بسلسلہ کل پاکستان مدارس اہل حدیث کنونشن
بسلسلہ کل پاکستان مدارس اہل حدیث کنونشن وفاق المدارس السلفیہ کے زیر اہتمام
یکسانی نصاب اور وحدت نظام تعلیم کے لیےتجاویز
قبل ازیں کُل پاکستان مدارس اہل حدیث کنونشن میں مندوبین کی تجاویز کا خلاصہ پیش کرچکے ہیں، جن کو مرتب و منظم کرنے او رعملی شکل دینے کا کام ممتاز علماء اور تجربہ کار اساتذہ پر مشتمل ایک نمائندہ پچیس رکنی کمیٹی کے سپرد ہوا تھا۔ جس کی ابتدائی سفارشات برائے نصاب بھی قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ بعدازاں متذکرہ بالا ''تجاویز کمیٹی'' نے دو اجلاسوں مورخہ 26۔اپریل اور 7 جون میں نصاب و نظام تعلیم کی وحدت کے لیے پیش کردہ تجاویز کو عملی شکل دینے کے لیے ترجیحات قائم کیں، بعض ضروری امور کی وضاحت کی اور نصاب تعلیم کے لیے اپنی سفارشات مکمل کرلیں، جو درج ذیل ہیں:
بلا شبہ وفاق المدارس السلفیہ، پاکستان کے کل مدارس اہل حدیث او رجامعات کو متحد اور منظم کرنے کاکام کرسکتا ہے، بالخصوص حکومت پاکستان کی اعلیٰ تعلیمی اتھارٹی ''یونیورسٹی گرانٹس کمیشن '' اسلام آباد کی طرف سے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور دانش گاہوں کو (جن میں 19 یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں) وفاق کی آخری سند کی منظوری کےبارے میں نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد اس کی حیثیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔یونیورسٹیاں اور دیگر ادارے اپنے علیحدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کرچکے ہیں اور سکولوں کے علاوہ کالجوں یونیورسٹیوں کی لیکچرر شپ کے لیے بھی وفاق کی آخری سند کے حاملین، اہل قرار دیئے گئے ہیں، پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ایسی شہادات کے حاملین، سرکاری ملازمت اور مقابلے کے امتحانوں میں بھی شرکت کررہے ہیں، لیکن سلیکشن اور مسابقت میں کامیابی کے لیے ایم اے کےمساوی سند سے قبل میٹرک، ایف اے، بی اے کے مساوی اسناد بھی ضروری ہیں، کیونکہ تحریری و تقریری امتحانات کے علاوہ استاد کے علیحدہ علیحدہ نمبر شمار کئے جاتے ہیں او ران میں ڈویژن کا بھی حساب ہوتا ہے۔لہٰذا وفاق المدارس السلفیہ کا وحدت نصاب کی صورت میں سب مراحل کے امتحانات لینے کا اقدام درست ہے، ان کی فہرست اگرچہ طویل ہے تاہم چند فوری اثرات میں سے ایک یہ ہےکہ وفاق کی مرحلہ وار اسنادکی موجودگی میں، مدارس و جامعات کی اسناد ہی بنیاد ہوتی تھیں، لیکن اس تبدیلی کے بعد وفاق کے تحت مرحلہ وار امتحانات میں بیٹھنے کے لیے اس سے پہلے مرحلہ کی سند بنیاد بنے گی۔اس طرح درجہ بدرجہ سارے مراحل سے گزر کر ہی آخری امتحان میں بیٹھناممکن ہوگا۔
دوسرا فوری اثر یہ ہوگا کہ ہردوسرے مرحلے کا امتحان کم از کم دو سال بعد ہی دیاجاسکے گا، لہٰذا مدارس کی خود بخود درجہ بندی ہوجائے گی، جس کے نتیجہ میں طلبا کے داخل، خارج اور تبادلہ مدارس میں سرٹیفیکیٹ سسٹم بھی رائج ہوگا، یا کم از کم مطلوبہ مرحلہ سے قبل کےمرحلہ میں کامیابی کی سند پیش کرنی ہوگی۔ اس طرح صرف وہی مدارس ایم اے تک جاسکیں گےجو سارے مراحل کا خاطر خواہ انتظام کرسکتےہوں۔ گویا بخاری شریف وغیرہ کتب صرف چند جامعات تک محدود رہ جائیں گی۔
مشترکہ امتحان کا ہی ایک تقاضا وحدت نصاب بھی ہے، جو بڑا مثالی تصور ہے، لیکن بیک جنبش قلم ملک بھر کے مدارس و جامعات کے نصابات ختم کرکے انہیں ایک نظام تعلیم میں پڑنا اتنا آسان کام نہیں ہے، اہل فکر و دانش پر یہ مخفی نہیں کہ یکسائی نصاب اور وحدت نظام تعلیم کے سلسلے کی مساعی پاکستان بننےکے بعد سے ہمارے اکابرین کامطمع نظر رہی ہیں، لیکن ایسی بہترین خواہشات ابھی تک تشنہ تکمیل تھیں، کیونکہ ایک مشترکہ نصاب کی تدوین ہی کافی نہیں بلکہ جملہ جامعات و مدارس کو یکساں نظام تعلیم میں مربوط بھی کرنا ہوگا۔ پھر یکسانی نصاب ہویا وحدت نظام تعلیم، کوئی کام بھی مدارس کو اعتماد میں لئے بغیر نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے لیے مدارس کی مدد بھی کرنی پڑے گی، جو مالی بھی ہوگی او رکتب و مدرسین کی شکل میں بھی حاصل یہ ہے کہ یہ سنہری خواب بھرپور اعتماد اور مسلسل محنت کے ساتھ ہی شرمندہ تعبیر ہوگا۔
اس سلسلے کا بنیادی مسئلہ وفاق کامسلّمہ دستور ہے، حیرت ہے کہ وفاق المدارس السلفیہ، جوپاکستان کے کل اہل حدیث مدارس و جامعات کا نمائندہ ہونے کا دعویدار ہے او راسی بناء پر یکسانی نصاب اور وحدت نظام تعلیم کی ہدایات جاری کرتا ہے، اس کا کوئی معروف آئین و دستور نہیں او رنہ ہی کوئی ایسی سپریم کونسل ہے جومشہور اساتذہ اور تجربہ کار علماء پر مشتمل ہو۔پچھلے دنوں وفاق المدارس السلفیہ کے مشترکہ نصاب کے ضمن میں ایسی کونسل کاذکر سننے میں آیا، لیکن کنونشن کی نمائندہ ''تجاویز کمیٹی'' میں شامل ان حضرات نے بھی اس کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا، جو وفاق کے مرکزی اداروں کے شیوخ ہیں۔لہٰذا انہوں نے وفاق کے پیش کردہ ''مشترکہ نصاب'' کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔
وفاق المدارس السلفیہ کے لیے کل پاکستان مدارس و جاعمات اہل حدیث کا نمائندہ بننےکے لیے ضروری ہے کہ اس کی مرکزی کمیٹی جملہ مدارس و جامعات کی نمائندہ ہو او راس کے ارکان بھی مشاہیر شیوخ اور تجربہ کار علماء ہوں۔ اس سلسلے میں ایک بات قابل ملاحظہ یہ ہے کہ سوئے اتفاق سے اہل حدیث پاکستان میں چار پانچ تنظیموں سے منسلک ہیں۔ جن میں خود جمیعة اہل حدیث کے دو دھڑے باہمی کشمکش کا شکار ہیں، اگرچہ تنظیم مدارس کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ مدارس میں ایسی کوئی تفریق نہیں، کیونکہ اہل حدیث کے کل مدارس او رجامعات ایک ہی وفاق کے تحت امتحانات میں شرکت کرتے ہیں، لہٰذا مرکزی کمیٹی کی تشکیل میں یہ پہلو بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ کسی ایک دھڑے کی نمائندہ نہ ہو۔مسلمہ تعلیمی تصور بھی اس کامؤید ہے کہ تعلیم کوملکی یا جماعتی سیاست سے الگ تھلگ رہنا چاہیے ۔ کیونکہ اگر حکومتوں کی تبدیلی یاجماعتی اقتدار کی کشمکش میں تعلیم گاہوں کو اکھاڑہ بنا لیا جائے، تو اس کا نتیجہ بے لاگ علم کی بجائے، دھڑے بندی او راقتدار کی کشمکش کی تربیت، ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیاں خود مختار ہیں، باوجودیکہ ان کا بجٹ بھی حکومت مہیا کرتی ہے۔ان کی اس حیثیت نے انہیں شدید استبدادی حکومتوں کے دور میں بھی کافی حد تک تحفظ مہیا کیاہے۔مختصر یہ کہ اس مسلّمہ تعلیمی تصور کا لحاظ وفاق کی مرکزی کمیٹی میں بھی رکھناچاہیے، جس کے لیے کم از کم اتنا ضروری ہےکہ جماعتی عہدیدار ہی وفاق کے عہدے دار نہ ہوں، بلکہ ان کی رکنیت تعلیمی تجربہ اور علمی قابلیت کی بناء پر ہونی چاہیے۔ وفاق المدارس السلفیہ کے علاوہ ملک کے تینوں وفاقوں نے اس کا لحاظ رکھا ہے کہ ان کے جماعتی عہدیدار اور وفاق کے عہدیدار الگ الگ ہیں۔ خود ہرمکتبہ فکر کے علیحدہ وفاق کا تصور ہی اس پرمبنی ہے کہ دینی تعلیم آزاد رہے او رحکومت کی بھی اس میں مداخلت نہ ہو۔
یہاں ایک ضمنی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وفاق سے متعلق صرف طلباء کےمدارس یا جامعات نہیں، بلکہ طالبات کےمدارس بھی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی رُو سے عورت کا دائرہ کار مردوں سے مختلف ہے۔اس لیےان کانظام تعلیم و تربیت بھی نہ صرف مخصوص ہونا چاہیے، بلکہ ان کامعاملہ مرد حضرات سے کم از کم وابستہ ہوناچاہیے۔ لیکن واق کے تحت ایسا کوئی اہتمام نہیں ۔ کہاجاسکتا ہے کہ ان کے بعض امور کی نگرانی عورتیں کرتی ہیں۔ لیکن اس کے بارے میں یہ شکایات عام سننے میں آرہی ہیں کہ جماعتی یاوفاق کے عہدیداروں کی بیگمات اور رشتہ دار صرف قرابت داری کی وجہ سے طالبات کے سنٹروں اور امتحانات کی ذمہ دار بن گئی ہیں۔ حالانکہ تعلیمی قابلیت او رجماعتی عہدیدار سے قرابت داری، دو الگ الگ امور ہیں، ان کو باہم مدغم نہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا کمیٹی ہٰذا کی سفارش یہ ہےکہ عورتوں کے لیےنہ صرف نصاب علیحدہ ہو، بلکہ ان کا بورڈ بھی علیحدہ ہو، جس میں صرف اہل علم، تجربہ کار خواتین ذمہ دار ہوں۔البتہ وفاق المدارس کی مرکزی کمیٹی میں کسی کہنہ مشق بزرگ کو اس خواتین بورڈ کا نگران بنا کر بورڈ کو وفاق کے تابع رکھاجاسکتاہے۔
وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کی موجودہ اعلیٰ حیثیت کی مناسبت سے چند دیگر درج ذیل امور قابل توجہ ہیں:
1. وفاق کو یونیورسٹیوں سے اپنے رابطے مستحکم کرنےکےساتھ ساتھ پبلک سروس کمیشن کے سلیکشن بورڈ میں بھی اپنے ہم خیال افرادکی شمولیت کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہےکہ ایسی کمیٹیوں میں خصوصیت سے ایسےافراد کو شامل کیاجارہا ہے جو سرے سے دینی مدرسے ہی کی اہمیت سے انکاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرویوز میںوہ عموماً ایسے نازک سوالات کرتے ہیں جو علمائے دین کے خلاف لادین عناصر او رملحدین کا پرانا حربہ ہیں۔
2. وفاق کے تحت امتحانات کےمراکز کم از کم ہرڈویژن کی سطح پر ہونے چاہئیں، اور مخصوص مدارس کو نوازنے کے بجائے اس بات کا خیال رکھاجائے کہ وہاں سہولتیں اور انتظامات بہتر ہوسکیں۔نیز امتحانوں میں غیر جانبداری بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں بدگمانیوں کامکمل ازالہ ہونا چاہیے۔
3. وفاق کے تعلیمی مراحل کے نام ایسے مقرر کئے جائیں جو ملک میں عصری نظام تعلیم سے ہم آہنگ ہونے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پربھی معروف ہوں۔مثلاً ایف اے کے مساوی امتحان کا نام''اعلیٰ ثانوی'' کی بجائے''ثانویہ خاصہ'' رکھا گیا ہے، جو محل نظر ہے۔
4. وفاق المدارس کا معادلہ اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک سے نہیں ہے اور نہ ہی وفاق المدارس ، ''رابطة الجامعات الاسلامیة العالیہ''کا ممبر ہے، حالانکہ یہ نہایت ضروری ہے۔
5. وفاق المدارس کی طرف سے ایک ''جائزہ کمیٹی'' مقرر کی جائے جو جملہ مدارس و جامعات کے کواءف جمع کرے۔
6. وفاق المدارس کے نصاب کومعیاری بنانے کے لیے قابل اساتذہ کا وجود بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اس طرح ڈگریوں کوتسلیم کرانے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو مشاہروں کے سکیل بھی''نیشنل پے سکیل'' کےمطابق ملنے چاہیئں۔
7. ہمارے ہاں تجوید و قرأت کے مدارس مخصوص ہیں، ان کانصاب بھی نظرثانی کا محتاج ہے، ان کےنصاب و نظام میں وحدت پیدا کرکے انہیں بھی کم از کم ایف اے کے مساوی قرار دیاجائے، تاکہ اعلیٰ تعلیم میں وہ بھی نہ صرف شامل ہوسکیں، بلکہ مستقبل میں ان کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کلیة القرآن کی طرز پرکرنےکا عزم کرنا چاہیے۔
8. زنانہ مدارس میں مڈل کے بعد آٹھ سالہ نصاب تمام طالبات کے لیے نامناسب ہے۔کیونکہ ہمارےمعاشرتی حالات میں نہ تو ہر طالبہ اتنی مدت صرف کرسکتی اور نہ ہی ہر طالبہ کے لیے مکمل اعلیٰ تعلیم ضروری ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ جو طالبات آئندہ مستقل تدریسی اور علمی خدمات کو اختیار کرنے کا ارادہ نہ رکھتی ہوں وہ ایف اے تک تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوسکیں۔چنانچہ اس غرض سے مناسب نصاب وضع کرنے کے ساتھ ساتھ ایم اے کے علاوہ دیگر اسناد کامعادلہ بھی ضروری ہے۔ واضح رہےکہ ابھی تک صرف ایم اے کی سند منظور ہے۔
9. یہ مسلمہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی صلاحیتیں او ررجحانات مختلف رکھے ہیں، لہٰذا تمام طلباء کو ایک ہی طرح کا نصاب پڑھانا مناسب نہیں۔ اس کے اندر الگ الگ سٹڈی گروپ اور مضامین کے انتخاب کاموقع ملنا چاہیے۔ اسی طرح ایسے مناہج کے معادلوں کامسئلہ بھی حل طلب ہے۔
10. وفاق کے نظام تعلیم کو اپنانے سے خود بخود مدارس کی درجہ بندی ہوجائے گی (جیسا کہ اوپر ذکر ہوا) لہٰذا ایسے مدارس کو نچلے درجوں تک رکھنے سے مالی نقصان بھی ہوگا، کیونکہ عام تاجر طبقہ معروف کتب احادیث و تفاسیر کی تدریس کے لحاظ سے بھی تعاون کرتا ہے۔ ان کےمالی تعاون کے علاوہ کتابوں او رمدرسین کی صورت میں بھی ان کاتعاون کرنا ہوگا۔
متذکرہ بالا سفارشات کازیادہ تعلق نظام تعلیم سے ہے، جہاں تک نصاب کا تعلق ہے، اس کے بارے میں کمیٹی ہٰذا یہ سفارش کرچکی ہے کہ اس سلسلے میں کتابوں کے ناموں اور مقررہ حصوں کی زیادہ اہمیت نہیں، کیونکہ تدریس کے وقت مصنف کے بجائے علم سامنے ہوتا ہے۔ لہٰذا وحدت مناہج کا اہتمام ہونا چاہیے، جس کے لیے کمیٹی نے الگ سفارشات تیار کی ہیں، جو نصاب کمیٹی کے سپرد کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
رابطہ مدارس کمیٹی:
مولانا محمد عبدہ، مولانا محمد صدیق (سرگودھا)، مولانا عطاء اللہ حنیف، حافظ محمد اسحاق، مولانا ابوالبرکات احمد، حافظ محمد بنیامین، مولانا عبدالحمید ہزاروی، حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عزیز زبیدی، حافظ عبدالرحمٰن مدنی، مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی، پیر محمد یعقوب، پروفیسر غلام احمد حریری، پروفیسر ظفر اقبال، مولانا عبدالعزیز نورستانی، مولانا بشیر سیالکوٹی، حافظ عبدالعزیز چھتوی، مولانا عبداللہ امجد چھتوی، مولانا عبدالرحمٰن کیلانی، مولانا محمد صدیق (گوجرانوالہ) حافظ مسعود عالم، حافظ عبدالرشید اظہر، پروفیسر حافظ مسعود، قاضی محمد اسلم سیف، حافظ عبدالسلام فتح پوری۔