خدا کی جتنی مخلوق ہے قدرتی توالدوتناسل کےسوااور کسی بھی معاملہ میں وہ ایک دوسرےکی محتاجی نہیں ہے اورنہ ہی وہ قدرتی توافق کے سوا کسی دوسرے اختیاریاور شعوری وحدت کا اساس رکھتی ہے.......لیکن انسان کا معاملہ ان سب سے جدا ور مختلف ہے کیونکہ ساری دنیا میں صرف اس کومرکزی حیثیت حاصل ہے اس کے دوش ناتواں پر دونوں جہاں کا بوجھ ہے....دنیا کی فلاح وبہبود کی ذمہ داری اور اخروی سعادت کے حصول کا فریضہ.....ظاہر ہے یہ دونوں طویل منزلیں اور عظیم مہمیں کسی فردواحد کے بس کا روگ نہیں ہیں سارے مل کر اس کو سرکرنے کےلیے سنجیدہ کوشش کریں تو مہم سرہوگی ورنہ نہیں....باقی رہی جوں توں کرکے پار ہونے والی بات؟سودہ ابن آدم کے مقام ومرتبہ سے فردتربات ہے شایان شان نہیں ہے ۔اور نہ ہی یوں وہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں جواس عظیم ہستی کے سامنے ہیں۔
یہ بھی یادر ہے کہ:ایک انسان ناطق ہی سہی بہرحال حیوان بھی ہے اس لیے اگر خالق کائنات کی طرف سے اس کو وہ مشعلیں مہیا نہ کی جاتیں جن کی روشنی میں انسانیت اور اس کی منزل اس پرروش ہوسکتی ہے تو اس کے بہیمی تقاضے اسے جانورہی رکھتے جوکتنے ہی طبعی اتفاق اور قدرتی توافق کے مالک ہوتے بہرحال کارجہاں ''چلانے کے لیے قطعا کافی نہ ہوتے۔ان کی تعمیر کےدائرے سے ان کی تخریب کاری کہیں زیادہ رہتی شاید ان کی ساری تگ ودوپیٹ کے محور پرگھومتی اور بالکل کولہوکےبیل کی طرح ساری عمرسفر رکھنے کے باوجود وہاں رہتے جہاں سے وہ کبھی اٹھتے خداکے نام پر ہزاروں لات وعزٰی بھی تلاش کرلیتے لیکن خدابہرحال انھیں نہ ملتا۔بہرحال نوع انسان کی اٹھان ایک ایسی ملت انسانیہ کے ساتھ ہوتی تھی جو حق تعالیٰ سے پرگروام حیات لےکراٹھی تھی اورچاردانگ عالم چھاگئی تھی جزوی اور اکاد کا انفرادی فروگذاشتوں کے سوا باقی ساری ملت ایک جمعیت ''بن کررہی اور ایک امت مسلمہ کے طور پرزندہ رہی۔جب اس کی حیثیت میں زوال آیا توحق تعالیٰ نےاصلاح حال کے لیے انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام مبعوث فرمائے تاکہ ان کو حق پر مجمع رکھےان کے بحروبر میں انتشار افتراق کی جو لہریں اٹھنے لگی ہیں ان کو دبادیں اور حق پر متحد رہنے کی برکات اورافتراق کی جاں گسل مضرت سےان کو آگاہ کریں۔
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ(سورة البقرة:213)وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا (یونس :آیت19)
قرآن کےاس انکشاف سے واضح ہوتا ہے کہ:۔
خدا کو بھی ملت انسانیہ کی وحدت مطلوب ہے لیکن جب کہ اس کی اساس اسلامیہ ہو یعنی اسی وحدت کی عمارت حق کی بنیادوں پر اٹھائی جائے کیونکہ نوع انسانی کےلیے دیر پااورنفع بخش یہی شے ہوتی ہے باطل ریت کی اساس کی اساس ثابت ہوتا ہے جوخطرے سے خالی نہیں ہوتی۔
(كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ)(سورۃ الرعد:آیت 17)
اس لیے فرمایا :اب اللہ کی رسی (کتاب اللہ) کے گرد جمع ہوجاؤ اس سے ادھرادھر سے پرہیز کرو'کیونکہ اس سے پرے آگ ہی آگ ہے دوزخ کی آگ خود غرضیوں کی آگ اور غارت گر انسانیت فتنوں کی آگ جن سے تمھیں پہلے نجات دلائی گئی ہے۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ(سورۃ آل عمرآن:آیت103)
یہاں پر جمیعا(سارے)کالفظ ذکر کیاگیا ہے۔یعنی حق سے جووابستگی نوع کےانسان کے لیے رحمتوں اوربرکات کا موجب ہوتی ہے وہ صرف وہی ہوتی ہے جواجتماعی حیثیت سے ہوتی ہے انفرادی وابستگی کی برکات کا دائرہ بھی افراد تک ہی محدود رہتا ہے بسااوقات اجتماعی بے تعلقی کی نحوست کی وجہ سے افراد بھی ان فیوض وبرکات سے رہتے ہیں جو ان کا حصہ ہوسکتے ہیں وحدت کےلیے حق اور جوبھی بنیاد مہیا کی جاسکتی ہے وہ فرد واحدیا ایک ٹولہ کے وہ نجی اغراض ہوسکتےہیں جن کی قدریں عموما بدلتی رہتی ہیں اورمحدو داور عارضی مصالح ہونے کی بنا پر ان سے صرف محدود اورشاطر طبقہ ہی مخلوط ہوتا ہے دوسرا صرف موہوم امیدوں کے سہارے جیتا ہے یاسبز باغ دکھانے والوں کےلاروں پر.....بہرحال ان سے نوع انسان کی حیثیت سے پوری ملت انسان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جتنی ہوتی ہے اس کی حیثیت صرف سراب کی ہوتی ہے اروبس۔
کسی آمر کوشکست دینے کے لیے اگر آمریت کے بجائے اس کی ذات ہے توبھی غلط ہےاگر آمریت ہے لیکن پوری اپوزیش یاقوم اس سلسلے میں متفق نہیں ہے تو بھی کامیابی مشکل ہے۔قرآن کا نقظہ نظریہ ہے کہ:۔
نوع انسان کو وحدت کا حامل ہونا چاہیے لیکن بھلے انسانوں کی طرح اور بھلے مقاصد کے لیے ڈاکووں اورچور کی جمعیت کتنی ہی مستحکم ہو قابل رشک نہیں ہوتی اورنہ ہی اس سے نیط توقعات قائم کی جاسکتی ہیں۔
قرآں نےاس حقیقت کو یہاں بیان کیا ہے:۔
إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (92) وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ(سورۃ الانبیاء:آیت 92)
حق تعالیٰ فرماتے ہیں :ان کے باہمی اختلاف اندورنی انتشار اورافتراق کا فیصلہ اس حق کے مطابق کریں جو ہم نے نازل کیا ہےان کی اکثریت یابااثر اقلیت کی خواہشات کے کا مطابق ان کی اصلاح حال کی کوشش نہ کیجیے کیونکہ یہ انداز مزید فتنوں کا پیش خیمہ ہے ثابت ہوتا ہے۔
وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ(سورۃ المائدۃ:آیت 49)
اگر وہ لوگ اس پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے تو پھر وہ جانین کوئی آفت ہی ان کی آنکھیں کھولے گی۔
فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ(سورۃ المائدۃ:آیت 49)
تمھیں حق کا دامن تھام کر رہنا چاہیے اس سلسلے میں اختلاف کیا تو تمھاری ہواکھڑجائے گی'حق کے سوا اورجس بھی نعرہ کو اپنے اتحاد کی بنیاد بناؤ گےوہ موثر ثابت نہیں ہوگی۔
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ(سورۃ الانفال:آیت46)
جولوگ اس اساس حق کے سوا اتحاد کرکے پھولے نہیں سماتے وہ نادان نہیں سمجھتے کہ وہ اور کسی گھیرے میں گھرنے والے ہیں۔
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ(سورۃ الانفال:آیت47)
وحت ملی کا تصور جتنا دلچسپ اور دلفریب ہے اتنا بڑے ایثار کا طالب بھی ہے ۔ اس کے لیے خود محنت کرنا ہوگی یہ بات بنی بنائی نہیں ملاکرتی ہاں جولوگ اس سے ہمکنار ہوجاتے ہیں وہ رحمتوں سے بھی ہم آغوش ہوجاتے ہیں۔
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (118) إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ(سورۃ ھود:آیت118تا119)
اس اختلاف سے نکال کر ملی وحدت سے ہم آغوش کرنےکے لیے ضروی ہے کہ انداز حکیمانہ اور مشفقانہ ہو ایسا نہ ہوکہ پہلے انھیں گالیاں دی جائیں پھر انھیں دوستی کے لیے دعوت دی جائے۔
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ(سورۃ النحل:آیت 125)
حق ایک ایسی شے ہے جس سے فطری طور پر تو کسی کو بھی چڑ نہیں ہوسکتی لیکن اس سے وہ لوگ ضرور انحراف کرتے ہیں جوباہم کدورت رکھتے ہیں اس لیے ایک کے آجانے پر دوسرا دوسری راہاختیار کرلیتا ہے اگر علاج کرنا ہے توبس اسی خود غرضی اورباہمی عداوت کا کیجیے۔
وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ(سورۃ البقرہ:آیت223)
جولوگ حق کے لیے باہمی منافرت سے بالاتر ہو کر ملت کی یکسوئی ارووحدت کے متحد ہوجاتے ہیں وہی صراط مستقیم بھی پالیتے ہیں۔
فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ(سورۃ البقرہ:آیت223)
ملت انسانیہ کی اس وحدت کا ظہور اسلام کے اصولوں کےمطابق ممکن ہے اس لیے ملت اسلامیہ اس امر کی مکلف ہے کہ وہ خود بھی متحد رہے اور پوری نوع انسانی کو اس دائرہ میں جذب کرنے کی کوشش کرے۔اگر خود انتشار کا شکار ہوگی تو دسرے اس کا درس دینامشکل ہوگا۔ہمارے نزدیک اس کی صورت یہ ہے کہ:
تمام عالم اسلام کو ایک خلیفہ واحد کے تحت منظم کیا جائے اور ان تمام مختلف ممالک کا دارالخلافہ مکہ مکرمہ کو قرارد یاجائے اور جتنے جداگانہ جغرافیائی خطے ہیں ان میں سارے حکمران خودمختار سربراہوں کی بجائے مرکزی حکومت کے نمائندےکی حیثیت سے کام کریں ۔تعددخلفاء کے جواز کا نظریہ ہمارے نزدیک ملت اسلامیہ کوچھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرنے کاباعث ہے بلکہ روح اسلام کے بھی خلاف ہے ۔اگر ایک مسلم محض جغرافیائی اروعلاقائی اختلاف کی بناپر منقسم ہوسکتا ہے تو غیر مسلم کو اس حق سے کون روک سکتا ہے ۔پھر اسکے بعد ملت انسانیہ اسلامیہ کیسےمشہور اورموجود ہوسکے گی۔
ملی وحدت بمعنی ملت اسلامیہ کی وحدت دراصل نوع انسانی کو ملت انسانیہ اسلامیہ سے متشکل کرنے والی ایک نمائندہ جماعت کا مفہوم ہے اس وحدت کو صرف ملت اسلامیہ تک محدود رکھنا اس ناقص مفہوم ہے غرض یہ کہ:سارے انسان ایک مسلم کی حیثیت سے ایک جمعیت بن جائیں یاکم ازکم طبقاتی اروفرقہ وارنہ کشمکش سے محفوظ ہوکر ایک قابل احترام انسانی برادری میں منسلک ہوجائیں تاکہ ایک دوسرے کو گھورنا چھوڑیں۔