عظیم مقابر کی دریافت اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کا تعامل

سعودی حکومت نے اس قبرستان کو سرکاری تحویل میں لینے کے لئے فوری قدم اُٹھایا ہے جو ایک ہزار برس سے بھی پرانا ہے اور جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس میں چوتھے خلیفے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اٹھائیس پوتوں اور نواسوں کے مرقد ہیں۔ یہ قبرستان جدہ سے مدینہ منورہ جانے والی شاہراہ پر اتفاقاً دریافت ہوا اور اسے سعودی عرب کے ایک باشندے نے وہاں سے قدیم زمانے کے مٹی کے ظروف اور دیگر قدیم برتن برآمد کر کے دریافت کیا۔ بارش نے بھی اس سلسلے میں مدد کی اور اوپر کی مٹی بہہ گئی۔ فوراً محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو موقع پر بھیجا گیا۔ اب تک (۷۵) مرقد مل چکے ہیں اور ان میں سے (۲۸) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نواسوں اور پوتوں کی قبریں ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یہ پوتے پڑ پوتے بغداد کے گورنر کے مظالم اور اذیتوں سے عاجز آکر بغداد سے ہجرت کر گئے اور مدینہ جاتے ہوئے راستے میں ایک گاؤں اور اذیتوں سے عاجز آکر بغداد سے ہجرت کر گئے اور مدینہ جاتے ہوئے راستے میں ایک گاؤں میں آباد ہو گئے جس کا نام بعد میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پڑپوتے کے نام پر ''امام قاسم الروسی'' رکھا گیا۔

اب اس جگہ پر پہرہ متعیّن کر دیا گیا ہے اور اس کی حفاظت کے لئے اس کے گرد دیوار تعمیر کر دی گئی ہے اور اس جگہ ایک مسجد بنا دی گئی ہے تاکہ عقیدت مند وہاں نماز ادا کرنے کے علاوہ قرآن خوانی بھی کر سکیں۔ (نوائے وقت)

اب یہ فیصلہ کرنا محکمہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا کام ہے۔ بھوں نے اس قبرستان کو اپنی تحویل میں لیا ہے، کہ یہ مقابر اور مزارات واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتوں اور پڑپوتوں کا ہے اور اس سلسلہ میں ممکن شہادتیں کیا ان کے سامنے ہیں۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ:

ان میں سے بعض قبروں پران کے نام بھی تحریر ہیں (امروز) اور اس قسم کے کتبوں کی شرعی حیثیت کیا ہے، یہ بھی وہاں کے علماء کرام کا کام ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک ان مزارات کو معروف ائمہ اہل بیت کی طرف منسوب کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہئے اور اس سلسلے کی ممکن دلائل اور شواہد کے بارے میں پہلے اطمینان کر لینا ضروری ہے۔

اگر ان مزارات کے بارے میں یہ فیصلہ ہو جائے کہ واقعی یہ انہیں بزرگوں کے مزارات ہیں تو ہمارے نزدیک اس مرحلے پر سعودی حکومت کے لئے اس میں بڑی آزمائش کے سامان ہو گئے ہیں، خدا خیر کرے۔ بہرحال ایسی صورتِ حال کے بارے میں صحابہ بالخصوص حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا کیا طرزِ عمل رہا ہے۔ ہم اس سلسلے میں ان کا تعامل پیش کرتے ہیں تاکہ ٹھنڈے دل سے ہم سب اس پر غور کر سکیں۔

مغازی محمد بن اسحاق میں ابو العایۃ سے روایت ہے کہ:

جب ہم نے ''تستر'' فتح کیا تو ہر مزان کے بیت المال میں ایک چار پائی ملی جس پر ایک لاش رکھی ملی اور اس کے سرہانے ایک مصحف، اسے اُٹھا کر حضڑت عمرؓ کے پاس لے گئے، حضرت کعب سے ترجمہ کرایا۔ خالد بن دینار فرماتے ہیں ہم نے پوچھا پھر اس لاش کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ جواب دیا تیرہ قبریں الگ الگ کھود کر رات کو ایک میں دفن کر کے اور سب کو برابر کر دیا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے۔

حضرنا بالنھار ثلثة عشر قبرا متفرقة فلما کان باللیل دفناہ وسوینا القبور کلھا لنعیه علی الناس لا ینبشونه(اقتضاء الصراط المستقیم ص 163) جب بارش کا قحط ہوا تو چار پائی مذکور کو باہر رکھ دیتے، پھر بارش ہو جاتی، پوچھا وہ کس کی لاش تھی؟ جواب دیا: اس کو دانیال کہتے ہیں۔ (ایضاً ص 163)

یہاں بات ''توحید'' کا تحفظ اور شرک و بدعت کے امکانات کے سدِّ باب کی ہے، ہو سکتا ہے لوگ اسے بے ادبی خیال کریں مگر یہ صحیح نہیں، دفن تو آپ نے بھی کر دیا ہے، یہاں صرف اتنا کی ہے کہ: اس کی تشخیص کا سدباب کیا گیا ہے تاکہ رسومات بدعیہ کا احیاء نہ ہو۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو الہیاج اسدی کو ایک قبرستان کو مسمار کرنے پر مامور کیا تھا (مسلم) کیونکہ وہاں قبوری فتنوں کے امکانات باقی تھے۔

اس سلسلے میں مزید لکھنے کی حاجت نہیں رہی۔ صرف دل سے پوچھنے کی بات ہے کہ:

ایمان اور توحید مطلوب ہے یا ایمان اور توحید سے کھیلنا؟

پردہ جیل نہیں، عصمت و عفِت کے لئے حصار ہے

تکلّف نہیں، ایک دینی فریضہ ہے

پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان جناب ذو الفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے ایک اجلاس کی افتتاحی تقریر کرتے ہوئے کہا:

''ایک طرف تو آپ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں لیکن دوسری طرف دو دنوں تک آپ لوگوں نے خواتین کو ''جیل'' میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے زور دار آواز میں کہا: سرداری نظام سے پہلے اس استحصال کو ختم کیجیے اور خواتین کو پردوں کی اوٹ سے باہر نکالیے، انہوں نے پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین کو دعوت دی کہ وہ بھی مردوں کے دوش بدوش آکر بیٹھیں، پی پی آئی کے مطابق چند ہی لمحوں میں خواتین باہر نکل آئیں اور ڈائس کے سامنے آکر بیٹھ گئیں۔ وزیر اعظم نے اس مرلے پر پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ اپنے کو بڑا، انقلابی سمجھتے ہیں لیکن آپ خواتین کو پردے کے پیچھے سے یہاں نہیں لا سکے۔ وزیر اعظم نے کہا: اگر قائدِ اعظم کی ہمشیرہ مادرِ ملت فاطمہ جناح سیاست اور انتخابات میں حصہ لے سکتی تھیں، اور پاکستان کے وزیرِ اعظم کی بیوی بیگم رعنا لیاقت علی سندھ کی گورنر بن سکتی تھیں جو اب بھی اپوا کی چیئرمین ہیں اور اگر بیگم بھٹو تقریریں کر سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دیگر خواتین ایسا نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ مندوبین نے استحصال کے خاتمے کی باتیں کی ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب اور سرداری نظام کے خاتمے اور مساوات کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گو ہمیں اسلام پر ایمان ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مساوات اسلام کے اصولوں میں سے ایک ہے، انہوں نے کہا اسلام نے ایک انقلاب برپا کیا ہے اور ہمیں اپنے دین کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہئے لیکن ہمارا عمل کیا ہے؟ انہوں نے پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

آپ لوگوں نے خواتین کو دہری دیوار کے پیچھے رکھا ہوا ہے۔ پہلی دیوار برقع ہے اور دوسری دیوار وہ چلمن ہے جہاں آپ نے ان کو بٹھایا ہے۔''

(روزنامہ نوائے وقت۔ لاہور)

اس موضوع پر اس وقت بھی موصوف نے اظہار خیال فرمایا تھا جب وہ سیرت کانگرس کے مندوبین کو آخری روز کراچی میں الوداعی دعوت میں خطاب کر رہے تھے۔ (نوائے وقت)

چونکہ محترم وزیر اعظم نے پردہ کے بارے میں مندرجہ بالا خیالات کا اظہار کر کے تصویب کے لئے اسلامی اصولوں اور مساوات کا ذکر فرمایا ہے اس لئے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ کتاب و سنت کی واضح تصریحات پیش کرنے پر اکتفا کریں۔ باقی رہا مثالوں کے لئے محترمات کا ذکر تو ان کے پورے احترام کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان کی بجائے ہمارے لئے بہترین مثالیں امہات المومنین اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے ہونی چاہئیں جن کا قول و کردار اس سلسلہ میں واضح ہے۔ حکمران خواتین کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس قوم نے اپنی سیاسی باگ ڈور عورت کے ہاتھ میں تھما دی بس وہ پھر گرداب بلا سے نہ نکلی۔

لن یفلح القوم ولو أمرھم امرأة (بخاری)

بلکہ ایسے حال میں اسے یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ زمین پر بوجھ بن کر رہے اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ: زمین کی تہوں میں جا کر وہ اپنا منہ چھپا لے۔

فبطن الأرض خیر لکم من ظهرها (ترمذی)

پردہ جو دراصل صنفِ نازک کی قابلِ احترام عصمت و عفت کے لئے ایک حصار کی حیثیت رکھتا ہے، گر کی چار دیواری جو حِسًّا اور عرفًا ''جیل'' کی چار دیواری سے مماثل ہے۔ اسے ڈھا دینے کو کوئی بھی مجاہد آگے نہیں بڑھتا۔ حالانکہ وہ چار دیواری جیل کے بالکل مشابہ ہے۔ مگر اس کی طرف ہاتھ بڑھانا کوئی مناسب نہیں سمجھتا۔ کیونکہ وہ ''جیل'' نہیں، پناہ گاہیں ہیں۔ یہی کیفیت پردہ کی ہے۔ مگر یار دوستوں نے افسوس! اس سادہ سی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں رمائی۔ اگر پردہ کی اوٹ اور برقع جیل ہیں تو ملک و ملت کے در و دیوار کو بھی اڑا دینا چاہئے تھا کیونکہ یہ در و دیوار بظاہر بند کوٹھڑیاں بھی ہیں اور اپنی قوم سے بدگمانی کا ثبوت بھی کہ وہ اس کو چور یا ڈاکو تصّور کرتے ہیں۔

یہاں پردے دو نہیں تھے ایک تھا۔ اوٹ میں تھیں تو دوسری نقاب نہیں تھی، نقاب تھی تو اوٹ نہیں تھی۔ خدا جانے موصوف کو یہ دہری دیوار کیسے دکھائی دینے لگی ہے۔

گو پردہ سبھی کچھ نہیں ہے لیکن ہمارے نزدیک بہت کچھ ضرور ہے۔ ''پردہ'' عصمتوں اور عفتوں کے تحفظ کے لئے ایک قدرتی حصار ہے جسے ایک بار ڈھا دینے کے بعد خواتین کو واپس لانا مشکل ہو گا، بہرحال پردہ کرا کے ان کو قرآنی تربیت کے مواقع مہیا نہیں کیے تو یہ آپ کا قصور ہے، مگر سزا ان کو دی جا رہی ہے یہ بہت بڑی بے انصاف ہے۔

پردہ تکلّف نہیں ہے، ایک قرآنی فریضہ ہے، قرآن حمید کا ارشاد ہے کہ:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ (احزاب ع7)

اے نبی! اپنی ازواج (مطہرات) اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمائیں کہ: وہ اپنی چادروں کے گھونگھٹ نکال لیا کریں۔

جلباب بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے سارا جسم ڈھانپ لیا جاتا ہے۔

وهم ثوب أکبر من الخمار والصحیح أنه یسترجميع البدن (قرطبی)

آج کل دیہات میں اس جلباب کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں کہ خاندانی عورتیں بڑی سی چادر لپیٹ لیتی ہیں اور منہ پر بھی اسے لٹکا لیتی ہیں۔

پاکستان کی سب سے پہلی قومی اسمبلی کے معزز رکن، بانیٔ پاکستان کے دستِ راست اور نیشنل اسمبلی کے پہلے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء) مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکائیں (سورۂ احزاب صفہ ۵۵۲ حاشیہ نمبر ۷)

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ (ایضا)

جب ان سے کچھ مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو۔

علامہ عثمانی لکھتے ہیں کہ: اس آیت میں حکم ہوا پردہ کا کہ مرد حضرت کی ازواج کے سامنے نہ جائیں، کوئی چیز مانگنی ہو تو وہ بھی پردہ کے پیچھے سے مانگیں۔'' (سورۂ احزاب)

طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ:

اس (آیت کے نزول) کے بعد ازواج مطہرات بجز نسبی ورضاعی اقارب کے سب سے حجاب کرتی تھیں اور امام حسن و حسین کے سامنے بھی نہیں آتی تھیں بلکہ نابینا مردوں سے بھی پردہ کرتی تھیں۔ (کشف النقاب عن مسئلة الحجاب)

اس آیت کے بعد ایک صحابی بولے:

أیحجبنا محمد عن بنات عمنا۔ (در منثور)

محمد ﷺ اپنی چچا زاد بہنوں کو بھی ہم سے پردہ کرائیں گے (ایضاً)

گویا کہ پردہ چچا زاد بھائیوں سے بھی ضروری ہے۔

لیکن افسوس! محترم وزیرِ اعظم: ان کو اوٹ سے باہر لا کر قوم سے داد چاہتے ہیں بلکہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کو ناکامی پر کوستے بھی ہیں۔

؎ جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے

فرمایا: غیر محرم کے سامنے آنکھیں نیچی رکھیں۔

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ......... وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ (سورۂ نور ع۴)

معلوم ہوا کہ عورت کا مردوں کے سامنے ہونا اور مردوں کا ان کی دید سے لطف اندوز ہونا، اسلام نہیں بے دینی ہے۔

رحمۃ للعالمین ﷺ سے بڑھ کر پاک ہستی اور کون ہو سکتی ہے مگر آپ کا تعامل یہ تھا کہ کسی عورت سے چیز لیتے تو پردے کے پیچھے سے لیتے، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ:

أومت امرأة من وراء سترٍ بیدھا کتابٌ إلی رسول اللهﷺ (مشکوٰۃ)

یعنی ایک صحابی خاتون نے پردے کے پیچھے سے ایک کتاب (مکتوب) رسول اللہ ﷺ کو پکڑائی۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حج کے موقع پر جب لوگ ہمارے پاس سے گزرتے ہیں تو ہم اپنی چادروں سے اپنے چہرے ڈھانپ لیتیں، جب گزر جاتے تو کھول لیتیں۔

فإذا حاذوابنا سدلت احدانا جلبابھا من وراء رأسھا علی وجھھا فإذا جاوزونا کشفناہ (ابو داود) فیمر بنا الرکب فتستدل المرأة الثوب من فوق رأسھا علی وجھھا (دار قطنی)

ایک صحابیہ اپنے شہید بیٹے کا حال معلوم کرنے کے لئے حضور کے پاس آئی تو گھونگھٹ کئے ہوئے تھی، ایک صحابی نے کہا کہ: پوچھنے حال آئی ہو اور نقاب پوش ہو کر؟ وہ بولی: میں نے اپنے بیٹے کو کھو دیا ہے، حیا کو تو نہیں کھویا۔

فقال لھا بعض أصحاب النبيﷺ جئتِ تسألین عن ابنک وأنت منتقبة فقالت إِن اُرزأ ابنی فلن أرزأ حیائي (ابو داؤد)

حضرت عائشہ غلام سے پردہ نہیں کیا کرتی تھیں، ایک دن حضرت سالم نے جوجلیل القدر تابعی، امام اور متدین بزرگ تھے، آکر حضرت عائشہ سے کہا کہ خدا نے مجھے آج آزاد کر دیا ہے، بس پھر کیا تھا، حضرت عائشہ اُٹھیں اور پردہ گرا دیا اور پھر عمر بھر ان کے سامنے نہیں ہوئیں۔

کنت آتيھا مکاتبا ما تختفي مني فتجلس بین یدی وتتحدث معي حتی جئتھا ذات یوم فقلت ادعي لي بالبرکة یا أم المؤمنین قالت وما ذلك قلت اعتقني اللّٰہ قالت بارك اللّٰہ لك وأرخت الحجاب دوني فلم أرھا بعد ذلك الیوم (نسائی)

یہ پردہ سابقہ امتوں میں بھی موجود رہا ہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لئے تشریف لائیں تو گھونگھٹ نکالے ہوئے تھیں۔

وضعت ثوبھا علی وجھھا قالت إن أبي یدعوك (ابن ابی شیبۃ۔ اسنادہ صحیح۔ ابن کثیر)

پردہ شرعی کے سلسلہ کی یہ وہ واضح آیات اور صریح احادیث و روایات ہیں جو اپنے مفہوم میں کسی تاویل کی متحمل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اگر ارباب اقتدار اپنے غلط اقدام پر نظر ثانی کرنے کی توفیق نہیں پا سکتے تو خدا ہی ان کو سمجھے۔

مستحق سمجھے گا تو اسلامی نظام برپا کر دے گا

جماعت اسلامی کے بانی حضرت مولانا مودودی ٹیکسلا سے آئے ہوئے چالیس رکنی وفد سے ملے اور ان سے باتیں کیں، انہوں نے مولانا سے پوچھا:

اسلامی انقلاب کے لئے کم از کم کتنے اسباب و وسائل اور کتنی تیاری اور کن اوصاف کی ضرورت ہے؟

مولانا نے فرمایا کہ:

ہر ملک کے حالات الگ ہوتے ہیں تاہم اصولی طور پر یہ سمجھ لیجیے کہ اس مقصد کے لئے کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہونی چاہئے جو پوری طرح اسلام کی روح سے سرشار ہوں اور اسلامی نظام کے قیام کو اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہوں، لیکن اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کی کوششوں سے اسلام ضرور ہی قائم ہو جائے گا۔ یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس قوم کو مستحق سمجھے گا تو وہ یہاں اسلامی نظام برپا کر دے گا اور اگر قوم ہی اس کی مستحق نہ ہو اور وہ نیک لوگوں کی جگہ برے لوگوں ہی کو پسند کرتی ہو تو اللہ زبردستی یہ نعمت اس کو عطا نہیں فرمائے گا۔

(نوائے وقت ۲۱ ؍اپریل ۱۹۷۶ء)

مولانا کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے! انہوں نے ایک بہت بڑی ذہنی بوجھ اور قلبی خلش کو دور کر دیا ہے۔ لوگ عموماً سوچتے ہیں کہ دینی تحریکیں اُٹھتی ہیں اور من تن اور دھن کی ساری قوتیں صرف کر ڈالتی ہیں مگر سنگدل قوم کی مصلحت کیشی، غفلت، خود فروشی اور خدا فراموشی کی مہیب چٹانوں سے اپنا سر پھوڑ کر خاسرو ناکام لوٹ جاتی ہیں۔

اسلام دشمن طاقتیں، منافق اور بد اندیش تحریکیں اس ناکامی سے فائدہ اُٹھا کر شور برپا کر دیتی ہیں کہ: جو دعوت لے کر اسلام کی نام لیوا جماعتیں اُٹھی تھیں وہ برحق ہوتیں یا داعی لوگوں کے دل صاف ہوتے تو ان کا یہ حشر نہ ہوتا۔ لہٰذا عوام کو چاہئے کہ ان کی راہ دیکھنا چھوڑ دیں بلکہ یہ شاطر لوگ ملک اور قوم کی مصیبتوں کو بھی انہی باخدا بزرگوں کی ناہلی یا نحوست کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔

وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيئَة يَطَّيرُوْا بِمُوْسٰى وَمَنْ مَّعَه(اعراف ع 16)

اور اگر ان پر کوئی مصیبت آتی تو موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست سمجھتے۔ چنانچہ نیم پڑھا لکھا طبقہ اور سادہ لوح عوام ان کے بھرے میں آکر ادھر کو اُٹھ دوڑتے ہیں، جدھر سے اغوا کرنے والوں کا شور ان کو سنائی دیتا ہے۔

مولانا کے مندرجہ بالا جواب سے یہ سارے خدشے، بدگمانیاں اور حوصلہ شکن وساوس کافور ہو جاتے ہیں۔ کہ کلمۂ حق بہرحال حق ہے، لیکن بندوں کے لئے اس نعمت کی ارزانی اس وقت ممکن ہو گی جب اس کے چاہنے والے بھی ہوں، اگر لوگ حاملینِ حق کے بجائے دشمنانِ حق کو صالحین کے بجائے برے لوگوں کو اور کتاب و سنت کے پاسبانوں کے بجائے قرآن و حدیث کے باغیوں سے ناطے جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہوں تو پھر حق تعالیٰ اسے زبردستی کسی کی جھولی میں نہیں ڈالتے۔

سب جانتے ہیں، سب انبیاء برحق ہوتے ہیں، ان کی دعوت سراپا حق ہوتی ہے لیکن سینکڑوں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام دنیا میں تنہا رہے۔ معدودے چند لوگوں کے سوا کسی نے بھی ان کی نہ سنی۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان داعیوں کی آواز یا دعوت میں کوئی کمی تھی۔

اسلامی نظام، انفرادی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی ہیئت ہے، اگر پوری قوم یا اس کی اکثریت اس کے حق میں نہیں ہے تو حق تعالیٰ اسے کس طرح ان میں قائم فرمائے گا؟ ایسی قوم کی بد نصیبی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

اگر ان کو صراط مستقیم پیش کریں تو اسے اختیار نہیں کریں گے اگر غلط راہ پر ڈالیں گے تو اس پر دوڑ پڑیں گے۔

وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا (اعراف ع17)

فرمایا: پھر وہی کچھ کاٹیں گے جو بوئیں گے۔

هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاعراف ع)

نیکی کرو گے تو اس کا پھل بھی خود ہی کھاؤ گے۔

مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِه (نمل ع3)

ورنہ خدا کو کیا پروا:

وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّي غَنِي كَرِيمٌ۔ (نمل ع3)

ایسے لوگ رسوا رہیں گے جو خدا اور رسول کی راہ نہیں لیتے۔

إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ (پ28۔ مجادلہ ع3)

دولتِ دین خدا کا احسان ہے۔

بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (الحجرات ع1)

کتاب برحق کی وراثت بہت بڑا فضل ہے۔

ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (فاطر ع4)

خدا کی رحمت ہے۔

وَلَوْ لَا فَضْلُ اللهِ عَلَيكُمْ وَرَحْمَة لَا تَّبَعْتُمُ الشَّيطٰن (نساء)

مگر یہ صرف ان کوملتی ہے جو اس کے حصول کے لئے سنجیدہ طالب، عامل، مبلغ اور مخلص ہیں۔

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (156) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ (الاعراف ع19)

اب آپ غور فرمائیں جو قوم اس سلسلے میں صرف قوالوں کے بول بول کر کہ: مدینے بلا لو مجھے یا عید میلاد منا کر نفس و طاغوت کے آستان پر سجدہ ریز رہتی ہے، وہ حق تعالیٰ کی ان رحمتوں کی کس طرح سزا وار ہو سکتی ہے جو صرف اپنانے اور تھام کر چلنے پر مبنی ہے۔ کھیت سے فصل لینے کے لئے صرف نیک امیدوں پر قناعت نہیں کی جاتی بلکہ مناسب محنت بھی کی جاتی ہے، کارخانے کی تعریف و توصیف سے کارخانہ کچھ نہیں اگلتا جب تک اسے کوئی چلاتا اور مناسب اقدام نہیں کرتا۔ پیٹ میں پانی کا گھونٹ اس وقت تک نہیں پڑتا جب تک کوئی پینے کے لئے ضروری امور انجام نہیں دیتا، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ: دنیا سمجھتی ہے کہ اسلام کو زبانی کلامی خراجِ تحسین پیش کرنے حضور کی سچی اطاعت کے بجائے آپ کی مدح سرائی اور قوالی پر قناعت کرنے صوبائی اور قومی اسمبلی کے اجلاس اور ریڈیو کا آغازِ تلاوت قرآن کے ساتھ کرنے کے بعد اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو گئی تو وہ بہت بڑی بھول میں ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ اسلامی نظام جو نوعِ انسان کی دنیوی اور اخروی فوز و فلاح کا ضامن ہے برپا ہو جائے گا یا ہو جانا چاہئے، وہ دراصل خوش فہمیوں کے گنبد میں رہتے ہیں۔ یقین کیجیے! یہ دولت نیکو کار، خدا ترس، اور آخرت کی جوابدہی کا احساس رکھنے والے صالحین کے سوا ہاتھ نہیں آئے گی، اور صرف وہی بندگانِ خدا اقامتِ دین کے فریضہ سے عہدہ برآ ہو سکیں گے، باقی رہے ہما شما؟ سو ان کی بابت مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ان کی زندگی خود اس امر کی گواہ ہے کہ ان کو اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کے سیاسی شب و روز بتاتے ہیں کہ ان کو اپنے سیاسی مستقبل کا کوئی حریف نظر آتا ہے تو وہ صرف خدا کا دین ہے۔ ان کو قرآن اور رسول سے اپنی کرسی اور اپنا مستقبل زیادہ عزیز ہے۔ اس صورتِ حال کے بعد اسلام کے سلسلے میں ان کے وقتی بیانوں سے اگر کوئی یہ اخذ کرتا ہے کہ یہ لوگ واقعی اسلام سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں، یا اسلام کے سلسلے میں ان کی آنکھوں میں حیا کی کوئی رمق ہے، تو ایسے زود اعتقاد لوگوں کے بارے میں ہم دعا کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔