ستمبر 1975ء

اندرونِ ملک۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار

مملکت پاکستان، پاکستانی ملت اسلامیہ کے حسین اور مبارک خوابوں کی ایک مبارک تعبیر تصور کی گئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ بات کچھ بے جا توقع بھی نہیں ہے، اگر علامہ اقبال، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح، اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے! کو مہلت ملتی تو متوقع تھا کہ مسلمانانِ پاک و ہند اپنی آنکھوں سے وہ پاکستان ضرور دیکھ لیتے جس کا روزِ اول نعرہ لگایا گیا تھا، کیونکہ یہ عظیم لوگ تھے، وہ اسلامی ریاست کے تقاضوں اور اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ؎          قولِ مرداں جاں دارد۔

پنجابی کہاوت ہے:

گھر والا گھر نہیں مینوں (مجھے) کسی دا (کا) ڈر نہیں!

جنہوں نے بڑی محنت سے پاکستان حاصل کیا تھا اور جن کو اپنی زبان اور پوزیشن کا احساس تھا، جب وہ دنیا سے لد گئے تو یہ مملکت ایک حد تک یتیم ہو گئی، جو اس کے وارث بنے، ان بے رحموں نے ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جو عموماً خدا سے غافل لوگ ایک یتیم کے ساتھ کرتے ہیں۔ اسے ملتِ اسلامیہ کی میراث تصور کرنے کے بجائے ان بھوکے ظالموں نے اسے ایک دستر خوان سمجھا، اور مملکت کے عوام کو ''بھیڑیں'' جب اور جدھر کو چاہتے انہیں ہانک کر لے جاتے۔ اور یہ سماں ابھی تک طاری ہے۔

رہنما کم آئے ہیں۔ مداری زیادہ، ملّتِ اسلامیہ کا اصلی درد رکھنے والے تو بہت کم دیکھے بہروپئے اور مکار زیادہ، ان حریصانِ اقتدار نے اپنے مستقبل کے تحفظ کے لئے مملکت کا مستقبل تک بیچنے سے دریغ نہیں کیا، اس کی کھیر تو بارہا بانٹی لیکن اس کے استحکام اور تعمیر و ترقی کے لئے سنجیدگی سے کبھی کوشش بھی نہ کی، عوام کو اندھیرے میں رکھ کر ہمیشہ ان کو نادان بناتے رہے لیکن آزاد قوموں کی طرح ان کو احساس اور شعور کی دولت سے نہ نوازا، کیونکہ اس کے بعد ان کے اپنے بتوں کی جدائی خطرے میں پڑ جاتی ہے، اقبال پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے، کیا خوب کہہ گئے ہیں۔

ایں صنم تا سجدہ اش کر دی خداست

چوں یکے اندر قیام آئی فناست

اس بت کے سامنے جب تک تو سجدہ ریز ہے، وہ خدا ہے لیکن جونہی آپ ''کھڑے'' ہو گئے وہ فنا ہو جاتا ہے۔

جو صاحب کرسیٔ اقتدار کے لئے قوم کے سامنے آتے ہیں، پہلے انہیں خوب سبز باغ دکھاتے ہیں، اور اس قدر سنسنی خیز انکشافات کرتے ہیں کہ عوام عش عش کر اُٹھتے ہیں۔

جب وہ اقتدار کی گدی پر براجمان ہو جاتے ہیں تو قوم کو وعدوں سے بہلاتے ہیں، اور جھوٹے لاروں کے ذریعے عوام کو اس قدر زچ کر ڈالتے ہیں کہ بے ساختہ ان کے حلقوم سے صدا بلند ہو جاتی ہے کہ ؎

ہمراز مرے غمخوار مرے مرنے ہی نہیں دیتے مجھ کو

ہر بار یہی کہتے ہیں مجھے، وہ آتا ہے وہ آتا ہے

جو بڑی آس لگا کر ان کی راہ دیکھتے رہے، جنہوں نے پسینے کی جگہ اپنا خون بہایا، جہاں سرکار دولت مدار کااشارہ ابرو ہوا وہاں سر کٹایا مگر بالآخر ان جھوٹے خداؤں نے ان کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اپنے پوجنے والوں کے ساتھ آگ کیا کرتی ہے ؎

دنیا بہ اہل خویش ترحم نمی کند

آتش اماں نمی دہد آتش پرست را

دوسری طرف عوام کی حالت بھی کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں ہے وہ بھی ملک و ملت اور دینی مستقبل کے بجائے ذاتی مفاد کو سامنے رکھتے ہیں، اس لئے انہوں نے جس کا بھی انتخاب کیا اس نقطۂ نظر سے کیا ہ وہ ان کو نجی اغراض کی تکمیل کے لئے کس حد تک مفید ہو سکتا ہے۔ گویا کہ عوام بھی شکاری اور ان کو شکار کرنے والے لیڈر بھی شکاری۔ یہ ان کو دامِ فریب میں لاتے ہیں اور وہ ان کو مقصود دونوں کا صرف دنیا ہے، خدا نہیں۔ کل کی انہیں فکر نہیں، آج کی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حق تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔

إِنَّ هَؤُلَاء يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا(پ۲۹۔ الدھر۔ ع۲)

یہ (لوگ) تو (بس دنیا ہی) چاہتے ہیں جو سر دست موجود ہے اور روزِ سخت (قیامت) کو اپنے پس پشت ڈال رکھا ہے۔

جہاں صورتِ حال یہ ہو، وہاں ملی وحدت، باہمی مواسات اور خیر خواہی کی فضا مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ جب ان کی ذاتی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں تو رہزنوں کے اس ٹولے میں بری طرح تو تکار شروع ہو جاری ہے اور اندر کا کوڑھ ابھر کر باہر آجاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، مسٹر جن کو جماعت کی حقانیت کا معیار اور روحِ جماعت قرار دیتے تھے، دوسرے دن جب وہ ان سے الگ ہوئے تو وطن دشمن، سیاست سے نابلد اور اقتدار کے ناقابل کہلائے، اسی طرح جب وہ لوگ جو یک قالب دو جان تھے مسٹر سے ناراض ہوئے تو اس کو وہ جلی کٹی سنائیں کہ رہے رب کا نام۔ قرآن کی نگاہ میں، یہ بھان متی کا کنبہ بس کچھ دن کا مہمان ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے قدرتی کشش نہیں ہے بلکہ محض وقتی طور پر خود غرضوں کے ٹولے کا یہ میلہ لگ گیا ہے، جو چند لمحے چلنے پھرنے کے بعد ہوا ہو جائے گا۔ ان کی یہ ٹیپ ٹاپ اور دھاک صرف ظاہری ہے، اندرونی طور پر یہ لوگ ایک دوسرے سے حد درجہ بیگانہ اور بالکل کھوکھلے ہیں۔

بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى (پ۲۸۔ حشر۔ ع۲)

آپس میں ان کی بڑی دھاک (بیٹھی ہوئی ہے) ہے تو ان کو سمجھے کہ سب ایک ہیں حالانکہ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔

اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کے لئے خلاف وہ بھدی قسم کی سازشیں بھی کرتے ہیں مگر اس سے نقصان دوسرے کا نہیں ان کا اپنا ہوتا ہے۔

وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِه(پ۲۲۔ فاطر۔ ع۵)

اور بری تدبیر (الٹی) بری تدبیر کرنے والے ہی پر پڑتی ہے۔

چنانچہ آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ جو ٹولہ عوامی ٹولہ کہلاتا تھا اور بظاہر اپنے چیئرمین کی مٹھی میں نظر آتاتھا، اور ان کے چیئرمین بھی سب سے بڑے عوامی لیڈر اور جمہوری راہ نما دکھائی دیتے تھے۔ وہ آج یوں تتر بتر ہو رہا ہے، جیسے یہ کبھی مل کر بیٹھے ہی نہ تھے، دراصل اس کی یہی وجہ تھی کہ وہ کسی کلمہ جامعہ اور ملی مقاصد سے ہم آہنگ نہیں تھے، کفن چوروں کا ٹولہ تھا جو صرف کام و دہن کے چسکے کے لئے اکٹھا ہو گیا تھا۔ اس لئے جب بندر بانٹ شروع ہوئی تو جوتوں میں دال بٹنا بھی شروع ہو گئی۔ اور یہ تان کہاں جا کر ٹوٹے گی؟ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں ان سانڈوں کی لڑائی میں ملک و ملت پر کہیں آنچ نہ آنے پائے بس اس کے لئے دست بدعا رہیے۔

پیپلز پارٹی بحیثیت نظم کے ختم ہو گئی ہے۔ جتنا اور جیسا کچھ بظاہر ڈھانچہ نظر آتا ہے وہ دھونس کا رہین منت ہے یا لالچ اور حرص و آز کا۔ اس سے پرے اس کی تہہ میں اور کوئی خیر کا عنصر بھی کار فرما ہو؟ بظاہر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔

ملک اور قوم کی یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ جو چیز ہر مذہب اور عقل و ہوش کے ہر مکتبِ فکر میں بری ہے، اسے یہاں ''دین و دانش'' کی معراج تصور کیا جا رہا ہے۔ یعنی عوام اور خواص کو ''اُلّو'' بنانا۔ حالانکہ یہ کوئی کارِ خیر نہیں ہے۔ لیکن یہاں اسے سیاست کا شاہکار قرار دیا جا رہا ہے داؤ پیچ دراصل متحارب اقوام کے مابین تو ایک حکمتِ عملی تصور کی جا سکتی ہے لیکن اپنی قوم اور قوم کے جمہور سے ''کہنا کچھ اور کرنا کچھ'' قوم کی توہین تو کہلا سکتاہے، اِسے سیاست کا شاہکار کہنا ذہنی دیوالیہ کی نشانی ہے۔

اب قوم ایک چوراہے پر پہنچ گئی ہے، جہاں حیرت اور مایوسی کے سوا اس کو کچھ نہیں دکھائی دیتا اور یہ محض اس لئے کہ وہ ہر نعرے باز سیاسی شاطر کے نعرے پر اعتماد کر کے اس کے پیچھے ہو لیتی رہی ہےلیکن چند قدم ان کے ساتھ چلنے کے بعد اس نے ہمیشہ یہی محسوس کیا ؎

جو کچھ کہ دیکھا خواب تھا، جو سنا افسانہ تھا

اب اسی قوم کی اکثریت کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ ان سے تو ''غیر'' (یعنی انگریز) ہی اچھے تھے۔ اپنی قوم کے لیڈروں کے بارے میں ان کا یہ تاثر دراصل اس امر کا غماز ہے کہ وہ مجموعی طور پر اپنی قوم کو نا اہل تصوّر کرتی ہے، حالانکہ بات یہ نہیں ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ ہماری قوم انتہائی زرخیز کھیتی ہے جس کی کوکھ سے سینکڑوں عالی دماغ اور عالی ظرف امام پیدا ہوئے ہیں۔ ہاں اب ایسا عنصر آکر ضرور چھا گیا ہے جو ذہنی طور پر ''اغوا شدہ'' ہے۔ شکنجہ سے قوم کو نکالا گیا ہے۔ انہوں نے اس طبقہ کو جو ملک میں مؤثر حیثیت رکھتا تھا اس ڈھب سے تیار کیا تھا جو ان کے چلے جانے کے بعدبھی ان کی نمائندگی کا فریضہ انجام دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طبقہ کو ہدایت دے یا اس بوجھ کو ملتِ اسلامیہ کے دوش ناتواں سے اتار پھینکے۔ بہرحال جو ٹولہ اس وقت قوم کی گردن پر سوار ہے۔ قوم کے تمام مسائل اور الجھنوں کے باعث اور بنائے فساد بھی یہی طبقہ ہے۔

علامہ اقبال تو اس سلسلے میں اس قدر حساس ہیں کہ وہ کہتے ہیں: قوم کا صالح عنصر اگر وہ جبرئیل بھی تھا تو جب اسے ''فرنگ'' کی صحبت نصیب ہوئی تو وہ ابلیس ہی ہو گیا:

علم ازو رسوا ست اندر شہر و دشت

جبرائیل از صحبتش ابلیس گشت (مثنوی پس چہ باید کرد)

وہ فرماتے ہیں جتنے مسائل پیدا ہو گئے ہیں، وہ سب اس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ؎

مشکلات حضرت انساں ازد است

آدمیت راغم پنہاں ازد است

گو وہ بظاہر بڑے معصوم اور بکری کے لیلے نظر آتے ہیں لیکن اصل میں وہ گرگ ہیں۔

گر گے اندر پرستینِ برّۂ

ہر زباں اندر کمینِ برۂ

اسے کوئی طبقاتی عصبیت تصور کرے یا ملتِ اسلامیہ کے مفاد کی بات؟ بہرحال ہم پوری قوم سے یہ بات ببانگ دُہل کہیں گے کہ آپ کے روگوں کی دوا یہ ''ذریت فرنگ'' نہیں ہے بلکہ وہ پاک نہاد روحیں ہیں جن کی آنکھوں میں روحِ حجازی کی شرم ہے۔ یہ سوشلسٹ کُوچہ گرد رسوائے زمانہ دانشور اور یہ سرمایہ دار قارون، نوعِ انسان کو جو ذہن دے رہے ہیں وہ علم و ہوش کی بات نہیں بلکہ حقیقت میں وہ ''حجابِ اکبر'' ہے جو ملتِ اسلامیہ کی مت مارنے کے لئے بالخصوص ''بندۂ مسلم'' کو وہ مہیا کر رہے ہیں، یہ سب بت پرست، بت فروش اور بت گر ہیں۔

دانشِ حاضر حجا اکبر است

بت پرست و بت فروش و بت گراست (اسرار و رموز ص ۷۷)

ملک پر قابض گروہ نے سیاست کے میدان میں اترنے سے لے کر اب تک کتنے روپ بدلے، کیا کیا سو انگ رچائے اور کس کس انداز سے اپنی عقیدت کیش قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی؟ اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو شاید اب اسے پہچانا بھی نہ جا سکے۔ غالباً سمندر پار سے جو دشمنِ اسلام قوم ہم پر بلائے بے درماں بن کر نازل ہوئی تھی اس نے بھی اپنی کرسی اقتدار کو طول دینے اور ہماری قوم کو اندھیرے میں رکھنے کے لئے اتنے پاپڑ نہیں بیلے تھے جتنے اس پارٹی اور اس کے چیئرمین نے پینترے بدلے ہیں۔

آپ کہیں گے کہ حالات سازگار نہیں ہیں ہم کہتے ہیں کہ مسلم کے لئے حالات کبھی بھی سازگار سازگار نہیں رہے۔ ہمیشہ وہ اپنی تدبیر اور عزت کے پیمانوں سے اس کا رُخ بدلا کرتا ہے۔

اگر گردوں بہ کام اور نہ گردد

بکامِ خود بہ گردا نذر میں را (ارمغان)

اقبال کہتا ہے کہ لا الٰہ کی قبا و لہن کی حنا کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک خونیں قبا ہے جو ہمیشہ سر دے کر اوڑھنے کو ملتی ہے اور یہ بزدلوں اور دوں ہمتوں سے بہت ملتی ہے۔

قبائے لا الٰہ خونیں قبائے است

کہ بر بالائے نامرداں دراز است (ارمغان)

الغرض:

مغربی علم و دانش اور تہذیب کی ان مورتیوں سے ''نجات'' کی توقع نہ رکھیے۔ یہ لوگ وہ زاہد ہیں، جن کا قصہ شیخ سعدی نے بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ: ایک بھیڑیا ایک دنبہ لے اڑا، ایک زاہد کو پتہ چل گیا، اس نے اس کا تعاقب کر کے اسے چھڑا لیا، دنبے نے کہا یہ کتنے ہمدرد انسان ہیں، لیکن جب صبح ہوئی تو اس کے گلے پر چھری رکھ دی، زبانِ حال سے وہ بولا کہ اچھی رہائی دلائی؟ ان کے پنجہ سے چھڑا کر خود ہی بھیڑیا بن گیا۔ بالکل اسی طرح انہوں نے انگریزوں کے بعد اقتدار سنبھالا تو قوم نے محسوس کیا کہ یہ کتنے بھلے لوگ ہیں، لیکن اب پتہ چلا کہ ہم غلط سمجھے، گو انگریز چلے گئے ہیں مگر ان کی یہ روحیں ابھی زندہ ہیں۔ جو ہمارا پیچھا کر رہی ہیں۔

ہم پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی سے غور کرے کہ انگریزوں کے ان خود کاشتہ پودوں نے اب تک آپ کو کیا دیا ہے؟ بے حیائی ختم کی، گرانی نیست و نابود کی، اسلام کا بول بالا کیا، شائستگی اور انسانیت پروان چڑھی، غریبوں کو وارث ملے، ناداروں کو غمخوار نصیب ہوئے سیاست نے شرافت کا چولا بدلا۔ اخلاق اور ذہن میں نمایاں اور معقول تبدیلی ہوئی، قلم اور ضمیر کی بندشیں دور ہوئیں، قرآن اور رسول کی شرم کو بار ملا؟ آخر وہ کون سی دولت ہے جو آپ کو انہوں نے مہیا کی اور وہ کون سی برائی ہے جن سے آپ کو چھٹکارا نصیب ہوا۔ اگر نہیں ہوا تو پھر ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر نتیجہ صفر رہا ہے تو خدارا! اب کانٹا بدلیے اور انگریزوں کے ان پاسبانوں کو چلتا کیجئے! اور ان سنجیدہ لوگوں کو سامنے لائیے جو حسنات کو عام اور سیئات کا قلمع قمع کر سکیں تاکہ آپ کی آخرت کے ساتھ ساتھ آپ کی دنیوی عافیتیں بھی رنگ لائیں۔ خدا کا نام لے کر اُٹھیے! اللہ ضرور آپ کی لاج رکھے گا، پارلیمانی طریقے کے ساتھ پورا نظام بدل ڈالیے!

وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ!

ہم نے یہ باتیں موجودہ قماش کی ہر قیادت سے مایوس ہو کر آپ سے عرض نہیں کی، کیونکہ ان کی وجہ سے ہمیں اپنا، اپنے ملک، اپنی ملت، اپنے قرآن اور اپنے رسول پاک ﷺ کا مستقبل انتہائی خطرہ میں محسوس ہوتا ہے، اگر ذریّت فرنگ چندے اور قابض رہی تو ہم پورے وثوق کے ساتھ آپ سے کہتے ہیں کہ:

ملتِ اسلامیہ، ایک ملتِ اسلامیہ کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکے گی، نہ اسلام جازی اسلام رہے گا۔ ذریت افرنگ، افرنگی چالوں سے قوم کو تھپکیاں دے دے کر سلانے کی کوشش کر رہی ہے! یقین کیجئے! اگر آپ سو گئے تو جب آپ آنکھ کھولیں گے تو اسلام کے قسم کی کوئی چیز بھی آپ نہیں پہچان سکیں گے۔

ملتِ اسلامیہ کی قیادت کا حق اُمت کے صرف ''اہل اور صالح افراد'' کو پہنچتا ہے، یہ غیروں کے نقالوں اور ذہنی غلاموں کی میراث نہیں ہے، اس لئے ان کے نیچے سے تخت اقتدار اور سر سے تاج کج کلاہی چھین کر ان کو چلتا کیجئے، ہاں اگر وہ دل سے اسلام قبول کر لیں تو ان کی غلامی کیجئے اور ان کے لئے دعاگو رہیے، ورنہ پوری جرأت اور ہمت کے ساتھ اعلان کر دیجئے کہ ہمیں ان سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے ؎

یہ زائرین حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے

بھلا ہمیں ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں (بانگِ درا)

جس غیر اللہ کے تعلق کی وجہ سے کتاب و سنت یا خدا اور رسول کے رشتے کمزور پڑتے ہوں، مسلم اس رشتے کو کبھی قبول نہیں کر سکتا اور نہ کرنا چاہئے! اس لئے جمہوری طریقے سے ان کی بساط الٹ کر جہاد کا وہ فریضہ انجام دے ڈالیے جو امت کے بگاڑ کے ہر مرحلے پر آپ کو انجام دینا آپ کا دینی فریضہ ہو جاتا ہے۔

اِنْ تَنْصُرُوْا اللهَ يَنْصُرْكُمْ

عدو شر بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد

پیپلز پارٹی پاکستان اور اس کے چیئرمین آندھی کی طرح اٹھے، سوشلزم کا نعرہ لگایا، عوام کو ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا لارا دیا اور دیکھتے دیکھتے ملک کی پوری فضا پر چھا گئے اور آتے ہی ''سوشلزم، سوشلزم'' بولے، اس کے دنیوی منافع گن گن کر بتائے، پھر مسلم عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے بعض نام نہاد ''مولانا'' ڈھونڈ لائے جنہوں نے قرآن کی ایک ایک سطر سے سوشلزم کو ثابت کیا، اس لئے ''سوشلزم'' کو ''بپتسمہ'' دے کر ''اسلامی سوشلزم'' کا نام رجسٹرڈ کرایا۔ اور یہی وہ مولانا تھے جن کے بارے میں مرحوم سابق صدر ایوب نے کہا تھا کہ: انہوں نے معاہدہ تاشقند کو ''صلح حدیبیہ'' قرار دیا تھا۔ بہرحال جمعہ جمعہ ابھی آٹھ دِن نہیں ہوئے تھے کہ، سُرخوں نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیئے اور کچھ ''ہاتفِ غیبی'' نے بھی طنابیں کھینچیں، تو اب ردِ عمل شروع ہوا کہ سوشلزم سے پیچھا چھڑایا جائے، پھر ان لوگوں سے ''المدد'' کہی جو بیگن کے نہیں، ان کے غلام بادام تھے۔ اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے صدا بلند ہوئی: سوشلزم غلط، اسلام اور صرف اسلام ہمیں چاہئے۔ اسلام کے ساتھ ''سوشلزم کا ٹانکا ہم نے صرف اس لئے لگایا تھا کہ سرمایہ داروں اور ملاؤں کے اقتصادی نظام سے امتیاز ہو سکے، ورنہ ہم تو شروع سے ہی اسلام چاہتے تھے۔ گو ہم جانتے ہیں کہ: یہ لوگ سوشلزم کے سلسلے میں نہ پہلے مخلص تھے اور نہ اب اسلام کے بارے میں مخلص ہیں، دراصل یہ حضرات، کرسی کا تحفظ چاہتے ہیں، وہ سوشلزم کا ٹانکا لگا کر ہو یا اسلام کا۔ بہرحال ''محرک'' کوئی ہو، سوشلزم کی یاری سے تو باز آئے۔

عدو شر بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد

ہم بہرحال اس نئے تہیّا اور اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کے لئے استقامت کی خدا سے دعا کرتے ہیں، خدا کرے ان کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ:

دیا بہت بے وفا ہے، اس کے لئے اپنی حقیقی رب سے بے وفائی، کچھ زیادہ سود مند سودا نہیں ہے، اور وہ بھی بالکل چند روزہ۔ پھر ؎

کس نمی پر سد کہ بھیا کون ہو