مولانا محمد یحییٰ فیروز پوریؒ
حضرت مولانا محمد یحییٰ بن میاں محمد عیسیٰؒ ان نابغہ روز گار شخصیات میں سے تھے جن کی زندگی غلبہ دین ِمتین کی تڑپ میں گذری ہے، آپ نے اپنے آپ کو دین ِاسلام کی آبیاری کے لئے وقف کررکھا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کے مال و متاع سے بھی نوازا تھا اور آپ کافی زرعی رقبے کے مالک تھے لیکن اس مال و متاع کو بھی انہوں نے خدمت ِدین کے طور پر استعمال کیا، اور کبھی بھی اسے دین اسلام کی نشرواشاعت میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔
مولانا موصوف ۱۹۲۴ء بمطابق ۱۳۴۲ھ بمقام بگھیلے والا تحصیل زیرہ ضلع فیروزپور (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، آپ کے والد میاں محمد عیسیٰ ؒ ولی صفت انسان تھے، مولانا نے اپنے گاؤں کے سکول میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ دینی تعلیم کی طرف رغبت نے آپ کو عصری سلسلہ ٔ تعلیم منقطع کرنے پر مجبور کردیا اور مدرسہ دارالہدیٰ شہر زیرہ اور جامعہ محمدیہ لکھوکے، دارالحدیث فیروزپور اور تعلیم الاسلام (اوڈانوالہ) میں زیرتعلیم رہے۔
اساتذئہ کرام : آپ کے مشہور اساتذہ کرام حسب ِذیل ہیں:
1. مولانا عطاء اللہ لکھویؒ 2. مولانا عطاء اللہ حنیفؒ 3. مولاناعبدالقادر الہ آبادیؒ 4.مولاناعبدالقادر حلیمؒ5. مولانا حافظ محمدعبداللہ روپڑیؒ 6.مولانا شرف الدینؒ 7.مولانامحمد اسحقؒ 8.مولانا محمد یعقوبؒ۔ مولاناشرف الدین سے آپ نے سند ِفراغت حاصل کی اور حافظ محمد عبداللہ روپڑیؒ سے سند ِتفسیر القرآن حاصل کی۔
تلامذہ
1.مولاناعبیداللہ عفیف، شیخ الحدیث جامعہ اہلحدیث، لاہور 2.قاری محمد یحییٰ رسولنگری (ساہیوال) 3.مولانا عبدالستار حماد ،شیخ الحدیث جامعہ اشاعۃ العلوم (چیچہ وطنی) 4.حکیم حافظ عبدالرحیم زاہد 5.مولانا عبدالرحمن چیمہ 6.مولانا محمد علی کوٹ کبیری 7.مولانا محمد حنیف مکی 8.مولانا محمد احمد (قوم اوڈ) 9.مولانا احمدحسن 10.مولانا عبدالغفار 11. مولانا محمدعبداللہ 12.مولانا عبدالستار13.مولانا عبدالقادر14.مولانا عبدالجلیل15.قاری اللہ بخش16.راقم الحروف
آپ نے 'ترکیب القرآن' کے نام سے سات اجزا پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا صرف ایک 'جزء لن تنالوا' شائع ہوسکا جسے مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور نے شائع کیا۔
مولانا موصوف قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے بمع اہل و عیال پاکستان منتقل ہوگئے، اور میاں چنوں شہر کے قریب چک ۱۲۶؍۱۵۔ایل میں ڈیرے ڈال دیے، یہیں آپ نے ایک دینی 'مدرسہ دارالہدیٰ' کی بنیاد رکھی، جو صرف دو کچے کمروں پر مشتمل تھا۔ اس میں تدریس کے فرائض آپ خود ہی سرانجام دیا کرتے تھے۔ اپنے ساتھ پڑھانے کے لئے دو معاون اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کرتے، لیکن لوگوں سے چندہ کی اپیل کبھی نہیں کرتے تھے۔ جامع مسجد (جو اس وقت کچی اینٹوں سے ہی بنی ہوئی تھی) میں امامت اور خطابت کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے۔
موصوف صرف و نحو (عربی گرامر) میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے، دینی طلبہ میں قواعد صرف و نحو کو راسخ اور پختہ کرنے کے لئے مدارسِ دینیہ میں سالانہ چھٹیوں کے موقع پر ماہِ رمضان میں وہ 'دورئہ صرف و نحو' رکھ لیتے، جس میں دیگر مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ بڑے شوق و ذوق سے شمولیت اختیار کرتے تھے۔ دورہ کی اس کلاس میں قواعد ِصرف و نحو کو بہت اہمت دی جاتی تھی۔ مولانا مرحوم نمازِ فجر سے فارغ ہوکر درسِ قرآن دیتے، اس کے فوراً بعد یہ کلاس جاری ہوجاتی۔ آپ خود پڑھاتے، اور قواعد ِصرف و نحو کا اِجرا کرواتے اور عربی گرامر سے متعلق نادر مسائل زیر بحث آتے۔ آپ کے ہاں طالب علم کی علمی بنیاد مضبوط بنانے کے لئے صرف و نحو کے قواعد کا اِجرا اور ان کی مشق بہت ضروری سمجھی جاتی تھی، فارغ اوقات میں اگرچہ وہ ضروری گفتگو بھی کرتے تھے لیکن عام طور پر ان کی زبان ذکر اللہ سے متحرک رہتی تھی اور اسی میں وہ سکون و اطمینان محسوس کرتے تھے۔
سنت ِنبوی ؐسے محبت
مولانا موصوف سنت پر عمل کے بڑے شیدائی تھے اور اس کی مخالفت ان پر بڑی گراں گذرتی تھی، انہوں نے اپنے کھیت میں آم کے درختوں کا باغ لگا رکھا ہے، جب پھل لگتا تو بہت سے خریدار بھاری رقم دینے کی پیش کش کرتے، لیکن آپ کچا پھل کبھی نہ بیچتے، جب یہ پھل سرخ اور زرد (گدر) ہوجاتے، تب انہیں فروخت کرتے تھے کیونکہ رسول اللہ1 نے کچے اور سبز پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو تمام اُمورِ خیر کی ابتدا دائیں جانب سے کرنا پسند تھا، آپؐ دائیںہاتھ سے چیز دیتے اور دائیں ہاتھ سے ہی کوئی چیز لیتے تھے۔ (سنن النسائی، باب التیامن فی الترجل: ص۱۰۴۱)
مولانا موصوف اس کی سخت پابندی کرتے تھے، دائیں ہاتھ سے چیز لیتے اور دیتے تھے اور لینے والے کو دائیں ہاتھ میں ہی چیز تھماتے تھے، اگر لینے والا بایاں ہاتھ آگے کرتا تو اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیتے۔ دوسری بار وہی چیز پکڑاتے اور وہ بایاں ہاتھ ہی آگے بڑھاتا تو اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیتے، بائیں ہاتھ میں کبھی چیز نہ تھماتے۔ تیسری بار بھی وہ ایسا ہی کرتا تو فرماتے:کوئی چیز لیتے یا دیتے وقت دایاں ہاتھ استعمال کرنا چاہئے، کیونکہ رسول اللہ1 کی سنت یہی ہے۔
مسند احمد ج۵؍ ص۳۱۱ پر رسول اکرمﷺکا یہ فرمان موجود ہے :
''إذا أکل أحدکم فلا یأکل بشماله وإذا شرب فلا یشرب بشماله وإذا أخذ فلا یأخذ بشماله وإذا أعطی فلا یعطي بشماله''
''رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز کھائے یا پئے تو بائیں ہاتھ سے نہ کھائے، پئے اور نہ ہی کوئی چیز لیتے یا دیتے وقت بایاں ہاتھ استعمال کرے۔''
مولانا موصوف جب کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھاپی رہا ہے تو بڑے اچھے اندا ز سے اسے روکتے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جنازے کے موقع پر عبدالقادر نامی شخص بہت رو رہا تھا۔ اس سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہا:ایک دفعہ میں بائیں ہاتھ سے کھا پی رہا تھا، مولانا مرحوم نے مجھے دیکھ کر فرمایا:اے عبدالقادر! اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کے لئے دایاں ہاتھ بنایا ہے ، بایاں ہاتھ استنجاء جیسے کاموں کے لئے ہے۔ آپ کی اس بات کو میں نے پلے باندھ لیا اور کبھی اس کی مخالفت نہیں کی، آپ کی وہ نصیحت آج مجھے بہت یاد آرہی ہے۔
بخاری شریف اور مسلم شریف میں رسول اللہﷺ کا یہ فرمان موجود ہے :
''إذا انتعل أحدکم فلیبدأ بالیمنٰی وإذا انتزع فلیبدأ بالشمال لتکن الیمنیٰ أولھما تنعل واٰخرھما تنزع'' (صحیح بخاری: ۵۸۵۶) ''جوتا پہنتے وقت دایاں پاؤں جوتے میں پہلے داخل کیا جائے اور اُتارتے وقت بایاں پاؤں پہلے نکالا جائے یعنی جوتا پہنتے وقت دائیں پاؤں سے ابتدا کی جائے، اور اتارتے وقت بائیں پاؤں سے۔''
مولانا موصوف اس حکم کے سخت پابند تھے، ان کے صاحبزادے کا کہنا ہے کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل جب بیماری کی وجہ سے نڈھال ہوگئے تو ان کے لئے جوتا پہننا یا اُتارنا بھی دشوار ہوگیا تھا، جب ہم جلد بازی میں جوتا پہناتے وقت بائیںپاؤں سے ابتدا کرتے یا اُتارتے وقت دائیں پاؤں کا جوتا پہلے اُتارنا چاہتے تو پاؤں پیچھے ہٹا لیتے۔ ان کے اس فعل سے ہمیں محسوس ہوجاتا کہ ہم غلطی کررہے ہیں لہٰذا سنت کے مطابق ہم اپنے عمل کو درست کرتے۔
عام طور پر وہ چادر اور کرتہ زیب ِتن کرتے تھے، ان کی چادر کی مقدار فقط اتنی ہوتی جو ٹخنوں پرنہ لٹک سکے کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
''ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار'' (صحیح بخاری : ۵۷۸۷)
''جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے چھوڑا جائے گا تو (لٹکانے والے کی ) وہ جگہ آگ میں جلائی جائے گی''
مولاناموصوف ایامِ مرض میں جب خود خریداری سے عاجز آگئے تو بازار سے چادر خرید کر لانے والے کوبلا کر سمجھاتے کہ چادر کا طول اور عرض اس قدر ہونا چاہئے اور فرماتے چادر اس سے بڑی نہیں ہونی چاہئے تاکہ وہ بھول کر بھی ٹخنوں سے نیچے نہ لٹک سکے اور ان کے اس اہتمام کا یہ نتیجہ تھاکہ ہم نے کبھی ان کا تہبند ٹخنوں پر لٹکتا نہیں دیکھا۔
توکل علیٰ اللہ
مولانا کے استغناء کا یہ حال تھا کہ ہمیشہ اپنے ربّ تعالیٰ کے دربار میں دست ِسوال دراز کرتے، لوگوں سے کبھی سوال نہ کرتے تھے۔ انہیں اس بات پر پورا یقین حاصل تھا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا ضامن ہے تو لو گوں سے مانگنے کی ضرورت کیا ہے؟ ان کے بیٹے محمد عبداللہ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ مسجد کا بل زیادہ آگیا، تو میں نے نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر مسجد میں اعلان کردیا کہ اس دفعہ بل زیادہ آیا ہے، آپ حضرات اس وقت تک باہر نہ جائیں جب تک بل پورا نہیں ہوجاتا، اس پر لوگوں نے بھرپور تعاون کیا اور ضرورت سے زیادہ رقم جمع ہوگئی۔ جب گھر آئے تو غصہ کی حالت میں کہا: کیا جو لوگ مسجد میں نماز پڑھنے آجائیں ان کے کپڑے اُتروا لئے جاتے ہیں؟ جمعہ پڑھنے کے لئے صرف مقامی لوگ ہی نہیں آتے، بلکہ دور دراز سے بھی لوگ حاضر ہوتے ہیں اور آپ نے بل کی رقم سب سے وصول کرلی ہے جبکہ مسجد میں بجلی یا گیس سے صرف مقامی لوگ استفادہ کرتے ہیں، اور فرمایا: جب اللہ تعالیٰ ہماری تمام ضروریات پوری کرتا ہے تو اسے چھوڑ کر لوگوں سے سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے!؟
فیاضی اور فراخدلی
مولانا مرحوم کے صاحبزادے مولانا محمد عبداللہ کے بقول چند افراد نے ان کی زمین سے ایندھن چرا لیا، اور وہ گٹھے اپنے سروں پر اٹھا کر چل دیے۔ محمد عبداللہ کو پتہ چلا تو وہ ان سب کو گھیر کر اپنے گھر مولانا موصوف کے پاس لے آئے۔ مولانا تشریف لائے تو انہیں بتایا گیا کہ یہ ایندھن چرانے والے مجرم ہیں، مقصد یہ تھا کہ آپ انہیں کوئی سزا دیں گے، لیکن اس کے برعکس مولانا موصوف نے ان لوگوں سے کہا: کیا آپ لوگوں نے کھانا کھایا ہے؟ اور اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: جائیں ان کو کھانا کھلائیں، جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو ان سب سے کہا: اپنے ایندھن کے گٹھے اٹھا کر لے جائیں۔ ان سے کہا گیا: یہ لوگ مجرم ہیں اور آپ انہیں چھوڑ رہے ہیں، فرمایا یہ ضرورت مند ہیں تبھی تو ایندھن اٹھانے پر مجبور ہوئے، اگر ہم نہیں دیں گے تو یہ کہاں سے لیں گے۔موجودہ دور میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو مجرموں کے ساتھ ضرورتمندوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور ان کے جرم کو نظر انداز کردیتے ہیں...!!
ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے دو ہزار روپیہ بطورِ قرض مانگا، جبکہ ان کے پاس اس وقت اتنی رقم موجود نہیں تھی، وہ شخص واپس چلا گیا، جبکہ دل میں تمنا یہ تھی کہ اس کی ضرورت پوری ہوجائے، کیونکہ آپ کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ واپس کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ایک دوسرا شخص چار ہزار روپے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یہ آپ کا قرضہ ہے جو میں واپس کرنے آیا ہوں، آپ نے وہ رقم لے کر اس میں سے دو ہزار روپے اپنے ایک عزیز کو دے کر اس ضرورت مند کے پیچھے بھیجا جو آپ سے یہ رقم بطورِ قرض لینے کے لئے حاضر ہوا تھا، اور اسے یہ رقم اس کے گھر پہنچائی جبکہ عام لوگ رقم موجود بھی ہو تو دینے سے کنی کترا جاتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ نجانے یہ واپس بھی کرے گا یا نہیں؟ لیکن آپ نے اس کی پرواہ نہ کی اور اس کی ضرورت کو بروقت پورا کرنے کی کوشش کی۔
غلط بیانی سے نفرت
کذب بیانی اور جھوٹ کبیرہ گناہوں سے ہے۔ مولانا موصوف کو اس سے سخت نفرت تھی، اپنا نقصان گوارا کرلیتے تھے لیکن غلط بیانی کا ارتکاب نہ کرتے تھے۔ ایک ایسا شخص آپ سے رقم حاصل کرنے کے لئے آن پہنچا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ رقم لے کر واپس نہیں کرتا۔ ساتھیوں نے مولانا کو آکر آگاہ کیا کہ اسے پیسے دے کر ضائع نہ کرنا، یہ شخص قرضہ لے کر واپس نہیںکرتا۔ اس نے آپ سے پانچ سو روپے کا مطالبہ کیا، آپ نے جیب کی طرف دیکھ کر کہا:پانچ سو روپے تو اس وقت نہیں ہیں، اس نے کہا: جو ہیں وہی دے دو، آپ نے جیب سے تین سو روپے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیے، وہ رقم لے کر چلتا بنا، ساتھیوں نے مولانا سے کہا: اب ان پیسوں کو بھول جائیں، یہ آپ کو اب کبھی نہیں ملیں گے، آپ ایسے لوگوں کو پیسے کیوں دیتے ہیں جو واپس نہیںکرتے۔ فرمایا :کیا کریں، اگر ہاںکریں تو پیسے نہیں بچتے، نہ کریں تو ایمان نہیں بچتا، کیونکہ پیسے ہوتے ہوئے اگر کہا جائے: نہیں ہیں تو یہ جھوٹ ہے جو ایمان کو ضائع کردیتا ہے!
دعوتِ دین میں حکمت
کسی شخص کو اس کی غلطی پر سرعام ٹوکنا ان کی عادت کے خلا ف تھا۔ کسی آدمی سے کوئی غلطی ہوجاتی تو تنہائی میں اسے بڑے احسن انداز سے سمجھا دیتے، ان کی مسجد میں اگر مقرر سے کوئی لغزش ہوجاتی تو اسے وہیں گرفت نہیں کرتے تھے، بلکہ گھر میں لاکر بیٹھک میں بٹھاتے، چائے وغیرہ سے اس کی تواضع کرتے، اور وہی مسئلہ شروع کردیتے جس میں غلطی واقع ہوئی ہوتی اور فرماتے: فلاںکتاب میں یہ مسئلہ ہم نے یوں پڑھا ہے، شاید آپ کے علم میں ہو، یوں اسے حوالہ سمیت صحیح بات کی طرف رہنمائی کردیتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بے نماز شخص آپ کی دعوت سے پکا نمازی بن گیا اور پنچ وقتی نماز بروقت ادا کرنے لگا۔ تقریباً ایک ماہ تک وہ سرگرمی سے نماز باجماعت ادا کرتا رہا۔ اس کے بعد اس نے مسجد میں آنا چھوڑ دیا اور نماز ترک کردی، تو مولانا مرحوم کو اس کا سخت رنج ہوا۔ اس پریشانی کے عالم میں اس کے گھر پہنچ گئے، دروازے پر دستک دی، اس آدمی نے دروازہ کھولا اور عزت و احترام سے اپنے گھر بٹھایا، اور کہا: حضرت کیسے آنا ہوا؟ آپ نے جواب دیا: میں آپ سے افسوس کرنے آیا ہوں۔ اس نے سوچ و بچار کے بعد کہا: مولانا! میرے ہاں کوئی افسوسناک واقعہ رونما نہیں ہوا اور نہ ہی میں نے کوئی ایسا کاروبار کیا ہے جس میں مجھے نقصان لاحق ہوا ہو، افسوس کس بات پر؟ آپ نے فرمایا: آپ نے نماز شروع کی تھی، پھر چھوڑ دی، کوئی شخص جب کوئی کاروبار کرتا ہے اور اسے اس میں فائدہ ہو تو وہ اس میں مزید ترقی کرتا ہے، اسے ترک نہیں کرتا، وہ اسے تب ہی چھوڑے گا جب اسے اس میں نقصان ہو، آپ کو بھی نماز پڑھنے میں نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسی لئے آپ نے نماز چھوڑی ہے۔ اس پر میں آپ سے اظہارِ افسوس کے لئے حاضر ہوا ہوں، وہ آدمی بہت شرمندہ ہوا اور ندامت سے سرجھکا لیا، اور آئندہ اس نے نماز پابندی کے ساتھ پڑھنے کا وعدہ کیا۔
شرک و بدعت سے بیزاری
مولاناموصوف کے ایک شاگرد محمد عبداللہ کے بقول ایک دفعہ مولانا کو بتایا گیا کہ چک نمبر۴۶ کے قریب ایک پیلو کا درخت ہے جس کی پوجا پاٹ کی جاتی ہے۔ وہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں ایک بزرگ رہتا ہے اور وہ اس درخت کے نیچے چراغ جلاتے ہیں۔ فرمایا: اس درخت کو کاٹ کر اس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ رفتہ رفتہ شرک کا گڑھ بن جائے گا، انہوں نے اپنے چند نوجوان شاگردوں کو ساتھ لیا اور آرے، کلہاڑے لے کر وہاں پہنچ گئے اور اس درخت کو کاٹنا شروع کردیا۔ خود آپ نے اس درخت کے ارد گرد تلاوتِ قرآن شروع کردی، تاکہ کوئی شیطانی اثر نہ ہو۔ آس پاس کے لوگوں نے آکر انہیں ڈرایا کہ یہاں بابا رہتا ہے، وہ آپ کو زندہ نہیں چھوڑے گا لہٰذا اسے نہ کاٹو۔ مولوی عبداللہ نے کہا: آج ہمارا بابے سے مقابلہ ہے، دیکھتے ہیں، کون جیتتا ہے؟ لوگوں نے کہا: بابا تمہاری ٹانگیںتوڑدے گا، لڑکوں نے کہا جب ہم اسے چھوڑیں گے نہیں تو ٹانگیں کیا توڑے گا، جب آدھے کے قریب درخت کاٹ دیا گیا تو لوگ ششدر رہ گئے۔ جو بیٹھے دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ یہ لڑکے آج زندہ بچ کر نہیں جائیں گے۔ لیکن انہوں نے اس کے برعکس دیکھا کہ انہیں کوئی گزند نہیں پہنچا تو بھاگ کر گئے اور اپنے ساتھ اپنے ہم خیال بہت سے دیگر لوگوں کو بلا کر لے آئے۔ اور وہ سب مل کر مزاحمت کرنے لگے اور انہیں درخت کاٹنے سے روک دیا۔ لڑکوں نے کہا: ہمیں اپنے مدرسہ میں ایندھن کی ضرورت ہے، ا س لئے یہ درخت کاٹنا ضروری ہے، لوگوں نے کہا: ایندھن کے لئے ہمارے فلاں فلاں درخت کاٹ لیجئے، اسے چھوڑ دیجئے۔لڑکوں نے کہا: ہمیں اسی درخت کے ایندھن کی ضرورت ہے مگر علاقے کے لوگوں نے اسے کاٹنے میں سخت مزاحمت کی تو مولانا نے فرمایا:یہ درخت جس شخص کی زمین میں ہے، اس سے پوچھ لیتے ہیں اگر وہ اجازت دے گا تو کاٹ لیں گے ورنہ چھوڑ دیں گے۔ وہ درخت عبدالغنی نامی آدمی کے رقبے میں تھا، اس سے پوچھا تو اس نے کہا: مولوی جی! آپ لوگ درخت کاٹ کرچلے جاؤگے اور میری شامت آجائے گی، بابا میرے بیوی بچوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور انہیں بیمار کردے گا۔ مولانا نے جواب دیا: عبدالغنی !بابا آپ کے پیچھے نہیں پڑے گا بلکہ جو لوگ درخت کاٹ کر لے جائیں گے ان کا پیچھا کرے گا، اس نے کہا: مولوی جی! آپ درخت نہ کاٹیں مجھے اپنا ڈر ہے تو مولانا موصوف اپنے شاگردوں کے ساتھ کاٹا ہوا ایندھن لے کر واپس آگئے۔
تواضع و انکساری
کسی شخص کو آپ سے کوئی کام درپیش ہوتا یا وہ آپ سے ملاقات کے لئے آتا تو آپ اس کے پاس بیٹھ جاتے اور جب تک وہ خود اُٹھ کر نہ جاتا اس کے پاس بیٹھے رہتے، بعض دفعہ آپ مرض کی وجہ سے تکلیف کا شکار ہوتے لیکن اپنے ہم نشین کو اپنی تکلیف محسوس نہ ہونے دیتے تھے۔
درس گاہ کے لڑکوں کے لئے بعض دفعہ ناشتہ کا انتظام کرتے تو اپنے گھر میں سالن تیار کرواتے اور سالن کی ہنڈیا اور روٹیاں خود اٹھا کر گھر سے مدرسہ میں لاتے، اور اپنے ہاتھ سے طلبہ میں تقسیم کرتے، بعض اوقات کھانے کی تقسیم کسی لڑکے کے حوالے کردیا کرتے تھے۔
درس گاہ کے بالکل متصل ایک حنفی بزرگ اپنے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے جن کی طبیعت میں کافی سختی اور تلخی پائی جاتی تھی اور وہ بیو ی بچوں کے بغیر اکیلے ہی رہتے تھے۔ کئی دفعہ وہ بزرگ، لڑکوں سے اُلجھ پڑتے تو آپ کبھی جوابی کارروائی نہیںکرتے تھے۔ جب یہ بزرگ اپنے بڑھاپے کی عمر میں بیمار پڑ گئے تو آپ اپنے گھر سے کھانا پکوا کر اسے پیش کرتے، حتیٰ کہ جب وہ خود کھانا کھانے سے عاجز آگئے تو ان کے منہ میں نوالے ڈالنے سے بھی مولانا مرحوم گریز نہ کرتے اور یہ سلسلہ اس بزرگ کی موت تک جاری رہا۔
طلبہ کی خدمت کو وہ اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے، مجھے یاد ہے جب راقم الحروف ان کی درسگاہ میں داخل ہوا، اس وقت ذرائع مواصلات ناپید تھے۔ سڑکیں اور راستے کچے تھے، ہم پیدل چل کر اپنے گاؤں سے درس گاہ تک پہنچتے تھے، جب کبھی چھٹیوں کے دنوں میں مدرسہ سے گھر جاتے تو استاذ موصوف اپنی سائیکل پر ہمیں گاؤں کے قریب چھوڑ کر واپس لوٹ جاتے تھے حالانکہ درس گاہ سے ہمارا گاؤں سولہ، سترہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اللہ تعالیٰ ان اعمالِ صالحہ کو اُستاذِ محترم کے لئے جنت الفردوس میں بلندیٔ درجات کا باعث بنائے۔آمین!
والدہ کی تربیت
بچوں کی صحیح تربیت میں ماں، باپ کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے، اور اگر وہ بچے کی تربیت کو نظر انداز کردیںتو ایسے بچے معاشرے کے لئے ہی نہیں بلکہ ماں، باپ کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں مولاناموصوف کے والد ِگرامی تو ان کے بچپن میں ہی رحلت فرما گئے تھے، لہٰذا ان کی تربیت والدہ محترمہ نے کی جو آنکھوں سے نابینا تھیں اور حافظ ِقرآن تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں باطنی بصیرت سے نوازا تھا، انہوں نے اپنے لخت ِجگر کو اسلامی رنگ میں رنگنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کردیا اور اسے دین اسلام کا مبلغ بنانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو وقف کردیا۔ مولانا موصوف خود بتایا کرتے تھے کہ والدہ نے مجھے تحصیل علم کی غرض سے ایک درس گاہ میں بھیجا، وہاں گھروں سے خود جاکر کھانا لانا پڑتا تھا۔ سردی کے موسم میں میں ایک گھر سے برتن اٹھائے کھانا لینے گیا تو دیکھا گھر والے آرام سے بیٹھے آگ تاپ رہے ہیں۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں زمیندار گھرانے کا فرزند ہوں اور ہمارا رقبہ بھی کافی ہے اور یہاں میں لوگوں کے گھروں سے برتن اُٹھائے روٹی لاتا ہوں، گھر گیا تو والدہ سے کہہ دیا کہ میں اب نہیں جاؤں گا، وہاں تو گھروں سے کھانا لانا پڑتا ہے، والدہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا: آٹا گھر سے لے جایا کر اور وہاں اپنی روٹی پکا کر کھا لیا کر مگر خبردار! آئندہ یہ نہ کہنا کہ میں پڑھنے کے لئے نہیں جاؤں گا۔ آخر انہیں والدہ کے حکم پر طلب ِدین کے لئے جانا پڑا۔
والدہ محترمہ انہیں دین ِمتین کی بے لوث خدمت کے لئے تیار کررہی تھیں۔ ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان آئے تو تنگدستی کا سامنا تھا، لوگ اپنے تمام مال و متاع کو خیرباد کہہ کر یہاںپہنچے تھے۔ میاں چنوں شہر میں جامع مسجد اہلحدیث کے خطیب اور نامور عالم دین مولانا عبدالقادر زیرویؒ نے مولانا سے کہا: آپ یہاں ہمارے ہاں آکر تدریس کیا کریں، آپ کا علم تازہ رہے گا اور علمی سلسلہ بھی منقطع نہیں ہوگا اور آپ کو ماہوار ڈیڑھ سو روپے تنخواہ دی جائے گی۔ آپ اس پر آمادہ ہوگئے، گھر آکر والدہ سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: یحییٰ! ہم نے آپ کو اس لئے نہیں پڑھایا کہ آپ پیسے لے کر دین کا کام کریں، آپ پڑھائیں ضرور، لیکن تدریس کے بدلہ میں آپ نے لینا کچھ نہیں۔ گھر سے کھانا کھاکر جائیں اور دوپہر کا کھانا اپنے ساتھ لے جایا کریں، اور تنخواہ لینے کا خیال چھوڑ دیں، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور بغیر کسی معاوضہ کے وہاں تدریس کرتے رہے۔
احفظِ اﷲ یحَفظک
رسول اللہ1 نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو جن پندو نصائح سے نوازا تھا ان میں ایک نصیحت یہ تھی: یا غلام! احفظ اﷲ یحفظك
( ترمذی،مستدرک حاکم:۳؍۵۴۱)'' اے لڑکے! تو اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرے گا تو اللہ تعالیٰ تیرے جان و مال کا محافظ بن جائے گا۔''
ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا محمد یحییٰ اِحیاے دین کی تڑپ رکھتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے جان و مال کی حفاظت کی۔ جس کی مثال یہ ہے کہ مولانامرحوم کے گاؤں ۱۲۶ کے رہنے والے 'لا لوتیلی' کا کہنا ہے اور اس نے یہ واقعہ خود سنایا کہ ایک دفعہ مولانا کے کھیت میں چارہ بہت خوب تھا، سرسبز و شاداب لہلہاتا ہوا چارہ دیکھ کر میں رہ نہ سکا اور میں نے وہ چارہ چُرا کر اپنے جانوروں کو کھلانے کا تہیہ کرلیا، اور مجھے معلوم ہوا کہ مولانا موصوف لیہ کے علاقے کی طرف سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لہٰذا میں نے ان کے سفر پر روانہ ہونے کے بعد چارہ کاٹ کر اپنی بکریوں کو چرانے کا عزم کرلیا۔ جب مجھے پتہ چلا کہ مولانا لیہ کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں تو میں شام کے وقت چارہ کاٹنے کے لئے ان کے کھیت میں گیا، وہاں جاکر مجھے مولانا صاحب سامنے کھڑے دکھائی دینے لگے۔ میں واپس آگیا اور فیصلہ کیا کہ آدھے گھنٹے کے بعد پھر ادھر آؤں گا جب وہ یہاں سے گھر چلے جائیں گے۔ ٹھیک آدھے گھنٹے کے بعد میں ان کے کھیت میں پہنچا تو مولانا ویسے ہی مجھے سامنے کھڑے دکھائی دے رہے تھے، میں پھر واپس ہوگیا اور دل میں یہ خیال تھا کہ آخر یہ جائیں گے تو کچھ دیر بعد واپس آکر چارہ کاٹوںگا۔ کافی دیر بعد جب میں کھیت کی طرف لوٹا تو سامنے مولانا صاحب مجھے ویسے ہی کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔ میں گاؤں واپس آگیا اور مولانا صاحب کے بارہ میں پتہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ تو کل گذشتہ لیہ کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں، تب سے میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ اب کبھی بھی مولانا صاحب کے کھیت کا بُرے ارادے سے رُخ نہیںکروں گا۔
سچ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ آپ دین الٰہی کی حفاظت کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے جان ومال کا محافظ بن جائے گا۔
وفات
آخر اس ولی صفت شخصیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا بلاوا آگیا اور مولانا محمد یحییٰ فیروزپوری رحمۃ اللہ علیہ ۱۰؍ رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ موافق ۶؍ نومبر ۲۰۰۳ء کو داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے اور اپنے پیچھے ایک لڑکا پانچ لڑکیوں اور ان کی والدہ کو غمزدہ چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو منورکرے اور أعلیٰ علیین میں ان کے درجات کوبلند فرمائے۔ آمین!