فتاوی

لاہور سے جناب شفیق الرحمان لکھتے ہیں :
''مکرمی ، السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاته!
سبزیات ، فصلات و باغات کو تو انسانی فضلہ کی ''خوراک'' دےکر اس کا بدل، استحالہ(Metamorphism) بطور سبزی، اناج، پھل وغیرہ کھانا جائز ہے۔کیا اسی طرح سے :
1. ماکول اللحم جانوروں کو حرام و خبائث پر مشتمل خوراک کھلا کر ان کی پرورش کرنا، ان کی فربہی حاصل کرنا او رانہیں کھانا جائز ہے؟ پولٹری فارم میں استعمال ہونے والی پولٹری فیڈ (مرغیوں کی خوراک)کا غالب حصہ مردار پرمشتمل ہوتا۔مثلاً کوئی بھینس (خصوصاً کسی مرض سے) مرگئی۔اس کی کھال اتاری او رباقی تمام میت کوکسی نہ کسی طرح پیس کر کچھ اور چیزیں ، جن میں بساند والی مچھلی کا چورا(Fish Meal) اور مذبحہ سے حاصل شدہ کثیر مقدار میں دم مسفوح کے لوتھڑے (Blood Meal) بھی شامل ہیں، اناج میں ملا کر اسےبطور مرغیوں کی خوراک کے استعمال کرتے ہیں۔ مرغیوں کی خوراک سے مخصوص بُو بھی اسی وجہ سے آتی ہے۔اس کے علاوہ پولٹری فارمنگ میں او ربہت سے کام ایسے کیےجاتے ہیں مثلاً ''ہوائی'' انڈے، چونچیں کاٹناوغیرہ۔ جن کاجواز محل نظر معلوم ہوتاہے۔=یاد رہے کہ ماکول اللحم انواع حیوانات میں سے پولٹری (مرغی، بطخ)ہی ایسی واحد نوع حیوان ہے، جسے نجی شعبہ میں بڑی کامیابی او روسعت سے اپنایا جاتا ہے۔غیر ممالک میں تو گندگی کے ڈھیروں پرمکھیوں کی بہت زیادہ افزائش کرکے ان کے لاروے او ریہ خود مکھیاں بطو رلحمیاتی اور بڑھوتری والی خوراک کے مختلف عمر کے چوزوں کو کھلائی جاتی ہیں۔

براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ ان حالات میں پاکستان میں فارم کی مرغیوں کا گوشت کھانا نیز پولٹری فارم کی ملازمت کرنا کیسا ہے؟ کیا انہیں بھی مندرجہ بالا نباتات پر قیاس کرکے کھاتے رہنا درست ہے؟

2. آم کی اعلیٰ نسل و زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے، مذبحہ کے دم مسفوح کو مصرف میں لانے کاشرعی حکم کیا ہے؟ بینوا توجروا
شفیق الرحمٰن
وٹرنری آفیسر
متعلم ایم۔ایس سی۔ (آنرز۔میڈیسن)

الجواب بعون للہ الوھاب:
اس سوالنامہ میں سائل نے خود ہی ایک بنیاد فراہم کی او راسے شرعاً درست قرار دیاہے، پھر اسی بنیاد پرچند سوال اٹھائے ہیں، سائل کی فراہم کردہ بنیاد یہ ہے کہ:
''سبزیات، فصلات او رباغات کو انسانی فضلہ کی خوراک دے کر اس کا بدل، استحالہ بطور سبزی، اناج، پھل وغیرہ کھانا جائز ہے۔''

اس بنیاد پر سائل نے دو سوال اٹھائے ہیں۔ہم جوابی سہولت کی خاطر پہلے سوال نمبر 2 سے تعرض کرتے ہیں جو یہ ہے کہ:
''............... تو کیا اس طرح آم کی اعلیٰ نسل یا زیادہ پیداوار حاصل کرنےکے لیے مذبحہ کے دم مسفوح کو مصرف میں لانادرست ہے؟''

اب دیکھئے یہ سوال دراصل یوں بنتا ہے کہ باغات کو انسانی فضلہ دے کر پھل حاصل کرنا تو شرعاً درست ہے، مگر کیا آم کی اعلیٰ یازیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیےدم مسفوح کا استعمال بھی درست ہے؟ گویا بنیاد میں اگر باغات کا لفظ آیا ہے تو سوال میں آم کا ہے او ربنیاد میں انسانی فضلہ کاذکر ہے تو سوال میں دم مسفوح کا۔ ہمارے خیال میں باغات او رآم میں فتویٰ کے لحاظ سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ رہا انسانی فضلہ اور دم مسفوح کا تقابل ، اگرچہ یہ دونوں اشیاء انسانی خوراک کے لحاظ سے حرام ہیں مگر اس حرمت کا اطلاق نہ زمین کے لیے ہوسکتاہے او رنہ باغات یا آم کے درخت پر۔کیونکہ یہ اشیاء کسی شرع کی مکلف نہیں ہیں او رانسانی فضلہ اور دم مسفوح میں فر ق یہ ہے کہ دم مسفوح کی نسبت انسانی فضلہ زیادہ نجس، ناپاک او ربدبودار ہوتا ہے، لہٰذا اگر زیادہ پیداوار حاصل کرنےکے لیے انسانی فضلہ کو استعمال میں لانا شرعاً درست ہےتو دم مسفوح کا استعمال، بدرجہ اولیٰ درست ہونا چاہیے۔

اب ہم سائل کے پہلے سوال کی طرف آتے ہیں، جو دراصل ایک سوال نہیں بلکہ کئی سوالوں کا مجموعہ ہے۔سہولت تفہیم کی خاطر ہم انہیں شق الف، ب، ج کی صورت میں پیش کرتے ہیں:

(الف) سوال کے پہلے حصہ کی عبارت یوں بنے گی کہ:
''سبزیات ، فصلات و باغات کو تو انسانی فضلہ کی خوراک دے کر اس کا بدل(استحالہ) بطور سبزی، اناج او رپھل وغیرہ کھانا جائز ہے، تو کیا اسی طرح سے ماکول اللحم جانوروں کو حرام و خبائث پرمشتمل خوراک کھلا کر ان کی پرورش کرنا اور انہیں کھانا جائز ہے؟ کیا انہیں بھی ان نباتات پر قیاس کرکے کھاتے رہنا درست ہے؟''

اب دیکھئے مٹی کا کھانا تو حرام ہے تاہم یہ ایک پاک چیز ہے، ناپاک نہیں۔ پھر یہ دیکھئے کہ کوئی بھی حرام یا ناپاک او رنجس چیز ، جوکچھ عرصہ سطح زمین پرپڑی رہے یازمین میں دفن کردی جائے تو وہ مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جاتی ہے۔ او رجب مٹی بن جاتی ہےتو اس صورت میں یہ چیز ، مثلاً انسانی فضلہ، ناپاک نہیں رہتا، بلکہ مٹی کے حکم میں داخل ہوجاتا ہے۔ذرا اس تعفن کو ذہن میں لائیے جوانسانی فضلہ کے زمین پر پڑنے پھر پانی کے شامل ہونے اور پھر اوپر سے سورج کی گرمی پڑنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔لیکن جب ایسی نجس و ناپاک چیز کے اجزاء زمین میں مل کر مٹی بن جاتے ہیں تو اسی مٹی سے استنجا کرنا بھی درست ہوتاہے یعنی وہی مٹی جو انسانی فضلہ کے بدل میں بنی تھی، اب پھر انسانی فضلہ کی نجاست دور کرنے کے کام بھی آنے لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اب اس پرمٹی ہی کے احکام صادر ہوں گے۔بالکل اسی طرح ماکول اللحم جانور خواہ کتنی ہی نجس و ناپاک یا حرام چیز کھا جائیں، جب ایسی غذا کے اجزا، ماکول اللحم جانور کےگوشت پوست میں بدل جائیں گے تو ان پرماکول اللحم جانور کے احکام صادر ہوں گے۔ان کاگوشت اور ہر ایک کھانے کے قابل حصہ بالکل حلال و طیب قرار پائے گا۔ خواہ یہ جانور پہلےغلاظت او ردم مسفوح ہی کھاتا رہا ہو او راس حرام یاخبیث خوراک کا، جس سے اس ماکول اللحم جانور کا گوشت پوست بنا ہے، قطعاً خیال نہ کیا جائے گا۔پھر جس طرح ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ انسانی فضلہ یامردار جب مٹی کی شکل اختیار کرتا ہے تو یہ تبدیلی طبعی ہوتی ہے یاکیمیائی، اسی طرح ہمیں یہ سوچنے کی بھی قطعاً ضرورت نہیں کہ ماکول اللحم جانور کاگوشت جن حرام یا ناپاک چیز سے بنا ہےتو آیا یہ تبدیلی طبعی ہے یاکیمیائی؟ یہ تبدیلی جیسی بھی تھی، جب یہ غذا ماکول اللحم جانور کےگوشت پوست میں تبدیل ہوگئی، تو اس کاکھانا او رکھاتے رہنا شرعاً بالکل درست ہوگا۔

(ب) دوسرا جزوی سوال یہ ہے کہ :
''یاد رہےکہ ماکول اللحم حیوانات میں پولٹری (مرغی، بطخ)ہی ایسی واحدنوع حیوان ہے جسے نجی شعبہ میں بڑی کامیابی اور وسعت سے اپناییاجاتا ہے۔ غیر ممالک میں تو گندگی کے ڈھیروں پرمکھیوں کی بہت زیادہ افزائش کرکے ان کے لاروے اور یہ خود مکھیاں بطو رلحمیاتی اور بڑھوتری والی خوراک کے مختلف عمر کے چوزوں کو کھلائی جاتی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں فارم کی مرغیوں کا گوشت کھانا کیسا ہے؟ نیز پولٹری فارم کی ملازمت کرنا کیساہے۔''

ا ب دیکھئے کہ دور نبویؐ میں جب شریعت نازل ہورہی تھی، اس وقت کی مرغیاں بھی غلاظت کھا جایاکرتی تھیں اوردم مسفوح کو بھی نہ چھوڑتی تھیں۔اس کے باوجود شریعت نے مرغی کو ماکول اللحم جانور قرار دیا ہے ۔کسی صحابیؓ کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ غلاظت کھا جانے والا جانور حلال کیسےہوگیا؟ اس صورت میں او راس صورت میں جو سائل نےبیان فرمائی ہے، اگر کچھ فرق ہے تو یہ کہ دور نبویؐ کی مرغیاں غلاظت یادم مسفوح خود کھاتی تھیں اور آج کے پولٹری فارم میں انہیں یہ غذا قصداً کھلائی جاتی ہے۔یا اُس دور میں جو کچھ وہ کھاتی تھیں وہ تھوڑی مقدار میں ہوتا تھا، لیکن آج انہیں زیادہ مقدار میں ایسی خوراک کھلائی جاتی ہے، تاہم اس قسم کی حرام اور گندی خوراک سے گوشت بن جانےکے بعد جیسے مرغیاں اس دور میں حلال تھیں، آج بھی اسی قاعدہ کے مطابق ضرور حلال ہونی چاہیئیں۔کسی مسلمان کو شریعت مطہرہ نے ہرگز اس بات کا مکلّف نہیں ٹھہرایا کہ وہ یہ بھی ملحوظ رکھا کرے کہ ماکول اللحم جانوروں کاگوشت جس غذا سےبنا تھا، وہ کیسی تھیں؟ وہ پاک اور حلال تھی یا حرام اور گندی؟ کیونکہ شرعی تکلیفات کےمکّلف تو صرف جن و انس ہیں۔باقی اشیاء مثلاً زمین، درخت یا کسی ماکول اللحم جانور کےمتعلق یہ خیال کرنا کہ اس کی غذا حلال تھی یا حرام؟ ایک بےمعنی سی بات ہے۔لہٰذا ہمارےنزدیک نہ تو پولٹری فارم کی مرغیوں کا گوشت کھانے میں شرعاً کوئی قباحت ہے او رنہ ہی پولٹری فارمنگ کی ملازمت کرنے میں۔

(ج) سائل کا تیسرا جزوی سوال یہ ہےکہ:
''اس کے علاوہ پولٹری فارمنگ میں او ربہت سی ایسے کام کئے جاتے ہیں۔ مثلاً ہوائی انڈے، چونچیں کاٹنا وغیرہ۔ جن کا جواز محل نظر معلوم ہوتا ہے۔''

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہوائی انڈے حاصل کرنا بھی دراصل زیادہ خوراک حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔پھر اگرزمین کو انسانی فضلہ یا مصنوعی کھادوں کی خوراک دے کر اس سے زیادہ یااعلیٰ قسم کی پیداوار حاصل کرنا جائز ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ درختوں اور ماکول اللحم جانوروں کو مصنوعی خوراک دے کر یا مصنوعی طریقے عمل میں لاکر، ان سے زیادہ خوراک یا اچھی خوراک حاصل کرنا ناجائز ہو۔ ہمارے خیال میں پیوند کاری کے ذریعہ اچھی او ربہتر خوراک یا پھل حاصل کرنا، جانوروں سے ہوائی انڈے حاصل کرنا اور نسل کشی کے ذریعے عمدہ جانوروں کی افزائش نسل کرنا یہ سب کچھ جائز ہے۔ کیونکہ ان میں سے کوئی چیز بھی شرعاً مکلف نہیں ہے۔ ہاں یہی نسل کشی کا عمل جب انسان کی نوع پر کیاجائے گا ، خواہ یہ اولاد حاصل کرنے کے لیے ہو یا زیادہ بہتر اولاد حاصل کرنےکے لیے، تو یہ سب کچھ ناجائز او رقطعی حرام ہوگا۔کیونکہ انسان شرعی لحاظ سے ایک مکلف مخلوق ہے۔

دور نبویؐ میں صحابہ کرامؓ پیوندکاری کے ذریعہ بہتر او رزیادہ کھجور حاصل کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذاتی رائے کی بناء پر صحابہؓ کو اس پیوند کاری سے منع کیا تو اس حال میں پھل ناقص بھی آیا اور کم بھی۔ صحابہؓ نے جب یہ صورت حال رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کی تو آپؐ نے فرمایا:
''أنتم أعلم بأمور دنیاکم'' 1
''تم دنیا کے معاملات بہتر جانتے ہو۔''

چنانچہ صحابہؓ نے آئندہ سے پھر پیوندکاری کاعمل شروع کردیا۔

اسی طرح دور نبویؐ میں نسل کشی کاعمل بھی ہوتا تھا۔ آپؐ نے نسل کشی سے قطعا منع نہیں فرمایا۔البتہ کسب الفحل سےضرور منع فرمایا ہے یعنی اچھی قسم کانر رکھنے والے کے پاس اگر کوئی شخص ملاپ کے لیےمادہ لائے، تو نر کا مالک مادہ کے مالک سےملاپ کی اجرت وصول نہ کرے۔رسول اللہ ﷺ کا صرف ایسی کمائی سے منع فرمایا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نسل کشی کاعمل فی نفسہ جائز ہے۔

رہا چونچیں کاٹنےکا عمل تو یہ اس لیےکیا جاتا ہے کہ لحمیاتی خوراک کثیر مقدار میں کھلانے سے جانوروں میں دوسرے جانوروں کوچونچیں مارنے اور کاٹ کھانے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اس کا علاج یہ سوچا گیا ہے کہ چونچ کے نچلے جبڑے کا کچھ حصہ کاٹ دیا جاتاہے۔یہ عمل بھی شرعاً ناجائز نہیں قرار پاسکتا۔ اگر کسی جانور کو کسی مصلحت کی خاطر خصی کردینا یا داغنا جائز ہے، تو کسی دوسرے جانور کاکسی مصلحت کی خاطر چونچ کا نچلا حصہ کاٹ دینا بھی جائز ہوسکتاہے۔ یاد رہے کہ یہ چیز خلق اللہ کی تغییر میں شامل نہیں، کیونکہ اس طرح چونچ کاٹنےکاعمل کسی کو نظر نہیں آتا، نہ اس میں خوبصورتی کا کچھ تعلق ہے اور اس عمل میں شرک کاکوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں پایاجاتا ، جس سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے۔

چند مزیدوضاحتیں:
جہاں تک سائل کے سوالات او ران کےجوابات کا تعلق تھا وہ تو ہوچکے۔اب میں قارئین کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے سوالات عموماً حد سے زیادہ احتیاط کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی احتیاط جس کے لیےمسلمان ہرگز مکلف نہیں ہوتے۔صحیح بخاری ، کتاب التوحید ، باب السوال باسماء اللہ میں مذکور درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے:
''عن عائشة ، قالت : قالوا یارسول اللہ إن ھنا أقوا ماحدیثا عهدھم بشرك یأ توننا بلحمان لاندري یذکرون اسم اللہ علیھا أم لا؟ قال اذکروا أنتم اسم اللہ ثم کلوا''
''حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ، لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:''یارسول اللہ ﷺ! یہاں چند ایسے آدمی ہیں کہ ابھی ابھی ان کاشرک کا زمانہ گزرا ہے۔وہ ہمارے پاس کٹا ہوا گوشت (بیچنے کو )لاتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے اس پراللہ کانام لیا یا نہیں؟'' آپؐ نے فرمایا:''تم خود اللہ کا نام لے کر کھا لیا کرو۔''

اب دیکھئے، رسول اللہﷺ نے سائلین سے یہ نہیں فرمایاکہ یہ حلال حرام کامعاملہ ہے، کوئی معمولی بات نہیں۔ لہٰذا اس بات کی پوری تحقیق کرکے کھانا چاہیے۔ بلکہ آپؐ نے اشتباہ کے بجائے اباحت کے پہلو کو ملحوظ رکھا اور مزید تسلی کے لیے خود اللہ کانام لینے کا حکم دیا۔

اب دور فاروقی کا ایک واقعہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ خود حضرت عمرؓ ایک دفعہ سفر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھایک تالاب کے قریب اترے۔حضرت عمرو بن عاصؓ (فاتح مصر) بھی ساتھ تھے۔ انہوں نےلوگوں سے پوچھا: ''اس تالاب سے درندے تو پانی نہیں پیتے؟'' حضرت عمرؓ نے لوگوں کو اشارے سےروک دیا کہ ''نہ بتانا'' اس سے دو اصول ثابت ہوئے۔ ایک یہ اصل چیز اباحت ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی چیز کی ظاہری حالت صحیح ہے تو اس کی حلت و حرمت کے سلسلہ میں غیر ضروری تفحص اور جستجو کے ہم مکلف نہیں ہیں۔ یہ واقعہ ''الفاروقی'' از شبلی نعمانی (مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز) صفحہ35 پر ہے۔

حلت و حرمت کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ زمین، درخت یا ماکول اللحم جانوروں کا قصہ تو دور کی بات ہے ، خود انسانوں کی دنیا میں جو تکالیف شرعیہ کے مکلف ہیں، ایک شخص کی حرام کی کمائی اگر جائز طریقے سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجائے، تو دوسرے آدمی کے لیے وہ حلال ہوگی۔ فقہی زبان سے اسے یوں بیان کیا جاتا ہےکہ ''ہاتھ کی تبدیلی سے احکام بدل جاتے ہیں'' اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی سودی کاروبار کرتاہے۔اب کوئی دوسرا آدمی اس کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرکےاس کی قیمت اس سے وصول کرتاہے، تو اس آدمی کو خواہ یہ بات معلوم ہو کہ یہ شخص سُودی کاروبار کرتاہے، تب بھی وہ رقم اس دوسرے آدمی کے لیے حلال متصور ہوگی کیونکہ اس نے اسے جائز ذریعہ سے حاصل کیا ہے اور دین کے اصول لوگوں کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ ان کے معاملات میں آسانی پیدا کرنےکے لیے ہیں۔

احتیاط میں اس درجہ غلو کا وجود دور صحابہؓ میں تو نہیں تھا۔بعد کے ادوار میں زُہا دوعبادقسم کے لوگوں میں ایسی احتیاط کا آغاز ہوا۔پھر طبقہ صوفیہ نے اسے پروان چڑھایا اور تذکرہ نگاروں نے اس قسم کے واقعات میں خوب خود رنگ بھرا چنانچہ ایک تذکرہ نگار نے حضرت سفیان ثوری کے متعلق لکھا ہے کہ:
''جب کوئی آپ کی دعوت کرتا تو ردّ نہ کرتے لیکن روٹی اپنے گھر سے لے جاتے اور وہی کھاتے۔ صاحب خانہ کی دریافت پر فرماتے، تجھے اپنی روٹی کا حال معلوم ہےمگر مجھے معلوم نہیں کہ حلال مال سے ہے یا حرام سے؟ تیرے بلانے سے آگیا مگر روٹی اپنی کھاؤں گا۔'' 2

حضرت سفیان ثوری کے متعلق ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اپنی روٹی ساتھ لے جاکر میزبان کےپاس یہ روٹی کھاکر اس کا یوں جی بہلاتے ہوں گے، تاہم تذکرہ نگاروں کے ہاں کسی کی بزرگی کے جو پیمانے ہیں، ان کےمطابق انہوں نےایسا واقعہ حضرت سفیان ثوری کے نام بھی جڑ دیا۔ تذکرہ نگار حقیقت نگاری سے ذرا پرہیز ہی بہتر سمجھتے ہیں۔

اسی تذکرہ نگار نے احمد بن حرب کے متعلق درج ذیل واقعہ لکھا ہے:
''نقل ہے کہ ایک بار آپ کی والدہ نے مرغ ذبح کرکے کہا کہ یہ میرے گھر کا پالا ہوا مرغ ہے۔ اس میں کچھ شک و شبہ نہیں، اسےکھاؤ۔ آپ نےکہا یہ وہی مرغ تو ہےجو ایک روز ہمسائے کےکوٹھے پرچلا گیا اور وہاں سے دانے کھا آیا تھا۔یہ میرے لیے حلال نہیں۔'' 3

احمد بن حرب کے متعلق یہ واقعہ اس لحاظ سے قابل تسلیم بھی ہےکہ اس دور میں اس قسم کاغلو طبقہ صوفیہ میں داخل ہوچکا تھا۔ مگر سوچنےکی با ت ہے کہ اگر حلال و حرام کا یہ معیار قائم کیاجائے تو دنیا میں کوئی بھی چیز حلال ثابت کی جاسکتی ہے؟ اس معیارکے مطابق تو بڑے سے بڑے زاہد اور صوفی کی زندگی میں بھی شبہ کےبیسیوں پہلو نکل آتے ہیں۔ پھر ایک بزرگ ایسےبھی ہوگزرے ہیں، جنہوں نے ایک دفعہ مرغی کو غلاظت کھاتے دیکھ لیا تو قسم کھالی کہ آئندہ مرغی کا گوشت نہ کھایا کریں گے۔ ایسےہی محتاط قسم کے صوفیہ کےمتعلق امام ابن القیم تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

امام ابن القیم کا فتویٰ:
''یا اتنا صوفی و پرہیز گار بنا پھرے کہ عام مسلمانوں کاکھانا طعام ہی ترک کردے کہ مبادا اس کے اندر حرام و مشتبہ مال چلاجائے۔ بعض علم سے کورے اور جاہل صوفیہ و زہاد پرتو اس بیہودہ ورع و پرہیزگاری کا جنون اس قدر سوار ہوا کہ اسلامی شہروں کی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز تک کو حرام و مشتبہ سمجھ کر ٹال دیتے او رنہ کھاتے مگر عیسائ شہروں سے آئی ہوئی چیزوں کو حلال و طیب سمجھ کر ڈکار جاتے ۔تو دیکھئے ان جاہل صوفیوں کو جہل مفرط او رغالیانہ زہد نے ہی اہل اسلام سے بدظن کردیا اور عیسائیوں کے حق میں حس ظن اور خوش فہمی کا بیج بویانعوذ باللہ۔'' 4

اس تبصرہ میں امام موصوف نے ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو یہ ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں غلو کی حد تک احتیاط کرنے والے صوفی بعض دفعہ کسی بڑی غلطی یابڑے جرم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔جس کا انہیں کبھی بھولے سے خیال بھی نہیں آیا۔


حوالہ جات
1. متفق علیہ
2. مقربان حق۔ حافظ احمد دین چشتی صفحہ 65 مطبوعہ قرآن سوسائٹی، لاہور ، ساہیوال
3. ایضاً ص114
4. ذکر الٰہی صفحہ 37 ترجمہ (اہل الصیب از ابن قیم