نفاذِ شریعت کا مطالبہ کیوں؟
محافظ کی موجودگی میں دکان سے چوری پربھی حد نہیں:
یہاں ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ اگر حنفی قانون نےدکانوں میں داخلہ کی عام اجازت کی وجہ سے ان کی چوری پر حد ختم کی ہے تو جس طرح مسجد سے مالک کی موجودگی میں چوری پر حد رکھا ہے دکانوں میں محافظ کی موجودگی میں چوری پربھی ضرور حد رکھی ہوگی۔ مگر اس سوال کا جواب دکانداروں کے لیے خوش کن نہیں، مایوس کن ہے اگرچہ چوروں کے لیے نہایت حوصلہ افزاء ہے، کیونکہ مسجد سے محافظ کی موجودگی میں چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ مگر دکانوں میں محافظ کی موجودگی میں بھی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ محافظ کی عدم موجودگی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس کے لیےباقاعدہ ایک ضابطہ وضع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے:
''والحرز علیٰ نوعین حرز لمعنی فيه کالبیوت والدور و حرز بالحافظ'' .........'' وفي المحرز بالمکان لا یعتبر الإحراز بالحافظ'' 1
''حرز کی دو قسمیں ہیں ایک وہ حرز کہ خود اس میں حفاظت کا مفہوم موجود ہے جیسا کہ مکان اور گھر اور ایک وہ حرز جو حفاظت کرنے والے کی وجہ سے محفوظ ہے...... اور جس کی حفاظت جگہ کی وجہ سے ہو رہی ہے (مثلاً مکانات اور گھر وغیرہ) اس کی حفاظت، محافظ کےساتھ معتبر نہیں ہے۔''
پھر دکانوں، ہوٹلوں اور اس قسم کے مقامات پر اس ضابطہ کو منطبق کیا ہے۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے:
''بخلاف الحمام والبیت الذي أذن للناس في دخوله حیث لا یقطع لأنه بني للإحراز فکان المکان حرزا فلا یعتبر الإحراز بالحافظ'' 2
یعنی ''حمام سے اور ان تمام مکانوں، سے جہاں لوگوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے (یعنی دکانیں اور میزبان کا گھر وغیرہ) چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاوے گا کیونکہ یہ عمارتیں بنائی ہی حفاظت کے لیے گئی ہیں۔ اس لیے یہ جگہ خود حفاظت والی ہے چنانچہ یہاں حفاظت کرنے والے شخص کی حفاظت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔''
یعنی دکانوں پر مالک اور پہرے دار بھی کھڑے ہو، چور غیر محفوظ جگہ سے ہی چوری کررہا ہے۔
یہ سارا ضابطہ ہی ایجاد بندہ ہے اور قرآن و سنت کی تائید سے یکسر محروم ۔ مقصود دکانوں اور اس قسم کی جگہوں سے چوری کی حد کو سرے سے باطل کرتا ہے۔
مہمان بن کرچوری کرنے والے کی حد ختم کرنا:
''ولا قطع علی الضیف إذا سرق ممن أضافه'' 3
''مہمان جب اس شخص کی چوری کرے، جس کا وہ مہمان ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''
چور کو اس کے محسن میزبان کی نمک حرامی کا صلہ، سزا ختم کرنے کی صورت میں دینا، عجیب فقاہت ہے۔
عذر :
صاحب ہدایہ نے اس کے لیے دو عذر پیش کیے ہیں:
(1) چونکہ مہمان کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت ہے، اس لیے وہ گھر اس کے حق میں حرز نہیں۔
(2) وہ بمنزلہ گھر والوں کے لیے اس لیے اس کا فعل خیانت ہے، چوری نہیں اور خیانت پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔
قطع عذر :
(1) چور کو اگر کسی گھر میں داخلے کی اجازت ہو تو اسےچوری کی اجازت کیسے ہوگئی؟ اور صرف داخلے کی اجازت سے اس کی حد ختم کرنا قرآن و سنت کی کون سی نص سے نکلتا ہے؟ حدیث سے تو عام داخلے والی جگہ سے چوری پر بھی ہاتھ کاٹنے کا ثبوت ملتا ہے دیکھیے صفة النساء سے چوری کرنے والے کا واقعہ جو شروع میں گزر چکا ہے۔
(2) گھر والے گھر کی چیزوں کے مالک ہوتے ہیں، کیا مہمان بھی مالک ہوتاہے؟ اسے بمنزلہ گھر والوں کے قرار دینا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟ اور خیانت اس چیز میں ہوتی ہے جو کسی نے دوسرے شخص کے پاس امانت رکھی ہو۔ فرمائیے کیا یہاں صاحب خانہ نے سارا گھر مہمان کے پاس امانت رکھ دیا ہے؟ اس نے تو اسے صرف چند چیزیں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اور اگر ضرور ہی امانت قرار دینا ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ چیزیں اس کے پاس امانت قرار دی جاسکتی ہیں جنہیں وہ استعمال کرتا ہے۔مثلاً بستر، برتن وغیرہ۔میزبان کی ہر چیز، خواہ وہ تالوں کے اندر الماریوں میں رکھی ہو، مہمان کے پاس امانت کس طرح بن گئی؟ یہ نری سینہ زوری ہے اور مہمان نوازی کرنے والے پر دوہرا ظلم، نیز چوروں کے لیے حد سے بچنے کا استادی طریقہ۔
کُھلے درواسے والے گھر سے چوری پر حد ختم کرنا:
''ولو کان باب الدار مفتوحا فدخل نھارا سرا و سرق لا یقطع...... ولو دخل اللص مابین العشآء و العتمة والناس یذھبون و یجیئون فھو بمنزلة النھار'' 4
''اگر گھر کا دروازہ کھلا ہو، پس دن کے وقت داخل ہوکر چوری کرے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا''........ ''اور اگر چور عشاء اور عتمہ (زیادہ اندھیرے) کے درمیان داخل ہو، اس حال میں کہ لوگ آجارہے ہوں، تو وہ بمنزلہ دن کے ہے۔''
یہاں داخلےکی اجازت بھی نہیں مگر صبح سے رات دس گیارہ بجےتک (کہ لوگ اس وقت تک عموماً آتےجاتےرہتے ہیں)چوری پر حد ختم کردی گئی ہے۔بہانہ یہ کہ دروازہ ہی نکال کرلےجائے، اس کی حد بھی ختم۔ اور اگر دروازہ کھلا رہ جائے یا چور کسی اپنے ہی ساتھی سے پہلے دروازہ کھلوائے، پھرکھلےدروازے سے داخل ہوکر چوری کرے تو بھی حد باطل! فرمائیے یہ قانون اہلخانہ کا محافظ ہے یا چوروں کا پاسبان؟
ان قانون سازوں سے کوئی پوچھے کہ آنحضرتﷺ نے عورتوں کے صفہ سے ڈھال چوری کرنے والے کا ہاتھ جوکاٹا تھا، کیا اس نےدروازہ کھول کر چوری کی تھی؟
چوری کے کچھ اور طریقے جن پر حد ختم کی گئی ہے
نقب میں سے اندر والے چور کا باہر والے کو مال پکڑانا:
''وإذا نقب اللص البیت فدخل وأخذ المال و ناوله آخر خارج البیت فلا قطع علیھما'' 5
''جب چور مکان کو نقب لگا کر اندر داخل ہو اور مال پکڑ کر دوسرے شخص کو پکڑائے، جو گھر سے باہر ہے، تو دونوں کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''
واقعی''نیکی اور تقویٰ کے کام میں تعاون کی یہی جزا ہونی چاہیے۔
مکان میں نقب گا کر ہاتھ سے کوئی چیز پکڑ لینا:
''ومن نقب البیت وأدخل یدہ فيه وأخذ شیئا لم یقطع'' 6
''جو شخص مکان میں نقب لگائے اور اپنا ہاتھ اس میں داخل کرکے کوئی چیز پکڑے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''
اوپروالی بات کی طرح یہ بات بھی صرف چوروں کو حد سے بچانے کے لیے بنائی گئی ہے۔ کتاب و سنت میں دونوں کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
قطار میں سے اونٹ یااس کا بوجھ چوری کرلینا:
''وإن سرق من القطار بعیرا أو حملا لم یقطع'' 7
''اگر اونٹوں کی قطار میں سے اونٹ چرا لے یا بوجھ (گانٹھ) چرا لے ، تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''
عذر:
وجہ اس کی صاحب ہدایہ نے یہ بیان کی ہے کہ اونٹ اور بوروں کی حفاظت مقصد نہیں ہوا کرتی۔ کیونکہ اونٹوں کے آگے چلنے والوں، پیچھے سے ہانکنے والوں اور سواروں کا اصل مقصد سامان ڈھونا اور مسافت طے کرنا ہوتا ہے نہ کہ حفاظت کرنا۔ تو اس سے شبہ پختہ ہوتا ہے کہ اونٹ اور بورے محرز (محفوظ)نہیں ہیں۔
قطع عذر :
اونٹوں کی حفاظت مقصود نہ ہونا بھی ایک لطیفہ ہے۔ اونٹوں والوں کو اپنے اونٹ زیادہ عزیز ہیں یا سامان ڈھونا اور مسافت طے کرنا؟ معلوم نہیں حفاظت کا معیار کیا ہے اور سفر میں حفاظت اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ آگے چلنے والا بھی ہے، پیچھے والا بھی ہے، بعض اونٹوں پر سوار بھی ہیں اوراونٹ قطار میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے بھی ہیں۔اونٹوں اور ان پر لدے ہوئے بوروں کی چوری کی یہ سکیم واقعی چوروں کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔ اس پر اگر مزید قیاس کی عمارت استوار کی جائے تو ٹرکوں اور جیپوں کے پیچھےلگی ہوئی ٹرالیاں اور ریل کی بوگیاں بھی اسی ضمن میں آجاتی ہیں۔
چور کا سونا وغیرہ نگل کر مکان سے باہر نکل آنا:
''ولابدأن یخرجه ظاہرا حتیٰ لو ابتلع دیناراً في الحرز خرج لا یقطع ولا ینتظر أن یتغوطه بل یضمن مثله۔ کذا في البحر الرائق'' 8
''(ہاتھ کاٹنےکے لیے ) یہ بھی ضروری ہے کہ اسے ظاہرطور پر باہر لائے۔ یہاں تک کہ اگر حرز (جائے حفاظت) میں ایک دینار نگل لے اور باہر نکل آئے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔اور اس بات کا انتظار نہیں کیا جائے گا کہ وہ اس کے پاخانہ میں سے نکلے، بلکہ وہ اس کے مثل کا ضامن ہوگا۔''
یہاں چوری کا مال ظاہر طور پرنہ نکالنے کی مثال کے لئے نگلے کا ذکر کیاہے۔ اس کے علاوہ چھپا کرنکالنےکی تمام صورتیں بھی اس میں شامل ہیں۔مثلاً چوری کا عورتوں کے زیور اور ہیرے جواہرات جسم کے مخفی حصوں میں چھپا کر حرز سے باہر آنا اور اگر اس سلسلے کو وسیع کیا جائے تو جس طرح بعض چور، آپریشن کے ذریعے جانوروں کے جسم میں زیر جلد چیزیں چھپا کرجانور کو باہر روانہ کردیتے ہیں، سب کی حد ختم ہوجائے گی۔ بہرحال نگلنےکو تو حد کی معافی کے لیے صریح سند حاصل ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ چور نہیں تو مثل کا ضامن کیوں؟ اور اگر چور ہے تو نگل لینے سے اسے بندوں کا حق تو معاف نہ کرنا اور اسے مثل کا ضامن بنانا، مگر اللہ کا حق ختم کردینا۔ حدود اللہ کوباطل کرنےکا حیلہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر یہ عذر ہو کہ یہاں کسی قسم کا شبہ موجود ہے، تو جب چوری کی شہادت مل گئی، نگلنا بھی ثابت ہوگیا، اب کیاشبہ رہ گیا؟ چلئے اگر پھر بھی شبہ ہے تو وہ چیز باہر نکلنے کا انتظار ہوسکتا ہےتاکہ شبہ بالکل ختم ہوجائے۔مگر ہمارے قانون ساز اس چور کے تحفظ پر اتنے کمر بستہ ہیں کہ وہ اس چیز کے باہر نکلنے کے انتظار کی اجازت دینے پربھی تیار نہیں۔مبادا ان کا خیالی شبہات سے بنایا ہوا محل مسمار ہوجائے اور وہ حد ماننے پرمجبور ہوجائیں۔ إنا للہ وإنا إليه راجعون۔
بکری ذبح کرکے چوری کرنےکا حیلہ :
''وإن سرق شاة فذبحھاثم أخرجھا لم یقطع لأن السرقة تمت علی اللحم ولا قطع فيه'' 9
''اور اگر وہ کوئی بکری چوری کرے پس اسے ذبح کرے، پھر باہر نکالے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کیونکہ چوری گوشت پر پوری ہوئی ہے اور اس میں ہاتھ کاٹنا نہیں ہے۔''
بےچارے مالک کی تو بکری چوری نہ کہ گوشت۔اب چور پکڑا بھی جائے تو اس کی بکری اس کو کبھی واپس نہیں مل سکتی۔چنانچہ بجائے سزا کے الٹا چور کو انعام کے طور پر گوشت کےعلاوہ حد کی معافی بھی دے دی گئی۔اس ضابطے کی بنیاد جس قاعدے پر ہے کہ گوشت کی چوری پر تو نہیں وہ بجائے خود باطل ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے۔
بچے، دیوانے، معتوہ (کم عقل مدہوش)یا صاحب مال کے قرابتدار کو ساتھ لے جانے پر چور کی حد باطل کرنا:
''ولا کان فیھم صغیرأ و مجنون أو معتوہ أو ذورحم محرم منه لم یقطع أحد ۔۔۔ کذا في النھر الفائق'' 10
''اگر چوروں میں کوئی چھوٹا یا دیوانہ یا معتوہ (ناقص العقل) یا کوئی ایسا شخص ہو، جو اس شخص کا محرم رشتہ دار ہے، جس کی چوری کی گئی ہے تو کسی کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا جائے گا۔''
یہ درست ہے کہ نابالغ اور دیوانے پرحد نہیں۔ مگر یہ بات کہ ان کو ساتھ لے جانے والے عاقل و بالغ چوروں کی حد بھی ختم ہے، ہرگز اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم نہیں۔بہرحال اس ضابطے میں چوروں کو دو فائدے حاصل ہوئے۔
1۔ اپنے بچوں کو بچپن میں ہی چوری کی تربیت دینا اور چوری میں طاق بنانا۔
2۔ اس ''فعل خیر'' کی جزاء کے طور پر خود بھی حد سے محفوظ رہنا۔
بچوں اور دیوانوں کو ساتھ لے جانے کی صورت میں عاقل و بالغ چوروں کی حد معاف کرنے کی بجائے، انہیں قطع ید کے علاوہ کوئی اور تعزیر بھی ہونی چاہیے کہ وہ بچوں اور دیوانوں کو اپنے ساتھ کیوں لے گئے؟ اگر صاحب خانہ اپنے مال کی حفاظت میں کوئی اقدام کرتا جس سے ان کو نقصان پہنچ جاتا تو اس کے ذمہ دار بھی یہی عاقل و بالغ تھے۔
رہا مال والے کے محرم رشتہ دار ساتھ ہونے کی وجہ سے چوروں کی حد ختم کرنا، تو اس کی بنیاد اس پر ہے کہ قانون حنفی میں کوئی شخص اپنے محرم رشتہ دار کی چوری کرلے تو اس پر حد نہیں۔ یہ قانون بجائے خود نا درست ہے۔ ایسے ظالم کو تو قطع ید کے علاوہ قطع رحمی کی الگ سزا بھی ملنی چاہیے۔ ائمہ ثلاثہ بالاتفاق اس ضابطے کے خلاف ہیں۔ چنانچہ الافصاح صفحہ 256 ج2 میں ہے:
''واختلفوا ھل یقطع الأقارب سوی الآبآء کالأخوة والعمومة والخؤولة إذا سرق بعضھم مال بعض؟ فقال أبوحنیفة لا یقطع إذا سرق من ذي رحم محرم کالأخ والعم وقال مالك والشافعي و أحمد: یقطع''
''اور اختلاف ہے کہ آباء کے علاوہ دوسرے رشتہ دار مثلاً بھائی، چچا، ماموں، جب ان میں سے کوئی کسی دوسرے کے مال کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا یا نہیں؟ تو ابوحنیفہ نے کہا: ''جب اپنے محرم رشتہ دار مثلاً بھائی یا چچا کی چوری کرے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا'' اور مالک، شافعی اور احمد نے فرمایا: ''کاٹا جائے گا۔''
اگر ایک منٹ کے لیے اس ضابطے کو درست بھی مان لیا جائے کہ محرم رشتہ دار پر قطع ید نہیں تو اجنبی چوروں کو کون سی آیت یا حدیث کی رُو سے حد سے بچایا جارہا ہے؟
﴿أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِى صُحُفِ مُوسَىٰ ﴿٣٦﴾ وَإِبْرَٰهِيمَ ٱلَّذِى وَفَّىٰٓ ﴿٣٧﴾ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿٣٨﴾ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَنَّ سَعْيَهُۥ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾ ثُمَّ يُجْزَىٰهُ ٱلْجَزَآءَ ٱلْأَوْفَىٰ ﴿٤١﴾...سورۃ النجم
یہ تو ایک بالکل ہی نئی شریعت ہے جس کے ذریعے پہلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا ہے۔
حاکم کے پاس پہنچنے سے پہلے پہلے چور کا ، مالک یا اس کے رشتہ دار کو مال واپس کردینا:
''ومن سرق سرقة وردھا علی المالك قبل الارتفاع إلی الحاکم لم یقطع........ ولو ردہ علیٰ ولدہ أو ذي رحمه إن لم یکن في عیال المسروق منه یقطع وإن کان في عیاله لا یقطع وکذا لو رد علی امرأ ته أو عبدہ أوجدہ مشاھرة أو مسانھة ولو دفع إلیٰ والدہ أوجدہ أو والدته أو جدته ولیسوا في عیاله لا یقطع...... ولو سرق من العیال ورد إلیٰ من یعولھم لا یقطع کذا في الکافي'' 11
''اور جو شخص کوئی چیز چوری کرے اور حاکم کے پاس پیش ہونے سے پہلے مالک کو واپس کردے، اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا''........''اور اگر وہ اس کی اولاد یا رشتہ داروں کو واپس کرے تو اگر وہ اس شخص کے عیال میں نہ ہوں جس کی چوری کی گئی ہے توہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اور اگر اس کے عیال میں ہوں تو نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح اگر اس کی بیوی یا اس کے غلام یا اس کے مزدور کوماہنامہ یا سالانہ کی صورت میں دے دے اور اگر اس کے والد یا جد (دادا، نانا) یا والدہ یا جدة (دادی، نانی) کو دے دے اور وہ اس کے عیال سے چوری کرے اور ان کو واپس کردے جن کے وہ عیال ہیں تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''
یہ تمام صورتیں بھی چور کی حد کو باطل کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ چور کو جب معلوم ہو کہ مال کا مالک عدالت میں مقدمہ پیش کرنے سے باز نہیں آتا، تو وہ مالک کے وہاں پہنچنے سے پہلے پہلے اس کو یا اس کے مندرجہ بالا تعلق داروں میں سے کسی کو چوری شدہ مال پہنچا دے، اب مالک اسے عدالت میں بھی پیش کردے، قاضی قانون حنفی کے سامنے حد نافذ کرنےسے بےبس ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ صرف مال کے لین دین کا تھا۔ چوری نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے پہلے مال واپس کیوں نہیں کرسکا؟
اسی پر بس نہیں، اگر چور خود وہ مال نہ پہنچا سکے تو اس کا کوئی ہمدرد اس سے مندرجہ ذیل تعاون کرسکتا ہے:
چور سے چوری کا مال چھین کرضامن بن جانا:
''ولو غصبه منه رجل و ضمن الغاصب سقط القطع کذا في العتابیة'' 12
''اور اگر چوری کی چیز اس سے کوئی شخص چھین لے اور چھیننے والا ضامن بن جائے تو ہاتھ کاٹنا ساقط ہوجائے گا۔''
حد باطل کرنے کے ان ضابطوں کے علاوہ بہت سے ضابطے عالمگیری اور ہدایہ میں موجود ہیں، اختصار کے پیش نظر انہیں فی الحال ترک کیا جاتا ہے۔اب وہ ضابطے درج کئے جاتے ہین جن کے ذریعے قانون حنفی نے عدالت میں مقدمہ پیش ہونے یا گواہوں کی شہادت دیئے جانے یا قاضی کی طرف سے چور کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کردیئے جانے کے بعد چوری کی حد معطل کی ہے۔
قاضی کے پاس مقدمہ چلے جانے کے بعد حد معطل کرنےکے طریقے:
اب جو ضابطے بیان کئے جائیں گے ان سے پہلے یہ بات ذہن میں تازہ کرلینی چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں چوری کا مقدمہ حاکم کے پاس پیش ہوجانے کے بعد چوری کو نہ حاکم خود معاف کرسکتا ہے ، نہ کسی کی سفارش پر حد ختم کرسکتا ہے، نہ اس شخص کے معاف کرنے پر حد ختم ہوسکتی ہے جس کی چوری ہوئی ہے، نہ ہی مالک کی طرف سے چور کو وہ چیز ہبہ کئے جانے یا بیچ دیئے جانے پرحد قاوم ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے چوری کرنے والی عورت فاطمہ مخزومیہ کا ہاتھ اسامہ بن زید (جن کا لقب ''رسول اللہ ﷺ کا محبوب '' تھا) کی سفارش کے باوجود کاٹ دیا تھا اور فرمایا تھا:
''إنما أھلك الذین قبلکم إنما کانوا إذا سرق فیھم الشریف ترکوہ وإذا سرق فیھم الضعیف أقاموا عليه الحد وأیم اللہ لو أن فاطمة بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرقت لقطعت یدھا'' 13
''تم سے پہلے لوگوں کو صرف اسی چیز نے ہلاک کیا کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا ، اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں کوئی کمزور آدمی چوری کرتا، اس پر حد قائم کردیتے تھے اور اللہ کی قسم! اگر محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ ؓ چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ (بھی) کاٹ دیتا۔''
اور جیسا کہ صفوان بن امیہ نے ایک چور کو آنحضرتﷺ کے سامنے پیش کیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیئے جانے کا فیصلہ سن کر کہا : ''یارسول اللہ ﷺ میں یہ چادر اسے ہبہ کرتا ہوں، بیچتا ہوں، قیمت بھی اس پرادھار رہے گی، بعد میں دے دے۔ آپؐ اس کا ہاتھ نہ کاٹیں۔'' غرض انہوں نے چادر اسے بیچنے، اس کو ہبہ کرنے اور اس کی حد ختم کروانے کا ہر طریقہ پیش کیا، مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ''تم نے اسے میرے پاس پیش کرنے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا؟'' چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ (تفصیل شروع میں گزر چکی ہے)
مگر قانون حنفی میں مقدمہ پیش ہونے کے بعد، بلکہ قطع ید کا فیصلہ ہونے کے بعد بھی ، حد ختم ہونے کی کئی سکہ بند صورتیں موجود ہیں:
ہاتھ کاٹنے کے وقت مال کے مالک کا غائب ہونا:
''ولا یقطع السارق إلا أن یحضر المسروق منه فیطالب بالسرقة..... ''ولا فرق بین الشھادة والإقرار عندنا..... وکذا إذا غاب عند القطع عندنا''14
''چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر اس صورت میں کہ وہ شخص حاضر ہو، جس کی چوری کی گئی ہے، اور چوری کی ہوئی چیز کا مطالبہ کرے۔''........... اور ہمارے نزدیک شہادة اور اقرار میں کوئی فرق نہیں'' ............... اور اسی طرح جب وہ شخص ، جس ک یچوری کی گئی ہے، ہاتھ کاٹنے کے وقت غائب ہو تو ہمارے نزدیک (پھر بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا)''
مطلب یہ ہے کہ اگر مال کا مالک مقدمہ پیش کرنے اور حد کا مطالبہ کرنے سے باز نہیں آتا تو کسی طرح اسے غائب کرنےکی فکر کیجئے۔ہاتھ کٹنے کا فیصلہ ہوچکنے کے بعد، عین ہاتھ کاٹنے کے وقت اگر وہ حاضر نہ ہوسکا تو چور کا ہاتھ سلامت رہے گا اور اگر مسروق منہ اپنی موت مرگیا یاقتل ہوگیا یا اغوا ہوگیا تو اللہ کی حد، جو شہادتوں سے ثابت ہوچکی ہے اورقاضی بھی جس کا فیصلہ کرچکا ہے، قانون حنفی کی رُو سے ختم ہوجائے گی۔
یاد رہے کہ ہاتھ کاٹنے کے وقت مسروق منہ کی موجودگی کی شرط کتاب و سنت کی کسی دلیل سے بھی ثابت نہیں کی جاسکتی۔
دو مالکوں میں سے ایک بھی اگر غائب ہو توہاتھ نہیں کاٹا جائے گا:
''ولو سرق من رجلین لم یقطع بغیبة أحدھما'' 15
''اور اگر اس نے دو آدمیوں کی چوری کی ہو، تو ان میں سے ایک کے غائب ہونے کی صورت میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''
قطع ید کا فیصلہ ہونے کے بعد چور کو چوری کا مال بیع یا ہبہ کردیئے جانے کی صورت میں حد معطّل کرنا:
''وإذا قضی علیٰ رجل بالقطع في سرقه فوھبت له لم یقطع معناہ إذا سلمت إليه وکذا إذا باعها المالك إیاہ'' 16
''اور جب کسی آدمی کا ہاتھ چوری میںکاٹ دیئے جانے کا فیصلہ کردیا جائے، پس وہ چیس اس کو ہبہ کردی جائے۔مطلب یہ کہ اس کے سپرد کردی جائے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور اسی طرح اگر مالک اس کو وہ چیز فروخت کردے (تو بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا)''
جب ہاتھ کاٹنے کا مرحلہ درپیش ہوتو چور اپنا ہاتھ بچانے کے لیے کون سی قیمت ہے، جو ادا نہیں کرے گا؟ ظاہر ہے، چور کو حد کے اجراء سے بچانے کا یہ ایک کامیاب طریقہ ہے۔ حالانکہ اب یہ بندوں کا حق ہے ہی نہیں۔ اب تو ''جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَـٰلًا مِّنَ ٱللَّهِ'' کی منزل ہے۔ اسی لیے بالکل اسی صورت میں رسول اللہ ﷺ نے صفوان بن امیہ کے چور کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔ صریح صحیح حدیث کو ردّ کرکے، اللہ کی حد کو باطل کرنے کی جرأت صرف اسی قانون نے کی ہے اور اس حدیث کو صحیح مان کر کی ہے۔ کیونکہ اس قانون مین ''حرز بالحافظ'' کی بنیاد اسی حدیث پررکھی گئی ہے۔ باقی ائمہ یہ جرأت نہیں کرسکے۔
ائمہ ثلاثہ کا مؤقف:
''واختلفوا فیما إذا سرق نصابا ثم ھلکه بشراء أو ھبة أوإرث أو غیرہ ھل یسقط القطع؟ فقال مالك والشافعي وأحمد: لایسقط القطع عنه سوآء ملکه بذٰلك قبل الترافع أو بعدہ وقال أبوحنیفة:متیٰ و ھبت له أو بیعت منه سقط القطع عنه۔'' 17
''جب نصاب (کےبرابر چیز) چوری کرے پھر خرید کر یا ہبہ سے یا ورثے سے یا کسی اور طریقے سے اس کا مالک بن جائے تو کیاقطع ید ساقط ہوجائے گا؟ اس میں اختلاف ہے۔چنانچہ مالک، شافعی اور احمد نے کہا: ''اس سے ہاتھ کاٹنا ختم نہیں ہوگا خواہ وہ ان صورتوں کےساتھ اس کا مالک مقدمہ پیش ہونے سے پہلے بنا ہو یا بعد میں ۔'' اور ابوحنیفہ نے کہا:'' جب اسے وہ چیز ہبہ کردی جائے یا اس کے پاس بیچ دی جائے، اس سے قطع ید ساقط ہوجائے گا۔''
ہاں اگر کوئی مالک ایسا زبردست ہےکہ نہ چور کو چوری کا مال ہبہ کرتا ہے نہ بیچتا ہے ، تو بھی فکرکی کوئی بات نہیں اس چور کے درد کا درماں بھی موجود ہے:
چور کے بھاگ جانے سے حد ساقط ہونا:
''وإذا حکم عليه بالقطع بشھود في السرقة ثم انفلت أو لم یکن حکم عليه حتی انفلت فأخذ بعد زمان لم یقطع وإن اتبعه الشرط فأخذوہ من ساعته قطعت یدہ۔ کذا في المبسوط'' 18
'' اور جب گواہوں (کی گواہی)کے ساتھ چوری میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کردیا جائے، پھر وہ چھوٹ کر بھاگ جائے ، یا ابھی اس پر فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ وہ چھوٹ کربھاگ گیا، پھر کچھ وقت کے بعد پکڑا گیا تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور اگر پولیس نے اس کا پیچھا کیا اور اس کو اسی وقت پکڑ لیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔''
گویا تھوڑی سی جرأت رندانہ کی ضرورت ہے اور وہ بھی صرف ایک مرتبہ! یا پولیس والوں کو اپنا بنانے کی ضرورت ہے، پھر خواہ حوالات سے بھاگ جائے یا ہاتھ کاٹنے کے وقت! بس ایک مرتبہ پولیس والے اسے نہ پکڑی یا نہ پکڑ سکیں، پھر کچھ مدت کے بعد پکڑا بھی جائے تو اس پراللہ کی حد نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ بھاگنے کی تعزیر نافذ کرنے کی بجائے سرے سے اللہ کی حد ہی قانوناً ختم کردی گئی ہے اور قانون سازوں نے یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی ہے کہ چھوٹ کر بھاگنے والا اپنے اقرار کی بنا پر مجرم نہیں بنا تھا بلکہ باقاعدہ گواہوں کی شہادتوں سے اس پر جرم ثابت ہونے کے بعد اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ محفوظ رہے گا ایسی دیدہ دلیری سے کتاب اللہ کوٹھکرانے کی نظیر کم ہی ملے گی۔ انا للہ!
مزید سنئے، اب اگر چور اتنی جرأت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا کہ بھاگ جائے۔ پولیس والے بھی رحم نہیں کرتے، چور انہیں خوش بھی نہیں کرسکا کہ وہ فرار کا موقع فراہم کردیں اور مال کا مالک بھی نہ ہبہ کرنے پر آمادہ ہے، نہ بیچنے پر، تو چور کو ناامید پھربھی نہیں ہونا چاہیے۔ تھوڑی سی زبان ہلانے کی ضرورت ہے۔ شاہدوں کی شہادت ، مال کے مالک کا مطالبہ، پولیس والوں کی ناکہ بندی ، سب کچھ خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گا اور قانون حنفی کی برکت سے چور کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
چور کے بلا دلیل دعویٰ سے حد ختم ہونا:
''وإذا ادعی السارق أن العین المسروقة ملکه سقط القطع عنه وإن لم یقم بینة معناہ بعد ما شھد الشاھدان بالسرقة'' 19
''اور جب چور یہ دعویٰ کردے کہ چوری کی ہوئی چیز اس کی ملکیت ہے تو اس سے قطع ید ساقط ہوجائے گی۔ اگرچہ وہ کوئی دلیل قائم نہ کرے۔ معنیٰ یہ ہے کہ وہ چور یہ دعویٰ دو گواہوں کے چوری کی شہادت دینے کے بعد کرے۔''
اگر کوئی چور گواہوں کی شہادت کے بعد چوری کی گئی چیز کا مالک ہونے کا دعویٰ کر دے اور اس چیز کا مالک ہونے کا ثبوت بھی پیش کردے ، پھر تو واقعی اس پر حد ختم ہوجائے گی، تاہم یہ اس کی خوش طبعی سمجھی جائے گی کہ اتنی داروگیر اور عدالت میں پیش ہونے اور چوری کی شہادتیں دیئے جانے تک خاموش رہا، حالانکہ وہ چیز اسی کی تھی اور ا س کے پاس مالک ہونے کا ثبوت بھی تھا، عین ہاتھ کٹنے کے وقت اس نے ثبوت پیش کردیا ۔اتنا حوصلہ اوراتنی دیر خاموشی واقعی کوئی زبردست ظریف ہی کرسکتا ہے۔
لیکن اگر بلا دلیل صرف دعویٰ کردینے سے ہی حد ختم کردی جائے تو پھر تو کسی چور پر بھی حد نافذ نہیں کی جاسکتی۔ صاحب ہدایہ نے خود ہی امام شافعی سے نقل کیا ہے:
''وقال الشافعي لا یسقط بمجرد الدعویٰ لأنه لا یعجز عنه سارق فیؤدي إلیٰ سد باب الحد'' 20
''اور شافعی نے کہا کہ خالی دعویٰ سے حد ساقط نہیں ہوگی کیونکہ اس سے کوئی چور بھی عاجز نہیں ہوتا۔ تو اس کانتیجہ حد کا دروازہ بند کردینا ہوگا۔''
صاحب ہدایہ نے اس کے جواب میں کہا ہے:
''ولنا أن الشبھة داریة و یتحقق بمجرد الدعویٰ للاحتمال ولا معتبر بما قال بدلیل صحة الرجوع بعد الإقرار''
''ہماری دلیل یہ ہے کہ شبہہ حد کو ہٹا دیتا ہے اور شبہہ خالی دعویٰ سے بھی ثابت ہوجاتا ہے، احتمال کی وجہ سے اور جو شافعی نے کہا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں، دلیل اس کی یہ ہے کہ چور اقرار کے بعد رجوع کرے تو وہ درست ہے۔''
صاحب ہدایہ نے اس خدشہ کا کوئی جواب نہیں دیا کہ اس سے چور کی حد کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔بلکہ اسے تسلیم کرکے اپنی بات کی دلیل یہ دی ہے کہ اقرار کے ساتھ جو حد واجب ہوتی ہے وہ اقرار کرنے والے کے رجوع سے ساقط ہوجاتی ہے اور رجوع کرنے سے کوئی چور بھی عاجز نہیں،تو گواہوں کی گواہی سے واجب شدہ حد بھی چور کے بے دلیل دعویٰ سے ختم ہوجائے تو درست ہے۔
گویا اگر حد ختم ہوتی ہے اور سرے سے اس کا دروازہ ہی بند ہوتا ہے تو ہوا کرے، قانون کو اس کی کیا پرواہ ہے؟ وہ تو بنا ہی اس لیے ہے کہ یہ دروازہ بند کرے۔
جرم کے اقرار کرنے والے اور گواہوں کی شہادت سے مجرم ثابت ہونے والے ، دونوں کے جرم کے ثبوت کے فرق پر غور کیجئے۔اقرار کرنے والے کے جرم کی دلیل اس کے اقرار کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ دلیل بھی اس کے رجوع سے ختم ہوچکی ہے جبکہ دوسرے شخص پر جرم عادل گواہوں کی شہادت سے ثابت ہوا ہے، اس ثبوت میں ملزم کا کوئی دخل نہیں۔اب اگر اسے اس چیز کا مالک ہونے کا بے دلیل دعویٰ کردینے سے ہی قطع ید سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اس کے جرم کا ثبوت یہ تھا کہ اس نے مالک ہونے کا بے دلیل دعویٰ نہیں کیا تھا۔اب جو اس نے یہ دعویٰ کردیا، اس کے خلاف جرم کا ثبوت خود بخود ختم ہوگیا۔ قانون سازوں کی زبردستی کی انتہاء دیکھئے کہ اقرار کرنے والے کے اپنے اقرار سے رجوع کو اور دوسروں کی شہادتوں سے ثابت شدہ مجرم کے مالک ہونے کے بے دلیل دعویٰ کو ایک بنا دیا ہے۔
کیابے بنیاد شبہوں سے حد ختم ہوسکتی ہے؟
رہا یہ کہنا کہ ''چور نے اگرچہ دلیل نہیں دی مگر مالک ہونے کا دعویٰ تو کردیا ہے، لہٰذا اب احتمال تو ہے کہ واقعی وہ چیز اسی کی ہو۔اس سے شبہ پیدا ہوگیا اور شبہ سے حد ختم ہوگئی'' تو اس کے متعلق جرم کے ثبوت کی پختگی کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ گواہی دینے والے اس کے خلاف، کسی کی ملکیت سے نصاب کے برابر یا زائد چیز چوری کرنے کی شہادت دے چکے ہیں۔ان کی شہادت سے چوری کی گئی چیز کا مالک بھی متعین ہوچکا، چوری بھی ثابت ہوگئی، چور بھی نامزد ہوگیا۔ اب اگر چور کے بلا دلیل دعویٰ سے پیدا شدہ احتمال کو حد ختم کرنے والا شبہ قرار دیا جائے تو پھر صرف چوری کی حد ہی نہیں، تمام حدود کا دروازہ بند کرنا ہوگا۔ مثلاً قاتل کے خلاف قتل عمد کی شہادتیں بھگت گئیں، اس نے دعویٰ کردیاکہ مجھ سے قتل خطاہوا ہے مگر اپنے دعویٰ کی دلیل پیش نہ کی۔تو بیشک قتل عمد کی شہادتیں موجود ہیں مگراحتمال تو ہے کہ قاتل سچا ہو۔ اب قصاص کا دروازہ بھی بند کہ کوئی قاتل بےدلیل دعویٰ کرنے سے عاجز نہیں۔ بلکہ گواہوں کے مقابلے میں اگر وہ یہ دعویٰ کردے کہ میں نے قتل کیا ہی نہیں، چوری کی ہی نہیں، زنا کیا ہی نہیں تو احتمال تو اس کی بات کے درست ہونے کا پھر بھی ہے اور بعض اوقات فی الحال ایسا ہوتا بھی ہے۔ لیکن اگر عدالتوں میں ایسے احتمالات اور شبہات کی بنا پر حدود ختم کی جائیں تو پھر قاتلوں سے قصاص، چوروں کے قطع ید، زانیوں کی حد اور شرابیوں کی حد کا معاملہ ممکن ہی نہیں رہے گا اور کوئی عدالت بھی جو اس قسم کے شبہات کو قابل قبول سمجھے، عدالت کہلانے کی حقدار ہی نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے ارشاد فرمودہ طریقوں سے کوئی جرم ثابت ہوجائے تو پھر اس قسم کے بے بنیاد شبہوں سے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
قانون دانی پرعلماء کی اجارہ داری:
ایک عظیم دانشور نے مذکورہ ضابطہ سے حد کا درواسہ بند ہونے کے خطرہ کا جواب یہ دیا ہے کہ:
''اس سے حد کا دروازہ بند ہونےکا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اکثر چوروں کو یہ ضابطہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اسے استعمال کرکے حد سے بچ سکتے ہوں اور جنہیں معلوم ہوتا ہے ، وہ علماء کرام کی جماعت ہے جو عموماً چوری نہیں کرتے۔''
سبحان اللہ ، کیا فقاہت ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ضابطے تمام مسلمانوں کونہیں بتانےچاہیں ، مبادا چوروں کو ان کا پتہ چل جائے۔ صرف علماء تک محدود رہنے چاہئیں تاکہ حد سے بچنے پر ان کی اجارہ داری قائم رہے۔ جب کہ قرآن و حدیث ہر مسلمان کو پہنچانا ضروری ہے، اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہ بھائی مطالبہ حنفی قانون نافذ کرنےکا کرتے ہیں مگراپنی مساجد اور احتماعات میں درس ہمیشہ قرآن و حدیث کا دیتے ہیں، مطلب اس کا جو چاہیں بیان کریں، کبھی ہدایہ، مبسوط، جامع، جامع صغیر یا عالمگیری کا درس نہیں دیتے۔حالانکہ جب قرآن و حدیث کامغز یہ ہے ، تو عوام کے سامنے مغز کیوں نہیں رکھتے؟ ہوسکتا ہے یہ حضرات مجھ پر بھی ناراض ہوں کہ میںوہ مسائل جو صرف علماء کرام کی جاگیر تھے، اُردو میں ترتیب دے کر عام کیوں کررہا ہوں؟ مگر میرا عذر یہ ہے کہ میں نے اپنا فرض سمجھا کہ جو حقیقت مجھ پر واضح ہوئی ہے وہ اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے بھی واضح کروں کہ اصل قرآن و حدیث میں، اور ان کا مغز قرار دی جانے والی چیز میں کتنا تفاوت ہے۔ ویسے ہمارے ان مہربانوں نے یہ بات مدنظر نہیں رکھی کہ جب یہ قانون نافذ ہوگا تو چوروں کو یہ ضابطے معلوم نہ بھی ہوں، وکلاء سے تو مخفی نہیں رہ سکیں گے جن کا کام ہی یہ ہے کہ کسی طرح مجرموں کی سزا ختم کروائیں، افسوس علماء کی اجارہ داری پھربھی قائم نہیں رہ سکے گی۔ (جاری ہے)
حوالہ جات
1. ہدایہ صفحہ 240 ج2
2. ہدایہ صفحہ 241 ج2
3. ہدایہ صفحہ 241 ج2
4. عالمگیری صفحہ 64 ج2
5. ہدایہ صفحہ 241 ج2
6. ہدایہ:صفحہ 242 ج2
7. ہدایہ صفحہ 243 ج2
8. عالمگیری صفحہ 61 ج2
9. ہدایہ صفحہ 250 ج2
10. عالمگیری صفحہ 61 ج2
11. عالمگیری صفحہ 65 ج2
12. عالمگیری صفحہ 65 ج2
13. متفق علیہ بحوالہ مشکوٰة صفحہ 314
14. ہدایہ صفحہ 245 ج2
15. عالمگیری صفحہ 65 ج2
16. ہدایہ صفحہ 246 ج2
17. الافصاح صفحہ 261 ج2
18. عالمگیری صفحہ 65 ج2
19. ہدایہ صفحہ 247 ج2
20. ہدایہ صفحہ .. ج2