استفتاء

سٹلائٹ ٹاؤن جھنگ سے انصاری صاحب لکھتے ہیں کہ:

جھنگ میں جماعت اہل حدیث کے ایک بزرگ نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ عام لوگوں میں جو یہ بات مشہو رہے کہ پہلے لوگ انبیاء کو قتل کردیتے تھے قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ کوئی بھی نبی قتل نہیں ہوا ہے اورقرآن پاک میں جہاں پر یقتلون النبین کاذکر آیا ہے اس سے مراد انبیاء علیہم السلام کو ایذا پہنچانا ہے۔ اب اس مسئلہ نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ کیونکہ اس بزرگ نے اب برسرعام یہ فتویٰ دے دیا ہے ک قتل انبیاء کا عقیدہ رکھنا کفر ہے جس کی وجہ سے جماعت اہل حدیث جھنگ میں سخت انتشار پھیل گیا ہے۔

جواب میں حسب ذیل نکات کی وضاحت درکار ہے:

يقتلون النبيين میں قتل سے مراد ضرب شدید ایذا پہنچانا یا جان سے مارڈالنا ہے۔

2۔ قرآن و حدیث و دیگر سماری اور تاریخی کتب میں کسی کسی نبی کے قتل اور ان کی تعداد کا کہیں ذکر موجود ہے اگر ہے تو اس کا بھی حوالہ تذکرہ ضرور فرمائیں۔

3۔ کیا قتل انبیاء کا عقیدہ رکھنے والا شرعی طور پر کافر ہے؟

4۔ نص قطعی کے منکر کے لیے شرعی حک کیا ہے؟ (مختصراً)

انبیاء کا قتل ِ ناحق:

الجواب:

کہتے ہیں کہ جب عیسائیوں کے بُرے دن آئے تھے تو ان کے دشمنوں کی فوجیں ان کے دروازوں پر پہنچ چکی تھیں مگر ان کے پادری اس بحث میں مصروف تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیشاب پاک تھا یا پلید۔ یہ ذہنیت عموماً زوال پذیر اقوام اور معاشرہ کی ہوتی ہے۔

جماعت اہل حدیث کا ماضی الأھم فالأھم کے اصول کا آئینہ دار رہا ہے۔ مگر اس وقت یہ جماعت زندہ تھی ثقہ اور راسخ علمائے کرام کی اکثریت تھی۔ اس کے احتساب سے اپنے پرائے سب لرزہ براندام تھے مگر اب معاملہ بالکل برعکس ہے او ر کار جہاں سے فارغ ہوکر آرام کرنے لگے ہیں یعنی بے کار پڑے ہیں او رفی سبیل اللہ فسادجیسے جہاد میں مصروف ہیں۔ایک فارسی کا مقولہ ہے کہ :

جب نائی بے کار ہوکر بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کا سر مونڈھتے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

ہماری جماعت میں اب بھی ذمہ دار اور سنجیدہ علماء کی کوئی کمی نہیں، اگر وہ چاہیں تو ان دوستوں کے مطالعہ کے لیے کوئی دوسرا بہتر مصرف ان کومہیا کرسکتے ہیں۔ ورنہ یہ ''سواد اعظم'' لے ڈوبے گا۔

سوال نمبر1: صحیح یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام کو دشمنان حق نے ہمیشہ اذیتیں دی ہیں او راس سلسلے میں انہوں نے ذرہ کے برابر حیا نہیں کی۔ اگر بس چلا ہے تو ان کے کون ناحق سے ہاتھ بھی رنگیں کیے ہیں۔ قرآن حکیم، حدیث پاک اور تاریخ کے اوراق اس پر گواہ ہیں۔

قرآن حکیم ۔ فرمایا:

1بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ (پ1۔ بقرہ ع7)

''یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے انکار او رپیغمبروں کا ناحق قتل کیا کرتے تھے۔''

2إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (پ3۔ آل عمران ع3)

''جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں او رناحق پیغمبروں کو قتل کرتے اور (نیز) ان لوگوں کو قتل کرتے جو انہیں انصاف کرنے کو کہتے تو آپ ان کو عذاب دردناک کی خوشخبری سنا دیں۔''

تاویلیں: جو حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مظلومانہ اور قتل ناحق پر ناحق مصر ہیں ، وہ اس کی کچھ تاویلیں بھی کرتے ہیں۔

قتل کے معنی وہ ''دعوت انبیاء'' کو مٹانے کے کرتے ہیں، ہمارے ملک میں اس نظریہ کے سب سے بڑی داعی ''مرزائی'' ہیں۔ چنانچہ ان کے خلیفہ دوم بشیر الدین اپنی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:

پس اس جگہ پر قتل کرنے سے مراد یہ ہوگی کہ:

..... ان کے کام کو باطل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ (ص481)

قتل کے عام معنی جو بولتے ہی ذہنوں میں ابھرتے ہوں اور وہ روز مرہ بھی ہو، وہ معنی جان سے مار دینے کے ہیں۔ دراصل یہ اس کے حقیقی معنی ہیں، حقیقی معنوں سے گریز بغیر کسی شرعی داعیہ اور قرینے کے جائز نہیں ہوا کرتا۔ رہے اس کے دوسرے معنی؟ تو وہ بے شمار ہیں۔ جو یہاں ممکن نہیں ہیں۔ مثلاً فلان قاتل الشتوات (لسان العرب) (سردیوں کا قاتل) یعنی غریبوں کو سردیوں میں کپڑے مہیا کرکے سردی کو دور کرنے والا۔ تو کیا یہاں بھی اس کی گنجائش ہے کہ وہ انبیاء کے دکوھں میں ان کے کام آتے تھے۔

قتل کے ایک لغوی معنی مخلوط کرنے کے بھی ہیں: قتل الخمرۃ ، شراب کو پانی کے ساتھ مخلوط کیا، یا بھوک اور سردی کی تیزی کو توڑا ۔ قتل الجوع والبرد بلکہ تعریف و تحسین کے معنی میں بھی آتا ہے قتل الشيء خبرا یعنی فلاں شے کے ہر پہلو کا علم حاصل کرلیا۔

چونکہ یہ سب معنی لغت میں ملتے ہیں اس لیے اگر کوئی صاحب اب اس کے یہ معنی کرے کہ:

(1)انہوں نے سب انبیاء کو یکساں تسلیم کیا (2) انبیاء کی بھوک پیاس دور کی (3) وہ انبیاء کے سلسلے کی ساری معلومات او رمسائل سے بہ خبر رہتے تھے تو پھر آیات کا کیا حشر ہوگا؟ اگر اس کے یہ معنی پھر بھی کسی کو قبول ہیں تو پھر خدا کی طرف سے اس ''جرم حق'' کی یہ سزا بھی بڑی دلچسپ سزا رہے گی۔

الفاظ کے سارے لغوی معنی ''حقیقت'' نہیں ہوا کرتے، ورنہ ایک اہل علم ایسے مخمصے میں پڑ جائے گا کہ اسے حقیقت تک پہنچنے کے لیے کوئی بھی راہ نظر نہیں آئے گی۔ بلکہ ہر بدنیت کے لیے قرآن و حدیث سے پیچھا چھڑایا بالکل آسان ہوجائے گا اور اتنا سائنٹیفک کہ اس پر شاید خدا کے لیے بھی اعتراض کرنا مناسب نہ رہے العیاذ باللہ! اس لیے سب سے پہلے وہ معنی کرنا لازمی ہوتا ہے جو معروف او راستعمال میں سب سے زیادہ متبادر ہوں۔ یہ طریقہ بالکل غیر سلفی اور غیر علمی ہے کہ ایک لفظ کے جتنے معنی ہوسکتے ہیں، ان میں سے جو جس کے جی میں آئے ، کرلے، ورنہ یقین کیجئے! یہودی بھی یہ کہہ سکیں گے کہ:

''يقتلون النبيين'' میں خدا نے یہود کی تعریف کی ہے کیونکہ ہم نے سب کو تسلیم کیا ہے، ان کی مشکل میں ان سب کے کام آئے ہیں۔کیونکہ قتل کے ایک معنی یہ بھی ہیں۔ جیسا کہ تفصیل آپ نے ملاحظہ فرمالی۔

مرزائیوں کا اعتراض ہے کہ: قرآن نے انبیاء کے قتل کا جو ذکر کیا ہے وہ اس وقت ہوا ہی نہیں یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں۔

دراصل ان کومغالٰطہ اس سے لگا ہے کہ ''ضربت عليهم الذلة'' والی آیت کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کےبعد آیا ہے۔ اصل میں یہ مضمون حضرت موسیٰ کے واقعات کا حصہ ہے ہی نہیں، یہ الگ او ربالکل جداگانہ مضمون ہے جو بنی اسرائیل کے منجملہ مضامین کا حصہ ہے۔ سورہ آل عمران ع12 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر کے بغیر اس مضمون کوبیان کیا گیا ہے۔ملاحظہ فرمالیں۔

كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ(پ6۔ مائدہ ع1)

''جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس ایسے احکام لے کر آیا جن کو ان کے دل نہیں چاہتے تھے (تو) انہوں نے کتنوں کو جھٹلایا او ربہتوں کو قتل کرڈالتے تھے۔''

اس آیت نے ان کی اس تاویل کا خاتمہ کردیا ہے : ان کی دعوت او رتعلیم کو مٹا دیتے تھے کیونکہ یہاں دو باتیں ایک ساتھ بیان کی گئی ہیں، ای تکذیب جو مزاحمت او رمٹانے کی کوشش کو مستلزم ہے، دوسرا قتل۔ ظاہر ہے کہ: اس سے مراد وہ نہیں جو تکذیب سے حاصل ہے۔ آخر یہی معنی کرنا پڑیں گے ک ہان کو جان سے مارتے تھے۔

4۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حضور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ میں نے ان کے ایک آدمی کوقتل کیا ہے، اس لیے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل نہ کرڈالیں۔

قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ

اس کے بعد پھر فرمایا: مجھے خدشہ ہے کہ مجھے وہ جھٹلائیں گے۔

إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ (پ20۔ قصص ع4)

اگر یہ بات پیغمبر کے لوازمات میں سے ہوتی کہ اسے قتل نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم حضرت موسیٰ علیہ السلام کواس اندیشہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بہرحال ''انبیاء'' کا قتل کوئی شرعی استحالہ نہیں ہے۔اس لیے بعض اوقات اللہ تعالیٰ کو اپنے کسی نبی کو تصریحاً یقین دہانی کرنا پڑی کہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ تسلی رکھیئے!

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآيَاتِنَا أَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ (پ20۔ قصص ع4)

ہجرت کے بعد پہلے دو سالوں میں حضور نے پہرے دار رکھے کیونکہ جان کا خطرہ تھا۔ اگر ہر پیغمبر کا یہ خاصہ ہوتا کہ اسے ''قتل'' کرنا شرعاً محال ہے تو کم از کم انبیاء کرام کو تو اس کا علم ہوتا حالانکہ حضورؐ نےخود پہرے دار رکھے، جب آیت واللہ یعصمک من الناس (مائدہ ع10) نازل ہوئی تو آپ نے پہرے دار ہٹا دیئے (تفیسر ابن کثیر:2؍74)

5۔ بنی اسرائیل سے کہا کہ قرآن پرایمان لاؤ، وہ کہتے ہم صرف اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پرنازل ہوا۔ فرمایا وہ بھی جیسا مانا ہے پتہ ہے یعنی پھر انبیاء کوکیوں قتل کرتے رہے۔

قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ(پ1۔ بقرہ ع12)

''ان سے کہہ دو پھر اس سے پہلے کیوں قتل کرتے رہے ہو اللہ کے نبیوں کو، اگر تم ایمان رکھتے تھے۔''

یعنی ماننا تو کجا تم تو ان کی گردنیں مارتے رہے ہو۔

جواب سوال نمبر2:

احادیث: امام احمد روایت کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ عذاب قیامت میں اس شخص کو ہوگا جس کو نبی نے قتل کیا ہوگا یا جس نے نبی کو قتل کیا ہوگا۔

قال الإمام أحمد: حدثنا عبدالصمد حدثنا أبان حدثنا عاصم عن أبي وائل عن عبداللہ (ابن مسعود) أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: أشدالناس عذابا یوم القیامة رجل قتله بني أوقتل نبیاالحدیث۔

اس حدیث سے ''نبی کے قتل'' کے ''امکان'' کی تصریح آگئی ہے۔ یہ بات نبی کے لوازمات میں سے نہیں ہے کہ : ایک نبی قتل نہیں ہوسکتا.... ہوسکتا ہے کہ کوئی صاحب یہ سوچیں کہ اس طرح تو ''لو كان فيهما آلهة إلا الله لفسدتا'' سے دوسرے خدا کا امکان بھی ثابت ہوجائے گا لیکن آخر اس اعتراض کا جواب خود آیت میں موجود ہے۔

ایک اور روایت میں یہ امکان ''واقعہ'' کی صورت میں بھی ثابت ہوگیا ہے۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے ایک دن میں تینسو نبی قتل کیے تھے۔

حدثنا ثعبة بن الأعمش عن إبراہیم عن أبي معمر عن عبداللہ بن مسعود قال کانت بنو إسرائیل في الیوم تقتل ثلث مائة نبي (ابوداؤد طیالسی)

ابن ابی حاتم نےحضرت ابوعبیدہ بن الجراح سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

اے ابوعبیدہ! بنی اسرائیل نے تنتالیس نبی ایک ہی وقت میں قتل کر ڈالے تھے، پھر ان کو بھی جنہوں نے ان پر ان کو سمجھایا اورتبلیغ کی تھی۔

قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قتلت بنو إسرائیل ثلثة و أربعین نبیا من أول النھار في ساعة واحدة فقام مائة و سبعون رجلا من بني إسرائیل فأمروا من قتلھم بالمعروف و نھوھم عن المنکر فقتلوھم جمیعاً من آخرالنھار من ذلك الیوم فھم الذین ذکر اللہ عزوجل (ابن ابی حاتم)

وذکر الشوکاني، فقام مائة رجل و سبعون رجلا من عباد بني إسرائیل (فتح القدیر :ج1ص328)

مندرجہ بالا آیات اور احادیث ببانگ دُہل اعلان کررہی ہیں کہ بنی اسرائیل نے یہ سب کچھ کیا ۔ رہے سابقہ صحف سماوی؟ گو ان کی تصدیق اور تکذیب ہمارے لیے جائز نہیں ہے، ہاں اگر ہماری کتاب و سنت کے موافق ہے یا اس کے محتملہ پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو کی تعیین کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے تو ان کا نظر انداز مشکل ہوگا۔

صحف سماوی: اس سلسلہ کی چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں:پہلے عہد عتیق کے پھر عہد جدید کے اقتباسات دیکھئیے۔

عہد قدیم: وہ نافرمان نکلے اور تجھ سے پھر گئے اور انہوں نے تیری شریعت کو اپنی پشت کے پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کوجونصیحت دیتے تھے کہ انہیں تیری طرف پھر ا لائیں قتل کیا اور انہو|ں نے کاموں سے تجھے غصہ دلایا (نحمیاہ ص1050۔ 9: 26)

تمہارے ہی تلوار پھاڑنے والے شیر ببر کی ماند تمہارے نبیوں کو کھا گئی (2 تواریخ 36: 17)

عہد جدید: اس کا صرف ایک اقتباس ماحظہ فرمائیں:

''تم اپنی نسبت گواہی دیتے ہو کہ ہم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہیں.... دیکھو میں نبیوں..... اور فقیہوں کوتمہارے پاس بھیجتا ہوں ، ان میں سے بعض کو قتل کرو گا اور صلیب پر چڑھاؤ گے..... اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ستاتے پھرو گے تاکہ سب راستباروں کا خون جو زمین پر بہایا گیا ہے، تم پر آئے ...... اے یروشلم اے یروشلم! تونبیوں کو قتل کرتی ہے اور جو تیرے پاس پہنچ گئے انہیں سنگسار کرتی ہے۔'' (متی۔23:29 ، لوقا۔12:34،35)

ان اقتباسات سے ان کے قتل کی نوعیت بھی سامنے آگئی ہے۔ تلوار سےقتل، سنگسار کرنا، سولی پر چڑھانا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پرچڑھانے کی جو ناکام کوششیں انہوں نے کیں وہ تو سب کے سامنے ہیں کہ وہ اس میں ناکام رہے، لیکن خدا جانے او رکتنے اللہ کے پیارے ہون گے جن کو انہوں نے سولی پر لٹکا کر ختم کیا ہوگا ۔ کیونکہ خدا نے ان کے وقوع کا ذکر کیا ہے او رقرآن نے اس کی مزید تصریح فرمائی ہے۔

مفسرین: یہاں پر ہم چند ایک ان مفسرین کی تصریحات پیش کرتے ہیں جو اہلحدیثوں میں بالخصوص بڑا مقام رکھتے ہیں۔

مولانا ثناء اللہ۔ مولانا ثناء اللہ  لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسے گناہ کیے جو انہیں قتل انبیاء تک لے گئے۔ بما عصوا وكانوا يعتدون ۔ حدود اللہ أي عصیانھم صار منجرا إلی أن قتل الأنبیاء (تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن ص20)

اپنی اُردو تفسیر میں لکھتے ہیں:

ناحق ظلم سے قتل کرتے تھے، چنانچہ حضرت یحییٰ اور زکریا علیہما السلام کوناحق انہوں نے قتل کیا۔(تفیر ثنائی :1؍72)

حواشی غزنویہ: ''ويقتلون النبيين'' پر لکھتے ہیں:

''شعیا و زکریا و یحییٰ کو انہوں نے قتل کیا تھا۔ حدیث ابن مسعود میں مرفوعاً آیا ہ ےکہ سب سے زیادہ سخت تر عذاب میں دن قیامت کے وہ شخص ہوگا جس کو کسی نبی نے قتل کیا ہے یا اس نے نبی کو جان سے مارا ہے یا پیشوائے ضلالت تھا یا مورت بنانے والا، اس کو احمد نے روایت کیا۔12 ابن کثیر (فوائد سلفیہ ص5)

امام شوکانی: امام شوکانی فرماتے ہیں یعنی یہود نے انبیاء کو قتل کیا:

یعنی الیهود قتلوا الأنبیاء (فتح القدیر :1؍327)

امام مبرد سے نقل کیا ہے کہ نبی ان کو دعوت دین کے لیے ان کے پاس جاتے اور وہ ان کو قتل کردیتے۔

قال المبرد: کان ناس من بني إسرائیل جاء ھم النبييون قدعوھم إلی اللہ فقتلوھم (فتح القدیر:1؍327)

بعض نبیوں کا نام بھی ذکر کیا ہے کہ ان کو انہوں نے قتل کیا۔

بل أرشدوھم إلی مصالح الدین کما کان من شعیا و زکریا و یحییٰ فإنھم قتلوھم (فتح القدیر:1؍93)

امام ابن کثیر: ان کی شان میں وہ گستاخیاں کرتے رہے، یہاںتک کہ ان کو قتل ہی کرڈالا۔

یقول تعالیٰ هذا أھانتھم حملة الشرع وھم الأنبیاء و أتباعھم فانتقصوھم إلی إن أفقی بھم الحال ِلي أن قتلوھم فلا کفرأ عظم من ھذا (تفسیر ابن کثیر:1؍103)

ومع ھذا قتلوا من قتلوا من النبيین حین بلغوھم عن اللہ شرعه بغیر سبب ولا جریمة منھم إلیھم إلا لکونھم دعوھم إلی الحق (تفسیر ابن کثیر:1؍355)

ابن جریر طبری: ذلت و مسکنت کی وجہ صرف انکار آیات او رقتل انبیاء ہے۔

من أجل کفرھم بآیات اللہ و قتلھم النبيین بغیر الحق (تفسیر ابن جریر:1؍317)

کہتے ہیں کہ : قتل انبیاء خدا کی کمزوری کا نتیجہ ثابت ہوگا؟ عرض ہے کہ ماردھاڑ او ران کی تضحیک او رسب و شتم جس کو یہ دوست بھی مانتے ہیں، کیا آپ کی کمزوری پر منتج نہ ہوگی، غزوہ احد میں لاڈلے نبی کا جو حشر ہوا آ پ کا کیا خیال ہے، وہ خدا کی طاقت کی نشانی ہے؟ دراصل یہ جذباتی باتیں ہیں۔ علمی نہیں ہیں۔ حق تعالیٰ جن کے سلسلے میں چاہتے ہیں ، تحفظ مہیا کردیتے ہیں، ورنہ یہ سارے کام عام اسباب کے مطابق چلتے ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: اس طرح تبلیغ کا فریضہ ادھوراہ رہ جائے گا؟ بھئی! قتل ہو یا موت؟ وقت سے پہلے نہیں آتے۔ دنیا سے کوچ کاوقت مقرر ہے لیکن جانے کے راستے جدا جدا ہیں،جن کے جانے کا وقت آگیا ہے، وہی قتل ہوگا او رنہیں۔ اگر قتل نہ ہوتے تب بھی جانا تھا تو جب وقت پرآپ طبعی موت کے ساتھ جاتے تو کیا پھر بھی تبلیغ ادھوری سمجھی جاتی؟ اصل میں انبیاء کا کام ابلاغ ہے یقیناً اس کا اتمام پہلے ہوجاتا ہے۔ ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جو کہنا تھا وہ کہہ بھی نہیں پائے تھے او روہ قتل ہوگئے ہوں؟

جواب سوال نمبر 3: اگر قرآن و حدیث کے احکام کو تسلیم کرنا کفر ہے تو یقیناً کفر ہے۔

جواب سوال نمبر 4: نص قطعی کا منکر کافر ہوتا ہے۔ہاں مؤول کا معاملہ اور ہے۔منکر کا اور.....

خلاصہ یہ ہے کہ: قرآن و حدیث ، صحف سماوی او رمفسرین کی تصریحات کے مطابق انبیاء کا قتل شرعاً ممتنع نہیں ہے بلکہ یہ ایک واقعہ ہے۔ ذمہ دار علماء اس کا انکار نہیں کرسکتے۔ قرآن و حدیث کے مطابق قتل انبیاء پر یقین رکھنے والوں کو کافر کہنا ، بڑی دھاندلی اور نادانی ہے۔ جو لوگ قرآن و سنت کی مندرجہ بالا نصوص کی تاویل کرتے ہیں، وہ سلفی نہیں ہوسکتے، الٹا اندیشہ ہے کہ ان کا اپنا ایمان خطرےمیں نہ پڑ جائے!

۔۔۔۔۔۔۔:::۔۔۔۔۔

استفتاء .....2

(1) ماہواری کے دنوں میں اگر عورت ''آیت سجدہ'' سن لے تو کیا کرے؟ سجدہ کرے یا نہ؟

(2) بریلویوں کی مسجد میں شور محشر برپا رہتا ہے وہ کہتے ہیں حضرت حسان ؓ نبی پاک ﷺکی نعتیں پڑھتے تھے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

الجواب :

آیت سجدہ اور حائضہ: اذان بھی سن لے تو حائضہ پرنماز فرض نہیں ہوتی اس لیے آیت سجدہ بھی سن لے تو اسکے لیے سجدہ تلاوت ضروری نہیںـ

عن ابن جریج عن عطاء قال قلت له أرأیت إن مرّت حائض یقوم یقرؤون المصحف فسجدوا، أتسجد معھم ؟ قال لا قد منعت خیر من ذلك (ابن ابی شیبۃ:2؍14)

ہاں اگر نیازمندانہ سرجھکا لے تو انسب ہے۔

عن سعید بن المسیب عن عثمان قال: تومي إیماء برأسھا إیماء (ایضاً)

(2)۔ مساجد میں: مساجد میں نعتیں ج وغالیانہ نہ ہوں، پڑھ سکتے ہیں، واقعی حضر ت حسانؓ حضورؐ کے سامنے پڑھا کرتے تھے۔ لیکن یہ باد رہے کہ ایک نعت یا جائز اشعار کا پڑھنا ہوتا ہے۔ دوسرا ان کا گانا، پڑھنا تو بجا ہے او ریہی چیز ثابت ہے۔باقی رہا مسجدوں میں ان کا گانا؟ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ غالباً بطور عبادت ان کا گانا، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا شعار رہا ہے۔ یہود و نصاریٰ او رقوم ہنود کی عبادت گاہوں کا نظارہ جس دوستوں نےکیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں کیا کیا ہوتا ہے گانے کو وہاں عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مساجد کو ان کی مماثلث اور مشابہت کے فتنے سے بچایا جائے ۔کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔

مساجدکا مصرف قرآن حکیم نے ''ذکر اللہ'' بتایا ہے۔

مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا (بقرہ 14ع)

وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا(پ17۔ الحج ع6)

کیونکہ مساجد صرف اللہ کے لیے ہیں۔

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا(پ29۔ الجن ع1)

حضرت حسانؓ نے حضورؐ کی موجودگی میں اور حضورؐ کے حکم سے جو شعر پڑھتے تھے وہ جنگی ضرورت کی بنا پر دفاعی شعری کہے تھے۔ اس لیے حضورؐ نےان سے فرمایا تھا کہ رسول اللہﷺ کی طرف سے دفاع کیجئے۔ الہٰی! روح القدس سے اس کی مدد فرما!

یا حسان أجب عن رسول اللہ اللھم أیدہ بروح القدس (بخاری:1؍65)

ایسے اشعار جو روح القدس کی نصرت سے کہے جائیں وہ بجائے خود ''ذکر اللہ'' کی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

ایک اور شاعر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ اس وقت مسجد میں تھے، عرض کی حضورؐ! شعر سناؤں؟ فرمایا:نہ اس پر اس نے اصرار کیا تو آپ نے فرمایا:پرمسجد سےباہر ہوجا! چنانچہ وہ باہر نکل گیا، (جو سنانا تھا، سنایا) پھرآپ نے ان کوایک کپڑا عطا کیا اور فرمایا: یہ اس کا عوض ہے جو رب کی مدح کی ہے۔

فاخرج من المسجد فخرج من المسجد قال فأعطاہ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثوبا وقال: ھذا بدل ما مدحت به ربك (عبدالرزاق:1؍439)

بریلوی دوستوں نے مساجد کو جس طرح استعمال کررکھا ہے وہ مساجد کا انتہائی افسوسناک استحصال اور استعمال ہے۔ عدالت عالیہ یا شاہ وقت کے دربار کے آداب میں سے ہے کہ باوقار اورسنجیدہ رہا جائے غُل غپاڑہ او رشوروغوغا سے اجتناب کیا جائے! اور لوگ ایسا کرتے بھی ہیں۔ مگرخانہ خدا کی اس حیثیت کا یہ لوگ قطعاً احساس نہیں فرماتے۔

مسنون نعت خوانی نہیں ہوتی بلکہ شور، حشر بردوش کہرام اور شور برپا ہوتا ہے ، جوجواز کی کسی نوعیت کے دائرے میں نہیں آتا۔

حضرت سائب بن یزید حضرت عمرؓ کے عہد میں مدینہ کے گورنر تھے۔مسجد میں سو رہے تھے، انہیں حضرت عمرؓ نےجکاکر کہا کہ ان دونوں کو میرے پاس لے آؤ، چنانچہ میں ان کو لے آیا، ان سے پوچھا: کن سے ہو؟ اہل طاوف سے! فرمایا کہ اگر اس شہر کے ہوتے تو میں تم کوسزا دیتا، اللہ کے رسول کی مسجد میں اونچی آواز کرتے ہو:

لو کنتما من أهل البلد لأ وجعتکما ترفعان أصواتکما في مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بخاری:67)

مصنف عبدالرزاق کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ : دونوں بھاگ کھڑے ہوئے، آخر ایک ہات لگ گیا او راس کی پٹائی بھی ہوئی۔

فباد راہ فأدرك أحدھما فضربه (مصنف :1؍437)

ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عمر جب نما زکے لیےنکلتے تو مسجد میں اعلان فرماتے کہ: دیکھئے! شوروغل نہ ہو:

عن نافع أن عبداللہ (ابن عمر) أخبرہ أن عمر إذا خرج إلی الصلوٰة ندی في المسجد قال: وإیاکم والغلط (مصنف ابن ابی شیبۃ:2؍419، عبدالرزاق:1؍438)

حضرت سعد بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ، حضرت عمرؓ نے ایک شخص مسجد میں اونچا بولتا تھا تو فرمایا کہ: جانتے ہو! کہاں کھڑے ہو؟

قال سمع عمر بن الخطاب رجلا رافعا صوته، في المسجد فقال أین أنت (ایضاً :2؍419)

اس شخص کے بولنے کو آپ نے شوروغل سے تعبیر فرمایا ہے اس کےعلاوہ حضرت عمرؓ نے ایک کلیہ کا ذکر فرمایاکہ مساجد میں شور نہیں چاہیے! مسجد میں تانیں چھوڑے بغیر جن لوگوں کا پیٹ بہرحال پھول جاتا ہے ان کے لیے حضرت عمرؓ نے مسجد سے باہر ایک چبوترہ بنوا دیا تھا کہ وہاں جاکر اپنی خواہش پوری کیا کریں۔مسجد میں بہرحال وہ اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

بنی عمر رحبسة في ناحیة المسجد۔

شور قرآن خوانی کا بھی ہو تو جائز نہیں، دوسرا کہاں جائز ہوگا۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:

ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر زور سے قرأت نہ کرو۔''

اعتکف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في المسجد فسمعھم یجھرون بالقرآن فکشف الستر وقال ألا إنکم مناج إلیه فلا یؤذین بعضکم ببعضا ولا یرفع بعضکم علی بعض في القرآن أوقال في الصلوٰۃ (1؍133)

ہاں درمیانی آواز میں قرآن پڑھنا ، جس سے دوسروں کی توجہ متاثر نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے (ابوداؤد :1؍133) لیکن بریلوی احباب نے تو صرف مسجدکی حدتک نہیں بلکہ پورے قصبہ او رمحلہ کو اپنے شور محشر سے نڈھال کررکھا ہے اور مسجدوں میں اس قدر شور ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ۔

بہرحال: قرآن ہو یا درود ، نعت ہو یا لاالہ کا ورد، ان سب کا پڑھنا جائز ہے۔ گانا اور محشر بردوش تانیں چھوڑنا، ناجائز بلکہ حرام ہے۔ یہ ریت یہود،ہنود،مجوس اور نصاریٰ کی ہے۔ یقین نہ آئے تو گرجوں ، مندروں اور گردواروں میں جاکر دیکھئے!

قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (اعراف ۔ع7)

''چپکے چپکے اور (نہایت) فروتنی کے ساتھ اپنے رب کو پکارو، وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''

رب کو پکارنے کی تین شرطیں بیان کی گئی ہیں:ایک یہ کہ مسکین اورعاجز بندے کی طرح پکارو، دوسرا یہ کہ : چپکے پکارو، تیسرا یہ کہ کہرام نہ مچاؤ! (المعتدین)

عاجز اور مسکین بندہ رب کےحضور حاضر ہو ۔اور یوں جیسے طوفان ہو کبھی نہیں ہوسکتا، مسکین بندہ ''کڑکے'' نہیں مارا کرتا۔ اسے مسکینوں جیسی صورت اور عاجز بندہ جیسی آواز اور ندا سجتی ہے۔ اگر یوں آئے جیسے بجلی کی کڑک ہو، جسے پنجاب ''رولا'' کہتے ہیں تو وہ مسکین نہیں شمار کیا جاتا۔

اہل حدیث، شوافع اور جنابلہ وغیرہ کہتے ہیں کہ آمین اونچی آواز سے کہو تو یہ دوست اوپر والی آیت پڑھنےلگتے ہیں کہ کیا کریں: قرآن کہتا ہے کہ اونچا نہ بولو! چہ خوب۔

رسول اللہ ﷺ کی اُمت کی نشانی یہ بیان کی گئی کہ رات کو جب بعد میں ذکر کریں گے تو ان کی آواز اتنی نحیف اور لطیف ہوگی جیسے شہد کی مکھی کی آواز: أصواتھم باللیل في جوالسمآء کصوت النحل (دارمی :1؍6) دویھم في مساجدهم کدوي النحل (دارمی ص6)

ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ میں یہ نشانی پائی جاتی ہے؟