ایک صاحب پوچھتے ہیں:
1۔ مسجد میں جب لوگ سنتیں یا نفل پڑھتے ہیں تو کیا کوئی شخص اونچی آواز میں ذکر یا تلاوت قرآن کرسکتا ہے؟
2۔ ایسا ذکر بتائیے جو آسان ہو ، ہر حال میں پڑھا جاسکے اور ثواب بہت ہو۔
3۔بعض ذکر ایسے ہوتے ہیں ، جن میں پڑھنے والا کہتا ہے۔زنۃ عرشک و مداد کلماتک وغیرہ، کیا اتنا کہہ دینے سےواقعی اتنا بن جاتا ہے؟
4۔ ذکر الٰہی کے لیےوضو ضروری ہے؟
5۔ عام ذکربہتر ہے یا قرآن پاک کی تلاوت؟
الجواب:
1۔اونچی آواز میں تلاوت: نمازبھی پوری یکسوائی چاہتی ہے ، اس کے علاوہ، خانہ خدا باوقار فضا کامتقاضی ہے، اس لیے اس انداز سے اونچی آواز میں تلاوت یاذکر کرنا جس سےنمازی کی یکسوئی یامحویت غارت ہوتی ہو یا مسجد کی کی پروقار ، متین او رمعصومانہ فضا ''شورش بے ہنگام'' کی نذر ہوسکتی ہو تو اس سے لازمی طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔
امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ و سلام کاجو تعارف تورات میں آیا ہے، اس میں ہے کہ:
مسجد میں ان کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ایک لطیف سی سرسراہٹ ہوگی۔ دويهم في مساجد هم کدوي النحل (دارمی :1؍6)
مقصد یہ ہے کہ : مسجد میں کہرام برپا نہیں ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص مسجد کی اس معصومیت کو غارت کرتا ہے اور شور کرکے مسجد میں کہرام برپاکرتا ہے تو ظاہر ہے اسلام اس کو بنظر استحسان نہیں دیکھے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ اعتکاف کے دوران لوگوں کو اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا تو فرمایا:
تم سب اپنے اپنے رب سے ہمکلام ہو، اس لیے ایک دوسرے کو دُکھ نہ دیاکرو نہ ایک دوسرے سےبڑھ چڑھ کر قرأت کیاکرو۔
عن أبي سعید قال اعتکف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في المسجد فسمعتھم یجھرون بالقرآن فکشف السترو قال ألا إن کلکم مناج ربه فلا یوذین بعضکم بعضا ولا یرفع بعضکم علی بعض في القراءة أوقال الصلوٰۃ (ابوداد:1؍133)
بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں:
إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خرج علی الناس وھم یصلون وقد أعلت أصواتھم بالقرآن فقال إن المصلي یناجي ربه عزوجل فلینظر بما یناجیه ولا یجھر بعضکم علی بعض بالقرآن ( أهل السنن کذا قال الحراقي و قال بإسناد الصحیح)
اصل فتنہ وہشور ہے جودوسرے عبادت گزاروں کی یکسوئی او رانہماک کا خون کرتا ہے، اس لیے اب بات مسجد تک محدود نہیں رہی، گھروں تک بھی چلی گئی ہے۔کیونکہ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر لگا کو جو تانیں چھوڑی جاتی ہیں، وہ گھروں میں بھی ذکر و فکر میں محویت کے انکانات کو شدیدنقصانات پہنچا رہی ہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ذکر و فکر ہو یاتلاوت کی بات بہرحال ایسی اونچی آواز میں پڑھنا جو ذہنی تشویش پر منتج ہو، قطعاً جائز نہیں۔ خاص کر اوقات نماز میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز بہ جماعت میں بھی کمزوروں او ربیماروں کا خیال رکھتے تھے کہ وہ تھک نہ جائیں یا ان کو تکلیف نہ ہو۔
عن أبي هریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال إذا صلی أحد کم للناس فلیخفف فإن فیھم الضعيف والسقیم و الکبیر الحدیث (بخاری:1؍97)
مگر یہ لوگ خانہ خدا میں کھڑے ہوکر ''حشر بردوش تانوں'' کے ذریعے محلے بھر کے بیماروں ، کمزوروں ، مزدوروں اور بزرگوں کی جسمانی عافیتوں اور آرام پرجس طرح بجلی بن کر گر رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس لیے خانہ خدا میں بالخصوص ''اونچی آوازۃ'' اونچے سروں او راونچی تانوں کے جو فتنے کھڑے ہوگئے ہیں، ہمارے نزدیک سراپا فتنہ ہیں، اس لیے جو لوگ عبادت میں میں اس صورت حال کی نزاکت کا احساس نہیں کرتے، وہ حدیث کی رُو سے فتنہ پرور اور شرانگیز لوگ ہیں، حضور ﷺ نے ایسے شخص کو فتان فتان کہا ہے۔
اصل میں مساجد میںصرف تلاوت کا ہی غوغا نہیں ہوتا اور بھی بہت کچھ گاتے ہیں، بلکہ اکثر لوگ قرآن بھی گاتے ہیں۔ذکربھی گاتے ہیں۔ درود بھی گاتے ہیں ، آہ! جو بات عبادت تھی، اسے نادان دوستوں نے گانابنا ڈالا۔ اگر آج ان سے لاؤڈ سپیکر چھین لیاجائے تو وہ آپ کو بہت کم ذکر کرتے نظر آئیں گے۔ کیونکہ گانا نہیں رہتا۔ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ بیٹھ کر اور آہستہ آہستہ جی بھر کر درود شریف کا ورد کریں۔ دل کے پورے ارمانوں کے مطابق ، شب و روز تلاوت کیا کریں او رپوری یکسوئی کے ساتھ رب کا ذکر کیا کریں تو آپ دیکھیں گے کہ میدان بالکل خالی رہے گا، کیونکہ یہ ''قل خوانی'' صرف ''گانے'' کو جاتے ہیں ورد یا تلاوت کرنے نہیں جاتے، حالانکہ حضورﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ: آپ ہر وقت رب کاذکر کیا کرتے تھے، مگر یہ ''طور'' انہیں پسند نہیں ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک خانہ خدا اللہ کے دربار میں، بارگاہ عالی کے دربار کاتقاضا ہے کہ سنجیدہ اور با ادب رہا جائے اور شوخی کے بجائے نشین مسکینوں کی طرح دم بخود رہنے کو ترجیح دی جائے۔
حضرت امام مالک مساجد میں شور و غوغا قطعاً پسند نہیں کرتے تھے۔( فتح الباری)
حضرت عمر ؓ تو مساجد میں رفع الصوت (اونچابولنے) کے سخت مخالف تھے۔
عن ابن عمر:قال سمع عمر رجلا رافع صوته ... قال أما إنک لو کنت من أھل بلدنا ھذا لأوجعتك ضربا، إن مسجدناھذا لا یرفع فیه الصوت (عبدالرزاق:1؍438)
گو علماء نے جائز کلام او رناجائز کلام کی بحث کی ہے لیکن اس میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ مسجدوں میں آسمان کو سر پر اٹھا لینا بالکل جائز نہیں ہے، جیسا کہ آج کل ایک گروہ نے شعار بنا رکھا ہے۔
2۔ آسان ذکر : ذکرالہٰی کا آسان ہونا یا مشکل دراصل ہر شخص کی اپنی افتاد طبع کے مطابق ہوتا ہے۔ یعنی جس کاجتناتعلق اللہ سےہوتا ہے اتنا ہی ذکر اس کے لیے آسان ہوتا ہے او رجتنا کم ہوتا ہے اتنا وہ اس کے لیےکچھ مشکل ہوتا ہے۔ ایک شخص جمال او رجلال الٰہی کا کشتہ ہوتا ہے، دوسرا دنیا کامتوالا اور کتا ہوتا ہے۔پہلا شخص ذکر و فکر میں مستغرق رہ کرتھکنے کانام نہیں لیتا ، دوسرا ذکر خدا کےتصور سے اکتا جاتا ہے۔
ع خیال ہرکس بقدر ہمت اوست
واقعہ یہ ہے کہ :ذکر سے غرض، تعلق باللہ میں استواری ہے کہ اس سے تعلق مستحکم ہو او رزبان کورب کے گن گانےکاشرف حاصل ہو۔ اور یہ دل کے جتنے گہرے جذبے اور زبان کی جتنی تکرار کے ساتھ جاری ہوگا، اتنا ہی رنگ لائے گا۔ اب یہ اندازہ کرناکہ اس باب میں آپ کس مقام پرکھڑے ہیں، آپ کااپنا کام ہے۔ اس کے بعد اس کے سمجھنے میں بھی آپ کو کوئی دشواری نہیں رہے گی۔
اس کے باوجود ہمارانقطہ نظر یہ ہے کہ اگر سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم اور درود شریف یا سبحان اللہ والحمدللہ ولا إله إلا اللہ واللہ أکبرکابکثرت ورد کیا جائے تو یہ آسان تر بھی ہے اور انشاء اللہ امید ہےکہ اب بھی رب سے تعلق کی پینگیں بڑھنے لگیں گی اورحق تعالیٰ کی طرف سے ایسی توفیق کی ارزانی ہونےلگے کہ جس سے ''ذکر و فرکر '' سے طبعی اور فطری مناسبت پیدا ہوسکتی ہے۔
3۔ زنۃ عرشک :مسلم کی ایک روایت میں تسبیح کے الفاظ یہ آئے ہیں:
سبحان الله وبحمدہ عدد خلقه و رضا نفسه و زنةعرشه و مداد کلماته (مسلم)
اور غالبا اسی کی بابت آپ نے بھی دریافت فرمایا ہے۔
واقعی اس طرح پڑھنے سے اتنی ہی مقدار شمار ہوجاتی ہے ، لیکن اس انسان کے لیےجو بساط بھر اس کے درد میں محو رہتا ہے او راپنی بشری کمزوریوں کی بنا پر تھک کر بصد حسرت خدا کے حضور بول اٹھتا ہے کہ الٰہی! اب میرےطرف سے یہ نذرانہ عقیدت اتنی بار قبول فرما لے، کیونکہ میرے دل کی حسرت کا یہی تقاضا ہےکہاگر بس میں ہوتا تو اتنا ہی کر گزرتا۔ چونکہ خدا دانائے راز ہے، وہ جانتا ہےکہ اگر اس کے بس میں ہوتاتو واقعی یہ شخص اتنا ہی دور تک چلاجاتا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی بے بسی اور تڑپوں کی لاج رکھ لیتا ہے او راس تھوڑے کو بہت شمار کرکے قبول فرما لیتا ہے۔
باقی رہے ہما شما؟ ہمیں بھی یہی حکم ہے کہ تم بھی ایسا ہی کہو، او راسی ہی راہ پرچلو۔ کیونکہ اصل تمہارا مقام یہی ہے۔ اگر آپ نے انہی تسبیحوں کو اپنا شعار بنا لیا تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے دل کی یہ لطیف قوتیں بھی بیدار ہوجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بایں بشری کمزوری حق تعالیٰ آپ کے اس پاکیزہ بول کو ویسے ہی قبول فرمالے،جیسے آپ نے اپنے درد میں کہا ہے۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز ! بہرحال تسبیح کا یہ اسلوب ، نبوی اسلوب ہے، جس کی پیروی سنت ہے جوسرتا پا سعادت اور ثواب ہے۔باقی رہی یہ بات کہ وہ ذات اتنا ہی شمار کرتی ہے یا کم؟ آپ کو اس بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کاکام اتباع ہے اور صرف اتباع ۔ آپ پڑھیں اور ذوق شوق سے پڑھیں ۔ انشاء اللہ اس کی برکت سے محروم نہیں رہیں گے، اور یہ درد بالآخر ضرور رنگ لائے گا ، کیونکہ یہ سنت کا اتباع ہے فاتبعونی یحببکم اللہ۔
سب سے بڑا فائدہ ذکر الہٰی کا یہ ہوتا ہے کہ اتناعرصہ شیطان اس سے پرے رہتا ہے فاذاذکر اللہ خنس (بخاری تعلیقات) شیطان کے سائے کی نحوست سے دور ہونے کے بعد انسان کے اندر کی ملکوتی قوتیں بیدار ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اس لیے اگر آپ چاہیں تو اس اثناء میں اس سے پائیدار روحانی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ یہ سنہری موقع ہوتا ہے۔
4۔ ذکر کے لیےوضو: ذکر الہٰی کے لیے ظاہری وضو شرط نہیں ہے لیکن اس کے آداب میں سے ضرور ہے، کیونکہ ''ذکر الہٰی'' اللہ کی معیت کے احساس کو مستلزم ہوتا ہے اس لیےممکن حد تک پاکیزہ رہنے کی کوشش کی جائے تو یہ باب عالی کے دربار کے شایان شان بات ہوتی ہے، کیونکہ احکم الحاکمین کے قرب کا احساس بھی ہو لیکن وہ طہارت کا اہتمام بھی نہ کرے؟ مشکل ہے۔
چونکہ ہر آن او رہر جگہ اس کے لیے طہارت کا التزام مشکل ہوتا ہے، اس لیےاس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اپنے آپ کو حرج میں ڈالے بغیر جتنا آسانی سے باوضو رہ سکتا ہے وہ باوضو رہنے کی کوشش کرے، جہاں معمولات میں زیادہ حرج کے واقع ہونے کااندیشہ ہو، وہاں اسے یونہی جاری رکھے۔ انشاء اللہ اب بھی اسے ویسا ہی اجر ملے گا ، جیسا کہ باوضو ذکر سےملتا رہا کیونکہ یہ سنت اللہ ہے کہ جب کسی شرعی عذر ( جیسے بیماری وغیرہ) کی بنا پر ایک شخص سے عمل صالح جیسی نیک عبادات چھوٹ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اسی کے نامہ اعمال میں ان کی عبادت لکھ دیتا ہے۔
إذا ابتلي المسلم ببلاء في جسده قیل للملك: اکتب له صالح عمله الذي کان یعمل (شرح السنۃ، مشکوٰۃ :1؍136)
5۔ عام ذکر بہتر ہے یا تلاوت قرآن: ہمارے نزدیک تمام اذکار کی بہ نسبت قرآن حکیم کی تلاوت افضل الذکر ہے۔ کیونکہ اس کے ایک ایک لفظ پر دس نیکیاں ، رب سے مناجات ، او راس کے ایک ایک لفظ کی دید و شنید پرثواب ملتا ہے۔ دوسرے اذکار کی یہ کیفیت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ: ایساذکر جس کو ''کلام اللہ'' بھی کہا جاسکتا ہو، وہ شرف صرف قرآن کریم کو حاصل ہے۔ دوسرے اذکار کو نہیں۔ قرآن حمید کی منفرد خصوصیت ایک یہ بھی ہےکہ:
وہ ملت اسلامیہ بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے ایک لازوال لائحہ عمل کا امین بھی ہے اور اس کے دنیوی اور اخروی مستقبل کاضامن بھی۔ رہے دوسرے اذکار؟ سو ان کا یہ مقام نہیں۔
۔۔۔:::::::۔۔۔
ایک شہر میں متعدد جمعے ....... تعداد افراد
بلجئیم سے جناب بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں:
1۔میرے ساتھ 50 کے قریب مسلمان طالب علم رہتے ہیں، جن میں سے بمشکل تین چار لڑکے نماز جمعہ کو جاتے ہیں، باقی حضرات عذر کرتے ہیں کہ 2 بجے یونیورسٹی جانا ہوتاہے،واپسی پر دیر ہوجاتی ہے اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔
جہاں جمعہ پڑھنےکو جاتے ہیں وہ کچھ دور پڑتا ہے،طلبہ کی سہولت کے لیےوہاں جانے کے بجائے اگر ہم یونیورسٹی کے قریب جمعہ کی نماز کا انتظام کرلیں تو کیا جائز ہے۔ کچھ لڑکے مصر ہیں کہ جمعہ کاالگ انتظام نہ کیا جائے، جمعہ ایک جگہ ہونا چاہیے۔ شرعاً کیا حکم ہے، ایک شہر میں متعدد جمعے جائز ہیں یا نہیں؟
2۔ جمعہ کی نماز کے لیے کیاکوئی تعداد بھی شرط ہے او روہ کیا ہے؟
(ملخصاً مورخہ 2 فروری 1976ء بلجیئیم)
الجواب :
1۔ متعدد جمعے: اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر جمعہ ایک جگہ ہو تو سب سے بہتر اور افضل ہے۔ اگر حالات اور وقت کاتقاضا ہو تو ایک قصبہ یا شہر میں ایک سےزیادہ بھی جمعے پڑھے جاسکتے ہیں، حالات اور وقت کا اقتضا اگر وہ ہو، جیسا کہ آپ نے ذکر کیاہے تو راقم الحروف کے نزدیک ، دوسرے جمعے کا انتظام افضل ہی نہیں، دینی فریضہ بھی بن جاتاہے ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔کیونکہ ایک جگہ جمعہ پڑھنے کے اصرار پراگر پچاس میں سے 46 طلباء نماز جمعہ کے شرف بلکہ فرضیت کے تارک ہورہے ہیں تو یہ بات دینی لحاظ سے بہت سنگین ہے۔
جمعہ سے اصل غرض: مسلمانوں کی شوکت اور وحدت کو متشکل کرنا ، او رمسلمانوں کو ہفتہ وار تعلیم و تربیت کے مواقع مہیا کرنا ہے۔ اگرجمعہ کے متعدد اجتماعات،کسی فرقہ وارانہ ذہنیت کے پیداوار نہیں ہیں بلکہ بعض شرعی مصالح یا انتظامی قسم کی مقتضیات کانتیجہ ہیں جیسا کہ آپ کے حالات سے مترشح ہوتا ہے تو انہیں ملی انتشار سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت امام ابن حزم اندلسی (ف456ھ؍1064ء)لکھتے ہیں کہ:
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے تو اس میں شرکت کے لیے جلدی کرو، اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر ایک جگہ یا دو جگہ یا کم و بیش کی قید نہیں لگائی، یہ بات بھی نہیں کہ :رب اسےبھول گیا ہو۔
قال اللہ تعالیٰ (إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ ) فلم یقل عزوجل: فی موضع ولا موضعین ولا أقل ولا أکثر ( وما كان ربك نسيا) (محلی ابن حزم :5؍56)
حضرت امام شافعی (ف200ھ؍805ء) بغداد میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہاں دو یا تین جگہ پر جمعہ ہورہا ہے تو آپ نے انکار نہیں کیا تھا۔
وأما بغداد ! فد خلھا الشافعي رحمة الله تعالیٰ وھو یقیمون الجمعة في موضعین وقیل في ثلثة فلم ینکر إلیھم (روضۃ الطالبین:2؍5۔ امام نووی)
بعض مصالح کی بنا پرایک شہر میں متعدد جگہ پر نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت اسلاف سے مروی ہے حضرت عطاء بن ابی رباح سے (ف114ھ) پوچھا گیا کہ اگر مسجد تنگ ہو تو دوسری جگہ جمعہ پڑھا جاسکتا ہے؟ فرمایا:ہاں!
عن ابن جریج قال قلت لعطاء:أرأیت أھل البصرة لا یسعھم المسجد الأکبر کیف یصنعون؟ قال لکل قومه مسجد یجمعون فیه ثم یجزي ذلك عنهم (مصنف عبدالرزاق:3؍170)
گو اس پر اعتراض کیا گیا مگر بغیردلیل۔ اصل بات یہ ہے کہ: ان کےذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ حضورﷺ کے عہد میں ایک جگہ، ایک سےزیادہ جمعہ منقول نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ کوئی نہیں بتا تا کہ کیا اس کی منع بھی آئی ہے؟ بات بالکل ظاہر ہے کہ ::منع منقول نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک وہ بھی حالات کااقتضاء تھا۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ :متعلقہ قصبہ میں، نماز جمعہ علاقہ کا حاکم ہی پڑھاتا تھا، یا کوئی عظیم رہنما، او رسب کا اس ایک شخص کے پاس جمع ہوجانا ایک قدرتی بات تھی، یہ بات نہ تھی کہ دوسری جگہ جمعہ جائز نہیں تھا بلکہ یہ تھی کہ حالات کا داعیہ ایسا تھا۔ اگر حالات اور وقت کی تبدیلی سے مقتضیات اور دواعی بدل جائیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ان کا احترام نہ کیا جائے۔
وحدت جمعہ دراصل ''ملی وحدت'' کاتقاضا ہے ، اگر تعدد جمعات کسی ذہنی انتشار او رکوڑھ کانتیجہ نہیں ہے بلکہ مصالح کے اصرار کا حامل ہے تو یقین کیجئے ! ملی وحدت پر اس سے کوئی آنچ نہیں آتی۔ وحدت کامفہوم یہ نہیں ہے کہ: ظاہری طور پر انہیں ایک جگہ بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ جہاں ہوں ایک ہی مقصد ، ایک ہی منزل او رایک ہی پروگرام کے لیے یکسو ہوں۔
وحدت ملی کے جو اصل تقاضے ہیں ان کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں ہے بلکہ جداگانہ ریاستوں یا سیاسی گروپوں کے استحکام کے لیے رات دن جہاد کرتے رہتے ہیں او رکبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس کے بجائے سارے عالم اسلام کو ایک نظام خلافت کی لڑی میں پرو کر پوری ملت اسلامیہ کو ہم ایک وحدت میں منتقل کردیں۔ لیکن جو کوئی اٹھتا ہے ، وہ اسلامی احکام کی وسعتوں کو سمیٹنے پر تل جاتا ہے اور مصنوعی وحدت کے لیےسر پھٹول کرکے ملت کو مزید انتشار میں مبتلا کرکے رکھ دیتا ہے۔
قرآن و حدیث میں کہیں بھی متعدد جمعات کی ممانعت مذکور نہیں ہے۔ اگر ایک شہر میں متعدد جمعوں کا وجود کم دکھائی دیتا ہے تو صرف اس لیے کہ اس وقت حالات کا یہی تقاضا تھا۔ ایک ہی خلافت تھی، ایک ہی امیر تھا اور میر کارواں بھی ایک ہی امام تھا اور آبادی بھی اس کی متحمل تھی کہ ایک ہی جگہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا۔مگر اب ان میں سے بیشتر قدریں بالکل بدل گئی ہیں۔ اس لیے اب محض مصنوعی وحدت کے لیے نوخیز نسل کے دینی مستقبل کو ضائع کرنا مناسب نہیں ہے۔
حضرت امام ابن تیمیہ (ج728ھ؍1328ء) فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰؓ نے تعدد جمعہ کا حکم دیا تھا:
ولنا ما صح عن أمیر المؤمنین علي رضي اللہ تعالیٰ عنه أمر بتعدد الجمعة وھذا الأثر صحیح ۔ صححه ابن تیمیة منهاج السنة(رسائل الارکان ص118، فتاویٰ اہلحدیث: 2؍351)
ظاہر ہے کہ حضرت علی ؓ نے اسے بطور مشغلہ کے اختیار نہیں کیا ہوگا بلکہ حالات کا اقتضا ہی ایسا ہوگا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے اگر متعدد جمعہ کی مثالیں نہیں ملتیں تو اس لیے نہیں کہ وہ جائز نہیں تھا بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس کے لیے کوئی داعیہ موجود نہ تھا ۔ اب اگر حالات ایسے پیدا ہوگئے ہیں تو ضرور ان کو ملحوظ رکھناچاہیے۔
2۔ تعداد افراد: اس کے لیے کچھ بزرگوں نے تعداد افراد کاذکر کیا ہے لیکن قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جن روایات میں واقعہ کےطور پر بعض جگہ اس کاذکر آیا ہے کہ وہاں شرکاء کی تعداد اتنی تھی۔ لیکن وہ ایک واقعہ کا ذکر ہے ، شرائط کانہیں ہے۔ اس کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ نماز باجماعت ہوسکے۔
زندگی میں جائیداد ورثاء میں تقسیم اور کسی وارث کو عاق کرنا:
عنوان بالادو اہم مسائل پر مشتمل ہے ایک یہ کہ حین حیات کیاجائیداد کی تقسیم ورثہ کی تقسیم کی طرح کم و بیش ہونی چاہیے یا اس میں انصاف ضروری ہے ؟ دوسرا یہ کہ کیا کسی جائزوارث کو جائیداد سے محروم رکھنے کی وصیت کی جاسکتی ہے او راس پرعمل جائز ہوگا؟ زیربحث فتویٰ صرف دوسرے مسئلہ سے متعلق ہے او راسی سلسلہ میں شرعی رائے پیش کی گئی ہے۔ (مدیر)
الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص اہلحدیث اپنی حین حیات میں للذكر مثل حظ الأنثيين الآیة کے مطابق اپنی جائیداد کو اپنے بیٹے او ربیٹیوں میں تقسیم کردیتا ہے مگر ان میں سے ایک بیٹی کو اپنی تمام جائیداد سکنی اور غیرسکنی سے بالکل محروم کردیتا ہے کیا اس کا یہ اقدام از روئے شرع شریف جائز ہے؟
کیا والد اپنے نافرمان بیٹے یابیٹی کو اپنی وراثت سے محروم کرسکتا ہے؟
کیا ایسے آدمی کی اقتدا بالصلوٰۃ جائز ہے ؟ اور اس کو کسی جامع مسجد کاخطیب یا امام مقرر کیا جاسکتا ہے۔
الراقم محمد ادریس عثمان، بلاک نمبر15۔ ڈیرہ غازی خان)
الجواب:
1۔ کوئی بھی شخص ، وہ والد ہو یا مولود، حاکم ہو یا کوئی دوسرا سرپرست، وراثت کے کسی حق دار کو اپنے حصے سے ،وہ اُحد پہاڑ کے برابر ہو یا رائی برابر، محروم کرنے کامجاز نہیں ہے۔ کیونکہ:
(الف) اس کاتعلق پرائیویٹ اختیار سے نہیں ہے بلکہ اس کاتعلق اقتدار اعلیٰ (حق تعالیٰ جو احکم الحاکمین ہے) کےاختیار، بنیادی پالیسی اور قانون سے ہے۔يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ(پ4۔ سورۃ نساء ع2)
(ترجمہ) اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد (کی میراث) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ (تفسیرماجدی)
''یہی نہیں کہ خدا تم کو غیروں کے مال کھانے سے روکتا ہے بلکہ مسلمانوں کے اولاد کے حصول کی بابت حکم فرماتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوتا ہے۔'' (تفسیر ثنائی 81؍294) مولانا ثناء اللہ امرتسری )
(ب)آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا(پ4۔ النساء ع2)
تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون سا بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیئے ہیں۔ (تفہیم القرآن)
تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ او ربیٹیوں میں سے کون تم کوزیادہ نفع پہنچاسکتا ہے۔ اسی طرح کرو او رہرگز اس کے خلاف نہ کرو۔ اس لیے کہ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں۔
چونکہ یہ بات تم کومعلوم نہیں کہ کس سےتم کونفع پہنچے گا۔ اس لیے تم کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے جو کچھ کسی کا حصہ مقرر فرما دیا ہے۔ اس کی پابندی کرو کہ اس کو تمام چیزوں کو بھی خبر ہے او روہ بڑا حکمت والا ہے۔ (مولانامحمود الحسن شیخ الہند سورہ مذکور)
(ج) وصية من الله (سورۃ النساء ع2)
اللہ کا یہی حکم ہے۔ (تفسیر ثنائی :1؍296) یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے (تفسیرماجدی ص282)
یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے (تفہیم القرآن مودودی :1؍329)
(د) تلك حدود الله (سورۃ النساء ع2)
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ (تفہیم القرآن:ج1ص330)
یہ سب خداوندی ضابطے ہیں (تفسیرماجدی ص182)
ان ضابطوں کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہے خواہ کوئی ہو۔
(ہ) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (النساء ع2)
او رجو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور حدود خداوندی سے آگے بڑھ جائے گا اللہ اس کو دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا۔ (تفسیر ثنائی :1؍296)
اور جو اللہ او راس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدودں سے تجاوز کرجائے گا۔ اسے اللہ آگ میں ڈالے گا ۔جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔ (تفہیم القرآن:1؍230)
دو رجاہلیت میں عورتوں اور چھوٹے بچوں کو ورثہ نہیں دیا جاتا تھا او ریہ سب کچھ والدین ہی کیاکرتے تھے۔ اس لیے فرمایا:وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(النساء۔ ع2) گویا کہ ان کے اس اختیار کو رد کردیا گیا۔ جو وہ استعمال کیا کرتے تھے۔
اختیارمشروط ہے۔
اس سلسلے میں جتنا کسی کو اختیار ہے وہ بھی غیر مشروط نہیں ہے کہ جب،جتنا او رجیسا کوئی چاہے کر گزرے۔بلکہ وہ اس امر کا پابند ہے کہ اللہ کی عائد کردہ شرائط کااحترام کرے۔
یہاں پر شرط یہ ہے کہ کسی حصے دار کانقصان نہ ہو۔ بیٹے یابیٹی کو عاق کرنا سب سے بڑا نقصان ہے۔ غیرمضار(سورۃ النساء ع2)
جس سے کسی کانقصان نہ کیا ہو۔ (تفسیر ثنائی:1؍298) جب اوروں کا نقصان نہ کیا ہو (شاہ عبدالقادر دہلوی ، ص128) بغیر کسی کےنقصان پہنچائے۔
جو ان بچوں کے حق وراثت میں حائل ہوتے ہیں انہیں خدا کا خوف چاہیے۔ ان کامال ، مال نہیں آگ ہے۔
وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا(النساء، ع2)
فرائض:
اسلام نے میراث کے لیے فرائض کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ فرائض سے مراد وہ طے شدہ حصے ہیں جو حتمی طور پر اسلام نے طے کردیئے ہیں۔ جن میں مداخلت جائز نہیں ہے۔
حدیث:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی حکم دیا ہے کہ جس کے طے شدہ حصے ہیں وہ ہرحال میں ادا کیےجائیں۔
ألحقوا الفرائض بأھلها(بخاری۔مسلم عن ابن عباس)
حصہ والوں کو ان کےحصےادا کرو۔
ماں باپ کی جائز شکایات بھی ہوسکتی ہیں لیکن ان کی جائز شکایات کے بدلے ناجائز اختیار دینا بہت بڑی بے اصولی ہے۔ بلکہ قرآن کا حکم ہے کہناجائز باتوں میں والدیں کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ ہاں ان کی خدمت میں کمی نہ کی جائے۔
فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (سورہ لقمان)
حضورﷺ کا ارشاد ہے)لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق (مشکوٰۃ وغیرہ)
جس میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو۔ اس میں کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے۔
بلکہ ان شکایات کے ازالہ کی اور صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ حکومت بھی ان کی شکایات سن سکتی ہے۔
بہرحال ہمارے نزدیک ، جائز و ارثوں کو حق سےمحروم کرنا بالکل جائز نہیں ہے او رنہ کسی کو اس کے خلاف کرنےکا حق پہنچتا ہے۔ الا یہ کہ خود شریعت اس کی اجازت دے۔إذلیس فلیس واللہ أعلم