برصغیر پاک و ہند میں علم حدیث اور اہل حدیث کی علمی مساعی
شیخ نورالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1073ھ)
حضرت شیخ نورالحق حضرت شیخ عبدالحق کے صاجزادے تھے۔ آپ 983ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مکمل تعلیم اپنے نامور باپ سے حاصل کی۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد آپ کو عہدہ قضاء پیش کیا گیا جس کو آپ نے قبول کر لیا اور آپ نے یہ کام بخیر و خوبی سر انجام دیا۔ مگر اس عہدۃ جلیلہ پر زیادہ عرصہ تک متمکن نہ رہے۔ حضرت شیخ عبدالحق کی وفات کے بعد آپ اس عہدہ سے سبکدوش ہو گئے اور اپنے والدِ محترم کی مسندِ ارشاد کو سنبھال لیا۔
شیخ نورالحق علم و فضل اور زہد و اتقاء میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کے دینی تبحر اور علم و فضل کا اعتراف اس وقت کے علمائے کرام نے کیا ہے۔
حضرت شیخ نورالحق نے بھی اپنے والدِ بزرگوار کی طرح بیشتر وقت علمِ حدیث کی تبلیغ و ترویج میں صرف کیا۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی توجہ کا مرکز مشکوۃ تھی تو شیخ نورالحق کی کوششوں کا محور صحیح بخاری تھی۔ آپ نے تیسیر القاری کے نام سے فارسی میں 6 جلدوں میں بخاری کی شرح لکھی۔
یہ شرح 1298ھ میں مطبع علوی محمد حسن خان لکھنو سے شائع ہوتی تھی۔
مجدد الف ثانی (شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ) م 1034ھ
971ھ میں سرھند میں پیدا ہوئے۔ آپ نسبا فاروقی تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ عبدالواحد (م 1007ھ) سے حاصل کی اور اپنے والد بزرگوار کے علاوہ شیخ کمال کشمیری (م 1017ھ) اور مولانا شیخ یعقوب (م 1003ھ) سے اکتسابِ فیض کیا۔
تکمیلِ تعلیم کے بعد تبلیغِ دین اسلام میں مصروف ہوئے اور اس سلسلہ میں آپ کو حکومتِ وقت سے ٹکرا کر جیل بھی جانا پڑا۔ مگر آپ اپنے مشن میں ہمہ تن مصروف رہے اور آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ ساتھ ساتھ آپ نے تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ کی۔ آپ نے عربی و فارسی میں بیشتر اعلیٰ رسائل لکھے ہیں، مگر آپ کی سب سے علمی تصنیف مکتوبات ہیں جو 3 جلدوں میں ہیں۔ آپ کے مکتوبات آپ کے علمی تبحر پر قطعی حجت نہیں۔
حدیث کی نشر و اشاعت میں بھی آپ نے کافی دلچسپی لی۔
وفات
63 سال کی عمر میں 1034ھ میں سرہند میں انتقال کیا۔
سید مبارک محدث بلگرامی (م 1115ھ)
سید مبارک محدث 1033ھ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم میر سید طیب بن میر عبدالواحد سے حاصل کی۔ اس کے بعد 1061ھ میں دہلی تشریف لائے اور حضرت شیخ نورالحق دہلوی (م 1073ھ) سے تحصیلِ علوم میں فراغت پائی اور 1064ھ یعنی 3 سال میں جملہ علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل کی۔
آپ صحیح الاصول والفروع تھے۔ احیائے سنت اور ازالہ بدعت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ علومِ ظاہری و باطنی میں یگانہ اور تقویٰ و طہارت میں ممتازِ زمانہ تھے، اتباعِ شریعت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جذبہ آپ کے خمیر میں تھا۔
علمِ حدیث کی ترویج اور نشر و اشاعت میں آپ کا ایک خاص مقام تھا۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (1375ھ) لکھتے ہیں:
"حضرت شیخ نورالحق سےعلمِ حدیث حاصل کر کے اس فنِ اشرف میں مہارت عالی حاصل کی اور اپنی تمام عمر اس فنِ مبارک کی خدمت میں ختم کر دی حتیٰ کہ آپ محدث کے لقب سے مشہور ہو گئے۔"
1074ھ میں دہلی سے اپنے وطن بلگرام گئے۔ مسندِ توکل و قناعت کو زینت دی اور تدریسِ علوم خصوصا علمِ حدیث میں ہمہ تب مصروف ہو گئے۔
آپ کی وفات 1115 ھ میں ہوئی۔
حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی (م سئہ 1249ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند اور حضرت شاہ عبدالعزیز سے چھوٹے تھے۔۔۔ سئہ 1163ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ عبدالعزیز سے اکتسابِ فیض کیا۔
آپ علومِ دینیہ اور فنون، عقلیہ میں مرجع ارباب استعداد تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز کے مکفوف البصر و ضعیف ہو جانے پر آپ ہی مسندِ تحدیث پر متمکن ہوئے۔
آپ فضل و کمال اور علمی تبحر میں اپنی مثال آپ تھے اور آپ سے ایسے ایسے نامور فضلاء و علماء نے اکتسابِ علم کیا جو بعد میں خود مسندِ تحدیث کے مالک بنے۔
تصانیف میں، قرآن کا لفظی ترجمہ آپ کی بہترین یادگار ہے اور اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک تصانیف ہیں۔ عمل بالحدیث میں پختہ تھے۔
حضرت شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1246ھ)
آپ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1243ھ) حضرت شاہ رفیع الدین (م سئہ 1249ھ) اور حضرت شاہ عبدالقادر (م سئہ 1243ھ) کے محبوب و عزیز بھتیجے اور مایہ ناز شاگرد تھے۔
آپ سئہ 1203ھ میں پیدا ہوئے۔۔۔ آپ نے والد اور اپنے نامدار چچاؤں سے تعلیم حاصل کی۔
دینِ اسلام کی تبلیغ اور توحید و سنت کی اشاعت میں آپ نے جو گرانقدر علمی خدمات انجام دی ہیں، علمائے اسلام نے آپ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ لکھتے ہیں:
"مولانا اسمعیل اسلام کے اُن اولوالعزم، عالی ہمت، ذکی، جری اور غیر معمولی افراد میں ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ علیہ (م سئہ 1375ھ) لکھتے ہیں:
"علومِ معقول و منقول میں آپ نے پہلوں کی یاد تازہ کر دی اور فروع و اصول میں علمائے سابقین سے بہت آگے بڑھ گئے۔ اصولِ فقہ آپ کو نوکِ زبان یاد تھے۔ علمِ حساب کے آپ خوب ماہر تھے۔ قرآن و حدیث آپ کے سینہ میں محفوظ تھا اور فقہ و اصول کی آپ کو مزید مشق تھی۔"
اشاعتِ توحید و سنت اور ازالہ بدعت میں آپ نے جو کام کیا ہے وہ تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی کہتے ہیں:
"شاہ صاحب نے دہلی میں وعظ کہنا شروع کیا۔ جامع شاہجہانی سے لے کر فسق و فجور کے مرکزوں تک خدا کا پیغام پہنچایا۔ شریعت کے احکام سنائے۔ اپنی مخصوص و شہرہ آفاق جراءت و شجاعت سے شرک و بدعت کا رد کیا۔ توحید و سنت کی منادی کی۔"
حضرت شاہ صاحب کی تصنیفی خدمات
حضرت شاہ صاحب نے تصانیف کے ذریعہ جو اسلام کی خدمت کی ہے، اس پر روشنی ڈالنے سے قبل علمائے کرام کے آپ کی تصانیف پر ریمارکس سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
"آپ کی تصانیف اور علم میں وہ سب خصوصیتیں موجود ہیں جو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا حصہ ہیں اور جو ہندوستان کے علماء و مصنفین میں نایاب ہیں اور جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ملتی ہیں۔ یعنی شانِ اجتہاد، علم کی تازگی، استدلال کی لطافت، نکتہ آفرینی، قرآن و حدیث کا خاص تفقہ اور استحضار، زورِ کلام۔"
فقہ، حدیث اور اصول میں آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں۔
ردِ شرک اور مسئلہ توحید پر آپ کی بے نظیر کتاب "تقویۃ الایمان" ہے۔ س کتاب کی اشاعت نے توحید میں پچر لگانے والوں کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔
اس کے علاوہ رد الاشراک، اصول فقہ، صراط مستقیم ،مصنصبِ امامت، ایضاح الحق، تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین اور تنقید الجواب اور اثبات رفع الیدین ہیں۔
خدمت حدیث کے سلسلہ میں آپ کی کتاب "تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین" آپ کی بے نظیر کتاب ہے۔ یہ کتاب عربی میں ہے۔
اس کتاب میں حضرت شاہ صاحب شہید نے وہ احادیث جمع کر دی ہیں جن سے رفع الیدین کا سنت ہونا ثابت ہے۔
مرزا حیرت دہلوی مرحوم لکھتے ہیں:
"جب شاہ صاحب نے تنویر العینین لکھی۔ تو آپ پہلے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ اور عرض کی "عمِ محترم! آپ اسے ملاحظہ فرمائیں۔ تو پھر اس کو اشاعت کے لیے دوں۔" حضرت شاہ عبدالعزیز نے اس رسالہ کا بغور مطالعہ کیا تو آپ فرطِ انبساط سے بے خود ہو گئے اور خوشی سے پھولے نہ سمائے اور خوشی سے اپنے بھتیجے کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا "تم نے جو کچھ لکھا ہے، بالکل صحیح اور درست ہے۔ کوئی شخص اس کی تردید نہیں کر سکتاَ۔"
یہ کتاب متعدد مرتبہ چھپ کر قبولیتِ عام حاصل کر چکی ہے۔ سئہ 1955ء میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ادارہ اشاعۃ السنۃ نے اس کا عربی ایڈیشن معہ تحشیہ نہایت عمدگی سے شائع کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
24 ذی قعدہ سئہ 1246ھ (6 مئی سئہ 1831ء) بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا
حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق فاروقی (م سئہ 1263ھ)
سئہ 1192ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے تھے۔ آپ نے حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ، شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی۔ سئہ 1240ھ میں حج کو گئے۔ تو شیخ عمر بن عبدالکریم مکی (م سئہ 1247ھ) سے سند اجازہ حدیث حاصل کی۔
حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد مسند ولی اللہ کے وارث ہوئے۔ درسِ حدیث کے اہتمام کی وجہ سے "الصدر الحمید" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ خدمت حدیث کے سلسلہ میں آپ نے جو گرانقدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں اور آپ سے جن حضرات نے استفادہ کیا، ان میں بعض خود بھی مسندِ تحدیث کے وارث بنے۔ مثلا
مولانا سید عبدالخالق دہلوی، مولانا کرامت علی اسرائیلی، مولانا شاہ محمد یعقوب ( آپ کے برادرِ خورد) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا شاہ فضل رحمان گنج مراد آبادی، مولانا حافظ احمد علی سہارنپوری۔
حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور فرماتے:
﴿الحَمدُ لِلَّهِ الَّذى وَهَبَ لى عَلَى الكِبَرِ إِسمـٰعيلَ وَإِسحـٰقَ...﴿٣٩﴾... سورةابراهيم
"اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے بڑھاپے میں مجھے اسمعیل اور اسحاق عطا فرمائے۔"
نیز آپ فرمایا کرتے تھے:
"میری تقریر اسمعیل نے، تحریر رشیدالدین نے اور تقویٰ اسحاق نے لے لیا۔
حضرت شیخ الکل رحمۃ اللہ علیہ میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی آپ کی نسبت یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
علم حدیث کی نشر و اشاعت کے سلسلہ میں مولانا سید عبدالحی (م سئہ 1341ھ) آپ کے متعلق لکھتے ہیں:
"ہندوستان کے علماء حدیث میں شاہ محمد اسحاق کا نام نامی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ آپ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے ہیں اور انہی سے آپ نے فن حدیث حاصل کیا۔ ایک مدت تک اپنے نانا کے ساتھ رہ کر فن حدیث میں کامل ہو کر آپ نے درسِ حدیث دینا شروع کیا۔ بے شمار لوگوں نے آپ سے استفادہ کیا۔ ہندوستان میں فن حدیث کی امامت آپ پر ختم ہے۔
سئہ 1258ھ میں ہجرت کر کے مکہ معظمہ چلے گئے۔وہیں سئہ 1263ھ میں وفات پائی اور جنت المعلی میں حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک کے قریب دفن ہوئے۔
مولانا ولایت علی صادق پوری (م سئہ 1269ھ)
مولانا ولایت علی صادق پور کے ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ سئہ 1205ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدِ بزرگوار مولوی فتح علی سے حاصل کی۔ اس کے بعد ایک شیعہ عالم مولوی رمضا علی سے بھی پڑھتے رہے۔پھر مزید تعلیم کے لیے لکھنؤ کا سفر اختیار کیا اور مشہور عالم و فاضل مولانا محمد اشرف (م سئہ 1244ھ) سے اکتسابِ علم کیا۔ آپ کا شمار مولانا محمد اشرف کے ممتاز شاگردوں میں ہونے لگا۔ مولانا محمد اشرف مرحوم کے ہاں آپ کا قیام تقریبا 4 سال رہا۔ ان کے علاوہ حضرت شاہ اسمعیل شہید سے بھی استفادہ کیا۔
لکھنؤ کے دورانِ قیام آپ کی ملاقات حضرت سید احمد شہید بریلوی سے ہوئی اور آپ ان سے بیعت ہوئے۔
حضرت سید صاحب نے جس تحریک کی ابتداء کی اس میں مولانا ولایت علی مرحوم نے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے اس کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔
تبلیغِ جہاد کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کی طرف توجہ رہی۔ آپ نے تقریبا ایک سو کے قریب رسائل لکھے اور ساتھ ساتھ درس و تدریس بھی کرتے رہے۔
مولانا محمد میاں (م سئہ 1295ھ) لکھتے ہیں:
بعد نمازِ ظہر تا عصر قرآن و حدیث کا درس دیتے اور دوسرے علماء تفسیر کی کتاب ہاتھ میں لے کر بیٹھ جاتے۔ علم حدیث کی اشاعت میں آپ نے بڑا کام کیا۔
مولانا سید عبدالحی (م سئہ 1341ھ) لکھتے ہیں:
"علمائے حدیث میں مولانا شیخ ولایت علی صادق پوری (م سئہ 1269ھ) بھی ہیں۔ آپ نے فنِ حدیث شاہ اسمعیل شہید دہلوی بن شاہ عبدالغنی سے حاصل کیا۔ پھر قاضی محمد بن علی شوکانی سے اس علم کو حاصل کیا۔ آپ نے حدیث شریف کی تدریس اورخالص سنت کی اشاعت پر اپنے کو وقف فرمادیا۔ آپ کے علم اور آپ کی ذات سے بے شمار مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچا۔
مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف مدیر "الاعتصام" لکھتے ہیں:
"مولانا ولایت علی عظیم آبادی (صادق پوری) سئہ 1205ھ میں پیدا ہوئے۔ صوبہ بہار کےے رئیس خاندان کے ایک معزز رکن، حضرت مولانا محمد اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذِ خاص، حضرت سید احمد شہید کے مخصوص خلیفہ، داکٹر ہنٹر وغیرہ عیار فرنگیوں کے بدنام "وہابی" تحریکِ مجاہدین کے روحِ رواں، متبحر عالم، بے نظیر محدث، ولایت کے مرتبہ علیاء نپر فائز، فقہ و حدیث و سلوک کے جامع، اسلاف کی واحد یادگار، اسلام کے بے لوث مبلغ، توحیدِ خالص کے پُرجوش علمبردار، کفن برسر مجاہد، غرض آپ کی کن کن خدمات پر لکھا جائے۔"
علامہ نواب سید محمد صدیق حسن خاں مرحوم لکھتے ہیں:
"مولانا ولایت علی نے جامع مسجد تنوخ میں چند جمعہ تک وعظ کیا، مجھ سے کہہ فئے کہ تم کتاب بلوغ المرام ضرور پڑھنا۔ میں اس وقت بارہ تیرہ برس کا ہوں گا۔ اس کہنے کا نتیجہ ایک مدت دراز کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ میں نے بلوغ المرام کی شرح (مسلک الختام) لکھی۔ جو اثرِ سریع میں نے مولانا ولایت علی مرحوم کے وعظ میں پایا، کسی کے وعظ میں دیکھا نہ سنا، ان کے پاس بیٹھنے سے دل دنیا سے بالکل سرد ہو جاتا تھا۔ دین کا جوش تہ دل سے اٹھتا تھا۔ یہ مصرع میں نے انہی سے یاد کر لیا تھا
آپ نے اسلام کی ہر نوع کی خدمت سر انجام دی۔ جہاد کے سلسلہ میں تو آپ سرِ عسکر تھے۔ تبلیغی اور تدریسی خدمات میں بھی کوتاہی نہیں فرمائی۔ اشاعتِ علوم دینیہ بقدر وسعت جاری رکھیں۔ حضرت شاہ عبدالقادر کا ترجمہ قرآن اور مولانا شہید کے رسائل سب سے پہلی مرتبہ آپ ہی کی مساعی سے طبع و شائع ہوئے۔ سئہ 1248ھ میں آپ حج کے لیے تشریف لے گئے اور اسی سفر میں نجد وغیرہ ممالک اسلامیہ کی سیر کرتے یمن پہنچے۔ سئہ 1249ھ میں امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث کی سند حاصل کی اور دور بہیہ کا ایک نسخہ ساتھ ملائے۔ جو اس وقت صادق پور میں موجود ہے۔
آپ کی وجہ سے آپ کا سارا خاندان (صادق پور) جہاد کی تحریک میں شامل ہوا۔ آخر ہندوستان میں خالص اسلامی حکومت کے قیام اور انگریزی اقتدار کے ختم کرنے کی دُھن میں ہیں۔محرم سئہ 1269ھ میں اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کر دی۔ 64 برس کی عمر پائی
مولانا شیخ عبدالحق محدث بنارسی (م سئہ 1286ھ)
سئہ 1206ھ میں موضع نیوتن ضلع اناڑ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے بنارس میں سکونت اختیار کی تھی۔ اس لیے آپ کا لاحقہ بنارسی ہو گیا۔
آپ کے اساتذہ یہ ہیں:
مولانا شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1243ھ) مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م سئہ 1239ھ) مولانا محمد عابد سندھی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عبداللہ بن محمد بن اسمعیل الامیر رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عبدالرحمان بن احمد الہیکلی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم۔
حضرت شاہ اسمعیل شہید آپ کے ہم سبق اور حجِ بیت اللہ کے ساتھی، حضرت سید احمد رحمۃ اللہ علیہ بریلوی بھی آپ کے حج کے ساتھی تھے۔
سئہ 1238ھ میں صنعاء جا کر براہِ راست امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ سے سندِ حدیث حاصل کی۔
تحصیلِ حدیث کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے اس علم میں مہارتِ تامہ حاصل کی اور درس و تدریس میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئیے کہ برصغیرِ کے مشہور علمائے اکرام نے آپ سے استفادہ کیا۔
مثلا مولانا قاضی شیخ محمد مچھلی شہری (م سئہ 1324ھ) مولانا سید جلال الدین بنارسی (م سئہ 1279ھ) مولانا سید سعید الدین احمد جعفری ہاشمی (م سئہ 1293ھ) مولانا سید حمیدالدین احمد جعفری ہاشمی (م سئہ 1308ھ) مولانا سید شہید الدین احمد جعفری ہاشمی (م سئہ 1337ھ)
ترکِ تقلید پر ایک کتاب بھی لکھی، جس کا نام "الدر الفريد فى المنع عن التقليد" ہے۔ 8 ذی الحجہ سئہ 1286ھ کو 70 برس کی عمر میں وفات پائی۔
مولانا شاہ مفتی عبدالقیوم بڈہانوی (م سئہ 1299ھ)
مولانا شاہ عبدالحی بڈہانوی (م سئہ 1243ھ) کے فرزند، مولانا شاہ محمد اسحاق الصدر الحمید (م سئہ 1263ھ) کے داماد اور حضرت شاہ عبدالعزیز (م سئہ 1239ھ) کے نواسے تھے۔
حضرت شاہ محمد اسحاق سے اکتسابِ فیض کیا۔ آپ کا قیام زیادہ تر بھوپال میں رہا۔ نواب سکندر جہاں بیگم والیہ بھوپال آپ کی بہت قدر دان تھیں۔۔۔
حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی (م سئہ 1320ھ) آپ سے عمر میں بڑے ہونے کے باوجود آپ کے سامنے مؤدب ہو کر بیٹھتے اور بات بات پر اظہار انکسار کرتے۔
علم حدیث کی اشاعت و ترویج میں آپ نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ مولانا سید عبدالحی لکھتے ہیں:
"علمائے حدیث میں مولانا مفتی عبدالقیوم بن مولانا عبدالحی صدیقی بڈہانوی کا اسم گرامی بھی ہے۔ آپ شاہ اسحاق دہلوی کے داماد ہیں اور انہی سے آپ نے اس فن کو حاصل کیا اور ایک مدت تک آپ کے ساتھ رہے۔ پھر اس فن کا درس دینا شروع کیا۔ حدیث و قرآن کی نشر و اشاعت میں آپ ان کے اسلاف کے نقشِ قدم پر تھے۔
حوالہ جات
تاریخ اہل حدیث ص394
تاریخ اہل حدیث ص410
حیات ولی 628
کاروانِ ایمان و عزیمت ص17
تاریخ اہل حدیث ص412
کاروانِ ایمان و عزیمت ص24
ایضا ص22
حیاتِ طیبہ ص310
تاریخ اہل حدیث ص415
الحیاۃ بعد المماۃ ص39
"اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں" ص200
تاریخ اہل حدیث ص416
علمائے ہند کا شاندار ماضی جلد سوم ص9
ایضا ص24
اسلامی علوم فنون ہندوستان میں ص202
امام شوکانی ص47
ایضا ص45
تراجم علمائے حدیث ہند ص345
امام شوکانی ص46
تراجم علمائے حدیث ہند ص123
اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ص201