التفسیر والتعبیر

بِالْغَیْبِ (۱)


(۱) بِالْغَيبِ (غیب کے ساتھ، غیب پر، پسِ پشت) اس کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا اور رسول کی بات صرف اس لئے برحق تسلیم کرنا اور ماننا کہ چونکہ اس نے فرمایا ہے۔ وہ بات ہمارے ادراک کے بس کا روگ ہو یا ہ ہو۔ دوسرے یہ کہ سامنے ہوں یا غائب اور آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں تو ہر حال میں ان کے ایمان و اسلام میں فرق نہیں آتا۔ ریاکار اور منافق کی طرح نہیں ہوتے کہ سامنے ہوں تو سبحان اللہ، پسِ پشت ہو تو اعوذ باللہ۔ ان کی جلوت اور خلوت، ظاہر اور باطن میں پوری یکسائیت ہوتی ہے۔ اس باب میں وہ بڑے مخلص، پکے اور سچے ہوتے ہیں۔

«وقال بعضھم یؤمنون بالغيب كما يؤمنون بالشھادة وليسوا كما قال تعالٰي عن المنافقين ﴿وَإِذا لَقُوا الَّذينَ ءامَنوا قالوا ءامَنّا..١٤.﴾ ....البقرة.. فعلي ھذا يكون قوله بالغيب حالا أي في حال كونھم غيبا عن الناس» (ابن كثير)

ہمارے نزدیک یہ دونوں معنے صحیح ہیں۔

ایمان بالغیب کسی ذہنی بوجھ اور اندھیرے میں لاٹھی گھمانے کا نام نہیں بلکہ یہ طلب و جستجو کے لئے ایک مہمیز ہے۔ اس سے حضور قلبی کی کیفیت بھی نشوونما پاتی ہے اور لِیْ مَعَ اللہِ (امیر اللہ میرے ساتھ ہے) کا احساس بھی بیدار ہوتا ہے جو بندۂ مومن کے لئے بہت بڑی معراج ہے۔ ہاں ایمان بالغیب کے اس مقامِ رفیع سے مناسبت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صرف ''عقلی استدلال'' پر قناعت نہ کی جائے کیونکہ بعض اوقات یہ بجائے 'حجابِ اکبر' بن جاتی ہے بلکہ چاہئے کہ اس کے ساتھ ساتھ عقلِ نبوی ذوقِ ایمانی اور نورِ عشق کی مشعلوں سے بھی استفادہ کیا جائے۔ اگر کوئی صاحب اس میں صرف انہی پر قناعت کر سکتا ہے تو ضرور کرے کیونکہ اس سفرِ حیات کے لئے اصلی زادِ راہ یہی چیزیں ہیں۔ ان سے نہ صرف حجابات کے پردے چاک ہوتے ہیں بلکہ ایک ایسی عالم شہود کی دولت بھی ہاتھ آجاتی ہے جو طمانیت و سکینت کے نزول کا باعث بنتی ہے۔

غیوب میں غائب ترین حقیقت کبریائی ذات باری تعالیٰ ہے اس کو تسلیم کر لینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کی ذات اور کنہ کی ٹوہ میں پڑنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ وہ اس سے وراء الورٰی ہے کہ اس کا کوئی کما حقہ، ادراک کر سکے۔ متکلمین نے اس سلسلہ میں جو بحثیں کی ہیں وہ محض فلسفہ زدہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے کی ہیں ورنہ ان کا عقیدہ صرف یہ ہے: ؎

تو دل میں آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں' تیری پہچان یہی ہے

ایمان بالغیب متقی بننے کے لئے اور قرآن حکیم سے استفادہ کرنے کے لئے اوّلین شرط اور اساسِ کامل ہے اگر اس میں کوئی خامی رہ جائے تو اس کے بعد اس پر اور جتنی اور جیسی کچھ بھی عمارت کھڑی کی جائے گی، کج، کمزور اور بے نتیجہ ثابت ہو گی۔ عجمیوں کے اختلاط سے فکر و عمل کی وہ سادگی غارت ہوئی جس پر ''عشق بردوش' تسلیم و رضا کی عمارت قائم تھی۔ حکمتِ قرآنی کی جگہ عجمی حکمت و فلسفہ براجمان ہوا جس کی وجہ سے 'ایمان بالغیب' کی ان اقدار کو سخت نقصان پہنچا جن پر ہمارے روحانی مستقبل کا انحصار تھا۔ بلکہ مسلم تنزّل اور ادبار و کبت کا آغاز اس وقت ہوا، جب ایمان بالغیب کے سلسلہ میں ان کے قلب و نگاہ میں عقلی بے اطمینانی کو بار ملنے لگا۔ الغرض ایما کی اساس اولین ''ایمان بالغیب'' پر ہے جب عقل عیار کا تیر چلا، ایمان کی معصومیت اور تسلیم و رضا کو شدید نقصان پہنچا۔

وَيُقيمونَ الصَّلو‌ٰةَ

وَيُقيمونَ الصَّلو‌ٰةَ (اور نماز پڑھتے ہیں) (۱) وَیُقِیْمُوْنَ (اور قائم کرتے ہیں) اقامہ سے بنا ہے۔ اقامہ کے معنی کسی شے کو سیدھا کھڑا کرنے کے ہیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جس چیز کو، اس کے مناسبِ حال سیدھا کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس شے کا ہر جز، اپنی قدرتی ضع پر آجاتا ہے۔ ساتھ ہی آپ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ سیدھا کھڑا ہونا، شے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ اور وہ شے کی اپنی قامت پر یوں فِٹ ہے کہ چیز سے الگ آپ اس کو مشخص بھی نہیں کر سکتے۔ نماز کو قائم کرنے کے یہ معنے ہیں کہ:

(الف) ویسے ادا کی جائے جیسے چاہئے' یعنی وہ صرف نشست و برخاست کا ایک سلسلہ محسوس نہ ہو بلکہ اس سے ذاتِ کبریا کے بابِ عالی پر ایک غلام کی حاضری مترشح ہوتی ہو، اُس کا خارجی مرقع اور نمونہ، رسول کریم ﷺ کی پاک نماز تھی، جس شخص نے ویسی نماز پڑھی، اُس نے واقعۃً نماز قائم کی۔

(ب) نماز قائم کرنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ نماز برپا کی جائے کہ خارج میں بھی اس کے انگ انگ سے نماز کی حیا اور وفا ٹپکتی ہو، اور ایسا معاشرتی نظام قائم کیا جائے جس کے ماحول میں نماز اجنبی نہ رہے۔ ماحول سے کٹ کر ادا نہ ہو، بلکہ نماز سازگار ماحول کی ایک قدرتی ادا بن جائے۔ یقین کیجئے! نمازی کی جو نماز اس کی 'قامتِ حیات' کی ایک قدرتی وضع بن کر اُبھرتی ہے، وہ اس کی قامتِ حیات کا جزو لا ینفک بن جاتی ہے، اس لئے مسجد کے باہر بھی ساری روئے زمین اس کو خانۂ خدا محسوس ہوتی ہے، اور وہ جہاں اور جس حال میں بھی ہوتا ہے وہ اپنے کو اس کے حضور میں پاتا ہے۔ ﴿الَّذينَ هُم عَلىٰ صَلاتِهِم دائِمونَ ﴿٢٣﴾... سورة المعارج" (وہ جو اپنی نماز پر قائم ہیں)  کا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ قائم تبھی کہلائے گا، جب خارج میں بھی انہی مکارمِ حیات اور نوامیس کا حامل رہے گا، جو نماز میں انسان ملحوظ رکھتا ہے۔ ورنہ مداومت اور قائم رہنے کے کچھ معنی نہیں:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نماز کی سچی تصویر لفظوں میں پیش کرنا آسان نہیں ہے، تاہم مختصراً یہ ہے:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اذان کی آواز سنتے ہی، گھر سے اُٹھ کر یوں چل دیتے جیسے آپ اُن کو پہچانتے ہی نہیں (احیاء العلوم) جب نماز پڑھتے تو محوّیت کا عالم دیدنی ہوتا، سوز و گداز، خشوع و خضوع، تبتل، تضرع اور قنوت کا رنگ چھا جاتا۔ یوں کھڑے ہوتے جیسے ایک عاجز مسکین بندہ اپنے آقا کے حضور کھڑا ہو۔ ہر طرف سے کٹ کر صرف رب کے دھیان میں یکسو ہو جاتے، آہ و زاری، گریہ و بکا جیسی دلدوز کیفیّات کا رنگ طاری ہو جاتا۔ حضرت عبد اللہ بن شیخ فرماتے ہیں کہ:

''دیکھا تو آپ نماز میں مشغول ہیں، آنکھوں سے نیر جاری ہیں، روتے روتے ہچکی بندھ گئی ہے۔ سینہ کی کیفیت یہ ہے، جیسے اندر کوئی چکی چل رہی ہو یا کوئی ہانڈی اُبل رہی ہو۔'' (ترمذي أبو داود باب البکاء في الصلوٰۃ اللیل)

اخلاص کا یہ عالم تھا کہ خدا کے سوا اور کوئی چیز ملحوظ نہ تھی۔ نماز کی ادائیگی ایک آئینہ تقاضا پورا کرنے والی بات نہ تھی بلکہ یہ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور سکون قلب کا ایک ذریعہ تھی (قرۃ عین لي في الصلوٰۃ)

تصویر نماز:

قبلہ رو ہو کر اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں کی لَو تک ہاتھ اُٹھاتے۔ پھر داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینہ پر باندھتے اور تھوڑے سکتہ کے بعد ''سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ ،اللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَيْنِيْ ، كبھی اِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْهِيّ لِلَّذِيْ فَطَرَ السمٰوٰت والأرض ...... اَللّٰھم أنت الملك لا إلٰه إلّا أنت وأنا عبدك كبھی الله أكبر الله أكبر لا إلٰه إلا أنت سبحان الله وبحمده، سبحان الله وبحمده پڑھتے۔

پھر أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کبھی اس کے ساتھ من نفخه ونفثه وھمزه اور کبھی: من ھمزه ونفحة ونفثه کا اضافہ فرما کر تعوّذ پڑھتے۔

پھر سورہ فاتحہ پڑھتے۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے۔ رب العٰلمین پر وقف فرماتے، پھر الرحمٰن الرحیم پر ٹھہرتے۔ پھر ﴿مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ٤﴾... سورة المعارج" پڑھتے، ٹھہر ٹھہر کر، خوبصورت لہجہ کے ساتھ جیسے کوئی کسی خاص محوّیت میں کرتا ہے کہ اُسے دوسرا دھیان ہی نہیں ہے، ولا الضالین کے بعد 'اٰمین' کہتے پھر کوئی سورت پڑھتے، کبھی لمبی سے لمبی، کبھی اوسط درجہ کی اور کبھی اس سے بھی مختصر، سورت کے درمیان یا آخر سے اُچک کر کوئی ٹکڑا نہیں پڑھتے تھے، بلکہ شروع سے پڑھتے، پوری پڑھتے یا کچھ ایک رکعت میں اور بقیہ دوسری رکعت میں مکمل کرتے۔ کبھی ایک ہی سورت کو دوبارہ دوسری رکعت میں پڑھتے اور کبھی دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھتے تھے۔ فجر کی نماز میں سب سے لمبی قرأت فرماتے تھے۔ جہرمی میں جہر سے، سری میں چپکے سے پڑھا کرتے تھے۔ یا کبھی کبھار سری میں بھی سُنانے کے لئے ایک آدھ آیت اونچی آواز سے پڑھ لیتے تھے، جمعہ میں سورۂ جمعہ و منافقین اور کبھی سورۂ اعلیٰ اور سورۂ غاشیہ تلاوت فرماتے اور عیدین میں سورت قٓ اور سورت اقترب الساعة پڑھا کرتے تھے۔ سورۃ کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں گر جاتے اور انگلیاں پھیلا کر دونوں گھٹنوں کو پکڑ لیتے، دونوں پہلوؤں سے بازو الگ، پشت پوری طرح دُہری مگر ہموار رکھتے، سر، پشت کے برابر رکھتے اور پھر یوں پُر سکون ہو رہتے جیسے آپ کا دل لگ گیا ہو، پھر سبحان ربي العظیم، کبھی سبحان ربي العظیم وبحمدہ، کبھی سبحٰنك اللّٰھم ربّنا وبحمدك اللّٰھم اغفرلي، کبھی سبّوحٌ وقدوسٌ رب الملئِكة والروح، کبھی اللّٰھم لك رکعت وبك اٰمنت ولك أسلمت وعلیك توکلت أنت ربي خشع قلبي وسمعي وبصري ودمي ولحمي وعظمي وعصبي لِلہ رب اللعالمین اور کبھی سبحان ذي الجبروت والملکوت والکبریاء والعظمة پڑھتے تھے۔ قیام جتنا لمبا یا چھوٹا ہوتا تھا، اسی کے مطابق رکوع بھی کرتے تھے۔

اس کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہتے ہوئے سر اُٹھاتے، اور سیدھے ہو کر اطمینان کرتے، جیسے یہاں آپ کا دل لگ گیا ہو۔ اس حال میں ربنا لك الحمد کبھی اللّٰھم ربنا لك الحمد ملء السمٰوات وملء الأرض وملء  ما شئت من شيء بعد أھل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وکلنا لك عبد اللّھم لا مانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منك الجد کبھی اس پر یہ زیادہ فرماتے: اللّٰھم طھرني بالثلج والبرد والماء البارد اللّھم طھرني من الذنوب والخطاي کما ینقی الثوب الأبیض من الوسخ اور نماز تہجد میں لربي الحمد لربي الحمد پڑھا کرتے تے اور یا رکوع کے بعد کا یہ قیام (قومہ) اتنا لمبا ہوتا جیسے کھڑے ہو کر آپ سجدہ میں جانا بھول گئے ہیں۔

پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جاتے، پہلے گھٹنے رکھتے، پھر ہاتھ رکھتے، سجدہ میں ماتھا، ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں ٹیکتے تھے۔ بازو، پہلوؤں سے دُور رکھتے، کہنیوں کو کھڑا رکھتے، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہوتا۔ سجدہ جم کر اور اطمینان سے کرتے، سجدہ میں یہ پڑھتے: سبحان ربي الأعلٰی کبھی وبحمدہ کا اضافہ کرتے، کبھی اللّٰھم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت سجد وجھي للّذي خلقه وصورہ وشق سمعه وبصرہ تبارك اللہ أحسن الخالقین کبھی سبحٰنك اللّٰھم وبحمدك اللّٰھم اغفرلي، کبھی سبوح وقدوس رب الملٰئكة والروح، کبھی اللّٰھم اغفرلي ذنبي دقه وجله وأوّله وآخرہ وعلانية وسرہ، کبھی اللّٰھم اِني أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذبك منك لا أحصي ثناء علیك أنت کما أثنیت علی نفسك پڑھا کرتے تھے۔ سجدہ قیام کے مناسب حال لمبا ہوتا تھا، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سر اُٹھاتے، بایاں پاؤں بچھا کر اُس پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور اس حال میں یہ پڑھتے: اللّٰھم اغفرلي وارحمني واجبرني واھدني وارزقني وعافني اور کبھی صرف اللّٰھم اغفرلي پڑھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے حسبِ سابق دوسرا سجدہ فرماتے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے، گھٹنوں کو پکڑ کر پاؤں پر سیدھے کھڑے ہو جاتے۔ پھر حسب سابق دوسری رکعتیں ادا کرتے تھے۔ تین اور چار رکعتوں کی صورت میں التحیات کے لئے بیٹھتے اور عبدہ ورسوله تک پڑھ کر اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھتے اور باقی رکعتیں ادا فرماتے، لیکن اب فرضوں میں فاتحہ کے بعد سورۃ نہیں پڑھتے تھے، ہاں سنن حسب سابق ادا فرماتے۔ آخری التحیات میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھ کر دُعا کرتے، پھر دونوں جانب سلام پھیرتے ہوئے السّلام علیکم ورحمة کہتے۔

ظہر میں چار ۴ فرض، اُن سے پہلے چار ۴ اور بعد میں دو ۲ سنتیں۔ عصر میں فرضوں کے بعد دو ۲۔ مغرب میں فرضوں کے بعد دو۲، عشاء میں بعد میں دو سنّتیں اور وتر اور فجر میں پہلے دو ۲ سنتیں پڑھتے تھے۔ رات کو تہجد دس نوافل اور ایک وتر، کبھی بارہ نوافل اور ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔ نماز اور سلام سے پہلے دُعا تو آپ سے مروی ہے لیکن سلام کے بعد دُعا مانگنا آپ کا دستور نہیں تھا۔ (کتاب الصلوٰۃ ابن القیم ص ۲۰۴ تا آخر)

۲۔ اَلصَّلٰوة (نماز) صلوٰۃ کے اصل معنے دُعا کے ہیں، کیونکہ یہ سراپا ایک ادائے پکار ہے۔ کھڑے ہو کرجھُک کر اور اس کے حضور منہ کے بل گر کر نمازی اُسے پکارتا ہے، نذرانۂ عقیدت پیش کرتا ہے اور نماز کے جتنے روپ اور پہلو ہیں، بدل بدل کر زبانِ حال سے واضح کرتا ہے کہ الٰہی! اپنی زندگی کے ہر رنگ اور ہر پہلو میں تیرا ہی رہوں گا۔ تیرے ہی گن گاؤں گا اور تیری ہی رضا اور منشا کو سدا ملحوظ رکھوں گا۔

حضرت امام ابن تیمیہؒ پر خدا صد ہا رحمتیں کرے، لکھتے ہیں کہ اس نماز سے مراد، فرضی نماز بھی ہے اور نفل بھی، کبھی اس سے غرض یاد الٰہی بھی ہوتی ہے، وہ الفاظ سے ہو یا ادا سے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب تک آپ اللہ کو یاد کرتے ہیں آپ نماز میں ہی ہوتے ہیں۔

فإن الصلوٰة أيضا نعم الصلوٰة المعروضة والتطوع وقد يدخل فيھا كل ذكر الله إما لفظاً أو معنا، قال ابن مسعودؓ رضي الله تعاليٰ عنه ما دمت تذكر الله فأنت في صلوٰة (الاقتضاء ص ۱۱)

ادا اور معنوی ذکر اللہ، وہی زندگی ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

خیار عباد اللہ إذا رؤا ذکر اللہ (مسند احمد شعب الایمان)

''اللہ کے بندوں میں سے بہترین وہ بندے ہیں، جن کے دیکھے خدا یاد آجائے۔''

یہ نماز متقیوں کی دوسری نشانی اور قرآن حکیم سے استفادہ کرنے کے لئے شرطِ ثانی ہے۔ جو لوگ اس میں خام رہتے ہیں وہ صحیح متقی نہیں بن سکتے، نہ وہ قرآن حکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں اور نہ فہم قرآن کی اُن کے لئے ارزانی ممکن رہتی ہے، چونکہ ملکی دستور ساز اداروں میں نمائندوں کی اکثریت عموماً بے نماز ہوتی ہے۔ اس لئے قرآنِ حکیم کی ترجمانی اور اس سے استفادہ کرنے میں عموماً ناکام ہی رہتے ہیں۔ بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ، ترک نماز سے کفر و شرک میں گرفتار ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے توحید کے بعد سب سے پہلی چیز جس کا اللہ تعالیٰ نے امر فرمایا، وہ یہی نماز ہے (سورۃ مدثر: ع ۱) کیونکہ توحید کا تحفظ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے اور نہ پانچ وقت رب کے حضور حاضری دینے کے سوال کوئی شخص حامل قرآن رہ سکتا ہے۔﴿وَالدّارُ‌ الءاخِرَ‌ةُ خَيرٌ‌ لِلَّذينَ يَتَّقونَ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ ١٦٩ وَالَّذينَ يُمَسِّكونَ بِالكِتـٰبِ وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ...١٧٠﴾... سورة الاعراف

الغرض: علماء نے لکھا ہے کہ: یہی وہ عبادت ہے جو کسی شخص سے کسی حال میں بھی ساقط نہیں ہوتی، کھڑے ہو کر نہیں تو بیٹھ کر ہی سہی، بیٹھ کر نہیں تو لیٹ کر ہی سہی، بول نہیں سکتے تو اشاروں سے ہی سہی، کہیں جم کر نہیں پڑھ سکتے تو چلتے ہوئے سہی، سخت خطرہ ہے تو سواری پر سہی جدھر رخ بن پڑے۔ ادھر کو سہی۔ بہر حال نماز کسی حال میں معاف نہیں، اس کے باوجود جو نہیں پڑھتے، اُن کا انجام سخت خطرے میں ہے۔

یہ ملحوظ رہے کہ، علماء لکھتے ہیں﴿يـٰأَيُّهَا المُدَّثِّرُ‌ ١ قُم فَأَنذِر‌ ٢ وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّر‌ ٣﴾... سورة البقرة

ميں ﴿وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّر‌﴾ سے مراد نماز ہے گویا کہ بعثت کے ساتھ یہ بھی فرض کی گئی تھی۔ چونکہ کفّار کا ڈر تھا۔ اس لئے تین سال تک چھپ کے پڑھی جاتی رہی، اس لئے عام نہ ہو سکی، ہاں اب نماز کی جو شکل ہے وہ اس کی ترقی یافتہ شکل ہے، پہلے، بالکل ابتدائی درجہ میں تھی، مثلاً رات کو غیر موقّت نماز، پھر صبح و شام وغیرہ وغیرہ۔

وَمِمّا رَ‌زَقنـٰهُم يُنفِقونَ

اور جو کچھ ہم نے اُن کو دے رکھا ہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔ (۱) مِمَّا (اس چیز میں سے) یہ اصل میں دو حروف ہیں، مِنْ (سے) اور مَا (چیز) یہ ترکیب وہاں اختیار کی جاتی ہے جہاں سب کچھ ملحوظ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں سے کچھ ہوتا ہے۔ یعنی سارا نہیں بلکہ سارے میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں، باقی رہا کہ وہ کچھ کیا ہوتا ہے اور اس کی حد کیا مقررّ کی جا سکتی ہے؟ تو فرضی زکوٰۃ میں اس آمدنی کا چالیسواں حصہ ہے جو سال بھر محفوظ رہے اور زکوٰۃ کے علاوہ زیادہ سے زیادہ 3/1 حصہ ہے، خدا کے ہاں یہ مقدار کثیر ہے۔ اس کی نگاہ آپ کی حقیر ''اٹّی'' پر نہیں، اس دل اور جذبہ پر ہے جو محبوب برحق کی راہ میں لٹ جانے کو پالینا تصوّر کرتا ہے۔

(۲) رَزَقْنٰھُمْ (اُن کو ہم نے دیا) رزق کے معنے، فیضان، مقرر حصہ، روزی، بارش سبھی آتے ہیں۔ جتنا اور جیسا کچھ کسی کے حصہ میں ہے،وہ سب رزق ہے۔ علوم و معارف اور ملکات بھی ''رزق'' میں داخل ہیں۔ کیونکہ انسان کچھ بھی گھر سے نہیں لایا، جو کچھ اس کے پاس ہے، سب اس کی عطا، دین اور بخشش ہے۔

(۳) یُنْفِقُوْنَ (خرچ کرتے ہیں) اس انفاق میں، ہر وہ سرمایہ آجاتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ وہ سرمایہ مادی ہو یا روحانی، مالی ہو یا فنّی۔ مالی کی طرف ذہن اس لئے زیادہ جاتا ہے کہ، کسی نہ کسی درجہ اور رنگ میں دوسرے سلسلے عموماً جاری ہی رہتے ہیں، لیکن مالی انفاق کا سلسلہ اتنا عام نہیں ہے اور جتنا ہے اُس کی کیفیت دوسروں سے بالکل مختلف ہے، مالی میں جو دینا ہوتا ہے وہ دے ہی دینا ہوتا ہے، وہ اپنے پاس نہیں رہتا۔ رہے باقی سلسلے، وہ رُوحانی ہوں یا فنّی؟ اُن کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہوتا ہے، وہ جتنا بھی کوئی کرے، وہ کم نہیں ہوتے، بلکہ مزید بڑھتے ہیں اس لئے مالی انفاق بڑے ایثار کی بات ہے، دوسروں کو کمی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ ہاں کم ظرفی اور تنگ نظری کی بات اور ہے۔ بہرحال جو بھی دولت رب نے دی ہے۔ وہ رب کی ہی ہے۔ اس کو محض اس کی رضا کے لئے خرچ کرنا متقیوں کی دوسری نشانی ہے۔ اور قرآن سے کسب فیض کرنے کے لئے تیسری شرط ہے۔ مال دار مال خرچ کریں، اہلِ علم، علم عام کریں، اہل دل، خلقِ خدا کے مردہ دلوں کی فکر کریں، با اثر، خدا کا بول بالا کرنے کے سامان کریں۔ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ مِنَ الْمَالِ وَالْعِلْمِ والجاهِ يُنْفِقُوْن. إياھا في الخير (تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن) اگر یہ چاروں سلسلے اُٹھ کھڑے ہوں، تو مُلک و ملّت کی تقدیریں جاگ اُٹھیں، اور دُنیا کے ساتھ اُن کی آخرت بھی کامیاب رہے۔