جولائی 1984ء

امام غزالی شریعت کی عدالت میں

تحریر کا پس منظر:

امام غزالی کی شخصیت امت کے نزدیک ایک مختلف فیہ شخصیت رہی ہے۔بعض کے نزدیک یہ جس قدرومنزلت کی حامل ہے اس کے لئے ان کے خوش عقیدگان کی تصانیف کے ہزار صفحات شاہد ہیں۔ لیکن ان بے شمار صفحات کے مطالعہ سے جس چیز کا اندازہ ہوتا ہے۔وہ محض ا تنا ہے کہ ان میں سے اکثر حضرات نے ان کی استقامت وعزیمت،علم وفضل،زور بلاغت،صوفیا نہ طرز زہد،اخلاص نیت اور اسی قبیل کے دوسرے بشری اوصاف سے مرعوب ہوکر ان کی تصانیف یا ان کی شخصیت کوکتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسوٹی پر پرکھنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی بلکہ ان کی مدح وتعریف میں اس قدر پروپیگنڈہ کیا ،کے کسی شخص کو الا ما شاء اللہ امام مرحوم کی شخصیت وتصانیف پر تنقیدی نظر سے مستقل مطالعہ وتحقیق کی جرائت نہ ہوسکی بعض نے تحقیق وجستجو کی کوشش کی بھی تو بجز چند ان کی تصانیف افراط وتفریط سے محفوظ نہ رہ سکیں۔چنانچہ زیل میں اس تحقیقی خلاء کو نہایت محتاط اورمتوازن طریقہ پرکسی نہ کسی حد تک پُر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگرچہ یہ مختصر مضمون اس بات کا قطعاً متحمل نہیں ہوسکتا۔کہ امام غزالی کی تمام تصانیف یا ان کے عقیدت مند حضرات کی مدحی تصانیف کو اول تا آخر پرکھ کران پرمفصل تنقید کرسکے۔

زیر نظر مضمون سے امام غزالی جیسے بزرگ کی قدرومنزلت گرانا مقصود نہیں ہے" کیونکہ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اس میں انبیائے معصوم کے علاوہ،کچھ قابل تعریف اوصاف رہے ہیں اورکچھ مذموم۔اس بحث سے ہمارا مقصد علمی تحقیق وجستجو کے ساتھ یہ بھی ہے،کہ جملہ مسلمانوں کو امام موصوف کی بعض خطاؤں سے آگاہ ومتنبہ کردیا جائے تاکہ خاص وعام کا وہ خوش عقیدہ گروہ جو آنکھیں بند کرکے اُن کی تمام باتوں پرایمان لاچکا ہے اور ان کے فرمودات کو واجب الاتباع تصور کرتا ہے۔ اصل اسلام اورصحیح دین کی معرفت کے لئے تعمق ،فراخ دلی اور وسیع النظری سے کام لے ۔نیز حق وباطل کی تمیز کے لئے صرف کتاب وسنت کی طرف رجوع کرے،جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ ؒ کاقول ہے:

«وَلَا يَجِبُ عَلَى اَحَدٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ اِلْتِزَامُ مَذْهَبَ شَخْصٍ مُّعَيَّنٍ غَيْرَ الرَّسُوْلِ ﷺ»

یعنی"کسی مسلمان کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اورشخص کے مذہب کو لازمی خیال کرے۔"

اس مضمون کی ترتیب میں اس بات کی انتہائی کوشش کی گئی ہے کہ خود امام غزالی کی تصانیف کو ماخذ بنایاجائے یا پھر ممتاز مفکرین مستندعلمائے اسلام ،مقبول مؤرخین اورمشہور سوانح نگاروں کی کتب سے مدد لی جائے۔اس قابل قدرشخصیت کا بدقت نظر مطالعہ کرنے سے قبل آپ کی مختصر سوانح بیان کرنا یقیناً بے محل نہ ہوگا۔

امام غزالی ؒ کی پیدائش اور تعلیم:

امام غزالی ؒ کا نام محمد،کنیت ابو حامد اوروالد کا نام بھی محمد تھا۔سن450ہجری میں ضلع طوس کے مقام طاہران میں پیدا ہوئے مسلکاً شافعی تھے ۔آپ کے والد محمد ایک دیندار ،مخلص،علم دوست اور غریب مسلمان تھے جنہوں نے اپنے انتقال کے وقت امام غزالی کو اپنے کسی صوفی دوست کے حوالہ کرکے ان کی تعلیم وتربیت کی وصیت کی تھی۔لیکن بعد میں انہی صوفی صاحب نے امام صاحب کی تعلیم کا انتظام کرنے سے معذرت کا اظہار کیا چنانچہ آپ ایک دینی مدرسہ میں داخل ہوکر باقاعدہ تعلیم میں مصروف ہوگئے۔اپنے وطن ہی میں شیخ احمدراز کانی سے فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی پھر جرجان میں امام ابو نصر اسماعیل سے پڑھا،اس کے بعد نیشا پور جا کر امام الحرمین کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے۔تھوڑی ہی مدت میں اپنے تمام رفقاء میں جو چار سو کی تعداد میں تھے ممتاز ہوگئے اور اپنے نامور استاذ کے معبد(نائب) بن گئے۔امام الحرمین کے انتقال کے بعد 478ہجری میں نیشا پور سے نکلے۔"اس وقت ان کی عمر اٹھائیس سال کی تھی لیکن بڑے بڑے کبیرالسن علماء سے زیادہ ممتاز اور باکمال سمجھے جاتے تھے۔"(تاریخ دعوت وعزیمت ج1ص130)

علمی عروج:

درس و تدریس سے فارغ ہونے کے بعد امام غزالی نظام الملک کے دربار میں پہنچے نظام الملک نے ان کی قابلیت دیکھ کر مدرسہ نظامیہ کی صدارت کے لئے ان کو منتخب کیا۔یہ اعزاز اس دور میں علمی عروج وکمال کا انتہائی منصب تصور کیاجاتا تھا۔484ہجری میں شہر بغداد میں داخل ہوئے اور مدرسہ نظامیہ کی مسند درس وصدارت کو زینت بخشی۔اس وقت آپ کی عمر چونتیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ آپ کےایمان افروز دروس سے بلا تفریق امراء ووزراء وعلماء وعوام الناس غرض ایک کثیر خلق خدا فیض یاب ہوتی تھی۔

"سن485ہجری میں ان کو خلیفہ عباسی،مقتدی باللہ،نے ملک شاہ سلجوقی کی بیگم ترکان خاتون کے پاس جو اس وقت سلطنت کی مالکہ تھیں۔اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔" (تاریخ دعوت وعزیمت مصنفہ ابو الحسن علی اندوی ج1 ص131)

امام غزالی کو مختلف علوم کے حصول اور ان کے حقائق کو جاننے کا پیدائشی طور پر شوق تھا،چنانچہ آپ نے بہت کم وقت میں متکلمین ،باطنیہ ،فلاسفہ او صوفیاء تمام کا لٹریچر پڑھ ڈالا اور ان کے دلائل اور معیار کو پرکھا۔چنانچہ ایک مقام پر خود امام غزالی لکھتے ہیں۔

" متکلمین جو اہل عقل ونظر کے مدعی تھے،باطنیہ جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس تعلیمات اور اسرار ہیں اورانہوں نے براہ راست امام معصوم سے علم حقائق حاصل کیا ہے۔فلاسفہ جن کا کہنا ہے کہ وہی اہل منطق واہل استدلال ہیں۔صوفیہ جو اپنے کو صاحب کشف وشہود کہتے ہیں۔میں نے ان میں سے ہر گروہ کی کتابوں اور خیالات کا مطالعہ ک یاتو کسی سے بھی مطمئن نہیں ہوا۔"(المنقذمن الضلال للغزالی)

مطالعہ کے بعد آپ نے ان سب علوم میں گرانقدر تصانیف کیں جن کا زکر آگے آئے گا ان میں بعض تنقیدی اور بعض تائیدی پہلو سے لکھی گئی تھیں۔

مسند درس سے کنارہ کشی صحرا ء نوردی اورخلوت نشینی:

مختلف علوم کے مطالعے کے دوران آپ کو تصوف اورصوفیانہ طرز زندگی بے حد پسندآیا،نتیجتاً رفتہ رفتہ آپ کےدل میں مدرسہ نظامیہ کے مشغلہ درس سے نفرت پیدا ہوگئی۔جاہ طلبی کے برعکس اکثر وپیشتر آپ اس معزز پیشے کوخیر آباد کہنے کے متعلق سوچنے لگے۔مسلسل اسی شش وپنج کی حالت میں رہنے کے باعث آپ کی صحت پر بُرا اثر پڑا اور درس وتدریس سے دلچسپی قطعاً ختم ہوگئی۔بعض جگہ آپ نے خوداپنی اس علالت کے بارے میں لکھا ہے۔مثلا کثرت بے خوابی، بدہضمی،قلت جوع،طبیعت میں گراوٹ،مزاج میں چڑ چڑا پن۔نسیان اکتاہٹ دل پر بوجھ اور ذہن میں خلل وتشکیک کا رجحان وغیرہ۔ ایک طویل اندرونی کشمکش سے دو چار رہنے کے بعد آخر بغداد کو خیر آباد کہنے اور مشغلہ درس و تدریس کی جگہ خلوت وعزلت کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔آپ کے بغداد چھوڑنے کی خبر سے تمام اہل علم طبقہ میں ایک افسوس کی لہر دوڑ گئی۔مدرسہ نظامیہ کے اساتذہ طلباء،معززین شہر اور خود نظام الملک کی طرف سے مدرسہ نظامیہ کی مسند درس پر قائم رہنے کا برابر مطالبہ ہوتا رہا۔مگر آپ نہایت پختہ عزائم کے مالک تھے اپنے خلوت نشینی کے فیصلہ پر قائم رہے اور ماہ ذوالقعدہ 488 ہجری میں بغداد سے نکل کر شام پہنچے۔وہاں دو سال قیام کیا۔پھر شام سے بیت المقدس پہنچے اور وہاں گوشہ نشین رہے۔آخر میں سر زمین حجاز تشریف لے گئے حج وزیارت سے فراغت کے بعد 498ہجری میں اپنے وطن واپس پہنچے۔اس طرح آپ کی دس سالہ صحرا نوردی کا یہ دور ختم ہوا۔خود امام غزالی نے اپنی زندگی کے یہ تمام واقعات اپنی ایک کتاب"المنقذ من الضلال" میں بہت تفصیل سے لکھے ہیں،لیکن چونکہ یہاں تمام تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔اس لئے صرف چند ضروری اقتباسات کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے آپ لکھتے ہیں

"بغداد سے میں شام آیا اور و ہاں دو سال کے قریب رہا،وہاں میرا کام عزلت وخلوت اور مجاہدے کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے علم تصوف سے جو کچھ حاصل کیا تھا اس کے مطابق نفس کا تزکیہ،اخلاق کی درستی وتہذیب اور زکر اللہ کے لئے اپنے قلب کو مصفا کرنے میں مشغول رہا۔میں مدت تک دمشق کی جامع مسجد میں معتکف رہا۔مسجد کے منارے پر چڑھ جاتا اور تمام دن دروازہ بند کئے وہیں بیٹھا رہتا۔ دمشق سے میں بیت المقدس آیا،وہاں بھی روزانہ صخرہ کے اندر چلا جاتا اور دروازہ بند کرلیتا۔سیدنا ابراہیم ؑ کی زیارت کے بعد میری طبعیت میں حج وزیارت کا شوق اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ ک برکات سے استفادہ کا خیال ہوا۔چنانچہ حج کرنے کے بعد اہل وعیال کی کشش اور بچوں کی دعاؤں نے مجھے وطن پہنچایا۔حالانکہ میں وطن کے نام سے کوسوں بھاگتا تھا۔وہاں بھی میں نے تنہائی کا اہتمام رکھا انورقلب کی صفائی سے غافل نہ ہوا۔"الخ(المنقذمن الضلال للغزالی)

امام غزالی کی مشغلہ ء درس وتدریس کی طرف واپسی:

ابھی وطن میں مشکل سے ایک سال ہی گزرا تھا کہ بہت سے مذہبی فرقے اپنے باہمی اختلافات کو فتنہ کی شکل میں لے کر اٹھ کھڑ ے ہوئے ۔چنانچہ ہر طرف سے اصرار کیا جانے لگا۔کہ امام غزالی ان فتنوں کا مقابلہ اپنے علم وفضل اور براہین قاطعہ سے کرنے کے لئے دوبارہ مسند درس سنبھال لیں،لیکن آپ بخوشی اپنی خلوت نشینی کو ترک کرنے پر آمادہ نہ تھے۔جب یہ اصرار سرکاری حکام کے ساتھ علماء وصلحاء کی جانب سے برابر ہوتا رہا تو امام صاحب نے ماہ زیقعدہ 499ہجری میں نیشا پور کا رخ کیا اور مدرسہ نظامیہ کی مسند درس کو زینت بخشی۔درس تدریس کی طرف آپ کی اس باز گشت کو بہت سراہا گیا۔اس سلسلے میں خود امام صاحب لکھتے ہیں:

"مجھے اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے نیشا پور پہنچنے کا تاکیدی حکم دیا۔یہ حکم سلطانی کچھ اس نوعیت کاتھا کا مجھے محسوس ہوا کہ اگر میں نے اس کی تعمیل نہ کی تو ناراضگی تک نوبت پہنچے گی۔میں نے خیال کیا اب میرے لئے عذر باقی نہیں رہا،اب میری گوشہ نشینی اور خلوت پسندی محض سستی اور راحت طلبی اورتن آسانی کےلئے ہوگی اور آزمائش اور تکالیف سے گریز حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿أَحَسِبَ النّاسُ أَن يُترَ‌كوا أَن يَقولوا ءامَنّا وَهُم لا يُفتَنونَ ﴿٢﴾ وَلَقَد فَتَنَّا الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۖ فَلَيَعلَمَنَّ اللَّهُ الَّذينَ صَدَقوا وَلَيَعلَمَنَّ الكـٰذِبينَ ﴿٣﴾... سورةالعنكبوت"

نیز اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ،جو اس کے بندوں میں سب سے معزز ومکرم تھے،اس کا ارشاد ہے:

﴿وَلَقَد كُذِّبَت رُ‌سُلٌ مِن قَبلِكَ فَصَبَر‌وا عَلىٰ ما كُذِّبوا وَأوذوا حَتّىٰ أَتىٰهُم نَصرُ‌نا ۚ وَلا مُبَدِّلَ لِكَلِمـٰتِ اللَّهِ ۚ وَلَقَد جاءَكَ مِن نَبَإِي۟ المُر‌سَلينَ ﴿٣٤﴾ ... سورة الانعام"

"میں نے چند اہل قلوب اور اہل مشاہدات سے بھی اس بارے میں مشورہ کیا انہوں نے بھی بالاتفاق مجھے ترک عزلت کا مشورہ دیا۔اس کی تائید میں بہت سےصلحاء نے متواتر خواب بھی دیکھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ میرا یہ قدم خیروبرکت کا ہوگا،اورپانچویں صدی کے شروع میں جس میں ایک ہی مہینہ باقی تھا کوئی شائد عظیم الشان تجدیدی کام ہوگا،اس لئے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر ایسے آدمی کو پیدا کرتا ہے۔جو اس امت کے دین کو تازہ کردیتا ہے۔ ان سب آثار وقرائن سے مجھے بھی اس کی امید پیدا ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے میری لئے نیشا پور کاسفر مقرر کردیا۔اور میں نے اس کارعظیم کا ارادہ کرلیا۔یہ سن 499 ہجری کے ماہ ذیقعدہ کا قصہ ہے۔بغداد سے،زیقعدہ سن 488 ہجری میں نکلاتھا اس طرح سے میری گوشہ نشینی کی مدت گیارہ سال ہوتی ہے ۔الخ(النقذ من الضلال للغزالی)

امام صاحب نے دوبارہ مشغلہء درس وتدریس اور وعظ ونصیحت اپنا لیا تو لیکن آپ کے پہلے دور یعنی جو خلوت نشینی سے قبل تھا،اور اس بعد کے دور کے درمیان زمین وآسمان کا فرق تھا۔پہلے دور میں علمی مباحثہ ومناظرہ کا دور دور تھا ،فلسفہ آمیز شریعت کی اشاعت اور خود ان کے بقول شہرت وحُب جاہ کا رجحان تھا جب کہ دوسرا دوران میں سے اکثر باتوں سے خالی ہے،یہ دور محض ترک دنیا کی دعوت اور تصوف وفلسفہ وشریعت کے امتزاج کی تبلغ کےلئے وقف نظر آتا ہے۔لہذا خود امام صاحب لکھتے ہیں!

"مجھے محسوس ہوتا ہےکہ اگرچہ علم کی نشرواشاعت کی طرف میں نے پھر رجوع کیا ہے لیکن درحقیقت اس کو پہلی حالت کی طرف باز گشت کہنا صحیح نہیں ہے۔اس پہلی اوردوسری حالت میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ میں پہلے اس علم کی اشاعت کرتا تھا۔جو حصول جاہ کا ذریعہ ہے۔۔۔لیکن اب میں اس علم کی دعوت دیتا ہوں جس سے جاہ سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔اب میں اپنی اور دوسرے کی اصلاح چاہتا ہوں۔الخ"(المنقذ من الضلال للغزالی بالاختصار ص28۔29)

مدرسہ نظامیہ سے دوبارہ کنارہ کشی اور بقیہ زندگی:

امام صاحب ؒ کانیشا پور کے مدرسہ نظامیہ میں درس وتدریس کا یہ سلسلہ زیادہ دن نہ چل سکا۔"محرم سن 500ہجری میں جب فخر الملک (پسر نظام الملک) ایک باطنی کے ہاتھوں شہید ہوا تو اس کے تھوڑے ہی د ن کے بعد آپ نے مدرسہ نظامیہ کی تدریسی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنے وطن طوس میں جاکر سکونت اختیار کرلی اور گھر کے پاس ہی ایک مدرسہ اور خانقاہ کی بنیاد ڈالی جہاں تعلیم وتربیت میں مشغول ہوگئے۔"

امام صاحب کی بقیہ زندگی علمی ودینی اشتغال میں گزری ،لیکن اس عرصہ میں کبھی بھی کسی علی یا دینی مباحثہ یا مناظرہ میں حصہ نہ لیا۔چونکہ سرکاری بیت المال کے ذرائع آمد کو حرام تصور کرتے تھے۔ اس لئے کوئی سرکاری عطیہ یا وظیفہ قبول بھی نہیں کیا ۔البتہ اس دوران گاہے بگاہے سلاطین وحکام پر تنقید کرتے اور انھیں اصلاح کے لئے ابھارتے رہے اس سلسلے میں آپ نے مختصر رسائل بھی لکھے ہیں۔ملک شاہ سلجوتی کے بیٹے سلطان سنجر کو جوخراسان کا فرمانروا تھا اور محمد بن شاہ ملک کو جو سنجر کا بڑا بھائی تھا۔امام صاحب نے خطوط کے ذریعے ان کے مظالم،مردم آزادی اور رعایا کی زبوں حالی پر جس انداز سے متنبہ فرمایا ہے۔ان سے امام صاحب کی جرائت مندانہ طبیعت کی خوب عکاسی ہوتی ہے۔"(ملاحظہ ہو"مکتوبات امام غزالی "ص19 ورسالہ نصیحت الملوک للغزالی)

مدرسہ نظامیہ میں آمد کےلئے اصرار اور ا مام صاحب کی معذرت:

سن 500 ہجری میں سلطان محمد بن ملک شاہ نے جب نظام الملک کے بڑے بیٹے احمد کو وزیر اعظم مقرر کیا تو اس نے امام صاحب کو پھربغداد میں بلانا چاہا،بارگاہ خلافت سے بھی اس کی تحریک ہوئی،قوام الدین نظام الملک وزیر اعظم نے خود لکھا اور مدرسہ نظامییہ کی اہمیت ومرکزیت بیان کی اور خود خلیفہ عباسی کی طرف سے اس خواہش کااظہار کیا لیکن امام صاحب نے ان سب کے جواب میں ایک طویل خط لکھا جس میں اپنے عذر کچھ اس طرح بیان کیے:

"یہاں طوس میں ڈیڑھ سو طالب علم مصروف تحصیل ہیں جن کو بغداد جانے میں زحمت ہوگی۔(2) جب میں پہلے بغداد میں تھا تو اہل وعیال نہ تھے،اب ان کا ساتھ ہے اور یہ لوگ ترک وطن کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔(3) میں نے مقام خلیل میں عہد کیا ہے کہ کبھی مناظرہ ومباحثہ نہ کروں گاا ور بغداد میں اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔(4) دربار خلافت میں سلام کرنے کےلئے حاضر ہونا ہوگا اور میں اس کو گوارا نہیں کرسکتا۔(5)سب سے بڑھ کر یہ کہ میں مشاہرہ اور وظیفہ قبول نہیں کرسکتا اور بغداد میں میری کوئی جائیداد نہیں ہے۔الخ۔"ـ(الغزالی مصنفہ مولانا شبلی ص21مختصراً)

امام صاحب کی وفات:

امام ابو حامد غزالی ن طاہران میں 14 جمادی الاخریٰ سن 505ہجری بروز دوشنبہ بوقت صبح پچپن سال کی عمر میں وفات پائی۔(اتحاف السادۃ المتقین شرح احیاء العلوم ص11۔12۔مختصراً)

امام غزالی اور تردید باطنیہ:

امام صاحب نے خلیفہ مُستظہر باللہ ،جو مقتدی باللہ کا جانشین تھا اور امام صاحب سے خاص ربط وارادت رکھتا تھا،کی فرمائش پر فرقہ باطنیہ کے رد میں ایک کتاب لکھی۔ جس کا نام اسی خلیفہ کی نسبت سے"مستظہری" رکھا۔اس کتاب کا تزکرہ امام صاحب نے اپنی خود نوشت"النقذ من الضلال" میں کیا ہے۔

کتاب"مستظہری" میں امام صاحب سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا تعاقب امام ابن الجوزی نے کیا ہے۔مثال کے طور پر یہاں ان کی ایک تاریخی غلطی کو پیش کیا جارہا ہے۔امام ابن الجوزی لکھتے ہیں:

"اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب مستظہری میں لکھا ہے جس کو انہوں نے مستظہر باللہ کی خدمت میں پیش کیا تھا کہ سلیمان ابن عبدالملک نے ابو حازم سے کہلایا کہ مجھے اپنے ناشتہ میں سے کچھ تبرکاً بھیجو۔انہوں نے انکے پاس اُبلا ہوا چوکر بھیجا،سلیمان نے اس کا ناشتہ کیا،پھر اپنی بیوی سے ہمبستر ہوا،اور اس سے عبدالعزیز پیدا ہوئے،اور عبدالعزیز کے عمر بن عبدالعزیز پیدا ہوئے۔یہ سخت مغالطہ ہے،اس لئے کہ انہوں نے عمر ابن عبدالعزیز کو سلیمان بن عبدالملک کا پوتا قرار دیا ہے ۔حالانکہ وہ اس کے ابن العم تھے۔الخ"(صید الخاطر لامام الجوزی حنبلی ج نمبر3 س604)

تردید باطنیہ کے موضوع پر "مستظہری" کے علاوہ امام صاحب کی چند اور کتب کے نام بھی ملتے ہیں مثلاً"حجۃ الحق،''"مفصل الخلاف""قاصم الباطنیہ''،فضائل الباحیہ''،اورمواہم الباطنیہ،'' ان میں سے پہلی تین کتب کا تذکرہ امام غزالی نے "جواہر القرآن" میں کیا ہے۔

"احیاء العلوم"امام صاحب ؒ کی ایک انقلابی تصنیف :

"احیاء علوم الدین" امام غزالی کی ایک نہایت مشہور اور مقبول بلکہ انقلابی تصنیف ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ امام غزالی صرف "احیاء العلوم" اور "المستصفی" کے باعث ہی زندہ ہیں تو کسی حد تک غلط نہ ہوگا۔مولانا شبلی ؒ نے اس کی وجہ تصنیف اس طرح بیان کی ہے:

"بغداد میں ان کو تحقیق حق کاشوق پیدا ہوا۔تمام مذاہب کو چھانا کسی سے تسلی نہیں ہوئی،آخر تصوف کی طرف رخ کیا۔۔۔آخر سب چھوڑ چھاڑ کر ایک ملی پہن کر بغداد سے نکلے اور دشت پیمائی شروع کی سخت مجاہدات وریاضات کے بعد بزم راز تک رسائی پائی۔۔۔یہاں پہنچ کر ممکن تھا کہاپنی حالت میں مست ہوکرتمام عالم سے بےخبر بن جاتے لیکن۔۔۔

ع بیاد آر حریفاں بادہ پیمارا


کے لحاظ س افادہ عام پر نظر پڑی،دیکھا تو آوے کاآوا بگڑا ہوا ہے ۔۔۔وہ یہ دیکھ کر ضبط نہ کرسکے اور اس حالت میں یہ کتاب لکھی۔"(الغزالی مصنفہ مولانا شبلی نعمانی ص63۔64)

مولانا ابوالحسن علی الندوی بتاتے ہیں کہ:

"مصنف پر اس کتاب کی تصنیف کے زمانہ میں ہیبت کا غلبہ تھا۔" اور مولانا شبلی نعمانی کا قول ہےکہ:

"یہ کتاب جس زمانہ میں لکھی گئی ،خود امام صاحب تاثیر کے نشہ میں سرشار تھے۔"(الغزالی ،مصنفہ مولانا شبلی نعمانی ص33)

"احیا ءعلوم الدین" میں امام غزالی نے فقہ شافعی کو اختیار کیا ہے،چونکہ آپ خودشافعی المسلک تھے اور اس زمانے میں بغداد اور اس کے گردونواح میں فقہ شافعی کا ہی زور تھا۔اس کتاب میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔مثلا تزکیہ نفس،تہذیب اخلاق،نفسیات انسانی، تصوف،علم الکلام اور فلسفہ وغیرہ۔ان کے علاوہ کتاب کا ایک وسیع حصہ ہرگروہ کی خامیوں پرامام صاحب کی گرفت وتنقید پر بھی مشتمل ہے ذیل میں کتاب کے خاص خاص ابواب کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے۔"

امام صاحب فقہی اختلافات و جزئیات پر بحث وموشگافی اور مناظرہ ومجادلہ کے شدید مخالف تھے۔ چنانچہ اس کتاب میں تفصیل سے اس کے روحانی مفاسد اور نقصانات بیان کئے ہیں۔ فقہی اختلافات اور جزئیات اور موشگافیوں کے لئے جو لوگ قرآن مجید کی آیت ۔«لِيَتَفَقَّهُوْا فِى الدِّيْنِ» ۔اورحدیث «مَن يُّرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهُ فِى الدِّيْنِ»۔اور علم الکلام وفلسفہ میں مباحثہ کےلئے﴿وَمَن يُؤتَ الحِكمَةَ فَقَد أوتِىَ خَيرً‌ا كَثيرً‌ا﴾" کا سہارا لیتے ہیں ان سب کو بتایا ہے کہ یہ الفاظ اپنی اصل حقیقت کھو چکے ہیں۔اور اپنے اصل مفہوم سے بہت دور پہنچتے جا رہے ہیں نیز اس سے علماء کے ان موجودہ مشاغل کی کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ان کے زمانے کے علماء نے جن جن علوم کے اشتغال میں حد سے تجاوز کررکھاتھا مثلا فقہی جزئیات واخلاقیات علم الکلام ومباحثہ ومجادلہ،وعظ وتزکیر،علم حدیث اور اس کے متعلقات ،نحو،لغت،شعر وادب ومفردات کی تحقیق وحفظ میں غلو ومبالغہ اور اسی طرح زاہدوں اور صوفیاء کے ملفوظات وحالات یاد رکھنے پراکتفاء وغیرہ ان سب باتوں پر امام صاحب نے تنقید کی ہے۔اور ان علماء کو اپنے اپنے مضامین کے بارے میں جو غلط فہمی اور خوش گمانی تھی،اس کی حقیقت بیان کرنے کے بعد آخرمیں اپنا تجربہ اس طرح بیان کیا ہے:

"دنیاوی علوم مثلاً طب وحساب اور صنعتوں کے علم میں اس قدر خوش گمانی اور خود فریبی نہیں ہے جتنی علوم شرعیہ میں ہے۔اس لئے کہ کسی شخص کا یہ خیال نہیں ہے کہ دنیاوی علوم فی نفسہ ذریعہ مغفرت ہیں بخلاف علوم شرعیہ کے کہ وہ اپنے نتائج ومقاصد سے قطع نظر کرکے بجائے خود بھی زریعہ مغفرت وتقرب الٰہی سمجھے جاتے ہیں۔"

اما م صاحب نے علماء کے ساتھ ان عوام الناس پر بھی تنقید فرمائی ہیے۔جو محض مجالس وعظ مباحث علمی یا دینی مناظروں میں شرکت کو اپنا ذریعہ نجات سمجھتے ہیں۔

امام صاحب نے اس کتاب میں جاہ طلب اور خدا ترس علماء وقاضیوں پر بھی کھل کر تنقید کی ہے اور جا بجا ان کا موازنہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وخلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کیا ہے۔ اس دور کے علماء کے ساتھ سلاطین وحکام پر بھی تنقید ملتی ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ دین کو بگاڑنے والا گروہ علماء وسلاطین کا گروہ ہے۔ بادشاہوں کے اموال وعطیات کو بالعموم مشتبہ اور حرام بتایا ہے نیز اس بیت المال کے ذرائع آمدنی کو شرعاً ناجائز قرار دیا ہے۔ امام غزالی نے احیاء علوم الدین کا ایک مستقل حصہ ان لوگوں کے متعلق لکھا ہے جو مختلف قسم کے مغالطوں اور فریب نفس میں مبتلا ہیں۔اس میں انہوں نےعلماء عباد،زہاد،امراء،اغنیاء،اور اہل تصوف سب کاجائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں امام صاحب نے مساجد سے لے کر بازار،سڑکوں،حمام اوردعوت کی محفلوں غرض ہر ہرجگہ کی منکرات کو شمار کیا ہے۔ اپنے زمانے کے اہل ثروت،دولت مند،اور اغنیاء پر بھی گرفت کی ہے۔ ساتھ ہی اس دور کے نفس پرست ،جاہ طلب،ریاکار،ظاہری اور نقال صوفیاء پر بھی تنقید فرمائی ہے۔ "احیاء" میں امام غزالی نے ایک مستقل عنوان قائم کرکے بتایا ہے کہ"انسان کو جاہ طلبی طبعی طور پر کیوں محبوب ہے،یہاں تک کہ شدید مجاہدہ کے باوجود بھی کسی کا قلب اس سے خالی ہونا مشکل ہے"۔۔۔پورا عنوان اس طرح ہے:"بَيَانٌ سَبَبٍ كَونِ الْجَاهِ مَحْبُوبًا بِالطَّبْعِ حَتَّى لَا يَخْلُوَ عَنْهُ قَلْبٌ اِلَّا بِشَدِيْدِ الْمُجَاهَدَةِ"

ایک جگہ نصیحت اور ترغیب وترھیب پر قلم اٹھاتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی ،آخرت کی عظمت ،ایمان وعمل صالح کی ضرورت ،اصلاح وتہذیب نفس کی اہمیت اور امراض قلبی ونفسانی کی مضرت کی طرف توجہ دلائی ہے،نفس کی زجر وتوبیخ میں ایک عنوان "المرابطة السادسةت فى توبيخ النفس ومعاقبها" قائم کیا ہے،جس میں بصورت مکالمہ اسے محاسبہ پراکسایا ہے۔ ایک جگہ روح پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"دوسرا سبب جو زیادہ طاقت ور ہے وہ یہ ہے کہ ر وح ایک امر ربانی ہے۔"قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ الرّ‌وحِ ۖ قُلِ الرّ‌وحُ مِن أَمرِ‌ رَ‌بّى...﴿٨٥﴾... سورةالاسراء" حکم ربانی ہونے کامطلب یہ ہے کہ وہ علوم مکاشفہ کے اسرار میں سے ہے اور اس کے اظہار کی اجازت نہیں۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حقیقت کا اظہار نہیں فرمایا ہے۔لیکن اس کی حقیقت کا علم حاصل کئے بغیر بھی تو تم کواتنا معلوم ہوسکتا ہے۔قلب میں ایک تو بہیمی صفات کا میلان پایا جاتا ہے۔ایک مسلمان درندوں کی صفات قتل وضرب وایذا کا ایک اورشیطانی صفات مکروفریب کا اور اسی کے ساتھ ایک میلان صفات ربوبیت ،کبرعظمت،عزت اورسربلندی کا بھی پایاجاتا ہے۔۔۔قلب میں امر ربانی کاجو حصہ ہے اس کی بناء پر انسان کے اندر طبعی طور پر ربوبیت کی خواہش پائی جاتی ہے۔۔۔پس ربوبیت کی شان وجود یکتائی ہے اور یہی کمال ہے۔انسان بھی بالطبع اسی بات کا خواہش مند رہتا ہے۔کہ وہ کمال میں یکتا ہو،بعض مشائخ صوفیاء نے فرمایا ہے کہ ہر انسان کے باطن میں وہی بات مضمر ہے جس کو فرعون نے صاف صاف کہہ دیا تھا۔﴿انا ربكم الاعلى﴾ لیکن اس کو اس کا موقع نہیں ملتا عبودیت نفس اسی لئے نفس پر شاق اور ربوبیت اسی لئے طبعاً سہل اور مرغوب ہے۔یہ اسی نسبت ربانی کی وجہ سے ہے جس کی طرف﴿قُلِ الرّ‌وحُ مِن أَمرِ‌ رَ‌بّى﴾میں اشارہ ہے۔لیکن جب نفس انہتائی کمال تک پہنچنے سے عاجز رہا تو اس کے کمال کی خواہش بالکیہ زائل نہیں ہوئی،بلکہ اب بھی وہ کمال کاخواہش مند اور متمنی رہتا ہے،اور اس کو کمال سے بالذات لذت حاصل ہوتی ہے ۔کمال کے علاوہ کسی اور مقصود کی خاطر نہیں،بلکہ نفس کمال کی خاطر۔" (جاری ہے)


حوالہ و حواشی

۔مثلا الغزالی"مصنفہ مولانا شبلی نعمانی"تاریخ دعوت وعزیمت"ج نمبر1۔مولانا ابو الحسن علی الندوی"حقیقتہ فی نظر الغزالی"الدکتور سلیمان دنیا"اتحاف السادۃ المتقین"(شرح الاحیا) ،" مقالہ فی مہرجان الغزالی بدمشقی"تعریف الاحیا" ازعبدالقادر حسنی" الاحیاز تحقیق حافظ زین الدین عراقی،" طبقات الشافعہ" الابن السبکی"مؤلفات الغزالی" از عبدالرحمٰن البدوی"سیت الغزالی" بعدالکریم عثمان وغیرہ۔

۔شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ حافظ ابن الجوزی رحمہم اللہ۔

۔مقارنہ بین الغزالی وابن تیمیہ"الدکتور محمد شادسالم اور"الامام الغزالی فی میزان ابن تیمیہ وابن الجوزی " مطبوعہ مکتبہ دارالمعرفہ بدمشق وغیرہ۔

۔ملاحظہ ہو المنقذمن الضلال للغزالی۔

۔استاذ محمود مہدی استانبولی بیان کرتے ہیں کہ"(امام ) غزالی صلیبی جنگوں کے دوران منارہ دمشق کی خلوت صوفیاء میں آرام کرتے رہے،اس کے بعد القدس کے قبہ صخرہ میں۔ان جنگوں میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے لیکن انہوں نے شرکت نہیں کی۔"(بطل الاصلاح الدینی ،ابن تیمیہ ،لمحمود مہادیص143و253)وکذافی مقالہ فی مہرجان الغزالی بدمشق)۔جہاد سے فرار کس قدر قبیع فعل ہے یہ کسی مسلم سے ک پوشیدہ نہیں ہے،پھر آخر امام صاحب نے کیوں ان صلیبی جنگوں سے اپنا دامن بچائے رکھا؟اس کے متعلق ڈاکٹر عمر فروخ لکھتے ہیں:

"تمام صوفیاء مثلاً(امام)غزالی کاحروب صلیبیہ کے متعلق یہ موقف ہے کہ ان جنگوں سے باز رہنا چاہیے کیوں کہ ان کے اعتقاد کے مطابق یہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اپنے گناہوں کی سزا ہے۔"(الغزالی الی الیقین ص300۔301) وکزافی مقالہ فی مہرجان الغزالی بدمشق)

۔دمشق کی قدیم مسجد جامع الاموی کے ایک کونہ میں یہ منارہ واقع تھا جو بعد میں" الزاویۃ الغزالیۃ" کے نام سے مشہور ہوگیا تھا۔لیکن عبدالرحمٰن البدوی الوجودی (استاذ بجامعہ علین شمس) کادعویٰ ہے کہ:

"میں جامع الاموی کے اس مشہورہ منارہ کے آخر تک چڑھا ہوں،جو بدرجہا طویل ہے لیکن مجھے اس میں کوئی ایسی جگہ نہ ملی جہاں غزالی کا خلوت نشین ہونا ممکن نظر آتا ہو۔لیکن بعض محققین کا قول ہے کہ وہ اصل منارہ آگ لگنے کے باعث منہدم ہوچکاہے جس میں غزالی کی خلوت گاہ تھی۔"(بطل الاصلاح الدینی۔ابن تیمیہ المحمود مہدیص143)

۔(عنکبوت۔372)"کیا یہ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اکیلے یونہی چھوڑ دیئے جائیں گے،کیوں کہ وہ کہتے ہیں:"ہم ایمان رکھتے ہیں"اور ان کو آزمائش میں نہ ڈالا جائےگا؟ اور بے شک ہم نے آزمایا ان کو جو ان سے قبل تھے اور اللہ یقیناً جانچے گا ان کو جو سچے ہیں اور جانچے گا یقیناً جھوٹوں کو بھی۔"(تفسیر بمطابق انگریزی ترجمہ"معانی القرآن الکریم لابن کثیر"ص120)مرتبہ دکتور محمدتقی الدین الہلابی المراکشی ودکتور محمد حسن خان )

۔(الانعام۔34)"دراصل (بہت سے)پیغمبروں کو جھٹلایاگیا تم سے پہلے(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) لیکن صبر کے ساتھ انہوں نے اس جھٹلانے کو برداشت کیا۔اور ان کو ازیتیں پہنچائی گئیں حتیٰ کہ ہماری مدد ان تک پہنچی اور کوئی نہیں بدل سکتا اللہ کےکلمات کو۔یقیناً وہاں تم تک پہنچ چکی ہے اطلاع رسولوں کے بارے میں۔"(تفسیر بمطابق انگریزی ترجمہ"معانی القرآن الکریم لابن کثیر"ص 120 مرتبہ دکتور محمد تقی الدین الہلابی المراکشی ودکتور محمد حسن خاں)

۔مشہور سوانح نگار استاد محمود مہدی استانبولی امام ابن تیمیہ ؒ کی سوانح لکھنے کے دوران امام غزالی کے اس دعویٰ کی تردید اس طرح فرماتے ہیں:

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر ایک ایسے شخص کو مبعوث فرماتا ہے جو اس امت کے لئے دین الٰہی کے احکامات کی تجدید فرماتا ہے۔پس یہ حدیث امام غزالی پر نہیں بلکہ امام تیمیہ ؒ پر صادق آتی ہے کیونکہ امام غزالی ؒ سن450ہجری میں پیدا ہوئے اور 505ہجری میں(یعنی نئی صدی کے سرے پر) وفات پائی،جب کہ امام ابن تیمیہ ؒ سن661ہجری میں پیدا ہوئے اور سن 728 ہجری میں وفات پائی(یعنی آٹھویں صدی کے سرے پر نہ صرف بحیات رہے بلکہ ربع صدی سے کچھ زیادہ ہی جئے اور تجدید دین میں مصروف رہے)نیز حدیث شریف میں تجدید یا احیاء کامقصد ومطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اسلام کے اولین چشمہ صافی کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی جائے اور اس اسلام کی تطہیر کی جائے جس میں بدعات مل گئی ہوں۔لیکن امام غزالی وہ شخص ہیں جنھوں نے اس مقصد ومطلب کے برعکس ہت سے امور میں اہل سنت کے خلاف کام کیے ہیں الخ۔"(ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی لمحمود مہدی ص142)

۔تاریخ دعوت وعزیمت ،مصنفہ مولانا ابو الحسن علی الندوی ج نمبر1 ص1870)

۔احیاء علوم الدین الغزالی ج نمبر2 ص120،122،123)

۔یہ فرقہ فلاسفہ اور صوفیاء کی اتباع کرتا ہے۔امام غزالی کے بعد امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس فرقہ کی اُن تمام باتوں کی صحت کا انکار قرآن واحادیث کی روشنی میں فرمایا ہے۔جن کا یہ دعویٰ کرتے تھے اور ان باطل احادیث کی تردید بھی کی ہے جن کو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے کہتے تھے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔مثلا"القرآن باطن والباطن باطن الى سبعة ابطن"امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے تھے کہ"اگر کوئی علم باطن کے مطالعہ کاارادہ کرے تو اس پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ شریعت کے مخالف ،ملحدوں ،زندیقوں اور جاہل ضال کا علم ہے۔اور اس کی تاویل کی نوعیت فلاسفہ وصوفیاء جیسی ہے۔"(رسالہ فی العلم الظاہر والباطن ضمن مجموعۃ الرسائل المنیر یۃ ج نمبر 1 ص229۔230)

۔تاریخ دعوت عزیمت مصنفہ مولانا ابو الحسن علی الندوی ج نمبر 1 ص167۔

۔احیاء علوم الدین للغزالی ج نمبر 1 ص 19۔37۔38)

۔ایضاً ج نمبر1 ص40۔43)

۔احیاء علوم الدین للغزالی بیان مایدل من الفاظ العلوم ج 1 ص28۔34)

۔ایضاً ج3ص343۔

۔ایضاً ج3ص352۔

۔ایضاً ج1ص38 ص وج 2 ص23۔

۔ایضاً ج2 ص132۔

۔امام غزالی سے تقریباً دوسو برس قبل حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ نے بھی علماء سلاطین کے گروہ کو ہی دین بگاڑنے والا گروہ قرار دیا تھا۔اُن کا مشہور شعر یہ ہے۔وهل افسدالدين الا الملوك--- واحبار سوء ورهبانها

۔احیاء علوم الدین للغزالی ج 2 ص120۔122۔123۔

۔ایضاً کتاب ذم الغرور

۔ایضاً ج2ص294تا299

۔ایضاً ج2 ص251۔352۔

۔ایضاً ج3 ص345تا350۔

۔احیاء علوم الدین للغزالی ج3 ص241۔244۔

۔ایضاً ج 4ص356۔358۔

۔(النازعات24)مولانا روم نے اسی مضمون کو اپنے شعر میں یوں بیان کیا ہے۔نفس مارا کمتراز ازفرعون نیست لیک اوراعون مارا عون نیست

۔احیاء علم الدین للغزالی ج3۔(نوٹ)یہاں روح کی اس بحث کے قابل اعتراض مقامات کی نشاندہی یاان پر تنقید نہیں کی جارہی ہے!