گِر گِر کے پہنچتے ہیں سرِ بام ہمیشہ
ملتا ہے جہاں میں انہیں آرام ہمیشہ آتے ہیں جہاں والوں کے جو کام ہمیشہ
معلوم ہوا جب سے یہ ہیں تیری طرف سے ہم سہتے ہیں ہنس ہنس کے سب آلام ہمیشہ
ممکن ہے مقرب ہو وہ دربارِ خدا میں رہتا ہے جو آفاق میں گمنام ہمیشہ
مٹتے رہے مٹ جائیں گے اسلام کے دشمن دنیا میں رہے گا مگر اسلام ہمیشہ
حاصل ہوئی حق ہی کو ظفر دہر میں آخر حق والوں پہ گو آئے ہیں الزام ہمیشہ
غم تھا نہ کوئی وسوسۂ سود و زیاں تھا یاد آتے ہیں بچپن کے وہ ایّام ہمیشہ
ہے نزع، کہیں موت، کہیں قبر، کہیں حشر دل کیوں نہ رہے لرزہ براندام ہمیشہ
پہچان ہے اللہ کے ولیوں کی یہ اے دوست دیتے ہیں دُعا سُن کے وہ شنام ہمیشہ
جینا ہو، کہ مرنا ہو، خوشی ہو، کہ غمی ہو رکھ سامنے اللہ کے احکام ہمیشہ
پہچان ہے اللہ کی اک یہ بھی تو عاجزؔ
پاتا نہیں ہر کام سر انجام ہمیشہ