فروری 1984ء

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ

روزنامہ جنگ 27 جنوری سئہ 1984ء کے صفحہ اول پر چوکٹے میں درج شدہ ایک انتہائی نمایاں عبارت ہمارے پیشِ نظر ہے، جس کی چار جلی سرخیاں ہیں ۔۔۔ ان میں سے دو مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ "علامہ اقبال اور قائدِاعظم نے قانون سازی کے متعلق کتاب و سنت کا نام نہیں لیا"

2۔ مولانا مودودی نے بھی آخر کار تسلیم کر لیا کہ کتاب و سنت کی رو سے کوئی متفق علیہ ضابطہ مرتب نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ غلام احمد پرویز"

یہ کوئی انٹرویو نہیں، نہ یہ "حضرت مولانا غلام احمد صاحب پرویز" کا کوئی اخباری بیان ہے اور نہ ہی کوئی گرما گرم چٹپٹی خبر ۔۔۔ اس کے باوجود اگر اسے اس انداز سے اخبار کے صفحہ اول پر شائع کیا گیا ہے تو ظاہر ہے، یہ ایک بے تکی سی بات ہے ۔۔۔ ہاں اگر آپ مسٹر پرویز کے رسالہ "طلوع اسلام" شمارہ جنوری 84ء کے باب المراسلات صفحہ 4۔5۔6 کا مطالعہ فرمائیں تو آپ پر یہ عقدہ کھلے گا کہ نامہ نگار نے اس کی چیدہ چیدہ عبارتیں جمع کیں، بڑے اہتمام سے ان پر سرخیاں جمائیں اور پھر انہیں اخبار مذکور میں شائع کر دیا۔۔۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ علامہ اقبال اور قائداعظم نے قانون سازی کے متعلق کتاب و سنت کا نام لیا تھا یا نہیں، اور مولانا مودودی نے آخر کار کیا بات تسلیم کر لی تھی؟ ۔۔۔ ہمیں تو اس بات سے مطلب ہے کہ مذکور عبادت سے انکارِ حدیث کا سخت تعفن اور سڑاند اٹھ رہی ہے، جس نے فضا کو اتنا مکدر کر دیا ہے کہ "طلوعِ اسلام" سے بڑھ کر اس غلاظت نے اب پاکستان کے ایک کثیر الاشاعت روزنامہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور جس سے لاکھوں قارئین کے ذہن مسموم ہونے کا خدشہ ہے۔

"طلوعِ اسلام" کے صفحہ 5 کی ایک عبارت جو یہاں نقل کی گئی ہے، اس پر "طلوعِ اسلام" نے سرخی جمائی ہے:

"صرف کتاب اللہ"

پھر اس کے تحت لکھا ہے:

"انہوں نے (علامہ اقبال اور قائداعظم نے) قانون سازی کے سلسلہ میں "کتاب و سنت" کہیں نہیں کہا، صرف کتاب اللہ کہا ہے۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ کتاب و سنت کی رو سے کوئی ایسا ضابطہ قوانین مرتب نہیں ہو سکتا، جسے تمام فرقوں کے مسلمان اسلامی تسلیم کر لیں"

لیکن "طلوعِ اسلام" کی اسی اشاعت کے صفحہ 45 پر ایک عبارت یوں درج ہے:

"صدر ایوب اور مھترمہ موصوفہ (مس فاطمہ جناح) دونوں مرحوم ہو چکے ہیں۔ انتخاب کا قِصہ بھی داستانِ پارینہ بن چکا ہے۔ ان کی خوبیاں اور خامیاں بھی ان کے ساتھ گئیں۔ اس لیے اب ان کے تذکرہ کی کوئی ضرورت نہیں"

کیا مسٹر پرویز اپنے اس بیان کردہ اصول کو قائداعظم ، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے سلسلہ میں بھی قبول فرمائیں گے؟ کہ یہ سب حضرات مرحوم ہو چکے، ان کی خوبیاں اور خامیاں بھی ان کے ساتھ گئیں۔ اس لیے اب ان کے تذکرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ سچ ہے:

"دروغ گو را ھافظہ نباشد"


"طلاعِ اسلام" کے ایک ہی شمارہ میں یہ واضح تضاد،چودھویں اور پندرھویں صدی کے اس "مفسر" قرآن کا حصہ ہے، جس نے کتاب و سنت میں مغایرت کا حربہ آزماتے ہوئے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عوام الناس کو دور کرنے کی خاطر صفحہ 5 پر تو "گڑے مُردے اکھاڑنے" سے بھی دریغ نہیں کیا۔۔۔ لیکن صفحہ 45 پر خود ہی یہ فرمایا ہے کہ جو حضرات مرحوم ہو چکے، ان کے تذکرہ کی اب کوئی ضرورت نہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہےکہ حالات کی اس نہج پر ہم "طلوعِ اسلام" شمارہ جنوری 84ء ہی کے صفحہ 24 پر درج شدہ ایک شعر یہاں نقل کر دیں

اے چشم اشکبار ذرا دیکھ تو سہی
یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو


صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنی 12 اگست کی نشری تقریر میں فرمایا تھا:

"مسلمان اپنی حکومتوں میں کسی دستور اور قانون کو خود مرتب کرنے کا حق نہیں رکھتے، ان کا دستور مرتب و متعین ان کے ہاتھوں میں موجود ہے۔۔۔ اور وہ ہے قرآن مجید"

ملک کی انتہائی ذمہ دار شخصیت کی تقریر کے متن کا یہ وہ حصہ ہے جسے انہوں نے نواب بہادر یار جنگ اور قائداعظم کی تقریر کے حوالہ سے ذکر کیا تھا، اور جسے غلط سمجھنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔۔۔ لہذا اگر قائداعظم، قرآن مجید کے ہوتے ہوئے کسی دستور کے خود مرتب کرنے کے قائل ہی نہ تھے، بلکہ وہ قرآن مجید کو اپنا مرتب و متعین دستور قرار دیتے تھے، تو قانون سازی کے سلسلہ میں انہیں سنت چھوڑ، کتاب اللہ کا نام لینے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ اور اس سے مسٹر پرویز کا مزعومہ مقصد کہاں تک پورا ہوا؟ ۔۔۔ کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں کہ مسٹر پرویز کے یہ الفاظ امتِ مسلمہ کو گمراہ کرنے کی ایک ناپاک جسارت اور عوام میں علامہ اقبال اور قائداعظم کی مقبولیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا الو سیدھا کرنے کی ایک انتہائی گھٹیا کوشش ہے؟

مسٹر پرویز نے "طلوعِ اسلام" کے ان صفحات میں جو دعویٰ کیا ہے وہ صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے اور جو ثبوت سے یکسر عاری ہے، لیکن ہم نے اوپر جو کچھ لکھا ہے، اس کا ثبوت آج بھی روزنامہ جنگ کے متعلقہ شمارہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور عوام کے ذہنوں میں بھی یہ الفاظ آج تک محفوظ ہوں گے۔۔۔ اب اگر مسٹر پرویز یہ دعویٰ کریں کہ قائداعظم نے اس کے برعکس بھی کبھی کچھ کہا تھا، تو اولا تو اس کا ثبوت مہیا ہونا چاہئے، پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ آیا اس سے بھی سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت کا زہر اسی طرح ٹپک رہا ہے جو کہ مسٹر پرویز کی اس عبارت سے عیاں ہے:

" ا۔ حاکمیت بلا شرکت غیرے اللہ تعالیٰ کی ہے اور مقتدرِ اعلیٰ شریعت ہے۔

ب۔ شریعت کتاب و سنت سے عبارت ہے اور قانون سازی اور طرزِ حکمرانی کا مخذ ہے۔

۔۔۔ ذرا غور کیجئے، یہ فارمولا کیا بنا؟ کہ مقتدرِ اعلیٰ شریعت ہے اور شریعت عبارت ہے کتاب و سنت سے۔۔۔ اس کے بعد مرتب کرائیے ایک متفق علیہ ضابطہ قوانین اس فارمولے کی رو سے، جس کے عملی مفہوم پر بھی کسی کا اتفاق نہیں ہو گا" (طلوع اسلام، شمارہ مذکورہ صفحہ 6)

۔۔۔ اور اگر مسٹر پرویز ، قائداعظم کی کسی تحریر و تقریر سے کتاب و سنت کے سلسلہ میں اس بغض و عناد اور طنز و تعریض کی نشاندہی سے قاصر رہتے ہیں، اور وہ ان کا کوئی ایسا فرمودہ نقل کرتے ہیں جو (صدرِ مملکت کے حوالہ سے) ہمارے مذکورہ بالا اقتباس کے محض برعکس ہو، تو یہ بھی مسٹر پرویز کی قائداعظم کو مطعون کرنے کی ایک کوشش ہی شمار ہو گی کہ کبھی وہ کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ ۔۔۔ پھر اگر مسٹر پرویز، قائداعظم کو "مرکز ملت" بھی قرار دے چکے ہوں، جس سے ان کی مراد خدا اور رسول ہے، تو ان کے اس "مرکز ملت" یعنی ان کے خدا اور رسول کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں کیا رائے قائم ہو گی؟ ۔۔۔ البتہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم نہ انہیں خدا سمجھتے ہیں اور نہ خدا کا رسول ۔۔۔ پس مسٹر پرویز کی عافیت اسی شارٹ کٹ (Short Cut) اختیار کرنے میں ہے کہ:

"(یہ حضرات) مرحوم ہو چکے، ان کی خوبیاں اور خامیاں بھی ان کے ساتھ گئیں، اس لیے ان کے تذکرہ کی اب کوئی ضرورت نہیں" ۔۔۔ یعنی:

مسٹر پرویز کو ان کا نام استعمال کر کے لوگوں کو دھوکا دینے کی یہ مذموم کوششیں ترک کر دینی چاہئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہاں آپ اپنی کہئے مسٹر پرویز کہ اگرچہ آپ نے "صرف کتاب اللہ" کا نعرہ لگایا ہے، تاہم یہ عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے والی بات ہے۔۔۔ ہمیں اس موقع پر اپنا ایک مقالہ "یومِ آزادی" کا اعلان ۔۔۔ ہمارا دستور قرآن ہے" ۔۔۔ ہاد آ رہا ہے۔ جو محدث اگست 83ء کے فکر و نظر کے صفحات میں چھپنے کے علاوہ روزنامہ "نوائے وقت" کے ملی ایڈیشن اور روزنامہ "وفاق" میں بھی چھپا تھا۔۔۔ مسٹر پرویز نے اپنے "طلوعِ اسلام" میں اس پر یوں تبصرہ فرمایا تھا:

"ماہنامہ محدث (لاہور) فرقہ اہل حدیث کا ترجمان ہے۔ اس نے اپنی اشاعت بابت اگست 83ء کے اداریہ کا عنوان دیا ہے۔۔۔ یومِ آزادی کا اعلان، ہمارا دستور قرآن ہے۔ اس کے بعد قریب 16 صفحات پر اس کی وضاحت کی ہے ۔۔۔۔۔ یہی بات "طلوعِ اسلام" کہتا ہے تو اس پر یہی حضرات کفر کا فتویٰ چسپاں کر دیتے ہیں، یہ اس لیے کہ طلوعِ اسلام جو کچھ کہتا ہے اس پر قائم رہتا ہے اور یہ حضرات ۔۔۔۔۔۔؟ محدث نام ہی بتا رہا ہے کہ یہ قرآنِ خالص کے کس قدر پابند ہیں"

مسٹر پرویز جانتے ہیں کہ ہم نے محدث اکتوبر سئہ 83ء میں ان کے اس دعویٰ کہ:

"یہی بات طلوعِ اسلام کہتا ہے" کا اپنے مقالہ بعنوان "قرآن مجید اور پرویزی دستور" میں بھرپور نوٹس لیا تھا، جس کی تردید کی آج تک حضرت مولانا پرویز صاحب کو توفیق و جراءت نہیں ہوئی۔۔۔ چنانچہ ہم نے یہ ثابت کیا تھا کہ:

1۔ مسٹر پرویز قرآنِ مجید کی موجودگی کے باوجود دستور سازی کے قائل ہیں۔ لہذا وہ قرآن مجید کی اپنی دستوری حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔۔۔ جب کہ ہم قرآن مجید ہی کو اپنا دستور مانتے ہیں اور اس کے ہوتے ہوئے کسی دیگر دستور کے سرے سے انکاری ہیں ۔۔۔ پھر مسٹر پرویز "یہی بات" کس منہ سے کہتے ہیں۔

2۔ مسٹر پرویز، دستور و قانون وضع کرتے وقت، قرآن مجید کی ضرورت و احتیاج کے بھی قائل نہیں ۔۔۔ نہ وہ قرآن مجید کو شریعت تسلیم کرتے ہیں اور نہ ماخذِ شریعت۔۔۔ بلکہ وہ قرآن کے نام پر قائم ہونے والی ہر حکومت کے سربراہ کو "مرکزِ ملت" ۔۔۔ جو ان کے نزدیک خدا اور رسول کے قائم مقام ہوتا ہے۔۔۔ کہہ کر آخری اسلامی اتھارٹی قرار دیتے ہیں اور فریب دہی کے لیے اس کا نام قرآنی نظام رکھتے اور اس کے وضع کردہ دستور و قانون کو شریعت کہتے ہیں۔

اس ضمن میں ہم نے ان کے "طلوعِ اسلام" میں سے دو اقتباسات بھی نقل کیے تھے۔ پہلا اقتباس "طلوعِ اسلام" اگست 83ء صفحہ 6 کا تھا کہ:

"دین میں مملکت، قرآن مجید کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے، امت کے مشورہ سے جزئی قوانین خود مرتب کرتی ہے، انہی کو قوانینِ شریعت کہا جاتا ہے۔ اسی لیے اسے شریعت کا حکم معلوم کرنے کی نہ ضرورت پیش آتی ہے نہ کسی کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ وجہ ہے جو دین کی حکومت میں مذہبی پیشوائیت سے پوچھنا پڑتا ہے کہ معاملہ زیرِ نظر میں شریعت کا فیصلہ کیا ہے؟"

مسٹر پرویز اپنے اس "ارشاد عالیہ" کو بغور پڑھیں۔۔۔ اگر آپ قرآن مجید کو شریعت تسلیم کرتے تو آپ کو یہ لکھنے کی ضرورت نہ تھی کہ "اسی لیے اسے شریعت کا حکم معلوم کرنے کی نہ ضرورت پیش آتی ہے نہ کسی کی احتیاج ہوتی ہے" ۔۔۔اور چونکہ آپ کو شریعت کا حکم معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہیں، لہذا آپ "صرف کتاب اللہ" کو ماخذِ شریعت بھی تسلیم نہیں کرتے ۔۔۔ پھر آپ کے یہ الفاظ (قرآن کریم کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے) محج تبرکا (اور ہمارے نزدیک فریب دہی) نہیں تو اور کیا ہے؟" ۔۔۔ اب اگر لگے ہاتھوں آپ کا یہ دعویٰ تسلیم کر ہی لیا جائے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے قانون سازی کے سلسلہ میں" کتاب و سنت" کہیں نہیں کہا، "صرف کتاب اللہ" کہا ہے، تو آپ نے ان کی اس بات کو اپنی تائید میں کیونکر شمار کر لیا ہے؟ ۔۔۔ وہ تو آپ کے بقول قانون سازی کے سلسلہ میں کتاب اللہ کا نام لیتے تھے، لیکن آپ کے دین کو شریعت سے، اور آپ کی شریعت کو کتاب اللہ سے کوئی سروکاری نہیں ۔۔۔ مسٹر پرویز، سچ کہئے، کیا آپ نے جنوری سئہ 84ء میں علامہ اقبال، قائداعظم اور مولانا مودودی سے وہی ہاتھ نہیں کھیلا جو آپ نے ستمبر 83ء میں ماہنامہ محدث (لاہور) سے کھیلا تھا؟ ۔۔۔ یہ لکھ کر کہ:

"یہی بات طلوعِ اسلام کہتا ہے تو یہی حضرات اس پر کفر کا فتویٰ چسپاں کر دیتے ہیں"

۔۔۔اور دوسرا اقتباس ہم نے "طلوعِ اسلام" شمارہ ستمبر 83ء کے صفحہ 18 سے یہ نقل کیا تھا کہ:

"قرآن کریم اسلامی مملکت کی جزئیات بھی خود متعین نہیں کرتا۔"

۔۔۔۔ اب ان ہر دو اقتباسات کو ملا کر پڑھئے، بات کیا ہوئی؟ ۔۔۔ یا آپ کے اپنے الفاظ میں: "ذرا غور کیجئے، یہ فارمولا کیا بنا؟" ۔۔۔ یہی ناکہ:

وہ جزئی قوانین جو مملکت مرتب کرتی ہے، انہیں قوانین شریعت کہا جاتا ہے۔۔۔اور یہ جزئیات (جو شریعت میں) قرآن کریم خود متعین ہی نہیں کرتا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ "صرف کتاب اللہ" پر اصرار بھی جاری ہے۔۔۔مسٹر پرویز، اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو یہاں ہم آپ کے اپنے ہی کچھ الفاظ کا اضافہ کر دیں، تھوڑے سے اختلافِ الفاظ سے معذرت کے ساتھ کہ:

"اس کے بعد مرتب کرائیے ایک متفق علیہ ضابطہ قوانین اس فارمولے کی رُو سے جس کے عملی مفہوم سے خود آپ کو بھی نہ جائے ماندن ہے نہ پائے رفتن"

۔۔۔ہمیں تعجب تو اس بات پر ہے کہ آپ کتاب اللہ کا نام کس منہ سے لیتے ہیں؟

۔۔۔آپ کو معلوم ہے کہ مولانا مودودی قبر میں گہری نیند سو چکے، وہ آپ کی ہرزہ سرائیوں کا اب جواب نہیں دے سکتے، اسی لیے طلوع اسلام کے ہر شمارہ میں رہ رہ کر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔۔۔ہم جو آپ سے مخاطب ہیں، آپ ہماری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے

بلاتی ہیں موجیں کہ طوفاں میں اترو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے


۔۔۔اور اگر آپ میں اتنی سکت نہیں ہے، تو اس بیچاری امت کے حال پر ہی رحم فرما دیجئے، اسے دھوکا نہ دیجئے، جس کے بارے میں آپ نے اپنے "طلوعِ اسلام" جنوری 84ء ہی کے سرورق پر ارشاد فرمایا ہے:

"قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی"

سچ ہے، جس امت کو آپ ایسے رہزن دین و ایمان مل جائیں، اس کے قبضے میں باقی رہ بھی کیا جائے گا؟ ۔۔۔ پہلے آپ صرف "طلوعِ اسلام" کے ذریعہ سنتِ رسول اللہ پر حملہ آور ہوتے تھے، اب آپ نے روزنامہ جنگ کو بھی اپنی کمین گاہ کے بطور استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔۔۔آہ واقعی بیاچری امت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم صدرِ مملکت جناب جنرل محمد ضیاء الحق سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس نعرہ کہ:

"پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ"

کی تکمیل کے لیے:

"پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ"

کی تجویز پیش فرمائی ہے، تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف طعن دراز کرنے والی اس زبان کو خاموش کیا جائے، ورنہ واقعی اس بیچاری امت کے پاس نہ دین باقی رہے گا، نہ دنیا۔۔۔ اور جس کے ذمہ دار خود آپ بھی ہوں گے۔

۔۔۔ ہاں اگر آپ نے اس کا فوری نوٹس لیا تو صرف اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجرِ جزیل عطا فرمائیں گے بلکہ امت کے ساتھ ساتھ اس دشمنِ سنتِ رسول اللہ کے بھی محسنوں میں شمار ہوں گے، کیونکہ ارشاد ربانی ہے:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ﴿١١٥﴾... سورة النساء

"اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت کی ٹھانی، نیز مومنین کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرالی۔۔۔تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف اس نے منہ اٹھا لیا ہے۔۔۔ اور (صرف یہی نہیں بلکہ) ہم اسے جہنم واصل بھی کریں گے جس سے برا اور کوئی ٹھکانا نہیں"