دمشق کے چند علمی مراکز

دمشق کی مختصر تاریخ:

دمشق ملک شام کا سب سے قدیم شہر ہے۔ جنگ یرموک کے فوراً ہی بعد ۱۴؁ھ میں اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ پہلے اس پر باز نطینی حکومت تھی۔

۱۴ ؁ھ سے لے کر آج تک اس کو ہمیشہ اسلامی ثقافت کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ ۴۱ ؁ھ کے قریب حضرت امیر معاویہؓ نے دمشق کو اپنا دار المخلافہ بنایا اور ان کے چوتھے جانشین ولید کے زمانے میں کنیسہ یوحنا کے کھنڈروں پر جامع دمشق تعمیر ہوئی اس مسجد کی وجہ سے دمشق کی قدرت و منزلت مسلمانوں کے دلوں میں بہت بڑھ گئی۔

دمشق، مملکت شام کا صدر مقام وار خلفائے بنو امیہ کا پایہ تخت رہا ہے۔ عہدصحابہ میں سر زمینِ شام میں ایک بار دس ہزار صحابی موجود تھے رضی اللہ عنہم۔

حافظ ابنِ عساکر م (۵۷۱؁ھ) تاریخ دمشق میں ولید بن مسلم سے جو امام اوزاعی کے نامور شاگرد ہیں بسند ناقل ہیں کہ:

دخل الشام عشرةألف عین رأت رسول الله ﷺ

ملک شام میں ایسے دس ہزار حضرات داخل ہوئے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔

اہل شام کی تعلیم و تربیت کا اہتمام:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں باشندگانِ شام کی تعلیم و تربیت کا خاص طور سے اہتمام کیا اور اس کے لئے حضرت معاذ بن جبلؓ اور عبادہ بن الصامتؓ کو جو اکابر صحابہ میں سے تھے وہاں بھیجا، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ اپنی مشہور و معروف کتاب ''منهاج السنة النبوية في نقض قول الشيعة والقدرية'' میں لکھتے ہیں۔

فإن عمر رضی اللہ عنہ کان قد أرسل إلی مصر من یعلمھم القراٰن والسنة وأرسل إلی ّھل الشام معاذ بن جبل وعبادہ بن الصامت وغیرھما وأرسل إلی العراق ابن مسعود وحذیفة وغیرھما۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصر، شام اور عراق کی طرف صحابہ کو بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دیں۔ شام میں معاذ بن جبل اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما اور عراق کی طرف ابن مسعود اور حذیفہ وغیرہ کو۔

فتن و ملاحم سے متعلق احادیث بیان کرنے کے سلسلے میں اہلِ شام کو مستند سمجھا جاتا تھا۔ حافظ ابنِ عساکر تحریر فرماتے ہیں۔

إن أردت الصلاة فعلیك بأھل المدینة وإن أردت المناسك فعلیك بأھل مکة وإن أردت الملاحم فعلیك بأھل الشام والرأي عن أھل الکوفة۔

اگر نماز سیکھنا ہو تو اہلِ مدینہ کے پاس جاؤ اگر مناسکِ حج جاننا چاہتے ہو تو اہلِ مکہ کا رغ کرو اور اگر ملاحم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا شوق ہے تو اہلِ شام سے سیکھو اور فقہ اہل کوفہ سے۔

حافظ ذہبی لکھتے ہیں: دمشق میں جو شام کی وسیع مملکت اور متعدد بلاد و قصبات میں پھیلے ہوئے ملک کا ایک بڑا شہر ہے متعدد صحابہ کرامؓ آکر فروکش ہوئے۔ حضرت امیر معاویہؓ اور ان کے بعد عبد الملک اور ان کی اولاد کے زمانے میں یہاں علم کی کثرت رہی، تابعین و تبع تابعین کے عہد میں فقہا و محدثین اور قرّاء برار پیدا ہوتے رہے۔

پھر ابو مسہر، ہشام، دحیم، سلیمان ابن بنت شرجیل کے دور میں اور ان کے بعد اور ان کے شاگردوں کے زمانے میں یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ بالخصوص دمشق میں تو علم کا خوب چرچا تھا۔ یہ بات ذہبی کی اس عبارت سے معلوم ہو سکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

وهي دار قرآن وحدیث وفقه وتناقص بها العلم في المأة الرابعة۔

یہ قرآن، حدیث اور فقہ کا گھر تھا اور چوتھی اور پانچویں صدی میں یہاں علم کم ہو گیا تھا۔

حافظ ذہبیؒ کا یہ کہنا تو درست ہے کہ دمشق علم قرآن اور حدیث و فقہ کا گھر تھا لیکن یہ کہنا کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں یہاں علم کم ہو گیا تھا درست نہیں کیونکہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ علوم او صنعت و حرفت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ ابن خلدون جیسے ماہر، تاریخ کا کہنا ہے کہ جوں جوں آبادی بڑھتی ہے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

دمشق کی اس مختصر تاریخ کے بعد اب ان درسگاہوں کا ذکر شروع کیا جاتا ہے جو اس مضمون کا اصل مقصود ہے ان درسگاہوں کے اساتذہ، علماء، ائمہ اور مجتہدین کرام سے اندازہ لگائیے کہ یہاں علم حدیث کی ترویج و اشاعت میں کتنی کوشش ہوئی۔

1. نوریہ:

دمشق کا سب سے قدیم بلند پایہ دار الحدیث نوریہ ہے۔ اسے ملک نور الدین محمود زنگی (م ۵۶۹؁ھ) نے تعمیر کیا۔ اس دار الحدیث کے متعلق ابن کثیر رقم طراز ہیں۔

اِسی مدرسہ کے صحن میں ملک نور الدین محمود زنگی کا مزار بھی ہے۔

اگرچہ یہ دار الحدیث سادہ تھا لیکن اس میں اس قدر جید اور ذہین محدثین کرام کا جھمگٹا رہتا تھا کہ اور کہیں کم ہی ہو گا۔

اس دار الحدیث کے اول مہتمم حافظ ابن عساکر تھے۔ حافظ ابن عساکر مشہور محدث ہیں۔ ان کی مشہور اور مفید ترین تالیف ''تاریخ دمشق'' ہے۔ یہ کتاب آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے اور دمشق کے متعلق صحیح اور مکمل ماخذ ہے۔ حافظ ابو القاسم ابن عساکر کا اپنا بیان ہے کہ میں نے ایک ہزار تین سو ۱۳۰۰ مرد اور اسی ۸۰ سے کچھ اوپر محدّثات خواتین سے سماعِ حدیث کیا ہے۔ اس دار الحدیث کے دوسرے مہتمم ابو القاسم کے بیٹے بہاء الدین القاسم تھے۔ ان کے بعد زین الامناء بن عساکر مہتمم رہے۔

اس دار الحدیث کے شیوخ الحدیث درج ذیل ہے۔

بہاء الدین النابلی، تاج الدین انفراری، جمال الدین بن الصایونی، مجلد الدین بن المہتار، فخر الدین حنبلی، علاؤ الدین بن عطار، شرف الدین النابلسی، علم الدین اشبیلی، حافظ مزّی، حافظ تقی الدین بن رافع، عماد الدین حسینی، عز الدین اربلی رحمة الله علیهم أجمعین۔

ان محدثین کرام کی فہرستِ اسماء سے پتہ چل سکتا ہے کہ یہ دار الحدیث کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ ہر دار الحدیث اپنے اساتذہ گرامی قدر کی وجہ سے شہرت پاتا اور مرجع خلائق بنتا ہے۔

2. اشرفیہ:

اس دار الحدیث کو ملک اشرف موسیٰ بن عادل برادر زادہ سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس نے خرید کر دار الحدیث بنایا اور انہیں کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی تاریخ تعمیر ۶۳۰؁ھ ہے۔

بعض محدثین کرام یہ ہیں۔

علامہ ابن الصلاح (م ۶۴۳؁ھ) ابن الخرستانی، ابو شامہ، امام نووی، زین الدین فاروقی، کمال الدین شریشی، صدر الدین بن الوکیل ابن الزملکانی، حافظ بزّی، علامہ حافظ تقی الدین ابسکی۔ حافظ ابن کثیر اور قطب الدین خیضری رحمة الله علیهم أجمعین۔

3. الاشرفیہ البرانیہ:

دمشق کے مشہور ترین پہاڑ قاسیوں کے دامن میں نہر یزید کے کنارے تقی الدین التنکیزی وزیر کے قبر کے بالکل سامنے واقع ہے۔ اس دار الحدیث کی بنا کا سہرا بھی ملک اشرف کے سر ہے۔

محدثین کرام:

قاضی شمس الدین ابن ابی عمر، امام شمس الدین بن کمال مقدسی، تقی الدین سلیمان بن حمزہ، شرف الدین القائق حنبلی رحمة الله علیهم أجمعین۔

4. البھائیہ:

یہ دار الحدیث باب طوما میں ہے یہ دار الحدیث بہاء الدین ابو محمد القاسم بن بدر الدین ابو غالب المظفر (م ۷۸۲؁ھ) کا گھر تھا۔ اس کے بعد دار الحدیث کی شکل دے کر اس میں علم حدیث کا چراغ روشن کیا گیا۔ اس دار الحدیث کے مہتمم و متولی کا نام ابو المحاسن ابن جماعہ تھا۔

5. الحمصیہ:

حلقہ حمص کے نام سے مشہور تھا اب یہ ناپید ہے۔ اس دار الحدیث میں حافظ بزّی اور علامہ حافظ صلاح الدین علی بن کیکلہ نے درس حدیث دیا ہے۔

6. الدواداریہ:

یہ دار الحدیث جس کے ساتھ ایک مدرسہ اور ایک رباط بھی ہے۔ باب الفرج میں ہے۔ اس کے بانی حافظ علم الدین سنجر الدوادار (م ۶۹۹؁ھ) ہیں حافظ علم الدین ترک کے ایک مشہور و معروف عالی مرتبت خاندان کے فرد ہیں۔ اس دار الحدیث کے محدثین کرام میں سے نجم الدین بن قوامؒ بھی ہیں۔

7. السامریہ:

یہ دار الحدیث محلہ ماذنۃ الشحم سے قریب کوچہ شیخ دسوتی میں واقع ہے ایک خانقاہ بھی ہے۔ اس دار الحدیث کے بانی صدر کبیر سیف الدین ابو العباس احمد بن محمد بغدادی سامری ہیں۔ علامہ موصوف اسی جگہ مدفون ہیں۔

8. السکریہ:

یہ باب الجابیہ میں ہے اس دار الحدیث کے شیخ الحدیث شیخ الاسلام علامہ تقی الدین ابن تیمیہ اور ان کے والد اور علامہ ذہبی اور صدر مالکی رہ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک خانقاہ بھی ہے۔ خیال ہے کہ اس دار الحدیث کا نام اب جامع السادات ہے۔

9. الشقیشقیہ:

اس دار الحدیث کے بانی نجیب الدین ابو الفتح نصر اللہ الشیبانی المعروف بابن الشقیشقیہ ہیں۔ یہ دار الحدیث اب معدوم ہو چکا ہے۔

10. العرویہ:

جامع اموی کی جانب شرق میں مشہد عروہ میں ہے۔ شرف الدین محمد بن عروہ موصلی (م ۶۲۰؁ھ) نے بنایا اور ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی اس کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ اس کے شیوخ الحدیث میں سے فخر ابن عساکرؒ اور زکی الدین البرزالیؒ ہیں۔

11. الفاضلیۃ:

کلاسہ میں واقع ہے سلطان صلاح الدین کے امراء میں سے قاضی الفاضل البیانی کی طرف منسوب ہے اور سلطان صلاح الدین کی قبر کے قریب ہے۔

گمان ہے کہ اس کے پہلے مدرس تقی الدین البلدانی ہیں۔ ان کے بعد اس منصب پر مختلف علماء متمکن رہے جن میں سے نجم الدین، بدر الدین کے بھائی اور حافظ محمد السلالی اور شمس الدین البعلی ہیں۔

12. القلانسیہ:

مدرسہ ابی عمر جو صالحیہ میں ہے کہ غرب میں واقع ہے اس کے ساتھ رباط اور ایک مینارہ ہے۔ اس کے بیچ میں نہر یزید گزرتی ہے۔ اس کے بانی عز الدین ابو یعلی التمیمی (م ۷۲۹؁ھ) ہیں جو ابن القلانسی کی کنیت سے مشہور ہیں۔ ان کا شمار اکا برین دمشق میں ہوتا ہے۔

13. القوصیہ:

رحبہ سے قریب ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ دار الحدیث جامع اموی میں شافعیہ کے نزد ہے۔

14. الکردوسیہ:

یہ دار الحدیث ماذنۃ الشحم کے غرب میں واقع ہے۔ محمد بن عقیل بن کردوس السلیمی محتسب (کوتوال شہر دمشق) نے ۶۴۱؁ھ میں قائم کیا۔ اب اس کی جگہ جامع ماذنۃ الشحم ہے۔

15. النفیسیہ:

بیمارستان وقاقی اور باب الزیادہ کے سامنے اور مدرسہ امنیہ کے جانب شمال و غرب میں ہے اس کو اسماعیل النفیس بن محمد بن عبد الواحد الحّرانی ناظر الاتیام نے ۶۹۶؁ھ میں تعمیر کیا۔ اب یہ معدوم ہو چکا ہے۔ اس کے شیوخ میں سے علاء الدین الکندیؒ اور علم الدین البرزانیؒ ہیں۔

16. الناصریہ:

اس کے ساتھ رباط بھی ہے۔ جبل قاسیون کے دامن میں جامع الاقرم کے سامنے ہے۔ اس دار الحدیث کو ملک الصلاح ابن الملک العزیز نے ۶۵۴؁ھ میں بنایا۔ اب یہاں ایک خوب صورت باغ ہے۔

اس دار الحدیث کے مشائخ میں کمال الدین شریشی اور ان کے صاحبزادے ابو بکر اور حسام الدین القوی اور نجم الدین بن القوام (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) ہیں۔

17. التنکزیہ:

یہ دار القرآن والحدیث ہے۔ حمام نور الدین الشہید کے مشرق میں ہے۔ نائب السلطنت تنکز نے ۷۳۰؁ھ میں بنایا۔ اب یہاں بچوں کا ایک مکتب ہے۔

18. الصبانیہ:

یہ بھی دار القرآن والحدیث تھا۔ اس کے بانی شمس الدین بن تقی الدین بن الصبان ہیں۔ مختصر الدارس میں لکھا ہے کہ یہ دار الحدیث فتنۂ تیمور میں جل گیا تھا۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔

ماخذ ومراجع

1. تاریخ دمشق۔ ابن عساکر۔

2. تذکرۃ الحفاظ۔ ذہبی۔

3. تاریخ بغداد۔ خطیب بغدادی۔

4. بلادِ فلسطین و شام۔ سید ہاشمی صاحب فرید آبادی۔

5. خلاصہ ابن الفقیہ۔ ابن الفقیہ۔

6. المسالک والممالک۔ ابن خرد اذبہ۔

7. تاریخ علماء بغداد المسمّٰی منتخب المختار۔ محمد بن رافع السلامی۔

8. البدایہ والنہایہ۔ ابن کثیر۔

9. التہذیب۔ ابن حجر عسقلانی۔

سفر نامۂ شام۔ مولانا عاشق الٰہی میرٹھی۔

 


 

حوالہ جات

[1] تاریخ دمشق ص ۳۱۴، ج۱۔ طبع دمشق ۳۷۱ھ

[1] تاریخ دمشق جلد ۴، ص ۱۴۲ طبع میریہ مصر

[1] تاریخ دمشق

[1] تاریخ دمشق ج۱ ص ۳۴۸