ہندوستان میں مذہب اور سیکولرازم کی کشمکش نیاء

بھارت میں نامور بالی وڈ سٹار عامر خان کی فلم' پی کے'ریلیز ہونے کے بعد خوب ہنگامہ بپا ہے۔ ہندوانتہاپسند تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں ہنگاموں کے ساتھ ساتھ فلم کے ہیرو اور پروڈیوسر پر مقدمات بھی درج کرائے گئے ہیں ۔آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشدجیسی تنظیموں کا خیال ہے کہ اس فلم میں دیوتاؤں کی توہین کی گئی ہے جبکہ ہندو مذہب کے بنیادی نظریات کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

جہاں ایک طرف انتہاپسندوں کی جانب سے تنقید اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فلم مقبولیت کے نئے ریکارڈز بنا رہی ہے ۔ 18؍دسمبر 2014ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم نے کمائی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور یہ بھارت کی اب تک سب سے زیادہ پیسہ کمانے والی فلم بن چکی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس فلم پر پابندی کی اپیل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ "جسے فلم دیکھنا ہے، اسے روکا نہیں جا سکتا اور جس کے نظریات مجروح ہوتے ہیں، وہ نہ دیکھے۔"اس واقعے نے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور سیکولرازم کے درمیان تفریق اور کشمکش کو مزید واضح کیا ہے۔

اسی سے ملتا جلتا واقعہ بھارت میں فلم ' میسنجر آف گاڈ ' کی ریلیز کے حوالے سے پیش آیا ۔ یہ فلم ایک سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ گرومیت رام رحیم سنگھ نے بنائی ہے ۔ گروجی نے اس فلم میں بطورِ ہیروخود اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ہیں ۔آپ ان گرو صاحب کے نام سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیسی شخصیت ہوں گے یعنی رام (ہندو دیوتا ) ، رحیم ( اللہ تعالیٰ کے نام کا استعمال) اور سنگھ یعنی سکھ مذہب سے تعلق۔ یہ گرو جی فلم کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں بھی خود کو ایک سپر ہیرو کے طور پرپیش کرتے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہوا کہ ان کی فلم کو سنسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ سنسر بورڈ کے تمام ارکان کا فیصلہ تھا کہ یہ فلم معاشرے میں توہّم پرستی اور مافوق الفطرت نظریات کو فروغ دے گی ۔اس میں گرو جی کو معجزے کرتے دکھایا گیا ہے ۔

سنسر بورڈ کی جانب سے انکار کے بعد گرو جی نے عدالت سے رجوع کیا جس نے فلم کی نمائش کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھارتی مرکزی سنسر بورڈ کی سربراہ لیلیٰ سیمسن اور کئی ارکان نے استعفیٰ دے دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فرسودہ مذہبی توہمات پر مشتمل اس فلم کو سینماؤں میں دکھانے کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے پر نہیں رہنا چاہتیں۔

اس واقعے کا ذکر کرنے کا واحد مقصد بھارتی معاشرے میں جاری ایک کشمکش کی تصویر دکھانا ہے کہ کس طرح وہاں سیکولر اور کٹّر مذہبی نظریات آپس میں پوری شدت سے ٹکرا رہے ہیں ۔ ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں ، مغرب سے پڑھے نوجوان ،مشنری اور انگلش میڈیم تعلیمی اداروں سے نکلے افراد ، صنعت کار و تاجر ، کاسمیٹکس انڈسٹری ، بالی وڈ کی فلم نگری ہے جبکہ دوسری جانب گرو، سادھو ، مذہبی رہنما اور اُن کے حواری۔ان کے پاس دلیل نہیں ، مذہبی کتب کے حوالے ہیں ، فرسودہ روایات اور مذہبی تہواروں کی بندش ہے ۔ اس تحریر کا مقصد بھی بھارتی معاشرے میں سیکولر ازم کے اظہار ، مذہب پر تنقید ، الحاد کی لہر اور معاشرتی روایات کی تبدیلی کی روش کو زیر بحث لانا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زبان یکساں ہونے کی وجہ سے اس کے پاکستانی اور دنیا بھر میں اُردو سمجھنے والے طبقے پر اثرات کا جائزہ لینا ہے ۔

بھارتی فلموں اور معاشرے میں مذہب بیزاری کے اظہار اور مذہبی روایات کا مذاق اُڑانے کے اثرات غیر شعوری طور پر ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا دینی طبقہ اس پہلو پر غور ہی نہیں کر رہا ۔ اگر ہم تاریخی حوالے سے جائزہ لیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی بھی معاشرے کو من پسند طریقے سے ماڈرن بنانے اور مذہبی روایات سے دور کرنے کا عمل ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے ۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد ایسا لٹریچر ، فلم ، ڈرامے ، اسٹیج ، ناول ، کتب حتیٰ کہ روزمرہ کے محاورے اور لطائف سامنے آئے جن کا مقصد معاشرے کو ماڈرن طرزِ زندگی اپنانے کی طرف مائل کرنا تھا ۔ سامراجی قوتیں اس سے بے پناہ مقاصد استعمال کرتی ہیں ، کمپنیاں اشیا بیچ کر منافع کماتی ہیں ۔ کارپوریٹ کلچر اور سرمایہ دار معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی اور معاشرتی روایات کو کمزور کیا جائے ۔ اس کی بڑی مثال مغرب میں عیسائیت کی شکست ہے ۔ ایسا صرف اور صرف اس لئے ممکن ہوا کہ عیسائیت کے پاس کوئی ٹھوس عقائد و نظریات نہیں تھے جو کہ سائنس کی دلیلوں کے سامنے ٹھہر سکتے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب میں مذہب کو دیوار سے لگا کر کارپوریٹ کلچر اور ماڈرن طرزِ زندگی کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ہندوستان جسے مغربی سرمایہ کار ایک 'منافع بخش مارکیٹ'سمجھتے ہیں، وہاں شاید اب یہی ہونےوالا ہے ۔

برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی اس کشمکش کے بارے میں اپنا مخصوص تجزیہ کرتا ہے کہ

" بھارت کی سیاست، معاشرہ اور اقتصادی نظام اس وقت ایک ایسے مرحلے سے گزر رہے ہیں جس کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔موجودہ دور میں ہر تبدیلی اقتصادی پہلوؤں پر مرکوز ہوتی ہے اور کوئی بھی پہلو جو اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ہوگا ،وہ ماضی کا حصّہ بن جائے گا۔اقتصادی ترقی اور انفرادی آزادی تنگ نظری کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ دنیا کے درجنوں ممالک اپنی تنگ نظری اور غیر جمہوری نظام کے سبب اس وقت انتشار اور افراتفری کا شکار ہیں۔اس لیے وہ تمام عناصر، نظریے اور تصورات جو جمہوری اُصولوں اور انفرادی حقوق سے متصادم ہوں گے، اُن کی شکست لازمی ہے۔ "

بھارتی معاشرے میں تبدیلی کا اہم ترین ہتھیار بالی وڈ ہی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہی معاشرے میں ایسی بحثیں شروع کرائی جا رہی ہیں جن میں مذہبی رسوم و رواج اور فرسودہ روایات کو موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے ۔ اس سے قبل ایک بھارتی فلم 'او مائی گاڈ ' کا موضوع بھی ایسا ہی تھا جس میں دیوتاؤں اور خصوصا گرو اور سادھووں کے کردار کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مذہبی رہنماؤں کے کردار کو لےکر مذہب کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔

ہمارے ہاں بہت سے حلقے خوش دکھائی دیتے ہیں کہ انڈین فلمیں اپنے ہی مذہبی نظریات کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کر رہی ہیں ۔ ان فلموں کا ظاہری تاثر تو ہندو مت کے حوالے سے ہی ہوتا ہے لیکن دراصل ان میں تمام مذاہب کو ہی کسی انسان کے لئے بے فائدہ اور انسانیت کو درپیش مسائل کی جڑ قراردیا جاتا ہے ۔ان کا مقصد ناظرین کو مذہب سے دور کرنا ہے تاکہ ایسا ماحول پیدا کیا جا سکے جس میں صرف اور صرف سیکولر نظریات اور کارپوریٹ کلچر کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جا سکے ۔

اس صورتِ حال میں قابل غور امر یہ ہے کہ ان فلموں ، ڈراموں ، ناولوں وغیرہ میں ہندومت اور دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی اسی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔ ہندو دیوتا ، سکھوں کے بابا گرونانک ، عیسائیوں کے تصورِ خدا اور مسلمانوں کے اللہ تعالیٰ پر ایمان کو ایک ہی طرز کی عقیدت کا اظہار قرار دیا جاتا ہے۔ ہندو گرو اور سادھوں کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے علماے کرام اور مذہبی رہنماؤں کو بھی اسی طرز پر پیش کیا جاتا ہے۔ دراصل یہی وہ صورتحال ہے کہ جس کا ٹھیک سے ادراک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان فلموں میں مذہبی رہنماؤں کو ' مینیجرز' کہا گیا یعنی جو خدا کے نام پر اپنا ' بزنس ' چمکاتے ہیں ۔ گرو یا سادھووں کی بے پناہ دولت کا تذکرہ کرتے کرتے مساجد ومدارس کو دیے جانےوالے چندے کو بھی اسی طرح کی ایک روایت قرار دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں اسلامی روایات کی تعلیم کو بھی سادھووں اور ہندو پیشواؤں کی فرسودہ روایات کی پاس داری کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔

پاکستانی دینی حلقوں اور دنیا بھر میں اُردو دان طبقے میں پختہ اسلامی عقائد رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس صورتحال کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیں کیونکہ بہت جلد اُن کو بھی نوجوان نسل کی جانب سے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جو اِن فلموں میں اُٹھائے جاتے ہیں ۔ بھارت میں مذہب کو بے توقیر کرنے کی مہم بہت جلد مسلم معاشروں سے بھی ٹکرائے گی بلکہ کسی حد تک اسلامی مقدس الفاظ اور عقائد اس کا نشانہ بن بھی چکے ہیں ۔

بھارت میں سیکولرازم کے اُبھرنے کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایسا بالکل نہیں کہ مذہبی حلقے کچھ کم اہمیت کے حامل ہیں ۔ نریندر مودی کی سرکار آنے کے بعد کٹر مذہبی نظریات رکھنے والے حلقوں کی بے پناہ حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت میں کارپوریٹ کلچر کے فروغ اور اسے ایک مکمل آزاد مارکیٹ بنانے کے لئے بھی بھرپور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔ انتہائی غیر محسوس انداز میں بھارت کا پڑھا لکھا طبقہ مذہب بیزار اور جدید طرزِ معاشرت کے نام پر سیکولرنظریات کا پیروکار بنتا جا رہا ہے۔ عالمی سرمایہ داربھارت کو ایک منافع بخش خطہ بنانا چاہتے ہیں ۔ معاشرے میں ملٹی نیشنل کے کاروبار کو پھلنے پھولنے کے لئے ایک خاص ماحول درکار ہوتا ہے جس کے لئے مذہبی روایات اور رسوم ورواج کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ کاسمیٹکس انڈسٹری ، نت نئے برانڈز ، فیشن انڈسٹری ، فوڈ چینز اور ٹیکنالوجی کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ ایسا ماحول بھی موجود ہو کہ جس میں یہ سب فروخت ہو سکے۔اسی مقصد کے لئے فلم اور ٹی وی پر ماڈرن طرزِ زندگی کو دکھایا جاتا ہے اور سیکولر نظریات کے فروغ کے لئے ہونے والی فلم سازی کے بھی یہی مقاصد ہیں۔

بھارتی فلموں اور ڈراموں میں خاندانی نظام کو بھیانک روپ میں دکھایا جاتا ہے جبکہ بغیر شادی کے جوڑوں کے رہنے کو جدّت کی علامت اور قابل قبول بنانے کی کوشش جاری ہے۔ آج ہم بھارتی معاشرے کے مناظر جگہ جگہ دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ بھارت کہ جہاں سرکاری سطح پر بھی صرف مقامی تیار ہونے والی گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں، اب ایسا نہیں ہے ۔ وہاں کھیلوں میں اربوں کی سرمایہ کاری اس طرح ہو رہی ہے کہ فلمی اداکار ٹیموں کے مالک ہیں ۔ بظاہر کھیلوں کے یہ میلے معاشرے کو آزادانہ بنانے کی ہی ایک کوشش ہیں ۔ آئی پی ایل کرکٹ مقابلوں کو دنیا کے بڑے سپورٹس ایونٹس کا درجہ مل چکا ہے جس میں کھلاڑیوں کی بولی لگا کر نہ صرف ان کو کھلایا جاتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ جوئے ، تشہیری مہم اوررقص و سرود کے مظاہرے بھی ہوتے ہیں ۔بھارتی کرکٹ کھلاڑیوں کی مقبولیت کو بھی ایک خاص مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ شاید پہلا موقع ہو گا کہ بھارتی کے معروف ترین کرکٹر ویرت کوہلی آسٹریلیا میں سیریز کھیلنے اپنی گرل فرینڈ اداکارہ انوشکا شرما کے ساتھ گئے ۔ میڈیا نے اس واقعے کو اس قدر مشہور کیا کہ یہ زبان زد عام ہو گیا ۔ مغرب میں تو یہ بات معمول کا حصہ ہے لیکن بھارت کے روایتی معاشرے میں یہ واقعہ حقیقتاً معنی خیز حیثیت رکھتا ہے ۔

بھارتی معاشرے کی اس تبدیلی نے ہر طبقے کو بھرپور طریقے سے متاثر کیا ہے ۔ ملک میں جنسی تشدد کے حوالے سے ہونے والی بحثیں اور اس قسم کے واقعات کی بے پناہ کوریج کو بھی ایسی ہی ایک کوشش قرار دیا جاتا ہے کہ بہت سی قوتیں بھارت میں سوچ کی تبدیلی اور ایسی بحثیں پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ جو معاشرے کو مروّجہ مذہبی اور ثقافتی روایات سے دور کر دیں ۔بھارت میں جنسی تشدد کے مسئلے کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے ایک نئی تصویری کہانی شائع کی گئی ہے جس کی مرکزی کردار یا 'سپر ہیرو' ایک ایسی لڑکی ہے جو 'ریپ' کے تلخ تجربے سے گزر چکی ہے۔

کچھ سال پہلے تک ہندو انتہا پسند تنظیمیں ویلنٹائن ڈے جیسے مغربی تہواروں کے خلاف احتجاج کرتی اور منانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹتی تھیں ۔ لیکن اب حالات نے خود بھارتی قانون ، عدلیہ اور اداروں کو بعض ایسی روایات کے تحفظ کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جو اس خطے کی ثقافت اورخود ہندو مذہبی نظریات کی عکاس نہیں۔بھارت میں بہت سے نوجوان جوڑے جن کے خاندان والے اور والدین اُن کے جیون ساتھی کے چناؤ سے خوش نہیں ہیں، پولیس کے زیرِ انتظام خصوصی پناہ گاہوں میں آ رہے ہیں۔عدالت نے پولیس کو ایسے جوڑوں کو تحفظ دینے اور اسی مقصد کے لیے بنائی گئی پناہ گاہوں میں رہائش مہیا کرنے کا حکم دیا۔ پچھلے سال ہریانہ میں ایسے دو سو جوڑے تھے جنہوں نے ان پناہ گاہوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں ایک جوڑے کی کہانی بہت مشہور ہوئی جنہیں بمبئی کے 'لو کمانڈوز' نے اُن کے والدین سے بازیاب کروا کر ایک کر دیا ۔ یہ لو کمانڈوز بوڑھے تاجروں اور صحافیوں کا گروہ ہے جو دس سال پہلے نوجوانوں کو قدامت پسند ہندوؤں اور مسلمانوں سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔یہ ہے جدید بھارت کی بدلتی ہوئی روایات کی ایک تصویر!!

بھارتی سپریم کورٹ کا فلم 'پی کے' کے بارے میں فیصلہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جب کسی عدالت نے کٹر مذہبی نظریات کی بجائے ایسا فیصلہ سنایا جو کہ ہندو قدامت پرستوں کے لئے غیر یقینی تھا ۔ ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی فرد کو اپنے مذہب کے بارے میں بتانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔عدالت نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ مذہب اور ضمیر کی آزادی کے ضمن میں 'کسی مذہب پر یقین نہ کرنے کا حق' بھی شامل ہے۔ اس فیصلے کو ماہرین بھارت میں سیکولر حلقوں کے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

بھارت میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مذہب ، مذہبی پیشواؤں ، روایات اور عقائد پر تنقید کی جو مہم جاری ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خالص اسلامی الفاظ ، اللہ تعالیٰ کے ناموں اور دیگر عقائد کو عشقیہ گانوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ اسلامی عقائد اور روایات کو بھی اسی ترازو میں تولا جاتا ہے کہ جس میں ہندومت کی قدامت پرستی ، دقیانوسیت اور فرسودہ رسوم و رواج کو رکھا جاتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر اسلامی عقائد و نظریات کو بھی انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جائے گا تو دیکھنے والوں کے دل سے انکے بارے میں عقیدت و احترام کے جذبات کم کئے جا سکیں گے۔ جی ہاں! یہی وہ مقصد ہوتا ہے کہ جو ان عناصر نے ایسی فلموں کے ذریعے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ عقیدت ختم ہو جائے ، ذاتِ باری پر ایمان اور مقدس ہستیوں کے احترام کو موضوعِ بحث بنا دیا جائے تو یقیناً اس سے مذہب سے دوری اور مکمل بیزاری کی منزل حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بھارتی فلموں میں مقدس اسلامی الفاظ کے استعمال کے بڑے ذمہ دار بھی وہ مسلمان رائٹر اور فنکار ہیں کہ جو بھارتی فلم انڈسٹری میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں ۔ یہ ہی ایسے گانے اور جملے لکھتے ہیں کہ جن سے مقدس الفاظ کی بے حرمتی ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ ایسے بیہودہ فلمی مناظر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ جو اسلام کے طرزِ معاشرت کی کھلی مخالفت ہے۔ کسی فلم کی لو سٹوری بیان کرتے کرتے اس محبت کے کرداروں کو خدا ، قرآنی آیات اور اسلامی القابات کے الفاظ میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ اسلامی سلوگنزاور سمبلز کو گانوں میں ملاکر ان کا تقدس پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے نبی آخرالزماں ﷺکے ماننے والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں، بلکہ کچھ ان حقائق سے لاعلم ہیں تو کچھ جانتے بوجھتے ان ہی گانوں سے تفریح حاصل کررہے ہیں۔

انتہائی معذرت کے ساتھ چند مثالیں صرف اس لئے پیش کی جا رہی ہیں کہ شاید ان کو دیکھ کر ہمارے دینی جذبہ رکھنے والے حلقوں میں کوئی بیداری پیدا ہو۔ وہ اس کو بھی ایک معاشرتی مسئلہ سمجھیں اور کبھی کسی فورم پر یہ بھی بات ہو کہ کس طرح انتہائی خاموشی سے ہمارے دل سے ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآن اور مقدس الفاظ کی عقیدت نکالی جا رہی ہے ۔ ان کو فحش و عریاں مناظر کے ساتھ پیش کرکے کتنا بے قدر کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان الفاظ کے چناؤ سے بھی آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح محبوب و محبت کے تقابل کے لئے اور کتنے غلیظ خیالات کے اظہار کے لئے مقدس اسلامی الفاظ کو استعمال کر لیا جاتا ہے۔

1. اگست 1998ء میں ریلیز کی گئی فلم 'دل سے' کا گانا چھیّاں چھیّاں میں جنت اور آیات کے لفظوں کو کچھ یوں استعمال کیا گیا ہے: ''جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں ، پاؤں کے نیچے جنت ہوگی ....چل چھیّاں چھیّاں ....تعویذ بنا کے پہنو اسے.... آیت کی طرح مل جائے کہیں.... وہ یار ہے جو ایماں کی طرح میرا نغمہ ،وہی میرا کلمہ،وہی....''

2. جولائی 2002ء میں ریلیز کی گئی فلم 'مجھ سے دوستی کروگی'کے گانے کے الفاظ ہیں: ''جانے دل میں کب سے ہے تو ....مجھ کو میرے ربّ کی قسم، یارا ربّ سے پہلے ہے تو...''

3. 2006ء میں کشمیر کے موضوع پر بننے والی فلم 'فنا' میں ایک پہلو یہ تھا کہ تحریک ِآزادئ کشمیر کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی فلم کے ایک گانے میں کہا گیا کہ ''چاند سفارش جو کرتا ہماری....دیتا وہ تم کو بتا ....شرم و حیا کے پردے گرا کے کرنی ہے ہم کو خطا ....سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ ....''اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات ِمبارکہ اور اسماے حسنیٰ کے ساتھ بے ہودہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کے پس منظر میں نازبیا حرکتوں کی عکس بندی ہوتی ہے اور پس منظر میں رقص وسرود کے منظر فلمائے جاتے ہیں۔

4. نومبر 2007ء میں ریلیز کی گئی فلم 'سانوریا'کے گانے کے الفاظ ہیں:'' جب سے تیرے نینا میرے نینوں سے لاگے رے ....تب سے دیوانہ ہوا ....سب سے بیگانہ ہوا ....ربّ بھی دیوانہ لاگے رے (نعوذباللہ) اسی فلم کے ایک اور گانے میں ماشاءاللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ....دل نشیں دلکشی ہو یا جنت کا نور ہو، ماشاءاللہ، ماشاءاللہ، ماشاءاللہ، ماشاءاللہ ....''

5. اکتوبر2007ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'بھول بھلیاں' کا گانا:'' معاف کریں ، انصاف کریں ، ربّ ہو نہ خفا ، جانِ جہاں سے بیگانے ، جہاں سے اب میں ہوں ، جدا جان لیا ہے میں نے ، مان لیا ہے میں نے ، پیار کو اپنا خدا سجدہ کروں میں، پیار کا سجدہ سجدہ کروں میں ، یار کا سجدہ سجدہ کروں، دیدار کا سجدہ''

6. جولائی2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'گجنی' کے گانے کے الفاظ ہیں: ''....کیسے مجھے تم مل گئیں ....قسمت پہ آئے نہ یقین ....میں تو یہ سوچتا تھا ....کہ آج کل اوپر والے کو فرصت نہیں ....پھر بھی تمہیں بنا کے ....وہ میری نظر میں چڑھ گیا ....رتبے میں وہ اور بڑھ گیا....''

7. اگست2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم' بچنا اے حسینو' کا گانا: سجدے میں یوں ہی جھکتا ہوں ....تم پہ ہی آکے رکتا ہوں ....کیا یہ سب کو ہوتا ہے.... ہم کو کیا لینا ہے سب سے.... تم سے ہی سب باتیں اب سے ....بن گئے ہو تم میری دعا ....خدا جانے میں فدا ہوں ....خدا جانے میں مٹ گیا ہوں ....خدا جانے یہ کیوں ہوا کہ بن گئے ہو تم میرے خدا''

8. دسمبر 2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'ربّ نے بنا دی جوڑی' کا گانا ''....تجھ میں ربّ دکھتا ہے کے الفاظ ہیں ....تجھ میں رب دکھتا ہے ....یارا میں کیا کروں ....سجدے میں دل جھکتا ہے ....یارا میں کیا کروں ....''

9. جولائی 2009ءمیں فلمLove Aaj Kal کے لیے بھی کچھ اسی قسم کا گانا 'آج دن چڑھیا' گایا ہے۔جس کے الفاظ ہیں: ''مانگا جو میرا ہے ....جاتا کیا تیرا ہے.... میں نے کون سی تجھ سے جنت مانگ لی ....کیسا خدا ہے تو بس نام کا ہے ....تو ربا جو تیری اتنی سی بھی نہ چلی ....چاہے جو کردے تو مجھ کو عطا ،جیتی رہے سلطنت تیری ....جیتی رہے عاشقی میری....''

10. فروری 2010ء میں ریلیز کی گئی فلم My Name is Khan کے گانے کو بھی پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے: ''اب جان لوٹ جائے ...یہ جہاں چھوٹ جائے ... سنگ پیار رہے ... میں رہوں نہ رہوں ... سجدہ تیرا سجدہ کروں .... میں تیرا سجدہ ...''

11. مارچ 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'پرنس' میں عاطف اسلم نے ایک گانا گایا ہے: 'تیرے لیے۔'اس میں کہا گیا ہے: ''جنتیں سجائیں میں نے تیرے لیے، چھوڑ دی میں نے خدائی تیرے لیے....''

12. جولائی 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلم Once Upon Time in Mumbai کے گانے کے الفاظ ہیں ....''تم جو آئے، زندگی میں بات بن گئی ....عشق مذہب عشق میری ذات بن گئی...''.یہ گانا پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے۔

13. اس کے علاوہ راحت فتح علی خان نے جولائی 2010ء میں ریلیز کی گئی فلم I Hate Love Story کا گانا بھی ملاحظہ کریں ....''صدقہ کیا یوں عشق کا کہ سر جھکا، جہاں دیدار ہوا ، وہ ٹھیری تیری ادا کہ رک بھی گیا میرا خدا....''

حاصل کلام یہ کہ پاکستان کے دینی حلقوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف بھارت میں جاری مذہب اور سیکولرازم کے درمیان کشمکش پر بھرپور نظر رکھیں بلکہ بھارتی فلموں اور دیگر مواقع پر اسلامی نظریات و عقائد کو انتہائی غلط انداز میں پیش کرنے کی کوششوں سے بھی بھرپور آگاہ ہوں۔ زبان کی یکسانیت کے باعث یہ سارا مواد پاکستانی اور دنیا بھر میں موجود اُردو دان طبقے کو پوری شدت سے متاثر کر رہا ہے۔ گانوں کے ان گمراہ کن بولوں کے ذریعے جہاں اہل اسلام عشق ومستی کے دل دادہ ہورہے ہیں، وہاں ایمان ویقین کی لازوال دولت سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں، اور بعض اوقات یہ بول اسلامی عقائد کی توہین اور ذاتِ باری تعالیٰ کی کھلی گستاخی کا بھی مرتکب بنا دیتے ہیں۔ ایسے بولوں کو مسلسل سننے سے انسان فاسق وفاجر ہونے کے ساتھ ساتھ الحاد ودہریت کی گہری کھائیوں میں بھی گر تا چلا جاتا ہے۔

ہمیں اپنی نوجوان نسل اور معاشرے کے ہر طبقے کو وہ فرق سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ جو اسلام کی لازوال الہامی تعلیمات اور ہندو مت کے عقائد میں ہے ۔ اُنہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہندو مت کی قدامت پرستی و مذہبی جنونیت اور اسلامی تعلیمات کو ایک ہی پلڑے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر آج ہندوستانی معاشرے میں مذہب بیزاری کے آثار نظر آ رہے ہیں تو ہرگز ضروری نہیں کہ اسلام کے ماننے والے بھی اسی ڈگر پر چلنا شروع ہو جائیں یا کم از کم ان نظریات سے متاثر نظر آئیں ۔ اس تحریر کا مقصد اس اہم پہلو کی طرف اہل علم و دانش کی توجہ بھی مبذول کرانا تھا ۔ اگر ہمارے سماجی ماہرین ، علماے کرام ، سکالرز اور دیگر اہل دانش اس حوالے سے بھی توجہ دیں تو یقیناً اس سے مثبت تبدیلی آئے گی اور اسلامی معاشرے کو بھارتی ثقافتی اثرات سے محفوظ بنانے میں خاطرہ خواہ مدد ملے گی۔ ٭ ...........٭ ...........٭

فلم 'پی کے 'کی پذیرائی کا دوسرا رخ: اسلامی نظریات کے خلاف ذہن سازی

ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کو عالمی سیاست میں اہم ترین مقام عطا کر دیا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی ، سیاسی یا اقتصادی طاقت کی بجائے میڈیا کو استعمال کرنے لگی ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اب فوجی طاقت کے ذریعے کسی کو غلام بنا دینے کا رواج نہیں رہا بلکہ میڈیا کے زور پر ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ، فلم ٹی وی ، انٹرنیٹ، اخبارات وغیرہ کے ذریعے 'نیوکالونیل ازم ' کا ایک نیا تصور فروغ پا رہا ہے۔ یہ مضمون کیونکہ ایک فلم کے تناظر میں لکھا جا رہا ہے، اس لئے فلم کے انتہائی اثر انگیز ذریعۂ ابلاغ ہونے کا تذکرہ کرنا انتہائی ضرور ی ہے ۔

میڈیا کی ایک اہم ترین تھیوری 'میجک بلٹ تھیوری 'ہے ۔ اس تھیوری کے مطابق میڈیا کسی بھی معاشرے پر گولی کی طرح اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یعنی جیسے کسی ہتھیار سے نکلی ہوئی گولی آناً فاناً ہلاکت و تباہی کا باعث بنتی ہے، اسی طرح میڈیا بھی معاشرے میں ایسا ہی کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ تھیوری جنگِ عظیم کے دوران مغربی ممالک کی جانب سے بنائی جانےوالی فلموں کے اثرات جاننے کے بعد پیش کی گئی تھی ۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم 'پی کے' کی مقبولیت اور بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور دیگر ممالک کے اُردو دان طبقے میں اس کے اثرات کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس فلم کا موضوع 'مذہب 'ہے جو کہ کارپوریٹ کلچر اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی سیڑھیاں چڑھتے بھارت کا ہاٹ ایشو بھی ہے۔ ہندومت نے برصغیر کے مخصوص معاشرتی رویوں کے باعث اس خطے کے بڑے طبقے کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے لیکن اب مغرب اور سائنس کے زیر اثر اُبھرنے والی نوجوان نسل ہندومت کی فرسودہ رسومات ، مافوق الفطرت نظریات اور عجیب و غریب عبادات کو بوجھ سمجھنے لگی ہے اور وہ ہندو سادھوں اور مذہبی پنڈتوں کے طرزِ عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔یہ نسل مذہبی طبقے کی کسی بھی طرح برتری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

اوپر راقم اس ساری صورتحال کا جائزہ پیش کرچکا ہے جو بھارت میں ہندومت اور سیکولرازم کی کشمکش کے حوالے سے جاری ہے ۔ یہاں ہم حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم 'پی کے' کا جائزہ نذرِ قارئین کرتے ہیں جس نے نہ صرف مقبولیت اور کمائی کے ریکارڈ بنائے ہیں بلکہ کئی طرح کی نئی بحثوں کو بھی جنم دیا ہے۔ یوں تو فلم کا ذکر کرنا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے لیکن کوئی ایسی فلم جو بطور خاص مذہب کے موضوع پر ہو اور اس کا دائرۂ اثر بھی غیر معمولی حد تک پھیلتا نظر آرہا ہو، اور اس کی پذیرائی بڑے پیمانے پر کی جارہی ہو تو ایسی صورتحال میں اس کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔

فلم 'پی کے'کی پذیرائی اور مقبولیت نے بہت سے دینی حلقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لاہور کے ایک ایسے ہفت روزہ جہادی اخبار میں بھی اس فلم کا تذکرہ ہوا کہ جو ہندوستان پر تنقید اور ہندومت کا پوسٹ مارٹم کرنے میں شہرت رکھتا ہے ۔ اس فلم کے سبق کو اسلام کی سچائی کی علامت قرار دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ثابت ہو گیا کہ ہندو مذہب کس قدر کھوکھلا ہے اور یہ کہ ہندو مت کے سامنے اسلام کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے اور ساتھ ساتھ احادیث کی روشنی میں اس بشارت کا بھی تذکرہ کر دیا گیا کہ اسلام ہی غالب آئے گا ۔ ایک معروف یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز کے معزّز پروفیسر نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے جب سمیسٹر ختم ہونے کے بعد طلبہ کو اپنے بارے میں فیڈ بیک کے لئے کہا تو کئی نے اپنے فارم میں لکھا کہ '' سر آپ اتنے اچھے ہیں کہ اس 'گولے'کے لگتے ہی نہیں ہیں ۔'' مجھے حیرانی اس وقت بھی ہوئی کہ جب اچھے خاصے دین دار لوگ ایک دوسرے کو یہ فلم ضرور دیکھنے کی تلقین کرتے نظر آئے اور مجھے اپنے ایک معزز دوست کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک بڑے اسلامک سکالر نے اس فلم کو مثبت کوشش قرار دیا ۔ سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے افراد جو کہ اسلام کے نام پر ادا کی جانے والی فرسودہ رسومات اور تصوف کے پردے میں ہونےوالی خرافات پر تنقید کرتے ہیں ، ان کی جانب سے بھی اس سب کے لئے ' رانگ نمبر ' کا تذکرہ سننے کو ملا ۔حتی کہ ایک دینی جماعت کے سرگرم کارکن نے مجھے فخریہ انداز سے بتایا کہ اس نے یہ فلم تین سے چار بار دیکھی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض ' سائبر مجاہد'اس فلم کو اداکار عامر خان کے گزشتہ سال کئے جانے والے حج اور اس دوران ایک نامور پاکستانی تبلیغی عالم دین کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا نتیجہ قرار دیتے نظر آئے۔

میڈیا کی تعلیم اور موجودہ دور میں میڈیا کو معاشرتی تبدیلی کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے حقائق کے پیش نظر ہمیں یہ خیال ستانے لگا کہ چلو کچھ تو اس بارے میں اپنی رائے بھی دی جائے تاکہ بے دھیانی میں ایک خاص رو میں بہہ جانے والے اپنے مخلص احباب کو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آئے۔

سب سے پہلے تو یہ بات کہ ان سب قدردانوں کو اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ یہ فلم جس مسلمان اداکار نے بنائی ہے، اس نے دو نوں شادیاں ہندو عورتوں سے کی ہیں اور اس کے گھر ابھی بھی ایک ہندو بیوی موجود ہے۔بعض حلقوں کے مطابق مسز عامر خان ' کرن راؤ' ملحد بن چکی ہیں ۔ وہی عامر خان چند ایسے سوال جواب جو کہ ان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شیئر کئے گئے تھے، ان کے حوالے سے پاکستانی ویب سائٹس اور اخبارات کو قانونی نوٹس بھیجنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں ۔دراصل ان سوال و جوابات سے ایسا تاثر مل رہا تھا کہ جیسے عامر خان نے اس فلم میں ہندومت پر تنقید کرنے کو جائز جبکہ اسلام کو انتہائی مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس فلم میں ہندومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی حقا نیت ثابت کرنے کے لئے نہیں کیا گیا ۔ بلکہ اس کا واضح مقصد مذہب بیزاری، لادینیت اور سیکولرنظریات کا فروغ ہے ۔بظاہر ہندو پنڈت ، سادھو اور گرو ہدف بنائے گئے ہیں اور یہ فلم ان کی براہِ راست مخالفت پر مبنی ہے لیکن دراصل دیگر تمام مذاہب کے مذہبی رہنما بھی کسی رعایت کے مستحق نظر نہیں آتے۔ بین السّطور میں دیا جانے والا پیغام یہی ہے کہ تمام مذاہب اور دینی اقدار انسانیت کے لئے مضر اور بے فائدہ ہیں ۔ چند جملے اور مناظر تو ایسے ہیں کہ جن کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ خیال رہے کہ یہ جائزہ ہم ایک مسلمان کے طور پر لیں گے اور ایک مسلمان کے لئے اس فلم کے پوشیدہ پیغامات کی اہمیت ومضمرات کو واضح کریں گے...:

1. فلم کا ہیرو عامر خان ایک موقعے پر کہتا ہے کہ ''اللہ کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں ۔'' یہ انتہائی سادہ سا جملہ لگتا ہے ۔ لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ ایک پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوتِ دین سے منسلک اور پیغامِ الٰہی کی دعوت دینے والے تمام علماے دین ،سکالرز اور دیگر افراد ایک فضول اور بے مقصد سرگرمی میں مشغول ہیں ۔ یعنی کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی بات کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اللہ کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے کسی کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس دنیا میں انبیاکی آمد اور ان کے رفقاے کار کی کاوشیں گویا کسی اہمیت کی حامل نہیں ۔ آج کے معاشرے میں بھی سب کو چاہیے کہ وہ 'اپنا اپنا کام ' کریں اور اُنہیں اللہ کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں ۔1

2. فلم میں کئی مواقع پرخدا، رام یا اللہ کے 'مینیجرز 'کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ اس لفظ کا استعمال ہی ایک واضح پیغام ہے کہ دین سے منسلک افراد کو تجارتی اور ذاتی مفادات کے روپ میں دکھایا جائے ۔ اُنہیں اس طرح دیکھا جائے کہ جیسے وہ خدا کے نام پر تجارت اور لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔' مینیجر ' وہ ہوتا ہے کہ جو معاملات طے کرتے وقت اپنی سوچ،مفادات اور طرزِ عمل کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے ۔ اسی طرح مذہب کو بھی'کمپنی 'کہا گیا ہے۔ اسلام کے علماے کرام تو خدا کی طرف بلاتے ہیں، نہ کہ اُس کے نام پر معاملات طے کرتے ہیں ۔ رائے کا اختلاف تو ہے لیکن کبھی کسی عالم دین نے واضح قرآنی احکامات کے مقابل اپنی سوچ نافذ کرنے کی بات نہیں کی ۔ جبکہ نہ ہی عبادات کا کوئی نیا طریقہ لایا گیا ہے۔2

اسی طرح ہندو مت کے سادھوؤں اور گرو حضرات کے طرزِ عمل اور اسلام کے علماے کرام اور سکالرز کو ایک ہی نظر سے دیکھنا انصاف نہیں کیونکہ یہ خود کو خدا کا روپ قرار نہیں دیتے ۔یہ تو خود اسلامی حدود و قیود کے پابند ہوتے ہیں ۔ اسلام میں کہیں ایسا نہیں کہا گیا کہ علما و منتظمین کسی بھی قسم کی جوابدہی سے مستثنیٰ ہیں اور نہ کسی حلقے کی جانب سے ایسا دعویٰ سامنے آیا ہے۔ اسلام کا نفاذ ایک عامی اور عالم پر یکساں طور پر ہوتا ہے۔

3. ایک مو قعے پر مختلف روپ دھارے افراد کو پیش کیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مذہب تو صرف ظاہری روپ کا نام ہے ۔جس نے جو روپ دھار لیا، وہ ہی اس کا مذہب ہو گیا۔ اگر اس اُصول کو ٹھیک مان لیا جائے تو آج کے اسلامی معاشرے کا ایک بڑا طبقہ تو مسلمان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔اسلامی طرزِ زندگی پر مکمل عمل پیرا نہ ہونے والوں اور سنتِ نبوی کے مطابق ظاہری شکل و شباہت اختیار نہ کرنے والوں کو علماے کرام اور بزرگوں کی جانب سے تلقین کی جاتی ہے ، سمجھایا جاتا ہے لیکن اُنہیں کافر تو قرار نہیں دیا جاتا ۔ اسی طرح یہ تصور بھی انتہائی غلط ہے کہ کسی مذہب اورخصوصاً اسلام کی ظاہری شکل و شباہت کو اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام نے فطرت کے تقاضوں اور معاشرتی اصلاح کے لئے ایک مکمل طرزِ زندگی دیا ہے جس میں مرد و عورت کے لئے لباس ، ظاہری شکل و صورت اور دیگر احکامات موجود ہیں ۔ پردے کی پاسداری ، داڑھی کا رکھنا اور لباس کے متعلق احکام شریعت پر عمل پیرا ہونا معاشرتی برائیوں کو روکتا ہے، نہ کہ یہ سب صرف اور صرف ایک الگ شناخت کرنے کے لئے ہیں ۔ ایک ہندو لڑکی صرف برقعہ پہن کر مسلمان قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ مسلمان ہونا تو ان سب احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونا ہے کہ جن کا اللہ تعالیٰ اور نبی ﷺکی جانب سے حکم دیا گیا ہے۔

4. اس فلم میں مذہب پر ایک بنیادی اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ مذہب کی حقیقت ایک خاندانی روایت، اور دین آبا سے زیادہ کچھ نہیں۔ لوگ اسی لیے مختلف مذاہب پر عمل کرتے ہیں کیونکہ انکی نسل و خاندان کا وہی دین ہوتا ہے۔ مذہب کے جواز اور ضرورت کو صرف اس ظاہری پہلو اور خاندانی ٹھپّہ سے منسلک کردینا بھی اسلام کی توہین ہے۔ کیونکہ اسلامی عقیدہ تو یہ ہے کہ آبا ؤ واجداد کے دین کی بجائے اپنی عقل وہوش کو استعمال کیا جائے اور اپنے خالق کی پہچان کی جائے۔ اسکے فرستادہ پیغمبر کی معرفت حاصل کرکے،اسکے مستند احکامات کی پابندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے مسلمان آج اس نظریے کی پاسداری نہیں کرتے، لیکن اس سے ان کا اسلام مشکوک نہیں ہوجاتا بلکہ اُنہیں بھی شعور وبصیرت کو کام میں لانا چاہیے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بھی خاندانی مذہبی روایت کی محض پاسداری کی بجائے انفس وآفاق میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ مذہب کو ایک نسل اور خاندانی روایت قرار دینا اور اسلام کو بھی اس الزام کے تحت گھسیٹ لینا، اسلام پر غلط اور ناروا زیادتی ہے۔

5. ایک موقعے پر عامرخان مندر کے چندہ بکس سے رقم چراتا ہے ، اور منطق یہ دیتا ہے کہ چونکہ اس کا کام نہیں ہوا، اس لئے وہ اپنی رقم واپس لینے آیا ہے ، وہ خدا کے مینیجرز کو یہ رقم استعمال نہیں کرنے دے گا ۔ اس سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ چندے وغیرہ کی رقم جیسے مذہبی رہنماؤں کی ذاتی ملکیت بن جاتی ہے اور اُنہی کے لئے سہولیات کا باعث بنتی ہے ۔ یہ بھی مذہب کی ایک غلط اور محدود تصویر ہے ۔3

اسلام نے چندے اور صدقات و خیرات کے استعمال کا انتہائی شفّاف نظام دیا ہے۔ اس میں بدعنوانی اور ذاتی استعمال کے بارے انتہائی سخت وعید بھی ہے ۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اتنا ہی گناہ گار ہوتا ہے جیسا کہ کوئی عام شخص اگر کسی برائی کاارتکاب کرے ۔ معاشرے میں ایسی مثالیں مل جاتی ہے کہ جہاں عوام کی رقوم کا غلط استعمال ہوتا ہے لیکن ایسا بڑے پیمانے پر ہر گز نہیں ہے۔ علماے دین اور دینی تعلیم و تربیت سے منسلک زیادہ تر قراء و اساتذہ کرام ایک محدودتنخواہ پر کام کرتے ہیں، نہ کہ اس مسجد و مدرسے کے چندے کو ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال میں لاتے ہیں ۔

6. اسی طرح ہندووں کی عبادات کے مافوق الفطرت ہونے ، توہم پرستی اور انسانیّت سوز ہونے کا ذکر کرتے کرتے اسلامی عبادات کو بھی اس تناظر میں بھی دیکھنا انصاف کا تقاضانہیں ہے ۔ ہندو بھرت اور اسلامی روزہ ایک جیسی مذہبی عبادت نہیں ۔ روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ۔ ایک مسلمان کو روزہ رکھ عملی اخلاقیات کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے ، چغلی نہیں کر سکتا ، بد نظری سے مکروہ ہوتا ہے ، گالی گلوچ اس کو متاثر کرتے ہیں ، حرام کی کمائی نہیں کھا سکتا ، جھوٹ بولنے سے مکروہ ہو جاتا ہے ۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے کہ اسلام کا نظام عبادت کس طرح دیگر مذاہب سے مختلف ہے ۔ یہ کسی بھی انسان کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے ہے، نہ کہ ایک راہب اور معاشرے سے کٹا ہوا ایک فرد بنانے کے لئے ۔ یاد رہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پیش نظر فلم کے ذریعے بظاہر تو ہندومت کو ہدف بنایا گیا ہے، لیکن اس کے پس پردہ اور بین السطور پیغام میں اسلامی احکام وروایات کی بھی بیخ کنی کی گئی ہے، جس سے مسلمان ناظرین کا متاثر ہونا ایک لازمی امر ہے۔

7. فلم میں ایسے ڈائیلاگ شامل ہیں جن سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عبادات کے لئے پیسہ خرچ کرنے کی بجائے لوگوں کی مدد کی جائے۔ یہ سب ہندووں کی جانب سے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے کی جانے والی عبادات کے تناظر میں دکھایا گیا ہے ، مثلا ًدودھ پھینکنا وغیرہ ۔ ہمارے ہاں بھی باقاعدہ ایک طبقہ ایسا موجود ہے کہ جو حج و قربانی جیسی عبادات کو ترک کرنے کے لئے یہی دلیل دیتا ہے ۔ اسلام غریب اور نادار افراد کی مدد کرنے کی بھرپور تلقین کرتا ہے لیکن اسکے تحت حج و قربانی جیسی عبادات کو ترک کرنا ٹھیک نہیں ہے ، ان کی اپنی ایک دینی اہمیت ہے ۔ حج اسی پر فرض ہے کہ جو صاحبِ استطاعت ہو اور اسی طرح قربانی بھی ۔ یہ خیال پیش کرنا کہ ان عبادات کو ترک کر دینا چاہیے، اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

8. فلم میں مذہب پر عمل پیرا ہونے کی وجہ خوف کو قرار دیا گیا ہے ۔ عامر خان واضح طور پر کہتا ہے کہ ''جوڈرتا ہے، وہی مندر جاتا ہے ۔'' یعنی مذہب کی پیروی صرف اور صرف خوف کے تحت ہی کی جاتی ہے ۔ اس کے لئے امتحانات کے تناظر میں طلبہ کے خوف کو دکھایا گیا ہے ۔ دراصل ہمارے ہاں بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جس کا موقف ہے کہ لوگ محض جہنم سے ڈر اور جنت کے لالچ میں مذہب کی پاسداری کرتے ہیں ۔ یہ ایک غلط تصور ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام میں نیک لوگوں کے لئے انعامات اور گناہوں کی عادت بنا لینے والوں کے لئے جہنم کی سزا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب انسان کو معاشرے کاایک بہتر اور باعمل فرد بنانے کے لئے ہی تو ہے، نہ کہ کسی مذہبی پیشوا کی خدمت گزاری کے لئے ۔ اسلام ہمیں ایک مضبوط معاشرتی نظام بھی دیتا ہے جس میں تمام کے حقوق اور سب سے مساوی سلوک کی تلقین موجود ہے۔ہمسایوں کے حقوق ادا نہ کرنے والوں کے لئے سزا ہے، بیوی بچوں، رشتہ داروں، حتیٰ کہ غلاموں تک کے حقوق کی پاسداری کرنے کی تلقین ہے اور نہ کرنے کی صورت میں سزا۔ ذرا تصور کریں کہ اسلام کا سزا کا نظام کس قدر منفرد ہے کہ یہ انسان کو دوسروں کے زیادہ قریب کر دیتا ہے اور مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا مقصد ہی دوسرے انسانوں کا فائدہ پہنچانا ہے ۔ اسلام کسی ایسے خوف کا تصور پیش نہیں کرتا کہ جس کا مقصد انسان کو ڈرا کربزدل بنانا ہو بلکہ سزا کا تصور صرف اس لئے ہے کہ زندگی کو بامقصد اور منظم بنایا جا سکے۔مزید برآں عبادات ،حسن اخلاق،صلہ رحمی اور خدمتِ خلق کے ذریعے بھی اسلام انسان کو پرسکون وبااطمینان زندگی کی ضمانت دیتا ہے ۔

9. اسی طرح فلم میں یہ بھی تصور پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چونکہ ہم سب کو بھگوان نے بنایا ہے ، ہم اس کے بندے ہیں، اس لئے وہ اپنے بندوں کو کبھی بھی مشکل میں نہیں ڈال سکتا ،عبادات اور رسوم و رواج کی سختیاں اس کی طرف سے نہیں ہے ۔ یعنی اگر کسی پر کوئی مشکل ہے تو وہ بھگوان کی جانب سے نہیں ہے ۔ یہ تصور بھی انتہائی غلط ہے ۔ اسلام میں واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے بندوں کو آزماتے بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سختی اور تنگی اور اس کے ساتھ عیش و عشرت دے کر بھی اپنے بندوں کو آزماتے ہیں ۔ یعنی یہ سمجھنا کہ جن کے ساتھ خدا راضی ہو، ان کو کوئی مشکل نہیں آنی چاہیے جبکہ اگر کوئی مشکل آجائے تو اس سے خدا کے تصور کو ہی جھٹلانا ٹھیک نہیں ہے ۔ آزمائش کا آنا خدا کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے ۔اور اسی طرح اگر کسی عبادت میں کوئی مشکل نظر آتی ہے مثلا روزہ رکھنا ، حج کے دوران سفر کی صعوبت وغیرہ تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ایسی عبادات ہی ٹھیک نہیں ہیں حالانکہ اس فلم میں ایسا تصور دینے کی کوشش کی گئی ہے۔آزمائشیں اور پریشانیاں، اسلام کی نظر میں انسان کے درجات کی بلندی کے لیے ہوتی ہیں، جس پر بہت سی احادیثِ مبارکہ شاہد ہیں۔

10. فلم کے ایک سین میں مسلمان چرچ میں شادی کے لئے پہنچتا ہے اور وہ ایک ہندو عورت سے شادی کر رہا ہوتا ہے جبکہ آخر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ وہ دنوں اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ اس لڑکی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہوتا ہے کہ جو کٹر ہندو نظریات کی حامل ہوتی ہے ۔ اس سے بھی ایک متنازعہ ایشو کو چھیڑا گیا ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا ۔ عامر خان اور اس جیسے دیگر مسلمان اداکاروں کے لئے تو یہ عام سی بات وہ گی لیکن شریعت کی ذرا سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی فرد اس کو ہرگز ٹھیک نہیں سمجھتا ۔

11. فلم کے ایک سین میں عامر خان شراب کی بوتلیں لیکر مسجد کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس دوران بیک گراونڈ میں ایک قوالی چلائی گئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ '' زاہدشراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر یا وہ جگہ بتا دے، جہاں پر خدا نہ ہو ۔'' ان دونوں باتوں کی غلطی بڑی واضح ہے۔

12. فلم میں متنازعہ مواد کے ساتھ ساتھ دیگر بالی وڈ فلموں کی طرح فحاشی کا عنصر بھی بھرپور موجود ہے ۔ اس فلم کو ہندومت پر تنقید اور مثبت کاوش قرار دینے والوں کو اس بارے بھی ذرا غور کرنا چاہیے۔فلم میں عامر خان انتہائی گھٹیا زبان بولتا ہے جبکہ گالیوں کا بکثرت استعمال بھی کرتا ہے۔ ایک طوائف سے زبان سیکھتا ہے جبکہ 'ڈانسنگ کارز' کو بار بار دکھانے کا مقصد بھی ایک خاص پیغام عام کرنا ہی ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اس فلم کے ذریعے دیگر مذاہب کے شرکیہ عقائد پر کڑی ضرب لگائی گئی ہے اور اسلام میں غلط رسوم ورواج اور بدعات وخرافات پر بھی اس میں شدید تنقید موجود ہے، یہ اس فلم کا مثبت پہلو ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی دعوت کے لیے فلم کا میڈیا کوئی جائزاور مناسب ذریعہ نہیں ہے ۔ مزید برآں اس کے نقصان دہ مضمرات بھی کچھ کم نہیں، جیساکہ ان کی طرف اوپر اشارہ کردیا گیا ہے کہ اس فلم میں ایسے کئی مناظر اور ڈائیلاگ ہیں جن کے ذریعے مذہب ، مذہبی اقدار اور مذہبی طبقے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایسا ہندو مذہب کے تناظر میں کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اس کا مقصد دیگر تمام مذاہب کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے ۔

شاید دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اس بات پر کچھ زیادہ اعتراض نہ ہو کیونکہ ان کے پاس ان سوالات کا جواب ہے ہی نہیں کہ جو اس فلم کے ذریعے اُٹھائے گئے ہیں لیکن الحمداللہ اسلام کا دامن اس حوالے سے خالی نہیں ۔ اسلام کے پاس ایک مکمل ضابطہ حیات اور ایسا عالمگیر نظام موجود ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت کی بھلائی اور پرامن معاشرے کاخواب پورا ہو سکتا ہے ۔ہمیں اس کااحساس کرنے کی ضرورت ہے کہ میڈیا پر پیش کئے جانے والے مواد کے مقاصد کو بھی سمجھا جائے تاکہ اسکے پوشیدہ پیغامات کے اثرات سے آگاہی ہو سکے۔حوالہ و حواشی

1. یہ بات اپنے ظاہری معنیٰ کے لحاظ سے تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی مدد یا عبادت کی کوئی ضرورت نہیں، تاہم اس کے باوجود قرآنِ مجید انصاراللہ بننے کی تلقین کرتا ہے، عیسائی اپنے آپ کو نصرانی اور مدینہ منورہ کے مسلمان اَنصار کہلاتے ہیں۔ اس لحاظ سے انصار کی نسبت حقیقت سے بڑھ کر اسی طرح کی ایک عزت افزائی ہے ، جیسے بیت اللہ کو اللہ کا گھر ، محرم الحرام کو اللہ کا مہینہ قرار دے کر، اُن کے مقام وفضیلت کو نمایاں کیا گیا ہے، جبکہ اللہ عزوجل کو کسی گھر یامہینہ کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہی صورتِ حال سیدنا عیسیٰ کو روح اللہ اور قوم ثمود کی اونٹی کو ناقۃ اللہ قرار دینے میں ہے۔ اس بنا پر جب اللہ تعالیٰ نے عزت افزائی فرمائی تو انصار اللہ بننا ایک بڑی سعادت کا کام ہوا، جو مبارک ترین فرض ہے۔ ح م

2. یہ درست ہے کہ اسلام میں کسی مذہبی پیشوائیت کی کوئی گنجائش نہیں، اور اسلام ، یہودی وعیسائی اَحبار ورہبان کی شدید مذمت کرتا ہے۔لیکن علما وفقہا کا اسلام میں خاص مقام ومرتبہ ہے، اور دین کے بہت سے معاملات کے لیے ان کی طرف رجوع کیے بغیر چارہ نہیں۔ مثلاً دینی احکام کا کسی مخصوص صورتحال پر اطلاق جسے فتویٰ کہتے ہیں، بزبانِ قرآن اہل الذکر کی رہنمائی کا ہی محتاج ہے۔ تاہم یہ پیشوائیت ذاتی فضیلت کے بجائے، اس علم وبصیرت کی طرف لوٹتی ہے جس کا کوئی عالم دین حامل ہوتا ہے۔ غلط پیشوائیت جیسے مینیجرز یا ملّا کا نام دیا گیا اور درست رہنمائی جو علماے حق کرتے ہیں، میں حد امتیاز؍ فاصل یعنی کتاب وسنت کی اتباع کی پرواہ کیے بغیر، ہردو کو یکساں اور قابل مذمت قراردینا، دینی رہنمائی کو ہی سرے سے مشکوک وغیر معتبر بنا دیتا ہے۔ دین میں ہر ایسا کا م جو کوئی مذہبی پیشوا اپنی طرف سے اضافہ کرے ، وہ بہر حال قابل مذمت ہے۔ اس بنا پر ہر عالم دین کو کاروباری مینیجرز کی فہرست میں شمار کرنا سراسر زیادتی اور عصر حاضر میں دین کے پیغام کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ ح م

3. اس طرح دینی صدقات وخیرات کو خالصتاً ایک کاروباری ڈیل اور لین دین کا معاملہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ تصور دیا گیا ہے کہ اسی انسان کو صدقہ دینا چاہیے جس کی ادائیگی کے بعد اس کے دنیا کے مسائل ختم ہوجائیں، بصورتِ دیگر یہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی بجائے کسی مذہبی پیشوا کی جیب کی نذر ہورہا ہے۔اس تصور کو مان لیا جائے توپھر صدقہ وخیرات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، اور اسلام کا نظام زکوٰۃ وصدقات ختم ہوکررہ جاتا ہے۔ جب کہ اسلام تو صدقہ وخیرات کو ایک عظیم نیکی قرار دیتا اور آخرت میں پہاڑ کی مثل بدلہ ملنے کی غرض سے اس کی تلقین کرتا ہے۔ ح م