یہودیوں کے حق ِتولیت کے 'اِشراقی' علمبردار

معاصر 'اشراق' کے نوجوان سکالرز کی تحقیق کاری کا ناقدانہ جائزہ

مسجد اقصیٰ کہاں پر ہے؟

یاد رہے کہ آج کی مسجداقصیٰ وہ 'مسجد ِاقصیٰ' نہیں ہے جس سے آقائے دوجہاں، امام الانبیا ﷺنے معراج کا سفر شروع کیا تھا۔ یہ درحقیقت وہ مسجد ہے جس کی تعمیر اُموی خلیفہ عبدالملک کے دور میں ۶۸۸ء میں ہوئی تھی۔ اس کا اعتراف اشراقی مصنف کو بھی ہے۔ دوسری بات جان لینے کی یہ ہے کہ قبۃ الصخرۃ اور مسجد ِاقصیٰ بھی ایک نہیں ہیں جیسا کہ مصنف کی ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے

''۶۳۸ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پر امیرالمومنین عمر بن الخطاب﷜صحابہ کی معیت میں مسجد ِاقصیٰ میں آئے۔ اس وقت ہیکل کے پتھر (صخرۂ بیت المقدس) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے صحابہ کرام ؓکے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کی جنوبی جانب میںنماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ مخصوص کردی۔ بعدمیں اس جگہ پرلکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ ۶۸۸ء میں اُموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرہ بیت المقدس کے اوپر ایک شاندار گنبد تعمیر کرا دیا جو قبۃ الصخرۃ "Dome of Rock" کے نام سے معروف ہے۔ اس نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کرکے اس کے رقبے کو مزید وسیع کردیا، اسلامی لٹریچر میں 'مسجد اقصیٰ' سے مراد یہی مسجد ہے۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء)

اس عبارت سے درج ذیل باتیں اَخذ کی جاسکتی ہیں:

1. ۶۳۸ء میں مسلمانوں نے جب یروشلم فتح کیا تو ہیکل کے پتھر پر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا، گویا اس کی عبادت نہیں کی جاتی تھی۔ اگر یہ ہیکل سلیمانی کا پتھر ہوتا تواس حالت میں ہرگز نہ ہوگا۔ یروشلم میں موجود یہودیوں کی مختصر تعداد بھی اپنے معبد کا یہ حشر نہ ہونے دیتی۔

2. حضرت عمرؓ کے دور کے بعد وہاں تعمیر کی جانے والی لکڑی کی مسجد (مسجد عمرؓ) ہیکل کی جنوبی جانب تعمیر کی گئی، یعنی عین ہیکل پر اس کو نہ بنایا گیا۔

3. عبدالملک نے قبۃ الصخرہ اور مسجد ِاقصیٰ دونوں بنائیں۔ مسجد اقصیٰ کا مقام وہی رکھا گیا، جہاں پر 'لکڑی کی مسجد' (مسجد عمر) واقع تھی، گویا یہ مزعومہ ہیکل کے مرکزی حصہ سے ہٹ کر تعمیر کی گئی۔

مندرجہ بالا معلومات کودرست مان لیا جائے، تو یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ 'مسجداقصیٰ' ہیکل سلیمانی کی عین جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھراشراقیت پسندوں کی جانب سے یہودیوں کے حق تولیت کی بازیابی مہم ہوا میں معلق ہوکر رہ جاتی ہے، زمینی حقائق تو اس کے خلاف ہی ثابت کرتے ہیں۔

مصنف نے عہد ِنامہ عتیق (تورات) اور یہودی مصادر سے جو معلومات نقل کی ہیں، ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی کانام بہت بعد میں دیا گیا مثلاً وہ لکھتے ہیں:

''پوپ اربن دوم کے کلمہ پر عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لئے روانہ ہوا جس نے ۱۰۹۹ء میں یروشلم پر قبضہ کرکے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرۃ کے اوپر ایک صلیب نصب کرکے اس کو "Templum Drmini" کا اور مسجد اقصیٰ کو "Templum Solomoni" کا نام دے دیا'' (ایضاً)

اس عبارت سے جہاں یہ مترشح ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ دو الگ الگ عمارتیں ہیں، وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی بنائی ہوئی مسجد اقصیٰ کو پہلی دفعہ 'سلیمانی ٹیمپل' کا نام صلیبی جنونیوں نے ۱۰۹۹ء میں دیا، پہلے اس نام کا دعویٰ نہیں کیا گیاتھا۔

اس عبارت میںمصنف کی 'روشن خیالی' (یعنی اسلامی حمیت کا فقدان) بھی قابل غور ہے، وہ بالکل مستشرقین اور مسیحی مصنّفین کے اتباع میں صلیبی جنونیوں کو 'مسیحی مجاہدین' کہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ پہلے 'مسلمان عالم دین' ہیں جوصلیبیوں کے لئے 'مجاہدین' کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

یہودیوں کے حق ِتولیت کے پرجوش علمبردار محقق ممدوح نے 'خروج' سموئیل، اور تواریخ جیسے عہدنامہ عتیق کے حصوں سے جو معلومات نقل کی ہیں، ان سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہودی جس 'ہیکل سلیمانی' کی مسجد ِاقصیٰ پر تعمیر نو کرناچاہتے ہیں، وہ عین اسی مقام پر تباہ کیاگیا تھا وہ زیادہ سے زیادہ یہ بتاسکے ہیں کہ بنی اسرائیل نے کسی دور میں 'ہیکل سلیمانی' تعمیر کیا تھا۔

مصنف کی طولانی 'تاریخ نویسی' کا خلاصہ یہ ہے :

مصریوں کی غلامی سے رہائی کے بعد بنی اسرائیل نے ایک متحرک عبادت گاہ (خیمہ اجتماع) بنائی۔ ۱۴۵۰ق م میں حضرت یوشع 2 کے یروشلم دوبارہ فتح کرنے تک انکی عبادت گاہ یہی 'خیمہ اجتماع' ہی رہی۔ حضرت داؤد ؑ نے مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھی، انہیں باقاعدہ مرکز ِعبادت تعمیر کرنے کی ہدایت ملی۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ارنان یبوسی نامی شخص سے اس کاایک مکان خریدا جو کوہِ موریا پر واقع تھا۔ اپنی زندگی میں وہ یہ عبادت گاہ تعمیرنہ کرسکے۔ حضرت سلیمان 2 نے اپنے والد کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق متعینہ جگہ پر ایک شاندار عبادت گاہ تعمیر کرائی جو تاریخ میں ہیکل سلیمان (Solomani's Temple) کے نام سے معروف ہے، اس کی تعمیر ۹۵۰ ق م میں مکمل ہوئی۔ ۵۸۶ ق م میں بنو نصر نے حملہ کرکے اسکو برباد کردیا۔

مصنف کے پیش کردہ محولہ بالا یہودی موقف کی رو سے ہیکل سلیمانی 'کوہِ موریا' پر تعمیر کیاگیا تھا۔ موصوف کا فرض تھا کہ ثابت کرتے کہ یہی وہ کوہِ٭ موریاہے جس پر موجودہ مسجد اقصیٰ واقع ہے مگر وہ یہ اہم معلومات فراہم کرنے کی بجائے بڑے آرام سے آگے بڑھ گئے۔ اس کے بعد مصنف نے حضرت سلیمان ﷤کی ایک طویل دعا نقل فرمائی ہے جس میں فرماتے ہیں: ''واضح ہے کہ بنی اسرائیل کیلئے اس عبادت گاہ کو اسی طرح ایک روحانی مرجع و مرکز اور 'مثابۃ للناس' کی حیثیت دے دی گئی تھی جس طرح بنی اسمٰعیل کے لئے مسجد احرام کو۔'' اس دعا میں حضرت سلیمان﷤ کے یہ الفاظ: ''اس گھر کی طرف جو میں نے تیرے نام کیلئے بنایا ہے'' بار بار آئے ہیں۔ یہ دعا نقل فرمانے کے بعد مصنف ہمارے علم میں پھر 'اضافہ' فرماتے ہیں :

''اس عبادت گاہ کو بنی اسرائیل کے ایک مذہبی و روحانی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی عظمت و شوکت اور دنیاوی جاہ و جلال کے ایک نشان کی حیثیت بھی حاصل تھی۔''

ہم کہتے ہیں کہ بھلے اسے یہ 'جاہ و جلال' ضرور حاصل ہوگا، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ عبادت گاہ یعنی ہیکل سلیمانی اس جگہ تعمیر ہواتھا جہاں اس وقت 'مسجد ِاقصیٰ' موجود ہے۔

٭۱۱۱۹ء میں شاہ بالڈون (Baldwin) دوم نے مسیحی سرداروں کو موریا پہاڑی پر ایک عمارت بنا کر دی جس کا نام ہیکل سلیمانی Temple of Soloman رکھا۔ اس ہیکل کے اعلیٰ عہدیداروں کو ہیکل سلیمانی کے سردار (Kinghts of Soloman's Temple) کا نام دیا گیاجو بعد میں نائٹس ٹمپلرز کہلائے۔'' (فری میسزی از بشیر احمد: ص۳۱)

اس بیان کی رو سے موریہ پہاڑی پر بنایا جانے والا ہیکل ۱۱۱۹ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا حضرت سلیمان علیہ السلام سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ کیا یہی وہ ہیکل ہے جس کی تعمیر نو کی وکالت کی جا رہی ہے؟ (ع۔ص)

حق تولیت سے یہود کی معزولی

اشراقی مصنف نے اس موضوع پرقرآنِ مجید اور احادیث ِمبارکہ سے جس طرح استنباط فرمایا ہے،چاہیے تو یہ تھا کہ اس پر کڑی تنقید کی جاتی، مگر خدشہ یہ ہے کہ 'اہل اشراق' اسے 'دشنام طرازی' قرار دیتے ہوئے اپنے وضع کردہ معیارِ اخلاق کے د فتر کھول کر بیٹھ جائیں گے جیسا کہ ان کی عادت ہے۔ (اشراق، اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اور پھر 'اہل تدبر' بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس نقد و تبصرہ پر 'عامیانہ انداز' ہونے کا فتویٰ صادر فرمائیں گے جیسا کہ وہ 'محدث' کے مولانا امین احسن اصلاحی کے متعلق خصوصی شمارہ کے بارے میںکرچکے ہیں۔ (تدبر: ستمبر ۲۰۰۱ء)

اسی لئے ان کی اس 'حساسیت' کا خیال رکھتے ہوئے ہم یہاں اشارات پر ہی اکتفا کرتے ہیں لیکن اُمید ہے'اہل اشراق' اپنے متعلق اس قدر تنقید تو برداشت کر ہی لیں گے جس قدر انہوں نے 'اہل خلافت' ('تنظیم اسلامی' کے امیر) اور دیگر دینی سکالروں کے متعلق المیزان میں روا رکھی ہے۔ میزانِ انتقاد پہ دوسروں کو تولنا ویسے بھی ان کا ہی استحقاق تو نہیں ہے!!

ملت ِاسلامیہ کا بڑا واضح موقف ہے کہ یہودی ایک فتنہ گر قوم ہیں، یہ دنیاکی واحد قوم ہے جس کے ہاتھ اس قدر انبیا کے قتل سے رنگے ہوئے ہیں، انہوں نے ہمیشہ عہدشکنی کی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ صحائف میں تحریف کامکروہ کردار ادا کیا اور یہ حق بات کو چھپا کر ہمیشہ دجل و فریب اورتلبیس کوشی سے کام لیتے رہے ہیں۔ قرآن مجید نے سورۃ البقرہ اور دیگر مقامات پر ان کے گھناؤنے جرائم پر مبنی 'چارج شیٹ' پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم کی پاداش میں اس خبیث قوم کو دنیا کی راہنمائی کے منصب سے معزول کرکے جناب رسالت مآبﷺ کے ذریعے بنو اسمٰعیل کے سر پر نبوت کا تاج رکھا جو قیامت تک ان کے لئے و جہ ِفضیلت و تفاخر رہے گا۔ اس لئے انبیا کی سرزمین یعنی فلسطین اور مسجد ِاقصیٰ پر ان کا کسی قسم کا حق باقی نہیں رہا۔

اُمت ِ مسلمہ کا یہ موقف ہے کہ جس طرح انبیا کے مشن کی وراثت اُمت ِ مسلمہ کو منتقل ہوگئی ہے اس طرح مسجد ِاقصیٰ کی ملکیت و تولیت کا حق بھی مسلمانوں کو منتقل ہوگیا ہے۔ غزوئہ بدر کے موقع پر مسجد ِحرام پرمشرکین کی تولیت کی منسوخی کے متعلق سورۃ الانفال کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :

﴿وَما لَهُم أَلّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُم يَصُدّونَ عَنِ المَسجِدِ الحَر‌امِ وَما كانوا أَولِياءَهُ ۚ إِن أَولِياؤُهُ إِلَّا المُتَّقونَ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌هُم لا يَعلَمونَ ﴿٣٤﴾... سورة الانفال

''اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے، حالانکہ وہ مسجد ِحرام میں آنے سے لوگوں کوروکتے ہیں، جبکہ وہ اس پر تولیت کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔''

اس آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا کہ مشرکین مسجد ِحرام پر تولیت کا حق نہیں رکھتے۔ تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کو ہے۔ اگر مشرکین پرہیز گار نہ ہونے کی وجہ سے مسجد حرام کی تولیت کے حق دار نہیں ہیں تو یہود اس قدر گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے اور مغضوب علیہم ہونے کے باوجود مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے حق دار کیسے ہوسکتے ہیں؟ اشراق کے مضمون نگار اس آیت ِمبارکہ کے نزول کے بعد رسول اکرمﷺ کے طرزِ عمل پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:

''لیکن بیت اللہ پر مشرکین کی تولیت کے حق کو خود رسول اللہ ﷺ نے عملاً اس وقت تک چیلنج نہ کیا جب تک ۹ ہجری میں قرآنِ مجید میں اس کے بارے میں واضح ہدایت نازل نہیں ہوگئی۔ حتیٰ کہ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد بھی جب مشرکین کی سیاسی قوت و شوکت بالکل ٹوٹ چکی تھی اور بیت اللہ کا حق تولیت ان سے چھین لینے میںکوئی ظاہری مانع موجود نہیں تھا، آپ نے کعبہ کی تولیت کے سابقہ انتظام ہی کو برقرار رکھا اور اس سال مسلمانوں نے اسی انتظام کے تحت ارکانِ حج انجام دیئے۔ مشرکین کو بھی اس سال حج بیت اللہ سے نہیں روکا گیا۔''

مذکورہ بالا استدلال محض کج فہمی اور کج بحثی کے زمرے میں آتا ہے۔ ورنہ مصنف موصوف کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس استدلال کا اطلاق مسجد ِاقصیٰ پر نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمائیے ۲ ہجری سے لے کر ۸ ہجری تک مشرکین سے تولیت لینے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ ۸ہجری میں جب مکہ فتح ہوا تو آپؐ کو کعبۃ اللہ کی چابیاں پیش کی گئیں جنہیںآپ ؐنے کعبۃ اللہ کے سابقہ متولی (عثمان بن طلحہ) کے حوالہ کردیا۔ آپ کا یہ اقدام یہ ثابت نہیں کرتا کہ آپؐ کو قرآنِ مجید کے مذکورہ حکم کی پروا نہیں تھی۔ بلکہ آپؐ کا یہ فیصلہ اس عظیم الشان اور عدیم النظیر تالیف ِقلوب کے مظاہروں میں سے ایک تھا جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرے گی۔ آپ ؐکے اس عمل مبارک سے جو نتیجہ اشراقی مصنف نے نکالا ہے، وہ درست نہیں ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے ابوسفیان کے گھر کے متعلق فرمایا:

''اگر کوئی ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا تو وہ محفوظ ہوگا۔''

ایسا آپ نے اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں کیاتھا۔ آپ کی مروّت، تالیف ِقلب اور وسعت ِقلبی کا نتیجہ تھاکہ کعبہ کے متولی جلد ہی مسلمان ہوگئے اور بعد میں بھی یہ سعادت ان کے خاندان کو حاصل رہی۔ آپؐکی نگاہِ بصیرت دیکھ رہی تھی کہ وقتی طور پر کعبہ کی تولیت مشرکوں کے پاس رہنے دینے سے کس قدر عظیم نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ دراصل یہ نبی کریم کی ان مشرکین کو مسلمان کرنے کی حکمت ِعملی تھی۔آپؐ کے اس اسوۂ حسنہ کو مسجد اقصیٰ کے معاملے میں آخر کس طرح پیش کیا جاسکتا ہے۔ جب مسلمانوں نے مسجد ِاقصیٰ کو فتح کیا تو یہودیوں میں سے کوئی بھی اس کا متولی موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی سے اس طرح کی تالیف ِقلب کے اظہار کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت عمرؓ نے جس طرح عیسائی پادریوں سے حسن سلوک سے کام لیا، ان سے یہ بعید نہ تھا کہ وہ یہودیوں سے بھی ویسا سلوک کرتے۔ جب یروشلم کی فتح کے موقع پر کوئی ہیکل سلیمانی تھا نہ اس کا متولی، تو پھر فتح مکہ اور فتح یروشلم کے واقعات کو ایک سطح پر لانا قیاس مع الفارق ہے۔

اشراقیوں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ احادیث کے بظاہر منکر تو نہیں ہیں، مگر کتب ِاحادیث کو 'تاریخ'کا درجہ دے کر زیادہ قابل اعتنا بھی نہیں سمجھتے۔ اگر اشراقی محقق احادیث کا مطالعہ فرما لیتے تو وہ بات شاید کبھی نہ کرپاتے جو انہوں نے غیر ذمہ داری سے کر ڈالی۔ وہ تو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیںکہ فتح مکہ کے تقریباً ایک سال بعد تک رسول اللہﷺ نے کعبہ کی تولیت کی ذمہ داری مشرکین کو دئیے رکھی، جو کہ درست نہیں ہے۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ فتح مکہ کے بعد کعبۃ اللہ کی تولیت مشرکوں کے پاس چند گھنٹے بھی نہ رہی۔ شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کی 'سیرۃ الرسول ؐ' سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

''اس کے بعد آپؐ نے عثمان بن طلحہ سے چابی لی، بیت اللہ کا دروازہ کھولا، اس میں بت رکھے تھے، ان میں ابراہیم اور اسماعیل 3 کے مجسّمے بھی تھے، جن کے ہاتھوں میں قسمت آزمائی کے تیر تھمائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کو برباد کرے، بخدا! انہوں نے ان تیروں کے ساتھ کبھی قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔ آپؐ نے بیت اللہ کے اندر موجود سب تصویروں کو مٹانے اور تمام بتوں کوتوڑنے کا حکم دیا۔ پھر آپؐ ، بلالؓ، اسامہؓ اور عثمان ؓ چار آدمی بیت اللہ میں داخل ہوئے، تو دروازہ بند کردیا گیا۔ دروازے کے سامنے کی جانب دیوار کی طرف بڑھے، جب تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تو آپؐ نے کھڑے ہوکر وہاں نماز پڑھی پھر دروازہ کھول کر باہر نکلے۔ قریش نے صفیں باندھیں اور مسجد میں منتظر تھے کہ دیکھیں آج ان کا کیا حشر ہوتا ہے۔ آپؐ نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا : اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے، اپنے بندے کی امداد فرمائی ہے اور اکیلے نے سب دشمن فوجوں کو شکست دے دی ہے۔ آج زمانۂ جاہلیت کی فضیلت کے طریقے، مال اور خون کے قدیم دعوے سب ختم کئے جاتے ہیں۔ ہاں بیت اللہ کی دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کا اعزاز بدستور قائم رہے گا...

''پھر فرمایا: اے جماعت ِقریش! تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کروں گا؟'' سب یک زبان ہوکر بولے۔ ہم بہتر سلوک کی توقع کرتے ہیں، آپؐ معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ''اگر یہ بات ہے تو میں آج تم سے وہی بات کہوں گا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کی تھی:﴿قالَ لا تَثر‌يبَ عَلَيكُمُ اليَومَ...٩٢﴾... سورة يوسف

''آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف فرمائے، اور وہی سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔''جاؤ تم آزاد ہو ...!!

پھر آپؐ مسجد ِحرام میں بیٹھے۔ بیت اللہ کی چابی آپؐ کی ہاتھ میں تھی، حضرت علیؓ نے درخواست کی! ''یارسول اللہﷺ! چابی ہمیں دے کر بیت اللہ کی دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کے دونوں اعزاز سے ہمیں سرفراز فرمائیے۔'' ایک روایت میں ہے کہ یہ درخواست حضرت عباسؓ نے آپؐ کے سامنے پیش کی تھی مگر آپؐ نے فرمایا: 'عثمان بن طلحہ کہا ں ہے؟'' اس کو بلایا گیا تو آپؐ نے یہ کہتے ہوئے کہ آج نیکی اور وفاداری کا دن ہے، چابی عثمان کی طرف بڑھائی اور فرمایا: عثمان! ''اپنی یہ چابی لے لو'' ایک روایت میں ہے کہ آپ یہ چابی حضرت عباسؓ کو دینا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اُتاری:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ‌كُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها...٥٨﴾... سورة النساء

''اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ امانتیں ان کے اہل کو لوٹائی جائیں ۔''

علامہ ابن سعد نے 'طبقات' میں عثمان بن طلحہ کا بیان نقل کیا ہے کہ

ہم خانہ کعبہ کا دروازہ ہفتہ میں سوموار اور جمعرات ، دو دن کھولا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اکرمﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہونے لگے، تو میں نے دروازہ بند کردیا اور آپؐ کو کچھ نازیبا کہا۔ آپؐ نے میری اس حرکت کو برداشت کیا اور فرمایا: ''عثمان! ایک دن آئے گا تو دیکھے گا کہ یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی۔ میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ میں نے کہا: یہ تب ہوگا، جب قریش ہلاک ہوجائیں گے۔'' آپ ؐ نے فرمایا: ''نہیں! بلکہ اس دن قریش زندہ ہوں گے اور عزت پائیں گے۔'' آپؐ خانہ کعبہ میں داخل توہوگئے مگر آپؐ کی یہ بات میرے دل میں جم گئی اور میں نے یقین کرلیا کہ جو آپؐ نے فرمایا ہے، ایسا ہوکر رہے گا۔

جب مکہ فتح ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ''عثمان! چابی لاؤ'' میں نے چابی لاکر دے دی۔ آپؐ نے وہ چابی اپنے ہاتھ میں لی، پھر یہ کہتے ہوئے واپس کردی: ''یہ چابی لو، یہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ اگر کوئی تم سے چھینے گا تو وہ ظالم ہوگا۔ عثمان! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے گھر کا امین بنایا ہے، اس کی آمدنی دستور کے مطابق اپنے استعمال میں لاؤ۔'' پھرجب میں جانے لگا، تو آپؐ نے مجھے بلایا اور فرمایا: ''جو کچھ میں نے کہا تھا، وہی ہوا یا نہیں؟'' عثمان کہتا ہے: مجھے آپؐ کی وہ بات یا دآگئی جو آپؐ نے ہجرت سے قبل مجھے مکہ میں فرمائی تھی۔ میں نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں۔'' (یعنی میں مسلمان ہوگیا) (سیرۃ الرسول: صفحہ ۵۴۱ تا۵۴۴)

قارئین کرام! اسلامی تاریخ کا یہ ایمان افروز واقعہ ہم نے تفصیل سے نقل کردیا ہے، اب آپ ہی اندازہ فرمائیے کہ رسولِ اکرم1 نے عثمان بن طلحہ کو کعبۃ اللہ کی چابیاں کس روحانی فضا میں واپس کی تھیں اور پھر آپؐ کی کرم گستری کا عثمان پر کس قدر جلد اثر ہوا۔ کیا ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ اشراقی مصنف ان تاریخی حقائق کو پڑھنے کے بعد اپنے اس معکوس استنباط سے رجوع فرمائیں گے؟ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دے !!

۹ ہجری میں سورۃ براء ۃ کی یہ آیات نازل ہوئیں :

﴿ما كانَ لِلمُشرِ‌كينَ أَن يَعمُر‌وا مَسـٰجِدَ اللَّهِ شـٰهِدينَ عَلىٰ أَنفُسِهِم بِالكُفرِ‌ ۚ أُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم وَفِى النّارِ‌ هُم خـٰلِدونَ ١٧ إِنَّما يَعمُرُ‌ مَسـٰجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ وَأَقامَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَى الزَّكو‌ٰةَ وَلَم يَخشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسىٰ أُولـٰئِكَ أَن يَكونوا مِنَ المُهتَدينَ ١٨﴾... سورة التوبة ''مشرکوں کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے کفر کی شہادت خود دیتے ہوئے، وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں۔ ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ اللہ کی مساجد کو آباد کرنے کا حق تو صرف ان کو ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ اداکرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ انہی لوگوں کے ہدایت یافتہ ہونے کی اُمید ہے۔''

﴿فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا...٢٨﴾... سورة التوبة

''لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد ِحرام کے قریب نہ آئیں۔''

قارئین کرام! اس آیت ِمبارکہ کو غور سے پڑھنے کے بعد اشراقی مصنف کا 'علمی استدلال' بھی ملاحظہ فرمائیے، فرماتے ہیں:

''اس حکم کے نازل ہونے کے بعد ۹ ہجری میں حج کے موقع پر سیدنا علی ؓ نے یوم النحر میںسورۃ براء ت کی ابتدائی چار آیات پڑھ کرسنائیں جن میں مشرکین پر اتمامِ حجت اور ان سے اللہ ورسول کی براء ت کا اعلان ہے، اور پھر اعلان کردیا کہ آج کے بعد نہ کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل ہوسکے گا ... ۹ ہجری میں جب سورۃ براء ۃ میں مشرکین پر اتمامِ حجت اور ان سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی براء ت کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ قرآن مجید میںباقاعدہ یہ حکم نازل ہوا کہ اب بیت اللہ پرمشرکین کسی قسم کاکوئی حق نہیںرکھتے۔ لہٰذا آج کے بعد ان کو مسجد ِحرام کے قریب نہ آنے دیا جائے۔''

اس آیت کے نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں :

''اس اُصول کو سامنے رکھیں تو مذکورہ استدلال کے حوالے سے سب سے پہلا یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا قرآن و سنت میںکوئی ایسی نص موجود ہے جس میں یہود کے مذکورہ مذہبی و اخلاقی جرائم کی بنیاد پر ان کے حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ کیا جس طرح مسجد ِحرام پر مشرکین مکہ کے حق تولیت کی تنسیخ کا دو ٹوک اعلان قرآن و سنت میں کیا گیا ہے، اس طرح مسجد ِاقصیٰ اور یہود کے بارے میں بھی کوئی صاف اور صریح نص وارد ہوئی ہے؟ ہمارے علم کی حد تک اس کا جواب نفی میں ہے اور قرآن و سنت کی تصریحات، سیرۃ ِنبوی، تاریخ اسلام اور فقہا کی آرا میں متعدد قرائن اس کے خلاف ہیں۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء)

مصنف کے ان مباحث کے متعلق ہماراتبصرہ یہ ہے کہ اس طائفہ نو اعتزال نے اپنی محققانہ خیال آرائیوں کیلئے قرآن و سنت کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے، جب چاہتے ہیں ان کو اپنے عقل پرستانہ استدلال کا تختۂ مشق بنا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں چندباتیں قابل غور ہیں:

1. سورۃ براء ت کی مندرجہ بالا آیات کا تولیت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں، ان آیات میں مشرکوں کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے، تو پھر فاضل مصنف نے اس سے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے مسئلہ کے لئے اُصول کہاں سے وضع کرلیا؟

2. ۹ ہجری میں مشرکین سے صرف براء ت کاعلان ہوا، کعبۃ اللہ کی تولیت کامسئلہ تو پہلے ہی طے کردیا گیا تھا، یہی و جہ ہے کہ اس میں تولیت کاذکر نہیں ہے۔ تو پھر اس سے مصنف کے استدلال کاجواز آخر کیا رہ جاتا ہے؟

3. کعبۃ اللہ کی تولیت کے متعلق حکم ۲ ہجری میں ہی نازل ہوا، اس کی عملی صورت ۸ ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر وقوع پذیر ہوگئی۔

4. مصنف اگر معتزلائی روشن خیالی کے زیر اثر نہ ہوتے تو یہ سوال کبھی نہ کرتے کہ''کیا یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے لئے قرآن و سنت میں کوئی نص موجود ہے۔'' مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے متعلق ایک طرح کے الفاظ کی توقع رکھنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم1 کی زندگی میںمسجداقصیٰ پر مسلمانوں کو فتح حاصل نہیں ہوئی، تو اس کے متعلق احکامات قرآن و سنت میں کیسے وارد ہوجاتے؟

5. مسجد ِ حرام کے متعلق احکامات کے وارد ہونے کے بعد 'مسجد اقصیٰ' کے متعلق الگ سے نص کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ مذکورہ آیات میں بہت واضح طور پر ارشاد ہے کہ'' مسجد ِحرام کی تولیت کاحق پرہیزگاروں کو ہے۔ مشرکوں کو حق نہیں ہے کہ اپنے کفر کی شہادت خود دیتے ہوئے وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں۔''

مصنف نے غور نہیں فرمایا ورنہ انہیں یہاں بھی نص قرآنی نظر آہی جاتی۔ سورۃ برأت کی آیات میں الفاظ 'مساجد اﷲ' ہیں، یعنی جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اگر یہ حکم صرف مسجد ِحرام تک ہی محدود ہوتا، تو جمع کا صیغہ لانے کی کیا ضرورت تھی۔کیا 'اللہ کی مسجدوں' میں مسجد ِاقصیٰ شامل نہیں ہے۔ اگر ہے تو پھر اس پر اس آیت کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔

اس آیت میں اللہ کی مساجد کی تولیت کا حق 'ہدایت یافتہ' گروہ کو دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے واضح طور پر مسلمانوں کو 'ہدایت یافتہ' گروہ اور یہودیوں کو گمراہ اور مغضوب کہا ہے۔ اور ہدایت سے مراد 'الکتاب' ہے۔ گویا الکتاب پر ایمان رکھنے والا گروہ ہی ہدایت یافتہ ہے۔ تو پھر اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی مساجد بشمول مسجداقصیٰ پر تولیت کا حق صرف اور صرف مسلمانوں کو ہے۔

6. اہل اشراق کی یہ عادت بن چکی ہے کہ جو بات ان کی عقل میں نہ آئے اس کے لئے فوراً قرآن و سنت سے 'صریح نص' پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ ان کا موقف تو عین قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ تو مسجداقصیٰ کی تولیت کی منسوخی کے لئے قرآن مجید سے 'صریح نص' تلاش کرتے پھر رہے ہیں، ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ قرآن مجید سے صریح نص ڈھونڈ کر دکھا دیں جس میں پانچ نمازوں کا حکم اور ان کے اوقات مقرر کئے گئے ہوں، یہ تو اتنی اہم بات ہے کہ آپ بھی روزانہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں ... یہ تجدد پسندوں کا وہ گروہ ہے جس نے عقلی موشگافیوں میں پڑ کر شادی شدہ زانی کے لئے 'رجم' کی سزا سے انکار کردیا ہے۔

نجانے قرآن و سنت کی وہ کون سی تصریحات ہیں اور سیرتِ نبوی کے وہ کون سے واقعات ہیں جس سے مصنف کے خیال میں یہودیوں کامسجد اقصیٰ پر حق تولیت ابھی تک قائم ہے؟ جوکچھ انہوں نے اپنے مقالہ میں پیش کیا ہے، اس سے تو ان کے موقف کی نفی ہوتی ہے نہ کہ تصدیق۔ ہم منتظر ہیں کہ وہ اپنے کسی دوسرے 'علمی مضمون' میں ان 'تصریحات' پر روشنی ڈال کر ہمیں مستفید فرمائیں گے۔

حق تولیت کی منسوخی کے خلاف اشراقی دلائل

اشراقی مضمون نگار نے اس مضمون کے آغاز میںدعویٰ کیا تھا کہ وہ اس موضوع کا 'قرآن و سنت کی روشنی میں بے لاگ' جائزہ لیں گے اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں 'عدل وانصاف کا دامن کسی حال نہیں چھوڑیں گے۔'' اگر تو 'بے لاگ' جائزے کا ان کے ذہن میںتصور یہ ہے کہ اپنے عقلی نکتہ آرائیوںکے مقابلے میں ملت ِاسلامیہ کے اجماعی موقف کا ردّ پیش کردیاجائے اور اپنے پہلے سے قائم کردہ مفروضات کو 'تحقیق' کے نتیجے میں درست قرار دیا جائے، تو بلاشبہ مصنف 'بے لاگ' جائزہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر ان کے پیش نظر 'بے لاگ' کاوہی مطلب ہے جو کہ عام طور پر لیا جاتا ہے تو پھر مشرکوں (یہودیوں) کی ہم نوائی میں شرمندگی کے سوا شاید ہی ان کے مقدر میں اور کچھ آسکے۔

قرآنِ مجید نے یہ تو ہدایت دی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ان کے خلاف ناانصافی پرنہ اُبھارے، مگر قرآن مجید کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں کہ کسی غیر قوم کی دوستی تمہیں اپنی قوم یعنی ملت ِاسلامیہ کی توہین وتخفیف پر اُبھارے، اشراقی مصنف نے درحقیقت مؤخر الذکر 'کارنامہ' انجام دیا ہے، اب اس پر اگر وہ اِتراتے ہیں تو پھر ان کو 'پندار' سے کون روک سکتا ہے!!

ملت ِاسلامیہ کے جید علما نے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے متعلق یہودیوں کے حق کی منسوخی کے متعلق جو استدلال کیا ہے، نوخیز اشراقی سکالر اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ موصوف نے جو دلائل قائم کئے ہیں، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

1. اللہ کے نبیوں کے تعمیر کردہ خانہ خدا کی تولیت کے معاملے میں بھی مشرکین اور اہل کتاب کے مابین فرق کو لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔

2. مشرکین مکہ کے برخلاف اہل کتاب کو محض سیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک حکم کو محدود رکھا گیا ہے اور مذہبی مراکز پران کے حق تولیت کو اشارۃً بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

3. رسول اکرم﴿کے ارشادات میں کہیں بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی قانونی و شرعی حیثیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا اورنہ اس حوالہ سے آپؐ نے صحابہ ؓ کو کوئی ہدایت دی۔

4. صحابہ ؓ کے ذہن میں مسجد ِاقصیٰ کے حق تولیت کا کوئی تصور نہ تھا۔

5. حضرت عمرؓ کے عہد ِخلافت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو امیر المؤمنین نے یہاں کے باشندوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا لیکن مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ اس میں بھی زیربحث نہ آیا۔

6. حضرت عمرؓ مدینہ منورہ میں غیرمسلموں کو ضرورت کے تحت تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن بیت المقدس کے حوالے سے اس قسم کی کوئی ہدایت اسلامی قوانین میں نہیں دی گئی۔ حرمین شریفین اور بیت المقدس کے احکام میں اس فرق کی آخر کیا توجیہ کی جائے؟

7. فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرے میں اس بات کی تصریح نہیں تھی کہ مسجد ِاقصیٰ کو اہل کتاب کے تصرف سے نکال کر اہل اسلام کی تولیت میں دے دیا گیا ہے۔

مصنف کے ان دلائل کے ردّ میں ہماری معروضات درج ذیل ہیں:

1. تمام معاملات میں مشرکین اوراہل کتاب کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ بعض، بالخصوص سیاسی نوعیت کے، معاملات میں یہود سے مشرکین کی نسبت زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔ مدینہ اور خیبر سے رسولِ اکرمﷺ کی زندگی میں یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا مگر فتح مکہ کے وقت مشرکین کے ساتھ رحم دلی کا جو سلوک جناب رسالت مآبﷺ نے فرمایا، اس سے ہرشخص واقف ہے۔ رسولِ اکرمﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے اَدوار میں ریاست ِمدینہ کی یہودیوں کے متعلق جوپالیسی رہی، اس کو سامنے رکھا جائے تو یہود مشرکین سے بھی زیادہ سخت پالیسی کے مستحق سمجھے جائیں گے۔ اشراقی مصنف نے قیاس مع الفارق کا شکار ہوکر غلط استدلال کیا ہے، ان کے ذہن پر صرف 'تولیت' ہی سوار ہے، انہیں اس مسئلہ کو اسلامی تاریخ کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

2. 'اہل کتاب کوسیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک محدود' رکھنے کا استدلال محض مصنف کی اختراع اور تجدد پسندی ہے، انہیں یہ خیال بالکل ہی نہیں رہا کہ مدینہ اور خیبر میں یہودیوں کومغلوب کرلینے تک اکتفا نہ کیا گیا بلکہ انہیں جزیرئہ عرب سے بے دخل بھی کیا گیا۔ مزید برآں مصنف نے قرآنِ مجید کی جس آیت سے استنتاج (Inference) فرمایا ہے ، وہ بھی ان کے فکر ِاعتزال سے متاثر ہونے کا شاخسانہ ہے، ورنہ اس آیت سے قطعاً وہ ثابت نہیںہوتا جو وہ فرماتے ہیں، وہ آیت درج ذیل ہے:

﴿قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ‌ وَلا يُحَرِّ‌مونَ ما حَرَّ‌مَ اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حَتّىٰ يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـٰغِر‌ونَ ٢٩﴾... سورة التوبة

''اہل کتاب کے ساتھ، جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں، برسر جنگ ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ زیر دستی قبول کرکے ذِلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں۔''

اس آیت میں اگر مذہبی مراکز پر یہودیوں کے حق تولیت کا ذکر نہیں ہے، تو اس میں تعجب کا کون سا قرینہ ہے۔ جزیرہ نماعرب میں آخر کون سی ایسی عبادت گاہ تھی جس کی تولیت تصفیہ طلب تھی اور اس کے متعلق قرآنی فیصلہ صادر کیاجاتا؟ یہ عجیب منطق ہے کہ چونکہ اہل کتاب کو مغلوب کرنے اور ان سے جزیہ لینے جیسے احکامات پر مبنی آیت میں اگر تولیت کاذکر نہیں ہے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہود کا حق تولیت منسوخ نہیںہوا۔ ایسی منطق سے تو ہر معقول بات کی تردید کی جاسکتی ہے، مسئلہ تولیت کو آخر کیا خصوصیت حاصل ہے۔ کسی چیز کے عدمِ ذکر و سکوت سے اس کا وجود ثابت کرناکوئی مستند استدلال نہیں۔

3. اگر رسولِ اکرمﷺ کے ارشادات میںمسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے متعلق کوئی صریح ہدایت موجود نہیں ہے، تو یہ بات قابل فہم ہے اور عقل عام کا تقاضا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا، کیونکہ خانہ کعبہ اور مسجد ِحرام کی طرح مسجد ِاقصیٰ پرفوری قبضے کا کوئی معاملہ آپؐکے پیش نظر تھا ہی نہیں۔ خانہ کعبہ کی طرح وہاں کوئی عمارت بھی نہ تھی جس کی تولیت کی بات کی جاتی۔ ثانیاً قرآنِ مجید میںچونکہ مسجد ِحرام کے حوالے سے ایک اُصول بیان کردیا گیاتھا کہ'اللہ کی مساجد' پر تولیت کا حق صرف ہدایت یافتہ یعنی مسلمانوںکو ہے، اسی لئے آپ نے اس کی وضاحت ضروری نہ سمجھی، ثالثاً اس وقت یہ کوئی اتنا اہم مسئلہ بھی نہ تھا ورنہ کسی نہ کسی صحابی نے آپؐ سے اس کی وضاحت ضرور طلب کی ہوتی، مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ بعد میں سامنے آیا، درحقیقت یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں کیونکہ کوئی حریف گروہ اس کے استحقاق کا دعویدار ہی نہیں تھا۔

4. صحابہ کرام ؓ کے ذہن میں مسجد اقصیٰ کی مفروضاتی تولیت کا مسئلہ کیونکر آتا؟ ان کے دور تک توکسی یہودی نے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا دعویٰ نہیں کیاتھا۔ صحابہ کرام ؓ تو قرآن مجید کی سورۃ الانفال کی روشنی میںبالکل واضح سوچ رکھتے تھے کہ مسجد اقصیٰ کے متعلق اگر تولیت کاکبھی مسئلہ سامنے بھی آیا تو اس پرمسلمانوں کو ہی حق حاصل ہوگا۔ وہ دور از کار تاویلات میںجانے والے نہ تھے جس طرح کی معتزلہ اور ان کی روحانی ذرّیت آج کل تاویل تراشی میں مبتلا نظر آتی ہے۔

5. حضرت عمرؓ کے معاہدے میں تولیت کے ذکر کی توقع رکھنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ نجانے مصنف نے یہ کیسے فرض کرلیا چونکہ اس کامعاہدے میںذکر نہیں لہٰذا حضرت عمرؓ مسجداقصیٰ پریہودیوں کے حق تولیت کو مانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت یہ بات کسی کے ذہن میں نہ تھی کہ یہودی اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ جیساکہ پیچھے اس نکتہ پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔

6. سیکورٹی اور اسلامی ریاست کے تحفظ اور رازداری کی وجہ سے مکہ و مدینہ کا بیت المقدس سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔ حضرت عمرؓ جزیرۃ العرب کو غیر مسلموں سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔ چونکہ بیت المقدس اس سے باہر تھا، اس لئے سیکورٹی کے اس اُصول کو وہاں نافذ نہیں کیا۔ معلوم نہیں اس مسئلہ کا حق تولیت سے کیا تعلق ہے جو مصنف اس کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ؟

7. مصنف کا دعویٰ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ فقہا نے اس اہم معاملے سے چونکہ تعرض نہیں کیا لہٰذا 'عدمِ تعرض ہی اس تصور کی نفی کے لئے کافی ہے۔ ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کسی چیز کے بارے میں عدم تعرض یا سکوت کسی دوسری شے کے وجود و ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ فرض کیجئے اگر 'عدمِ تعرض' کے فلسفہ کو قابل اعتنا ہی سمجھ لیا جائے تو کسی چیز کے متعلق عدمِ تعرض سے جہاں ایک چیز ثابت ہوسکتی وہاں دوسری بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

مصنف نے عدمِ تعرض سے یہودیوں کے حق تولیت کی تنسیخ کی نفی ثابت کرنی چاہی ہے ہم کہتے ہیں کہ بعض اوقات ایک مسلمہ اور ثابت شدہ، غیر متنازع بات کے متعلق بھی عدمِ تعرض سے کام لیاجاتا ہے۔ کسی چیز سے تعرض عام طور پر تب کیاجاتا ہے جب اس پر آرا مختلف پائی جائیں۔ چونکہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ فقہا کے نزدیک متنازعہ نہ تھا، اس لئے ان کے ہاں اس کے عدمِ تعرض کا قرینہ ملتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت 'نہایت اہم' نہیں تھا جتنا کہ یہودی لٹریچر پر دما غ سوزی کرنے کے بعد ہمارے ممدوح محقق کو اب محسوس ہوتا ہے۔

مصنف نے یہاں بہت طویل فقہی موشگافیاں بھی فرمائی ہیں۔ ان دلائل میں غامدی صاحب کا مخصوص 'فلسفہ اتمامِ حجت' بھی جلوہ فرما ہے۔ مصنف کو فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرے میںیہودیوں کے حق تولیت کی تائید میں جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے اہل کتاب کے مسجد میںدخول وعدم دخول اور اعتقادی نجاست کی بحث کھڑی کردی جس کا مسئلہ مذکور سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

مصنف سورۃ البقرۃ کی اس آیت ﴿إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا...٢٨﴾... سورة التوبة" کے متعلق بلا ضرورت مختلف فقہی مکاتب ِفکر کی آرا پیش کرکے غیر منطقی انداز میں یہودیوں کے حق تولیت کی منسوخی کی نفی کااعلان کردیتے ہیں۔

مساجد میں مشرکوں کے داخلہ کی علت، وقت اور محل کے لحاظ سے کیاہے؟ امام شافعی اس پابندی کو علت اور وقت کے لحاظ سے تو عام مانتے ہیں لیکن محل کے لحاظ سے خاص۔اعتقادی نجاست کی علت چونکہ دوسرے غیر مسلموں میں بھی پائی جاتی ہے، اس لئے کوئی بھی غیرمسلم چاہے وہ مشرک ہو یا اہل کتاب، مسجد ِحرام میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اما م مالک اور امام احمد کی رائے میں یہ حکم علت، وقت اور محل، ہر لحاظ سے عام ہے یعنی ان کے نزدیک تمام غیر مسلموں کا داخلہ مسجد ِحرام سمیت تمام مساجد میں ہمیشہ کے لئے ممنوع ہے۔ احناف کے نزدیک مسجد ِحرام میں داخلے کی یہ پابندی نہ تمام غیر مسلموں کے لئے ہے اور نہ ہر زمانے کے لئے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک اس حکم کی علت مفرد نہیں، بلکہ مرکب ہے۔ احناف تمام مساجد میںغیر مسلموں کے دخول کے جواز کے قائل ہیں۔ مصنف کے علمی مباحث کا ملخص یہی ہے۔ مصنف احناف کی رائے سے استشہاد کرتے ہوئے نتیجہ نکالتے ہیں کہ

''مسجد اقصیٰ پر مسلمان نہ بلا شرکت ِغیرے تصرف کااستحقاق رکھتے ہیں اورنہ یکطرفہ طور پراس پر اسلامی شریعت کے احکام نافذ کرنے کے مجاز ہیں۔''

قارئین کرام! یہاں 'ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ' والی مثال صادق آتی ہے۔ مسجد میں داخلے کی اجازت سے موصوف یہودیوں کے حق تولیت کو ثابت کرنے کی سعی فرماتے ہیں۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیںکہ اگر اعتقادی نجاست غیر مسلموں کے مساجد کے معاملے میںحائل نہیں ہے اور اس بنا پر انہیں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی حق بھی مل جاتا ہے تو پھرمسجد اقصیٰ تک ہی کیوں موقوف رکھا جائے، باقی تمام مساجد میں بھی جہاں انہیں داخلہ کا جواز ملتا ہے، وہ حق تولیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ حیرت ہے ان اشراقیوں پر جن کے تمام دین کا انحصار ان کی عقل پرہے۔ کہاں مسجد میں غیرمسلموں کے دخول اور عدمِ دخول کا معاملہ اور کہاں حق تولیت کی اُصولی بحث۔ مصنف نے جس تنکے کے سہارے اپنے استدلال کی عمارت اٹھائی ہے، وہ یہ ہے کہ بعض احناف رسول اللہﷺ کے دور میں مشرکین عرب کی مسجد حرام میں داخلہ کی ممانعت کی وجہ ان کو اُمورِ تصرف و تولیت سے بے دخل کردینا سمجھتے تھے۔ یقینا یہ ایک وجہ بھی ہے، مگر مشرکوں کو داخلہ کی اجازت نہ دینے کی اور بھی تو کئی وجوہات ہیں۔ پھر مصنف خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان احناف کی رائے جمہور فقہا کی رائے کے برعکس ہے۔ (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء ، ۴۷)

مسلمانوں کے حق تولیت کی تائید میں دلائل

راقم الحروف کے نزدیک مسجداقصیٰ پر مسلمانوں کے حق تولیت کے حق میں سب سے اہم شرعی دلیل سورۃ توبہ اور سورۃ الانفال کی وہ آیات ہیں جن کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ سورۃ انفال میں مشرکین مکہ کے متعلق فرمایا کہ ''وہ اس (مسجد حرام) پر تولیت کا حق بھی نہیں رکھتے، اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کا ہے۔'' (آیت:۳۴)

پھر سورۃ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ

''مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں، درآں حالے کہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں، انہی سے یہ توقع ہے کہ وہ سیدھی راہ چلیں گے۔'' (آیات :۱۷، ۱۸)

مسلمانوں کے حق تولیت کے متعلق یہ بالکل واضح آیات ہیں۔ ان آیات میں جو خصوصیات و انجام مشرکوں کا بتایا گیا ہے، اس کا اطلاق اہل کتاب یہود پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ یہودی مشرکین کی طرح اپنے کفر کی شہادت دے رہے تھے، وہ اگرچہ اللہ کومانتے ہیں اور بعض الہامی کتب پر یقین رکھتے ہیں مگر اسلام نہ لانے کی وجہ سے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے اور ہرمسلمان جانتا ہے کہ مشرکوں کی طرح ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ بات تو تسلیم شدہ کہ وہ سیدھی راہ پر نہیں ہیں۔ ان مشترک باتوں کی وجہ سے مسجد حرام اور مشرکوں کے معاملے کا اطلاق یہود اور مسجد ِاقصیٰ پر ہوتا ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ مسجد اقصیٰ پرنہیں ہے، ہیکل سلیمانی پر ہے، قرآن مجید نے مسجد ِاقصیٰ کی بات کی ہے، ہیکل کا ذکر نہیں کیا۔ مصنف کی یہ دلیل درست نہیں ہے کہ تولیت کے متعلق مشرکوں اور اہل کتاب کے درمیان فرق ملحوظ رکھا جاناچاہئے۔ ہم ان آیات کو ایک طرح سے مسلمانوں کے حق تولیت کے متعلق نص سمجھتے ہیں۔ بالفرض ان آیات میں مسجد اقصیٰ کا صریح ذکر نہ ہونے کی وجہ سے اگر بعض حضرات اس کے غیر منصوص ہونے پر اصرار کریں، تب بھی مندرجہ بالا آیات ایسے غیر منصوص مسئلہ کے متعلق بنیادی اُصول فراہم کرتی ہیں۔ قرآنِ مجید کے متعدد اُصولوں کی روشنی میں جب سینکڑوں غیرمنصوص مسائل کا حکم لگایاجاسکتا ہے، تو ان واضح تراُصولی آیات کی روشنی میںمسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کے حق تولیت کو تسلیم کرنے میں آخر کون سا امر مانع ہوسکتا ہے؟

مندرجہ بالاآیات کے علاوہ علمائے اسلام نے قرآنِ مجید میں پیش کردہ واقعات مثلاً واقعہ معراج، تحویل قبلہ وغیرہ سے بھی مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا حق تولیت اخذ کیاہے ۔

چنانچہ سید سلیمان ندوی' سیرت النبیؐ 'میںواقعہ معراج کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

''سب سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس سورۃ کے جلی عنوانات کیا ہیں: (1) یہ اعلان کہ آنحضرتﷺ نبی القبلتین (یعنی کعبہ اور بیت المقدس دونوں کے پیغمبر) ہیں۔ اور

(2) یہود جو اب تک بیت المقدس کے اصلی وارث اور اس کے نگہبان و کلید بردار بنائے گئے، ان کی تولیت اور نگہبان کی مدت حسب ِوعدہ ٔ الٰہی ختم کی جاتی ہے اور آلِ اسمعٰیل کو ہمیشہ کے لئے اس کی خدمت گزاری سپرد کی جاتی ہے... آپ کودونوں قبلوں کی تولیت تفویض ہوئی اور نبی القبلتین کا منصب عطا ہوا۔ یہی وہ نکتہ تھاجس کے سبب آنحضرتﷺ کو کعبہ اور بیت المقدس، دونوں طرف رخ کرنے کاحکم دیا گیا اور اس لئے معراج میں آپ کو مسجد حرام (کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی صف میں آپ کو امامت پر مامور کیا گیا تاکہ آج اس مقدس دربار میں اس کا اعلان عام ہوجائے کہ دونوں قبلوں کی تولیت سرکارِ محمدیؐ کو عطا ہوئی ہے۔'' (سیرت النبیؐ:۳؍۲۵۲،۲۵۳)

پھر آپ تحویل قبلہ کو یہود کے حق تولیت کی معزولی کا حکم نامہ قرا ر دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

''بیت المقدس اسلام کا دوسرا قبلہ ہے اور اس کی تولیت اُمت ِمحمدیہ کا حق تھا۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو اس تولیت کی بشارت دی تھی اور فرما دیا تھا کہ میری موت کے بعد یہ واقعہ پیش آئے گا۔'' (سیرت النبیؐ :۳؍۳۸۵ )

اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں:

''واقعہ معراج کی طرف اشارہ جس میں حقیقت ... کہ اب مسجدحرام اور مسجد اقصیٰ دونوں گھروں کی امانت خائنوں اور بدعہدوں سے چھین کر نبی اُمی ﷺ کے حوالہ کی گئی۔ اب یہی ان مقدس گھروں اور ان کے انوار و برکات کے وارث اور محافظ و امین ہوں گے اور ان کے قابضین... مشرکین قریش و یہود... عنقریب ان گھروں کی تولیت سے بے دخل کردیئے جائیں گے۔'' (تدبر قرآن:۳؍۷۱۴)

یادش بخیر مولانا اصلاحی صاحب اشراقیوں کے امامِ ثانی مانے جاتے ہیں۔ امامِ ثالث، اپنی تحریروں میں انہیں 'الاستاذ' کا درجہ دیتے ہیں۔ مگر اشراق کے مضمون نگار واقعہ معراج کی روشنی میں حق تولیت کے متعلق مولانااصلاحی صاحب کی 'تاویل بشارت' کوتسلیم کرتے ہیں نہ سید سلیمان ندوی صاحب کی مؤثر وضاحت ان کے نزدیک قابل اعتنا ہے۔

ان اقتباسات کو درج کرنے کے بعد چند نکتہ آرائیاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''ان دلائل سے واضح ہے کہ ہمارے اہل علم کی ایجاد کردہ واقعہ اسراء کی یہ تازہ تعبیر علمی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔''

اس ضمن میں مسلمان علما چند دیگر دلائل بھی دیتے ہیںمثلاً 'فتح بیت المقدس کی بشارت' اور نصاریٰ کی کتابوں میں پیش گوئیاں جس کی رو سے نصاریٰ بھی بیت المقدس کو اسلام کا حق سمجھے ہوئے تھے (بقول مولانا قاری محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیوبند) مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔

قرآن و سنت کے یہی وہ حوالہ جات ہیںجس کو بنیاد بناتے ہوئے ملت ِاسلامیہ نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے متعلق اپنا موقف قائم کیا ہے۔ اگر قلب و نظر میں اسلامی حمیت کا چراغ روشن ہو، تو یہ دلائل انسان میں اس قدر اُجالا کردیں کہ وہ تشکیک اور تذبذب کی وادیوں میں کبھی بھٹکتا نہ پھرے ۔

ارضِ فلسطین پر یہود کا حق؟

اشراق کے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے شمارے میں اسی مصنف کے قلم سے ایک اور مضمون 'ارضِ فلسطین پریہود کا حق' کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں اس طرح کے مضامین (اور وہ بھی ایک مذہبی رسالہ میں) کی اشاعت جسارت آمیز ہے، اس مضمون میں بھی مصنف نے اُمت مسلمہ کے موقف کو ناانصافی پر مبنی اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ مصنف سوال کرتے ہیں :

''صحف ِآسمانی ارضِ فلسطین کو خدا کی طرف سے یہود کوعطا کردہ میراث قرار دیتے ہیں، جبکہ ہمارے اہل علم ان کو اس سرزمین میں پردیسی اور اجنبی کے لئے اور اس میں ان کے قیام کو صدیوں اور سالوں کے پیمانوں سے ناپ کر اس حق کو خرافات قرار دیتے ہیں۔'' (ص۵۹)

نجانے وہ کن صحف ِآسمانی کی بات کرتے ہیں۔ اگر اس سے ان کی مراد وہ صحائف ہیں جو یہودیوں کی ملکیت ہیں تو قرآنِ مجید ان کو محرف قرار دے چکا ہے۔ اگر بالفرض وہ محرف نہ بھی ہوں تب بھی قرآنِ مجید کے آنے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔یہ حیرت آمیز سوال کرنے سے پیشتر انہیں غوروفکر کرنا چاہئے تھا کہ آخر جس خدا نے یہود کو وہ میراث عطا کی تھی، اس نے انہیں وہاں سے ذلت ونکبت سے دوچار کرکے نکالا کیوں تھا۔ یہود کا یوں ذلیل و خوار ہوکر نکلنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ میراث عارضی تھی اور اس پر ہمیشہ کے لئے 'خدا کی عطا کردہ' کا ٹھپہ نہیں لگا ہوا تھا۔ جب تاریخی اعتبار سے یہ ثابت شدہ ہے کہ یہودی فلسطین پر ۷۰ سال سے زیادہ کبھی مسلسل حکمران نہیں رہے۔ فلسطین میں عربوں کا وجود اسرائیلیوں سے ۲۶۰۰ سال مقدم ہے۔ عرب دنیا کے نامور سکالر علامہ یوسف قرضاوی کا یہ بیان تسلیم کرنے میں آخر کون سی علمی رکاوٹ حائل ہے :

''اگر ان تمام سالوں کو جمع کیا جائے جو یہودیوں نے حملے کرتے اور تباہی پھیلاتے ہوئے فلسطین میں گزارے تو اتنی مدت بھی نہیں بنے گی جتنی انگریز نے ہندوستان میں یا ولندیزیوں نے انڈونیشیا میں گزاری۔ اگر اتنی مدت گزارنے پر کسی کو کسی سرزمین پر تاریخی حق حاصل ہوجاتا ہے تو انگریزوں اور ولندیزیوں کو بھی اس قسم کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور اگر غربت کی حالت میں ایک طویل عرصہ کسی علاقہ میںگزارنے سے اس زمین پر ملکیت کا حق ثابت ہوتا ہے تو پھر یہودیوں کو چاہئے کہ وہ فلسطین کی بجائے، جس میں ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد نے تقریبا ً ۲۰۰ سال گزارے اور جہاں وہ دو افراد آئے تھے، لیکن ۷۰؍ افراد نکل کرگئے، مصر کی ملکیت کا مطالبہ کریں جس میں انہوں نے ۴۳۰ سال گزارے۔ یہودیوں کا فلسطین پر تاریخی حق کا دعویٰ بالکل لغو ہے۔ صحیفوں کی تصریح کے مطابق وہ یہاں محض اجنبیوں کی طرح رہے تو کیا کسی اجنبی یا راہ گیر کو یہ حق ہے کہ وہ اس زمین پر جس نے اس کو ذرا پناہ دے دی یا اس درخت پر جس نے اس کو تھوڑی دیر سایہ فراہم کردیا، اسی وجہ سے ملکیت کا حق جتا دے کہ اس نے گھڑی کی گھڑی وہاں سستا لیا ہے۔'' ( ہفت روزہ' الدعوۃ' اپریل ۲۰۰۲ء )

 اشراقی مضمون نگار نے ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کے ذکر میں فری میسنری تحریک کاذکر بالکل گول کردیا ہے، ہیکل سلیمانی کا ذکر فری میسنری کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاسکتا۔ بشیراحمد اپنی کتاب 'فری میسنری؛ اسلام دشمن خفیہ تنظیم' میں اس تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں:

''ان کے نزدیک دنیا کی عظیم اور قابل تقدیس عبادت گاہ ہیکل سلیمانی یہودی شان و شوکت کی علامت تھا۔ ان کے خیال میں اب اس کی جگہ مسجد اقصیٰ تعمیر ہوگئی ہے جس کو مسمار کرکے دوبارہ ہیکل کا قیام ضروری ہے۔ اس ہیکل کی تعمیر کے نتیجے میں تمام دنیا کے یہودی اپنے مرکز پرجمع ہوسکیں گے اور خداوند یہواہ کی تعریف کے گیت گاسکیں گے۔'' (ص :۱۷)

فری میسنری کی تعلیمات کا ماخذ یہودیوں کے پراسرار باطنی علوم (قبالہ) اور قدیم دیومالائی قصے کہانیاں ہیں۔ قدیم مصری، یونانی، شامی اور بابلی دیومالائی قصوں کو فری میسنری رسومات کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ فری میسن ان دیومالائی داستانوں کے ضمن میں ہی ہیکل سلیمانی کے معمارِ اعظم حیرام ابیف کے مرکر جی اُٹھنے کا واقعہ ذکر کرتے ہیں۔ ہیکل سلیمانی کی تباہی اور اس کی دوبارہ تعمیر فری میسنری علوم کا اہم باب ہے۔

فری میسنری لاجوں کو چلانے والے مختلف عہدیداروں کے درجات کو دیکھا جائے تو وہاں بھی ہیکل سیلمانی کا تعلق نمایاں نظر آتا ہے۔ لاج میں انجام دی جانے والی رسومات بھی ہیکل سے متعلق ہوتی ہیں۔ فری میسنری لاج کی عمارت ہیکل سلیمانی کا عکس اور نمائندہ ہوتی ہے، اسلئے اس کا منہ مشرق کی طرف ہوتا ہے کیونکہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کا منہ مشرق کی طرف تھا۔

کوئی بھی آزادانہ تحقیق کرنے والا شخص جو فری میسنری تحریک اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کے باہمی تعلق کو جانتا ہے، اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کی تولیت کے حق کو تسلیم کرے۔فری میسنری چونکہ کاریگر اور مستری قسم کے لوگ تھے، اس لئے انہوں نے ہیکل سلیمانی کے گرد اپنے خرافات کا تانا بانا بنا، انہوں نے اپنے مذہبی جنون کا اظہار بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور تعمیر نو کے قصوں کے بیان کرنے میں کیا۔ انہوں نے بہت جلد ہی دیگر یہودیوں میں اپنی خرافات کے متعلق جذباتی وابستگی پیدا کرلی، ورنہ یہود میں ہیکل سلیمانی کی مسجد ِاقصیٰ کو گرا کر تعمیر کرنے کی تحریک قدیم اَدوار میں نہیں تھی۔

فری میسن ایک زبردست تحریک تھی جس نے یورپ کے شاہی گھرانوں، دانش وروں اور اہل سیاست و صحافت، سب کو متاثر کیا۔ برطانیہ کے شاہی خاندان اور امریکہ کے صدور کا اس تحریک سے گہرا تعلق رہا ہے۔ ہندوستان میں جتنے معروف وائسرائے آئے، وہ بھی اس تحریک سے وابستہ تھے۔ صہیونی تحریک کا بانی تھیوڈر ہرزل اس تحریک کا پرجوش رکن رہا تھا۔

خلاصۂ بحث :ایسے وقت میں جب فلسطین کے مسلمان اپنی سیاسی جدوجہد کے نازک دور سے گزر رہے ہوں اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، مغربی کنارے پر یہودی اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لئے پختہ فصیل تعمیر کررہے ہوں، جنین، رملہ اور غزہ میں اسرائیلی ٹینک مسلمانوں کی آبادیوں کو تہس نہس کررہے ہوں، جناب یاسرعرفات کا ہیڈکوارٹر گرایا جاچکا ہو، ان کو عملاً بے دست وپا کرکے فلسطینی قیادت سے محروم کردیا گیا ہو، حماس کے لیڈروں کو چن چن کر شہید کیا جارہا ہو، بیت المقدس کی بے حرمتی کی جارہی ہو، آئے دن فلسطینی مسلمان، عورتوں اور بچوں کی چیختی چلاتی تصویروں سے اخبارات بھرے پڑے ہوں، اسرائیلی طیارے شام اور لبنان پر بمباری کررہے ہوں؛ کیا یہی مناسب موقع ہے جس میں ایک مذہبی گروہ کاآرگن تواتر سے اسرائیلی موقف کا پرچار کرتے ہوئے اُمت ِمسلمہ کے موقف کو باطل ثابت کرنے کی مذموم مہم برپاکرے اور 'ارضِ فلسطین پر یہود کا حق' ثابت کرنے کے لئے قرآن وسنت اور تاریخی دستاویز کی من چاہی تاویلات و تعبیرات سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلے۔ آخر آزادانہ تحقیق کے نام پر حقائق کو مسخ کرنے اور مسلمانوں کی دل آزاری کا یہ شرمناک کھیل کب تک کھیلا جاسکتا ہے؟ علمائے حق محض مروّت اور رواداری کے جذبات کے تحت ان دل آزار سرگرمیوں کو کب تک نظر انداز کرتے رہیں گے؟

ان سب سوالوں کے جوابات ہمیں اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہئیں۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لئے برپا کردہ مکروہ مہم کی سرکوبی اور محاکمہ ہر اس مسلمان کا فرض ہے جس کا دل ملت ِاسلامیہ کے غم میں تڑپتا ہے!!