سورۃ البقرہ

(قسط 11)


﴿إِنّى جاعِلٌ فِى الأَر‌ضِ خَليفَةً...٣٠
جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں (اپنا ایک) نائب بنانے والا ہوں

قبر میں رکھتے ہی دو ڈراؤنے فرشتے 'منکر نکیر' احتساب کرنے، جائزہ لینے اور ان کو چیک کرنے کے لئے قبر میں آدھمکتے ہیں: إذا انصرفوا أتاه ملكان فيقعد انه فيقولان له ما كنت تقول في ھذه الرجل محمد ﷺ (صحيحين عن انس) أتاه ملكان أسودان أرزقان يقال لأحدھما المنكر وللآخر النكير (مجمع الفوائد۔ ابو ھريره)

روزانہ ستر ہزار فرشتے رسول اللہ ﷺ کی قبر پر نازل ہوتے ہیں، اس کو گھیر کر جھومتے اور قربان ہوتے ہیں اور آپ پر درود پڑھتے ہیں۔ جب شام پڑتی ہے تو یہ چلے جاتے ہیں اور دوسرے آجاتے ہیں، تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہتا ہے: ما من یوم یطلع إلانزل سبعون ألفاً من الملائکة حتّٰي يحفوا بقبر النبي ﷺ يضربون أجنحتھم ويصلون على النبي ﷺ حتي إذا أمْسُوْا عرجوا وھبط مثلھم فصنعوا مثل ذلك حتي إذا انشقت عنه الأرض (دارمي عن كعب) فرشتوں کی ایک جماعت گھومتی پھرتی رہتی ہے، درود پڑھنے والوں کے درود سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچاتے ہیں۔ إن لله ملائكة سياحين يبلغون عن أمتي السلام (بزار۔ عن ابن مسعود)

جو ایک بار بھی حضور ﷺ پر درود پڑھتے ہیں اللہ اور اس کے فرشتے ستر بار اس پر صلوٰۃ کرتے ہیں: من صلی علی النبي ﷺ واحدۃ صلی اللہ عليه وملائكته سبعين صلوٰة۔ (رواه احمد عن ابن عمر وفي رواية عشرا)

حج کے دنوں میں عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے جلوہ گر ہوتے ہیں اور اپنے حاجیوں پر ناز کرتے ہیں: إنه يتجلي ثم يباھي بھم الملائكة (مسلم۔ عن عائشة) مزيد ان سے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ پوری رغبت کے ساتھ میرے حضور حاضر ہوئے ہیں، میں نے ان کی سب دعائیں قبول کر لیں۔ يا ملٰئكتي! عبادي وقفوا في الرغبة والطلب فأشھدكم إني قد أجبت دعائھم الحديث (انس۔ مجمع الفوائد) إن الله تطول علي أھل عرفات يباھي بھم الملٰٓئكة يقول: ملائكتي: انظروا إلي عبادي شعثا غبرا أقبلوا يضربون إلي من كل فج عميق فأشھدكم أني قد أجبت دعائھم الحديث (ايضا)

جن گھروں ميں تصويريں ہوتی ہیں وہاں فرشتے نازل نہیں ہوتے: إن البیت الذي فیه الصور لا تدخله الملائكة (صحاح عن عائشة) جبرائيل علیہ السلام فرماتے ہیں، جس گھر میں کتا یا تصویر ہوتی ہے ہم وہاں نہیں جایا کرتے: لا ندخل بیتا فیْهِ كلب ولا صورة (مسلم۔ عن ابن عباس)

روزانہ دو فرشتے زمین پر اترتے ہیں، راہ حق میں خرچ کرنے والے کے لئے برکت کی اور کنجوس کے لئے بے برکتی کی دعا کرتے ہیں: ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان فيقول أحدھما اللھم أعط منفقا خلفا ويقول الآخر اللھم أعطِ ممسكا تلفا (صحیحین۔ ابو ھریرہؓ)

جو شخص امام کے سمع اللہ لمن حمدہ پر فرشتوں کے ہم آہنگ ہو کر اللھم ربنا لک الحمد کہتا ہے، اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه (صحيحين۔ ابو ھريره) ايك شخص نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سمع اللہ لمن حمدہ پر کہا ربنا لک الحمد حمداً کثیرا طیباً مبارکاً فیه، تو آپ نے سلام کے بعد پوچھا یہ کس نے پڑھا ہے ایک صاحب بولے:حضور ! وہ میں تھا، فرمایا: میں نے تیس سے زیادہ فرشتے دیکھے جو اس کو قلم بند کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے تھے۔ رأیت بضعة وثلٰثين ملكا يبتدرونھا أيھم يكتبھا أول (بخاري۔ رفاعة)

ملائکہ میں نمایاں اور عظیم ترین مقام، حضرت جبرائیل، حضرت میکائیل اور حضرت عزائیل علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔ جبرائیل امین کا تعلق وحی الٰالٰہی سے، جس پر قلب و نگاہ کی حیاتِ طیبہ کا دارومدار ہے۔ میکائیل کا تعلق اس بارانِ رحمت سے ہے، جس سے زمین، نباتات اور حیوانات کی حیات وابستہ ہے اور حضرت اسرافیل کا تعلق اس ''نفخ صور' سے ہے، جس پر حیات بعد الممات کا انحصار ہے (اغاثة اللہفان ص ۱۲۴)

ان میں بھی معزز ترین حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ قرآن نے ان کی یہ صفات بیان کی ہیں:

وہ رب کا رسول ہے، خدا کے ہاں بڑا مکرم و محترم ہے، صاحبِ قوت، مقرب اور بلند مرتبہ ہستی ہے، آسمان میں وہ قائد اور مطاع ہے اور وحی الٰہی کے سلسلے میں قابلِ اعتماد 'امین' فرشتہ ہے۔﴿ اِإِنَّهُ لَقَولُ رَ‌سولٍ كَر‌يمٍ ﴿١٩﴾ ذى قُوَّةٍ عِندَ ذِى العَر‌شِ مَكينٍ ﴿٢٠﴾...سورة التكوير
اسلام میں ایمان بالملائکہ ایمان کا پانچواں رکن ہے۔ یعنی یہ یقین رکھنا چاہئے کہ یہ خدا نہیں ہیں، خدائی اختیارات اور تصرفات کے مالک نہیں ہیں، وہ اس کے محترم اور مکرم غلام ہیں اور آسمان و زمین میں جو تدبیر الٰہی ہوتی ہے، اس کے یہ وسائط نگران اور امین خدّام ہیں، خدا کی حمد و ثنا اور طاعت ان کی غذا ہے، خدا کے بیٹے، بیٹیاں یا دیوتا اور دیویاں نہیں ہیں۔ وہ سفلی جذبات اور احساسات سے نا آشنا اور بے خبر ہیں۔ ہاں قربِ الٰہی کے سلسلے میں بہت ذکی الحسن اور حریص ہیں اس لئے اس منزل میں جو بھی شے حائل ہو سکتی ہو اس سے ان کو سخت وحشت محسوس ہوتی ہے۔

حضرت شاہ ولیؒ اللہ کا نظریہ ملاء اعلیٰ:

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۱۷۶ھ) نے ملائکہ کے سلسلے میں 'ملاء اعلیٰ' کے عنوان کے تحت بڑی دلچسپ بات کی ہے۔ من وعن اس کا پیش کرنا تو مشکل ہے ، خلاصہ حاضر ہے، لیکن ان سب سے اتفاق کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ چونکہ یہ ایک نظریہ ہے اس لئے اس کا مطالعہ کر لیا جائے تو حرج بھی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

یہ ایک ایسی جماعت ہے جو افلاک کے روحانی اور لطیف عناصر سے پیدا کی گئی ہے۔

إنھم أقوام خلقوا من روحانیات الأ فلاك ولطائف العناصر (تفھیمات الٰھیه ص ۱۷۹،۱)

اعلم أن الملاء الأ علٰی جماعة مادت أحجارھم البحتة من التجلي الأعظم بمنزله إلاشعة الياقوتية ص ۲۰۱،۱)

اس جماعت کا نام الرفیق الأعلٰی، الندی الأعلٰی اور الملاء الأعلٰی ہے۔

يعبر عنھم باعتبار ذلك بالرفيق الأعلٰي والندي الأعلٰي والملاء الأعلٰي(حجة الله ص ۱۲،۱)

یہ بارگاہِ الٰہی کی مقرب ہستیاں ہیں۔

ھم أفاضل الملائكة ومقربوا الحضرة(حجة اللہ البالغة ص ۱۲،۱)

حدیث میں اس جماعت کو ''ملاء اعلیٰ'' کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

قال فیم یختصم الملأ الأعلٰی (ایضا ص ۱۲،۱)

ان کا خیال ہے کہ: ملأاعلیٰ کی جماعت میں انسانی نفوسِ قدسیہ بھی شامل ہو جاتی ہیں، جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب کا ذِکر آیا ہے۔

وإن الأرواح أفاضل الادميين دخولا فيھم ولحوقابھم۔۔۔ وقال رسول الله ﷺ رأيت جعفر بن أبي طالب۔۔ يطير في الجنة مع الملائكة (حجة البالغة ص ۱۲)

اس لئے فرماتے ہیں کہ ملاء اعلیٰ کی تین قسمیں ہیں:

1. نشانِ حق، اس پر خیر و خوبی کا نظام قائم ہے، وہ محض نور سے بنائے گئے ہیں جیسے نارِ موسیٰؑ: علم الحق أن نظام الخیر یتوقف علیھم فخلق اجامًا نورية بمنزلة نار موسٰي (حجة الله البالغة ص ۱۳،۱)

2. وہ لطیف بخارات جو مختلف عناصر کے امتزاجات سے ابھرے جو خاص استعداد کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ تلویثات بہیمینہ سے پاک ہوتے ہیں اور نفوس قدسیہ کا مسکن ہوتے ہیں۔ وقسم اتفق حدوث مزاج في البخارات اللطیفة من العناصر استوجب فيضان نفوس شاھقة شديدة الرفض للألواث البھيمية (ص ۱۳،۱)

3. صاحبِ اخلاص فرشتہ خصال اور مخین، جو سدا حق تعالیٰ کی طرف رجوع رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد ان کی روحیں بھی انہی میں جا شامل ہوتی ہیں۔

وقسم ھم نفوس انسانیة قريبة المأخذ من الملأ الأعلٰي ۔۔۔۔ وعدت منھم (ص ۱۳،۱)

موخر الذکر کی مثال شیخ عبد القادر جیلانی ہے کہ بعد از وفات ملأ اعلیٰ کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

إن الشیخ عبد القادر۔۔۔ إنه لمامات صار بھيئة الملاء الأعليٰ (تفھيمات الٰھية ص ۸۵،۱)

ان مقربین کی رہائش گاہ کا نام 'خطیرۃ القدس' ہے: گویا یہ ان کا 'اسمبلی ہال' ہے، جہاں وہ ابنِ آدم کی فلاح اور صلاح کی سوچتے اور طے کرتے ہیں: ان کے انوار ایک دوسرے سے مل کر 'الروح' (جبرائیل) کے لئے بمنزلہ ہالہ ہوتے ہیں، بس اسی الروح اور ملأ اعلٰی کے مجموعہ کے مسکن کا نام 'خطیرۃ القدس' ہے اور 'الروح' کی صدارت میں ملأ اعلٰی کے اس دائمی اجتماع کا نام 'تائید القدس' ہے۔

وإذ اضلھم تجتمع أنوارھم وتتداخل فیما بینھم عند الروح الذي وصفه النبي ﷺ بكثرة الوجوه والألسنة ۔۔۔۔ وتسمي خطيرة القدس وربما وصل في خطيرة القدس إجماع علي إقامة حيلة نجاة بني اٰدم۔۔۔ ويسمي إجماعھم المستمر بتائيد روح القدس (حجة الله ص ۱۳،۱) تفھيمات ص ۶۵ ميں اس کی تعبیر اس سے مختلف ہے۔ ہاں حاصل تقریباً ایک ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ''ملأ اعلٰی'' میں سے بعض کو جب عوام دیکھ لیتے ہیں تو بول اُٹھتے ہیں یہ تو خدا ہے حالانکہ وہ اس کا عبد ہے جو اس کے حکم سے ذرہ برابر سرتابی نہیں کر سکتا۔

فیقول ما ھذا بشر إن ھذا إلا إله كريم والحق أنه عبد من الملأ الأعلٰي مأمور لا يستطيع تحولا عما أمربه (تفھيمات ص ۲۰۴،۱)

ملأ سافل۔ چونکہ ملائکہ کے بھی مختلف درجات اور مقامات ہیں، اس لئے آپ نے ملأ اعلٰی کے مقابلے میں 'ملأ سافل کی بھی نشاندہی فرمائی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ:

یہ ملأ اعلٰی جیسے تو نہیں ہوتے لیکن اپنی انفعالی استعدادِ صالح کی وجہ سے 'اخذ فیضان' کا ملکہ خوب رکھتے ہیں۔

ودون ھؤلاء نفوس استوجب فیضانھا حدوث مزاج معتدل في بخارات لطیفة لم تبلغ بھم السعادة مبلغ الأولين فصار كما لھم أن تكون فارغة لانتظار ما يترشح من فوقھا الخ (ص ۱۳، ۱)

تفہیمات میں ان کا نام 'العنصریون' لیا ہے (ص ۶۹،۱) ملأ اعلیٰ کے نیچے ملأ سافل کے درجے کئی ایک ہیں وھکذا حتی یصل الی حضیرۃ القدس (تفھیمات ص ۶۹،۱)

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں کافی کلام کیا ہے، لیکن جہاں آپ کا انداز محدّثانہ ہے، لائق مطالعہ ہے، لیکن جہاں اس کا رنگ حکیمانہ یا متصوفانہ ہے، وہاں اس سے 'پرہیز' اولیٰ، الا للرو۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنی کتابوں میں صوفیاء، متکلمین اور فلسفیوں کی کج بینی، لن ترانیاں اور 'بے کتاب' موشگافیوں کے نجیے ادھیڑ ڈالے ہیں۔ لیکن افسوس! خود اس سے پرہیز نہیں کر سکے، اس لئے ان کی تفہیمات، خیر کثیر، بدو ربازغہ انفاس العارفین، ہمعات اور فیوض الحرمین جیسی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے 'محدث' دہلوی کا پہچاننا ہمیں سخت مشکل ہو رہا ہے، اس لئے ہمارے اکابر کا کہنا ہے کہ ہمیں شاہ ولی الہ محدث دہلوی سے دلچسپی ہے حکیم اور صوفی منش بزرگ سے نہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ آپ کی وہ باتیں جو 'کتاب ہیں نہ سنت' محض ہندی 'حکیم الامۃ' کی وجہ سے دین بنتی جا رہی ہیں۔ دین نہ بننے پائیں۔ وما ذلك علی اللہ بعزیز۔ اس سے غرض ان کی عظیم خدمات کی تحقیر یا قدر ناشناسی نہیں ہے بلکہ ہم نے آپ کے فلسفیانہ اور متصوفانہ بعض اغلاط کی بات کی ہے۔ اصل میں ساری خرابی آپ کی 'تفہیم' میں ہے کیونکہ تفہیمِ دین کے لئے آپ نے جو طرح ڈالی ہے بیشتر حصہ اس کا 'إثمھما أکبر من نفعھما' کے قبیل سے ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے دماغ کو کچھ غذا میسر ہو جائے، دل کے لئے بہرحال کچھ زیادہ مفید نہیں ہے۔ حجۃ اللہ نسبۃً مفید ہے لیکن ان مباحث کے سوا جو ملاء اعلیٰ وغیرہ مضامین سے تعلق رکھتے ہیں۔

جَاعِلٌ (بنانے والا۔ فاعل (کرنے والا) جاعل اور خالق مفہوم کے لحاظ سے تقریباً تقریباً دونوں ایک ہیں: اس لئے دوسرے مقام پر 'جاعل' کے بجائے 'خالق' آیا ہے۔﴿إِنّى خـٰلِقٌ بَشَرً‌ا...٢٨﴾...سورة الحجر ہاں جَاعِلٌ، خَالِقٌ سے قدرے عام ہے، جاعل میں 'خلق موصوف بہ صفت' ہوتا ہے۔ مثلاً اسی مقام پر کہ: میں بنانے والا ہوں، جو موصوف بہ خلافت ہو گا۔ إن الجاعلیة أعم من الخالقية فإن الجاعلية ھي الخالقية وشيء آخر وھو أن يخلقه موصوفا بصفة الخلافة (الزلالين علي الجلالين)

جَعْل (بنانا، مقرر کرنا) دو قس کا ہوتا ہے ایک 'تکوینی' دوسرا 'تشریعی'۔ تکوین کا تعلق 'خلق' سے ہے کہ نیست سے ہست کرتا ہے۔ جب 'جاعل' کے معنی 'فاعل' کیے جائیں گے تو اس وقت تخلیق کے بجائے تجویز کے معنی ہوں گے کہ ہم اسے یہ حیثیت دینے والے ہیں۔ واللہ اعلم۔ جو معاملہ اس درجہ میں رہتا ہے، بندہ اس کی جواب دہی سے آزاد ہوتا ہے، کیونکہ یہ بات بشری طاقت سے پرے ہے۔ تشریع کا تعلق دینی حکم اور تجویز سے ہے، یعنی یہ کہ بندہ کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں، انسان کی فلاح اور صلاح اس میں ہے، اس میں نہیں، رب ان باتوں سے خوش ہوتا ہے اور ان سے ناراض یہ بات بندوں سے متعلق ہے، اس لئے اس کی ان سے باز پرس بھی ہو گی اور اس کے اچھے یا برے نتائج بھی ان کو بھگتنے پڑیں گے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ کیونکہ یہ سب امور انسان کے بس میں ہیں اگر وہ ان کی تعمیل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ یہی مفہوم اور تقسیم مندرجہ ذیل قرآنی الفاظ کی ہے۔

قضاء، حکم، ارادۃ، کتابت، امر، اذن، کلمات، بعث، ارسال، تحریم،ا یتاء اور انشاء کہ ان میں سے ہر ایک 'تکوینی' بھی ہے اور 'تشریعی' بھی۔ ان کے تکوینی حصے سے بندوں کا کوئی تعلق نہیں ہاں تشریعی کے وہ ضرور جواب دہ ہیں، اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بناء پر حق تعالیٰ کے سلسلے میں بڑی بڑی بدگمانیوں نے جنم لیا ہے اور مخالفین کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اسلام کو بدنام کریں۔

قضاء:

اس کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں، ایک فیصلہ اور اس کا نفاذ تکوینی ہے کہ، بس اس نے جو چاہا کر دیا۔ اس خدائی فیصلہ سے انحراف کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ مثلاً فرمایا:

﴿فَإِذا جاءَ أَمرُ‌ اللَّـهِ قُضِىَ بِالحَقِّ...٧٨﴾...سورة المؤمن (جب حكمِ خدا آموجود ہوا تو برحق فیصلہ کر دیا گیا)

یہ وہ تکوینی خدائی فیصلہ ہے، جس کی تعمیل یا عدم تعمیل بندوں کے بس میں نہیں ہے، جب کوئی دھر لیا جاتا ہے تو اس سے یہ باز پرس نہیں ہو گی کہ غیر کیوں اس کی زد میں آئے یا اس سے کوئی بھاگنا چاہتا تو بھاگ سکتا اور پھر خدا اس سے باز پرس کرتا کہ تم کیوں بھاگ گئے۔ بلکہ یہ اٹل بات تھی جو ہو کر رہی اور ہو کر رہتی ہے۔

﴿وَقَضىٰ رَ‌بُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ...٢٣﴾...سورة الإسراء

اور آپ كے رب نے یہ حکم قطعی دے دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔

یہ فیصلہ اور قضا تشریعی ہے، غرض یہ ہے کہ یہ اللہ کا فیصلہ اور قضا ہے کہ، ایسا کیا جائے، اگر کوئی نہ کرنا چاہے تو عدم تعمیل بھی اس کے بس میں ہے۔ ہاں اس کے نتائج (جزا اور سزا) اس کے بس میں نہیں رہیں گے۔ اگر یہ فیصلہ تکوینی ہوتا تو عدم تعمیل انسان کے بس کی بات نہ ہوتی، اسے ایک طبعی تقاضے اور خلقی انداز میں لازماً کرنا پڑتا اور عبادت ہی اس سے صادر ہوتی۔

حکم:

یہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے، تکوینی جس کا تعلق محض تخلیق اور تقدیرِ الٰہی سے ہے: مثلاً

﴿إِنَّ اللَّـهَ قَد حَكَمَ بَينَ العِبادِ ﴿٤٨﴾...سوؤة المؤمن 

اللہ (کو اپنے) نبیوں کے بارے میں (جو کچھ) حکم دینا تھا دے چکا۔

یہ حکم تکوینی ہے۔ جس سے سرتابی ناممکن ہے۔

﴿ذٰلِكُم حُكمُ اللَّـهِ ۖ يَحكُمُ بَينَكُم...١١﴾...سورة الممتحنة

یہ اللہ کا حکم ہے جو تم لوگوں میں صادر فرماتا ہے۔

یہ تشریعی ہے، یعنی ہم نے اسے تمہارے لئے شریعت کا حکم بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کرنا نہ کرنا ہر ایک کے بس میں ہے اور باز پرس بھی صرف اسی تشریعی حصہ کی ہو گی۔

ارادۃ:

یہ بھی تکوینی اور تشریعی ہوتا ہے۔ مثلاً ﴿إِنَّ رَ‌بَّكَ فَعّالٌ لِما يُر‌يدُ ﴿١٠٧﴾...سورة هود 'بے شک' آپ کا رب جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ میں اپنے اسی تکوینی ارادہ کا ذکر فرمایا ہے: ﴿وَاللَّـهُ يُر‌يدُ أَن يَتوبَ عَلَيكُم...٢٧﴾...سورة هود "اللہ چاہتا ہے کہ تم پر مہر (کی نگاہ) رکھے۔ میں تشریعی ارادہ کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے، اگر تم نہ چاہو تو یہ تمہاری مرضی ہے۔ ارادہ اور مشیت میں فرق ہے، خدا ارادہ نہ کرے تو بھی بندہ ارادہ کر سکتا ہے لیکن رب کی مشیت کے بغیر بندہ کی مشیت ممکن نہیں رہتی۔ (مفردات)

کتابت:

کتاب کے معنی لکھنے، حکم، ضروری اور طے کرنے کے ہوتے ہیں: جو تکوینی ہے، وہ اٹل ہے، اس کا خلاف کسی کے لئے بھی ممکن نہیں اور اس کی جواب دہی بھی انسان کے بس سے پرے ہے: مثلاً یہ حکم تکوینی ہے، کوئی شخص شیطان سے دوستی رکھ کر گمراہ نہ ہو، ممکن نہیں ہے۔

﴿كُتِبَ عَلَيهِ أَنَّهُ مَن تَوَلّاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ...٤﴾...سورة الحج

اس کی نسبت یہ لکھا جا چکا ہے کہ جو اس کی رفاقت کرے گا وہ اسے گمراہ کر دے گا۔ ﴿كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ...١٨٣﴾...سورة البقرة تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں۔ یہ تشریعی ہے۔

امر:

ایک تخلیقی اور تکوینی ہوتا ہے، دوسرا آئینی اور تشریعی، مثلاً ﴿إِنَّما أَمرُ‌هُ إِذا أَر‌ادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٨٢﴾...سورة يٰس" اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس وہ اس سے اتنا فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے"

خدا کا یہ وہ امر ہے، جو اٹل ہوتا ہے، کسی سے پوچھ کر نہیں کرتا اور جب کر لیتا ہے تو کسی کے لئے اس سے مفر ممکن نہیں رہتا کیونکہ یہ تکوینی ہے اور تشریعی یہ ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأمُرُ‌ بِالعَدلِ وَالإِحسـٰنِ...٩٠﴾...سورة النحل"ے شک اللہ تعالیٰ عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے"

اذن:

اجازت، ارادہ اور حکم اس کے معنی ہیں، تکوینی یہ ہے: ﴿وَما هُم بِضارّ‌ينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّـهِ...١٠٢﴾...سورة البقرة حالانكہ بے حکمِ خدا اپنی ان باتوں سے کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

تشریعی یہ ہے: ﴿أَم لَهُم شُرَ‌كـٰؤُا شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّـهُ...٢١﴾...سورة شورٰى كيا ان لوگوں (نے خدا) کے شریک (بنا رکھے) ہیں اور انہوں نے ان کو دین کا رستہ ٹھہرا دیا ہے، جس کا خدا نے حکم دیا ہے۔

کلمہ:

وعدۂ حکم، فیصلہ اور بات اس کے معنی ہیں:﴿ تکوین کی مثال: وَكَذٰلِكَ حَقَّت كَلِمَتُ رَ‌بِّكَ...٦﴾...سورة غافر اسی طرح (ان) کافروں پر (بھی) آپ کے رب کا فرمان صادق آچکا ہے۔

﴿وَصَدَّقَت بِكَلِمـٰتِ رَ‌بِّها وَكُتُبِهِ...١٢﴾...سورة التحريم اور وہ اپنے رب کے کلام اور کتب کی تصدیق کرتی رہی۔ یہ تشریعی حکم ہے۔

بعث:

بھیجنا، کھڑا کرنا، زندہ کرنا، ابھارنا، عدم سے وجود میں لاتا، جگا کر اُٹھانا اس کے معنی ہیں، تکوین کی مثال یہ ہے:

﴿فَإِذا جاءَ وَعدُ أولىٰهُما بَعَثنا عَلَيكُم عِبادًا لَنا أُولى بَأسٍ شَديدٍ...٥﴾...سورة الإسراء

تو جب ان میں پہلے (فساد) کا وقت آیا تو ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے ایسے بندے اُٹھا کھڑے کیے جو بڑے سخت گیر تھے۔ تشریعی کی مثال یہ ہے ﴿بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَ‌سولًا مِنهُم...٢﴾...سورة الجمعة وہی تو ہے جس نے جاہلوں میںِ ان ہی میں سے رسول بھیجا۔

ارسال:

بھیجنے، مسخر کر کے بھیجنے، با اختیار اشخاص کو بھیجنے، کسی پر چھوڑ دینے وغیرہ اس کے معنی ہیں۔ تکوینی:

﴿أَنّا أَر‌سَلنَا الشَّيـٰطينَ عَلَى الكـٰفِر‌ينَ تَؤُزُّهُم أَزًّا...٨٣﴾...سورة مريم
ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو اکساتے رہتے ہیں۔

تشریعی شکل یہ ہے:

﴿هُوَ الَّذى أَر‌سَلَ رَ‌سولَهُ بِالهُدىٰ...٣٣﴾...سورة التوبة
وہی (ذات پاک) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دے کر بھیجا۔

تحریم:

اس کے معنی، منع کرنے کے ہیں، یہ ممانعت تسخیری ہو یا جبری، عقلی ہو یا شرعی۔

تسخیری اور جبری تکوینی ہے: ﴿وَحَرَّ‌منا عَلَيهِ المَر‌اضِعَ...١٢﴾...سورة القصص اور ہم نے (حضرت موسیٰ) پر (اناؤں کے) دودھ بند کر دیئے تھے۔ ﴿فَإِنَّها مُحَرَّ‌مَةٌ عَلَيهِم ۛ أَر‌بَعينَ سَنَةً...٢٦﴾...سورة المائدة اچھا تو وہ ملک چالیس برس تک کے لئے ان پر حرام کر دیا گیا۔ پہلی آیت تسخیری اور دوسری جبری کی مثال ہے۔

تشریعی یہ ہے:﴿حُرِّ‌مَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم ...٢٣﴾...سورة النساء تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں الایۃ سب حرام کر دی گئی ہیں۔

ایتاء:

خدا کی طرف جب منسوب ہوتا ہے تو اس سے اس کے حکم کا عملاً نافذ ہونا مراد ہوتا ہے یہ تکوینی شکل ہے: مثلاً:

﴿فَأَتَى اللَّـهُ بُنيـٰنَهُم مِنَ القَواعِدِ...٢٦﴾...سورة النحل تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عمارتوں کو جڑ سے تباہ کر دیا۔

تشریعی: ﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ...٧﴾...سورة الحشر جو تمہیں رسول دے لے لیا کرو۔

انشاء:

قرآن میں یہ ہمیشہ تکوین (ایجاد) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ﴿قُل هُوَ الَّذى أَنشَأَكُم...٢٣﴾...سورة الملك وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔

مشیت:

کسی شے کو چاہنا اس کے معنی ہیں، خدا کا چاہنا، چیز کے ہونے کو لازم کر دیتا ہے۔ یہ بھی ''انشاء'' کی طرح صرف تکوینی حقیقت ہے، جس طرح 'محبت' صرف تشریعی حقیقت ہے۔

ان الفاظ کی وضاحت کی ضرورت اس لئے پڑی ہے کہ بہت سے لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہوتا ہے خدا خود کرتا ہے ہمیں خواہ مخواہ اس کا الزام دیتا ہے۔ حالانکہ جہاں یہی کیفیت اور صورت ہے خدا وہاں بندوں سے اس کی باز پرس بھی نہیں فرماتا۔ اور جہاں باز پرس ہوتی ہے، وہاں انسان کے لئے اس کی حیثیت تشریع کی ہوتی ہے، شریعت اسے ہی بنایا جاتا ہے جو انسان کے اختیار اور بس میں ہو۔ ﴿ لا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...٢٨٦﴾...سورة البقرة

جعل:

یہ بھی دو قسم کا ہے، تکوینی اور تشریعی۔ تکوینی کی مثال یہ ہے: ﴿اِإِنّا جَعَلنا فى أَعنـٰقِهِم أَغلـٰلًا...٨﴾...سورة يٰس ہم نے ان کی گردن میں (بھاری بھاری) طوق ڈال دیئے ہیں۔ ويجعل الرجس على الذين لا يعقلون (پ۱۱۔ یونس۔ ع۱) اور میں (کفر و شرک کی) گندگی ان ہی لوگوں پر ڈالتا ہے جو ہوش سے کام نہیں لیتے۔

ہمارے نزدیک: ﴿إِنّى جاعِلٌ فِى الأَر‌ضِ خَليفَةً...٣٠﴾...سورة البقرة میں بھی یہی جعل تکوینی مراد ہے۔ تشریعی نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر کا کہنا ہے۔ ہاں مفسرین کی ایک عظیم جماعت اسے تشریعی جعل قرار دیتی ہے۔ ولکل وجھة۔

جعل تشریعی کی مثال یہ ہے: ﴿ما جَعَلَ اللَّـهُ مِن بَحيرَ‌ةٍ وَلا سائِبَةٍ...١٠٣﴾...سورة المائدة اللہ نے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ) مقرر نہیں کیا۔ (یہ مباحث زیادہ تر شفاء العلیل لابنِ قیم سے کچھ مفردات راغب اور ابن کثیر سے ماخوذ ہیں)

بہرحال مندرجہ بالا خدائی اصطلاحات ہیں، جہاں تکوین (کسی شے کو ایجاد کرنے، مسلط کرنے خلق کرنے اور نتائج کو مرتب کرنے) کے معنوں میں ان کو استعمال کیا گیا ہے وہاں خدا کوئی الزام نہیں دیتا کیونکہ وہ بجائے خود 'خدائی اختیارات' کی بات ہے۔ اور جہاں تشریع (خدائی لائحہ عمل اور طرزِ حیات) کے معنی میں آئی ہیں وہاں جواب دہی کا بوجھ بھی بندوں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ اگر ان اصطلاحات کے اس فرق کو ملحوظ رکھ لیا جائے تو انشاء اللہ ذہنی الجھاؤ کے امکانات بہت کم رہ جائیں گے۔ بشرطیکہ کوئی از خود الجھاؤ پیدا کرنے کے موڈ میں رہنے پر مصر نہ ہو۔

فِیْ الْاَرْضِ (زمین میں، زمین پر) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے سوا اور جتنے سیارے، کرّے اور طبق ہیں، ان میں تکوینی نظام تو موجود ہے، تشریعی نہیں ہے۔ آسمانی دنیا میں جہاں فرشتے مصروف بہ تسبیح و تقدیس یا کسی خدمت پر مامور ہیں ان کا رنگ خالصتاً تکوینی اور طبعی ہے۔ تشریعی نہیں ہے۔ کیونکہ ویسا کرنے پر وہ مجبور اور مجبول ہیں۔ ان کا رنگ بالکل میکانکی اور قدرتی ہے۔ وما خلقت الجن والإنس إلّا ليعبدون میں بھی انسان اور جنوں سے مطلوب عبادت کا مطالبہ کیا گیا ہے مگر اس پر ان کو مجبور مخص نہیں پیدا کیا گیا۔ کیونکہ یہ بات تشریعی ہوتی ہے تکوینی نہیں ہوتی۔ ہاں دوسرے سیاروں یا آسمانوں میں 'قیادت' تو ضرور موجود ہے، لیکن ویسے جیسے بجلی کا سوئچ آف یا آن کرنے والی بات ہو کیونکہ وہاں جیسا کچھ ہو رہا ہے وہ بے نظام تو نہیں ہے لیکن جتنا اور جیسا کچھ ہے وہ سرتاپا تکوینی ہے، تشریعی نہیں ہے۔

اہلِ زمین میں سے جن کے لئے یہ تشریعی نظام اتارا گیا ہے، وہ بھی ان میں سے صرف انسان اور جن ہیں، ان کے علاوہ دوسری کسی جنس اور نوع کو خطاب نہیں کیا گیا۔

خَلِيفَة (جانشين، وارث، نمائندہ، ترجمان، نائب، بڑا بادشاہ، سردار) خلیفۃ کی جمع خلائف آتی ہے، خلفاء، خلیف کی جمع ہے خلیفہ کی نہیں۔ (مفردات راغب خ ل م)

یہاں پر 'خلیفہ' کے نام کا ذکر کیا گیا ہے، دوسری جگہ اسے 'بشر' سے تعبیر فرمایا ہے:

﴿وَإِذ قالَ رَ‌بُّكَ لِلمَلـٰئِكَةِ إِنّى خـٰلِقٌ بَشَرً‌ا...٢٨﴾...سورة الحجر
کہیں اسے 'انسان' کے نام سے یاد کیا ہے۔

﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ...١٢﴾...سورة المؤمنون
اس کی متعدد شکلیں ہیں:

خلافت نسلِ انسانی:

خدا نے کافی حد تک انسان کو با اختیار، خلاق، ذی استعداد اور مجاز پیدا کیا ہے، زمین اور فضائیں اس کے مسخر کر دی ہیں۔ بناؤ اور بگاڑ کا ملکہ رکھتا ہے۔ سرکشی اور اطاعت کی صلاحیت یکساں اس کو حاصل ہے۔ روئے زمین پر مہیب سے مہیب تر مخلوق کی موجودگی کے باوجود 'سرداری' صرف اس کو حاصل ہے۔ آسمان اور زمین کا دستر خوان صرف ابن آدم کے لئے بچھایا گیا ہے۔ چنانچہ بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ: فرشتوں کے سامنے جو انسان پیش کیا گیا تھا، وہ یہی انسان تھا، جو 'امامتِ عامہ'اور 'خاصہ' دونوں کی خصوصیات اور ملکات کا حامل تھا۔ 'مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ' سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ خدا کے سامنے پوری نوعِ انسان تھی، تنہا آدم نہیں تھا۔ بہرحال اسے 'خلافت نسلِ انسانی' کہتے ہیں اور خَلِیْفَه سے یہی خلافت مقصود ہے: کیونکہ اس میں فساد و خونریزی کا بھی ذکر ہے، اگر خلیفہ سے مراد خلیفہ برحق ہو، جس کے اولین نمونہ حضرت آدم علیہ السلام تھے تو فساد اور خون ریزی کی تلمیح اور الزام بے معنی رہ جاتا ہے۔ کہتے ہیں خلائف یا خلفاء کے بجائے 'خلیفہ' کا ذِکر اس امر کا ثبوت ہے کہ خلیفہ سے مراد، خلیفہ برحق تھے، اصل بات یہ ہے کہ اس وقت سب کے سب خلائف یا خلفاء نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک 'خلیفہ' کو بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ اس لئے خلائف یا خلفائے یا خلفاء کے بجائے 'خلیفہ' کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بقول علامہ راغب، خلیفہ دراصل خلائف کا واحد ہے، خلفاء کا نہیں، تو معلوم ہوا کہ یہاں وہ معنی مراد نہیں ہیں جو 'اصطلاحی خلیفہ' کے معروف ہیں۔ جہاں یہ 'اصطلاحی خلیفہ' مراد ہے، وہاں 'حکومت عدل' کی قید کے ساتھ موجود ہے جیسے: ﴿يـٰداوۥدُ إِنّا جَعَلنـٰكَ خَليفَةً فِى الأَر‌ضِ فَاحكُم بَينَ النّاسِ...٢٦﴾...سورة ص اے داؤد! ہم نے آپ كو زمين میں خلیفہ بنایا ہے، سو آپ لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کریں!' جہاں یہ قید نہیں وہاں با اختیار سردار اور وارث کے معنی میں آیا ہے ﴿وَهُوَ الَّذى جَعَلَكُم خَلـٰئِفَ الأَر‌ضِ وَرَ‌فَعَ بَعضَكُم فَوقَ بَعضٍ دَرَ‌جـٰتٍ...١٦٥﴾...سورة الانعام کہیں 'خلائف' کے بجائے 'خلفاء' بھی لایا گیا تو بھی معروف معنوں میں نہیں مثلاً: ﴿وَاذكُر‌وا إِذ جَعَلَكُم خُلَفاءَ مِن بَعدِ قَومِ نوحٍ...٦٩﴾...سورة الاعراف اے بھائیو! وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا۔ ﴿ثُمَّ جَعَلنـٰكُم خَلـٰئِفَ فِى الأَر‌ضِ مِن بَعدِهِم...١٤﴾...سورة يونس یعنی پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا۔ یہ سب کچھ کفار سے کہا جا رہا ہے ظاہر ہے وہ معروف معنوں میں خلیفہ نہیں تھے۔ بہرحال بعض اکابر نے 'خلافتِ نسلِ انسانی' کا نام 'خلافتِ قدرت' بھی رکھا ہے۔ اس لئے اگر کوئی صاحب اس کے معنی 'وارث اور سردار' کرے تو وہ کر سکتا ہے۔ کیونکہ روئے زمین پر نیک و بد سے قطع نظر اگر بلا استثناء کسی کی سرداری کا ڈنکا بجتا ہے تو وہ صرف نوعِ انسان ہی ہے۔

کسی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ''خلیفۃ اللہ'' کہہ کر مخاطب کیا تو فرمایا: مجھے 'خلیفۃ اللہ' نہ کہو، میں نائب خدا نہیں بلکہ نائب رسول ہوں اور یہی میرے لئے بس ہے۔ (خلفائے راشدین ص ۷۹ حصہ سیرت الصحابۃ۔ بحوالہ استیعاب تذکرہ ابو بکر) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معروف معنوں میں لفظ خلیفہ کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ صرف با اختیار سردار کے معنی میں اس کو لایا گیا ہے۔ کیونکہ جہاں بھی اس قصے کو بیان کیا گیا ہے، وہاں کسی قسم کی 'تشریع' کا ذِکر نہیں ملتا۔ ابن کثیر بھی اسی نظریہ کے قائل ہیں۔

أی قوماً یخلف بعضھم بعضا قرناً بعد قرن وليلا بعد ليل......... وليس المراد ھٰھنا بالخليفة اٰدم عليه السلام فقط الخ (تفسير ابن كثير)

خلافتِ رسالت:

دوسری خلافت، خلافتِ رسالت اور نبوت ہے، یہ خلافت تشریعی ہوتی ہے تکوینی نہیں ہوتی۔ نوعِ انسان کو بطور خلیفہ جو تمکن اور قدرت حاصل ہے، اس کو کنٹرول کرنے اور 'واصل بحق' رکھنے کے لئے تشریعی خلافت (خلافتِ رسالت) کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے، تاکہ نوعِ انسان اپنے اختیار کو غلط استعمال نہ کرے اور بے لگام ہو کر اتنی دور نہ بھاگ جائے کہ خدا کی کائنات میں رہ کر خدا سے بھی دور جا پڑے۔﴿يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ...٢﴾...سورة الجمعة معاملات میں آپ پیغمبر خدا سے اپنا مشورہ ذکر کر سکتے ہیں، لیکن اس پر اصرار یا اس کی مزاحمت کرنا شرعاً ممنوع ہوتا ہے۔﴿فَليَحذَرِ‌ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِ‌هِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾...سورة النور
خلافت رسول:

اس سے مراد، رسول کی جانشینی ہے، جس کو قرآنی زبان میں 'اولو الامر' بھی کہتے ہیں، اس سے غرض 'مقاصد نبوت' کا تحفظ، استحکام اور نشر و اشاعت ہوتی ہے، ایسی خلافت 'اَلْخِلَافَةَ عَلٰي منھاج النبوة' کہلاتی ہے، اسے 'تشريعی اختيارات' حاصل نہیں ہوتےل۔ وہ صرف کتاب و سنت کی ضیاء بار مشعلوں کی روشنی میں کاروبارِ حکومت کا سفر جاری رکھنے کی مجاز ہوتی ہے۔ معروف میں اس کی اطاعت اور منکر میں اس کے سامنے 'کلمۂ حق' کہنا دینی فریضہ ہوتا ہے۔ خلفاء سے نزاع اور اختلاف ممکن ہے لیکن قاطع نزاع کتاب و سنت ہوں گی۔ ﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سولِ...٥٩﴾...سورة النساء بشرطیکہ اس سے 'ملّت اسلامیہ کی وحدت' کو نقصان نہ پہنچے اور اس سے افتراق و انتشار کے امکانات ابھرنے نہ پائیں۔ ﴿وَلا تَنـٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ر‌يحُكُم...٤٦﴾...سورة الانفال گو اختلاف اور نزاع کے گھونٹ بڑے کڑوے ہوتے ہیں تاہم حکم یہ ہے کہ تلخ گھونٹ بہرحال نوش کرو۔ وَاصْبِرُوْا (پ۱۰۔ انفال۔ ع۶)

خلافت ابوت:

اس سے مراد بیٹے کا باپ کا وارث ہونا ہے۔ گویا کہ باپ کی وفات کے بعد بیٹا اس کا جانشین ہوتا ہے۔

خلافتِ بیعت:

خلافت کی یہ نوع صوفیاء کی ایجاد ہے، قاضی عبد النبی احمد نگری نے جامع العلوم الملقب بدستور العلماء میں 'جوامع الکلم' اسی کی خاصی فصیل نقل کی ہے اور اسی خلافت کا نام 'خلافت کبریٰ' بتایا ہے، یعنی ان کے نزدیک اسلامی حکومت 'خلافتِ صغریٰ' ہے اور مرشد کی طرف سے مرید کے لئے بیعت، رشد و ہدایت اور تزکیہ و طہارت کے مجاز ہونے کا نام خلافت کبریٰ' ہے۔ یعنی برعکس نام نہندزنگی کافور۔ بہرحال اس خلافتِ کبریٰ کا سلسلہ وہ بواسطہ حنین اور حسن بصری اور حضرت کمیل بن زیاد کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک پہنچاتے ہیں۔ ان میں سے حضرت حسن بصریؒ کا سلسلہ زیادہ معروف ہوا ہے لیکن جمہور محدثین کے نزدیک حضرت علیؓ سے حضرت حسن بصریؒ کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اگر ہو بھی تو بھی ان سے مصطلح تصوف کا ثبوت مشکل ہے۔ دراصل جب مسلمان حکمرانوں نے تبلیغ اور تزکیہ و طہارت کی ذمہ داریوں سے آنکھیں پھیر لیں تو اس وقت اہل دل بزرگوں نے، پرائیویٹ حیثیت میں 'تعلیم و تربیت' کے مرکز تخلیق کیے تاکہ خلقِ خدا کا تعلّق خدا سے قائم رکھنے کی کوئی سبیل بنی رہے۔ چونکہ حکمران اس قسم کی تحریکوں سے عموماً بدظن بھی ہو جاتے تھے، اس لئے انہوں نے بزرگوں کے مقابر کے آس پاس تربیت گاہیں تعمیر کیں، وہاں سے جو اہل دل علماء تیار ہوتے، ان کو بعض علاقے الاٹ کر دیئے جاتے اور وہ وہاں جا کر رشد و ہدایت کے ذریعے عوام کی خدمت کرتے، غوث، قطب، ابدال، ولی وغیرہ ان کے عہدوں کے نام تھے۔ دنیا عجوبہ پسند اور اوہام پرست زیادہ ہوتی ہے، اس لئے بعد میں یہ سلسلے بجائے خود عوام کے لئے فتنہ بن گئے، خاص کر لوگوں نے اس 'خلافت' پر قناعت کر لی اور اس 'خلافت عظمےٰ' کی طرف سے بے حِس ہو گئے جو دراصل سب روگوں کی واحد دوا تھی۔ یعنی خلافتِ راشدہ سے۔ گو یہ سب کچھ بہ امر مجبوری ہوا تاہم ﴿أَتَستَبدِلونَ الَّذى هُوَ أَدنىٰ بِالَّذى هُوَ خَير...٦١﴾...سورة البقرة پر منتج ہوا۔ اب تو افسوس! کہ یہ بھی باقی نہیں رہا۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیه رَاجِعُوْنَ.

مندرجہ بالا آیت میں جس خلافت کا ذِکر ہے وہ پہلی ہے، باقی رہی دوسری؟ سو وہ کاروانِ حیات کے لئے بانگ جرس کی حیثیت رکھتی ہے یا سفرِ حیات میں راہی اور مسافروں کی رہنمائی کے لئے مشعلیں اور سنگ میل جوان کو ملحوظ رکھیں گے وہ منزل پا لیں گے ورنہ بھٹک بھٹک جائیں گے۔ گویا کہ نسلِ انسانی کی افادی حیثیت کا دارومدار انہی مشعلوں پر ہے۔

حاصلِ آیت:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک ایسی ہستی کی تخلیق کا ذِکر فرمایا جو بہ اختیار بہ ارادہ اور تخلیقی صلاحیتوں کی حامل ہو گی۔

ہم نے اس کا ذِکر اس لئے کیا کہ اپنے مقام و مرتبہ کا احساس کریں اور خدا کا احسان مانیں۔ اور فرشتوں سے اس کا ذکر اس لئے فرمایا کہ:

ان کے بجائے اب کائنات میں 'چودھری' انسان ہو گا اور یہ ان کے خادم اور معاون۔ صورت حال کی اس تبدیلی سے ان کو آگاہ کرنا ضروری تھا۔ آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے ان سے مشورہ نہیں لیا بلکہ اپنے فیصلہ سے ان کو آگاہ کیا ہے، کیونکہ اس سلسلے کے کچھ کام ان سے بھی متعلق تھے۔

چونکہ یہاں ایک 'خلیفہ، منتظم اور مدّبر' کی حیثیت سے انسان کی تخلیق کا ذِکر کیا گیا ہے، اس لئے اس کی مادی تخلیق کی تفصیل سے ہم نے یہاں بحث نہیں کی۔ جہاں اس کا ذِکر آئے گا، وہاں اس سلسلے کی قابل ذکر تمام تفاصیل کو یکجا کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ تفسیر و تعبیر کی یہ طوالت غالباً آٹھ دس پاروں تک زیادہ تر رہے گی، پھر امید ہے، کافی کم ہو جائے گی۔ کیونکہ اکثر اہم موضوع اور مباحث ختم ہو جائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ باقی پاروں کی تفسیر کی ضرورت بھی باقی نہ رہے۔ غرض یہ ہے کہ جو مباحث قرآن میں مختلف مقامات پر مختلف اسلوب سے بیان کئے گئے ہیں انہیں یک جا مرتب کر دیا جائے تاکہ اس سلسلے میں قاری کو فائدہ پورا ہو۔ (مسلسل)