عالم اسلام کے سیاسی سربراہوں کے نام

(قسط 4)

بہتر اور اچھے حکمرانوں کی علامات:

22۔ عن عوف بن مالک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:

خیارأئمتکم الذین تحبونھم ویحبونکم و یصلون علیکم و تصلون علیهم  و شرارأ ئمتکم الذین تبغضونهم و یبغضونھم و تلعنونھم و یلعنونکم(رواہ مسلم)

حضرت عوف بن مالک، رسول کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ کا ارشاد ہے :

''تمہارے بہترین سیاسی پیشوا وہ ہیں جن سے آپ محبت کریں اور وہ آپ کو دل سے چاہیں آپ ان کو دعائیں دیں وہ آپ کو دعائیں دیں۔''

''تمہارے بُرے سیاسی حکمران وہ ہیں جن کو آپ پسند نہ کرتے ہوں نہ وہ تمہیں پسند کرتے ہوں، آپ ان پرلعنتیں کرتے ہوں او روہ آپ پر۔''

اس سےمعلوم ہواکہ سیاسی حکمران کو قول کی آنکھوں کا تارا او رمحبوب ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں آپ کے دل سے دعائیں نکلتی ہوں او روہ آپ کی فوز و فلاح اور عافیتوں کے لیے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے ہوں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر سمجھ لیجئے! کہ وہ بُرے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی توقع عبث ہے، وہ قوم کو الّو تو بنا سکیں گے لیکن ان کو ہوش بھی دیں؟

ایں خیا لست و محالست و جنوں

یہ بات اصلی او رسچے مسلمانوں کی ہے کہ ان کا مزاج ان حکمرانوں کو برداشت کرے اور ان کے لیے ان کے دل سے بے ساختہ دعائیں نکلتی ہوں، باقی رہے وہ مسلمان جو ذوق مسلمانی اور غیرت ایمان سے محروم ہیں، او رقرب سلطان کو قرب الہٰی سے مقدم رکھتے ہیں تو ان کی پسند ناپسند کوئی زبانی ترازو نہیں ہے۔جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ: انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں بَد ا اوپر آتے ہیں اور انہی کی مسلمانی کے ہوتے ہوئے دین فروش ملک و ملت پر قابض ہوچکے ہیں۔

اتفاق اور اتحاد کی مثال:

23۔ عن أبي موسیٰ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ المؤمن للمؤمن کالبنیان یشدبعضه بعضا (رواہ مسلم)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ مومن دوسرے مومن کے لیے ایک دیوار کی مانند ہے۔ اس کی ہراینٹ ایک دوسرے کو استحکام او رسہارا بخشتی ہے۔

دنیامیں سارے لوگ ایک جگہ نہیں رہتے، کوئی یہاں ہوتا ہے او رکوئی وہاں، لیکن یہ مسافت او ربعد، ان کے اندرونی اتحاد اور اتفاق پر اثر انداز نہیں ہوتا، کیونکہ ان کاذہن ، مقاصد،اصولی مسائل، دین، رُخ اوردل ایک ہوتے ہیں، ان کے سارے کام باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔مشکل میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے ہیں، وہ کہیں ہوں، کوئی ہوئی وہ ایک دوسرے کے استحکام کا موجب ہوتے ہیں او رایک دوسرے سے گہری دلچسپی لیتے ہیں|۔

اگر مسلمان ممالک اپنے آپ کو ایک دوسرے میں مدغم کرکےمملکت کو ایک ''عظیم او رناقابل تسخیر ریاست'' میں مشہود نہیں کرسکتے تو کم از کم ایک دوسرے کےمسائل کو اپنے مسائل تصور کریں اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں برابر کے شریک رہیں۔

ظلم، ظلمات بن جائے گا:

24۔ عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إن الظلم ظلمات یوم القیامة (رواہ مسلم)

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ : ''قیامت میں ظلم، کئی اندھیرے بن جائے گا۔''

ظلم بے انصافی کو کہتےہیں او روہ کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے۔کہتے ہیں تلوار کا کھیت کبھی ہرا نہیں ہوا۔ یہی کچھ قیامت میں ہوگا او ریہ ظلم، ظلمات بن جائے گا کہ ان کی تاریکیوں او راندھیروں میں ظالم کو کچھ نہیں سجھائی دے گا اورکہیں سے بھی اُمید کی کرن نہیں پھوٹے گی۔ اخروی مستقبل پورے کا پورا تاریک ہوجائے گا۔ پھر وہی کچھ ہوگا جو سرتاپا حوصلہ شکن ہوگا۔

اس ظلم کے دائرے مختلف ہوں گے۔ سب سے بڑا ظلم شرک ہوگا اور اس کےاندھیرے سب سے بڑے مہیب اور آزاردہ ہوں گے اس کے بعد بندوں کی باہمی بے انصافیوں کا سلسلہ ہوگا،جو انسان کے لیے کم فتنہ نہیں ہوگا، او رکچھ رعایا او رحکمرانوں کی بے انصافیوں کادائرہ ہوگا، جو تاجداروں کے لیے سب سے بڑھ کر رسوا کن اور آزاردہ ہوگا۔ اس لیےبہتر ہے کہ ہر ایک شخص پہلے ہی اس کا مداوا کرلے۔ سوچ لے او راپنی زندگی کو ان سے ابھی سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔

کنونت کہ دست است خارے بکن

دگر کے برآری تو دست از کفن

قرآن اور تلوار

25۔ وقد روي عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنهما قال:

أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أن نضرب بھذا (یعنی السیف) من عدل عن ھذا (یعنی المصحف) (السیاسة الشرعیة لابن تیمیہ )

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت کی جاتی ہے کہ :

رسول کریم ﷺ نے (قرآن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ ہمیں آپ نے حکم دیا کہ :جو شخص اس سے منہ موڑے ہم اس کی پٹائی اس (تلوار) سے (کیا ) کریں۔'' (السیاسةالشرعیة لابن تیمیہ )

تلوار اقتدار کی جان ہے، گویا کہ اسلامی اقتدار کی غرض و غایت قرآن او رقرآنیات کا تحفظ ہے۔اگر مملکت کے دائرے میں قرآن کو مان کر اس کے خلاف چلنے کی کوشش کی جائے تو تلوار کے ذریعے اس کے بل نکالنے کی کوشش کی جائے گی بہر حال تلوار بے مصحف (قرآن) چنگیزی ہے اور مصحف بے تلوار روبا ہی۔ اسلام میں ان دونوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

جب کوئی بااثر شخص جرم کرتا :

26۔عن عائشة رضی اللہ عنها قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

إنما ھلك بنو إسرائیل انهم کانوا إذا سرق فیھم الشریف ترکوہ وإذا سرق فیھم الضعیف أقاموا علیه الحدوالذي نفس محمد بیدہ لوا أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدھا (الصحیحین)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

''بنو اسرائیل (یہودی اور عیسائی) بس صرف اس لیےتباہ ہوئے کہ جب کوئی بااثر شخص چوری کرتا (تو)اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا (تو) اس پر حد جاری کرڈالتے، بخدا! اگر محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہؓ بھی (خدانخواستہ) چوری کرتی (تو ) یقین کیجئے! اس کابھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔''

قانون اور اقتدار کی یہ یک چشمی جس قدر مہلک ہے، اسی قدر عام بھی ہے۔ بڑے لوگوں کو کوئی نہیں پوچھتا، اگر کوئی بے زور، نادار اور غریب آدمی کوئی کوتاہی کربیٹھے تو قانون اور اقتدار کا غیظ و غضب دیدنی ہوتا ہے۔

رسول کریمﷺ جو دین لائے ہیں ، اس میں کسی کے لیے کوئی استثناء نہیں ۔ خود رحمت عالم ﷺ نے جو معصوم عن الخطا بھی ہیں اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہیں رکھا۔ دوسرے کسی کا کیا مذکور؟

اگر قانون اور اقتدار میں حوصلہ ہو اورعدل و انصاف کی کچھ شرم بھی تو یقین کیجئے! وہ شاہان وقت پر بھی ہاتھ ڈالنے سے نہیں ہچکچاتے۔مگر آہ! اس جدید اور روشن دور میں جس قدر قانون اور اقتدار ''یک چشم'' ہوکر رسوا ہورہے ہیں، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لیےملک میں ظلم ارزاں اور انصاف گراں۔ کمزور بے بس او رطاقتور اور شیر بیشہ۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

معصیت میں اطاعت جائز نہیں:

27۔ عن علي قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا طاعة في معصیة إنما الطلاعة في المعروف (رواہ مسلم)

حضرت علی ؓ فرماتے ہیں: رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ :

''(خدا کی) نافرمانی میں کسی اطاعت (جائز نہیں، تعمیل صرف ''مصروف'' میں کی جاتی ہے۔''

ماں باپ، استاد، حکمران، برادری، چوہدری، اولاد، دوت کی غلط باتوں میں جس طرح تعمیل کی جاتی ہے کسی سے مخفی نہیں ہے۔ بہرحال یہ سرتاپا معصیت ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ، شرک کے معاملہ میں والدین کی اطاعت نہ کیجئے! ہاں خدمت میں کسر نہ چھوڑیئے۔

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (لقمان)

اُمت میں بدترین لوگ:

28۔ عن أبي أمامة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

سیکون رجال من أمتي یأکلون ألوان الطعام و یشربون ألوان الشراب ویلبسون ألوان الثیاب ویتشدقون في الکلام أولئك شرار أمتي (رواہ فی الحلیۃ)

حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ:

''میری امت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو رنگ برنگے کھانے کھائیں گے، انواع و اقسام کے مشروب پیئیں گے اوررنگ برنگے لباس (فاخرہ) پہنیں گے او ربڑے طمطراق سے باچھیں پھلا کرباتیں کریں گے ۔ میر ی اُمت میں وہ لوگ سب سے بُرے ہوں گے۔'' (حلیۃ الاولیاء)

جو لوگ مندرجہ بالا امور میں منہمک رہتے ہیں وہ تن و توش کےغلام ہوتے ہیں، ان میں انسانیت کم بہیمیت زیادہ ہوتی ہے۔ قلب و نگاہ کی معصومیت داغدار ہوجاتی ہے مگر نفسانی خواہشات حکمران بن جاتی ہیں، اس لئے امتی ہونا تو بڑی بات ہے ، وہ ایک بھلے آدمی بھی نہیں رہتے۔'' یہ انسان نما لوگ، اصل میں حیوان ہوتے ہیں، جن کو انسانیت سے زیادہ نفسانیت سے دلچسپی رہتی ہے ۔ بس ایسے لوگوں کو پہچانئے او ران سے بچئے۔

شراب نوشی:

29۔ عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدمن الخمرإن مات بقي اللہ کعابدوثن (رواہ احمد)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

''جو سدا شراب پیتا ہے ، اگر وہ (اسی حالت میں ) مرگیا (تو) ایک بت کے پجاری کی حیثیت سے اللہ سےملے گا۔''

ایمان، ہوش میں آنے کا نام ہے، شراب ایک ایسی کیفیت کی خلاف ہے جو ہوش کی دشمن اور دشمن جان و ایمان سےبے خبر رکھتی ہے۔ شراب دراصل نفس بہیمی کا سب سے بڑا داعیہ ہے، نفس کے لیے شراب سے بڑھ کر اور کوئی عیاشی نہیں ہے، اس لیے جو لوگ نفس کے اس مطالبہ کی تکمیل کے لیے سدا مستغرق رہتے ہیں گویا کہ نفس جیسے بت کے سامنے وہ سجدہ ریز رہتے ہیں۔چنانچہ دنیا میں جو واقعہ تھا مگر زبان اس کے اعتراف سے قاصر تھی، وہی کیفیت اب آخرت میں اس کے انگ انگ سے پھوٹ پھوٹ کرنکلے گا۔ او رسربستہ راز سامنے آجائے گا کہ یہ شخص گو بظاہر باہر کے وثن اور بت کےسامنے سجدہ ریز نہیں تھا تاہم اپنے سینہ میں پوشیدہ نفس جیسے صنم کے حضور وہ سجدہ ریز ضرور رہا اس لیے اس کےساتھ معاملہ بھی ایک ''وثنی'' جیسا کیاجائے گا۔

اسلامی جہاد:

30۔ قال أبوموسیٰ الأشعري أن رجلا أعرابیاً أتی النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فقال یارسول اللہ الرجل یقاتل للمغنم والرجل یقاتل لیذکروا لرجل یقاتل لیری مکانه فمن في سبیل اللہ ! فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من قاتل لتکون کلمة اللہ أعلیٰ فھو في سبیل الله (رواہ مسلم)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آئے او رپوچھا:

حضورﷺ! ایک شخص مال غنیمت کےلیے لڑتا ہے، کوئی اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی دھوم ہو، کوئی لڑتا ہے کہ دنیاکو اس کے مرتبے کا پتہ چلے (کہ بڑا بہادر ہے) تو ان میں سے فی سبیل اللہ کون ہے؟

فرمایا: جو صرف اس لیے قتال کرتا ہے کہ اللہ کابول بالا ہو ، بس وہی''فی سبیل اللہ'' ہے۔

اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑنا اور اس سے مقصود اس کی خوشنودی کا حصول ہو تو اس وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، ان دو میں سے ایک بھی کم ہوجائے تو وہ اور جو کچھ سبھی ممکن ہے لیکن وہ بہرحال جہاد فی سبیل اللہ اور وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے۔

حدود اللہ کا نفاذ:

31۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ :

''حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کو قائم او رنافذ کرنا خدا کی زمین پر چالیس رات کی (مسلسل) بارش سے کہیں بہتر ہے۔'' (ابن ماجہ)

معصیت بہت بڑی نحوست ہے ، برکت چھن جاتی ہے، مصائب و آلام کانزول طوفانی شکل اختیار کرلیتا ے، بندوں کا استحصال، خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور دورہ شرو ع ہوجاتا ہے۔ قانون کا احترام دل سے اُٹھ جاتا ہے ۔ حکمران مداہن اور ابن الوقت حکمران بن جاتے ہیں، گاہک ڈاکو اور دکاندار جیب کترے ثابت ہوتے ہیں۔اولاد نافرمان اور شاگرد باغی ہوجاتے ہیں، کھیت روٹھ جاتے ہیں، آسمان ناراض دکھائی دینے لگتے ہیں، بارش کی ہر بوند دشمن کی گولی اور ہوا کا ہر جھونکا نار جہنم کادھواں بن جاتا ہے۔ انسان کی ترقی کا ہر قدم ابن آدم کے لیے قدوم میمنت ثابت نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا رولر بن جاتا ہے جو انسانی عافتیوں او رمستقبل کو کچلتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔

حدود اللہ کے نفاذ کے معنی ہیں کہ مملکت بے لاگ اسلامی قوانین کے جاری کرنے میں مخلص ہے او راگر دنیا میں قانون ، خاص کر اسلامی قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے تو ان جراوم او رمعصیت کا سد باب ہوجائے جس کی وجہ سے دنیا میں بگاڑ او ربے اطمینانی راہ پاتی ہے۔ اور خلق خدا ظلم و عدوان اور انواع و اقسام کے فتنوں کی آماجگاہ بن سکتی ہے۔ کاش! جس اسلامی نظام عدل و سیاست کی ضرورت او رافادیت کا احساس غیروں کو بھی ہونے لگا ہے مسلمان ممالک کو بھی اس کا احساس ہوجائے۔

حکمرانوں کے وزراء:

32۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ:

''جب اللہ تعالیٰ کوکسی حکمران کی بھلائی منظور ہوتی ہے تو اس کے لیے مخلص وزیر کا بندوبست کردیتا ہے اگر اس سے بھول ہوجائے تو وہ اسے یاد کرا دیتا ہے،اگر اسے یاد ہو تو اس کی اعانت کرتا ہے ۔ اگر اس کے بجائے اس کے لیےکچھ او رمنظور ہوتا ہے تو اس کے لیے ایک ایسے بُرے وزیر کے سامان کردیتا ہے کہ اگر وہ بھول جائے تو اللہ یاد نہ کرائے اگر اسے یاد ہوتو اس کی کوئی مدد نہ کرے۔''

دنیا میں کوئی بھی حکمران مشیروں، صلاح کاروں اور وزیروں سے بے نیاز نہیں ہوتا، لیکن یہ بات کہ ان کو کیسے صلاح کا ر اور وزیرملنے چاہیئیں؟ وہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ خود کیسا ہے اگر وہ خود بھلے انسان ہوتے ہیں تو حق تعالیٰ صلاح کاروں کے انتخاب میں بھی ان کی مدد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر لوگوں کو ان کا وزیر بنا دیتا ہے جو ہر لغزش پر انہیں تھام لیتے ہیں او رہربھلے اقدام پر ان کی اعانت کرتےہیں، اگر وہ خود غیر محتاط لوگ ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ ویسا معاملہ کرتا ہے ۔ بُرے مشیر، شاطر وزیر اور جی حضوری صلاح کار ان کومہیا فرما دیتا ہے ، اگر وہ ٹھوکر کھاتے ہیں تو ''چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا'' کی صدا بلند کرتے ہیں، اگرکبھی ان کو بھلائی کا احساس ہوجائے تو: تُوجان اور تیرا کام، کہہ کر الگ ہورہتے ہیں۔ گویا کہ وزراء اور صلاح کار خود حکمرانوں کے اپنے اعمال ذہنیت او راہلیت کا عکس اور نتیجہ ہوتے ہیں۔ بس جیسے کو تیسا..... اور یہ وہ حقیقت کبریٰ ہے جو ہر فرد نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہے مگر عبرت ؟ سو وہ اچھی قسمت والے ہی پکڑتے ہیں۔

افتراق کے سامان :

33۔ عن عرفجة رضی اللہ تعا لیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول سیکون ھنات و ھنات فمن أرادأن یفرق أمرھذہ الأمة وھي جمیع فاضربوہ بالسیف کائنا من کان (رواہ مسلم)

حضرت عرفجہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرماتے سنا ہے کہ:

''عنقریب شروفساد برپا ہوں گے تو جو شخص ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنےکا کوئی اقدام کرے، اور وہ کوئی بھی ہوتو چاہیے کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔''

جب ملک میں بے اطمینانی کی کوئی لہر اٹھتی ہے تو شاطر او ربدنیت لوگ اس کو مزید ہوا دے کر افتراق و انتشار کو ہوا دیتے ہیں او رچاہتے ہیں کہ مرکز کمزور ہو او ران کے ہاتھ کچھ آجائے۔ اسلام کی نگاہ میں ایسے لوگ حوصلہ افزائی کے مستحق نہیں ہیں بلکہ گردن زدنی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تخریب کاروں کا احتساب کرے۔ لیکن جب ارباب حکومت ہی ملک میں بدگمانیوں کے جال پھیلانے پرمصر ہوں ، پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، جن کا اصول بن گیا ہو اور ملت اسلامیہ میں باہمی منافرت کی سرپرستی بھی وہ کرتے ہوں تو پھر کیاہو؟

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

ہم محسوس کرتے ہیں کہ الیکشن کا موجودہ سسٹم ، ملت اسلامیہ کے انتشار اور افتراق کا جو موسم مہیا کرتا ہے اس ک ےبعد کسی دوسرے دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو

باقی رہی تعمیری تنقید؟ سو اگر کسی کو ملک و ملت کی فلاح اوربہبود منظور ہوتی ہے تو وہ حکمران اس سے استفادہ کرتے ہیں ورنہ کال کوٹھڑی میں ڈال کر انہیں زنداں کی زینت بنا دیتے ہیں۔ بہرحال ارباب اقتدار او ربیشتر اپوزیشن جماعتوں کا عمل کچھ زیادہ قابل تحسین نہیں ہے۔

پھر ہم بُرے حکمران مسلّط کردیں گے:

34۔ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ بِرَفْعِهِ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ أُمَرَاءَ كَذَبَةً، وَوُزَرَاءَ فَجَرَةً، وَأَعْوَانًا خَوَنَةً، وَعُرَفَاءَ ظَلَمَةً، وَقُرَّاءَ فَسَقَةً، سِيمَاهُمْ سِيمَاءُ الرُّهْبَانِ، وَقُلُوبُهُمْ أَنْتَنُ مِنَ الْجِيَفِ، أَهْوَاؤُهُمْ مُخْتَلِفَةٌ، فَيَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ فِتْنَةً غَبْرَاءَ مُظْلِمَةً فَيَتَهَالَكُونَ فِيهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَيُنْقَضَنَّ الْإِسْلَامُ عُرْوَةً عُرْوَةً، حَتَّى لَا يُقَالَ: اللَّهُ اللَّهُ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لِيُسَلِّطَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ أَشْرَارَكُمْ، فَيَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ، ثُمَّ يَدْعُو خِيَارُكُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ لَا يَرْحَمُ صَغِيرَكُمْ، وَلَا يُوَقِّرُ كَبِيرَكُمْ» (رواہ ابن ابی الدینار۔ الجواب الکافی لمن سئال من الدواء الشافی لابن القیم ص31)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ:

''مجھے اس ذات (پاک) کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ جھوٹے حکمران، فاسق فاجر وزراء، خائن معاونین، ظالم چودھری او رایسے فاسق علماء جن کی پیشانیوں صوفیوں جیسی ہوں گی مگر ان کے دل مردار سے زیادہ مردار اور متعفن ہوں گے۔ان سب کی خواہشات او رمقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے تو ان پر اللہ تعالیٰ ایک ایسا کالا کلوٹا فتنہ مسلط کردے گا جن میں وہ گرتے ہی جائیں گے۔

قسم ہے اس ذات (پاک) کی جس کے قبضے میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اسلام کی ایک ایک کڑی ٹکڑے ہوجائے گی یہاں تک کہ کسی طرف سے ''اللہ اللہ'' کی آواز نہیں آئے گی، تم امربالمعروف او رنہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تم پراشرار (بدترین) لوگوں کو مسلط کردے گا۔پھر وہ تم کو بُرے سے بُرے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ پھر تمہارے اخیار (بیداغ صلحاء) دعائیں کریں گے مگر ان کی ایک نہیں سنی جائے گی۔ (پھر سن لیجئے) تم امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوگے ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو تمہارے کم سن اور معصوم بچوں پر ترس نہیں کریں گے اور تمہارے بزرگوں کا احترام نہیں کریں گے۔''

بخت نصر جب عذاب الہٰی بن کر بنی اسرائیل پر ٹوٹ پڑا تو بنی اسرائیل کے ایک نبی نے دیکھ کر فرمایا:

''الہٰی! یہ ہمارے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے کہ ایسے شخص کو تو نے ہم پر مسلط کردیا ہے جو تجھے نہیں پہچانتا ہے نہ ہم پر رحم کرتا ہے۔''

نظر بعض أنبیاء بني إسرائیل إلی مایصنع بھم بخت نصر:فقال بما کسبت أیدینا سلطت علینا من لا یعرفك ولا یرحمنا (کتاب الجواب الکافی لمن سئال الدواء الشافی ص30)

خود بخت نصر نے حضرت دانیال علیہ و علی نبینا الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کہ: آپ کی قوم پرکس چیز نے مجھے مسلط کیا ہے؟ فرمایا: تیرے گناہوں کی کثرت او رمیری قوم کی اپنے آپ سے بے انصافی۔''

وقال بخت نصر لدانیال ما الذي سلطني علی قومك؟ قال عظم خطیئتك و ظلم قومي أنفسهم (ایضاً)

یہ حدیث اپنے مضمون میں بالکل واضح اور دو ٹوک ہے، یعنی دین سے انحراف اور بدعملی، ملک و ملت کے لیے آزاردہ فتنوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور خلق خدا عذاب کی ایسی چکی میں پسنا شروع ہوجاتی ہے جو گھن اور گیہوں میں کوئی امتیاز نہیں کرتی۔ اب یہ فیصلہ کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے کہ : آپ خود کن حالات سے گزر رہےہیں؟

ہر حکمران کے ہاتھ بندھے ہوں گے:

35۔عن أبي هریرة رضي للہ تعالیٰ عنه قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مامن أمیر عشوة إلایؤتی یوم القیمة مغلولا حتی یفك عنه العدل أو یوبقه الجور (دارمی)

''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا حکمران بھی قیامت میں آئے گا تو ان کے ہاتھ بندھے ہوں گے ، اب عدل و انصاف اسے نجات دلائے گا یا ظلم و جور کے ہاتھوں تباہ ہوگا۔''

دنیا میں ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے اقتدار ہاتھ آجائے، چودھری بن جائے، افسرکہلائے او رکچھ لوگ ان کے ماتحت ہوں او روہ ان پر حکومت کرے۔ اگران کو اقتدار او رچودھراہٹ کا یہ انجام نظر آجائے جو اوپر کی حدیث میں آیا ہے تو یقین کیجئے ! اقتدار کی کرسی ہمیشہ ہی خالی رہے۔ بہرحال اقتدار اور امارت پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔خمار اس کا کیف آور ہے۔ ۔ مگر انجام اس کا حوصلہ شکن ترش۔ اس لیے حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ چودھراہٹ کے بغیر چارہ تو نہین ہے لیکن چودھری ہیں دوزخ کا ایندھن۔ إن العرافة حق ولا بدللناس من العرفاء ولکن العرفاء من النار (ابوداؤد)

قرب سلطان کافتنہ:

36۔ عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم : من لَّزم السلطان افتتن وما ازداد عبد من السلطان دُنُوًّ إلا ازداد من اللہ بعدا (ابوداؤد)

''رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہےکہ جس شخص نے بادشاہ کی صحبت اختیار کی وہ فتنہ میں پڑ گیا۔ جو بندہ جتنا شاہ وقت کے قریب ہوتا ہے اتنا وہ رب سے دو رہوجاتا ہے۔''

قرب سلطان کی خواہش ہر دل میں چٹکیاں لیتی ہے اورمذہب و روحانیت کے بڑے بڑے جفا دری بھی ہ نے اس کےصید زبون دیکھے ہیں۔ لوگوں کی کیا بات کریں۔ وہ جماعت اہل حدیث جس نے غیر اللہ کے ہر رشتے توڑ ڈالے تھے، اب ان میں بھی بعض دنیاداروں کو سیاسی داشتاؤں کے ذریعے شاہوں کا درباری بننے کا خبط لا حق ہوگیا ہے۔حکومت کے درباریوں میں جن کو ''جنس بازار'' تصور کیا جاتا ہے، جماعت اہل حدیث کے بعض کم فہم لوگ انہی کو شاہی درباروں میں باریاب ہونے کے لیے ''وسیلہ'' بنا کر چل رہے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ حضرت وکیع شاہوں سے کبھی نہیں ملے۔ إن وکیعالم یختلط بالسلطان (تقدامم الجرح والتعدیل) حضرت سفیان ثوری نے حضرت امام ابن المبارک کو لکھا کہ بادشاہوں سےبچ کر رہیے ! وایاک والسلطان (ایضاً) ایک دفعہ ابوجعفر نے حضرت سفیان ثوری سے کہا کہ : کوئی کام؟ انہوں نے کہا کہ : بس یہ کہ مجھے کبھی یادنہ فرمایا کریں ان لاتدعوی حتی اتیک (ایضاً) بعض لوگوں نے شامیوں سےمیل جول رکھنے سے پرہیز نہیں کیا مگر اپنی حاجات کے لیے نہیں بلکہ صرف تعلیم اور تبلیغ کے لیے۔ جس طرح ہمارے بعض مہربان اپنے مصالح کے لیے کمران او ران کے داشتاؤں کا طواف کرتے رہے ہیں وہاں بہرحال ایسی خست نہیں پائی گئی۔

تنخواہ کے علاوہ استحصال:

37۔ عن بریدة رضي اللہ تعالیٰ عني عن النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال: من استعملناہ علی عمل فرزقناہ رزقا فما أخذ بعد ذلك فھو غلول (ابوداؤد)

فرمایا: ''جس شخص کو ہم نے کسی عہدہ اور منصب پر فائز کیا اور اس کا روزینہ (بھی) مقرر کیا (تو) اس کے بعد وہ اور جو کچھ لے گا وہ خیانت ہوگی۔''

الغرض! تنخواہ کے علاوہ محض اپنے عہدہ او رمنصب کی وجہ سے جو کچھ بھی وہ وصول کرے گا، وہ ملک و ملت کے مال میں خیانت ہوگی اور جو خائن ہوتا ہے وہ سرکاری عہدہ کے لحاظ سے نااہل قرار پاتا ہے اور یہ ایک واقعہ ہے کہ آج کل رشوت کا جو سلسلہ جاری ہے اس نے سرکاری ملازمین کی ساری روزی کوتقریباً تقریباً مشتبہ بنا دیا ہے۔ غور طلب یہ بات ہے ایسے لوگوں کے حج ، روزہ، نماز او رزکوٰۃ یا دوسری خیرات او راعمال کا کیا بنے گا؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا؟ بہرحال ابھی وقت ہے کہ دوست اس صورت حال اور اس کے سنگین نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور فرمالیں۔

کفر اور شرک کے خلاف جہاد:

عن أنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال جاھدوا المشرکین بأموالکم و أنفسکم وألسنتکم (رواہ ابوداؤد)

فرمایا: ''مشرکوں کے خلاف جہاد کرو، اپنے مالوں سے، جانوں سے اور زبانوں سے۔''

جہادبالسیف، یہ حکومت کا فریضہ ہے۔ جب وہ اس کا اعلان کرے تو اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرنا ہر ایک کا دینی فریضہ بن جاتاہے۔ اگر حکومت غفلت شعار ہو تو اس کو اس کی ضرورت کی طرف سے متوجہ کرنا چاہیے۔ الغرض کفر و شرک کو مٹانے کے لیے جتنا اور جیسا کچھ جہاد ممکن ہو کرگزریں۔ یہ جہاد صرف کفاروں کے خلاف نہیں بلکہ کفر نواز مسلمانوں کے خلاف بھی ممکن ہوتا ہے لیکن خانہ جنگی کی اجازت نہیں ہوتی، ہاں ان پر دباؤ تیز تر کردینا جائز بلکہ فرض ہوجاتا ہے۔

جہادمسلمانوں کےاستحکام اور ترقی کا ضامن ہے جب سےمسلمانوں نے اس کو نظرانداز کیا ہے خدا نے بھی ان کونظر انداز کردیا ہے۔

رسول کو چھوڑ کر دوسرے کا اتباع:

39۔ عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والذي نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ و ترکتمو ني لضللتم عن سواء السبیل ولو کان حیا أدرک نبوتي لا تبعني (مشکوٰۃ)

''فرمایا: اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اگر (آج حضرت )موسیٰ (بھی) نمودار ہوں اور تم مجھے چھوڑ کر اس کے پیچھے ہو تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ گے، اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے او رمیری نبوت (کازمانہ) پاتے تو میرے ہی پیروی کرتے۔''

ہرنبی کا اپنا عہد اور حدود کار ہوتے ہیں، اس میں عام لوگ توکیا اگر دوسرا نبی بھی تشریف لے آئے تو اس کو بھی اس نبی کا اتباع ہی کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ ایک بادشاہ جب دوسرے بادشاہ کے علاقہ او رعہد میں قدم رکھتا ہے تو وہ اس کے ملکی او رشاہی دستور اور قوانین کا اتباع کرتا ہے۔ بہرحال جب ایک نبی کا یہ حال ہے کہ محمد رسو ل اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد اگر وہ آجائیں تو رسول پاک ہی کا اتباع کریں تو اب یہ آپ سوچیں کہ ہما شما کی کیا مجال کہ کوئی غیر کی پیروی کرے او رشریعت رسول ان کامنہ دیکھتی رہ جائے؟ یقین کیجئے! کتاب و سنت کے بعد کسی دوسرے ملکی، قومی اورعلاقائی دستور اور قوانین کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔دھوکے سے اگر کوئی چام کے دام چلائے تو وہ اور بات ہے، ویسے اس کو اس کا حق نہیں پہنچتا۔

جج:

40۔ عن ابن أبي أوفیٰ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إن اللہ مع القاضي ما لم یجر فإذا جار تخلی عنه ولزمه الشیطان (ترمذی)

''فرمایا: جب تک جج بے انصافی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رہتا ہے ، جب وہ ظلم کرتاہے تو اس سے الگ ہوجاتا ہے او رشیطان اس کے ساتھ ہولیتا ہے۔''

ملکی قوانین اور دساتیر کے نفاذ اور ترجمانی کی ذمہ دار عدلیہ ہوتی ہے اگر وہ حق کےمطابق فیصلے کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی حمایت بھی اس کو حاصل ہوجاتی ہے ورنہ شیطان ہی اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ پھر ملکی قوانین کا احترام دل سے اُٹھ جاتا ہے، قانون اب ایک کاروبار کانام رہ جاتا ہے۔مستحق اس کے فیضان سے محروم اور غیر مستحق جھولی بھر بھر کر اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔ بہرحال عدلیہ ملکی حکمرانوں کی سیئات او رحسنات کا ہی پر تو ہوتی ہے۔اس لیے دعا کیجئے، کہ حکمران مسلمان نصیب ہوں تاکہ دنیا عدلیہ کے فیضان سے متمتع ہوسکے۔