پاکستان میں قیام امن کی حالیہ جدوجہد !

16دسمبر، اہل پاکستان کے لیے پہلے ہی ایک الم ناک یادگار رکھتا تھا۔یہی دن تھا جب عالمِ اسلام کی سب سے بڑی ریاست، پاکستان دو لخت ہوئی، اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے سقوطِ ڈھاکہ کروایا اور کہا کہ ہم نے آج تقسیم ہند کا بدلہ لے لیا۔ برسہا برس بعد پھر اسی دن، امن دشمن قوتوں کی طرف سے پشاور آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر وحشت ناک ظلم و بربریت کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ اس واقعہ نے اہلِ وطن کو ہلاکے رکھ دیا، علماے کرام سمیت ہر طبقہ نے اس سانحہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ۔ دوسری جانب دین بیزار سیکولر طبقہ نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے ، اس سانحہ کو آڑ بناکرنظریۂ اسلام کو نقصان پہنچانے اور اس کو دہشت گردی سے متہم کرنے کی منظّم مہم کا آغاز کردیا۔ معصوم بچوں کی الم ناک شہادت کو دینی تعلیم اور اس کے حامل راسخ العقیدہ علماکے خلاف کاروائیوں کی وجہِ جواز بنا دیا گیا۔ انتہا پسندی پر قائم ہر دو رویے قابل تنقید اور مسائل پیدا کرنے کی بنیاد ہیں۔

'اسلام'دین اَمن ہے،نبی اسلام رحمۃ للعالمین ہیں، اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیاہے1 ، نبی کریمﷺ نے ایک مسلمان کے ناروا قتل کو ، دنیا جہاں کی تباہی سے سنگین تر قرار دیا2 ہے۔ شرک کے بعد قتل کو بدترین ظلم 3بتایا گیا اور ناروا قتل کے بدلے قاتل کو جینے کے حق سےمحروم کردینے یعنی قصاص لینے کو اسلام نے حیوٰۃ قرار 4دیا ہے۔ قیامت کے دن اجتماعی معاملات میں سب سے پہلے خونِ ناحق کا فیصلہ 5کیا جائے گا اور ایک ناحق خون میں اگر دنیا جہاں کے لوگ شریک پائے گئے تو اللہ تعالیٰ اس ظلم کی پاداش میں ان سب کو نارِجہنم میں جھونک6 دیں گے۔

اسلام تو کسی انسان کی طرف تیزدھار شے سے اشارہ کرنے کو جائز قرار7 نہیں دیتا ۔ انسان تو ایک طرف رہے، کسی جاندار کی بلاوجہ جان لے لینا قیامت کے دن باعثِ گرفت ہوگا اور چڑیا، مرغی جیسے بے ضرر پرندے روزِ قیامت اپنے خالق کےسامنے اس امر کی دہائی دیں گے کہ فلاں شخص نے بلاوجہ میری جان لی 8،اور ظالم کو اس ظلم کا جواب دینا ہوگا۔انسان کو تو اپنی جان لینے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی9 اور جو شخص خود کشی کا ارتکاب کرے گا، تو وہ روزِمحشراسی آلۂ قتل کے ساتھ اللہ عزوجل کے سامنے پیش ہوگا، اوراسے ہمیشہ کے لیے یوں ہی اپنے آپ کوقتل کرتے رہنے کی سزا سنائی 10جائے گی۔

پشاور آرمی سکول کے واقعہ میں سو سےزائد بچوں کو جس طرح موت کے گھاٹ اُتارا گیا، ایسے ظلم کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بہت سے مواقع پر انسانوں کو قتل کرنے کے بہیمانہ واقعات تو ملتے ہیں، لیکن معصوم بچوں کو نشانہ بنا کراُنہیں قتل کردینا وحشت کی ایسی شرم ناک مثال ہےجس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔یہ بھی درست ہے کہ ڈرون حملوں اور بم دھماکوں میں بھی بڑی تعداد میں بچے شہید ہوتے رہے ہیں، جو ایک بدترین ظلم ہے، لیکن ان حملوں میں براہِ راست صرف بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا رہا۔

اسلام کی رو سے کسی کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جاسکتی اور کسی معصوم بچے کو قتل کرنا تو سراسر زیادتی ہے۔ جیساکہ سیدنا صہیب رومی کا مشہور واقعہ موجود ہے، جب دھوکہ سے اُن کو قید کرکے آخرکار اُن کو شہید کردیا گیا ۔دورانِ قید اُن کے ہاتھ میں ظالموں کا بچہ اور تیزدھار اُسترا آگئے تو اُنہوں نے اس بچے کو نقصان پہنچانے کے بجائے فرمایا: «تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ»11 ''کیا تمہارا خیال ہے کہ میں اس کو قتل کردوں گا، ہرگز نہیں۔''

انسانی اخلاقیات اور شریعتِ اسلامیہ ہر دو اعتبار سے معصوم بچوں کو نشانہ بناناممنوع اور مذموم عمل ہے،حتیٰ کہ ایسی عورت جس کی بدکاری کی وجہ سے اس کا مقدر قتل کی سزا تھی، حاملہ ہونے کی وجہ سے اس کی سزا کو بھی مؤخر کردیا جاتا ہے اور اس کی سزا کے نفاذ کو نبی کریمﷺ نے اس وقت تک مؤخر کردیا جب تک اس کا بچہ ولادت کے بعدماں کے دودھ سے مستغنی نہیں ہوگیا۔12

مذکورہ بالا دلائل کی بنا پر دیکھا جائے تو پشاور آرمی سکول میں ہونے والے اس سانحہ کا کسی طرح بھی کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، یہ انسانیت سوز فعل اور سرا سر غیر اسلامی عمل ہے!!

وطنِ عزیز پاکستان میں اس نوع کے سانحات و حادثات تسلسل کے ساتھ کیوں رونما ہورہے ہیں؟کن اسباب کی بنا پر یہ دہشت گردی اور ہلاکت خیزی بڑھتی جارہی ہے؟ مزید یہ کہ نظریاتی اور مذہبی و مسلکی تفریق کو کیوں ہوا دے کر مزید گہرا اور نمایاں کیا جا رہا ہے؟ سرکاری اقدامات کیوں مذہبی طبقے کی ناراضی کا باعث بن رہے ہیں؟ ظاہر ہے یہ ایک لمبا اور کثیر الجہت موضوع ہے، جس کے تانے بانے کئی سالوں، ممالک اور متعدد محرکات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ فی الوقت ان کثیر د پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پشاور میں دہشت گردی کے حالیہ واقعہ پر حکومتی ذمہ داریوں اور ان کے اختیار کردہ اقدامات اور رویوں کو ہم زیر بحث لاتے ہیں۔

سانحۂ پشاور کی شدت نے حکومتِ پاکستان کے اعصاب کو لرزا دیا، اور آئندہ دنوں میں ایک طر ف حکومتی کارپردازوں نے 'نیشنل ایکشن پلان' کے نام سے 20 نکاتی لائحۂ عمل تشکیل دیا تو دوسری طرف کچھ ہی دنوں میں آئین میں اکیسیوں ترمیم متعارف کرائی گئی، جس کے نتیجے میں برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فوج ڈرائیونگ سیٹ پر آگئی، عسکری قیادت پر کھلے اعتماد کا اظہا رکیا گیا اور دہشت گردی کے خاتمے میں اس کے موقف اور اقدام کو قومی سطح پرتسلیم کرلیا گیا۔ ماضی کی مضبوط مزاحمت کار اعلیٰ عدلیہ پر برتری حاصل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو دہشت گردی کے مسئلے کاحل قرار دے دیاگیا 13۔'نیشنل ایکشن پلان' کی رو سے سزا یافتہ دہشت گردوں کو پھانسی دینا، ملک میں کسی مسلّح لشکر کو قائم یا مؤثر ہونے کی اجازت نہ دینا،نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی والے لٹریچر پر پابندی،دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کو فنڈز کی فراہمی پر بندش،کسی اور نام کے استعمال پر گرفت،مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ عمل کی تشکیل،مذہبی دراز دستیوں کے خلاف مؤثر اقدامات، دہشت گرد تنظیموں ؍افراد کا ہرطرح میڈیا پر بائیکاٹ، اور انکے مواصلاتی نیٹ ورک مسمار کر نا وغیرہ کے اہداف شامل کیے گئے۔اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری سے اہم ترین مقصد یہ حاصل کیا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات کو فوجی عدالتوں میں پیش کیا جائے گا،اور فوجی عدالتوں میں پیش کرنے کی پابندی صرف ایسے افراد پر لاگو ہوگی، جو کسی مذہب یا مذہبی فرقے کے حوالے سے مشہور ہوں۔مذکورہ بالا دونوں اقدامات کے حوالے سے ہماری معروضات حسبِ ذیل ہیں:

1. سب سے پہلے تو یہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کی ذمّہ داری قبول کرے۔کئی سالوں سے یہ روایت پختہ ہورہی ہے کہ کسی بھی ہلاکت خیز واقعہ کے بعد میڈیا پر یہ تاثر قائم کرکے کہ یہ کام دہشت گردوں نے کیا ہے، اور ان کی طرف سے کسی نامعلوم کال کرنے والے نے ذمّہ داری اُٹھالی ہے، حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بظاہر اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں کہ اب یہ قتل ہوجانے والے گویا اندھے قتل کا مصداق بن گئے ہیں اور ان کو انصاف اُس دن ہی ملے گا، یا قتل وغارت کا یہ سلسلہ اس وقت ہی تھمے گا، جب دہشت گردی کی یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ حکومت کا یہ رویّہ سراسر غلط اور اپنی ذمّہ داریوں سے نگاہیں چرانے کے مترادف ہے۔ اگر پاکستان اس طویل اور لامتناہی جنگ کا شکار ہے، تو اس کی وجہ بھی سابقہ حکومتوں کی پالیسیاں ہی ہیں ۔موجودہ وزیر داخلہ ،آغازِ حکومت میں اس بیانیہ کو پوری شدت سے پیش کیا کرتے تھے ۔ قیامِ امن کے لیے اُنہوں نے عسکری گروپوں سے مذاکرات کی راہ بھی اختیار کی۔ ان حکومتی اقدامات کو بعض عناصر اور ڈرون حملوں نے ناکام بنانے کی سرتوڑ کوششیں کیں، مذاکرات کی مخالفت کی اور آخرِ کار فوجی آپریشن شروع کردیا گیا جسے امریکہ، برطانیہ وغیرہ کی طرف سے بھی سراہا گیا۔

پاکستان میں دہشت گردی جس بھیانک اور انسانیت سوز مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، اس کے مقابلے کے لیے حکومت کو پوری قوت اور تدبیر سے کام لینا ہوگا۔ ایک ایٹمی اور عسکری طاقت ہونے کے ناطے پاکستان پر باہر سے تو تباہی مسلط نہیں کی جاسکتی۔اس واحد مسلم ایٹمی طاقت کو اس کے دشمن، داخلی جنگ میں ہی گرفتار کرکے، اپنے مذموم مقاصد پورے کرسکتے ہیں۔

2. پاکستان میں امن وامان کا قیام حکومت کا اوّلین فریضہ ہے، جس پر ہی اس کی کامیابی وناکامی کا دارومدار ہے۔ یہ جنگ اس وقت اخلاقی جواز کھو دے گی ، جب یہ تاثر گہرا ہوجائے کہ یہ پاکستان کی بجائے غیروں کے مفادات کے لیے کی جانے والی جدوجہد ہے، اور اس میں غیروں کے مفادات کو تحفظ دیا جاتا اور ان کی ہدایات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ 'ضربِ عضب' کے نام سے پاک فوج کے آپریشن پر اگر امریکی افواج وسفارت کار پاکستانی فورسز کی تائید کرتیں اور ان کو کولیشن سپورٹ فنڈجاری کرتی ہیں، تو اس سے فوری طور پر یہ اندیشہ سر اُٹھا تا ہے کہ پاکستان کی جنگ میں غیروں کے کونسے مفادات کی پاسداری کی جار ہی ہے جس کی تائید کے لیے ان کی سفارتیں اور اموال وترغیبات آگے آرہے ہیں۔اس جدوجہد کو شبہات سے بالکل پاک ہونا چاہیے۔

3. دہشت گردی اور بدامنی ایک ناسور ہے جس کا ہرقیمت پرخاتمہ ضروری ہے۔ یہ عزم جس طرح مصمّم ارادہ کا محتاج ہے، اسی طرح اس کے نفاذ میں کسی قسم کی ذاتی پسند وناپسند کو بھی آڑے نہیں آناچاہیے۔آئین میں ہونے والی حالیہ اکیسویں ترمیم میں واضح طور پر یہ امتیاز نظر آتا ہے کہ یہ ترمیم دہشت گردی کے سلسلے میں صرف مذہبی طبقات کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی ہے ، دہشت گردی کا اقدام اگر کوئی دین و مذہب کی بنا پر کرے تو اکیسویں ترمیم کے ذریعے اس کو تو سیدھا فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کی قانون سازی کردی گئی ہے ، جب کہ یہی جرائم اگر کسی دین بیزا رشخص یا تنظیم سے ، مذہب کے حوالے کے بغیرسرزد ہوں تو اس کے لیے عام قانون اورعام عدالتیں کافی سمجھی گئی ہیں۔اس بنا پر یہ ترمیم مذہبی طبقات کے خلاف واضح امتیاز پر مبنی اور جرم سے قبل فردِ جرم قرار پاتی ہے، اور اس میں ریاست کے تمام شہریوں کے مابین مساوات کے شرعی وجمہوری حق کو پامال کیا گیا ہے۔ 7 جنوری کو منظور ہونے والی یہ ترمیم کل تین نکات پر مشتمل ہے جس میں دوسرےنکتے کا یہ حصہ بطور خاص قابل توجہ ہے :

'' پاکستا ن کے دستور کے آرٹیکل 175 میں، شق نمبر 3 کے بعد ا س جملہ کا اضافہ کیا جائے:

Provided that the provisions of this Article shall have no application to the trial of persons under any of the Acts metnioned at serial No. 6, 7, 8 and 9 of sub-part III or Part I of the First Schedule, who claims, or is known, to belong to any terrorist group or organization using the name of religion or a sect.

''...(دستور کے آرٹیکل نمبر 175 کا) ایسے شخص کے مقدمہ پر اطلاق نہیں ہو گا جو اس ترمیم کے نکتہ 1 یا نکتہ 3کی شق 6 تا 9 کے تحت آتے ہوئے کسی مذہب یا مذہبی فرقے سے تعلق رکھنے والی تنظیم ؍گروہ سے تعلق رکھتا ہو (یا مشہور ہو ) ۔''

قانون سازی میں ایسا صریح امتیاز ، انصاف کے تقاضوں کے سراسرمنافی ہے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یہ امتیازی رویّہ، اس ساری مہم کو اخلاقی تائید اور کامیابی سے محروم کردے گا۔ حکومت کو اپنے سیاسی مفادات اور جوڑ توڑ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے تمام طبقات کے لیے مساوی اور قابلِ قبول بنانا ہوگا، تبھی اس کا کوئی فائدہ ہوگا، وگرنہ یہ سب ایک بےکار مشق کے مترادف قرار پائے گا اور اس حساس مرحلے پریہ امتیاز قوم کو مزید تقسیم کردے گا۔ حکومت کو اچھے اور برے دہشت گردکی تقسیم کرنے کی بجائے، ہر دہشت گرد اور امن دشمن کے ساتھ ایک ہی جیسا سخت برتاؤ کرنا چاہیے۔جس طرح قانون کو ہرفرد پر یکساں نافذ ہونا چاہیے، اسی طرح ملک کے چپے چپے ، ہر تنظیم، ہر ادارہ، ہر شخص اور ہر چھوٹے بڑے پر اس کا یکساں نفاذ ہونا چاہیے۔زیارت ریذیڈنسی کو آگ لگانے اور قائد اعظم کی تصاویر کو پاؤں تلے روندنے،بسوں کو روک کر شناختی کارڈ چیک کرنے اور پنجابیوں کو نشانہ بنانے، کوئٹہ میں پنجابی ڈاکٹروں، پروفیسروں کو قتل کرنے ، بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے،تعلیمی اداروں میں قومی ترانے کی ممانعت کرنیوالے اوربلدیہ ٹاؤن میں290 ورکروں کو زندہ جلادینے والے ظالم دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں میں کیوں پیش نہیں جائے گا۔کیاایسے واقعات کی کی روک تھام کی پاکستان کو کوئی ضرورت نہیں۔

نبی کریمﷺ نے سابقہ قوموں کی ہلاکت اور زوال کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ «أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا»14

''اے لوگو! تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ ان میں کوئی نامور شخص اگر چوری چکاری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور اگر کمزور شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا تو اس پر قانون کے شکنجے کس دیتے۔ واللہ اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔''

اور اسی بات کا قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے:

﴿وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ سَميعًا بَصيرً‌ا ﴿٥٨﴾... سورةالنساء

''اورجب لوگوں کے مابین فیصلہ کرو تو عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تمہیں خوب ہی نصیحت کرتا ہے، بلاشبہ وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔''

4. وطن عزیز میں بہت سے اسلامی ادارے کام کررہے ہیں جن کی تائید وتعاون ملک کے علاوہ بیرونِ ملک سے بھی مسلمان بھائی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ملتِ اسلامیہ ایک جسدِ واحد ہے، اور ملت کے مختلف حصّے اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے مسائل سے کبھی غافل نہیں رہ سکتے۔ اسی بنا پر پاکستان کے مسلمان بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں او راپنے مال وزبان سے ان کی مدد کرتے رہتے ہیں ۔ پہلے بھی ملت کے اس عظیم نظریے سے کاٹ کر اہل پاکستان سے بیرونی تعاون پر بے جا بندشیں عائد کی گئیں اور اب بھی یہی رویّہ دہرایا جارہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں ہزاروں این جی اوز مغربی ممالک کے علانیہ فنڈ سے ، اس ملک وملت کے خلاف ایجنڈے پر مصروفِ عمل ہیں۔ اسلامی اداروں کو تو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے علم میں لائے بغیر کسی اسلامی ادارے، یا ملک سے کوئی فنڈ حاصل نہیں کرسکتے، دوسری طرف امریکہ کھلم کھلا یوایس ایڈ کے نام پر ، ہزاروں تنظیموں کو اور مغربی ممالک کے سیکڑوں ڈونرز، کھمبیوں کی طرح اُگنے والی این جی اوزکو گرانٹ اور فنڈز کے نام پر بھاری رقوم دیتے ہیں۔ جن کا مقصدپاکستان کو مغربی طرزِ معاشرت میں ڈھالنا اور مغربی قوموں کے مفادات کی پاسداری کرنا ہوتا ہے۔ ایسے ڈونرز کی ڈائریکٹریاں اور ان کی دلچسپی کے موضوعات نہ صرف باقاعدہ مشتہر ہوتے ہیں بلکہ بہت سے پس پردہ مقاصد کے لیے بھی وہ بے دریغ ڈالرز دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پولیس مختلف مذہبی تنظیموں کے ڈونیشن باکسز تو ضبط کرتی نظر آتی ہے، لیکن دوسری طرف پاکستانی مفادات کے خلاف بھارتی،اسرائیلی ، یورپی اور امریکی گرانٹ سے چلنے والی این جی اوز کے لیے کوئی بندش نہیں۔حکومت اگر بیرونِ ملک فنڈز کی روک تھام چاہتی اور ان پر نگرانی کی ضرورت سمجھتی ہے ، تو اسے یہ اقدام بلاکسی امتیاز کے تمام تنظیموں کے لیے جاری کرنا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ امتیازی رویہ اپنی موت آپ مرجائے گا ۔

5. دہشت گردی کی اس جنگ میں حسبِ سابق دینی مدارس کو بلاوجہ ہدف بنا لیا گیا ہے، جبکہ دہشت گردی کے مرتکب افراد میں دینی مدارس سے زیادہ جدید کالج یونیورسٹیوں کے لوگ ملوث نظر آتے ہیں۔ کبھی مدارس کی رجسٹریشن کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا او رکبھی ان کی فرقہ واریت اور امداد زیر بحث آجاتی ہے۔ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہیے کہ اہل مدارس کا یہ عزم ہے کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے اور اس کا خاتمہ ہر قیمت پر ہونا چاہیے۔ مسجد ومدرسہ سے وابستہ لوگ اس تشدد وانتہاپسندی پر یقین نہیں رکھتے اور ایسے اقدامات کو دین کے لیے سمّ قاتل سمجھتے ہیں۔ حکومت اور مقتدر طبقہ کو مدارس کا نام لے کر، یا کبھی دس فیصد کو مشکوک ٹھہرا کر، ان کی سرعام مذمت کا رویہ اپنانے کی بجائے، ایسے مدارس کی دوٹوک نشاندہی کرنی چاہیے جو دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ جس طرح کسی بھی طبقہ حیات کو جرم وزیادتی سے کلی طور پر بری قرار نہیں دیا جاسکتا، اسی طرح بعید از امکان نہیں کہ اکا دکا غلط سرگرمیاں کسی مذہبی ادارے میں بھی دریافت ہو جائیں۔ ذمہ دارانِ مدارس کا یہ عزم ہے کہ حکومت حقائق کی بنا پر جن مدارس کو دہشت گرد ثابت کرے گی، تمام مدارس نہ صرف اُن کا بائیکاٹ کریں گے، بلکہ ان کی رکنیت منسوخ کرکے ان کی مذمت بھی کریں گے۔ جہاں تک مدارس کی رجسٹریشن کی بات ہے تو برسہا برس سے حکومت کے پاس رجسٹریشن کے لیے مدارس کی درجنوں درخواستیں جمع کرائی جاچکی ہیں، لیکن ان کی رجسٹریشن حکومتی ادارے خود نہیں کررہے۔ یہی صورتحال مالی معاملات کی ہے کہ سالہا سال سے قومی بنک مدارس کے اکاؤنٹ کھولنے سے گریزاں ہیں، جب ان کے اکاؤنٹ کھلیں گے تب ہی اُن کی آمدنی کے ذرائع بھی علم میں آئیں گے، لیکن حکومتی ادارے مسائل کو حل کرنے کی بجائے، صرف مدارس پر الزامات عائد کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ امتیازی صورتحال مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ پیدا کرنے کا سبب ہے۔

6. وطن عزیز میں جاری امن کی جدوجہد میں دہشت گردی ، انتہاپسندی اور تعصّب وفرقہ بندی بظاہر بنیادی نظریاتی عوامل ہیں۔ جب تک نظریاتی بنیادوں پر نکھار نہیں ہوجاتا، اقدام اور مزاحمت و دفاع میں بھی وضاحت نہیں آئے گی۔دہشت گردی کے دو پس منظر ہیں: ایک مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی اور دوسری حکومت، عوام اور سیکورٹی اداروں کے خلاف سیاسی دہشت گردی۔ ہر دو کا پس منظر، اہداف اور لائحۂ عمل مختلف ہے۔ حکومت نے ان اصطلاحات کی مذمّت کرتے ہوئے، ان کی جامع مانع یعنی واضح تعریف اور حد بندی نہیں کی۔ مستزاد یہ کہ بعض صوبائی حکومتیں ، سرکاری وسائل و اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک خاص مکتبِ فکر کو فرقہ وارانہ گروہ قرار دے کر اس کے لیے زمین تنگ کررہے ہیں،ان کو پولیس مقابلوں میں 'پار' کیا جارہا ہے۔ بہت سےمقتدر عناصر نے اپنے مخصوص مفادات اور نظریات کو دہشت گردی کے وسیع تر اور من مانے مطالب پہناتے ہوئے ، اس جنگ کے فوکس اور ہدف کو متاثر کرنا شروع کردیا ہےجس سے اس کی تاثیر اور افادیت بے معنی ہوتی نظر آرہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان اصطلاحات کے پس پردہ غلط معانی کو ختم کرنے کے لیے ایک واضح موقف پیش کرے۔ گرفت اور بندش کا منظّم میکانزم تشکیل دے، وگرنہ کچھ عرصہ بعد ہم ایک اور سمت سے انہی مسائل کا سامنا کررہے ہوں گے، اور مسائل حل ہونے کے بجائے گھمبیر تر ہوتے جائیں گے۔

7. پاکستان دنیا کے نقشے پراسلام کے نام سے قائم ہونےوالی واحد اسلامی ریاست ہے، اس لحاظ سے اسے ایک نظریے نے تخلیق وتشکیل کیا ہے۔ جب تک یہ نظریہ زندہ وپائندہ،اجتماعی وانفرادی زندگی میں متحرک ومؤثر اور جاری وساری رہے گا، اس وقت تک پاکستان کے جسدِ قومی کو سنگین خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس نظریے کو ہی اگر تباہ کردیا جاتا ہے تو اس کے شہریوں کو متحد ومرکوز رکھنے کی کوئی اور مضبوط بنیاد باقی نہیں رہتی۔ ا س لحاظ سے پاکستان میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کی طرح نظریاتی فروغ وتحفظ کا بھی کوئی مضبوط ریاستی ادارہ بننا از حد ضروری ہے۔ مذکورہ بالا ریاستی ستونوں پر جب کوئی حرف گیری ہوتی ہے تو ان کا مضبوط قانونی وجود ان کے تحفظ کی ضمانت بن جاتا ہے، جب کہ اسلام اور نظریۂ پاکستان ہی ایسے یتیم ہیں کہ جس کا جی چاہے،ان کے خلاف ذومعنی جدوجہدشروع کردیتا ہے۔ملا ئیت،رجعت ودقیانوسیت ، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی آڑ میں اسلام کو برا بھلا کہا جاتا اور ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کیاجاتا ہے۔قیام امن کی اس جدوجہد میں بھی بدقسمتی سے مذہب اور دہشت گردی کو مترادف قرار دیا جارہا ہے۔

اس وقت دہشت گردی کا مترادف 'اسلام 'اور بدامنی کا مجرم 'مذہب' قرارپایا ہے، جبکہ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ بہادر کے اس خطہ میں 'تشریف آوری' سے قبل یہاں سیاسی نوعیت کی دہشت گردی کا کوئی نام ونشان بھی نہیں تھا، ہمارے شمالی اور سرحدی علاقہ جات میں بسنے والے پاکستانی محبِ وطن اور پرامن شمار ہوتے تھے، اب یہ میڈیا کی مہربانی ہے کہ عالمی طاقتوں کے مفادوبربریت پر مبنی کھیل میں قرعۂ جرم اسلام کے نام نکال دیا گیا ہے اور حکومتِ وقت نے اس کو تسلیم کرکے، یک طرفہ اقدامات بھی شروع کردیے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں آئینی ترمیم ، ہردو میں اسلام کو نشانے پہ رکھا گیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ مغرب سے مفادات حاصل کرنے والا طبقہ بھی ، اپنے میڈیائی اور سماجی ومالیاتی اثر ورسوخ کی بنا پر، اس جنگ کو اسلام کے خلاف مرکوزومؤثر کرنے پر مصر ہے۔ بڑے شہروں میں حکومتی اداروں کی طرف سے جو پوسٹر چسپاں کیے جارہے ہیں، یا بعض اوقات حکومتی سطح پر جو اشتہار شائع کیے جارہے ہیں، ان میں جہاد، صدقات اور فلاحی مقاصد جیسے الفاظ استعمال کرکے اور کبھی سپیکر کے غلط استعمال کو روکنے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کون ایسا بے وقوف ہوگا جو کھلم کھلا سپیکروں پر دہشت گردی کا ارتکاب کرتا پھرے۔مسجد ومدارس دہشت گردی کے خلاف یکسو ہیں، لیکن لبرل طبقہ کی مہربانی سے اُنہیں ایک حریف باور کرلیا گیا ہے۔اگر محراب ومنبر سے بھی ان کے خلاف منظم آواز اُٹھنا شروع ہوگئی تو بھر یہ ملک نظریاتی خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گا۔ اس لیے مسئلہ کو مسئلہ تک ہی محدود رہنے دیا جائے اور غلط کار لوگوں کو اپنی بری خواہشات کا لبادہ اوڑھانے کا موقع نہ دیا جائے۔

اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور اس پر عمل کرنے والے امن وسلامتی پر یقین رکھتے ہیں۔ جولوگ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑتے ہیں، اُنہیں فرانس میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے اخبارات کی نظریاتی دہشت گردی پر توجہ دینی چاہیے۔ کسی قوم کے مقدسات اور کائنات کی متبرک ترین ہستیﷺ کی توہین کرنا سب سے بڑی دہشت گردی ہے، جس سے کسی پرامن قوم کو ردّ عمل پر اُکسایا جاتا ہے۔دہشت گرد اہل مغرب نے توہین آمیز خاکے مسلسل اور مکرّرشائع کرنے کی خاموش تائید ہی نہیں کی ، بلکہ ایسا کرنے والے اخبار کے خلاف جارحانہ اقدام کے جواب میں 12 جنوری2015ء کوپیرس میں 15 لاکھ افراد پر مشتمل ایک عظیم جلوس نکال کر، اس مذموم رویے کی تصدیق بھی کی ہے جس میں یورپی ممالک کی تمام اہم سیاسی قیادت مجتمع تھی،اسی سے شہ پاکراسی فرانسیسی اخبار نے سہ بارہ رسالت مآبﷺ کے توہین آمیز کارٹون شائع کرکےاہل اسلام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہےاور ایسے بعض روشن خیال مسلمانوں کو، جو اس اخبار پر جارحیت کے خلاف جلوس میں شریک تھے، اپنا حقیقی چہرہ دکھایا اور ان مسلمانوں کو بھی ذلّت سے دوچار کیا ہے۔یہ ہے حقیقی دہشت گردی!!

8. حکومتِ وقت کو قانون سازی کرتے ہوئے، توازن واعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ وہ سب چیزیں جو اس سے قبل سراسر غلط مانی جاتیں،سانحۂ پشاور کے فوراً بعد مذہبی طبقات کے خلاف اُٹھائے جانے والے طوفانِ بلاخیز کے نتیجے میں جائز نظر آنے لگیں۔ اور اس کے لیے کسی قسم کے ثبوت یا منطقی جواز کی ضرورت بھی اضافی سمجھی جانے لگی۔ پنجا ب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سپیکر کے منافرت پر مبنی غلط استعمال کو ایک اہم بنیاد قرار دیتے ہوئے، لاؤڈ سپیکرزایکٹ منظور کرلیا۔ اس ضابطے کی رو سے ہر مسجد میں داخلی طور پر اور اذان وعربی خطبہ کے لیے بیرونی طور پر بھی محض ایک سپیکرکی اجازت دی گئی۔ قابل غور امر یہ ہے کہ سمتیں چار ہوتی ہیں: شمال و جنوب اور مشرق ومغرب ، لیکن حکومتی بزرجمہروں نے نامعلوم کس منطق کی روسے اذان کے لیے صرف ایک سپیکرکی اجازت دی ، گویا نماز کی اطلاع کی ضرورت صرف ایک سمت میں رہنے والے مسلمانوں کو ہے۔ اخبارات میں حکومت کی طرف سے اس مضمون کے اشتہارات بھی شائع ہوگئے۔یہی صورت حال اندرونی سپیکرز کی بھی ہے کہ مسجد کے داخلی ہال میں بھی مناسب آواز کے لیے ایک سپیکرکافی نہیں ہوتا، بلکہ برآمدہ اور صحن کے لیے اور جمعہ کے اجتماعات کے لیے اندرونی طور پر بھی ایک سے زیادہ سپیکرز کی ضرورت پیش آتی ہے۔ حکومت کے عقل مند مشیر جب اس طرح دانش مندی اور پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اعلیٰ سطح پر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملادی جاتی ہے تو پھر قانون شکنی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایسے مضحکہ خیز اور ناقابل عمل قانون کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی مسجد حتی کہ سرکاری مساجد کی انتظامیہ بھی اس پر عمل کرنے پر قادر نہیں اور اس لحاظ سے پنجاب کی تمام مساجد قانون شکن ہیں، جس کی پاداش میں کسی بھی لمحہ کسی بھی مذہبی شخصیت پر شکنجہ کسا جاسکتا ہے ۔ مزید برآں اس ایکٹ کی رو سے بھی لاؤڈ سپیکر کے مذہبی استعمال پر ہی گرفت کی جائے گی، اور اونچی آواز میں میوزک سنٹرز اورشادی بیاہ یا تقریبات کے موقع پربیہودہ گانوں کو بجانے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ واضح امتیاز اور برائی کا فروغ بھی قابل اصلاح ہے۔

یہی صورتِ حال اشتعال انگیز لٹریچر کی ہے، جس کے تدارک کے لیے محکمہ اوقاف کے تحت 'اتحاد بین المسلمین' کاوسیع تر بورڈ جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم مولانا فضل الرحیم اشرفی کی قیادت میں کام کررہا ہے۔ اوّل تو کسی بھی لٹریچر کے منافرت انگیز ہونے کا یہی قابل اعتماد حکومتی فورم ہے، لیکن اس سے بالا بالا مختلف تھانوں کی مؤثر شخصیات اپنی ذاتی پسند وناپسند کی بنا پر پولیس کے ذریعے اپنے مخالف ناشرین کے خلاف سخت اقدام کروا دیتی ہیں، اور اس طرح لاہور کے متعدد نشریاتی اداروں کے ذمہ داران پولیس کی بے جا گرفت کا شکار ہیں، جس کا ایک منظر اُردو بازار لاہور میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح وہاں ناشرین پولیس کے ہاتھوں شاکی ہیں اور پولیس نے اپنے تئیں کس کس تحریر کو ، دوسرے بااثر فرقے کے خلاف گردان کر قانون کا شکنجہ کسا ہوا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر یہ اتحاد بین المسلمین بورڈ بعض کتابوں کے قابل اعتراض مواد کی بنا پر ان کی بندش کے آرڈرزجاری کر بھی دیتا ہے تو انہی کتب کے بذریعہ انٹرنیٹ یا دیگر الیکٹرونک آلات کی نشرواشاعت پر پابندی اور گرفت کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ۔ اگر پنجاب میں ایسے دل آزار لٹریچر کو منع کیا جاتا ہے تو دیگر صوبوں سے درآمدکا نام لے کرایسا لٹریچر پھیلا دیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کو ایک طرف جرائم کی روک تھام کے لیے متوازن قانون سازی کرنی چاہیے، واضح نظام تشکیل دینا چاہیے اور دوسری طرف قانون شکن عناصر سے زیادہ تیزاور متحرک ہونا چاہیے، وگرنہ قانون اور اس کو نافذ کرنے والے ادارے عوام میں مذاق بن کررہ جائیں گے۔

دو اُصولی باتیں

کسی جرم کے ثبوت اور اس کی سزا کا دنیا میں ایک معروف نظام ہے کہ ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد کی جاتی، گواہوں یا اعتراف کی بنا پر اس کو ثابت کیا جاتا، شواہد کی بنا پر اس کو اعتراف او ربیانِ حقیقت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اسی طرح جرائم ثابت ہوتے اور اُن کی سزا دی جاتی ہے۔ میڈیا کے اس دور میں کچھ عرصہ سے جرم وسزا کی ایک نئی صورت متعارف ہوئی ہے جو سابقہ سب اُصول وضوابط کو ختم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کسی بھی واقعہ کو مخصوص رخ دینے کے لیے، میڈیا میں اس کے ایک مخصوص پہلو کو نمایاں کردیا جاتا ہے، اس کی ذمہ داری کے لیے ایک نامعلوم فون کال کافی سمجھی جاتی اور ا س کے بعد پوری قوم کا غم وغصّہ مطلوبہ فرد یا گروہ کے خلاف مجتمع کردیا جاتا ہے ، اس کے بعد اس مبینہ مجرم کے خلاف ہر طرح کی زیادتی روا سمجھی جاتی ہے۔پھر ایسے ہدف کو کھلے عام یا بلوۂ عوام میں قتل کردیا جائے، اس پر ڈرون حملہ کردیا جائے، یا ان پر بمباری کی شکل میں اجتماعی ہلاکت مسلط کردی جائے، ان کے معصوم بچوں اورخواتین کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں، ایسا سب کچھ جائز باور کرلیا جاتا ہے۔ عدالتی ٹرائل کے بالمقابل اسے 'میڈیا ٹرائل' کا نام دینا زیادہ موزوں ہے جو گذشتہ دو دہائیوں سے زیادہ مؤثر طریقۂکا رکے طور پر سامنے آیا ہے۔

نائن الیون کے سانحے کے بعد یہی حکمتِ عملی اپنائی گئی، میڈیا کے بل بوتے پر اسامہ بن لادن کو اس کا مجرم قرار دے کر، امریکہ اپنے پورے لاؤ لشکر سے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ اور امریکہ نے اپنے چند سو شہریوں کی ہلاکت کا بدلہ افغانستان کی ہزاروں بستیوں کوتورا بورا بنا کرلے لیا۔ اس دور میں افغان حکمرانوں کا یہ مطالبہ تھا کہ اُسامہ بن لادن پر یہ جرم ثابت کیا جائے تو وہ اس کوہر طرح کی سزا دینے کو تیار ہیں لیکن آج تک اسامہ بن لادن پر نائن الیون کا جرم ثابت نہیں کیا گیا، البتہ اس کی اس موقع پر مسرت اور خوشی کو من مانا مطلب دیتے ہوئے، اس کو اس اقدام کا مرتکب خیال کرلیا گیا۔

پاکستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ بھی ایسے ہی میڈیا ٹرائل کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے واقعات انتہائی قابل مذمت، شرم ناک اور بھیانک ہیں او رایسا کرنے والےکسی رعایت کے مستحق نہیں، ان کا جرم عدل وانصاف کی کسی میزان میں پورا نہیں اُترسکتا۔ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں ہونی چاہیے اور ان کو بدترین سزائیں دی جانی چاہئیں۔ لیکن یہ دہشت گردی کرنے والے لوگ ہیں کون؟یہ سب سے اہم سوال ہے...!!

پاکستان ، ایک عظیم عسکری ایٹمی اسلامی طاقت ہے۔اس کے ہمسایوں میں چین وبھارت جیسی بڑی قوتیں موجود ہیں۔ گرم پانیوں، بلند پہاڑی سلسلوں، تجارتی راستوں، قیمتی معدنیات، اہم ترین محل وقوع کی حامل اس اہم اسلامی ریاست کے محنتی باشندے دنیا بھر میں اپنی قابلیت وذہانت کا سکہ منواتے ہیں۔ دنیا کی بڑی قوتیں پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑنے کی بجائے، ہردم کسی نہ کسی اُلجھن میں مشغول رکھنا اور اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتی ہیں۔ اس بنا پریہاں دنیا کی بڑی انٹیلی جنس ایجنسیاں کارفرما رہی ہیں۔ عالمی جہاد کا تیس سالہ عملی اور نظریاتی میدان رہنے کی وجہ سے بھی یہ ملک دوسروں کے لیے اجنبی نہیں ہے۔امریکہ کا سب سے بڑا سفارتخانہ اور عملہ، اور بھارت کے پاکستانی سرحد پر بڑی تعداد میں قونصل خانے اور ان کی ناجائز؍قانون شکن سرگرمیاں کسی سے مخفی نہیں۔ان حالات میں پاکستان میں جاری بدامنی کے اس مسئلے کو یوں سادہ انداز میں سمجھانہیں جاسکتا۔مختلف عالمی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے لیے اپنے ایجنٹ تلاش کرتی اور اسے من مانے مطالب پہناتی رہتی ہیں۔سانحۂ پشاور سے صرف سات دن قبل ، ذمہ داری قبول کرنے والے دہشت گرد گروہ کے سربراہ عمر خراسانی کی ملاقات بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی سے کابل میں ہوئی تھی جس سے اس حادثے کی بہت سی کڑیاں ازخود مل جاتی ہیں۔

طویل عرصے سے جاری عسکری سرگرمیوں نے اس ملک میں بہت سے متحرک عناصر پیدا اور منظّم کردیے ہیں۔ اور ان سے کام لینے والوں نے ، اپنے اہداف پورے ہوجانے کے بعد ان کو من مانی کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ جہاد کے نام سے متحرک عناصر میں بہت سے مالی مفادات کے لیے بننے والے گروہ بھی ہیں،جن کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے۔ان گروہوں کے رجحانات ، اہداف اور امکانات بھی مختلف ہیں۔ ان سے کسی بھی قسم کا کام لیا جاسکتا ہے جو کام لینے والے کی خواہش، حکمتِ عملی اور ذہانت پر منحصر ہے۔حکومت کے لیے بڑا آسان ہوتا ہے کہ کسی بھی واقعہ کو دہشت گردی قرار دے کر، اپنی ذمہ داری سے آنکھیں چرا لی جائیں۔ اور یہ سب ملک دشمن عناصر، اس جرم کو آسانی سے طالبان یا اسلام کے کھاتے میں ڈال کر، اس ملک کو زمینی کے ساتھ نظریاتی نقصان پہنچا نے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ ان منتشر ومتحارب گروہوں سے آمنا سامنا اور جنگ جوئی کی بجائے، بات چیت کا راستہ اپنایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مختلف تنظیموں اور رجحانات پر علیحدہ علیحدہ کام کیا جائے۔ ان کی قوت کو منتشر کرکے اُن میں اپنے ساتھی تلاش کیے جائیں۔اور آخر کار جولوگ کسی بھی صورت پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ مفاہمت کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے، جو قومی تنصیبات کو تباہ کرنے اور قوم کے خون کی ہولی کھیلنے پر مصر ہوں، اُن سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔ فساد پر مصرلوگوں سے تو سختی سے نمٹنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔ ان میں جو لوگ قانون کی گرفت میں آجائیں اور ان کا جرم ثابت ہوجائے تو ان کو ہولناک اورعبرت ناک سزائیں دی جائیں ، اس سلسلے میں کسی امتیاز اور رعایت سے کام نہ لیا جائے۔فوج کے علاوہ عوام کو ہلاکت سے دوچار کرنے والے دہشت گردوں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔ایسے مجرموں سے اُن کے ساتھیوں اور جڑوں تک پہنچا جائے۔

افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ سانحۂ پشاور کے نتیجے میں، دہشت گردی کے خلاف ساری جنگ کو دین پر عمل پیرا طبقہ، جو مساجد ومدارس کے ذریعے اسلام کی خدمت کررہا ہے،کے خلاف مرکوز کردیا گیا ہے۔ اس طرح گویا قوم کو نظریاتی طور پر بانٹتے ہوئے، اہل دین کو پہلے مجاہد اور پھر مجاہد کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔یہ وہی موقف ہے جو دنیا بھر میں عالمی میڈیا پھیلاتا اور امریکی ومغربی طاقتیں اس کی ہم نوا ہیں۔اہل مغرب کے حالیہ موقف کی رو سے تودنیا کا ہر مسلمان دہشت گرد ہے، جسے یقین نہیں وہ بیرون ملک پاکستان کے ہر شہری یا کسی یورپی ملک میں مسلم باشندوں کے بارے میں مغربی میڈیا کے رجحان کا مطالعہ کرلے، غور کیجئے کہ کیا اس موقف میں صداقت کی کوئی ادنیٰ رمق بھی ہے؟ ... ہم کس سمت لڑھک رہے اورکس کی زبان بولنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں ؟

دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے ملک کے موجودہ عدالتی نظام پر بداعتمادی کی سیاہ چادر تان دی گئی ہے اور موجودہ نظامِ عدل کو حصولِ انصاف اور گھمبیر صورتحال کے تدارک کے لیے ناکافی قرار دے دیا گیا ہے۔ایک طرف ان عدالتوں میں مذہب سے وابستہ افراد کو لے جاکر منی مارشل لا لگایا گیا ہے، جہاں قانونی ضابطے ، عام شہری کی بجائے فوجی ملازمین والے جاری کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف وہاں دی جانے والی سزا کے خلافِ اسلام ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی بہت سے اندیشے موجو دہیں۔ قرآنِ کریم کے واضح حکم کی رو سے مقتول کے ورثا کے لیے قاتل کو معافی کا حق حاصل ہے، لیکن ان عدالتوں سے سزا پانے والے اس شرعی حق سے محروم ہیں، جیسا کہ اخبارات میں پھانسی کا سزا یافتہ ایک کیس جنوری کے اوائل میں رپورٹ بھی ہوچکا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ عدالتی نظام یا دہشت گردی کی عدالتیں اس صورتحال کے لیے کافی کیوں نہیں؟اگر ججوں یا عدالتی اہل کاروں کی حفاظت کا کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہے تو عدالت کو فوج کی نگرانی میں دیا جاسکتا ہے لیکن پورے قانونی عمل کو ہی فوجی عدالتوں اور ان کے قوانین کے سپرد کردینا واقعتاً شہری حقوق کے منافی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان عدالتوں میں ملزمان کو صفائی کا مناسب موقع نہیں ملتا اور دیگر شہریوں کے مساوی قانون ان پر لاگو نہیں کیا جاتا جو ان کا آئینی حق ہے۔ اگر حکومتِ وقت امن وامان کی ذمہ داریاں نبھا نہیں سکتی تو پھر پورے نظام حکومت کو ہی فوج کی نگرانی میں کیوں نہیں دے دیتی۔ آل پارٹیز کانفرنسز میں چیف آف آرمی سٹاف کی مسلسل شرکت اور ہر صوبے میں وزیر اعلیٰ کے ہمراہ کورکمانڈروں کی سیاسی اجلاسوں میں شرکت فوج کے سیاسی کردار میں غیرمعمولی اضافہ کی غمازی کرتی ہے۔

اسی لیے وکلا کی سب سے بڑی تنظیم 'پاکستان بار کونسل' اور کئی وکلاتنظیمیں اکیسویں ترمیم کے خلاف اپنے احتجاج کو تدریجاً منظّم کررہی ہیں۔ 29 جنوری کو اس ترمیم کے خلاف یوم سیاہ منانے کے علاوہ سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے، جس کی سماعت شروع ہوچکی ہے۔

مذکورہ بالا سطور میں اس توازن واحتیاط اور مضمرات کی نشاندہی کی گئی ہے جس کو پیش نظر رکھ کر ہی قیام امن کی اس جنگ کو کامیابی سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے ۔ لوگوں کی ذہنی تربیت اور عمل سے پہلے فکر ونظر کے مرحلے میں قوم کو یکسو اور واضح ہونا ہوگا، ذہن ونظریہ کو بدل کر اُنہیں مطمئن کرنا ہوگا۔ نبی کریمﷺ نے بھی مکہ مکرمہ میں بت توڑنے سے قبل لوگوں کی ذہن سازی کی، پھرفتح مکہ کے موقع پر بت پاشی کا موقع آیا۔نظریاتی کشمکش میں مذہب سے دستبردار ہونے کی بجائے، اس کی تائید حاصل کرنا ہوگی ۔ اور جیسا کہ آغا ز میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں دہشت گردی اور اس بربریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔پاکستان میں جس تحریک کی تائید اسلام اور اہل اسلام نے کی ہے، اُسی نے کامیابی پائی ہے۔مذہب کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے، جس کا جس قدر جلد ادراک ہوجائے، اتنا ہی بہتر ہے!!


حوالہ جات

1. ﴿مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ‌ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَر‌ضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا وَمَن أَحياها فَكَأَنَّما أَحيَا النّاسَ جَميعًا...٣٢﴾... سورة المائدة

2. «لَزوالُ الدنيا أهونُ على الله من قتلِ رجُلٍ مُسلمٍ» حديثٌ صحيحٌ؛ رواه الترمذي

3. ... يا رسول الله! أيُّ الذنب أكبر؟ قال: «أن تجعلَ لله نِدًّا وهو خلقَك»، قلتُ: ثم أيٌّ؟ قال: «أن تقتُلَ ولدَك خشيةَ أن يطعمَ معك» رواه البخاري ومسلم

4. ﴿وَلَكُم فِى القِصاصِ حَيو‌ٰةٌ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٧٩﴾... سورةالبقرة

5. «أولُ ما يُقضَى بين الناس يوم القيامة في الدماء» رواه البخاري ومسلم

6. «لو أن أهلَ السماء والأرض اشترَكوا في دمِ مؤمنٍ لأكبَّهم الله في النار» صحيحٌ؛ رواه الترمذي

7. «من أشارَ إلى أخيهِ بحديدةٍ فإن الملائكةَ تلعنُه، حتى وإن كان أخاه لأبيه وأمِّه» مسلم والترمذي

8. «من قتلَ عُصفورًا عبَثًا عجَّ إلى الله يوم القيامة، يقول: يا ربِّ إن فلانًا قتَلَني عبَثًا ولم يقتُلني لمنفعَة»؛ رواه النسائي و أحمد

9. ﴿وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَ‌حيمًا ﴿٢٩﴾... سورةالنساء

10. «....ومن قتلَ نفسَه بحديدةٍ، فحديدتُه في يدِه يجَأُ بها في بطنِه في نار جهنَّم خالدًا مُخلَّدًا فيها أبدًا»؛ رواه البخاري ومسلم

11. صحیح بخاری: 3045، باب ہل یستاسر الرجل ؟

12. فَقَالَ ﷺ: «إِذًا لَا نَرْجُمُهَا وَنَدَعُ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ...» (صحيح مسلم:1695)

'' ہم کیوں کر اس کو سنگسار کرسکتے ہیں، حالانکہ اُس کا چھوٹا بچہ ہے، اُس بچے کو دودھ کون پلائے گا؟''

13. روزنامہ نوائے وقت، لاہور، 12؍ جنوری 2015ء

14. صحيح مسلم:8، باب قطع السارق الشریف