ایمان کی تکمیل اچھے اخلاق سے ہوتی ہے

بروایت ابو داؤدؒ اور دارمیؒ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔ «أکمل المؤمنین إیمانا أحسنھم خُلقًا» یعنی کامل ترین مومن خلیق ترین شخص ہوتا ہے۔

صاحب جوامع الکلم رسول خدا ﷺ کے اس فرمان کی حقیقت تک رسائی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ایمان و اخلاق کا اصلی مفہوم ذہن نشین کیا جائے پھر ایمان و اخلاق کا باہمی رشتہ سمجھا جائے۔

چنانچہ واضح ہو کہ اصطلاحِ شریعت میں ''ایمان'' باری تعالیٰ سے تعلق کی وہ روشنی اور قوت ہے جو مومن کے قلب میں جاگزیں ہو کر اسے امن و سکون، زبان میں راستی اور وظیفۂ اعضاء میں استواری ودیعت کرتی ہے۔ گویا انسان حال و قال سے خدا کی ذات و صفات کی تصدیق بن جاتا ہے۔ اور خلق سے مراد وہ عادات و اطوار ہیں جو انسانی اعمال کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔

مذکورہ تعریفوں سے دونوں کا باہمی تعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایمان اعمالِ خیر کا سرچشمہ ہے تو اخلاق و اطوار ان کے ظہور پذیر ہونے کا وسیلہ ہیں یعنی قوتِ ایمانی جس قسم کے اعمال کا موجب بنتی ہے۔ اخلاق و اطوار سے اسی قسم کے سانچے مہیا ہوتے ہیں۔ گویا اخلاق و عادات کے انہی سانچوں سے ایمان کے اثرات اعمال کی صورت میں متشکل ہوتے ہیں۔

ہمارے لئے ایمانِ کامل اور خلق عظیم کی اعلیٰ ترین مثال حبیب کبریا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ ہیں۔ قرآن کریم آپ ﷺ کے بارے میں گویا ہے: انک لعلی خلق عظیم۔ یعنی آپ ﷺ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ سورۂ النور میں تمثیلی پیرایہ میں اللہ تعالیٰ نے نور تنزیل کے لئے مشکوٰۃ (نبوت) کے لفظ سے آپ ﷺ کی مثال پیش کی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خدائی نور کے لئے خلق مجسم ہونے کی بنا پر دریچہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح آپ کو واسطہ بنائے بغیر خدائی نور سے فیض یابی ممکن نہیں اسی طرح آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کو اپنائے بغیر نورِ ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ سیرت پاک کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ ﷺ نے حق کی تبلیغ کیلئے خلقِ عظیم ہی کو اپنایا اور اسی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اخلاق حسنہ کو نہایت اہمیت دی ہے۔ امام غزالی کی احیاء علوم الدین سے چند ایک ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔

1. ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! دین کیا ہے؟ فرمایا: اچھا خلق۔

2. آپ ﷺ سے سوال ہوا: کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ فرمایا: اچھا خلق۔

3. نیز فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جنت میں صرف اچھے خلق والا ہی داخل ہو گا۔

مسند احمد کی ایک روایت میں تو آپ ﷺ نے ایمان کی تعریف بھی اچھے اخلاق سے کی۔ آپ ﷺ سے سوال ہوا۔ «ما الإیمان؟ قال: السماحة والصبر» یعنی ایمان کیا ہے؟ فرمایا: نرمی اور صبر۔

قرآن کریم میں برائی کے مقابلہ میں جیت کے لئے جن دو اخلاقی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا اشارہ ہے۔ مذکورہ بالا مسند احمد کی روایت میں ان کا صراحتاً ذکر ہے۔ ارشاد ہے:

﴿ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى بَينَكَ وَبَينَهُ عَد‌ٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ ٣٤﴾... سورة فصلت" یعنی برائی کا دفاع اچھے اخلاق سے کیجئے۔ آپ اپنے دشمن کو بھی گہرا دوست بنا لیں گے۔

احادیث اور سیر کی کتابوں سے آپ کی نرم دلی اور صبر کے دو واقعات ملاحظہ فرمائیں۔

1. آپ تبلیغ کے لئے طائف میں بنو ثقیف کے پاس جاتے ہیں اللہ کا پیغام سناتے ہیں لیکن جواب گالیوں اور پتھروں کی صورت میں ملتا ہے۔ زیادتی کی حد یہ ہے کہ آپ ﷺ جاں بچانے کے لئے بھاگتے ہیں تو کافر خونخوار کتے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ نہایت تھکاوٹ اور زخمی حالت میں جبریل امین اللہ کی طرف سے یہ پیام لے کر آتے ہیں کہ اگر خواہش ہو تو ظالموں کو وادیٔ طائف کے دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر ہلاک و برباد کر دیا جائے لیکن اس حالت میں بھی رحمۃٔ للعالمین سے یہ جواب ملتا ہے کہ اگر میری دعا سے یہ تباہ ہو سکتے ہیں تو یہی دعا میں ان کی ہدایت کے لئے کیوں نہ کروں؟ لہٰذا یہ دعا کی۔«اللھم اھد قومي فإنھم لا یعلمون» یعنی اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے یہ بے خبر ہیں۔

2. نجد کا والی ثمامہ بن اثال مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے تو آپ اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھنے کا حکم دیتے ہیں۔ پھر جب اس کی مزاج پرسی کے لئے اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ گالیاں دیتا ہے۔ صحابہ کو اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن آپ صبر سے واپس چلے آتے ہیں۔ تین دن یہی کچھ ہوتا ہے۔ ثمامہ نہایت گستاخی کرتا ہے اس خیال سے کہ یہ لوگ مجھے قتل تو کر ہی دیں گے میں کیوں نہ اپنی بھڑاس نکال لوں۔ لیکن اس کی امید کے برعکس خلق مجسم اسے رہا کرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں۔ رہائی کے تھوڑی دیر بعد ثمامہ واپس آن کر اسلام قبول کر لیتا ہے کہ آپ ﷺ نے مجھے ظاہری طور پر تو آزاد کر دیا ہے لیکن اندر قفل ڈال دیئے ہیں۔ یہ ہے خلقِ عظیم کا ثمرہ! افسوس آج اسلام کو تلوار سے پھیلانے کا طعن دینے والے اسلامی تبلیغ کے ایسے واقعات کو بھی سامنے رکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ اسلام تو ایمان کی تکمیل کا راستہ صرف اخلاق حسنہ کو ہی قرار دیتا ہے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

مدیر اعلےٰ نے یہ تقریر ۱۹؍ مارچ ۱۹۷۴ کو ریڈیو پاکستان سے کی

مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے ارتقائی مدارج

اُن کی اپنی اور اُن کے صاحبزادے کی تحریروں کی روشنی میں

درج ذیل سطور میں ہم مرزا صاحب کی نبوت کے ارتقائی مدارج درج کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ارتقائی مدارج خود منہاج نبوت کے شان کے خلاف ہیں لیکن مرزا صاحب ایک مبلغ سے مناظر۔ مناظر سے مصنف اور مصنف سے واعظ کی حیثیت میں متعارف ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے محدث کا روپ دھارا۔ پھر مجدد کے مرتبہ پر فائز ہوئے اور بالآخر نبوت کا دعویٰ کر ڈالا۔

مدارج:

''جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا احترام کرے۔ نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوئی ہے۔ وہ ایک اُمت بنائے جو اس کو نبی سمجھتی ہو اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہو۔'' (آئینۂ کمالاتِ اسلام۔ صفحہ ۳۴۴)

''آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرما دیا۔''

''مجھے کب جائز ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں کی جماعت سے جا ملوں۔ ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔''

''اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا۔''

2. مرزا صاحب بطور محدث:

یہ عاجز اللہ تعالیٰ کی طرف سے محدث ہو کر آیا ہے اور محدّث بھی ایک معنی سے نبی ہوتا ہے۔ اگر خدا سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتاؤ اس کو کس نام سے پکارا جائے۔''

3. تکمیلِ نبوت:

مرزا صاحب کا ارشاد ہے کہ ''میں جس طرح قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں، اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام تعین کرتا ہوں۔'' (حقیقۃ الوحی ۲۱۱)

جائزے

ایٹمی توانائی کی اتنی ارزانی اور مسلم تہی دامن؟ اُف:

''اب بھارت جیسا بنیا'' بھی ایٹمی شاہسواروں میں شامل ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے ان سائنسدانوں کو واپس لانے کی ایک سکیم بھی بنا لی ہے جو بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایٹمی بھٹی میں مزید آب و تاب پیدا کرنے کے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہے۔

دنیا میں ایٹمی طاقت بننا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا، جن سیاسی رہنماؤں کو اپنی کرسی سے اپنی قوم کا مستقل زیادہ عزیز ہوتا ہے وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہ سکتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب شلغم اور آلوؤں کی طرح ایٹم بموں کی بھی ریل پیل ہونے کو ہے۔ کیونکہ دنیا کی ہر قوم اپنی ہمسایہ اقوام سے بدگمان بھی ہے اور ان پر دھونس جمانے کی خواہاں بھی۔ ویسے بھی پہلی جن عظیم پانچ ایٹمی طاقتوں کو ایٹمی توانائیوں پر کنٹرول حاصل ہے، ان کی اجارہ داری کی وجہ سے کمزور اقوام کا جو حشر ہوا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ان کے رحم و کرم پر رہنا بڑی حماقت ہے۔ اس لئے ایٹمی طاقت بننے کا جنوں روز افزوں ہے مگر ایٹمی توانائی کی اتنی ریل پیل کے باوجود مسلم تہی دامن ہے، صرف ایٹمی اسلحہ کا یہاں رونا نہیں، عام قسم کے اسلحہ کے لحاظ سے بھی خود کفیل نہیں ہے، اسلحہ کی بھیک مانگتا ہے اور بالکل منگتوں جیسا اس کا حال ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے کچھ دے دیتا ہے جس کا دل چاہتا ہے ''معاف کرو'' کہہ کر ٹال دیتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ وہ رسوائی ہے جس سے پوری ملت اسلامیہ کی پیشانی داغدار ہے۔ اس لئے نہیں کہ مسلمان اپنی عسکری طاقت اور جنگی طاقت پوری کرنے کے قابل نہیں رہے بلکہ صرف اس لئے کہ وہ ''مسلم'' نہیں رہے۔ متحد نہیں رہے۔ انکو اپنی حت ملی کا احساس نہیں رہا، اپنی علاقائی حدود میں محور ہیں۔ حدود فراموش وسائل رکھنے کے باوجود، ان سے استفادہ کرنے کا سلیقہ نہیں رکھتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ہاں جو قیادت برپا ہے وہ کافی حد تک نا اہل ہے۔ جو قابض ہیں، وقت پاس کرتے ہیں۔ قوم کی خدمت نہیں کرتے، ورنہ کیا نہیں ہو سکتا؟

وقت اور حالات کی ترشی سے اگر اب بھی ان کا نشہ دور نہ ہوا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل ان کا کیا بنے؟ اس لئے ہر ملک کے عوام اور خواص کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اپنے ان سیاسی گرؤوں کو فعال بنائیں، حرکت میں نہ آئیں تو ان کو بدل دیں۔ امت مسلمہ کا مقام اعداء اللہ کے نیچے لگ کر چلنا نہیں بلکہ ان پر چھا کر ان کو لے کر چلنا ہے، بھیک مانگنا نہیں۔ منگتوں کو دینا ہے۔ صید زبوں ہو کر جینا نہیں، صیاد بن کر دشمنانِ خدا کو شکار کرنا ہے۔ ﴿وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ١٣٩﴾... سورة آل عمران

کیا ربوہ قادیانیوں کی الگ ایک ریاست ہے؟

''پشاور سے آنے والی بارہ ڈاؤن چناب ایکسپریس پر ربوہ ریلوے سٹیشن پر ایک فرقہ (مرزائیہ) کے تقریباً پانچ ہزار افراد نے ملتان کے نشتر میڈیکل کالج کے ۱۶۰ پردیسی طلبہ پر حملہ کر دیا، حملہ آور خنجروں، لاٹھیوں، تلواروں، ہاکیوں، سوؤں سے مسلح تھے۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے طلبہ کا سامان ڈبوں سے باہر پھینک دیا اور انہیں بالوں سے پکڑ کر پلیٹ فارم پر گھسیٹا گیا۔ اسی حملہ کے نتیجہ میں ۴۵ طلبہ سخت زخمی ہو گئے جن میں تیرہ کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ یہ حملہ ۴۵ منٹ تک جاری رہا'' (نوائے وقت و مساوات، ۳۰؍ مئی)

طلبہ کے خلاف اگر اہلِ ربوہ کو کوئی شکایت تھی تو عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ ان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جا سکتی تھی لیکن خود بڑھ کر ''خود مدعی اور خود جج'' ہونے کی بدترین مثال قائم کر کے انہوں نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ وہ الگ ایک ریاست ہے اور ان کا اپنا سب سے جدا ایک نظام عدالت ہے۔ اس کا دوسرا پہلو جو سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ:

ربوہ میں قادیانی مومنین کے لئے امام جماعت احمدیہ کی مرضی اور ایماء کے بغیر کوئی اقدام کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے اس شرمناک دھاندلی کے پس پردہ جو ہاتھ کار فرما ہو سکتا ہے وہ یقیناً مرزا ناصر کا ہی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اس لئے گرفتار کرنا تھا تو سب سے پہلے مرزا ناصر کو گرفتار کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس فتنہ اور اس سارے المیہ کا بنیادی کردار وہ خود ہیں۔

حکومتِ پاکستان سے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلم فوجی ماہرین کے ذریعہ پورے ربوہ کی آبادی اور علاقہ کی تلاشی لے اور اسلحہ کے جو انبار انہوں نے لگا رکھے ہیں ان پر قبضہ کر لے اور در پردہ جو سکیمیں اور منصوبے مرتب کیے گئے ہیں ان کا سراغ لگائے کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ اہل ربوہ کی طرف سے کسی بھی وقت کوئی بڑا اقدام کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ پوری جماعت پورے ملک کے لئے ایک عظیم آزمائش اور فتنہ ہے، کیونکہ ان کی تخلیق سے غر ہی ''فتنہ پروازی'' تھی۔ ۱۸۶۹ء میں حکومت برطانیہ نے ایک کمیشن کو ہندوستان بھیجا تھا تاکہ ان کو رام کرنے کے لئے ان کا مزاج معلوم کرے۔ ۱۸۷۰ء میں اسی وفد نے وائٹ ہال لندن میں ایک کانفرنس میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ سر ولیم ہنٹراس میں لکھتا ہے کہ:

''مسلمانوں کا مذہب یہ عقیدہ ہے کہ وہ کسی غیر ملکی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لئے غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کرنا ضروری ہے۔''

اس کانفرنس میں ہندوستان سے پادریوں کا ایک گروپ بھی شریک ہو تھا، اس نے اس میں یہ رپورٹ دی: ''یہاں کے باشندوں کی اکثریت پیری مریدی کے رجحانات کی حامل ہے۔ اگر اس وقت ہم کسی ایسے غدار کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں جو ظلی نبوت کا دعویٰ کرنے کو تیار ہو جائے تو اس کے دعوائے نبوت میں ہزاروں لوگ جوق در جوق شامل ہو جائیں گے لیکن مسلمانوں میں سے اس قسم کے دعوٰے کے لئے کسی کو تیار کرنا ہی بنیادی کام ہے ....... ان حالات میں ہمیں کسی ایسے منصوبہ پر عمل کرنا چاہئے جو یہاں کے باشندوں کے داخلی انتشار کا باعث ہو۔''

(دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا رپورٹ کانفرنس منعقدہ ۱۸۷۰ء)

علامہ اقبال کے نزدیک بھی یہ فرقہ ضالہ انتشار پسند اور غدار ہے۔'' پنڈت نہرو کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:

''میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے مقالہ اسلام اور ہندوستان کے ساتھ بہتری نیتوں اور نیک ترین ارادوں میں ڈوب کرلکھا۔ میں اس باب میں کوئی شک و شبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ یہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔''

کچھ پرانے خطوط مرتبہ جواہر لال نہرو و مرجمہ، عبد المجید الحریری ایم اے ص ۲۹۳

مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی

بہرحال ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اب ہنگامی نوعیت کا نہیں رہا۔ اس کو بنیادی طور پر حل ہو جانا چاہئے۔ ربوہ کی ریاستی حیثیت کو ختم کر دینا چاہئے۔ اس کے تہہ خانوں سے اسلحہ برآمد کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ ان کے امام مرزا ناصر کو گرفتار کر کے ان کی عسکری اور خفیہ سیاسی سکیموں کے خلاف مقدمہ چلانا چاہئے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ہمیشہ کے لئے یہ قصہ ختم ہو جانا چاہئے۔

جن طلبہ پر زیادتی کی گئی ہے ان کی تلافی کی کوئی معقول صورت پیدا کر کے ان کی داد رسی کی جائے۔

علمائے ملّت نے متفقہ طور پر اس المیہ کی سخت مذمت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا ایک حصہ ہے اور کلیدی اسامیوں پر جتنے مرزائی فائز ہیں۔ وہ بھی مرزائیوں کی دھاندلیوں میں ان کے ساتھ عملاً شریک رہتے ہیں۔ اس لئے ان کی یہ کلیدی اسامیاں ختم ہونا چاہئیں۔ ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جانے کا اندیشہ ہے کیونکہ بات اب بزرگوں کے ہاتھ سے نکل کر لڑکوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ اگر حکومت نے صورتِ حال کی اس نزاکت کا احساس نہ کیا تو یہ اس کی سیاسی بے بصیرتی کی دلیل ہو گی۔

پاکستان میں عربی زبان کے فروغ کے لئے کوشش:

پاکستان اور عرب ممالک کے مابین تعلقات کی استواری کے لئے نیک فال ہے مگر اب تک اس کی کیفیت یہ تھی کہ ؎
زبانِ یارِ من تُرکی ومن تُرکی نمے دانم

اردو ان کو نہیں آتی تھی، عربی سے ہم کورے تھے، اس لئے دوستی کچھ زیادہ پر لطف نہ رہی۔

چنانچہ حکومتِ پاکستان نے اس کا احساس کیا اور عربی کے فروغ کے لئے مناسب کوشش شروع کر دی لیکن اس کا سلسلہ ''تعلیم و تعلم'' سے آگے نہیں بڑھا۔ مناسب یہ تھا کہ عربی افاضل کی کم از کم اتنی حوصلہ افزائی کی جاتی جتنی انگریزی خوانوں کی کی جاتی ہے ورنہ برائے ثواب اسے لوگ پڑھنے سے رہے۔ کیونکہ حکومت نے عربی کے فروغ کے لئے جو کوششیں شروع کی ہیں ان کا محرک صرف سیاسی داعیہ اور ضرورت ہے، قرآن و حدیث کی عربی زبان سے مناسبت پیدا کرنے کا جذبہ نہیں ہے ورنہ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی ثواب کیا ہو سکتا ہے؟

جب تک عربی سے کورے حکمران اور حکام باقی ہیں وہ جیتے جی تو یقیناً عربی کے فروغ اور اس کو اہمیت دینے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش مشکل سے ہی کریں گے۔ کیونکہ اس طرح ان کی اپنی قمت گر جاتی ہے۔

یہ کس قدر آزار دِہ المیہ ہے کہ ربع صدی گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک انگریزی سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ ہم اس زبان کے حصول کے خلاف نہیں ہیں، دراصل ہم مخالف اس کے غلبہ اور تسلط کے ہیں۔ جہاں تک بیرون ممالک سے رابطہ کے لئے اس کی ضرورت ہے یا سائنسی قسم کی فنی ضرورت کے لئے اس زبان کی طرف رجوع کرنے کی بات ہے اس حد تک اس کو نطر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کو معیار فضیلت بھی قرار دیا جائے؟ ملک و ملت کی خود داری کی توہین کے مترادف ہے۔

دین و ایمان کا اولین سرمایہ اور ہبط جبرائیلی عربی زبان ہے۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام اور مملکتِ اسلامیہ جمہوریہ۔ ظاہر ہے اس صورت میں عربی زبان کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔ مگر افسوس! ہمارے آقا، رہنما اور حکمران وہ طبقہ ہے جو نہیں جانتا عربی کیا شے ہے اور کس سے کھائی جاتی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ دریا پر پل بنانے کے لئے جس انجینئر کا انتخاب کیا جائے وہ اس فن کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو۔ سرکاری مذہب اسلام مگر سرکار، اسلام کی اصلی زبان سے بالکل ناواقف، اتنا مضحکہ خیز اور بے جوڑ ٹانکا ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتا۔ اگر عربی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کو اہمیت بھی دیجئے ورنہ واویلا چھوڑ دیجئے۔

بھارت کی جارحیت کا خطرہ:

ایٹمی دھماکہ کے بعد بھارتی جارحیت اور اس کے توسیعی عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں جیسا کہ ادارتی کالموں میں ہم نے بارہا لکھا ہے کہ قومِ ہنود پاکستان کے علاوہ افغانستان پر بھی للچائی ہوئی نگاہ رکھتی ہے۔

دراصل یہ قوم طویل عرصہ تک بنی اسرائیل (قوم یہود) کی طرح غلام رہنے کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو گئی ہے اس لئے وہ آگے بڑھ بڑھ کر اپنی دھونس جمانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ وہ اپنی اس کمزوری کو چھپا سکے اور خود اپنے کو بھی فریب دے سکے کہ وہ اب بہت کچھ ہے حالانکہ یہ مقام، فرض کر لینے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ قدرتی چیز ہے، جن اقوام اور ملل کے حصے میں آگیا ہے وہی اس مقامِ خود داری پر فائز رہتی ہیں۔ سیاست اور میدانِ حرب و ضرب مسلم کے خمیر اور گھٹی میں داخل ہے۔ قوم ہنود بہ تکلف جتنی چاہے اس مقام پر قبضہ جمانے کی کوشش کرے بہرحال یہ قوم، مرد میدان نہیں ہے اور نہ بنائے بن سکے گی۔ اس لئے ہمارا اندازہ ہے کہ کچھ مہلت ملنے کے بعد پھر یہ کسی وقت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جائے گی۔ کیونکہ چلو بھر پانی میں اُبھر کر چلنے والی اقوام کا انجام عموماً ایسا ہی ہوا ہے۔

ہمیں اس سلسلہ میں گلہ اپنے افغان بھائیوں اور ان برادر مسلم ممالک سے ہے جو اس کی پاکستان دشمنی کے باوجود قومِ ہنود سے یارانے بڑھانے میں فخر محسوس کرتی ہیں، افغانستانیوں کو چاہئے کہ وہ اس مرحلہ پر غور کر لیں تاکہ کل ان کو پچھتانا نہ پڑے۔ آج سے تقریباً ستر ۷۰ سال پہلے ہندو لیڈروں نے یہ اعلان کیا تھا کہ:

''پس اگر ہندوستان کو کبھی آزادی ملے گی تو یہاں ہندو راج ہو ا۔۔۔ اگر ہندو قوم میں آئندہ بیدار ہو گی تو نہ صرف ہندو راج قائم ہو جائے گا بلکہ مسلمانوں کی شدھی، افغانستان کی فتح وغیرہ باقی ضروری آورش (نصب العین) بھی پورے ہو جائیں گے۔''

(اخبار ملاپ لاہور ۲۳ ؍ جون ۲۵ء ص ۹)

افغان قوم کے لئے یہ سونے کا مقام ہے کہ ان کے لیڈر افغانستان میں قوم ہنود کا اثر و رسوخ بڑھا کر ان کو اپنے توسیعی عزائم کی تکمیل کے لئے خود ہی مواقع مہیا کرنے لگے ہیں کہیں وہی بات نہ ہو، جس کا ہندو لیڈروں نے اعلان کیا تھا۔

بہرحال بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا چاہئے اور کسی تاویل پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ ایٹمی طاقت بننے میں کوتاہی کرنا مجرمانہ غفلت ہو گی۔ آپ آگے بڑھیں یقین کیجئے پوری قوم اس سلسلے میں حکومت سے پورا پورا تعاون کرے گی اور ان رہنماؤں کو قومی ہیرو تصور کرے گی جو اس میدان میں اپنے آپ کو پوری قوم کے اعتماد کا اہل ثابت کر پائیں گے۔ گو آپ نے روٹی کپڑے کا ''بے وفا وعدہ'' کیا ہے تاہم ہم بھوکے ننگے رہ کر اپنی آخری پونجی تک اس پر لگا دیں گے۔ یقین کیجئے! اب ایٹمی دوڑ شروع ہو چکی ہے اور ہزار بندشوں کے باوجود سینکڑوں حیلوں بہانوں کے ذریعے ہر قوم ایٹمی طاقت بننے کے لئے ضرور جتن کرے گی۔ اب بھی اگر آپ پیچھے رہے تو ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کر ہماری اور کوئی بد نصیبی نہیں ہو گی۔