مغربی ممالک کے مسلمانوں کے بعض روزمرہ مسائل

گذشتہ سال (اکتوبر ۲۰۰۲ء میں) امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں 'مجمع فقہاے شریعت، امریکہ' (Assembly of Muslim Jurists of America)کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا، جس میں دنیا بھر سے اہل ِعلم کو دعوت دی گئی۔ پاکستان سے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی اور مولانا ارشاد الحق اثری، فیصل آباد رکن کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے۔ مجمع کا مرکزی دفتر میری لینڈ میں قائم کیا گیا۔اس اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل پائی جس کو ہمہ وقت شرعی سوالات کے جوابات دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اِمسال مئی ۲۰۰۳ء میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر ساکرا منٹو میں بھی ایک اہم دعوتی کانفرنس تھی، جس میں محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ بھی شریک تھے۔ یہاں 'مجمع' کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صلاح صاوی سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے محترم حافظ صاحب کو کمیٹی کی طرف سے صادر شدہ چند فتوے پیش کئے۔ اِفادئہ عام کی غرض سے ان کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ بعض جگہ حضرت حافظ صاحب کے حواشی بھی ہیں۔

غیر مسلم عدالتوں سے فیصلہ کروانا؟

سوال1: اگر ایک مسلمان مرد اور اس کی مسلمان بیوی کے درمیان جھگڑا ہوجائے تو کیا فریقین میں سے کسی کے لئے جائز ہے کہ مروّجہ ( غیر شرعی) قوانین اور غیرمسلم عدالتوں کی طرف رجوع کرے اور اسلامی فیصلہ پر عمل نہ کرے۔ کیونکہ امریکی عدالت (طلاق کی صورت میں) عورت کو مرد کی آدھی جائیداد دلواتی ہے جبکہ اسلام اسے صرف حق مہر(بشرطیکہ پہلے ادا نہ کیا گیا ہو) اور نفقہ دلواتا ہے؟ کیا عورت اس عدالت کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں گنہگار ہوگی؟؛ وہ اپنے خاوند سے اس طرح جو مالِ ناحق وصول کرتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

نیز غیر مسلم جج کے فیصلے کے بعد کیا کسی مسلمان عالم کے لئے جائز ہے کہ اس مرد اورعورت کے درمیان مصالحت کی بات چیت کرے ؟

جواب : جو عدالت شریعت کو چھوڑ کر انسانوں کے خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہے، اس کے سامنے مقدمہ دائر کرنا جائز نہیں، خواہ وہ مسلمانوں کے ملک میں ہو یا غیر مسلم ملک میں؛ بشرطیکہ اس کا متبادل شرعی انتظام موجود ہو جو حق دار کو حق دلوا سکے، اور مظلوم کی داد رسی کرسکے۔ اس بارے میں قرآن و حدیث کی نصوص بہت زیادہ ہیں، اور اس پرعلما کااجماع ہوچکا ہے۔ وہ تمام دلائل جن سے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا وجوب ظاہر ہوتا ہے، اور شریعت سے پہلو تہی کرنے والوں کاکفر و نفاق ثابت ہوتا ہے ، وہ سب اس مسئلہ میں نص کا درجہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ جب شریعت کے مطابق فیصلہ کروانا ممکن ہو تو اُسے چھوڑ کر دوسری طرف متوجہ ہونا منافقت ہے، جس کے ساتھ ایمان موجود نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿أَلَم تَرَ‌ إِلَى الَّذينَ يَزعُمونَ أَنَّهُم ءامَنوا بِما أُنزِلَ إِلَيكَ وَما أُنزِلَ مِن قَبلِكَ يُر‌يدونَ أَن يَتَحاكَموا إِلَى الطّـٰغوتِ وَقَد أُمِر‌وا أَن يَكفُر‌وا بِهِ وَيُر‌يدُ الشَّيطـٰنُ أَن يُضِلَّهُم ضَلـٰلًا بَعيدًا ٦٠ وَإِذا قيلَ لَهُم تَعالَوا إِلىٰ ما أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّ‌سولِ رَ‌أَيتَ المُنـٰفِقينَ يَصُدّونَ عَنكَ صُدودًا ٦١﴾... سورة النساء

''کیا آپ نے وہ لوگ نہیں دیکھے جو سمجھتے ہیں کہ وہ آپ پرنازل ہونے والی (شریعت) پر، اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی (کتابوں) پر ایمان رکھتے ہیں۔ (اس کے باوجود) چاہتے ہیں کہ 'طاغوت' سے فیصلہ کروائیں حالانکہ انہیںاس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں دور تک گمراہ کردینا چاہتا ہے، اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کی ہوئی (شریعت ) کی طرف اور رسول کی طرف آجاؤ تو آپ دیکھتے ہیں کہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رک جاتے ہیں۔'' مزید فرمایا:

﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ٦٥﴾... سورة النساء

''سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ ایمان دار نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے جھگڑوں میں آپ کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلے آپ اُن میں کردیں، ان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ (اُنہیں)قبول کرلیں۔''

جب شرعی عدالتیں تو موجود نہ ہوں لیکن حاملین ِشریعت علما سے (انفرادی سطح پر) فیصلہ کروانا ممکن ہو، تو پھر اس کی پابندی ضروری ہے۔ اجتہادی مسائل میں ان کے فیصلے تسلیم کرنا اور ان پر عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ قاضی کے فیصلے اور شرعی ثالث کے فیصلے سے اختلاف ختم ہوجاتا ہے۔ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی علاقے میں شرعی حکمران موجود نہ ہو تو یہ معاملات طے کرنا علما کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ تب علاقے کے علما ہی شرعی حاکم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا مغربی معاشرے میں رہنے والی مسلمان کمیونٹی کو چاہئے کہ ایسے انتظامات کرے کہ مسلمان اپنے جھگڑوں کے فیصلے شریعت کے مطابق کروا سکیں، اور ایسے افراد متعین ہونے چاہئیں جو شرعی احکام کی روشنی میں ان کے جھگڑے طے کرسکیں۔

جب یہ صورت ممکن نہ ہو، کیونکہ فریق ِمخالف علمائے شریعت کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، اور اسے ایک بااختیار حاکم ہی ظلم سے روک سکتا ہے، تب اپنا حق حاصل کرنے اور ظلم سے نجات پانے کے لئے رائج قوانین کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جب کوئی اور راستہ نہ رہے تو ان کی طرف رجوع کرنے والا کسی ملامت کا مستحق نہیں۔ کیونکہ شریعت سے فیصلہ نہ کروانے والے کے نفاق اور کفر کے بارے میںجو نصوص وارد ہیں، وہ ایسے حالات میں نازل ہوئی تھیں جب شریعت ِمطہرہ کے مطابق فیصلہ کروانا ممکن تھا۔ اس وقت جو شریعت سے اِعراض کرتا تھا، وہ اپنی خوشی اور اختیار کے ساتھ، طاغوت کے فیصلے کو اللہ اور رسول کے فیصلے سے بہتر سمجھ کر شریعت سے اعراض کرتاتھا۔

اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس (غیر شرعی عدالت) کے سامنے جو مطالبہ پیش کیا جائے وہ شریعت کی رو سے جائز ہو۔ اس کے صرف اس فیصلے پر عمل کرنا حلال سمجھا جائے جو شریعت کے مطابق ہو۔ مثلاً اگر ایک مقروض جو آسانی سے قرض واپس کرسکتا ہے لیکن بلا وجہ ٹال مٹول کرتا ہے۔ اس کے خلاف موجودہ عدالت میں صرف اصل قرض کی واپسی کا دعویٰ دائر کیا جائے۔ اگر عدالت مدعی کے حق میں کچھ سود کی رقم کا بھی فیصلہ دے، تو اس کے لئے (سود کی ) یہ رقم وصول کرنا حرام ہوگا کیونکہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں طلاق کی خواہش مند خاتون کو غیر شرعی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ وہ اسے شریعت سے زیادہ دلوائے گی۔ لہٰذا اس کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں وہ گنہگار ہوگی۔ اگر اس کو جائز سمجھتی ہے تو کفر اکبر کے ایک عمل کی مرتکب شمار ہوگی۔ اور جب وہ اپنے خاوند سے جتنامال شریعت کے حکم کے خلاف وصول کرے گی، وہ حرام مال ہوگا، جسے وصول کرنا اور اس پر قبضہ کرنا حرام ہوگا۔ اگر وہ طویل عرصہ تک اس کے قبضے میں رہے، تب بھی حلال نہیں ہوگا۔

اگر عورت غیر شرعی جج سے فیصلہ کرانے پر مجبور ہو، اور وہ اس کے حق میں اس مال کا فیصلہ کردے جو شریعت اسے نہیں دلواتی، اور عورت اس باطل امر پر مصر ہو، اس صورت میں جائز ہے کہ کوئی شخص اصلاح کی نیت سے اس عورت سے بات چیت کرکے اسے اس چیز سے دست بردار ہونے پر آمادہ کرے جو جج نے تو اسے دلوائی ہے لیکن شرعی طور پر اس کا حق نہیں۔ یہ حسب ِمقدور خرابی کو کم کرنے اور ظلم کو ہلکا کرنے کی صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَاتَّقُوْا اﷲ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ ''اللہ سے ڈرو، جتنی تمہیں طاقت ہو۔'' اس نیت سے مداخلت کرنے والا ثواب کا مستحق ہے کیونکہ شریعت کا بنیادی اُصول مصالح کا حصول وتکمیل اور مفاسد سے رکاوٹ اور تقلیل ہے۔ واﷲ اعلم

یہاں ایک نیا سوال بھی درپیش ہے جو مغربی معاشروں کا ہی خاصہ ہے کہ وہاں مالی کفالت صرف مرد کے ذمے ہونے کی بجائے مردوعورت دونوں ہی کمائی کرتے ہوں اور دونوں اپنے مال سے گھرکی تعمیر وتکمیل میں حصہ لیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شادی کا تعلق قائم رہنے کی مدت کے دوران مالی معاملات ایک دوسرے سے متعلق ہونے کی بنا پرمالی حقوق کا فیصلہ کس طرح کیا جائے؟

اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر خاوند اور بیوی دونوں کام کرتے تھے۔ اور ان دونوں کی آمدنی سے انہوں نے کوئی گھر یا زمین خریدی تو اس وجہ سے عورت کا اس گھر یا زمین میں ایک مستقل حق بن جاتا ہے جس کا طلاق کی بنا پر طے پانے والے حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کے مسائل علما اور ماہرین کی آرا کی روشنی میں شرعی فیصلہ کی بنیاد پر طے ہونے چاہئیں۔ اس میں عدل و انصاف کو پوری طرح ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔

نکاح وطلاق کے مسائل


خاوند کے علم میں لائے بغیر عدالت سے طلاق حاصل کرنا

سوال 2: بعض مسلمان عورتیں (غیر اسلامی) عدالت میں جاکر طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں اور عدالت ۹۰دن بعد اس کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے جبکہ خاوند کو علم ہی نہیں ہوتا۔ کیا یہ طلاق شرعی طور پر مؤثر ہوجاتی ہے؟ اگر عورت اس کے بعدنکاح کرلے تو کیا اس کا دوسرا نکاح درست ہوگا؟ یا اس طلاق کو زبردستی کی طلاق شمار کیاجائے گا؟

جواب:طلاق کا مطالبہ اُصولی طور پر خاوند سے ہونا چاہئے، کیونکہ وہی حق زوجیت کا مالک ہے۔ طلاق کے معاملہ میں قاضی کو کوئی اختیار نہیں، اِلا یہ کہ عورت تکلیف میں ہو، یا خاوند تک پہنچنا ممکن نہ ہو، مثلاً وہ ایسی جگہ غائب ہے جہاں پہنچنا ممکن نہیں۔ اس صورت میں طلاق کا وہ فیصلہ نافذ ہوگاجو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے والی اسلامی عدالت کی طرف سے جاری کیا جائے۔ مذکورہ صورت حال میں اسلامی قاضی کو، یا مسلمان کمیونٹی کی طرف سے مقرر کردہ فرد کو، چاہئے کہ پہلے وہ خاوند سے رابطہ کرکے اسے حالات سے آگاہ کرے، پھر اس کاجوابِ دعویٰ سنے، اس کی تحقیق کرے، اس کے بعد کوئی کارروائی کرے۔

جس طرح کسی بھی مقدمے میں صرف ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اس طرح یہاں بھی ہے۔ قضا کے معاملے میں غیرمسلم قاضی کو مسلمان مرد یا عورت پرکوئی شرعی اختیار نہیں۔ اس پر علما کااتفاق ہے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكـٰفِر‌ينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلًا ١٤١﴾... سورة النساء ''اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہر گز راہ نہ دے گا۔'' اس لئے کسی غیر اسلامی اتھارٹی کی جاری کی ہوئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔ خاص طور پر جب کہ خاوند کو مقدمے کا علم نہیں، نہ اس کا موقف سنا گیا ہے۔ اس قسم کے فیصلے کے نتیجے میں عورت پہلے خاوند سے الگ نہیں ہوتی۔ نہ کسی اور مرد کو اس سے نکاح کرنا حلال ہے۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر کیا ہوا دوسرا نکاح لامحالہ فسخ قرار پائے گا۔

بعض شہری مفادات کے لئے پیپر میرج

سوال 3 :ایک مسلمان کسی ملک میں مستقل رہائش کی اجازت حاصل کرنے کے لئے کسی عورت کو کچھ رقم دے کراس سے نکاح کرلیتا ہے، لیکن نہ اس سے اِزدواجی تعلقات رکھتا ہے، نہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اس شخص کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح اگر عورت یہ کام کرے تو کیا یہ گناہ ہے؟ یا یہ مسلمان مردوں اور عورتوں کی زندگی میںسہولت پیدا کرنے کے لئے جائز ہے؟ نبی اکرم 1 کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کا کیا حکم ہے کہ جس نے مذاق میں نکاح کیا یا طلاق دی، وہ اس کے لئے لازم ہوجائے گا؟

جواب:شریعت میں نکاح کا معاہدہ ہمیشہ اکٹھے رہنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کامقصد باہمی آرام و سکون، پاک دامنی اور اولاد کا حصول ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں فریقین پر ایک دوسرے کے حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں۔ نکاح کے معاہدے کو اس میدان سے خارج کرنے کی ہر کوشش شارع کے مقصود سے انحراف ہے۔ اس نام نہاد شادی (Paper Marriage) کو صحیح نکاح تسلیم کیاجائے یا نہ کیاجائے، بہرحال اس میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں، جن میں چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں:

 اگر اسے نکاح تسلیم کیا جائے تو اس کے بہت سے مفاسد سامنے آتے ہیں مثلاً بے غیرتی کو قبول کرنا اور بیوی کا اس کے ماتحت نہ ہونا۔ کیونکہ اس صورت میںخاوند کو بیوی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، نہ اسے اس کی حرکات کا کوئی علم ہوتا ہے۔ وہ اسے دوسرے مردوں کے ساتھ دوستی لگانے سے منع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

 اس سے نسب محفوظ نہیں رہتا۔ اس دوران اگر عورت سے اولاد ہوجائے تو وہ افراد خاوند کے خاندان میں شامل ہوجاتے ہیں جو اصل میں اس سے نہیں، وہ قانونی پہلو سے اِزدواجی تعلقات کی وجہ سے اس کے بچے کہلاتے ہیں۔

علاوہ ازیں یہ معاہدئہ نکاح متعہ سے مشابہ ہے جو بالاتفاق حرام ہے۔ یعنی جب وہ اس بات پر اتفاق کرلیتے ہیں کہ رہائش کی قانونی اجازت ملتے ہی ان کے اِزدواجی تعلقات ختم ہوجائیں گے تو یہ متعہ بن جاتا ہے۔

جب ایک مسلمان خاتون کسی غیر مسلم مرد سے اس قسم کا معاہدہ کرتی ہے تو معاملہ زیادہ شنیع اور حرام ہوجاتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مسلمان عورت کا غیرمسلم سے نکاح کرنا حرام ہے اور اس قسم کانکاح کالعدم ہے۔ اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر مرد اس سے مقاربت کی خواہش ظاہر کرے تو عورت خود کو گناہ سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان قانونی طور پر شوہر بیوی کا تعلق ہے، اور اس تعلق میں اس کا پہلو کمزور ہے، اور عورت کی یہ خواہش بھی ہوگی کہ مرد کو ناراض نہ کرے تاکہ اس کی اس ملک میں رہائش کی اجازت ختم نہ ہوجائے۔

اگر اسے نکاح تسلیم نہ کیاجائے تب بھی مفاسد کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ مثلاً نکاح کے مقدس بندھن کی بے حرمتی اور اس کے شرعی مقاصد سے خروج، جھوٹ اور دھوکا جس کا کوئی جواز نہیں، فتنہ کا شدید احتمال، کیونکہ ان کے درمیان قانونی تعلق اُنہیں ایک دوسرے سے ناجائز تعلق قائم کرنے کی طرف راغب کرسکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس (کاغذی) شادی میں ایسے حرام اُمور پائے جاتے ہیں جن میں اللہ اور قیامت پر ایمان رکھنے والا مؤمن کسی کوتاہی کے ارتکاب کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ایسی حرکت وہی کرسکتا ہے جس کا نہ دین ہے، نہ اخلاق نہ شرافت۔

 سوال میں جو حدیث مذکور ہے وہ ان الفاظ کے ساتھ تو ہمارے علم میں نہیں، البتہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مروی ہے ، مثلاً تین کام ایسے ہیں جن کا مذاق بھی حقیقت ہے، اور حقیقت بھی حقیقت ہے: نکاح، طلاق اور غلام آزاد کرنا۔

مسلمان کا امریکی عدالت میں کتابیہ عورت سے نکاح کرنا؟

سوال 4: ایک مسلمان کسی مسلم ملک سے آکر کسی کتابی عورت سے نکاح کرے جس کا مقصد مستقل رہائش کی فوری اجازت حاصل کرنا ہو۔ عقد ِنکاح کے شرعی تقاضے پورے نہیں کئے جاتے۔ وہ اکٹھے رہتے ہیں اور ان کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس تعلق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا سرکاری قانون کے مطابق نکاح کے بعد اسلامی نکاح کی ضرورت نہیں رہتی؟ اس نکاح کو درست کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اسلام اس تعلق کے بارے میں کیا کہتا ہے جو کئی سال سے قائم ہے اور اس کے نتیجے میں اس شخص کی اولاد بھی پیدا ہوئی ہے؟

جواب:مسلمان مرد کا نکاح اہل کتاب کی کسی عورت سے جائز ہے بشرطیکہ وہ 'محصنہ' ہو۔یہاں اِحصان کا مطلب زنا سے بچ کر پاک دامن زندگی گزارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم...٥﴾... سورة النساء

''جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، ان کی پاک دامن عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں۔''

اس نکاح کے لئے ضروری ہے کہ اس میں اسلامی شریعت کے مطابق اَرکان و شروط کا لحاظ رکھا جائے۔ امریکی عدالت میں کیا ہوا نکاح کئی وجوہات کی بنا پر غیر معتبر ہے :

 کسی کا نکاح کرنا ولایت(سرپرستی) کی ایک صورت ہے۔ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان یہ تعلق معدوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكـٰفِر‌ينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلًا ﴿١٤١﴾... سورة النساء ''اور اللہ تعالیٰ کافروں کو مؤمنوں پر ہر گز راہ نہ دے گا۔''

اس نکاح میں شرعی گواہی نہیں ہوتی۔کیونکہ (اس قانون میں) گواہ مقرر کرنا لازمی قرار نہیں دیا گیا اور (کاغذات میں) صرف ایک گواہ کی جگہ رکھی گئی ہے۔

عورت کے ولی(سرپرست)کی عدم موجودگی۔ اکثر اہل علم کے نزدیک عورت کا نکاح اس کے سرپرست ہی کرسکتے ہیں۔ اگر ہم اس مسئلہ میں وہ حنفی مسلک بھی اختیار کرلیں جو عام طور پر مشہور ہے تو اس نکاح میں دوسری خرابیاں بہرحال موجود ہیں۔

چونکہ صورتِ حال یہ ہے، لہٰذا مرد کو چاہئے کہ نئے سرے سے نکاح کرے جس میں شرعی ارکان و شروط کو پورا کرے۔ اس عقد ِفاسد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو اس مرد کی جائز اولاد تسلیم کیا جائے گا، کیونکہ اس تعلق میںعقد ِنکاح کا شبہ موجود ہے۔

مغربی ممالک میں غیر مسلم عورتوں سے نکاح؟

سوال 5: کیا مغربی ممالک میں غیر مسلم عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے؟

جواب:حلال وہی ہے جسے اللہ نے اور اس کے رسول ؐ نے حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہی ہے جسے اللہ نے اور اس کے رسول ؐ نے حرام قرار دیا ہے۔ اللہ نے اور اس کے رسولﷺ نے اہل کتاب کی پاک دامن عورت سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، اور فرمایا ہے: ﴿وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم...٥﴾... سورة النساء ''اور جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں۔'' اس مقام پر مُحصنات سے مراد بدکاری سے اجتناب کرنے والی عورتیں ہیں۔ لیکن اس کے بعد ان خرابیوں پربھی غور کرنا ضروری ہے جو اس نکاح سے اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب وہ مغربی ممالک میں کیا جائے۔ بالخصوص موجودہ حالات میںجب کہ اُمت ِمسلمہ کی شان و شوکت ختم ہوچکی ہے۔ اور اس کے دشمن جیسے چاہتے ہیں اسے ظلم و ستم کانشانہ بنا لیتے ہیں۔ یہاں تو پہلی بار اختلاف پیدا ہونے پر ہی خاوند انتہائی کمزورمقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ مغربی ممالک تو اسے اپنے ظالمانہ قوانین اور ضابطے دکھاتے ہیں اور خود اس کی اپنی (مسلمان) حکومت بے دست و پا بن کر کھڑی رہتی ہے، اور اس کی ذرا برابر مدد نہیں کرسکتی۔ اس قسم کے حالات میںمسلمان مرد کو اس طرح کا نکاح کرلینے کامشورہ نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں مثلاً اولاد کافروں کے ملک میں پروان چڑھتی ہے جس کا بُرا اثر ان کے حال اور مستقبل پر پڑتا ہے۔ اس وجہ سے وہ آزمائش میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ چیز انہیں کفر کے ملک میں مستقل رہائش رکھنے اور اس زندگی کو پسند کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، جس سے وہ نفسیاتی طور پر آہستہ آہستہ مسلمانوں کی جماعت سے بالکل کٹ جاتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ نکاح حلال تو ہے لیکن مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے جو شخص مستغنی ہونا چاہے اللہ اسے مستغنی کردیتا ہے، اور جو پاک دامنی اختیار کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ اسے پاک دامنی کے مواقع عطا فرما دیتا ہے۔

جو شخص اس قسم کی شادی پر مجبور ہوجائے، مثلا ً نکاح نہ کرنے کی صورت میں اسے بدکاری میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ نکاح کے بعد منع حمل کے طریقوں پر عمل کرے اور بچے پیداکرنے سے پہلے اچھی طرح غوروفکر کرلے، کیونکہ ان حالات میں اس کے ہونے والے بچوں کو دین کے بارے میں بہت سے فتنوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جن کے ذرائع اس سے بالکل قریب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ واللہ أعلم

مسلمان مرد کا ہندو عورت سے نکاح؟

سوال 6 : کیا مسلمان مرد کے لئے ہندو عورت سے نکاح کرنا جائز ہے؟

جواب:مسلمان مرد ہندو عورت سے نکاح نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ عورت نہ مسلمان ہے نہ اہل کتاب۔ اور مسلمان مرد کے لئے صرف مسلمان یا اہل کتاب کی عورت سے نکاح کرنا جائز ہے۔ دوسرے مشرک مذاہب مثلاً گائے کی پوجا کرنے والے، آتش پرست، بت پرست اور شیطان کے پجاری وغیرہ کی عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا:﴿وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم...٥﴾... سورة النساء '' اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔'' دوسری مشرک عورتوں سے نکاح کی حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِ‌كـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ‌ مِن مُشرِ‌كَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم...٢٢١﴾... سورة البقرة ''اورمشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو حتیٰ کہ وہ ایمان لے آئیں۔ مشرک عورت سے مؤمن لونڈی بہتر ہے خواہ وہ (مشرک عورت) تمہیں اچھی لگتی ہو۔'' اس لئے ہندو عورت سے نکاح جائز نہیں، کیونکہ وہ نہ مسلمان ہے اور نہ اہل کتاب میں سے ہے۔ واللہ أعلم

مسلمان عورت کا غیرمسلم سے نکاح کرنا؟

سوال 7:بعض اوقات ایک لڑکی اپنے والدین کی اطاعت نہ کرتے ہوئے کسی غیر مسلم سے نکاح کرلیتی ہے۔ اس نکاح میں چونکہ اسے قوانین اور سرکار کی حمایت حاصل ہوتی ہے، اس لئے باپ کچھ نہیں کرسکتا۔ ایک بڑے عالم کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آچکا ہے جو ایک عرب اسلامی ملک میں ایک بڑی عربی یونیورسٹی کے چیئرمین تھے۔

اس لڑکی کے گھر والے شریعت کی روشنی میں اس سے کس قسم کے تعلقات رکھ سکتے ہیں؟ کیا اس کے گھر والے اس سے لا تعلقی کا اعلان کرسکتے ہیں؟ یا وہ اس لڑکی سے اور اس کے خاوند سے اس اُمید پرتعلقات رکھ سکتے ہیں کہ شاید وہ مسلمان ہوجائے؟ اگر وہ مرد واقعی مسلمان ہوجائے تو کیا اس کا دوبارہ نکاح کرنا ہوگا جب کہ پہلے ان کا نکاح امریکی قانون کے تحت ہوا ہے جس میں صحیح اسلامی نکاح کی شرائط ملحوظ نہیں رکھی گئیں۔

جواب:اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مسلمان کا غیر مسلم مرد سے نکاح باطل اور کالعدم ہے۔ قرآن، حدیث اوراجماع سے اس کے بے شمار دلائل ملتے ہیں۔ لہٰذا اس مشکل میں مبتلا خاندان کا اس لڑکی کے بارے میں ایک واضح موقف ہونا چاہئے جس کی وجہ سے وہ اللہ کے ہاں برئ الذمہ ہوسکے، وہ اللہ اور لوگوں کے سامنے گواہی دے سکے کہ اس لڑکی کے عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں، نہ اسے یہ عمل پسند ہے۔ اس کے باوجود اگر اس مصیبت زدہ خاندان کے چند افراد اس باغی لڑکی سے اور اس کے دوست سے رابطہ رکھیں اور کوشش کریں کہ لڑکا مسلمان ہوجائے یا لڑکی تائب ہوجائے۔ کیونکہ توبہ کی گنجائش باقی ہے اور اس کے دروازے مغرب سے سورج طلوع ہونے(قیامت) تک کھلے ہیں اور بندے کی توبہ اس کی جان حلق میںپہنچنے سے پہلے بھی قبول ہوسکتی ہے۔ پھر اگر لڑکا مسلمان ہوجائے تو نئے سرے سے نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ کیونکہ پہلا نکاح غیرشرعی اور کالعدم ہے۔

اس نکاح سے پہلے ایک حیض آنے تک انتظار کرنا ضروری ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ عورت کے پیٹ میں گذشتہ تعلقات کے اثرات نہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ حلال اور حرام آپس میںگڈمڈ نہیں ہوں گے۔ واللہ أعلم

مسلمان عورت کا غیرمسلم کے نکاح میں رہنا؟

سوال 8:کیا مسلمان ہوجانے والی عورت غیرمسلم مرد کے نکاح میںرہ سکتی ہے، جبکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میاں بیوی کے ہاں اولاد بھی ہوجاتی ہے؟

جواب:جب عورت مسلمان ہوجائے، اور مرد غیر مسلم رہے تو ان کے درمیان اِزدواجی تعلقات جائز نہیں رہتے۔ اسے چاہئے کہ اس مرد سے پردہ کرے، اس کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے، اس سے صنفی تعلق قائم نہ کرے۔ جب تک عدت نہیں گزر جاتی، ان کا نکاح موقوف رہتا ہے۔ اگر عدت کے دوران مرد مسلمان ہوجائے تو ان کا پہلانکاح قائم ہے، نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں، اور اگر وہ اس دوران مسلمان نہیں ہواتو نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اب وہ جس مرد سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـٰتٍ فَلا تَر‌جِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ‌ ۖ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...١٠﴾... سورة الممتحنة

''اگر وہ تمہیں مؤمن معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لئے حلال نہیں اورنہ وہ ان کے لئے حلال ہیں۔''

بعض علما کی یہ رائے ہے کہ اگر عورت اپنے خاوند کے اسلام کا انتظار کرنا پسند کرے، تو عدت گزرنے کے بعد بھی نکاح موقوف رہے گا۔ جب بھی اس کا خاوند مسلمان ہوگا، وہ دوبارہ اس کی بیوی بن جائے گی، نئے سرے سے نکاح کرنے کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔ اس کی دلیل کے طور پر (رسول اللہ1کی بیٹی) حضرت زینبؓ کا واقعہ بیان کرتے ہیں، جنہیںرسول اللہ 1 نے ان کے خاوند حضرت ابوالعاص بن ربیع ؓ کے اسلام لانے پر دوبارہ ان کے ہاں بھیج دیا تھا اور نئے سرے سے نکاح بھی نہیں کیا تھا۔ حضرت ابوالعاصؓ مسلمان عورتوں سے مشرک مردوں کانکاح حرام ہونے کا حکم نازل ہونے سے دو سال بعد مسلمان ہوئے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اِزدواجی تعلقات عورت کے اسلام لانے کے بعد فوراً حرام ہو جاتے ہیں۔ البتہ نکاح کے باقی رہنے کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ بعض علماء کرام کے نزدیک نکاح فوراً فسخ ہوجاتا ہے،بعض کہتے ہیں کہ عدت ختم ہونے تک موقوف رہتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ اگر عورت انتظار کرنے کا فیصلہ کرلے تو وہ مرد کے مسلمان ہونے تک موقوف رہتا ہے۔ واللہ اعلم

خُلع کے قواعد اور طریقہ کار

سوال 9: اگر عورت اپنے خاوند سے خُلع لینا چاہے تو اس ملک میں امام کو کن قواعد وضوابط کاخیال رکھنا چاہئے؟

جواب:اُصولی طور پر خُلع کے ذریعے عورت کو آزاد کرنا مرد کا حق ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو اسے شریک کئے بغیر حل نہیں کرناچاہئے۔ کیونکہ وہی حق رکھتا ہے کہ اپنی بیوی کونکاح میں رکھے یا چھوڑ دے۔ لیکن بعض حالات میں قاضی کی مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً اگر خاوند زیادتی کرتا ہے اور عورت کے تفریق کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتا، تب قاضی ان میں صلح کرانے یا تفریق کرانے کے لئے مداخلت کرتا ہے۔ اگر وہ ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش میں ناکام ہوجائے تب وہ خاوند کو حکم دے گا کہ خُلع کرلے۔ اگر خاوند انکا رکرے تو قاضی اس کی طرف سے خُلع کا فیصلہ کرکے عورت کو نکاح کی پابندی سے آزاد کردے گا۔ اسی طرح اگر خُلع کا مطالبہ پیش ہونے کے بعد مرد روپوش ہوجائے یا اپنا پتہ چھپالے، اور اس سے رابطہ کرنا ممکن نہ ہو، تو بھی یہی حکم ہے۔

لیکن قاضی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کامداخلت کرنا (طلاق کے) حسب ِمعمول طریقے کے خلاف ہے۔ لہٰذا اسے چاہئے کہ خاوند کا کوئی عذر باقی نہ رہنے دے۔ اسے اطلاع دے کہ اس کی بیوی نے خُلع کا مطالبہ کیا ہے اور اسے حکم دے کہ اس کا مطالبہ تسلیم کرلے۔ دو تین بار اس طرح کرے۔ ہر دفعہ اس کے لئے مناسب مدت کا تعین کرے اور یہ یقین حاصل کرے کہ خاوند کواطلاع مل چکی ہے اور مرد کے لئے جو مدت مقرر کی گئی ہے وہ غوروفکر کے لئے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ جب کہ حسب ِامکان صلح کی کوشش کا فرض بھی ادا کیا ہو۔ اگر وہ ان سب کوششوں کے بعد بھی ناکام ہوجائے، تو عورت سے ضرر دور کرنے کے لئے آخر کار مداخلت کرکے معاملہ کو انجام تک پہنچا دے۔

بعض اسلامی مراکز عورت کی شکایت سنتے ہی فوراً خُلعکا فیصلہ دے دیتے ہیں۔ خاوند تک پہنچنے اور اس کا موقف معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور اسے خُلع کا حق خود استعمال کرنے کا موقع نہیںدیتے۔ یہ ایک غلط قسم کی جلد بازی ہے، جس کا ارتکاب کرنے والا گنہگار ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس صورت میںخُلع واقع ہی نہیں ہوگا تو شاید غلط نہ ہو۔

بیوی کا شوہر سے خُلع کا مطالبہ

سوال 10 : ایک امریکی مسلمان خاتون نے میرے پاس آکر اپنے خاوند کی بدسلوکی کی شکایت کی، اور خلع کے ذریعے الگ ہونا چاہا۔ لیکن اس کا خاوند انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے، اور وہ اس کے بچوں کی ماں ہے۔ عورت کہتی ہے یا مجھ سے خلع کرلو، ورنہ میں اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجاؤں گی۔ اس صورت میں کیا اسے خلع کے ذریعے الگ کرنا ضروری ہے؟ اور کیا امام قاضی کے طور پر یہ فیصلہ نافذ کرسکتا ہے؟

جواب :سب سے پہلے ہم نو مسلم خواتین کے خاوندوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ان سے اچھا سلوک کریں، اور ان کے لئے آزمائش کا باعث نہ بنیں۔ یہ بڑا بھیانک گناہ ہے۔اس سے بڑی برائی اورکیا ہوسکتی ہے کہ مسلمان مرد ایک مسلمان عورت کے مرتد ہونے کا سبب بن جائے...!

ہم عورت کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اس کا قبول اسلام تذبذب پر مبنی نہیں ہونا چاہئے کہ اگر راحت حاصل ہو تو وہ دین پر قائم رہے، اور اگر کوئی مشکل آجائے تواُلٹے پاؤں پھر جائے، یہ دنیا اور آخرت کا خسارہ ہے۔ اسے سمجھناچاہئے کہ اصل اسلام اور چیز ہے اور مسلمان کہلانے والے بعض افراد جوخواہش ِنفس یا جہالت کی بنا پر حرام کا موں کا ارتکاب کرتے ہیں تو وہ ان کا ذاتی فعل ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسے چاہئے کہ جھگڑے اور مشکلات کی صورت میں اپنے دین کو سودے بازی کا ذریعہ نہ بنائے۔ سچا مؤمن وہ ہے جو کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ کافر ہونے سے اتنی نفرت کرتاہے، جس طرح اسے آگ میں پھینک دیا جانا انتہائی ناگوار ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتی ہے تو اس کی نحوست اور سزا کا نشانہ دنیا اور آخرت میں وہ خود ہوگی۔ اس کی ذمہ داری اسی کے کندھوں پر ہوگی۔ہم اس خاتون کو، اور تمام دوسری خواتین کو بھی، نبی اکرمﷺکا وہ ارشاد مبارک یاد دلاناچاہتے ہیں:

''جس عورت نے خاوند سے بلا وجہ طلاق مانگی، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گی۔''

ان ضروری باتوں کے بعد ہم کہتے ہیں: مذکورہ صورتِ حال میں اگر خاوند اسے اپنی طرف مائل کرنے میں اور خلع کے مطالبہ سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تو اسے چاہئے کہ عورت کے خلع کا مطالبہ تسلیم کرلے۔ اس کے لئے جائز نہیں کہ اسے تنگ کرنے کے لئے اپنے نکاح میں رکھے، اور نہ کسی کو اس گناہ میں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ اگر وہ اسے اچھی طرح رکھ نہیں سکا، تو کم از کم اچھی طرح آزاد کرنے سے تو اسے عاجز نہیںہونا چاہئے۔ اِزدواجی زندگی کے دو پہلو ہیں: إمساک بمعروف (اچھے طریقے سے رکھنا) یا تسریح بإحسان (اچھے طریقے سے چھوڑ دینا) اور تیسری کوئی صورت جائز نہیں۔

اسلامک سنٹرز(جو غیر مسلم ممالک میں قائم ہیں) رائج قوانین کی حدود میں ظالم خاوند کی طرف سے عورت کو طلاق دینے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے صلح صفائی کے لئے تمام مطلوبہ کارروائی مکمل ہونا ضروری ہے اور فریقین کو کافی مہلت ملنی چاہئے تاکہ وہ جذباتی طوفانوں اور غلبہ خواہشات کی ہنگامی کیفیات سے نکل کر اپنے اپنے موقف پر نظرثانی کرسکیں۔ اس معاملے میں فیصلہ کرنے والے اہل علم کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔

موجودہ دور کی عدالتیں جو اپنا فیصلہ نافذ کرنے کی قوت رکھتی ہیں، وہ بھی فریقین کو مناسب مہلت دیتی ہیں، اور جان بوجھ کرلمبی مدت کی تاریخ دیتی ہیں تاکہ فریقین میں سے ہر ایک سمجھ بوجھ والا راستہ اختیار کرسکے۔ کسی سنٹر کے انچارج کی یہ غلطی ہوگی کہ وہ خلع کا مطالبہ کرنے والی ہر عورت کے حق میں جلدی سے فیصلہ دے دے اور مقدمہ کے فریقین کو اتنی مناسب مدت مہیا نہ کرے جس سے اسے ظن غالب حاصل ہوجائے کہ اس نے اپنا فرض ادا کردیا ہے اور اسے یقین ہوجائے کہ ان دونوں کا مل جل کر رہنا مکمل طور پر ناممکن ہوچکا ہے اور ان کے درمیان تعلقات میں واقع ہونے والی خرابی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کی اِصلاح کی اُمید نہیں رہی۔ واللہ أعلم

خاوند کی قید کی صورت میں بیوی کتنی مدت انتظار کرے؟

سوال 11 : بہت سی نو مسلم خواتین کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آتا ہے کہ خاوند کو پانچ دس سال کے لئے قید کی سزا مل جاتی ہے اور وہ اپنے اس (قیدی) خاوند سے طلاق لینا چاہتی ہیں۔ بعض اوقات عورت صاف کہہ دیتی ہے کہ اگر اسے طلاق نہ دلوائی گئی تو وہ ناجائز تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ لہٰذاکتنی مدت کے بعد طلاق یا فسخ نکاح کا فیصلہ دینا چاہئے؟ جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک عام امریکی خاتون اپنے جذبات پرچھ ماہ سے زیادہ قابو نہیں رکھ سکتی۔

اسی طرح اگر خاوند کہیں چلا جائے اور معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے توکتنی مدت کے بعد عورت کے حق میں طلاق کا فتویٰ جاری کرنا چاہئے؟

جواب: جب خاوند قید ہوجائے اور عورت صبر نہ کرسکے تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنا جائز ہے، خواہ اس کے اخراجات کے لئے خاوند کا مال موجود ہو۔ جو شخص جیل میں ہو، یا حبس بے جا میں ہو، جس کی وجہ سے اس کی بیوی اس سے نکاح کے فوائد حاصل نہ کرسکتی ہو، اس کاحکم گم شدہ آدمی کی بیوی کا ہے،اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ یہ مسئلہ اجتہاد پر مبنی ہے کہ عورت کو کتنے عرصہ بعد طلاق کا مطالبہ کرنے کی اجازت ہے؟

امام مالک ؒ کی رائے میں ایک سال کی مدت میں حصولِ ضرر اورعورت کو تنہائی کا شدید احساس ہوجاتاہے، جس کی بنا پر وہ فسخ نکاح کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ بعض دوسرے علما نے تین سال کی مدت بیان کی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ سے روایت ہے کہ عورت کو چھ ماہ بعد تفریق کامطالبہ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ قول زیادہ ٹھیک ہے کیونکہ عورت اپنے خاوند کی غیر موجودگی پر زیادہ سے زیادہ اتنی مدت ہی صبر کرسکتی ہے۔ یہ حضرت عمر فاروقؓ کا اجتہاد ہے جو انہوں نے نافذ فرمایا تھا۔ چنانچہ (اس مدت کے بعد) پہلے تو خاوند سے مطالبہ کرنا چاہئے ، کیونکہ نکاح کاباقی رکھنا یاطلاق دینا اس کا اختیار ہے۔اگر وہ اس مطالبے کو تسلیم کرلے تو مسئلہ حل ہوگیا۔اگر وہ اسے نکاح میں رکھنے پر مصر ہوتو عورت اگر مسلمانوں کے ملک میں ہو تو عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اگر غیر مسلم علاقے میں ہے تو اسلامی مرکز سے رجوع کرے۔ مسلمان کمیونٹی جس شخص کو ان معاملات کے فیصلے کرنے کے لئے مقرر کرتی ہے، وہ اس عورت کو طلاق یافتہ قرار دے سکتی ہے جسے اس کا خاوند محض تنگ کرنے کے لئے نکاح میں رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس سے پہلے حالات و واقعات کی مکمل تحقیق کی جانی ضروری ہے اور ضرورت پڑے تو مناسب مدت مقرر کی جاسکتی ہے۔

 اگر خاوند گم ہوجائے اور معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے تو اس صو رت میں عورت کو طلاق طلب کرنے کا حق ہے۔ قاضی کو، یا جسے کمیونٹی ان معاملات کے فیصلے کرنے کے لئے مقرر کرتی ہے۔ اسے چاہئے کہ صورتِ حال کی اچھی طرح تحقیق اور چھان پھٹک کرے، اور گواہی وغیرہ طلب کرے۔ اگر دعویٰ ثابت ہوجائے تو ان کے درمیان تفریق کا فیصلہ دے دے۔ اس صورت میں بھی مدت کے بارے میں وہی تفصیل ہے جو قیدی کے بارے میں بیان ہوچکی ہے۔

پہلی بیوی سے خاوند کی بے رُخی؟

سوال 12: تین سال پہلے میں نے شمالی افریقہ کے ایک آدمی سے شادی کی تھی۔ نکاح کے موقع پر ہم دونوں کے خاندانوں کا کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ البتہ بعض دوسرے حاضرین موجود تھے۔ نکاح اور ولیمہ مختصر وقت میں ہوگیا۔ اس وقت میں دوسرے مقام پر زیر تعلیم تھی۔ چند سال گزر نے کے بعد میری تعلیم مکمل ہوگئی اور میں اس کے ساتھ کینیڈا جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ تب غیر متوقع طور پر اس نے کہا کہ ''تمہیں الگ سے ویزا کی درخواست دینا پڑے گی، اور میں وطن پہنچ کرتمہاری کفالت کرنے پر تیار نہیں ہوں، اور ممکن ہے وہاں مجھے اپنے گھر والوں کو خوش کرنے کے لئے ایک اور شادی کرنی پڑے۔'' حالانکہ اس کے خاندان نے ایک دن بھی یہ نہیں کہاکہ انہیں ہماری شادی کی وجہ سے کوئی مشکل درپیش ہے۔

مجھے تو اس کا دوسری بیوی سے تعلق رکھنے کا خیال بہت نکما اور ہلکا محسوس ہوتا ہے جبکہ وہ پہلی بیوی کا خیال نہیں رکھتا۔ وہ مجھے خرچ بھی نہیں دیتا۔ ہمارا آپس میں رابطہ زیادہ تر انٹر نیٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ مجھے اس کے اس طرزِ عمل سے سخت دکھ پہنچتا ہے۔مجھے اس کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ وہ اپنی پہلی بیوی کے حقوق اداکرے، یا اس کا کوئی ایسا پروگرام ہو کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائے، تاکہ میں اس کے ساتھ رہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرلوں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ میرے ایمان اور طرزِ حیات کا امتحان ہے۔ تو کیا آپ کوئی مشورہ دے سکتے ہیں؟

جواب:ازدواجی زندگی کے متعلق دو ہی راستے ہیں: یا اچھے طریقے سے رکھنا، یااچھے طریقے سے چھوڑ دینا۔ خاوند اور بیوی دونوں کے حقوق بھی ہیں اور فرائض بھی۔ جنہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کی بے رخی محسوس کرے تو اپنے کچھ حقوق سے دست بردار ہوجائے، مثلاً باری کا حق یا خرچ کا حق وغیرہ۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے خاوند کے ساتھ بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ جذبات سے ہٹ کر بات کرنی چاہئے۔ دونوں فریق کھلے دل سے صاف صاف بات کریں، اور ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھیں۔ اگر دونوں کومحسوس ہو کہ وہ اللہ کے احکام کی حدود میں یہ تعلق قائم رکھ سکتے ہیں (خواہ مکمل حقوق کی ادائیگی کی ساتھ یا اس کم سے کم حد تک اتفاق کرکے جو فریقین کے لئے قابل قبول ہو) تو یہ بہت بہتر ہے۔ دونوں کو اس مقصد کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے۔ اور اگر یہ معلوم ہو کہ دونوں یہ تعلق قائم نہیں رکھ سکتے، بلکہ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا منصوبہ ہے تو پھر یہی بہتر ہے کہ اچھے طریقے سے جدائی اختیار کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَإِن يَتَفَرَّ‌قا يُغنِ اللَّهُ كُلًّا مِن سَعَتِهِ...١٣٠﴾... سورة النساء

''اگر وہ الگ الگ ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی فراخی کے ذریعے مستغنی کردے گا۔''

ناجائز تعلق کو شرعی نکاح میں تبدیل کرنا؟

سوال 13: ایک مسلمان مرد نے ایک غیر مسلم عورت سے ناجائز تعلق قائم کیا، جس سے حمل قرار پاگیا۔ حمل کے پانچویں مہینے میں مسلمان مرد اسلامک سنٹر میں آیا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس عورت سے باقاعدہ نکاح کرکے تعلقات کو جائز کرلے۔ پھر اس نے امام سے درخواست کی کہ نکاح کی تاریخ حمل سے پہلے کی درج کی جائے تاکہ وہ مسلمانوں میں بدنام نہ ہو، کیا امام ان دونوں کا آپس میںنکاح کرسکتا ہے؟ اور نکاح کی وہ تاریخ درج کرسکتا ہے جو خاوند کامطالبہ ہے؟

جواب:علماے کرام نے زانیہ سے نکاح حلال ہونے کی دو شرطیں بیان فرمائی ہیں:

1. وہ زناسے توبہ کرے۔2.رحم ناجائز تعلقات کے اثرات سے پاک ہو۔

اگر عورت اُمید سے ہو تو اس صورت میں علما کی آرا مختلف ہیں:

بعض علما کے نزدیک نکاح کرنا بھی حرام ہے اور اِزدواجی تعلقات قائم کرنا بھی حرام ہے۔ بعض کے نزدیک صرف ملاپ حرام ہے، عقد ِنکاح درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دونوں کام جائز ہیں جبکہ نکاح اسی عورت سے کرے جس سے زنا کیا ہے۔

توبہ میں مدد اور پردہ پوشی کے نقطہ نظر سے یہی آخری موقف زیادہ مناسب ہے۔ اس لئے اسلامک سنٹر کے امام کے لئے ان کا نکاح کردینے میںکوئی حرج نہیں، تاکہ وہ توبہ کرسکیں۔ اور توبہ کرنے والوں کی پردہ پوشی کا شرعی مقصود حاصل ہوسکے۔

کاغذات میں پچھلی تاریخ درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ان ملکوں میں بہت سی شادیاں زبانی ہوجاتی ہیں جنہیں سرکاری کاغذات میں درج نہیں کیاجاتا۔

زانیہ کے بچے کا مسئلہ اور اس کی نسبت؟

سوال 14 :ایک واقعہ ہمارے علم میں آیا ہے کہ ایک مسلمان عورت سے ایک ہفتے کے اندر اندر کئی مردوں نے مباشرت کی۔ وہ اُمید سے ہوگئی، لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس سے ہونے والے بچے کا باپ کون ہے؟ کیا وہ رسوائی کے ڈر سے اِسقاط کراسکتی ہے؟ اس کی توبہ کاکیاحکم ہے؟ بچہ کس کی طرف منسوب ہوگا؟ بالخصوص ان علاقوں کے حالات کے تناظر میں اس مسئلہ کا شرعی حل بڑا ضروری ہے۔ جزاکم اللہ

جواب:بچے میں روح ڈالے جانے کے بعد اسقاط حرام ہونے پر علما کا اتفاق ہے، اگرچہ حالات کیسے ہوں، اور اگرچہ طبی معائنہ سے معلوم ہوتا ہو کہ بچہ بگڑی ہوئی صورت والا (مثلاً لنگڑا، تین ہاتھ والا) ہے۔ البتہ اگر قابل اعتماد سپیشلسٹ ڈاکٹروں کابورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل باقی رہنے کی صورت میں ماں کی جان کو یقینی خطرہ درپیش ہے تو اس وقت اسقاط جائز ہے۔ خواہ بچہ بگڑی ہوئی صورت والا ہو یا نہ ہو، تاکہ بڑے نقصان سے بچا جائے۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس میں اس مرحلہ کے بعد بھی اسقاط کی گنجائش ہے۔

جان پڑنے سے پہلے اسقاط کے بارے میں فقہا کی آرا مختلف ہیں :

زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جان پڑنے سے پہلے بھی اسقاط اصلاً منع ہی ہے۔کیونکہ وہ ایک مخلوق ہے جس کو زندگی ملنے والی ہے اور اس کے ابتدائی اسباب مہیا ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے اس کا حکم عزل سے مختلف ہے۔ البتہ اگر واضح مجبوری ہو تو اسقاط جائز ہوگا، تاہم مکروہ ہوگا۔ لہٰذا اس سوال کا دو ٹوک جواب تو تبھی دیا جاسکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ اس عورت کے پیٹ میں بچہ کتنی عمر کا ہے؟ اگر بچہ تخلیق کے ابتدائی مراحل میں ہے اور مفتی یہ محسوس کرتا ہے کہ عورت اپنے گناہ پرنادم ہے اور اپنی غلطی کی تلافی اور اصلاح چاہتی ہے اور اس فتویٰ کی وجہ سے اسے توبہ قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے اور وہ اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوسکتی ہے، تب تو اُمید ہے کہ اِسقاط میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ گناہ کے راستے پر بدستور رواں دواں ہے، پھر اسے اس کے حق میں یہ فتویٰ جاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ اس صورت میںاس کے لئے نئے گناہ کے ارتکاب کا راستہ کھل جائے گا، کیونکہ اسے رسوائی سے بچنے کاطریقہ معلوم ہوچکا ہے۔ البتہ توبہ کرنے والے کے لئے قبولیت کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے کہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے، اور دن کو ہاتھ بڑھاتا ہے کہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے۔ وہ کسی کو اپنی رحمت سے مایوس نہیں کرتا، نہ کسی کے لئے توبہ کا دروازہ بند کرتاہے۔ اللہ نے شرک، قتل اور زنا جیسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ‌ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّ‌مَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ٦٨ يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ٦٩ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ٧٠﴾... سورة الفرقان

''اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اور کسی ایسے شخص کو ناحق قتل نہیں کرتے، جسے قتل کرنا اللہ نے منع کردیا ہو، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ اسے قیامت کے دن دہرا عذاب دیا جائے گا، اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں، اور ایمان لائیں، اورنیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔''

 باقی رہا بچے کا مسئلہ، تو بچہ ان مردوں میں سے کسی کی طرف منسوب نہیں ہوگا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: «الولد للفراش وللعاھر الحجر» ''بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کیلئے پتھر ہیں۔'' نیز نسب ایک نعمت ہے، اور نعمت گناہ کے ذریعے حاصل نہیں کی جاتی۔ البتہ وہ اس عورت کا بیٹا ہے کیونکہ اس کاماں کا تعلق یقینی ہے۔بدکاری کرنے والے مردوں میں سے کسی کا عورت سے جائز تعلق نہیں تھا۔ اس لئے وہ ان میں سے کسی کابیٹا قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اِسقاط حمل کی صورت میں کفارہ کی مالیت؟

سوال 15: میں نے حمل ساقط کروا دیا ہے۔ اب میں چاہتی ہوں کہ اس صورت میں جتنا صدقہ کرنا واجب ہے، ادا کرکے گناہ کا کفارہ دے دوں۔ میں غرّہ (غلام) کے بارے میںمعلوم کرنا چاہتی ہوں۔ میری معلومات کے مطابق 'غرہ' کی قیمت بالغ انسان کی دیت کے پانچویں حصے کے برابر ہے۔ کیا آپ مجھے بتاسکتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس کی کتنی قیمت بنے گی؟

جواب:حمل ساقط کرنے سے ایک غرّہ یعنی غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا واجب ہوتا ہے۔ انہیں غرہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انتہائی قیمتی مال ہے۔ رسول اللہﷺ کا یہی فیصلہ ہے۔

قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں۔ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا۔ جس سے وہ بھی مرگئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مقدمہ پیش کیا تو آنحصرت ﷺنے یہ فیصلہ دیا کہ اس کے بچے کی دیت ایک غلام یا ایک لونڈی ہے۔ آپؐ نے عورت کی دیت کی ذمہ داری اس (قاتل عورت) کی برادری پر ڈالی، اور اس (مقتولہ) کی وراثت اس کی اولاد اور دوسرے اقارب کو عطا فرمائی۔ (متفق علیہ)

اس کے علاوہ صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے اِسقاط کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے فرمایا: میں نے نبی 1 کو دیکھا ہے کہ آپؐ نے اس قسم کے مقدمے میں ایک غرہ یعنی غلام یا لونڈی دینے کا حکم دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: آپ کوئی گواہ لائیں جو آپ کے ساتھ گواہی دے۔ تب محمد مسلمہؓ نے (اس کی تائید میں) گواہی دی۔'' (متفق علیہ)

فقہا نے غرہ کی قیمت دیت کا بیسواں حصہ بیان کی ہے۔ یعنی پانچ اونٹ، یا سونے کے پچاس دینار یا چاندی کے چھ سو درہم۔ اس کی روشنی میں غرہ کی قیمت معلوم کی جاسکتی ہے۔ مثلاً یہ دیکھاجائے کہ ایک گرام سونے کی کتنی قیمت ہے۔ پھر اس قیمت کو پچاس سے ضرب دی جائے یا یہ معلوم کیا کہ ایک (اوسط درجے) کی اونٹنی کی قیمت کتنی ہے، پھر اسے پانچ سے ضرب دے لی جائے۔ اس طرح دیت کی رقم معلوم ہوجائے گی۔

مال اور روزگار کے مسائل


شراب خانے کے مسلمان مالک کی دعوتِ طعام میں شرکت

سوال 16: کسی شراب خانے کا مالک یا اس میں کام کرنے والا مسلمان اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کو کھانے پینے کی دعوت دے تو کیاو ہ اس کی دعوت قبول کرسکتے ہیں؟ یا ان کے لئے اس کے ساتھ مل کر کھانا پینا حرام ہے؟

جواب:اس شخص کے اقارب اور ہمسایوں کے لئے جائز ہے کہ اس کی دعوت قبول نہ کریں تاکہ اس سے ناراضگی کا اظہار ہو، اور اس کے گناہ سے لاتعلقی کا اعلان ہو، اور اسے یقین ہوجائے کہ وہ جس گناہ میں ملوث ہے، اس کی وجہ سے لوگ اسے حقیر سمجھتے اور نفرت کرتے ہیں۔ یہ طرزِعمل أمربالمعروف اور نہی عن المنکر میں شامل ہے جیسے جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین حضرات سے نبی اکرم ﷺ کے حکم سے بائیکاٹ کیا گیاتھا۔حتیٰ کہ اللہ نے اپنے نبی ؐ کو اطلاع دی کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔

اور یہ بھی جائز ہے کہ اس شخص کی دعوت قبول کر لی جائے لیکن اس کے ساتھ اسے نصیحت کی جائے اور اسے متنبہ کردیا جائے کہ اگر اس نے نصیحت قبول نہ کی تو آئندہ اس کی دعوت قبول نہیں کی جائے گی۔ ان دونوں میں سے جو طریقہ زیادہ مناسب محسوس ہو، جس سے اس کی اصلاح ہوجانے اور باطل سے باز آجانے کی زیادہ اُمید ہو، وہی طریقہ اختیار کرلیاجائے۔ اس مقام پر شارع کاایک مقصد ہے اور وہ ہے گناہ میں ملوث شخص کا گناہ سے باز آجانا۔ اُصول یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں جب شریعت کا مقصود واضح ہو، اور حصولِ مقصد کے متعلق ذرائع موجود ہوں، تو اس کے لئے وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے مقصود حاصل ہونے کا زیادہ یقین ہو۔

تاہم یہ طعام بذاتِ خود حرام نہیں، اس کا گناہ کمانیوالے پر ہے۔ حرمت کا تعلق خود اس شخص کی ذات سے ہے۔ ناجائز کمائی کے ذریعے حاصل ہونیوالے ہرکھانے کایہی حکم ہے۔

البتہ اگر مال چوری یا غصب کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو، اور یہ بھی معلوم ہو کہ اس کا اصل مالک فلاں ہے تو اسے کھانا کسی کے لئے حلال نہیں۔ اس کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مالک کو واپس کیا جائے۔اور جو شخص اس میںمدد کرسکتا ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ مال کی واپسی میںممکن حد تک تعاون کرے۔ واﷲ أعلم

حرام کمائی والے شخص کا صدقہ قبول کرنا؟

سوال 17: کیا اسلامی مراکز و مدارس اس آدمی سے چندہ وصول کرسکتے ہیں جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ شراب یا خنزیر فروخت کرتا ہے؟ کیا امام یا مسجد کی انتظامیہ کے لئے اس سے چندہ مانگنا جائز ہے؟

جواب:شراب اور خنزیر کی خرید و فروخت کے قطعی حرام ہونے پر اجماع ہے۔اس گناہ کا ارتکاب کرنے والا بالاتفاق ظالم اور گنہگار ہے۔ اس کے قرب و جوار کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسے نصیحت کریں اور اس قدر ڈانٹ ڈپٹ کریں، اسے طریقے طریقے سے توجہ دلائیں کہ وہ اس حرکت سے باز آجائے۔ اس کے لئے یہ طریقہ بھی اختیار کیاجاسکتا ہے کہ اس کو اہمیت نہ دی جائے اور اس کاصدقہ قبول نہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے منعقد کیے جانے والے اجلاس میں اسے مدعو نہ کیاجائے۔ بلکہ اس وقت تو یہ صورت اختیار کرناضروری ہوجاتی ہے جب اس کے غلط کام سے اعلانِ براء ت، اور اس کے حرام ہونے کو پرزور طور پر واضح کرنے کا یہی مناسب طریقہ ہو۔ یااس سے نرمی کرنے سے خطرہ ہوکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجائے گا کہ صدقہ دے کر اس کا حرام کاموں کے ارتکاب کا گناہ معاف ہوجاتا ہے۔جیسے مسلمان ملکوں میں رقص و سرود سے روزی کمانے والی بعض عورتیں ماہِ رمضان میں اجتماعی افطاری کا بندوبست کرکے یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ اس طرح وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوگئی ہیں، اگرچہ آئندہ کے لئے وہ اسی گناہ کوجاری رکھنے کا پختہ اِرادہ رکھتی ہوں۔ یا یہ خطرہ ہو کہ بعض عوام یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ اس طرح ان کے لئے (گناہ پر قائم رہنے کی )گنجائش پیدا ہوسکتی ہے، یا یہ سمجھیں گے کہ ان کاموں سے منع نہیں کرنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعت ومعصیت کے مرتکب کو زجر و توبیخ کرنے سے شریعت کا ایک مقصد حاصل ہوتا ہے، وہ یہ کہ ان مجرموں اور بدعتیوں کو منع کیا جائے، اور عوام کو متنبہ کیاجائے کہ ان جیسے کام نہ کریں۔ اور اُمت بھی بدعتوں اور خلافِ شریعت اعمال کے ارتکاب سے بچ جائے۔

اس علانیہ بائیکاٹ کے باوجود یہ درست ہے کہ کوئی عالم اسے نصیحت کرنے کے لئے خفیہ طور پر اس سے رابطہ قائم رکھے، یا خفیہ طور پر اس سے صدقہ وصول کرلیا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے نصیحت بھی جاری رہے اور مسلمانوں کی اجتماعیت کے ساتھ اس کا تعلق نچلے درجے تک قائم رہے۔ تاکہ عام بائیکاٹ کی و جہ سے وہ مسلمانوں کی جماعت سے مکمل طور پر الگ ہوجانے کا فیصلہ نہ کرلے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس سے صدقہ وصول نہ کرنا أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک صورت ہے۔ یہ خود ان مالوں کو وصول کرنے کی حرمت کے قبیل سے نہیں۔ حرام کمائی سے حاصل ہونے والے حرام مال سے توبہ کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ اس مال کو رفاہِ عامہ کے کسی کام میں خرچ کرکے اس سے جان چھڑا لے۔ لہٰذا توبہ کے بعد یہ مال آخر کار اسلامی اداروں کے پاس ہی آئیں گے تاکہ وہ آدمی حرام مال سے نجات پالے، یا اس کی کمائی میں خلافِ شریعت کاموں اور گناہوں کی جو ملاوٹ ہوگئی ہے، اس سے اپنے مال کو پاک کرلے۔ واللہ أعلم

برائی میں تعاون کرنے والی ملازمت کا مسئلہ

سوال 18: ایک شخص ٹیکسی ڈرائیور ہے، اسے معلوم نہیںکہ اس کی گاڑی میں کون سوار ہوگا۔ کیونکہ اس کی بکنگ کمپیوٹر یا ٹیلیفون کے ذریعے ہوتی ہے۔ اگر اس کی ٹیکسی میں سوار ہونے کے لئے کوئی شخص شراب لے کر آجائے، یا کوئی عورت فسق و فجور کے مقام پر جانے کیلئے ٹیکسی لے، تو وہ اس کا مطالبہ پورا کرنے سے انکارنہیں کرسکتا۔کیونکہ انکار کی صورت میں اسے ملازمت سے جواب مل سکتا ہے۔ اس بارے میں اسلام کا حکم تفصیل سے بیان فرمائیں۔

جواب:اُصول یہ ہے کہ ہر وہ کام ممنوع ہے جس سے کسی گناہ میں مدد ملتی ہو۔ مثلاً شراب بنانے والے کے ہاتھ انگور بیچنا منع ہے۔ ایسے شخص کو ہتھیار فروخت نہیں کیا جاسکتا جو اس کے ذریعے کسی بے گناہ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ کسی آدمی کو شراب نوشی کے لئے شراب خانے تک یا بدکاری کے لئے چکلے تک سواری مہیا نہیں کی جاسکتی۔ ان احکام کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہے: ﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...٢﴾... سورة المائدة ''نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔''

لہٰذا اگر مسلمان ڈرائیور اگر ایسے کام سے بچ سکتا ہو، جس کے ذریعے گناہ میں تعاون ہوتا ہو، تو اسے ضرور بچنا چاہئے۔ اس صورت میں اسے رخصت تلاش کرنا جائز نہیں۔ لیکن اگر اس کے لئے ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو اسے لاچار (مضطر) قرار دیا جاسکتا ہے۔

اور اس کام کو شبہ والا سمجھنا چاہئے۔ ایسے واقعات کی قلت و کثرت کی بنا پر شبہ بھی ہلکا یا شدید ہوگا۔ یعنی اگر اس کے کام میں یہ (گناہ والی) کیفیت زیادہ ہے تو اس کااثر اس کے کام کے جواز پربھی پڑے گا اور ایسی ملازمت ناجائز ہوجائے گی۔ تب ضروری ہوگا کہ وہ کوئی دوسرا کام تلاش کرے، یا اس کام کے لئے ایسی جگہ تلاش کرے جہاں وہ اللہ کی رضا زیادہ حاصل کرسکتا ہو، اور اسے اس قسم کی صورتِ حال پیش آنے کے اِمکانات کم ہوں۔

زکوٰۃ کے مصارف


دعوتی سرگرمیوں کے لئے مالِ زکوٰۃ کا استعمال ؟

سوال 19:کیا امریکہ کے اسلامک سنٹرزکو زکوٰۃ دینا جائز ہے تاکہ وہ اپنے قرض ادا کرسکیں جو زمین کی خریداری، تعمیرات، یا کسی عمارت میں ضروری توسیع کی و جہ سے ان کے ذمہ ہیں، یا دوسرے قرض یا اُدھار چیزیں لینے کی و جہ سے یا سنٹر کے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لئے حاصل کئے جاتے ہیں، خواہ یہ (اخراجات) تنخواہوں کی صورت میں ہوں، یا ٹیکسوں کی ادائیگی کی صورت میں، یا مرمت وغیرہ کے لئے یا اسلامی پروگراموں کو جاری رکھنے کے لئے ان کی ضرورت پڑتی ہو؟

جواب:اس سوال کے جواب میں علما کی مختلف آرا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مصارف میں (فی سبیل اللہ) کا مقصود متعین کرنے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

 متقدمین میں سے اکثر علما 'فی سبیل اللہ' کو جہاد اور اس سے متعلق مصارف تک ہی محدود قرار دیتے ہیں۔ وہ اس میں مجاہدین کے علاوہ کسی اور کو شامل نہیں کرتے۔ کیونکہ جب یہ لفظ مطلق ہو تو اس سے مراد 'جہاد' ہی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس مصرف (فی سبیل اللہ) کے مفہوم کو عام کردیا جائے تو اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ باقی مصارف کالعدم ہوجائیں گے، یا ان کا الگ سے ذکر کرنے کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

 متاخرین میں سے بہت سے علما اس کو وسیع معنوںمیں لیتے ہیں، اور اس میں عوامی بہبود کے تمام کاموں کو شامل کرتے ہیں۔

ایک تیسرے فریق نے درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مصرف سے صرف 'جہاد' مراد ہے۔ لیکن اسلام میں جہاد صرف قتال پر ہی نہیں بولا جاتا بلکہ اس میں زبانی جہاد اور اللہ کی طرف دعوت دینے کا جہاد بھی شامل ہے۔ یعنی 'جہاد' صرف تلوار سے جنگ کرنے کا نام نہیں۔ کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: '' مشرکین سے جہاد کرو، اپنے ہاتھوں کے ساتھ، اپنی زبانوں کے ساتھ اور اپنے مالوں کے ساتھ۔'' خصوصاً کافر ممالک میں، جہاں مسلمان جلاوطنی اور لا دینیت کا شکار ہیں۔رابطہ عالم اسلامی کے تحت کام کرنے والی فقہی مجلس نے بھی جہاد کے اس وسیع ترمفہوم کی باقاعدہ تائید کی ہے۔ اور انہوں نے جہاد کے مفہوم میں اس طرح کی تمام سرگرمیوں کو شامل کیا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں اس نوعیت کے کام جہاد کی ہی صورتوں میں داخل ہیں۔

مندرجہ بالا اُمور کی روشنی میں ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ اس مصرف میں غیر مسلم ممالک میں اسلام کی دعوت دینا بھی شامل ہے۔ اور ان ملکوں میں قائم ان دعوتی اور تعلیمی اداروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جو ان ممالک میں مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھتے ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ واللہ اعلم

دعوتی سرگرمیوں میں کمی بیشی کی بنا پر زکوٰۃ دینے میں ترجیح ؟

سوال 20:ایک اسلامک سنٹر میں اسلامی مدرسہ یا دعوت وتبلیغ کا مرکز قائم ہے۔ جبکہ دوسرے اسلامک سنٹرمیں صرف مسجد ہے جس میںنماز ادا کی جاتی ہے اور مسلمان کیمونٹی کو درس دیے جاتے ہیں، کیا زکوٰۃ ادا کرنے کے لحاظ سے ان دونوں میں فرق ہے؟

جواب:میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان اسلامی مراکز کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جن کو اس کی ضرورت ہو، خواہ مرکز کو چلانے کے لئے یا اس کے قرض ادا کرنے کے لئے۔ لیکن اگر اللہ نے اسے مستغنی کیا ہو مثلاً اس کے اوقاف سے اتنی آمدنی حاصل ہوجاتی ہو، جس سے اس کے اخراجات پورے ہوسکتے ہوں، یا کوئی حکومت یا ادارہ وغیرہ اس پر خرچ کرنے کی ذمہ داری اُٹھائے ہوئے ہو، تواس صورت میں مرکز کے لئے جائز نہیں کہ حاجت مندوں کے حق میں سے کچھ لے لے کیونکہ غنی آدمی کیلئے اور طاقتور صحت مند آدمی کے لئے صدقہ لینا حلال نہیں۔

بدعتیوں کی مساجد کے ساتھ تعاون؟

سوال 21:ان مساجد کے ساتھ تعاون کا کیا حکم ہے جن کی انتظامیہ کے ساتھ ہم فکری اور منہجی اختلاف رکھتے ہیں؟ کیا ان کیلئے چندہ جمع کرنے کے اجتماعات کا اعلان کرناجائز ہے؟

جواب:جس شخص میں اللہ کے پسندیدہ اعمال بھی پائے جائیں، اور اللہ کے ناپسندیدہ اعمال بھی، اس سے ایک لحاظ سے دوستی رکھی جائے گی اور ایک لحاظ سے نفرت۔ اس سے دوستی اور محبت اس کے بنیادی طور پرمؤمن ہونے کی وجہ سے، نیک اور پابند ِشریعت ہونے کی بنا پرہوگی، اور اس سے نفرت اس کے فسق و فجور یابدعت کے مطابق ہوگی۔

یہ لوگ جو عقیدے میں بدعت پرقائم ہیں، ان سے اللہ اور رسول 1 پر بنیادی طور پر ان کے ایمان رکھنے کی وجہ سے محبت کی جائے گی۔ اس لئے انہیں کفار کے قابو میں نہیں جانے دیا جائے گا، مشکلات و مصائب میں ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔ زندگی میں ان کے لئے ہدایت کی دعا کی جائے گی، اور ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے رحمت کی دعا کی جائے گی۔ ان کی بدعت اور گمراہی کی وجہ سے انہیں بدعت سے منع کیا جائے گا، ایسے مقام پر ان کی مدد نہیں کی جائے گی جہاں مدد کرنے سے ان کو بدعت کی ترویج کی طاقت حاصل ہوجائے اور وہ لوگوں کو گمراہ کرسکیں۔ ہوسکتا ہے کہ فائدہ اس طریقے میں ہو کہ لوگوں کو سنت پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کے بنیادی مسائل کی تعلیم دی جائے۔

اور کسی شخص یا ادارے کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس سے اُمید ہے کہ بعض افراد حق کی طرف آجائیں اور ایک قبلہ کو ماننے والوں کے درمیان دشمنی اور نفرت پیدا نہ ہو، جب کہ حالات ایسے نازک ہیں کہ باہمی اتفاق اور اتحاد کی شدید ضرورت ہے۔ لہٰذا ایسے مقام پر ان کی مدد کی جائے گی جہاں انہیںفوری امداد کی ضرورت ہو مثلاً کسی مسجد پر غیر مسلموں کے قبضے کا خطرہ ہو، یا ان کی طرف سے اس کے بند کردیے جانے کا اندیشہ ہو۔ایسے مواقع پر مسجد کا بدعتی مسلمانوں کے زیر انتظام کھلی رہنا، اس کے غیر مسلموں کے قبضے میں چلے جانے سے بہتر ہے۔ یا مثلاً ان پر غیر مسلم زیادتی کررہے ہیں اور اس کامقابلہ کرنے کیلئے ان کاساتھ دینے اور مددکرنے کی ضرورت ہو، اور اس مقصد کیلئے مال وغیرہ جمع کرنے کی سخت ضرورت ہو۔

بعض دوسرے مقامات پر ان سے تعاون نہیں کیاجائے گا، مثلاً جب وہ اپنے باطل عقائد اور بدعتوں کو عام کرنے اور ان کی نشرواشاعت کے لئے مال جمع کررہے ہوں تو ان سے تعاون نہیں کیا جائے گا۔ تب ہمارا عمل اللہ عزوجل کے اس فرمان پر ہوگا: ﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...٢﴾... سورة المائدة ''نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو، گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو۔'' ان سب اُمور میں یہ اُصول پیش نظر رکھا جائے گا کہ شریعت کی بنیاد بہتر اچھائی کے حصول اور بدتر برائی کی روک تھام پر ہے۔ واللہ اعلم

سود پر خریدے گئے مکان کی باقی اقساط کا مسئلہ

سوال 22: میری ایک دوست حال ہی میں پوری طرح سوچ سمجھ کر اور دل کے پورے اطمینان کے ساتھ مسلمان ہوئی ہے۔ اس نے سود پرایک مکان خریدا تھا۔اب اسے معلوم ہوا کہ سود لینا اور دینا حرام ہے۔ اب اسے کیا کرنا چاہئے جب کہ وہ مکان کی باقی قیمت یکمشت ادا نہیں کرسکتی۔ اس نے توبہ کرلی ہے اور پچھلے گناہ پر نادم ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس گناہ سے اُسے نجات دے دے۔ کیا آپ کوئی مشورہ دے سکتے ہیں؟

جواب:اس خاتون کے سامنے کئی راستے ہیں :

1. وہ یہ مکان فروخت کردے، اور اس سودے سے مکمل طور پر برئ الذمہ ہوجائے۔ خود کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کرلے، حتیٰ کہ اللہ اسے اپنے فضل سے رِزق دے (اور وہ اپنا مکان خریدنے کے قابل ہوجائے۔)

2. وہ کوئی اسلامی کمپنی تلاش کرکے معاہدہ اس کی طرف منتقل کردے۔ اس سلسلے میں رائج قوانین کے مطابق کوئی ایسی شروط طے کرلی جائیں یا کوئی ایسا اتفاق کرلیا جائے جس سے یہ کام درست ہوجائے۔

3. کمیونٹی میں کوئی مسلمان سرمایہ کار تلاش کرے، جو اس مکان کو مکمل طور پر خرید کر اس خاتون کوکرائے پر دے دے۔ یا اسلامی قواعد کے مطابق قسطوں پر اس خاتون کے ہاتھ فروخت کردے۔

4. کوئی آدمی اسے مکان کی باقی ماندہ قیمت کے برابر قرضِ حسنہ دے دے، جس کووہ قرض خواہ ادارے کو ادا کردے۔پھر مستقبل میں وہ اس قرض دینے والے کو قرض ادا کردے۔

5. اگر اس کیلئے مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرناممکن نہ ہو تو دل میں یہ پختہ ارادہ رکھے کہ جونہی ممکن ہوا، وہ اس مکان سے دوسری جگہ منتقل ہوجائے گی اور مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی شرعی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہے، اوراللہ سے خلوص کے ساتھ دعا کرتی رہے۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ دعائیں قبول کرنے والا ہے۔

اتفاقاً دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟

سوال 23: اگرکسی عورت نے کسی دوسری عورت کے بچے کو اتفاقاً دودھ پلا دیا ہو، تو کیا اس عورت کا بچہ یا بچی، اس بچی یا بچے سے نکاح کرسکتا ہے، جس کو اس نے اتفاقاً دودھ پلایا تھا؟

جواب:رضاعت کے بارے میں صحیح قابل اعتماد قول یہی ہے کہ پانچ دفعہ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ بچہ اگر ایک دو بار دودھ چوسے تو حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ''ایک یا دو بار چوسنا حرام نہیں کرتا۔'' اس کے علاوہ صحیح مسلم میں حضرت اُمّ الفضل ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

''نبی ﷺ میرے گھر تشریف فرما تھے کہ ایک اعرابی آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ (اس نے کہا:) ''اللہ کے نبیﷺ!میری ایک بیوی تھی۔ میں نے اس کی موجودگی میں ایک اور عورت سے نکاح کرلیا۔ اب میری پہلی بیوی کہتی ہے کہ اس نے میری دوسری بیوی کو ایک بار یا دو بار دودھ پلایاتھا'' نبیﷺ نے فرمایا: '' ایک دو بار منہ میں دودھ دینا حرام نہیں کرتا۔''

 موطأ امام مالک اور مسند احمد میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوحذیفہؓ کے آزاد کردہ حضرت سالم ؓ کے معاملے میں ابو حذیفہؓ کی زو جہ محترمہ حضرت سہلہؓ سے فرمایا تھا: ''اسے پانچ بار دودھ پلا دے۔'' تاکہ وہ لڑکا ان کا محرم بن جائے۔ اس سے ثابت ہواکہ پانچ سے کم دفعہ دودھ پلانے سے محرم کا رشتہ قائم نہیں ہوتا۔

عقلی طور پر دیکھا جائے تو پانچ دفعہ دودھ پلانے سے بچے کی جسمانی افزائش اور ہڈیوں کی مضبوطی میں فرق پڑتا ہے۔اس طرح دودھ پلانے والی اور دودھ پینے والے کے درمیان میں بیٹے کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ چونکہ سوال کرنے والی خاتون نے اس بچے کو صرف ایک بار دودھ پلایا ہے، لہٰذا اس سے نکاح کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی اور ان دونوں کے درمیان محرم کارشتہ قائم نہیں ہوتا۔ [مزید جوابات کے لئے اگلے شمارے کا انتظار کریں]

مجمع فقہاء الشریعۃ بأمریکا Assembely of Muslim Jurists of America

8909 Tonbridge Ter, Adelphi, Maryland 20783, USA Tel: 301 474 7400 Fax: 301 982 1813

Mailing Address: P.O. Box: 777, College Park, Mary Land 20741 E-mail: amjafatwa@yahoo.com