برصغیر پاک وھند میں علم حدیث اور علمائے اہل حدیث کی مساعی!

والا جاہ محی السنۃ مولانا السید نواب صدیق حسن خاں قنوجی رئیس بھوپال(م1307ہجریہ)

مولانا سید نواب صدیق حسن خان 19 جمادی الاول سن 1248ہجری کو بانس بریلی میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق حسینی سادات سے ہے اور آپ کانسب 33 واسطوں سے جنا ب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد کا نام سید اولادحسن (م1253ہجری) ہے جو اپنے وقت کے ممتاز اورجید عالم۔اور حضرت سید احمد بریلوی کے خلفاء میں سے تھے۔ اور اس کےساتھ صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ تورع اوراستغناء میں سلف کا نمونہ تھے۔اسی تقویٰ اوراحتیاط کی بنا پ والد کی عظیم الشان جائیداد چھوڑدی۔ حضرت نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے برادر بزرگ مولانا سید احمد حسن عرشی(م1860ء)سے حاصل کی۔اس کے بعد فرخ آباد میں مولوی محمد حسین شاہجانپوری اور کانپور میں ملا محمد مرادبخاری اور مولوی محمد محب اللہ پانی پتی سے تعلیم حاصل کی۔1269ہجری میں تکمیل تعلیم کے لئے دہلی پہنچے اورصدر الافاضل مولانا مفتی صدر الدین (م1285ہجری) کی خدمت میں ایک سال 8 ماہ رہ کر تکمیل تعلیم کی۔حدیث میں سند واجازہ ان حضرات سے حاصل کی:

شیخ زین العابدین بن محسن بن محمد السبعی ،شیخ عبدالحق محدث بنارسی(م1286ہجری) تلمیذ قاضی شوکانی یمنی(م1250ہجری) شیخ یحیٰ بن محمد بن حسن علامہ سید خیر الدین آلوسی(مفتی بغداد) شیخ حسین عرب یمنی (م1327ہجری) اور مولانا شاہ محمدیعقوب مہاجر مکی(1283ہجری)سے بذریعہ خط!

اکیس سال کی عمر میں علوم متداولہ سے فراغت حاصل کی اور اس کے بعد قنوج چلے گئے۔قنوج سے بھوپال تشریف لائے جہاں مولانا علی عباس چڑیا کوٹی(م1302ہجری) کی وساطت سے ملازمت مل گئی مگر یہ ملازمت زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی اور آپ ملازمت چھوڑ کر دوبارہ قنوج تشریف لے گئے۔انہی دنوں1857ء کے غدر کا ہنگامہ رونما ہوا جس کی زد میں قنوج بھی آگیا۔نواب سکندر جہاں والیہ بھوپال نے آپ کو بھوپال طلب کیا۔موسم کی خرابی کے باعث دیر سے بھوپال پہنچے ۔اسی عرصہ میں معاندین کو آپ کےخلاف سازش کاموقع مل گیا اورآپ کے لئے حکم منسوخ ہوگیا چنانچہ حضرت یہ شعر پڑھتے ہوئے بھوپال سے واپس ہوئے

ماز بھوپال گز شیتم تو دل ساختن
قفل بردرمزن وخانہ ودیوار منہ


بارہ سو چھہتر ہجری میں تیسری بار بھوپال آئے اور آپ کو پچھتر روپے ماہوار پر ملازمت مل گئی۔آپ کا نکاح منشی محمد جمال الدین صاحب مدار المہام ریاست بھوپال کی صاحبزادی سے ہوا۔انہی دنوں نواب سکندر جہاں بیگم صاحب کاانتقال ہوگیا تو نواب شاہجہان بیگم صاحبہ سر پر آرائے سلطنت ہوئیں جو بیوہ ہوچکی تھیں اور حضرت نواب صاحب کی قابلیت سے متاثر تھیں۔اسی لئے ان کو شریک سلطنت بنایا اور ساتھ ہی نکاح بھی کرلیا اب حضرت نواب صاحب دین ودنیا کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔

حضرت نواب صاحب کی علمی مساعی:حضرت نواب صاحب کو مکمل سکون نصیب ہوا توآپ نے اشاعت اسلام اور توحید وسنت کی ترویج میں پُوراحصہ لیا۔چنانچہ سب سے پہلے آپ نے بھوپال میں ممتاز اورجید علماء کرام کو جمع کیا۔مثلاً مولانا محمد مچھلی شہری (م1334ہجری) مولانا محمد بشیر سہسوانی (م1336ہجری) مولانا بشیر الدین محدث قنوجی(م1273ہجری)اور مولانا سلامت اللہ راج پور(م1322ہجری)وغیرہ۔

علامہ سیدسلیمان ندوی (م 1373 ہجری)لکھتے ہیں:

"بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہل حدیث کا مرکز رہا قنوج سہسوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کررہے تھے ۔شیخ حسین عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے۔

حضرت والا جاہ نے عربی ،فارسی،اور اُردو میں 222 کتابیں تصنیف کیں۔

اشاعت حدیث کے سلسلہ میں حضرت نواب صاحب کی مساعی:

اشاعت حدیث کے سلسلہ میں حضرت نواب صاحب نے اعلان فرمایا کہ جو شخص بخاری شریف حفظ کرے گا اس کوایک ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔اور جو شخص بلوغ المران حفظ کرے گا اس کو یکصدرُوپے انعام دیا جائےگا۔اشاعت حدیث کے سلسلہ میں آپ نے جو گراں قدر علمی خدمات انجام دی ہیں۔اس سلسلے میں مولانا ابو یحیٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں:

"آپ نے قرآن وحدیث کے متعلق متقدمین کی اکثر کتابیں جو بیش قیمت ہونے کے ساتھ کمیاب بھی ہوچکی تھیں عرب وعجم سے گراں بہا قیمتوں پر حاصل کرکے مطابع مصروبیروت اور ہندوستان میں لاکھوں روپے خرچ کرکے چھپوائیں اور بلا طلب معاوضہ علماء کی نذر کردیں کہ جن کے وجود سے عربی زبان کا کوئی کتب خانہ خالی نہ ہوگا۔"

حضرت نواب صاحب نے جو کتابیں اس طرح چھپوا کر مفت تقسیم فرمائیں:

ان میں سے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔فتح الباری شرح الصحیح البخاری تفسیر ابن کثیر مع فتح البیان فی مقاصد القرآن نیل الاوطار

مولانا سید عبدالحئی (م 1341ہجری) لکھتے ہیں:

"علمائے اہل حدیث میں نواب سید صدیق حسن خاں بھوپالی کا اسم گرامی بھی ہے،آپ نے فن حدیث قاضی زین العابدین اور ان کے بڑے بھائی،جو ہمارے بھی استاد ہیں۔شیخ حسین بن محسن انصاری یمانی سے حاصل کیا۔اللہ کی عنایت سے آپ کے پاس نادر کتابوں کاذخیرہ تھا۔آپ نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان سے فائدہ اٹھایا،کتابیں تصنیف فرمائیں اور بعض کتابوں کی نشر واشاعت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔مثلا فتح الباری ۔نیل الاوطار۔یہ فن حدیث میں بڑی اہم کتب ہیں۔" علامہ سید سلمان ندوی ؒ حضرت نواب صاحب کی خدمت حدیث کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

"علمائے اہل حدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمت بھی قدر کے قابل ہے۔نواب صدیق حسن خاں مرحوم کے قلم اور مولانا سید محمد نزیر حسین دہلوی ؒ کی تدریس سے بڑ افائدہ پہنچا۔

وفات:

29 جمادی الاخریٰ 1307ہجری کو آپ کی وفات ہوئی اور یکم رجب1307 ہجری کو قبل دوپہر اپنے خاص قبرستان میں مدفون ہوئے۔

مولانا سید عبدالحئی ؒ(م1341ہجری) آپ کو ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں:

"علامہ الزماں وترجمان الحدیث والقرآن محی العلوم العربیہ وبدر الاقطار الہندیہ السید الشریف صدیق حسن بن اولاد حسن بن اولاد علی الحسینی البخاری القنوجی صاحب المصنفات الشہیرہ والمولفات الکبیرۃ

حضرت مولانا شیخ الکل السید محمد نزیرحسین محدث دہلوی ؒ(م1320ہجری)

1805ء آپ کی پیدائش ہے۔حسینی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔34ویں پشت پر آپ کا شجرہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔

16 سال کی عمر میں تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔پہلے اپنے والد ماجد سید جواد علی سے پڑھا۔اس کے بعد مولوی محمد حسین خلیفہ مولانا ولادیت علی عظیم آبادی(م1269ہجری) سے پڑھا۔اس کے بعد تکمیل تعلیم کے سلسلے میں دہلی کی جانب روانہ ہوئے۔راستہ میں غازی پور میں قیام کیا۔وہاں مولانا احمد علی چڑیا کوٹی(م1272ہجری) سے کچھ کتابیں پڑھیں۔دہلی پہنچتے پہنچتے حضرت شاہ عبدالعزیز(م1239ھ)کا انتقال ہوچکا تھا اور حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق (م1262ھ) کا فیض جاری تھا۔چنانچہ آپ نے حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب سے اکتساب علم سے پہلے مولانا عبدالخالق دہلوی (م1261ھ)ملا اخوندشیر محمد (م1257ھ) مولانا جلال الدین ہروی،مولانا کرامت علی اسرائیلی،مولانا سید محمد بخش عرف تربیت خاںؒ،مولانا عبدالقادر رام پوری ؒ،مولانا حکیم نیاز احمد سہسوانی سے تعلیم حاصل کی۔

اس کے بعد آپ مولانا شاہ محمد اسحاق فاروقی بن محمد افضل فاروقی(م1262ھ)نواسہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م1239ھ) کے حلقہ ءدرس میں شامل ہوئے۔اورحضرت شاہ محمد اسحاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کےحلقہ ء درس میں آپ نے تیرا سال گزارے۔

تدریس:

حضرت شاہ محمد اسحاق کی ہجرت مکہ کے بعد حضرت میاں صاحب نے دہلی کی مسجد اورنگ آبادی میں مستقل درس قائم کیا۔جہاں 1270ھ تک جملہ علوم وفنون کی کتابیں بلا استثناء پڑھاتے رہےلیکن بعد میں صرف تفسیر وحدیث پر انحصار کیا اور میاں صاحب کا یہ درس 60 سال تک قائم رہا۔اسی وجہ سے آپ کالقب شیخ الکل مشہور ہوا۔

اس 60 سالہ دور میں بے شمار حضرات نے آپ سے استفادہ کیا۔جن میں سے بعض خود بھی مسند تحدیث کے مالک بنے۔اوربعض وہ حضرات ہیں جنھوں نے خدمت حدیث میں وہ گرانقدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں کہ رہتی دینا تک اس کا تذکرہ باقی رہے گا۔

مولانا فضل حسین المعروف مظفر حسین مظفر پوری نے الحیاۃ بعد المماۃ میں آپ کے مشہور تلامذہ کی تعداد 500 بتائی ہے۔ مگر یہاں صرف ان حضرات کاتذکرہ پیش خدمت ہے جو مسند تحدیث کے مالک بنے اور گراں بہا علمی تصانیف یاد گار چھوڑیں مثلاً۔حضرت مولانا عبداللہ الغزنوی امرتسری (م1298ھ) حضرت الامام السید مولانا عبدالجبار غزنوی (م1331ھ) مولاناحافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیر آبادی (م1334ھ) مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیر آبادی (م1334ھ) مولانا حافظ عبدللہ صاحب غازی پوری(م1322ھ) مولاناشمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی(م1329ھ)مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی(م1336ھ) مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری (م1353ھ) مولانا شاہ عین الحق پھلواری (م1333ھ) مولانا محمد سعید بنارسی (م1322ھ) مولانا سید امیر حسین سہسوانی (م 1291ھ)مولانا سید امیر احمد بن امیر حسن سہسوانی ،مولانا محمد بشیر سہسوانی(م1326ھ)مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی(م1338ھ) مولانا سید احمد اللہ پرتاپ گڑھی دہلوی(م1348ھ) مولانا عبدالاول غزنوی (م1313ھ) مولانا عبدالغفور غزنوی (م1353ھ) مولانا عبدالحمید سوہدروی(م1330ھ) مولانا وحید الزمان حیدر آبادی (م1338ھ) مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری(م1367ھ) اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1375ھ) رحہم اللہ تعالیٰ۔

حضرت میاں صاحب کی خدمت حدیث پر علمائے کرام کاخراج تحسین:

حضرت شیخ الکل نے خدمت حدیث کے سلسلہ میں جو گرانقدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں۔اس پر علمائے کرام نے آپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔سرسید احمد خاں بانی علی گڑھ کالج لکھتے ہیں:

"تحصیل وتکمیل علوم متد اولہ کے بعد مدتوں فقیہ رہے۔"

زبدۃ اہل لحمال آسودہ ارباب فضل وافضال مولوی سید نزیر حسین صاحب بہت صاحب استعداد ہیں۔خصوصاً فقہ میں ایسی استعداد کامل بہم پہنچائی ہے کہ اپنے نظائر واقران سے گوٹے سبقت لے گئے ہیں۔روایت کشی میں آج بے نظیر ہیں۔جب در س حدیث کی جانب توجہ کی تو دوسرے علوم وفنون اور تقلید شخصی کی طرف سے بے پروائی آتی گئی۔یہاں تک کہ تقلید بھی کی تو صاحب حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کی کی۔اور سب کی تقلید سے ہاتھ اٹھایا۔

ساٹھ برس تک دہلی میں حدیث کادرس دیتے رہے اور اسی پر خاتمہ ہوا۔مسلمانوں کو جب پکارا حدیث کی طرف پکارا اورآٹھ لاکھ آدمیوں کو عامل بالحدیث بنا چھوڑا ۔جیسا کہ اپنے ایک شاگرد مولانا سیدعبدالعزیز فرخ آبادی کولکھتے ہیں:

"مراکہ از خدمت علوم دین سیما کتاب وسنت ضیق فرصت ست ووامروز زیر درس 45 طلبہ ،مستند فقدان اطمینان است۔"(آثار الصناوید)

مولانا سید عبدالحئی (م1341ہجری) حضرت شیخ الکل کی خدمت حدیث پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

"علمائے حدیث میں میاں سید نزیرحسین حسینی دہلوی کا اسم گرامی بھی ہے۔آپ کا سن وفات 1320ھ ہے۔آپ شاہ اسحاق دہلوی کے شاگرد ہیں۔دہلی میں آپ نے درس وافادہ کی مسند بچھائی اور آپ کے علم سے اہل عرب وعجم کی بہت بڑی تعداد نے فائدہ اٹھایا۔ہندوستان میں فن حدیث کی ریاست ان پر ختم ہے۔"

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(م1375ہجری) آپ کی خدمت حدیث کے سلسلہ میں یوں لکھت ہیں:

"علم حدیث آپ کا خاص فن تھا۔اس فن کی ترویج چاردانگ ہندوستان میں جیسی کچھ آپ کےذریعہ ہوئی،کسی فرد واحد کی کوشش نہیں کرسکتی۔"

حضرت شیخ الکل کےمتعلق مولانا سیالکوٹی لکھتے ہیں:

"متبحر فی العلوم ہونے کے علاوہ آپ نہایت وسیع الخیال،زندہ دل خوش طبع ،فراخ حوصلہ،اداشناس،سادگی پسند،تیز فہم،فقیہ محدث اور درویش تھے ۔عملی زندگی میں آپ کاسب سے بڑا زیور آپ کی درویشانہ روش تھی۔

وفات:

محفل اسلام کی یہ نورانی شمع،جماعت اہل حدیث کے ممتاز اور جید عالم،مسند والی اللہی کے جانشین،دس رجب 1320 ہجری مطابق 13 اکتوبر 1902ء کو قیامت کی نیند سوگئے۔«اللهم اغفروارحمه وادخله فى الجنة الفردوس»


حوالہ و حواشی

۔احیاء علم الدین للغزالی ج3۔(نوٹ)یہاں روح کی اس بحث کے قابل اعتراض مقامات کی نشاندہی یاان پر تنقید نہیں کی جارہی ہے!

۔ابقاء المنن بالقاء المحن ص7 للنواب۔

۔کاروان ایمان عزیمت ص87۔

۔تراجم علمائے حدیث ہند ص273۔

۔کاروان ایمان وعزیمت ص87۔

۔علامہ شیخ حسین بن محسن بن محمد بن مہدی یمن کےایک شہر حدیدہ میں چودہ جمادی الثانی بارہ سو پنتالیس ہجری کو پیدا ہوئے۔وہیں حفظ قرآن کے بعد صرف ،نحو،ادب۔اورفقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی ۔فنون کے تکمیل کے بعد علامہ حسین بن عبدالہادی ۔شیخ محمد اوران کے صاحب زادے شیخ سلیمان سے حدیث کی تعلیم حاصل کی اور تکمیل تعلیم کے بعد یمن کے قاضی مقرر ہوئے۔مگر چار سال بعد مستعفی ہوکر بھوپال (ہندوستان) چلے آئے!قیام بھوپال میں آپ نے جو گرانقدر علمی خدمات انجام دیں اس کے متعلق مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

"بھوپال میں شیخ حسین بن محسن یمانی کاوجوداور ان کادرس حدیث ایک نعمت خداوندی تھا۔جس سے ہندوستان اس وقت کے بلاد مغرب ویمن کا ہمسر بنا ہواتھا۔ اوراس نے ان جلیل القدر شیوخ حدیث کی یاد تازہ کردی تھی جو اپنے خداداد احافظہ،علوے سند اور کتب حدیث ورجال پر عبور کا مل کی بناء پر ایک زندہ کتب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے۔شیخ حسین بیک واسطہ علامہ محمد بن علی الشوکانی(م1250ہجری) صاحب نیل الاوطار کے شاگرد تھے اور اُن کی سند بہت عالی اور قلیل الوسائط سمجھی جاتی تھی۔یمن کے جلیل القدر استاتذہ حدیث کے تلمذ وصحبت غیر معمولی حافظہ جو اہل عرب کی خصوصیات ہے،سالہا سال تک درس وتدریس کے مشغلے اور ا ن کی یمنی خصوصیات کی بناء پر جن کی ایمان وحکمت کی شہادت احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔حدیث کا فن گویا ان کے رگ وریشہ میں سرایت کرگیا تھا اور ان کے دفتر ان کے سینے میں سماگئے تھے۔(مولاناحیدر حسن ٹونکی شیخ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنو فرماتے تھے کہ فتح الباری شرح صحیح بخاری ،جس کی 13 ضحیم جلدیں ہیں اور جلد 14 مقدمہ ہے شیخ صاحب کو زبانی حفظ تھی)جب بھوپال تشریف لائے تو علماء وفضلاء جن میں بہت سے صاحب درس وتصنیف بھی تھے)نے پروانہ وار ہجوم کیا اور فن حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سند لی۔شیخ صاحب کے تلامذہ میں حضرت نواب صدیق حسن خان(م1307ہجری) مولانا محمد بشیر سہسوانی (م1326ہجری) مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی(م 1329 ہجری) مولانا عبد اللہ غازی پوری(م1322ہجری)مولاناعبدالعزیزرحیمآبادی(م1326ہجری)مولانا عبدالرحمان مبارک پوری(م1353ہجری)مولانا سلامت اللہ جے راجپوری(م1322ہجری)مولاناوحیدالزمان حیدرآبادی(م1338ہجری) اور مولانا سید عبدالحئی (م1341ہجری) خاص طور پر قابل زکر ہیں۔آپ نے رجب 1327ہجری کو بھوپال میں وفات پائی۔(نزہۃ الخواطرج 8ص 111تا115 حیات سید عبدالحئی ص63)

۔تراجم علمائے حدیث ج1 ص298تا311۔

۔ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص28

۔اسلامی علوم وفنون ہندوستان میں ص2.3۔

۔تراجم علمائے حدیث ہند ج1ص 36(4)ایضاً ص297۔

۔نزہۃ الخواطر ج8۔

۔المتوفیٰ 26 رمضان 1341ھ مارچ 1923۔اسلامی علم وفنون ہندوستان میں ص202)(نوٹ۔اوپر پی ڈی ایف صفحہ پر فوٹ نوٹ نمبر2 کا نشان نہیں ہے )

۔تاریخ اہل حدیث ص419

۔ایضاً ص423

۔تراجم علمائے حدیث ہند ص155۔