تھی۔ یہ وہ نسخہ تھا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے وحی لکھوایا کرتے تھے۔اسے اُم یا امام کہتے تھے اور اس ستون کو جس کے قریب یہ نسخہ رہتا تھا، اسطوانہ مصحف کہا جاتا تھا۔ اسی ستون کے پاس بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرِ نگرانی اس مصحف سے اپنے اپنے مصاحف نقل کیا کرتے تھے۔ س کتاب کی اشاعت اس قدر عام ہو گئی تھی کہ جب نبی اکرم نے اپنے آخری حج (حجۃ الوداع) کے خطبہ میں لاکھوں نفوس کو مخاطب کر کے پوچھا، کیا میں نے تم تک خدا کا پیغام پہنچا دیا ہے؟ تو چاروں طرف سے یہ آواز گونج اٹھی کہ ہاں! آپ نے اسے پہنچا دیا ہے۔ یہی تھی وہ کتاب جس کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات میں دیگر صحابہ کرام کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ حسبنا کتاب اللہ۔ ہمارے لیے خدا کی کتاب کافی ہے۔" (طلوعِ اسلام ص11 فروری سئہ 1982ء)
یہ اقتباس کئی لحاظ سے محلِ نظر ہے۔ مثلا:
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ساتھ ساتھ کتابت کرواتے جاتے تھے اور جب آخری وحی (سورۃ النصر) نازل ہوئی تو جلد ہی بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ اب یہ نزولی ترتیب موجودہ ترتیب تلاوت سے کیونکر بدل گئی؟ اس مستند کاپی میں سورتوں کی تقدیم و تاخیر کیسے واقع ہوئی اور یہ کس نے کی تھی؟
2۔ یہ لاکھوں افراد، جن کے پاس اس مستند کاپی کی مصدقہ نقول موجود تھیں، ان میں سے صرف ایک سو ہی کے نام پیش فرما دیتے تو کیا حرج تھا؟
یہ نسبت اگرچہ لاکھوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ تاہم بطورِ ثابت اتنا بھی کافی سمجھ لیا جاتا۔
3۔ یہ صندوق اسطوانہ مصحف اور امام والا لطیفہ بھی خوب ہے۔ جس کے لیے غالبا نہ کسی حوالہ کی ضرورت ہے نہ سند کی۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ناگر ایک آدمی اسناد کے واسطہ سے اور حدود و قیود کا پابند رہ کر دو اڑھائی سو سال پہلے کی خبر دے تو اسے تو ظنی کہہ کر درخورِ اعتنانہ سمجھا جائے اور ایک آدمی اگر چودہ سو سال بعد بغیر کسی سلسلہ اسناد اور حدود کے بات کہے تو اسے من و عن تسلیم کر لیا جائے؟
4۔ ثبوت تو درکار تھا قرآن کریم کے مستند نسخہ کا، جو مدون و مرتب تھا اور اس کی لاکھوں نقول کا جو ہو چکی تھیں۔ مگر آپ ثبوت پیش کر رہے ہیں، لاکھوں افراد تک رسالت کا پیغام پہنچانے کا، اور وہ بھی روایاتِ حدیث سے؟ ۔۔۔ کیا اس پیغامِ رسالت کے پہنچانے کے اقرار ست از کود یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک مستند کاپی بھی تھی، جس کی لاکھوں نقول ان صحابہ کرام کے پاس موجود تھیں؟
5۔ رہا حسبنا کتاب اللہ کا معمالہ، تو آپ کے خیال میں کتاب اللہ وہ مستند کاپی تھی جو صندوق میں پڑی رہتی تھی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے وہ مستند کاپی کب تک اس صندوق میں پڑی رہی اور کس نے اس کو نکالا تھا؟
مدون اور سلی ہوئی کتاب کا ایک نقلی ثبوت
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حوالہ بھی پیش کیا جاتا ہے:
"خود بخاری شریف میں یہ حدیث موجود ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (امت کے لیے) کیا چھوڑا ہے؟ تو آپ نے کہا:
ماترك الامابينالدفتين
"یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے علاوہ اور کچھ نہیں چھوڑا۔"
(بخاری جلد سوم، کتاب فضائل القرآن ص173، مقامِ حدیث جلد 1 دوسرا ایڈیشن ص11)
مگر ہمیں افسوس ہے کہ بخاری کی کتاب فضائل القرآن ساری کی ساری دیکھی۔ لیکن اس میں یہ حدیث ہمیں نہیں مل سکی۔
اب ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ حدیث کہیں نہ کہیں مذکور ہو گی اور یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہو گی (ان باتوں کا ثبوت بھی ادارہ طلوعِ اسلام کے ذمہ ہے) پھر بھی اس سے طلوعِ اسلام کے موقف کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی عمر 13 یا 14 برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کا زمانہ دیکھا اور آپ رضی اللہ عنہ کی وفات سئہ 65ھ میں ہوئی ہے۔ جب کہ قرآن دورِ عثمانی میں (24 تا 35 ہجری) میں مدون تو درکنار نشر بھی ہو چکا تھا۔ لہذا اس روایت سے بس اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بس وہی کچھ چھوڑا جو اس وقت دفتین میں موجود ہے۔ اس روایت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں "بین الدفتین" آ چکا تھا کیونکر صحیح قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیونکر غالب احتمال یہی ہے کہ وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص نے آپ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا۔ جس کا آپ رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا اور جواب دینے کے وقت قرآن فی الواقع بین الدفتین آ چکا تھا۔ نیز اس حدیث کا مفہوم واضح ہے کہ مراد قرآن ہے اور قرآن کے مابین الدفتین کامل ہونے کا انکار ہم نہیں کرتے تاہم اس روایت کا ثابت ہونا ضروری امر ہے۔
حفاظتِ قرآن
جہاں تک قرآن کریم کی حفاظت کے عقیدہ اور ایمان کا تعلق ہے۔ ہم طلوعِ اسلام سے بھی زیادہ اس کے معتقد ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سب مسلمان اس عقیدہ پر متفق ہیں تو طلوعِ اسلام کو اس عقیدہ پر زور دینے کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے؟ پھر کتاب کے معنی بھی قرآن، کتاب اللہ کے معنی بھی قرآن، ذکر کے معنی بھی قرآن بتلانے اور پھر اس قرآن کو غلط دلائل اور حوالوں کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدون اور سلا ہوا ثابت کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی؟
ان سوالوں کا جواب صرف یہ ہے کہ یہ چالیں دراصل حدیث دشمنی کی ایک گہری سازش کی آئینہ دار ہیں اور قرآن اور حدیث کے مدون نسخوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ مدت کی وسیع خلیج حائل کرنا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ قرآن کریم کے متعلق تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدون و مرتب ہو چکا تھا اور حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا پہلا مدون نسخہ (بخاری) اڑھائی سو سال بعد معرج وجود میں آیا۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ پتہ نہیں ان لوگوں کو حقائق سے اتنی چڑ کیوں ہے؟ حدیث و تاریخ کی کتابت و تدوین کے سلسلہ میں ہمیشہ یہ لوگ تاریک پہلو کو پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابتِ حدیث سے منع فرمایا تھا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم حدیثوں کو جلاتے رہے۔ تابعین نے حدیث کے علم کو کبھی اچھا نہ سمجھا وغیرہ۔ یہ حضرات یہ باتیں کبھی نہیں بتلائیں گے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت کسی صحابی کو کتابت حدیث سے منع کیا تھا تو اس کے بعد کئی صحابہ کو لکھنے کی اجازت بھی دی تھی۔ یا پہلے اس سے روکنے اور بعد میں اس کی اجازت دینے کی غرض و غایت کیا تھی؟ نیز یہ کہ احادیث کے کئی مجموعے تحریر شدہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے پاس موجود تھے۔ قرآن کی تدوین کے بعد جلد ہی حدیث کی تدوین کا کام شروع ہو گیا تھا اور پہلا مدون مجموعہ "صحیفہ ہمام ابن منبہ" 58ھ سے پہلے معرضِ وجود میں آ گیا تھا۔ نیز امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور و معروف مدون مجموعہ مسمیٰ مؤطا بھی سئہ 150ھ سے پہلے پہلے معروف و مقبول ہو چکا تھا اور آج تک ہر جگہ متداول ہے۔
حدیث کی تدوین کے کام کو وہ عجمی سازش قرار دیتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ صحاح ستہ کی چھ کی چھ کتابوں کے مؤلفین ایانی تھے، عربی نہ تھے۔ اس سازش کا سراغ بھی تیرہ سو سال بعد ہی لگایا گیا ہے۔ اس سے پہلے کسی شخص یا کسی حکمران کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ پھر ان کی دلیل بھی انتہائی کمزور ہے۔ کیونکہ مؤطا امام مالک تو کم از کم ایک خالص عربی النسل (امام مالک بن انس) کی تالیف ہے۔ اب اگر اہلِ صحاح ستہ ایرانی حضرات، اس مؤطا کے خلاف کچھ بیان کرتے تو معلوم ہوتا کہ وہ دین میں تحریف اور مسلمانوں سے دشمنی کر رہے ہیں۔ لیکن اگر مؤطا کی تمام احادیث صحاح ستہ کی درجہ اول کی دو کتابوں بخاری اور مسلم میں شامل ہوں تو پھر تو یہ امام مالک جیسے خالص عربی النسل کا اتباع ہوا۔ دشمنی کیسے بن گئی؟ پھر ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اگر ایرانی محدثیں کی دین دشمنی کا ثبوت پایہ تکمیل کو نہ پہنچے، تو کیا یہی لوگ ایرانی محدثین کی آڑ میں دین دشمنی کی سازش نہیں کر رہے ہیں؟ آخر یہ بھی تع ایرانی محدثین کی طرح عجمی ہی ہیں۔
اللہ کی ذمہ داری کیا ہے؟
قرآن کی حفاظت اور سنت کی غیر محفوظیت کے لیے جو دلائل دئیے جاتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
1. ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾... سورة الحجر
(ترجمہ از مقامِ حدیث ص8) "یقینا ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔"
اب دیکھئے ذکر کا معنیٰ قرآن کیا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن بھی عربی لفظ ہے اور قرآن میں بارہا استعمال ہوا ہے۔ مگر یہاں قرآن کے بجائے لفظ "ذکر" استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر اور قرآن میں کچھ فرق ضرور ہے۔ اس فرق کی وضاحت کے لیے درج ذیل آیت ملاحظہ فرمائیے:
﴿وَلَقَد يَسَّرنَا القُرءانَ لِلذِّكرِ فَهَل مِن مُدَّكِرٍ ﴿٢٢﴾... سورة القمر
"اور ہم نے اس قرآن کو ذکر کے لیے آسان بنادیا ہے تو کوئی ہے جو سوچے سمجھے؟"
اس آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ذکر کا معنیٰ قرآن کرنا درست نہیں۔ ذکر کا لغوی معنیٰ یاد دہانی اور نصیحت ہے۔ مندرجہ بالا آیات میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص نصیحت اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جبکہ ارشادات کے ساتھ ان کی عملی تعبیر بھی موجود ہو۔ محض الفاظ و ارشادات نصیحت کا کام نہیں دے سکتے۔ اسی لیے ایک ددسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٤٣﴾... سورة النحل
"اگر تم کوئی بات نہ جانتے ہو تو اہل الذکر سے پوچھ لو۔"
اس آیت میں نہ تو یہ کہا گیا ہے کہ اگر تمہیں معلوم نہ ہو تو قرآن سے پوچھ لو، نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اہل القرآن سے پوچھ لو، بلکہ اہل الذکر کا لفظ استعمال ہا ہے جس کا معنیٰ یہ ہے کہ ایسے عالم با عمل سے پوچھو جو اللہ کے احکام و ارشادات کو یاد رکھنے والا ہو۔
اسی لیے قرآن کے ساتھ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی لازم و واجب قرار دیا گیا اور فرمایا:
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ﴿٢١﴾... سورة الاحزاب
"تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پیروی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اس شخص کے لیے جسے اللہ (سے ملنے) اور روزِ قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔"
ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زات میں پیروی کے لیے بہترین نمونہ صرف ان لوگوں کے لیے تھا جو اس دور میں موجود تھے (یعنی صحابہ کرام) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور میں مرکزی اتھارٹی یا مرکزِ ملت تھے۔ بعد میں خلفائے راشدین کی اطاعت ہی کا نام اطاعتِ خدا و رسول ہے۔ کیونکہ اپنے اپنے دور میں وہی مرکزی اتھارٹی یا مرکز ملت تھے۔ اور آج اگر قرآن معاشرہ قائم ہو تو اس کا سربراہ ہی مرکزی اتھارٹی یا مرکز ملت ہو گا اور اسی کی اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت متصور ہو گی۔
اس سوال کا تفصیلی جواب تو ہم کسی سابقہ مضمون میں پیش کر چکے ہیں۔ سرِ دست اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ایسے لوگوں کا رد اسی آیت میں موجد ہے۔ اس آیت کا خطاب یا رُوئے سخن محض صحابہ رضی اللہ عنھم کے لیے نہیں، بلکہ ان تمام مسلمانوں کے لیے ہے جو اللہ سے ملنے اور یومِ آخرت پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اب اگر یہ دونوں باتیں بعد میں آنے والے مسلمانوں کے ایمان کا جزو ہیں تو ان کے لیے یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اسوہ حسنہ ہے اور جو ان باتوں کو جزوِ ایمان نہ سمجھتے ہوں ان کے لیے واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اس سے یہ بات بھی از خود ثابت ہو جاتی ہے کہ جو لوگ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو ضروری نہیں سمجھتے، ان کا اللہ سے ملاقات اور یومِ آخرت کے واقع ہونے پر ایمان نہیں ہے۔
دوسری دلیل
جو صرف قرآن کی حفاظت (اور حدیث کی غیر محفوظیت) کے لیے مقام حدیث میں پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے:
﴿إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ﴿١٧﴾... سورة القيامة
"یقینا اس کتاب کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔"
(ترجمہ از مقامِ حدیث ص6)
اب مشکل یہ ہے کہ اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے، قرآن کے علاوہ بھی کسی اور چیز کا ذکر کیا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی تھی۔ لیکن "مقامِ حدیث" کے مؤلف نے اسے درج کرنا اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ اس کے موقف پر زد پڑتی تھی۔ اس آیت کے ساتھ والی آیات یوں ہیں:
﴿لا تُحَرِّك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذا قَرَأنـٰهُ فَاتَّبِع قُرءانَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩﴾... سورة القيامة
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) وحی کے پڑھنے کے لیے اپنی زبان نہ چلایا کیجئے کہ اس کو جلد یاد کر لیں، اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ جب ہم پڑھا کریں تو اس کے پیچھے پیچھے اسی طرح پڑھا کیجئے۔ پھر اس (وحی) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔"
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ساتھ ساتھ اس کے بیان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لے رکھی ہے۔ مگر "ادارہ طلوعِ اسلام" بیان کے متعلق اللہ کی ذمہ داری کا نام لینے سے بھی بِدکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسِ پشت ڈالنے کے بعد یہ حضرات قرآن کے ساتھ کس حد تک مخلص ہیں؟
اب رہا یہ سوال کہ بیان ہے کیا چیز؟ تو واضح رہے کہ بیان محض قرآن کے الفاظ کو دُہرا دینے کا نام نہیں، بلکہ بیان میں ان قرآنی الفاظ کا صحیح مفہوم بتلانا، اس کی شرح و تفسیر، اس کی حکمتِ عملی اور طریق بتلانا سب کچھ شامل ہے، اور یہی کچھ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی ہے۔ ممکن ہے بعض دوست یہ خیال کریں کہ بیان سے مراد وہ آیات ہیں جو اسی مضمون سے ملتی جلتی دوسرے مقامات پر مذکور ہیں، جو ایک دوسرے کی تشریح و تفسیر اور صحیح مفہوم متعین کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بیان کچھ نہیں، لیکن قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے یہ شبہ بھی دور ہو جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّرونَ ﴿٤٤﴾... سورةالنحل
"اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ان ارشادات کی وضاحت بتلائیں جو ان کی طرف نازل کیے گئے ہیں"
اس آیت سے مندرجہ ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے:
1۔ جو کچھ لوگوں کی طرف نازل ہوا ہے، اس کا مفہوم وہ خود متعین نہیں کر سکتے۔ لہذا ازروئے قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عمل سے اس کی تبیین و تشریح بھی کر کے انہیں سمجھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تبیین و تشریح کریں گے،اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ نے اٹھائی ہے۔
2۔ اس آیت میں بھی قرآن کی بجائے ذکر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قرآن کے ساتھ عملی تعبیر یا اسوہ حسنہ سے مستلزم ہے۔
اس تشریح و تعبیر اور احکام کی عملی تصویر اور طریقِ کار کا دوسرا نام حکمت ہے۔ جس کے متعلق قرآن کریم نے بار بار یہ وضاحت کی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کو کتاب کے ساتھ حکمت بھی عطا کی جاتی رہی اور تفسیر و تبیین اور حکمت عملی کو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اسوہ حسنہ بھی کہتے ہیں اور جب قرآن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبیین و تفسیر کو شامل کر لیا جائے تو اسے شریعت بھی کہا جاتا ہے اور کتاب اللہ بھی۔ اور کتاب اللہ کا یہی مفہوم اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیش نظر تھا جب انہوں نے وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چند دن پیشتر صحابہ رضی اللہ عنھم کے مجمع میں کہا تھا کہ حسبنا كتاب الله جیسا کہ ہم صحیح بخاری کے ایک باب کے عنوان کے حوالہ سے پہلے یہ ثابت کر چکے ہیں۔ تاہم ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ لفظ کتاب اللہ کا اطلاق اپنے معنیٰ کی عمومیت کے اعتبار سے قرآن مجید پر بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم کلام اللہ اور کتاب اللہ کے فرق میں یہ وضاحت پیش کر چکے ہیں اور اس معنیٰ پر مؤطا کی درج ذیل حدیث بھی شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتِ رخصت اپنی امت کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:
«تركت فيكم امرين لن تضلوا ماتمسكتم بهما كتاب الله وسنة رسوله»
"میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں جب تک انہیں ہاتھ سے نہ جانے دو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے، ایک کتاب اللہ (قرآن مجید) اور دوسرے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔"
حاشیہ
یہاں یہ مغالطہ نہ رہے کہ اتباعِ سنت و حدیث میں فرق ہے کہ دونوں اعتباری طور پر مختلف چیزیں ہیں۔ یہ واقعی درست ہے کہ ایسی احادیث میں بیان شدہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عربی عادات و رواج سنت تو نہیں لیکن یہ مجموعہ احادیث اس لحاظ سے ضرور سنت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعی طرزِ عمل سے ہی یہ معلوم ہو گا کہ ایسی عادات کی حیثیت شرعی نہیں بلکہ علاقائی ہے، گویا ان احادیث کے بیان میں سنت کا یہ پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ لہذا انہیں سنت سے غیر متعلق نہیں کہا جا سکتا۔
مکاتبت مالک اور غلام کے اس معاہدہ کو کہتے ہیں جس کی بناء پر غلام، معینہ رقم ایک مدت میں مالک کو ادا کر کے آزاد ہو جاتا ہے۔
ولاء، مالک کے غلام کو آزاد کرنے پر وہ حقوق ہیں جو اس سابقہ تعلق کی بناء پر آزاد کرنے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔ مثلا نسلی اور سسرالی ورثاء کی غیرموجدگی میں مالک وارث ہوتا ہے۔
پرویز صاحب نے خود بھی ایک دوسرے مقام پر اس کے معنی نصیحت نامہ کیے ہیں "(عربی)" یہ قرآن تمام جہان کے لیے نصیحت نامہ ہے۔" (معراج انسانیت ص648)