زیر نظر آرٹیکل میں جواباً تلخ نوائی تو کسی حد تک گوارا ہو سکتی ہے لیکن جوابات میں بعض جگہ عالمین بالحدیث کے متعلق بھی اجتہاد کے حریف 'فرقہ' ہونے کا احساس ہوتا ہے جو پیش کردہ حدیث 'وھی الجماعة (ما أنا علیه وأصحابی) کی صحیح تعبیر نہیں ہے۔ (ادارہ)
17. جب یہ ثابت ہو گیا کہ فلاں فعل یا قول نسیاناً یا اجتہادی غلطی سے سرزد ہوا ہے تو ہم اس کے مکلّف ہی نہیں اور ہمارے لئے وہ جائز ہی نہیں، بلکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہےکہ اتباع کے بجائے مجھے غلطی یاد دلاؤ تاکہ میں وہ غلطی درست کر لوں۔ چنانچہ مشکوٰۃ میں ہے:
«عن عبد اللہ بن مسعود أن رسول الله ﷺ صلي الظھر خمسا فقيل له أزيد في الصلوٰة فقال وما ذاك قالوا صليت خمسا فسجد سجدتين بعد ما سلم وفي رواية قال إنما أنا بشر مثلكم أنسي كما تنسون فذكروني» (الحديث)
یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھا دی۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کیا نماز میں زیادتی ہو گئی ہے؟ آپ ﷺ نے پوچھا، کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا، آپ ﷺ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے سہو کے دو سجدے کیے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم جیسا بشر ہوں اور تمہاری طرح ہی بھول جاتا ہوں۔ جب بھول جاؤں، مجھے یاد دلایا کرو۔ اس کو بخاری، مسلم نے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ ص 92)
اس حدیث میں آپ ﷺ نے اپنی غلطی کی اتباع کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کی اصلاح کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ صحابہؓ نے جب یاد دلایا تو آپ ﷺ نے اپنی نماز کی اصلاح کر لی اور یہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ کئی دفعہ ایسا ہوا، چنانچہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعت نماز پڑھائی، ذو الیدین کے یاد دلانے اور دیگر صحابہؓ کے تصدیق کرنے کے بعد باقی نماز پوری کی اور سجدہ سہو کیا۔ اس کو بخاری مسلم نے روایت کیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ایک دفعہ عصر کی تین رکعت پڑھائیں اور گھر چلے گئے۔ ذو الیدین آپ ﷺ کے پاس گیا اور کہا تو آپ ﷺ غصہ سے چادر کھینچتے ہوئے آئے اور فرمایا کیا یہ سچ کہتا ہے؟ صحابہؓ نے کہا ہاں، تب آپ ﷺ نے ایک رکعت پڑھائی اور بعد از سلام سجدہ سہو کیا اس کو مسلم نے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ ص 93)
ان واقعات سے ثابت ہواکہ آپ ﷺ کے وہ افعال جو آپ ﷺ سے نسیان یا اجتہادی خطا سے سر زد ہوئے ان کی اتباع کا ہمیں حکم نہیں۔ آپ خوا مخواہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان پر ہی عمل کریں۔ یہ آپ کی کم عملی اور کم فہمی پر دال ہے۔ اس طرح ہر حدیث پر عمل ہو گیا کیوں کہ آپ ﷺ نے اپنی غلطی کی اصلاح کا حکم دیا ہے نہ کہ غلطی کی اتباع کرنے کا۔ آپ ہمیں حدیث سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود حدیث میں کمزور ہیں۔
18. آپ صرف حدیث کا نام لیتے ہیں حالانکہ قرآن میں بعض اجتہادی غلطیاں اور نسیان مذکور ہیں چنانچہ اسارٰے بدر سے فدیہ لے کر چھوڑ دینا اور شہد اور لونڈی ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام ٹھہرانا، جیسا کہ ارشاد ہے:
«لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاةَ اَزْوَاجِكَ»
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے لئے حلال کیا ہے اس کو اپنی ازواج مطہرات کو خوش کرنے کے لئے کیوں حرام کرتے ہیں؟
تو آپ کو چاہئے کہ ان میں بھی آپ ﷺ کی اتباع کریں اور شہد وغیرہ اپنے پر حرام ٹھہرائیں، جب آپ خود اس پر عامل نہیں تو ہم پر کیا اعتراض کرتے ہیں۔
19. بہرحال ہر حدیث پر عمل ہو سکتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کی اتباع فرض ہے اور اسی سے خدا کی محبوبیت حاصل ہوتی ہے اور اسی میں دونوں جہان کی کامرانی ہے اور آپ ﷺ کی اتباع کا پورا علم حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا اس کی اتباع ممکن بلکہ فرض ہے۔ نیز حدیث دین کا ایک جزو ہے، یعنی شرع کے چار دلائل ہیں۔ قرآن مجید، حدیث شریف، اجماع امت اور صحیح قیاس، جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں اور ہر دلیل کی اتباع فرض ہے تو حدیث کی اتباع فرض ہے۔ جب حدیث کی اتباع فرض ہوئی تو ہر حدیث پر عمل کرنا عین ممکن ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور رؤف و رحیم ہے۔ اپنے کمزور بندوں پر تکلیف ما لا یطاق فرض نہیں کرتے۔
جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها﴾ پھر خواہ مخواہ آپ ممکن کو ناممکن اور ضدین سمجھ رہے ہیں۔ یہ آپ کی کوتاہ علمی ہے۔ بر ایں عقل و دانش بباید گریست۔
جب ہر حدیث پر عمل ممکن ہے جیسا کہ صحابہؓ اور سلف صالحین نے کر کے دیکھا یا ہم اہل حدیث کرتے ہیں تو جو شخص اس معنی سے اپنے آپ کو اہل حدیث کہے، وہ بالکل سچا ہے اور یہ نام بھی بالکل درست ہے اور اس کے سارے کام بھی اللہ کے فضل سے درست اور مقبول ہیں کیونکہ وہ نبی ﷺ کے اعمال ہیں اور نبی ﷺ کے سارے اعمال مقبول اور کھرے ہیں اور جو صحیح حدیث کو چھوڑ کر یعنی نبی ﷺ کی اتباع سے اعراض کر کے کسی اُمتی امام معین کی رائے قیاس پر عمل کرے وہ گھاٹے اور دھوکے میں ہے۔ قیامت کو حسرت سے اپنے دونوں ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھایا کرے گا اور اس کا کوئی علا نہ ہو سکے گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے:
﴿وَيَومَ يَعَضُّ الظّالِمُ عَلىٰ يَدَيهِ يَقولُ يـٰلَيتَنِى اتَّخَذتُ مَعَ الرَّسولِ سَبيلًا ٢٧ يـٰوَيلَتىٰ لَيتَنى لَم أَتَّخِذ فُلانًا خَليلًا ٢٨ لَقَد أَضَلَّنى عَنِ الذِّكرِ بَعدَ إِذ جاءَنى ۗ وَكانَ الشَّيطـٰنُ لِلإِنسـٰنِ خَذولًا ٢٩ وَقالَ الرَّسولُ يـٰرَبِّ إِنَّ قَومِى اتَّخَذوا هـٰذَا القُرءانَ مَهجورًا ٣٠﴾... سورة الفرقان
20. سنت کا معنیٰ 'طریقہ' بھی ہے اور 'حدیث' بھی۔ چنانچہ ابھی ذکر ہو گا۔ اگر آپ کی پیش کردہ حدیث میں سنت سے مراد 'طریقہ' لیں تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ طریقہ سے مراد آپ ﷺ کا حال اور عمل ہے اور آپ ﷺ کا حال اور عمل حدیث ہی کی ایک قسم ہے۔ یعنی فعلی حدیث، تو آپ ﷺ نے اس حدیث میں حدیث کے لازم پکڑنے کا ہی حکم دیا ہے۔ فافھم
اور اگر سنت سے مراد 'حدیث' لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ سنت کا معنیٰ حدیث بھی ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
«ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنة رسوله رواہ في الموطا» (مشکوٰۃ ص ۳۱)
یعنی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ ایک کتاب اللہ دوسری حدیثِ رسول اللہ۔
اس حدیث میں اور اس کے علاوہ اور بے شمار احادیث میں سنت سے مراد حدیث آیا ہے۔ اور نہایہ ابن الاثیر میں ہے:
قد تكرر في الحديث ذكر السنة وما تصرف منھا والأصل فيھا الطريقة والسيره وإذا أطلقت في الشرع فإنما يراد بھا ما أمر الله به النبي ﷺ ونھي عنه وندب إليه قولا مما لم ينطق بد الكتاب العزيز ولھذا يقال في أدلّة الشروع الكتاب والسنة القراٰن والحديث (جلد ۲، ص ۱۸۶)
یعنی لفظِ سنت کا ذکر احادیث میں بہت ہے اور لغوی معنیٰ اس کا طریقہ اور سیرت ہے لیکن جب شریعت میں سنت بولا جائے تو اس سے مراد آپ ﷺ کی حدیث ہوتی ہے۔ یعنی جو کتاب اللہ میں نہیں آیا۔ صرف آپ ﷺ نے اپنی زبان فیض ترجمان سے ارشاد فرمایا ہے۔ کسی چیز کا امر کیا ہے یا کسی چیز سے منع فرمایا ہے اسی واسطے ادلہ شرع میں کہا جاتا ہے کتاب و سنت، یعنی قرآن و حدیث۔
محدثین بھی 'سنت' بول کر 'حدیث' مراد لیتے ہیں جیسا کہ مشکوٰۃ وغیرہ میں ہے:
باب الاعتصام بالکتاب والسنة (مشکوٰۃ ص ۲۷)
اس پر مشکوٰۃ میں حاشیہ لکھا ہے:
«قوله السنة المراد بالسنة ھھنا أقواله عليه الصلوٰة والسلام وأفعاله وأحواله المعبر ھھنا بالشريعة والطريقة والحقيقة» (مرقاة۔ مشكوٰة ص ۲۷)
یعنی یہاں سنت سے مراد آپ ﷺ کے اقوال و احوال اور افعال ہیں جن کو دوسرے الفاظ میں شریعت، طریقت اور حقیقت کہتے ہیں۔
فقہاء حنفیہ بھی 'سنت' بول کر 'حدیث' مراد لیتے ہیں جیسا کہ نور الانوار میں ہے:
اعلم أن أصول الشرع ثلٰثة الكتاب والسنة وإجماع الأمة
یعنی اصل دلائل شرع کے تین ہیں۔ کتاب اللہ، حدیث اور اجماعِ امت۔
پس آپ کی مذکورہ بالا پیش کردہ حدیث میں سنت سے مراد حدیث ہو سکتی ہے تو آپ کی پیش کردہ حدیث ہی سے حدیث کا لازم پکڑنا ثابت ہو گیا، وھو عین المراد اور یہی مقصود ہے۔
21. آپ کی کم علمی کی حد ہو گئی۔ اگر آپ نے صرف مشکوٰۃ ہی پڑھی ہوتی تو یہ غلطی نہ کرتے کہ آپ ﷺ نے حدیث لازم پکڑنے کا حکم نہیں فرمایا۔ گوشِ ہوش سے سنو:
«عن أبي رافع قال قال رسول اللہ ﷺ لا ألفین أحدکم ستکئا علي أريكته يأتيه الأمر من امري ھما أمرت به أو نھيت عنه فيقول لا أدري ما وجدنا في كتاب الله اتبعناه رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجة والبيهقي في دلائل النبوة» (مشكوٰة ص ۲۹)
یعنی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ تخت پر مزے سے بیٹھے اور اس کو میرا کوئی امر یا نہی پہنچے اور وہ کہے میں کچھ نہیں جانتا۔ ہم تو جو کتاب اللہ میں پائیں گے اس کی اتباع کریں گے۔
«قوله لا أدري الخ أي لا أعلم غير القراٰن والمعني لا يجوز الإعراض عن حديثه ﷺ لأن المعرض عنه معرض عن القراٰن»
یعنی میں غیر قرآن کو نہیں جانتا۔ اس حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ حدیثِ رسول ﷺ سے منہ پھیرنا قطعاً جائز نہیں کیونکہ حدیث سے منہ پھیرنا قرآن سے منہ پھیرنا ہے۔ کیوں صاحب!! اس حدیث میں حدیث لازم پکڑنے کا امر ہے یا نہیں؟ اور ملاحظہ فرمائیے:
«عن المقدام بن معد يكرب قال قال رسول الله ﷺ ألا إني أوتيت القراٰن ومثله معه ألا يوشك رجل شبعان علي أريكته يقول عليكم بھذا القراٰن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه وإن ما حرم رسول الله كما حرم الله ألا لا يحل لكم الحمار الأھلي ولا كل ذي ناب من السباح الحديث رواه أبو داود والدارمي وابن ماجة »(مشكوٰة ص ۲۹)
یعنی مقدامؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا ہے یعنی مجھے صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن کے ساتھ حدیث بھی خدا کی طرف سے ملی ہے جس کی اطاعت قرآن کی طرح فرض ہے۔ ممکن ہے کوئی شکم سیر آدمی اپنے تخت پر بیٹھا کہے کہ اس قرآن کو لازم پکڑو جو اس میں حلال پاؤ حلال جانو اور جو حرام پاؤ حرام جانو۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا حرام کردہ اسی طرح حرام ہے۔ جیسے اللہ نے خرام کیا خبردار گدھا اہلی اور ہر درندہ جو راشکی سے شکار مارتا ہے حرام ہے۔
اس قسم کی بیسیوں حدیثیں ہیں جن میں حدیث لازم پکڑنے کا امر موجود ہے مگر کہاں تک نقل کروں مضمون طویل ہو جائے گا۔ عاقل کو اشارہ ہی کافی ہے۔
22. بزعم آپ کے ہر سنت بھی لائق نہیں مثلاً پہلے آپ کی یہ سنت تھی کہ نماز میں سلام کا جواب دیتے تھے، بعد میں سلام کا جواب دینا چھوڑ دیا۔ اسی طرح پہلے آپ ﷺ رکوع میں تطبیق کرتے تھے پھر اسے چھوڑ کر زانوؤں پر ہاتھ رکھنے لگے۔
اگر ہر سنت لائق عمل ہے تو آپ نماز میں سلام کا جواب دیں اور رکوع میں تطبیق کریں۔ معلوم ہوا کہ اہل سنت بھی ساری سنتوں پر عمل نہیں کر سکتے۔
23. یہ آپ کی غلطی ہے، ہر سنت سنت ہے خواہ سنتِ منسوخہ ہو یاناسخہ، سنت منسوخہ پر بعد از فسخ عمل جائز نہیں۔ ناسخہ پر عمل کرنا لازم ہے۔
24. آپ کا نام اہل سنت بالکل غلط ہے جس طرح بزعم آپ کے اہل حدیث ہر حدیث پر عمل نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی حدیث منسوخ ہے، کوئی خاصہ وغیرہ ہے تو اسی طرح آپ بھی ہر سنت پر عمل نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی سنت منسوخہ ہے، کوئی خاصہ وغیرہ ہے تو آپ کا اہل سنت نام کس طرح صحیح ہوا جب کہ ساری سنتوں پر آپ کا عمل نہیں۔
اور اہل حدیث نام بالکل صحیح ہے کیونکہ وہ ہر حدیثِ اصطلاحی پر عمل کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی ہر حدیث قولی، فعلی، تقریری کو واجب العمل جانتے اور مانتے ہیں۔ برخلاف اس کے آپ سنت یعنی صرف فعلی حدیث کو مانتے ہیں اور قولی تقریری حدیث کے منکر ہیں، جیسا کہ آپ کی اس تحریر سے ظاہر ہے تو آپ مطیعِ رسول ہوئے یا نافرمان۔ اللہ تعالیٰ نے تو نبی ﷺ کے ہر قول، فعل اور تقریر کی اطاعت فرض کی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ﴾ ﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى﴾ ﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا﴾
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی مطلقاً اتباع فرض کی ہے۔ آپ ﷺ کے قول و فعل تقریر ہر چیز کی اتباع فرض قرار دی ہے۔ مگر آپ ہیں کہ ''سنت'' یعنی آپ کے صرف فعل کی اطاعت کرتے ہیں۔ باقی سب کے تارک ہیں۔ یہ اطاعتِ رسول ہے یا نافرمانی رسول؟ زبانی محبتِ رسول کے بلند بانگ دعوے اور حال یہ؟ ......... اللہ عزوجل کابہت بڑا شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے ہم اہلحدیث کو نبی ﷺ کی پوری اتباع نصیب کی اور نبی کی ہر ادا اور ہر ارشاد، امر اور نہی اور تقریر پر عمل نصیب فرمایا وما ھو علی اللہ بعزيز. الحمد لله الذي ھدٰنا لھذا وما كنا لنھتدي لو لا أن ھدٰنا الله.
25. یہ سب باتیں جو آپ نے اس عبارت میں بیان کی ہیں، امام صاحب نے کہاں اور کسی کتاب میں لکھی ہیں؟ کیا امام صاحب کی دنیا میں کوئی تصنیف ہے بھی، ایک فقہ اکبر کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کی تصنیف ہے، نہ معلوم وہ بھی آپ کی تصنیف ہے یا کسی شاگرد کی؟
﴿وَيُحِبّونَ أَن يُحمَدوا بِما لَم يَفعَلوا﴾ کچھ نہ کرنے پر ہی خوشامد اور مدح کے طالب ہیں۔
امام صاحبؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیث میں کمزور ہونے کے باعث رائے و قیاس کا دروازہ کھولا۔ اس سے کچھ فائدہ بھی ہوا لیکن فائدہ سے نقصان زیادہ ہوا کہ امت کا ایک جمِ غفیر اتباع رسول سے منہ موڑ کر ان کا مقلد بن گیا۔ اگرچہ امام صاحب رحمہ اللہ اس میں دیگر ائمہ کی طرح بے قصور ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تقلید سے منع کر دیا تھا لیکن بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرے جیسے عیسیٰؑ سے کرے گا ﴿ءَأَنتَ قُلتَ لِلنّاسِ اتَّخِذونى وَأُمِّىَ إِلـٰهَينِ مِن دونِ اللَّهِ﴾ اے عیسٰے! کیا تو نے کہا تھا مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو۔ اس سوال سے عیسٰے کے ہر بنِ مُو سے خوف کے مارے خون نکل پڑے گا۔
جملہ ائمہ و محدثین مالک، شافعی، احمد بن حنبل وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین نے بے شمار کتب تصنیف کر کے امت پر بے حد و حساب احسان کیا ہے۔ ان کا آپ نام تک نہیں لیتے اور جن کی ایک تصنیف بھی نہیں' صرف ان کے مداح ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟﴿وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ﴾
26. مقلدین حضرات سے بریلویوں نے تو بزرگوں کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر ان کو پکارنا اور ان سے امداد طلب کرنا شروع کر دیا اور دیو بندیوں نے سب ائمہ کو چھوڑ دیا اور صرف امام ابو حنیفہؒ کی تقلید پر قانع ہو گئے اور ان کے احترام میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو غرام و حلال کا مالک سمجھ بیٹھے، جس کو وہ حلال کہیں حلال اور جس کو حرام کہیں حرام جانا۔ لیکن اہلحدیث نے سب ائمہ و علماء مجتہدین کو بیک نظر دیکھا اور ان کا پورا احترام کیا اوران کی ہر صحیح بات کو جو قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو، مانا۔ ان میں سے نہ کسی کی محبت میں غلو کیا نہ کسی کو چھوڑا سب کو آسمان کے ستارے اور ہدایت کے چراغ سمجھا:
فتلك آباءي فجئني بمثلھم یعنی یہ سارے ہمارے بزرگ ہیں ان جیسے کوئی لا کر دکھائے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہم اہلحدیث کو راہِ اعتدال نصیب فرمائی اور دعا ہے: