ملتِ اسلامیہ ایک ایسے طرزِ معاشرت اور اسلوب زندگی کی حامل جماعت کا نام ہے جس کا سرچشمہ اور ماخذ کتاب و سنت ہے جواپنے مزاج کے اعتبار سے مہدی بھی ہے اور ہادی بھی، یعنی وہ صراط مستقیم پرفائز بھی ہے اور اس کی داعی بھی۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وہ کتاب و سنت کی تعلیمات اور علم و عمل سے باخبر نہ ہو۔ چونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد اسلامی علم و عمل کے حصول کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہو۔ اس لیے حکم ہوتا ہے کہ ایک جماعت تو اس کے لیے ضرورت فارغ کردی جائے۔
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ (پ11۔ توبہ ع15)
''اور (یہ بھی) مناسب نہیں کہ مسلمان سب کے سب (اپنے اپنے گھروں سے)نکل کھڑے ہوں۔ (لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر) ایسا کیوں نہ کیا ان کی ہر جماعت میں سے کچھ لوگ (اپنے اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوتے کہ دین کی سمجھ پیدا کرتے۔''
اس سے غرض اپنی قوم کی اصلاح حال ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ ہوش میں آجائیں۔
وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (ایضاً)
''تاکہ جب وہ (پڑھ سمجھ کر) اپنی قوم میں واپس جاتے تو ان کو ڈراتے تاکہ وہ (بھی بُرے کاموں سے)بچیں۔''
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ملت اسلامیہ کی قیادت علمائے حق کی ذمہ داری ہے اور وہی اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک او رمقام پر قرآن حمید نے باتاور ہی کھول کر بیان کردی ہے کہ: پیش آمدہ مسائل کے سلسلے میں صرف وہ طبقہ رہنمائی کرسکتا ہے جواستنباط او راجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ (پ5۔النساء ع11)
''او رانہیں جب کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگریہ لوگ اسے رسول کے یا اپنے میں سے صاحبان امر (اہل علم و حکمرانوں) کے حوالے کردیتے ہیں تو ان میں سے جو لوگ استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کی حقیقت بھی جان لیتے۔''
اولی الامر سےدونوں مراد ہیں (1) اہل الاجتہاد علماء (2) او رحکمران ، قال الجصاص۔
یجوز أن یرید به الفریقین من أھل الفقه والولاة لوقوع الاسم علیهم جمیعا (احکام القرآن:2؍262)
فرماتے ہیں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ: علماء کے پاس''حکومت'' نہیں ہوتی تو یہاں علماء کیسے مراد لیے جاسکتے ہیں؟ فرمایا: آخر فتویٰ تو ان کا ہی چلے گا، ہر امر بحیثیت حکمران نہیں ہوتا، غیر حکمران بھی امر کرسکتے ہیں ویسے بھی احکام کے شناسا یہی لوگ ہوتے ہیں اور لازماً ان کوقبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ بس یہی امر ہے۔
قیل له إن اللہ تعالیٰ لم یقل من یملك الأمربالولایة علی الناس و جائز أن یسمی الفقھاء أولی الأمر لأنھم یحرفون أوا مراللہ ونواهیه و یلزم غیرھم قبول قولھم فیھا فجائز أن یسموا أولی الأمر من ھذہ الوجه (جصاص:2؍262)
فرمایا کہ اگر تمہارے مابین اختلاف پیدا ہوجائے تو کتاب اور سول کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ (پ5۔ النساء ع8)
مفسرین لکھت ہیں کہ : کتاب و سنت کی طرف رجوع علماء ہی کرسکتے ہیں، اس لیے یہ کیس ان ہی کی خدمت میں پیش کیاجائے گا۔
ومن لیس من أھل العلم لیست ھذہ منزلتھم لأنھم لا یعرفون کیفیة الردإلی کتاب اللہ والسنة وجوہ دلائلھما علی أحکام الحوادث خشبت أنه خطاب للعلماء (احکام القرآن للجصاص:2؍257)
ان آیات کریمہ نے یہ امر واضح کردیا ہے کہ ملت اسلامیہ کی قیادت دراصل علمائے حق ہی کا فریضہ ہے او ران ہی حضرات کو یہ بات زیب دیتی ہے۔ خلفاء راشدین کے عہد میں بھی علماء صحابہ کی طرف رجوع کیاجاتارہا ہے۔ خود حضرت عمرؓ ! فاضل صحابہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ تاریخ کے اوراق ان مثالوں سےبھرے پڑے ہیں۔
علماء کی قیادت کے معنی ''پاپائیت'' کا احیاء نہیں ہے بلکہ علماء کا وجود ''پاپائیت'' کی نفی کرتا ہے۔ پاپائیت ایک منصب ہے جو مخصوص طبقہ کی بخشیش کا نتیجہ ہوتا ہے، وہ ایک ایسی تنظیم ہے، جس میں مختلف عہدے او رمناصب ہوتے ہیں، وہاں علم وفضل کی بنیاد پر اسے از خود کوئی حاصل نہیں کرسکتا۔لیکن علماء کامعاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہاں ہمارے دور میں کچھ ''روشن خیال '' حضرات ''پاپائیت'' کے نام پر علماء کو بدنام کرکے دراصل ''قرآن'' حکیم کو ذہنی آواروں کی انارکی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح ''اسلام'' کومسخ کیا جاسکے۔ ہاں ان میں کچھ لوگ '' قرآن'' کے نام پر تحریک چلا رہے ہیں، جو پاپائیت کا نام لے کر علماء پرکیچڑ اچھالتے رہتے ہیں، لیکن ان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ خود پاپائیت کی احیاء کی کوششوں میں مصروف ہیں ، ان کا نظریہ ہے کہ قرآن کے مفاہیم کی تعبیر کا حق ''مرکز ملت'' کو ہے۔ یہ حضرات اس قسم کانعرہ ایجاد کرکے نہ صرف پاپائیت کے لیے فضا ہموار کرنے میں مصروف ہیں بلکہ وہ قرآن کے نام پر جدید قسم کے ڈکٹیٹروں کی داغ بیل بھی ڈا ل رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک ''علماء'' اس لیے قابل احترام ہیں کہ وہ قرآن دان او رحامل قرآن ہیں، جو لوگ نہیں جانتے قرآن کیا ہے او روہ کیا چاہتا ہے ؟ ان سے ہم صر ف یہ کہتے ہیں ک وہ ان بابرکت ہستیوں کی طرف رجوع کریں اور استفادہ کریں۔ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ان کا کلمہ بھی پڑھیں۔ جتنی اور جیسی بات قرآن کی کہیں وہ مان لیں ، جہاں کچھ جھول پائی جائے، چھوڑ دیں۔ اب اس کی طرف رجوع کریں جس کا قول اور رہنمائی قرآن کی روح سے قریب تر ہو۔ اگریہ پاپائیت ہے تو پھر معلوم نہیں، امامت اور کیا ہے؟
بہرحال ملت اسلامیہ میں علمائے حق کا یہ وہ اصلی او رواقعی مقام ہے جو اسلامی نقطہ نظر سے ان کو حاصل ہے او راس مقام پر وہ طویل عرصہ تک عملاً فائز بھی چلے آرہے ہیں۔
یہ اس وقت کا قصہ ہے جب کہ رسول کریمﷺ کے دور میں اور خلفاء راشدین کے مبارک عہد میں جہانبانی اور دینی امور یعنی دنیا اور دین ابھی یکجا جمع تھے او ران سے مادی اور روحانی اعمال میں ''تفریق'' نے ابھی راہ نہیں پائی تھی، اسلام کے اسرار و رموز کے وہ محرم راز تھے۔ شریعت مطہرہ پر ان کی نگاہ مجتہدانہ تھی۔ تدبیر مملکت او رملک کے سیاسی تقاضوں سے بخوبی آگاہ تھے ان کی نگاہ او رقیادت کا دائرہ زندگی کے کسی خاص گوشہ تک محدود نہ تھا بلکہ عملی زندگی ۔ سیاسیات ملی او رامور مملکت تک کو محیط تھا۔ کیونکہ متنوع ذمہ داریوں او رفرائض کی وجہ سے ان کے لیے کتابی دنیا اور نظری علم پر قناعت کرنا کافی نہیں تھا، بلکہ اپنے گردوپیش کے تقاضوں ، احوال و ظروف کی مختلف قدروں، فکری عوامل،تمدنی رجحانات اور عصری تعامل کے مقتضیات پر نگاہ رکھنا او ران کے سلسلے میں اسلام کی فطری رہنمائ ان کومہیا کرنا ان کے فرائض منصبی اور دینی فریضے میں داخل تھا۔ جس طرح شعائر دین او رمراسم شرعی کے وہ نگہبان اور پاسبان تھے ویسے ہی تمدنی، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی رہبری بھی ان کے علمی اور روحانی حیطہ اقتدار کا حصہ تھی۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کی حق گوئی ، استفتاء ایمان او رضمیر کی بادشاہت ثبات علی الحق کے مقام رفیع، دینی معروف کے سلسلے میں ان کی حریصانہ تبلیغی مساعی، منکر کے خلاف ان کی بے قابو غیرت کے سامنے تاج و تخت لرزہ براندام رہتے تھے۔ اس لیے نجی حیثیت میں بھی ان کے افکار کو سرکاری حیثیت حاصل تھی۔ ارباب اقتدار ان کا احترام کرتے او ران سے رہنمائی حاصل کیا کرتے۔
اس کے بعد جب دنیوی سیاست اور دینی اقتدار میں ہم آہنگی نہ رہی اور عنان اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آئی جو خدا سے زیادہ اپنے نفس و ہویٰ کے غلام تھے، تو شروع شروع میں گو علماء کے پاس شاہی طنطنہ، شوکت اور اثر و نفوذ جیسی دولت نہ رہی تاہم اب بھی اپنے علم و عمل کی وجہ سے عوام میں ان کا ایک مقام تھا، ترغیب و تحریص اور ترہیب و تنذیر کی بیسیوں تحریکات کے باوجود دنیوی حکومتوں کے لیے ان کا راستہ روکنا محال او ران کو رام کرنا دشوار تر تھا۔ لیکن افسوس! جب علم و عمل کی کائنات میں حرص و طمع کے بھونچال آنا شروع ہوگئے، اخلاقی انحطال کے وجہ سے ضمیر اور غیرت ماؤف ہونے لگے، روحانیت پرمادیت چھانا شروع ہوئی، خدا کے بجائے خداوندان مملکت کی خوشنودی کی پیاس بڑھی، دل کی جگہ شکم او رکام و دہن بار پا گئے۔ رسول کے بجائے دوسرے آستانوں سے محبت کی پینگیں بڑھنے لگیں۔کسی غیر کے پاس خاطر کے لیے حریت فکر اور علم و ہوش کو فریب دینے کی کوششیں شروع ہوگئیں تو علماء کی روحانی مسند بھی ادبار او رزوال کے نرغے میں آگئی ۔ قرب سلطان کی ہوس ن ےان کو حکمرانوں کا نہ صرف حلقہ بگوش بنا دیا بلکہ مملکت کے بجائے صرف ان کے مستقبل کےلیے ایک چارہ ساز بھی بنا کر رکھ دیا۔ اس لی قدرتی طور پر علماء کے فکر و نظر کا دائرہ کار بھی محدود ہونا شروع ہوگیا۔اگر اس میں کچھ وسعت رہی تو صرف نظری اور کتابی حد تک، لیکن دنیائے بےکراں کے تمدنی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں کے سلسلے میں ان کی دلچسپیاں گھٹ گئیں وہ بالآخر ''بسم اللہ کے گنبد'' میں محصور ہوکر رہگئے۔ ان جاہ پرست اور خوشامدی علماء نے علماء سُو کی ایک ایسی ٹیم کو بھی جنم دے ڈالا جس نے قدم قدم پراقتدار کے دیوتاؤں کو جھوٹے سہارے مہیا کیے اور اسلامی مستقبل کے لیے بے شمار الجھنوں کو تخلیق کیا۔ اسلام ''سرکار پرست'' علماء سوء کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے او ران کے وجود کو ملت اسلامیہ اور خود اسلام کے لیے ایک فال بدتصور کرتا ہے۔ انہوں نےحکمرانوں کی جتنی عظیم خدمات انجام دیں اتنا ہی اسلام او راہل اسلام سے مثالی بدخواہی کا ثبوت دیا اورعلمائے حق کے لیے قدم قدم پر آزمائشوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع کرکے ان کے لیے عذاب و عتاب کے شرمناک دروازے بھی کھول ڈالے ۔ خدا ان روسیاہوں کو غارت کرے جنہوں نے اقتدار کے بتوں کے صنم خانے اباد کیے او ران علمائے حق کو اجر جزیل عنایت کرے جو محض اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے داروسن تک پہنچے۔
ان سےکبھی ان کو فرصت ملی تو انہوں نے کتاب و سنت کے بجائے بعض شخصیتوں کی عینکیں لگا کرکائنات کا مطالعہ کیا جس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلا ہے کہ : حریت فکر پر اوس پڑ گئی۔ رسول اور کتاب سے براہ راست رابطہ رکھنے کی توفیق ان سے چھن گئی ، اور وہ فقہی او رکلامی اثاثہ جو عصری تقاضوں کی تسکین کے لیے مرتب کیا گیا تھا،اسے ہر زمان اورہر علاقہ کے لیے لازوال بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ شخصیت پرستی کےبوجھ تلے یوں دب کر رہ گئے جیسے سکراچی کی چھ منسل عمارت کے نیچے دب کر دنیا رہ گئی۔ اب علمی تنگ دامانی کے ساتھ ساتھ فکری جمود اور تنگ نظری نے بھی آگھیرا۔ چنانچہ اعاظم پرستی اور تقلید کی بندشوں میں گرفتار ہوکر، دعوت کے اس مقام رفیع سے بھی وہ دو رجاپڑے جو اسلامی دعوت کی ہمہ گیری کا خاصا تھا۔ حالانکہ پہلے سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ علماء کی رہنمائیوں کا دائرہ بھی بڑھتا رہا تھا، اب واقعات اور حوادثات سے بے قابو طوفانوں کے باوجود چند فقہی اور کلامی کتابوں کی چار دیواری سے نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا، اگر کسی ''بندہ مومن'' نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو اسے خارجی او رمنکر یزدان قرار دے ڈالا۔
ہمارے علم و ہوش کے ماضی کی تاریخ اس امر پرگواہ ہے کہ ہمارے اسلاف ہر دور میں دنیا کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق اپنے تعلیمی خطوط کا جائز لیتے رہے تھے او رحسب حال جدید تقاضوں کےمطابق تعلیمی خاکے مرتب کرکے دنیا کو ایک ایسی تعلیم یافتہ ٹیم مہیا کرتے رہے تھے جو ان کے دردوںکی دوا اور ان کےاجتماعی اور انفرادی تقاضوں کا فطری حل پیش کرتی رہی تھی۔ کیونکہ اسلام دین فطرت ، خدا کا آخری پیام اور کائنات ارضی کے بتدریج بڑھتے ہوئے تقاضوں کا آخری جواب ہے۔اس لیے اب اس کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ علماء ہر دورمیں، انے دور کے خصائص، عوامل، مزعومات اور تعامل پرنگاہ رکھیں ، اس سلسلے کے تمدنی، سیاسی، اقتصادی اور فکری تحریکات کا گہرا جائزہ لیں او رپھر ایک کامیاب معلم کی طرح ان پر روشنی ڈال کر صحیح اور غلط واضح کریں۔ ماضی میں ایک بھی دور ہمیں ایسانظر نہیں آتا اور تاریخ کے کسی موڑ اور گوشہ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ ہمارے اکابر او رعلمائے امت نے عصری علوم سے پہلو تہی کیا ہویا عصری تقاضوں سے آنکھیں بند کرکے صرف چند مفوضہ کتابوں کی تعلیم و تدریس پر وقت ضائع کیا ہو ۔ سرکش دنیا پوری برق رفتاری کے باوجود ہمارے علماء کی علمی اور فکری دسترس سے اپنا دامن چھڑا کر آگے نکل گئی ہو۔ پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
دور حاضر کا عظیم فتنہ، ساونسی اور جدید اقتصادی دریافتیں ہیں او رکچھ بے خدا معاشرہ کی معاشرتی (بقول ان کے) سائنٹیفک، قدریں ہیں، ہیئت اور جغرافیہ اور ریاضی کے بعض مسلمہ افکار ہیں، لیکن وہ ایسے نہیں ہیں کہ ہمارے علماء کے فکر و نظر کی جولانیوں سے پرے ہوں، اگر ان کی مناسب تعلیم و تدریس کی طرف توجہ دی جائے تو کوئی وجہ انہیں کہ اس سلسلے کی ذمہ داریوں یااس میدان کے بوالعجبوں کی لن ترانیوں کومطمئن نہ کیا جاسکے۔ یقین کیجئے! قرآن و حدیث ابدی ہیں، ان کی ایک تھیوری بھی جدید علوم سے متصادم نہیں ہے۔ صرف آپ کی نگاہ التفات کے خصوصی التفات کی ضرورت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ : جدید علوم کے سلسلے میں وسائل کی کمی ہے اور دینی درسگاہوں کےلیے ان کی طرف توجہ دینا خاصہ مشکل کام ہے، تاہم یہ تمام مشکلات ابتدائی دور تک مشکلات رہ سکیں گی۔ اس کےبعد یہ بوریہ نشین چٹائیوں پربیٹھ کر ہی امامانہ شان سے ان عصری علوم کی جتنی او رجیسی کچھ تکمیل کرسکیں گے ان کی عہد حاضر کے جدید معلموں سےبھی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہم جانتے ہیں کہ: چند عصری علوم کی وجہ سے جو مرعوبیت طاری ہورہی ہے اور بدنیت عناصر جس طرح اس کمی کو اچھال کر علمائے حق کو مذموم مقاصد کے لیے بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ انتہائی بودے ہیں، تاہم اس مرعوبیت کو ختم کرنا بھی تو علماء کا ہی دینی فریضہ ہے۔
ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کا ہر جزیہ بندوں کی ترمیم او رحک و اضافے سے بالاتر ایک عظیم حقیقت ہے، لیکن جن جدید علوم کو لے کر دشمن دین،کتاب و سنت میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں ان کا بھی تو کچھ مداوا ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ جدید اور قدیم علوم کو اپنا کر علماء کرام کو چاہیے کہ ملت اسلامیہ کی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں کیونکہ یہ دنیا دار لوگ ملت اسلامیہ کے سیاسی زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر اسلام کے بجائے اپنے اقتدار کو لازوال بنانے کے لیے پوری قوم کو استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ان کھلنڈروں کو ملت اسلامیہ کی تقدیروں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔ ورنہ قیامت میں خدا آپ سے اس کی باز پرس کرے گا۔ اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ : آپ نے جو میدان خالی کرکے ان کے حوالے کیا ہے اسے اب ویران نہ رہنے دیا جائے۔ آگے بڑھ کر اسے اپنے قبضے میں لیں۔ ان شاء اللہ عوام اب بھی آ پ کا ہی ساتھ دیں گے۔
علماءے حق ایک عظیم قوت او ربے پناہ معنوی طاقت ہیں، اور یہ بات ان کے لیے سزاوار بھی ہے۔ اس لیے اپنی اسی ''عظیم حیثیت'' کی وجہ سے خدا ک ےہاں جواب دہ بھی ہیں۔ کیونکہ گھر کا مالک بھرا گھر چھوڑ کر اگر کہیں اور جگہ جاکرسستائے گا توظاہر ہے کہ چور گھر کے مالک کی عدم موجودگی سے ضرور فائدہ اٹھائے گا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جدید علوم اور وسائل کوخدا تصور کیا جائے۔ غرض یہ ہے کہ جس حد تک یہ خدا کی راہ میں حائل ہورہے ہیں اسی حد تک اس کو انہی ذرائع اور وسائل سے راستہ سے ہٹا دیا جائے۔ اسی طرح قرب سلطان کی ہوس سے پرہیز کیا جائے الا یہ کہ خو دان کو تھام کر چلنے کا ارادہ او رحکمت ہو۔
استغنا آپ کی روحانی میراث ہے، اس کے احیاء کی کوشش کیجئے! او ر جدیدعلوم کے ذریعے ملک و ملت کی جو عظیم خدمات دی جاسکتی ہیں ان کے اتمام میں آپ دنیا سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ان کی قیادت کا فریضہ بھی آپ انجام دیں۔
تبلیغ اور دین برحق کی نشرواشاعت آپ کا دینی فریضہ اور اخروی سرمایہ ہے ، اس کو کاروبار بنانے سے پرہیز کیجئے! ورنہ آپ کے تبلیغی بولوں میں کوئی برکت نہیں ہوگی بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ کی یہ لغزش آ پ کی اخروی عافیتوں کےلیے فتنہ بن جائے۔
آپ کی موجودگی میں، خدا ناشناس لوگ جس قدر ملّی قیادت پر قابض ہوتے جائیں گے اتنی ہی بے خدا سیاست اور غیر اسلامی طرز معاشرت فروغ پائیں گے جس سے آپ کی اخروی جوابدہی کے امکانات اور قوی ہوتے جائیں گے اس لیے اگر آپ نے اب اپنے مقام ، منصب اور ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا تو آپ کی اس غفلت سے اسلام او راہل اسلام کے مستقبل کو شدید نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ ہے۔
ہم علماء کی اجارہ داری کے قائل نہیں ہیں، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو چیز ان کے سوا اور کہیں دستیاب نہیں ہوسکتی او رجن کےبغیر ہماری زندگی کا ہر شعبہ ایک مسلم کی حیثیت سے غلط متاثر ہوسکتا ہے تو اس مرحلہ پر ان کو ضرور آواز دی جائے۔ یہ طبقاتی واویلا نہیں ہے بلکہ باصلاحیت افرا دکی تلاش کے لیے منادی ہے۔ ع جس کا کام اسی کو ساجھے