دینی تحریکوں کے لئے ایک نیا پروگرام

اسلام اپنے اندر جان آفرین قوت رکھتا ہے، یہ اس کا فطری خاصہ اور بنیادی جوہر ہے، لیکن کاغذ کے پرزوں میں پڑے پڑے نہیں، کیونکہ یہ کوئی تعویذ نہیں ہے، بلکہ جب اسے 'برپا' کیا جائے تو پھر ہی یہ ہر آن ایک نئی دنیا عطا کرتا ہے۔

کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہر پاکیزہ حسرت پوری ہو جاتی ہے اور ہر شایانِ شایاں اعزاز اسے مل جاتا ہے، فکر میں رفعت اور عمل میں جلا پیدا ہو جاتی ہے، اور مسلم دنیا میں ایک ایسا 'درخشندہ ستارہ' بن کر چمک اُٹھتا ہے کہ اس کا پورا ماحول 'بقعۂ نور' دکھائی دیتا ہے اور کائنات اسے روشنی کا مینارِ ہدایت تصور کرنے لگ جاتی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر قرآن کا حکم اور سنت رسول کریم ﷺ کی تصریحات گواہ ہیں۔

﴿وَلَو أَنَّهُم أَقامُوا التَّور‌ىٰةَ وَالإِنجيلَ وَما أُنزِلَ إِلَيهِم مِن رَ‌بِّهِم لَأَكَلوا مِن فَوقِهِم وَمِن تَحتِ أَر‌جُلِهِم...٦٦﴾...سورة المائدة
اور اگر یہ تورات، انجيل اور جو (كتاب) ان كے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی، قائم رکھتے تو ضرور اوپر سے (رزق برستا اور پاؤں کے تلے سے (ابلتا اور فراغت سے) کھاتے۔

﴿ـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَءامِنوا بِرَ‌سولِهِ يُؤتِكُم كِفلَينِ مِن رَ‌حمَتِهِ وَيَجعَل لَكُم نورً‌ا تَمشونَ بِهِ وَيَغفِر‌ لَكُم...٢٨﴾...سورة الحديد
مسلمانو! اللہ سے ڈرتے رہو اور (سچے دل سے) اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ کہ خدا اپنی رحمت میں سے تم کو دہرا حصہ دے اور تم کو ایسا نور عنایت کرے جس (کی روشنی) میں چلو اور وہ تمہارے گناہ (بھی) معاف فرمائے۔

﴿فَالَّذينَ ءامَنوا بِهِ وَعَزَّر‌وهُ وَنَصَر‌وهُ وَاتَّبَعُوا النّورَ‌ الَّذى أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿١٥٧﴾...سورة الاعراف
تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی حمایت کی اور ان کو مدد دی اور جو نور (ہدایت) ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے اس کے پیچھے ہوئے یہی لوگ کامیاب ہیں۔

یہ وہ اسلام ہے جس کی دنیا کو تلاش ہے، لیکن تلاشِ بسیار کے باوجود، کاغذی وعدوں کے سوا خارج میں اس کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ کیونکہ جو اس کے نام لیوا ہیں، وہ سب سے زیادہ تہی دامن ہیں اس لئے دنیا یہ تصوّر کرنے لگی ہے کہ اسلام ہی شاید مسلم کی اس کم مائگی کا ذمہ دار ہے، آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان کے پُرزور مطالبہ پر بوکھلا کر پنڈت نہرو بولے تھے کہ:

''کیا ایک خاص طرز کے لوٹے اور پاجامے کے علاوہ بھی مسلمانوں کی کچھ تہذیب ہے؟''

یہ طعنے مہنے، طنز و تعریفیں اور بدگمانیاں صرف اس لئے جنم لیتی رہتی ہیں کہ جس اسلام کا آپ تعارف پیش کرتے ہیں۔ خارج میں وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ حالانکہ یہ قصور آپ کا ہے اسلام کا نہیں ہے۔ اس لئے اس سلسلے کی ناحق بدگمانیوں کا جواب بھی کل آپ کو ہی دینا ہو گا۔ اگر بعد کی ان حماقتوں کی باز پرس حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہو سکتی ہے، جو آپ کے نام لیواؤں نے اختیار کی تھیں، حالانکہ حضرت 'روح اللہ' کا دامن ہر شائبہ سے پاک تھا، تو ہم سے ان کوتاہیوں کی باز پرس کیوں نہ ہو جن کے فی الواقع ہم مرتکب ہوئے ہیں؟ ہو گی اور یقیناًہو گی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کل اس کی جوابدہی کا بوجھ آپ کے دوشِ ناتواں پر نہ پڑے تو اسلام کو وہ مقام دینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیجئے جو اس کا حق ہے، اس کا کوغذوں کے دائرہ سے نکال کر عملی طور پر برپا کیجئے۔ یقین کیجئے! اللہ آپ کے ساتھ ہے۔

ہمارے نزدیک اس فریضہ کی ذمہ دار دینی تحریکیں ہیں۔ اگر وہ متحد ہو کر کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں کامیابی نہ ہو۔ وہ طریق کار اور ذرائع جو اسلام سے مناسبت بھی رکھتے ہوں اور مؤثر بھی ہوں، ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ جن کا یہاں استقصاء یا استیعاب مشکل ہے، ان میں سے جو چند ایک ہم اپنا بھی سکتے ہیں اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہیں، یہ ہیں:

اسلوبِ تبلیغ بدلیے:

اسلامی تبلیغ 'پیاماتِ اسلامیہ' کو اگلے گھر میں پھینک آنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ان سے مناسب رابطہ قائم رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے۔

(الف) مبلغ سراپا حاملِ اسلام ہو، انہیں دیکھ کر خدا یاد آجائے۔

(ب) جلسوں کے پلیٹ فارم سے تقریروں کی جو بمبارمنٹ ہوتی ہے۔ اس کا رنگ ہیجانی اور جذباتی قسم کا زیادہ ہوتا ہے جو تقریر کے ساتھ عموماً وہ بھی چلتا بنتا ہے، اس لئے انفرادی شکل میں یا وفدوں کی صورت میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ ان سے تبلیغی ملاقاتیں بھی کی جائیں، اس خصوصی رابطے کا فیضان نہایت مبارک اور خوش آئند ہوتا ہے، جس کی بدولت خود بخود تنظیمی حلقے بھی بنتے جاتے ہیں اور اس سے انہیں فعال بھی رکھا جا سکتا ہے۔ کام کی بہتات کی صورت میں ان حلقوں کو مختلف یونٹوں میں تقسیم کر کے قابلِ اعتماد علماء اور مصلحین کے حوالے کر دیا جائے تو کام کو آسانی سے سمیٹا بھی جا سکتا ہے۔

(ج) ان تقریروں اور ملاقاتوں میں فقہی یا کلامی اختلافات سے قطعی پرہیز کیا جائے، اور اپنی تبلیغ کو صرف ان حقائق تک محدود رکھا جائے جو ہم سب میں 'قدر مشترک' کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے ذریعے ایک بندۂ مسلم کو 'تزکیہ اور تطہیر' کی دولت ہاتھ آسکتی ہے، یا ان سے ائتلاف اور اتحاد کے مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔

(د) اس کے مناسب حال ان کو ایسا لٹریچر بھی مہیا کیا جائے جو عام فہم بھی ہو اور جاذب بھی، جس سے دل کی دنیا آباد اور کردار و عمل میں ایک روح پرور انقلاب آجائے۔

(ھ) مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عوام یا قوم کے سامنے ایک 'بندۂ مسلم' کی حیثیت سے پیش ہو، حنفی، شافعی، اہل حدیث، دیو بندی، بریلوی اور شیعہ کا لبادہ اوڑھ کر جانے سے حتمی طور پر پرہیز کیا جائے۔ کیونکہ اب سوال ان فرقوں کی حقانیت کا نہیں ہے بلکہ خود اسلام بحث کا موضوع بن گیا ہے، پہلے اس کو اس نرغہ سے نکالیے، مختلف مکاتیبِ فکر کو ایک 'تعبیر' سے زیادہ اہمیت نہ دیجئے، ورنہ یاد رکھیے! اسلام کو جو خطرات درپیش ہیں، وہ خاکم بدہن غارت گردین بھی ہو سکتے ہیں۔

اسلوبِ تعبیر:

مختلف مکاتیبِ فکر کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں، بیشتر وہ ہیں کہ اگر ان کو نہ چھیڑا جائے تو اس سے اسلام کے مستقبل کا کچھ بھی نہیں بگڑتا، مثلاً نورو بشر جیسے مسئلے، حضور کے بعد خلیفہ فلاں کو ہونا چاہئے تھا اور فلاں کو نہیں، رفع یدین، آمین بالجہر یا بعض معاملات کی نوعیت کے جو مسائل ہیں۔ ان کی بحثیں اگر اب نہ بھی چھیڑیں تو ظاہر ہے، اس سے اسلام کی حقانیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ اگر بعض مسائل پر کسی صاحب کو اصرار بھی ہو تو بھی اس کو 'اسلام اور کفر' کے معرکے میں تبدیل کرنے کے بجائے خالص علمی بحث تک ان کو محدود رکھا جائے۔

اقامتِ دین:

ہمارے تمام روگوں کی دوا اور ہماری ساری تمناؤں کی 'معراج' اقامتِ دین ہے۔ اگر یہ 'برپا ' ہو جائے تو یقین کیجئے! پھر کسی کے دل میں کوئی حسرت باقی نہیں رہے گی اور نہ کسی کو کسی سے کوئی گلہ باقی رہے گا۔ اس لئے اگر ہم اپنی اپنی دفلی بجانے کے بجائے 'اقامتِ دین' کے لئے دوسری تمام دلچسپیوں اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر قوم کے سامنے جائیں گے تو ان شاء اللہ پوری ملتِ اسلامیہ آپ کو نہایت محترم تصور کرے گی اور آپ کی بات کو ضرور اہمیت دے گی۔

چونکہ اسلام ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے دنیا میں قائم نہیں ہے اس لئے غیر مسلم دنیا بالخصوص اس کے مطالعہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، اور ہمارے جو سیاست دان مغرب زدہ ہیں، وہ بھی اس کی تقلید میں، اسلام سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلام کی برکات اور رحمتوں کا فیضان عام ہو اور دنیا بھی اسلامی حقائق کا احساس کر لے تو اس کو پورے طور پر غالب کرنے کی کوشش فرمائیں۔ کیونکہ حرکت کے بغیر برکت ممکن نہیں ہے۔

سیاست:

آج کل سیاست ہی سبھی کچھ ہو کر رہ گئی ہے، سیاست سے پرے ان کو اور کچھ نہیں دکھائی دیتا اس لئے جب اسلام ان کی خانہ زاد اور جعلی سیاست کے لئے غذا مہیا کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ اسلام کو ہی اپنا رقیب تصور کر بیٹھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان سیاسی کھلنڈروں سے انفرادی ملاقاتیں کر کے ان کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کیا جائے، اور ان پر یہ بات واضح کر دی جائے کہ اسلام آپ سے تخت و تاج کی بھیک نہیں مانگتا بلکہ وہ عطا کرتا ہے، آپ سے وہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ خدا کی زمین میں خدا کے غلام ہو کر رہیں اور دنیا پر حکومت کریں۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ: سیاسی بازی گر، جلسوں کے پلیٹ فارم سے براڈ کاسٹ کی ہوئی تقریروں سے راہ پر نہیں آئیں گے بلکہ خلوتوں میں جا کر، ان کو خوفِ خدا، آخرت کی جوابدہی اور محمد عربی ﷺ کے حقوق کا واسطہ دیا جائے، ہو سکتا ہے کہ ان کو ہوش آجائے۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

ہم چاہتے ہیں کہ تمام دینی تحریکیں اور ان کے رہنما حالیہ نئے سال کے لئے اسی پروگرام کو عملی جامہ پہنائیں، ان شاء اللہ منزل کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ ان لوگوں سے کہا جائے کہ حکومت آپ کو مبارک ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ، حکومت کو 'منہاج نبوت' کے مطابق چلائیں، تاکہ دنیا کے ساتھ آخرت بھی سلامت رہے۔ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا جو فریضہ آپ پر عائد ہوتا ہے اس کا اتمام بھی آپ کے ہاتھوں ہو۔

کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی یہ حکمتِ عملی اور حکیمانہ تبلیغی مساعی رنگ نہ لائیں۔ بس آپ اللہ کا نام لے کر اُٹھ کھڑے ہوں، اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی مدد کرے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ إن تنصروا الله ينصركم

تشدّد کی گولی سے مسائل کا حل

گولی کے ساتھ سیاسی مسائل کو حل کرنے کا جو سلسلہ چل نکلا تھا، جناب شیر پاؤ (اللہ ان کی مغفرت کرے) بھی اس کا شکار ہو گئے۔ انا للہ وانا الی راجعون۔

خون ناحق سب سے بڑی معصیت ہے، قرآن حکیم کا اعلان ہے کہ قیامت میں ایسے مجرم کی سزا دوسرے جرائم کی بہ نسبت دگنی ہو گی اور ذلیل ہو کر دوزخ میں بس پڑا ہی رہے گا۔

﴿يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ﴿٦٩﴾...سورة الفرقان
پہلی امتوں کو بھی یہی سنایا گیا تھا کہ قاتل نے گویا سارے لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

﴿مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ‌ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَر‌ضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا...٣٢﴾...سورة المائدة
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ناحق خونِ مسلم خدا کے نزدیک ساری دنیا کی ہلاکت سے زیادہ ناپسند ہے۔

لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنُ عَلَي اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلم (ترمذي)

بلکہ فرمایا کہ: آسمان اور زمین کی ساری مخلوق بھی اگر مسلم کے خونِ ناحق میں شریک ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اوندھے منہ ان کو دوزخ میں ڈالنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

لَو اَنَّ اَھْلَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِیْ دَمِ مُؤْمِنٍ لَاَکبَّھُمُ اللہُ فِی النَّارِ (ترمذی)

مگر افسوس! خدا کے نزدیک یہ جتنی سنگین بات ہے، اتنی عام بھی ہے، ہمیں اندیشہ ہے جو حکومتیں اس میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ خدا کے ہاں انہیں بھی مجرموں کے ہمراہ دھر لیا جائے۔ بہرحال ہم اس قسم کی گولی کی سیاست کی سخت مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے عہد میں اگلے پچھلے جتنے خونِ ناحق ہو چکے ہیں، بلا امتیاز ان کے مجرموں کو تلاش کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس قسم کے کھیلوں کا جائزہ رنجیت سنگھ کی آنکھ سے نہ کیا جائے بلکہ خالصۃً اور قانونی تقاضوں کے مطابق دی جائے۔

ماہِ محرم، عشرۂ محرم، تعزیہ

ماہِ محرم، ؁ ہجری کا ماہِ اول اور اسلامی سال کی پہلی خشت ہے۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے کہ سالِ رواں کو سکمیات کے بجائے 'اقامتِ حق' کے لئے مصروف رکھا جا سکے، اور جزع و فزع سے بالا تر رہ کر صبر و ثبات کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

سالِ ہجری، باطل سے حق، کفر سے اسلام اور دنیائے شرک سے توحید کی طرف ایک عظیم تاریخی سفر کی یاد گار ہے۔ اور وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ آپ کے سفرِ حیات کے خدوخال بھی کچھ ایسے ہی ہونے چاہئیں۔

عشرۂ محرم بالخصوص، اقامتِ دین اور اتمامِ توحید کے لئے 'مساعی جمیلہ' کے لحاظ سے ماہ بھر میں سب سے زیادہ معروف 'عشرہ' ہے۔ کیونکہ عاشورۂ محرم میں اللہ تعالیٰ نے طاغوت کے مقابلے میں حق کو غالب کیا تھا، اس دن فرعونیوں کے جھنڈے سرنگون، موسوی علم سر بلند، شیطان کے سر میں خاک اور طاعت گزاروں کے سر اونچے رہے تھے۔ ذریتِ فرعون کے گھروں میں نوحے تھے اور حق کے علمبرداروں کے ہاں شادیانے۔

ھذا يوم عظيم أنجى الله فيه موسٰي وغرق فرعون وقومه (بخاري و مسلم۔ عن ابن عباس)

رحمتِ عالم ﷺ نے بھی اس دن ہمیں یوم تشکر منانے کا حکم دیا ہے کہ روزے رکھا کریں۔

یحثنا عليه ويتعاھدنا عنده (مسلم)

اقامتِ دین کی راہ میں، مشکلات، الجھنوں اور مصائب کا ہجوم رہتا ہے، اس لئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ہمت نہ ہاریں۔ گرتوں کو سنبھالا دیں اور جو حوصلہ ہار گئے ہوں، ان کو تسلی دے کر تھامنے کی کوشش کریں۔ عربی میں اس طرز عمل کا نام 'تعزیہ' ہے۔ تعزیہ اس کا نام نہیں کہ، جو حوصلہ ہار گئے ہوں ان کو مزید بدحواس کر دیا جائے یا جزع فزع کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا جائے بلکہ إنا للہ وإنا إليه راجعون كا ورد کر کے اس نشہ کو اور دو آتشہ کر دیا جائے کہ اس کا مال تھا اسے بے داغ اس کے حوالے کر آئے، الحمد للہ۔

میدانِ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ علیہ نے راہِ حق میں سر تو دے دیا لیکن ہمت نہیں ہارے تھے، ہمیں حکم ہوتا ہے کہ اس مشن کو زندہ رکھیں۔ یزیدی روحوں سے مفاہمت کے بجائے شایانِ شان طریقے سے ان کا مقابلہ کریں۔ سر کٹ تو سکے، باطل کے سامنے جھکنے نہ پائے، یہ وہ اقدار ہیں، جن کا ماہِ محرم امین ہے۔ آج وہ آپ سے ان کا حق مانگتا ہے۔ کیا کوئی ہے جو اس کا جواب پیش کرے۔

مزارات پر مجلس ذکر

وفاقی وزارتِ مذہبی امور اور محکمہ اوقاف کے زیرِ سایہ، مزارات پر مجالس ذکر منعقد کرانے کی نوید سنائی گئی ہے۔ (نوائے وقت، ۶؍ فروری)

محکمہ اوقاف ہو یا مذہبی امور کی وزارت، قوم نے اس لئے نہیں قائم کیے کہ، سرکاری سرپرستی میں بدعات کا احیاء اور تخلیق کریں، نہ پاکستانی اربابِ اختیار کو ہم اربل کے میلادی حکمران الملک المظفر کو کیری تصور کرتے ہیں کہ وہ کوئی ابو الخطاب ابن دحیہ پیدا کر کے 'قبوری' فتنے تخلیق کیا کریں۔ اصل غرض یہ ہے کہ اوقاف کے لئے جائز مصارف تلاش کر کے دین و ملت کی خدمت کریں، اسلامی اخلاق، قرآنی عمل اور نبوی طرزِ حیات کے احیاء کے لئے مناسب اقدامات کریں۔ اگر اس کے بجائے ان کو سیاسی مطلب بر آری یا عوام کی اوہام پرستانہ دلچسپیوں کے لئے کوئی سامان کرنا ہیں تو پھر ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔

؎ اُٹھا لو پان دان اپنا

اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيءٌ عَظِيم

پچھلے دنوں میں سوات اور ہزارہ میں جو عظیم زلزلے آئے، ان کو گونج گرج ابھی تک کانوں میں سنائی دے رہی ہے، گو عہدِ حاضر کا ذہن اسے صرف طبیعی عوامل کا نتیجہ تصوّر کرتا ہے، ان کے پس پردہ کسی حکیم کا جو ہاتھ کام کر رہا ہے، وہ ان کو نظر نہیں آرہا، تاہم ہمارے لئے اس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ وجود میں آجانے کے بعد کوئی بھی چیز خود خدا نہیں بن جاتی کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کر ڈالے بلکہ اب بھی ان سب کی باگیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔

﴿ما مِن دابَّةٍ إِلّا هُوَ ءاخِذٌ بِناصِيَتِها...٥٦﴾...سورة هود
باقی رہا یہ کہ، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جہاں تکوینی محرکات ان کا محرک ہوتے ہیں، وہاں تادیبی تقاضے بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ ان حالات میں عموماً خشک کے ساتھ لکڑی بھی جل جاتی ہے اور گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پس جاتا ہے، اس لئے آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں ان کا حشر حسب اعمال ہو گا۔ کیونکہ وہ گھڑی امتیاز کی گھڑی ہو گی۔

بہرحال اس حادثہ میں وہاں کے باشندوں پر جو گزری وہ ایک قومی المیہ ہے۔ اس میں جن لوگوں نے دامے درمے قدمے اور سخنے جتنی اور جیسی کچھ کوشش کی، وہ اس کا بہت بڑا اجر پائیں گے۔ کیونکہ یہ صرف قومی اور انسانی فریضہ نہیں بلکہ دینی داعیہ بھی ہے۔

مختلف قائدین اور دینی بزرگوں نے اس حادثہ پر سخت صدمے اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان مصیبت کے ماروں کی دل کھول کر مدد کی جائے اور ساتھ ساتھ توبہ بھی کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آزمائش میں نہ ڈالے۔ یہاں توبہ افراد کی طرف سے کافی نہیں ہے بلکہ پوری قوم خدا کے حضور جھک کر اس سے معافی مانگے اور عہد کرے کہ الٰہی ہم تیرے فرمانبردار بن کر رہیں گے۔

دنیا کے اس زلزلہ سے ہمارے اوسان خطا ہو گئے ہیں اور اس پر ہمیں جتنی بھاگ دوڑ کرنا پڑی ہے یا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑی ہیں ہم سب کو معلوم ہیں، لیکن اس کے علاوہ ایک اور عظیم زلزلہ بھی درپیس ہے جسے ابھی تک ہماری آنکھوں سے مخفی رکھا گیا ہے، جو اس سے کہیں ہمہ گیر، خوفناک اور تباہ کن ہو گا، اس کے لئے بھی کچھ فکر کر لیجئے، یہاں کے زلزلے تو بے خبری میں آتے ہیں لیکن خدا نے ہمیں اس سے مدتوں پہلے خبردار کر دیا ہے کہ اس گھڑی سے خبردار ہو۔

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَ‌بَّكُم ۚ إِنَّ زَلزَلَةَ السّاعَةِ شَىءٌ عَظيمٌ ﴿١ يَومَ تَرَ‌ونَها تَذهَلُ كُلُّ مُر‌ضِعَةٍ عَمّا أَر‌ضَعَت وَتَضَعُ كُلُّ ذاتِ حَملٍ حَملَها وَتَرَ‌ى النّاسَ سُكـٰر‌ىٰ وَما هُم بِسُكـٰر‌ىٰ وَلـٰكِنَّ عَذابَ اللَّـهِ شَديدٌ ﴿٢﴾...سورة الحج
لوگو! اپنے رب کے عذاب سے ڈرو، قیامت کا زلزلہ ایک بڑی مصیبت ہو گی، جس دن وہ تمہارے سامنے آموجود ہو گی ہر دودھ پلانے والی (مارے ڈر کے) اپنے دودھ پیتے (بچے) کو بھول جائے گی۔ اور جتنی حمل والیاں ہیں سب کے حمل گر پڑیں گے (مارے بد حوالی کے) لوگ متوالے ہو رہے ہوں گے حالانکہ وہ متوالے نہیں بلکہ خدا کا عذاب بڑا سخت ہے (جس کے ڈر سے لوگ بد حواس ہو رہے ہوں گے) کیا آپ کو یہ 'عظیم زلزلہ' بھی یاد ہے؟

قرآن کریم کا وزنی نسخہ

ایک ایرانی خطاط چار سال سے قرآن کریم کے ایک نسخہ کی کتابت میں مصروف ہے جو دنیا کا سب سے بڑا اور وزنی نسخہ ہو گا۔ موتمر عالمِ اسلامی کے ہفتہ وار رسالے 'دی مسلم ورلڈ' نے اپنے تازے شمارے میں خبر دی ہے کہ ایک ایرانی خطاط محمد طالعی اور ان کے چھ خوشنویس بچے قرآن کریم کے اس نسخے کی کتابت کر رہے ہیں۔ اس نسخے کی تکمیل پر مزید بارہ سال لگیں گے۔ کیونکہ ابھی تک صرف ڈیڑھ سو آیتوں کی کتابت ہوئی ہے اور چھ سو صفحات تیار ہوئے ہیں اس نسخے کے صفحات کی لمبائی ساڑھے چھ فٹ او چوڑائی چار فٹ ہے۔ جب نسخہ مکمل ہو جائے گا تو اس کا وزن سات ہزار دو سو ساٹھ پونڈ ہو گا۔ پورے کام پر ڈیڑھ لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔ اس خطاط نے نسخے کے ہر صفحے پر نقش و نگار بنانے کے لئے تین سو رنگ استعمال کیے ہیں۔ (روزنامہ امروز۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۵ء)

صدق الله ورسوله ونشھد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ونشھد أن محمداً عبده ورسوله۔ رحمۃ للعالمین ﷺ نے صدیوں پہلے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ: ایک وقت آئے گا کہ:

اسلام کا صرف نام رہ جائے گا اور قرآن کے صرف حروف اور نقش و نگار، مساجد بنی ٹھنیں اور آباد مگر روح سے خالی اور ویران ہوں گی۔

یوشك أن يأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه ولا يبقى من القراٰن إلارسمه مساجدھم عامرة وھي خراب من الھدى الحديث (مشكوٰة بحواله شعب الايمان)

ہو سکتا ہے کہ اللہ اس کے جذبے اور محنت کا اجراء سے عطا فرمائے۔ لیکن جہان تک 'روحِ قرآن کا تعلق ہے، اس کے تحفظّ کا کسی کو کچھ خیال نہیں۔ بلکہ قرآنی نظامِ زندگی کا تصور آتے ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے موت سامنے آکھڑی ہو، یہ قوم بموں سے لڑ جاتی ہے، آگ سے کھیل سکتی ہے، پہاڑوں سے ٹکرا سکتی ہے، سیلابوں کے رُخ موڑ سکتی ہے اور دنیا جہان کی روشنی کا خطرہ مول لے سکتی ہے، اگر ان کے لئے کوئی چیز ان کے بس سے باہر ہے یا ذوق اور ہمتوں کے لئے جو شے ناقابلِ برداشت ہے تو وہ روحِ قرآن جیسی جان آفرین حقیقت ہے۔ جو قوم بڑے حوصلے سے سولہ سال قرآن حکیم کے نقش و نگار اور عجائبات کتابت کے لئے صرف کر سکتی ہے، اسی کے لئے یہ مسئلہ جاں گسل ہے کہ وہ قوم اور ملک پورا ایک دن قرآن کو دے سکیں، اس کے پاک سایہ کے نیچے گزار سکیں اور رحمتوں کا جو فیضان قرآن کی وساطت سے ان کو حاصل ہو سکتا ہے، اس کے لئے وہ دو گھڑی انتظار کر سکیں یا اس کو حاصل کر کے وہ خوش ہو سکیں۔

اصل بات یہ ہے کہ: مسلمان اب سستی بخشش کی تلاش میں ہیں، کہ قرآن کی آواز کی تو پرواہ نہ کی جائے لیکن اس کے لفظوں اور حروف کی خدمت کر کے آخرت بنا لی جائے اور زندگی میں ہی دنیا سے خراج تحسین وصول کر لیا جائے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ، کتابتِ قرآن کے سلسلے میں بڑی محنتیں ہو رہی ہیں۔ تاج کمپنی، اصح المطابع اور مجتبائی مطبع جیسے مطابع اس کی صحت اور خوشخطی کے نادر نمونے پیش کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ حکومت بھی اسی حد تک اس کی سرپرستی کرنے کی مدعی بن بیٹھی ہے لیکن اس کے نظام کو قبول کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے نہ سنجیدہ۔ بہرحال گو یہ 'خطاطی' خدمتِ قرآن کا ایک نادر نمونہ ہے تاہم حضور نے جو پیش گوئی فرمائی تھی، افسوس! وہ حرف بہ حرف ہم پر صادق آرہی ہے۔ اس لئے ہم پہلے سے زیادہ فکر مند ہو گئے ہیں کیونکہ خدا جانے کل اس کے نتائج کیا نکلیں؟

دل دھڑک رہا ہے

جمالِ وحدت جھلک رہا ہے جلالِ قدرت چھلک رہا ہے

نگاہِ ہستی کا گوشہ گوشہ تری چمک سے چمک رہا ہے

نیاز، راہِ نجاتِ عقبیٰ، غرور، قعرِ زوالِ ہستی

مگر صد افسوس اس رہِ مستقیم سے تُو بھٹک رہا ہے

ملال اس بات پر ہے مجھ کو کہ عمر گزری گناہ بن کر

نہ جانے کیا حال حشر میں ہو، یہ خوف دل میں کھٹک رہا ہے

کھُلا ہؤا نامۂ عمل ہے۔ بپا ہے محشر، وہ سامنے ہے

زبان ساکت، نظر پریشاں، خمیدہ سر، دل دھڑک رہا ہے

ہزار برسے گلوں پہ شبنم، ہزار دامن پہ اشک ٹپکیں

نہ بجھ سکے گا وہ شعلۂ غم، جو دل میں اپنے بھڑک رہا ہے

سکوں میّسر نہ شادمانی، فروغ حاصل نہ کامرانی

امید دل میں تڑپ رہی ہے خیال سر میں پھڑک رہا ہے

زہے یہ ہنگامِ ناز و غمزہ، خوشایہ وقتِ نیاز عاجزؔ

ادھر وہ پردہ اٹھار رہے ہیں ادھر مرا دِل دھڑک رہا ہے
٦٦