’’خَتنہ ........... ایک دینی شعار‘‘
ختنہ کب کروانا واجب ہے؟
اکثر اسلامی ممالک میں ختنہ پیدائش کےبعد سات سے لے کر تیرہ سال تک مختلف عمروں میں کیا جاتا ہے مکة المکرمہ میں، جہاں رسم ختنہ کو ''طہار'' کہا جاتا ہے، بچوں کا ختنہ تین سے سات سال کی عمر میں ہوجاتا ہے۔بعض کے نزدیک ولادت کے بعد ساتویں دن ختنہ کروانا مستحب اور زیادہ افضل ہے۔ ان کی دلیل حضرت جابر ؓ کی یہ روایت ہے:
''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الحسن والحسن و ختنھما لسبعة أیام'' i
یعنی ''رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین ؓ کے عقیقے اور ان کے ختنے (پیدائش کے بعد) ساتویں دن کئے۔''
لیکن امام محمد غزالی بیان کرتے ہیں:
''ختنوں کے باب میں یہودیوں کی عادت ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز کردیتے ہیں۔ اس باب میں اُن کی مخالفت کرنی او راگلے دانت نکلنے تک تاخیر کرنی مستحب ہے۔'' ii
ختنہ کتنی عمر میں کروانا واجب ہے؟ اس سلسلہ میں اہل علم حضرات میں سے ایک کثیر تعداد اس طرف گئی ہے کہ ختنہ اس وقت واجب ہے جب بچہ سن بلوغ سے مشرف ہو۔ کیونکہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے احکامات اور احکام شرعیہ سے واقف اور شرعاً اس کا مکلف ہوتا ہے۔ اگر بچہ سن بلوغ میں داخل ہوتے وقت ختنہ شدہ ہوتو اس کی عبادات، اسلامی طور طریقہ اور شرع حنیف کے مطابق صحیح ہوں گی۔ ولی کے حق میں افضل ہے کہ ختنہ کا آپریشن بچہ کی پیدائش کے بعد ساتویں دن یا شروع کے ایام میں ہی کروا دے تاکہ جب اس میں عقل آئے اور فہم امور کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ بھلے بُرے کی تمیز کرنے کے مرحلہ میں داخل ہو تو اپنے آپ کو ختنہ شدہ پائے۔
ختنہ شدہ پیدا ہونے والے بچے:
اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ بعض نومولود قدرتی طور پر پیدائش کے وقت بغیر قلفہ یا نصف قلفہ یا بہت قلیل قلفہ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان بچوں کا حشفہ مکمل کھلا ہوا ہو تو ایسی صورت میں ان کے ختنہ کی حاجت نہیں ہوتی ہے، لیکن جن بچوں کا قلفہ نصف حشفہ سے کچھ کم یا نصف یا نصف سے بھی کچھ اوپر تک ہوتا ہے ایسے بچوں کی ختنہ ضرور کروانا چاہیے کیونکہ حشفہ پر قلفہ کی موجودگی سے غلیظ رہنے کا احتمال ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ''جو بچے اس طرح یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں ان کی ختنہ چاند کرتا ہے۔'' علامہ ابن قیم نے اسے لوگوں کا واہمہ اور خرافات قرار دیا ہے۔1 قدرتی طور پر مختون پیدا ہونے والے بچوں کی یہ صفت ان کے کسی جسمانی عیب یا ان کی کسی خصوصیت یا بزرگی کی علامت نہیں ہوتی، جیسا کہ بعض لاعلم لوگوں کا خیال ہے، یہ محض ایک امر ِرب اور مشیت الٰہی ہے۔ بہت سے غیر مسلم بچے بھی ایسی کیفیت میں پیدا ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
برصغیر میں ختنہ پر تقریب کا اہتمام اور مروجہ رسومات:
ہندوستان و پاکستان میں عام طور پر غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں بچہ کے ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر بعض بُری رسومات دیکھنے میں آتی ہیں۔مثلاً ناچ رنگ و ڈھول، گانے باجے یا مجلس میلاد کا اہتمام، گھوڑے پر بچہ کو سوار کرا کر کسی مسجد یا بزرگ کے مزار تک لے جانا، بچہ کے سر پر پھول و سہرا باندھنا، نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے چہرے پرکالا ٹیکہ لگانا، منت کے طور پر لڑکے کے کان چھیدنا، سرخ و پیلے رنگ یا کالے رنگ کا دھاگا گلے میں لٹکانا یا بازو اور کمر پرباندھنا، کوئی سکہ یا ہڈی کا ٹکڑا یا لوہے یا چاندی یاسونے کا چاقو گلے میں لٹکانا، بچہ کے سر کے چاروں طرف روپیہ کئی بار گھما کر اس کا صدقہ اور بلائیں اتارنا، بچہ کے بازو پر امام ضامن باندھنا، کمر میں پٹہ اور تلوار لٹکانا، نیاز و فاتحہ کرنا اور اس کی شیرینی تقسیم کرنا وغیرہ، یہ سب غیر شرعی اور جاہلانہ رسوم و اختراعات ہیں۔ ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے2۔البتہ ختنہ کے موقع پراللہ کے نام پر ذبیحہ کرکے دوست و احباب اور اعزاء و اقرباء کی دعوت (جس کو طعام الغدیرہ یا طعام الختان بھی کہتے ہیں) کے اہتمام اور فقراء و مساکین میں اس کا صدقہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
کیا عورتوں پر بھی ختنہ3 ہے؟
کیا مردوں کی طرح عورتوں پر بھی ختنہ کروانا واجب ہے؟ اس مسئلہ میں اکثر فقہاء و ائمہ مجتہدین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عورتوں یا بچیوں کا ختنہ کروانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ عورتوں کی ختنہ کروانے کے متعلق امام احمدبن حنبل کی دو مختلف روایتیں ملتی ہیں۔ ایک روایت میں انہوں نےمردوں اور عورتوں دونوں پر ختنہ کروانا یکساں واجب قرار دیا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے عورتوں پر نہیں بلکہ صرف مردوں پر ختنہ کروانا واجب قرار دیا ہے۔امام موصوف کی یہ دوسری روایت اہل علم فقہاء اور ائمہ مجتہدین کے اجماع او ران باتوں نے موافق ہے جو ائمہ کرام نے اس ضمن میں بیان فرمائی او راُمت مسلمہ میں نسلاً بعد نسل وراثت میں چلی آرہی ہیں۔
یہ بات معروف ہے کہ مردوں پر ختنہ کروانا اس وقت سے واجب قرار پایا ، جب سے حضرت ابراہیم نے بحکم خدا تعالیٰ 80 سال کی عمر میں اپنی ختنہ4 فرمائی۔ لیکن عورتوں کی ختنہ کا رواج کب اور کس طرح پڑا؟ اس کے متعلق مختلف کتب اسلامیہ میں ایک واقعہ تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:
حضرت ابن عباسؓ سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے نسبت منقول ہے کہ:
''جب (حضرت ) سارہ نے دیکھا کہ (حضرت) اسماعیل ؑ کی والدہ (حضرت ہاجرہ) سے (حضرت) ابراہیم ؑ محبت کرنے لگے تو ان کے دل میں شدید غیرت پیدا ہوئی یہاں تک کہ وہ قسم کھا بیٹھیں کہ وہ (حضرت ) ہاجرہ کے اعضاء میں سے کوئی عضو ضرور کاٹ دیں گی۔ جب یہ اطلاع (حضرت) ہاجرہ کو پہنچی تو انہوں نے درع پہننا شروع کردی جس کے دامن طویل رکھے او ریہ دنیا کی پہلی عورت ہیں جس نے دامن لمبا بنایا5 او رایسا اس لیے کیا تھا کہ چلتے ہوئے دامن کی رگڑ سے قدموں کے نشانات زمین پر باقی نہ رہیں کہ (حضرت) سارہ ان کے آنے جانے کو نہ پہچان سکیں۔ (حضرت) ابراہیم ؑ نے (حضرت) سارہ سے فرمایا کہ کیا تم یہ چیز حاصل کرسکتی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اپنے آپ کو راضی کرلو اور (حضرت) ہاجرہ کا خیال چھوڑ دو؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے جو قسم کھائی ہے اب اس سے عہدہ برآ ہونا کیسے ممکن ہوگا؟آپؑ نے اس کی یہ ترکیب بتائی کہ تم (حضرت) ہاجرہ کے پوشیدہ جسم کے اوپر کا حصہ گوشت (جو ایک مستقل عضو ہے)کاٹ دو، عورتوں میں یہ ایک سنت جاری ہوجائے گی اور تمہاری قسم بھی پوری ہوجائے گی تو وہ اس پر رضا مند ہوگئیں او راس کو کاٹ دیا او ریہ طریقہ عورتوں میں جاری ہوگیا۔'' iii
اسلام نے آنے کے بعد جب امت مسلمہ پر ختنہ کو مشروع کیا تو اسے صرف مردوں کےلیے خاص کیا لیکن عورتوں کو اس طریقہ سے روکا بھی نہیں گیا چنانچہ آج بھی مصر، بلادیمن اور بعض عرب قبائل میں عورتوں کی ختنہ کیے جانے کا رواج پایا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے کہ آپؐ نے کبھی عورتوں کو ختنہ کروانے کا حکم دیا ہو، اس ضمن میں شداد کی اس حدیث کے علاوہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ اور مروی نہیں ہے، جس کاذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ یعنی :
''الختان سنة للرجال مکرمة للنسآء'' iv
''ختنہ مردوں کے لیے سنت اور عورتوں کے لیے مکرم ہے۔''
امام محمد غزالی نے بھی احیاء العلوم6 میں میں اس حدیث کا ذکر فرمایا ہے۔7 اس حدیث میں عورتوں کے ختنہ کروانے کی طرف اشارہ اورجوازملتا ہے ، نہ صرف جواز بلکہ اسے تکریم و عزت کا باعث بھی بتایا گیاہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں محدثین کو کلام ہے لیکن بعض لوگ اس کے ضعف کو تسلیم نہیں کرتے۔اگر حدیث کی صحت فرض کرلی جائے تو بھی اس صورت میں اس حدیث سے محض عورتوں کے ختنہ کا استحباب ثابت ہوتا ہے، وجوب نہیں۔ اس کے مستحب ہونے کے لیے خود حدیث کے الفاظ ''مکرمة للنسآء'' دلیل قاطع ہیں۔
امام محمد غزالی عورتوں کی ختنہ کے متعلق مزید وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اور چاہیے کہ عورتوں کے ختنہ کرنے میں مبالغہ نہ کیا جائے۔ اُم عطیہ جو ختنہ کیا کرتی تھیں، اُن کو آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اے ام عطیہ ، ذرا سی بو سونگھا دے اور زیادہ مت کاٹ کہ اس قدر سے چہرے کی آب زیاد ہ ہوگی اور خاوند کو اچھی معلوم ہوگی۔8 '' v
کیا رسول اللہ ﷺ ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے؟
اس امر میں محدثین اصحاب سیر و تاریخ کا آپس میں اختلاف ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قدرتی طور پر ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے، بعض کا گمان ہےکہ پیدائش کے بعد آپؐ کی ختنہ شق صدر کے دن ملائکہ کے ہاتھوں ہوئی تھی اور بعض کا قول ہے کہ آپؐ کے دادا عبدالمطلب نے قریشی قبیلہ کے رواج کے مطابق آپؐ کی ختنہ خود کی تھی۔
سید قاسم محمود صاحب مدیر شاہکار فاؤنڈیشن لکھتے ہیں:
''رسول اللہ ﷺ مختون پیدا ہوئے تھے۔'' vi
اور اکبر شاہ خاں نجیب آبادی فرماتے ہیں: ''ابن سعدؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے تو آپؐ کے ساتھ کچھ آلائش نہ نکلی جیسی کہ اور بچوں کے ساتھ بوقت پیدائش نکلتی ہے۔ آپؐ ماں کے پیٹ ہی سے مختون پیدا ہوئے تھے۔9'' vii
اسی طرح ایک مشہور عالم دین کمال الدین بن طلحہ نے اس بات کی تائید میں، کہ رسول اللہ ﷺ ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے، مستقل ایک کتاب تصنیف کی اور اس میں اس باب کی تمام احادیث و روایات کو جمع کیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے مختون پیدا ہونے کے بارے میں محققین کی رائے یہ ہے کہ ''اس باب میں جو بھی حدیث مروی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔'' چنانچہ امام ابوالفرج ابن الجوزی نے ایسی روایات کے صعیف ہونے کا ذکر اپنی مشہور کتاب ''الموضوعات'' میں کیا ہے۔
امام ابن قیم فرماتے ہیں:
''اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے او رنہ ہی آپؐ کا مختون پیدا ہونا آپؐ کے خواص میں سے ہے۔ کیونکہ بہت سے انسان مختون پیدا ہوتے ہیں......... بیت المقدس سے استاذ حدیث ابوعبداللہ محمد بن عثمان الخلیلی فرماتے ہیں کہ ''وہ اسی طرح (یعنی مختون) پیدا ہوئے تھے اور ان کے اہل خانہ میں سے کسی نے اُن کی ختنہ نہیں کی تھی۔'' viii
کمال الدین ابن عدیم نے کمال الدین بن طلحہ کی مذکورہ بالا تصنیف ، جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے مختون پیدا ہونے کی تائید میں اس باب کی کافی روایات او راحادیث جمع کی ہیں، پر سخت نقد و جرح کی ہے او ران جمع کردہ تمام ر وایات و احادیث کا علمی جائزہ لے کر یہ واضح کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فی الحقیقت غیر ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے او ریہ کہ آپؐ کی ختنہ اہل عرب کی عادت اور عرب قاطبہ کی سنت کے مطابق پیدائش کے بعد کی گئی تھی۔
جن بعض لوگوں کا گمان ہے کہ ڈھائی سال کی عمر میں ، جس دن ملائکہ نے آپؐ کا سینہ مبارک چاک کیا تھا، اُس دن آپؐ کی ختنہ بھی ملائکہ کے ہاتھوں ہی ہوئی تھی، ان کے اس گمان کی بنیاد وہ روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ : ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو سفید پوش میرے پاس آئے، مجھے لٹا کر میرا سینہ چاک کیا او راس میں سے کچھ نکال کرپھینک دیا، میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز تھی۔''10 اس ''چیز'' سے لوگوں نے آپؐ کا ختنہ کیا جانا سمجھا ہے۔ جو صحیح نہیں ہے۔
محققین کا ایک تیسرا قول جو زیادہ راجح اور صحیح ہے وہ یہ ہے کہ : ''آپؐ کی پیدائش کے ساتویں دن آپؐ کے دادا عبدالمطلب نے آپؐ کی ختنہ کی ، آپؐ کی پیدائش کی خوشی اور اعزاز میں قبیلہ والوں کی دعوت کی اور آپؐ کا نام محمدؐ رکھا۔11 '' امام ابن الجوزی او رامام ابن قیم بھی اس تیسرے قول کو ہی صحیح بتاتے ہیں۔
ابوعمر ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ''اس باب میں ایک حدیث مسند غریب12 موجود ہے جسے احمد بن محمد بن احمد، محمد بن عیسیٰ ، یحییٰ بن ایوب علاف، محمدبن ابی السری عسقلانی، ولید بن مسلم، شعیب، عطاء خراسانی اور عکرمہ نے ابن عباسؓ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ: ''عبدالمطب نے نبی ﷺ کی ختنہ ساتویں دن کی، ان کی (پیدائش کی خوشی اور ) اعزاز میں (اہل قبیلہ) کو دعوت دی اور ان کا نام محمدﷺ رکھا۔''
ختنہ کی صحت و تندرسی سے متعلق فوائد جلیلہ:
1. یہ صحت کے ایک عظیم تدبیر ہے جو ختنہ شدہ شخص کو بہت سے امراض سے بچائے رکھتی ہے ۔ ان امراض کی تفصیل جو ختنہ نہ کروانے کے باعث پیدا ہوتے ہیں، ڈاکٹر صبری القبانی نے اپنی کتاب ''حیاتنا الجنسیة'' میں اور بعض دوسرے ماہرین علم طب و جراحت نے اپنی اپنی تصانیف میں لکھی ہے۔
2. ختنہ کروانے سے تحسین و تزئین خلقت اور تعدیل شہوت پیدا ہوتی ہے۔
3. ختنہ کےمقام پر سرطان پیدا ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ اکثر ایسے لوگوں کو جو غیر ختنہ شدہ ہوتے ہیں۔ سرطان حشفہ یا سرطان قلفہ کی شکایت میں مبتلا دیکھا گیا ہے۔
4. اگر بچہ کی ختنہ کروانے میں عجلت کی جائے تو ایسے بچوں مینیند کی حالت میں پیشاب کرنے کی شکایت کم پائی جاتی ہے۔
5. ختنہ کروانے سے انسان سیلان شحمی او رمقررات دھنیہ کے مسلسل خروج سے چھٹکارا پا جاتا ہے ، جواکثر غیر شادی شدہ نوجوانون کوبیمار بنائے رکھنے کے خاص اسباب ہیں۔
6. ختنہ کروانے سے حشفہ و قلفہ کی معقول صفائی ہوتی رہتی ہے جس سے اس کے پکنے یاسڑ جانے کا خدشہ نہیں رہتا۔
7. ختنہ کروانے سے تمدد کے دوران انحباس حشفہ کا خطرہ بھی باقی نہیں رہتا۔ وغیرہ۔
حوالہ جات
1. زاد المعاد لامام ابن القیم ج1 ص35 مطبعة السنة المحمدیة
2. تفصیل کے لیے راقم الحروف کا مضمون ''اسلام اور حقوق اطفال''دوسری قسط ماہنامہ ''میثاق'' لاہور صفحہ 73 جلد30 عدد2،1 مجریہ ماہ جنوری و فروری 1981ء ملاحظہ فرمائیں۔
3. عورتوں کا ختنہ مردوں کے ختنہ سے شکلاً و حکماً بلکہ ہر لحاظ و اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عورت کے پوشیدہ عضو کے بالائی ایک مخصوص حصہ کو ، جسے انگلش میں (Clitoris)کہتے ہیں، کاٹ دیا جاتاہے۔ جبکہ مرد کے پوشیدہ عضو کی اگلی فاضل جلد (Prepuce)کو کاٹ کر علیحدہ کیا جاتا ہے۔
4. رواہ البخاری کتاب الانبیاء
5. رواہ البخاري کتاب الأنبیاء عن ابن عباسؓ
6. احیاء العلوم للغزالی ج1 ،اردو ترجمہ محمد احسن صدیقی نانوتوی صفحہ 243 مطبع دارالاشاعت کراچی
7. اس حدیث کے مآخذ بیان کرتے ہوئے مترجم اور حاشیہ نویس نے ان الفاظ میں صراحت فرمائی ہے: ''أحمد و بیهقي بروایة أسامة بسند ضعیف'' (احیاء العلوم للغزالی اردو ترجمہ محمد احسن صدیقی نانوتوی ج1 ص243)
8. امام غزالی کی بیان کردہ یہ حدیث بھی صحت کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔ چنانچہ خود احیاء کے مترجم و حاشیہ نویس لکھتے ہیں : ''أبوداود بروایة أم عطیة بسند ضعیف۔'' (احیاء العلوم للغزالی ج1 ص243، اُردو ترجمہ محمد احسن صدیقی نانوتوی)
9. مشہور مصری سیرت نگار ڈاکٹر محمد حسین ہیکل ''محمد ﷺ کی پیدائش (570 سنہ عیسوی)'' کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
''(حضرت) آمنہ کے حمل اور و ضع حمل (یعنی محمدﷺ کی پیدائش ) میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔'' (حیٰوۃ محمدؐ مصنفہ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل مصری صفحہ 47 انگریزی ترجمہ اسماعیل اے راغب الفاروقی مطبع نارتھ امریکن ٹرسٹ پبلی کیشنز 1976ء)
10. ابن اسحاق وغیرہ و انگلش ترجمہ حیوٰۃ محمدؐ مصنفہ ڈاکٹرمحمد حسین ہیکل مصری صفحہ 50 طبع امریکہ
11. زاد المعاد في هدي خیر العباد لإمام ابن القیم ج1 ص35 و تاریخ اسلام مصنفہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی ج1 ص90 و انگریزی ترجمہ حیوٰۃ محمدؐ مصنفہ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل مصری ص48
12. اس حدیث کے متعلق یحییٰ بن ایوب فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس روایت کو طلب کیا تو اہل الحدیث میں سے کسی ایک شخص کے پاس بھی نہ پایا بجز ابن ابی السری کے
i. رواہ البیہقی
ii. احیاء العلوم للغزالی ج1 ص243، مترجم محمد احسن صدیقی نانوتوی طبع اوّل اس دارالاشاعت کراچی
iii. کتاب الأذکیاء لامام ابن الجوزی، اردو ترجمہ لطائف علمیہ مترجم اشتیاق احمد صاحب صفحہ 27 مطبع دارالاشاعت کراچی نمبر 1
iv. رواہ امام احمد
v. احیاء العلوم لامام محمدالغزالی ج1، اُردو ترجمہ از محمد احسن صدیقی نانوتوی صفحہ 243 مطبع دارالاشاعت کراچی 1979ء
vi. شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا صفحہ 834 مطبع شاہکار فاؤنڈیشن
vii. تاریخ اسلام مصنفہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی ج1 ص90 مطبع ادارہ مرکز ادب جامع مسجد دیوبند
viii. زاد المعاد في هدي خیر العباد مصنفہ امام ابن القیم ج1 ص35 مطبعة السنة المحمدیة