احادیثِ عمامہ اور ان کی استنادی حیثیت

محدث کی ماہ مئی و جون کی اشاعت میں ایک مضمون بعنوان ''عمامہ اور اتباع سنت'' شائع ہوا۔ جس میں مصنف نے شعب الایمان للبیہقی کے حوالہ سے عمامہ کی فضیلت میں ایک روایت ذکر کرنے کے بعد اطاعت النبی ﷺ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے عمامہ باندھنے پر زور دیا ۔ جہاں تک اطاعت نبیﷺ کا تعلق ہے، وہ تو ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس کی اہمیت سے انکار باعث کفر مگر جس چیز کو ثابت کرنےکے لیے انہوں نے اتنا زور لگایا وہ اصل ثابت نہیں۔

عمامہ باندھنا آنحضرتﷺ سے عملاً ثابت ہے لیکن قولاً آنحضرت ﷺ سے ایک بھی حدیث ثابت نہیں۔

اس مفہوم کی بہت سی احادیث اگرچہ ذخیرہ حدیث میں ملتی ہیں، مگر وہ سب کی سب غیر ثابت ہیں۔ آج کے اس مضمون میں ہم یہی احادیث ذکر کرکے ان کے متعلق علماء محدثین و محققین کی آراء ذکر کریں گے تاکہ عوام کی صحیح رہنمائی ہوسکے۔
واللہ تعالیٰ ھو ولي التوفیق

پہلی روایت :
''علیکم بالعمآئم فإنھا سیما الملآئکة وأرخوا لھا خلف ظھورکم'' ''(طبi ) عن ابن عمر (ھبii ) عن عبادة ''ض''iii (1)
''تم پر پگڑیاں باندھنا لازم ہے، کیونکہ یہ فرشتوں کی علامت ہے۔ اور ان کے شملے پیٹھ پیچھے چھوڑ ا کرو۔''

کلام:
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام سیوطی نے حرف ''ض'' لکھا ہے، جس سے اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ مناوی لکھتے ہیں کہ:
''اس کی سند میں عیسیٰ بن یونس ہے، جسے امام دارقطنی نے ضعیف کہا ہے۔ امام بیہقی او رابن عدی ن ےجناب عبادةؓ سے یہ روایت کی ہے لیکن شارح فرماتے ہیں کہ ان ہر دو سندوں میں الحوص بن حکیم نامی ایک راوی ہے، جسے علامہ زین الدین العراقی نے شرح ترمذی میں ضعیف لکھا ہے۔'' 2

اسی طرح علامہ ابن طاہر پٹنی نے بھی اس روایت کو موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ 3

نیز ''اللآلي المصنوعة في الأحادیث '' میں ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔4

دوسری روایت:
''صلوٰة تطوع أو فریضة بعمامة تعدل خمسا و عشرین صلوٰة بلا عمامة وجمعة بعمامة تعدل سبعین جمعة بلا عمامة'' 5
عن ابن عمرؓ (صح)iv 6
''عمامہ کے ساتھ ایک نفلی یا فرضی نماز بغیر عمامہ کے پچیس نمازوں کے برابرہے۔ اور عمامہ باندھ کر ایک جمعہ ادا کرنا بغیر عمامہ کے ستر جمعوں کے برابر ہے۔''

کلام:
اسے اگرچہ امام سیوطی نے صحیح کہا ہے لیکن محققین علماء و محدثین مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی و امام شوکانی کی تحقیق کے مطابق یہ موضوع ہے۔7

تیسری روایت:
''إن اللہ تعالیٰ و ملٰئکته یصلون علیٰ أصحاب العمائم یوم الجمعة''
(طب) عن ابی الدرداء ؓ (ض) 8
''جمعہ کے روز پگڑی باندھنے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت کرتے اور فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔''

کلام:
اس کی سند میں ایک راوی ایوب بن مدرک ہے، جس کے متعلق میزان الاعتدال او رلسان المیزان میں ہے کہ وہ کذاب راوی ہے۔
زین الدین عراقی اور امام ہیثمی کے قول کے مطابق ابن معین نے بھی اسے کذاب کہا۔
امام نسائی نے اسے متروک کہا او راس کی منکر (غیر مقبول۔ ضعیف) روایات میں سے یہی مذکورہ روایت پیش کی۔
نیز ابن الجوزی نے بھی اس روایت کو موضوعات میں ذکر کیا او رلکھا کہ اس کا کوئی اصل نہیں۔

اس کے بیان کرنے میں ایوب متفرد ہے، جس کے متعلق ازدی لکھتے ہیں کہ یہ روایت اس کی خود ساختہ ہے، او ریحییٰ بن معین نے اسے جھوٹا اور امام دارقطنی نے متروک کہا۔ 9

چوتھی روایت:
''الصلوٰة في العمامة عشرة آلاف حسنة ''
(فر)v (10)
''عمامہ میں نماز ادا کرنا دس ہزار نیکیاں ہیں۔''

کلام:
ایک معمولی عمل پر بے حد و حساب ثواب کا ذکر ہونا بھی موضوع روایات کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔لہٰذا اس روایت کا معنی و مفہوم اس کے وضع کی دلیل ہے۔

علاوہ ازیں امام شوکانی نے اس کے ایک راوی کو متہم قرار دیا او رعلامہ سخاوی نے ''المقاصد الحسنة في الأحادیث المشتهرة علی الألسنة'' میں اس روایت کو موضوع کہا ہے۔11

پانچویں روایت:
''عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اعتموا تزدادواحلما'' 12
''عمامہ باندھا کرو اس سے تمہاری حلم کی صفت بڑھے گی۔''

کلام:
اس کی سند میں ایک راوی عبیداللہ بن ابی حمید ہے، جو امام احمد کے بقول متروک ہے۔13

نیز امام جرجانی نے خلاصہ میں اس روایت کو موضوع کہا ہے۔ 14

چھٹی روایت:
''عن علي قال عممني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم غدیر خم بعمامة و سدلھا خلفي ثم قال إن اللہ عزوجل أمدني یوم بدر و حنین بملائکة یعتمون ھٰذا العمة فقال إن العمامة حاجزة بین الکفر والإیمان'' 15
''حضرت علی ؓ کابیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے غدیر خم کے روز مجھے عمامہ پہنایا او راس کا شملہ میرے پیچھے لٹکایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بدروحنین کے موقعوں پر جن فرشتوں کے ذریعہ میری مدد فرمائی تھی ، وہ بھی اسی انداز پر عمامے باندھے ہوئے تھے۔''

نیز فرمایا کہ ''عمامہ ایمان و کفر کے درمیان رکاوٹ ہے۔''

کلام:
اولاً تو اس حدیث کا بھی معنی و مفہوم اس کے موضوع ہونے پر دال ہے کہ عمامہ کو ایمان و کفر کے درمیان رکاوٹ اور حائل قرار دیا گیا۔ حالانکہ صحیح روایات میں نماز کو ایمان و کفر کے درمیان فارق بیان کیا گیاہے۔اگر یہ چیز شرعاً اتنی ہی اہم تھی تو اس بارہ میں کوئی روایت تو صحیح سند سےمروی ہوتی۔

ثانیاً: اس کی سند پر بھی کلام ہے۔اس میں ایک راوی الاشعث بن سعد السمان ہے جو کہ ضعیف ہے۔16

ساتویں روایت:
''روی القضاعي والدیلمي في مسند الفردوس عن علي مرفوعاً العمائم تیجان العرب والاحتباء حیطانھا وجلوس المؤمن في المسجد رباطه''
''پگڑیاں عربوں کے تاج ہیں او رگوٹھ مارنا ان کے آداب مجلس ہیں اور مومن کا مسجد میں بیٹھ رہنا ہی اس کا رباط (جہاد کی تیاری کرنا) ہے۔''

کلام:
امام سخاوی نے المقاصد الحسنة میں اسے ضعیف کہا ہے۔ 17

آٹھویں روایت:
''صلوٰة علیٰ کور العمامة یعدل ثوابھا عنداللہ غزوة في سبیل اللہ''
''عمامہ کے بَل پرایک نماز کا ثواب، اللہ کے ہاں جہاد فی سبیل کے برابر ہے۔''

کلام:
اس حدیث کا معنیٰ و مفہوم بھی اس کے موضوع ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ عمامہ سمیت نماز کوجہاد فی سبیل اللہ کے برابر قرار دیا گیا ہے، جو کہ صاف کذب ہے۔ نیزاس روایت کو امام شوکانی نے موضوع کہا ہے۔18

ابن الدیبع شیبانی کی تحقیق :
علامہ موصوف لکھتے ہیں:
''وردمعناہ بألفاظ مختلفة و کله ضعیف''
کہ ''فضیلت عمامہ کی روایات مختلف الفاظ سے روایت ہوئی ہیں اور سب ضعیف ہیں۔'' 19

فاضل محقق علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری کی تحقیق:
آپ لکھتے ہیں:
''لم أجد في فضل العمامة حدیثا مرفوعا صحیحا وکل ماجاء فيه فھي إما ضعیفة أو موضوعة'' 20
''مجھے عمامہ کی فضیلت میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملی او رجو روایات اس بارہ میں ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا موضوع۔''

خلاصہ یہ کہ: اس بارہ میں وارد شدہ تمام روایات اپنےمعنیٰ و مفہوم کے علاوہ استنادی حیثیت سے بھی ناقابل استدلال وغیر معتبر ہیں۔

''ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب وإليه المرجع والمآب''


حوالہ جات
1. ملاحظہ ہو، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:4؍345
2. الجامع الصغیر:2؍64
3. الفوائد المجموعہ للشوکانی صفحہ 187
4. تحفة الاحوذی:3؍50
5. ابن عساکر
6. الجامع الصغیر:2؍48
7. دیکھئے الفوائد المجموعة في الأحادیث الموضوعة للشوکانی صفحہ 188
8. الجامع الصغیر:1؍73
9. حوالہ کےلیے دیکھئے فیض القدیر:2؍270
10. کنوز الحقائق مع الجامع الصغیر:2؍5
11. الفوائد المجموعة في الأحادیث الموضوعة صفحہ 188
12. المستدرک للحاکم :4؍193
13. المستدرک ایضاً
14. الفوائد المجموعہ صفحہ 188
15. مسندابی داؤد الطیالسی صفحہ 23
16. دیکھئے المطالب العالیة بزوائد المسانید الثمانیة:2؍258 بحوالہ الاصابہ:2؍282
17. الفوائد المجموعہ صفحہ 187
18. الفوائد المجموعہ صفحہ 188
19. تمییز الطیب من الخبیث فیما یدور علیٰ ألسنة الناس من الحدیث، صفحہ 107
20. تحفة الاحوذی:3؍50


i. ''طب'' مراد''طبرانی کبیر'' ہے۔
ii. ''ہب'' مراد ''شعب الایمان للبیہقی'' ہے۔
iii. ''ض'' مراد ضعیف ہے۔
iv. ''صح'' مراد، حدیث کی صحت ہے۔
v. ''فر'' مراد ''مسند الفردوس دیلمی'' ہے۔