نعتیہ شہر آشوب٭
محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی محبوبِ خدا ہی نہیں، محبوبِ خلائق بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب" تو محبوبِ کائنات پر درود وسلام بھیجنے کی نص قطعی نے محبوب کے ساتھ والہانہ اظہارِ محبت کے جذبات میں ایک عظیم شدت پیدا کردی۔ محبت وعقیدت کے دھارے پھیل کر طوفانوں کی صورت اختیار کرگئے۔
اگرچہ بعثت سے پہلے بھی حضور ﷺ کی تعریف و توصیف میں کسی نے بخل سے کام نہیں لیا۔ یگانے اور بیگانے آپ کے مداح تھے مگر درود وسلام کی فرضیت نے اس بادئہ طہور کو دو آتشہ کردیا۔ خطیبوں کی تقریریں، حدی خوانوں کی تانیں، شاعروں کے ترانے اور واعظوں کے ارشادات حمد کے ساتھ نعت النبی ﷺ میں بھی رطب اللسان ہوگئے۔ حضور ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں حضرت کعبt بن زُہیر، حضرت عبداللہt بن رواحہ اور حضرت حسانt بن ثابت کے علاوہ دیگر صحابہ کرام نے بھی اپنی اپنی قوتِ کلام کے جوہر دکھائے اور نعت کا بیش بہا خزانہ قرنِ اُولیٰ میں ہی جمع ہوگیا۔
حضور ﷺ کی وفات کے بعد جب اسلام کا سورج عرب سے باہر جلوہ فرما ہوا تو اس سے بیشمار ممالک نورِ اسلام سے منور ہوگئے۔ قرآن کی تعلیم کے ساتھ حضور ﷺ کی محبت و عقیدت بھی دلوں کو زندہ کرتی گئی اور ہر زبان کے شاعروں اور ادیبوں نے محبت آمیز خطبے اور دل فریب نعتیہ نغمے ایجاد کئے۔ اس طرح نعت ِرسول ﷺ جو بجو، دریا بہ دریا اور یم بہ یم بساطِ عالم پر چھا گئی۔
عرب شعرا کے تتبع میں دیگر زبانوں خصوصاً فارسی میں نہایت وقیع نعتیہ قصائد اور نعتیں کہی گئیں۔ اس سلسلے میں ہمیں عطارؔ، رومی، ؔنظامی، ؔجامی،ؔ خسرو،ؔ فیضی،ؔ سعدی،ؔ عرفی،ؔ قدسی،ؔ قاآنیؔ اور دیگر بے شمار شعرا نظر آتے ہیں جن کے نعتیہ کلام میں عشق رسول ﷺ کے سمندر موجزن ہیں۔ انہی سمندروں سے نعت ِحبیب ِکبریا ﷺ کے بادل اٹھے اور ہماری اُردو شاعری کو سیراب کرتے چلے گئے۔ دکن سے اُردو شاعری کی موجیں شمالی ہند کی جانب بڑھیں تو دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ نعت و منقبت کے دھارے بھی گلستانِ ادبِ اُردو میں لہریں مارنے لگے۔ ولی دکنی سے لے کر امیرمینائی تک اردو شعرا کی ایک کھیپ ہمیں نعت سرائی کرتی نظر آتی ہے اور پھر حالی ؔسے ہوتی ہوئی یہ روایت ظفر علی خان تک قوت و توانائی کا ایک عظیم مینار بن کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ اقبال کے ہاں نعت آفاقی منازل تک صعود کرجاتی ہے۔ اور پھر اس کی روشنی کچھ اس طرح پھیل جاتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد نعت گوئی ہر مسلمان شاعر کا جزوِایمان بن جاتی ہے۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیںکہ پاکستان کا شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جس نے نعت نہ کہی ہوگی اور اپنے علم و عرفان کی پوری صلاحیتوں کو عقیدت اور محبت کے گل ہائے رنگ رنگ کے گلدستے سجانے میں صرف نہ کیا ہوگا۔
’نعت‘ جس کے لغوی معنی ہی تعریف و توصیف کے ہیں؛ رسول اللہ ﷺ کے محامد و محاسن اور حسن و جمال کا بیان ہوتی ہے مگر اس میں اتنا تنوع اور اتنی وسعت ہے کہ شاعر اپنے جذبات و تصورات میں حسین سے حسین تر عالم تخلیق کرتا ہے اور زمین سے عرش و کرسی تک توسن ِفکر کو دوڑاتا ہے پھر بھی نعت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ کسی نے حضور ﷺ کے سراپا کے حسن و جمال میں اپنی جولانی طبع کو صرف کیا تو کسی نے آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے تمام پہلوؤں کو اپنے الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی مگر وہ ذات جس کی تعریف خود خالق ِکائنات کرے، وہ کسی بشر کے اِحاطہ علم و قلم میں کیسے مقید ہوسکتی ہے۔ فسبحان اللہ أحسن الخالقین
شعرا نے ہادیٔ برحق ﷺ کے اوصاف و مناقب اور سیرت و صورت کے بیان میں حسن کلام اور حسن عقیدت کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ آپ کے حسن و جمال کی بوقلمونی، آپ کی سیرتِ مبارکہ کے نقوشِ لازوال، میلاد و معراج، آپ کی تعلیم، تقویٰ و طہارت، عالمگیری وجہاں آرائی، آپ کی محبت میں سوز و گداز، ہجر و وصال، آپ کے قرب کی خواہشات، آپ کے شہر میں موت کی آرزوئیں اور آپ کے معجزات اور غزوات کی تفصیلات نعت کے عام موضوعات ہیں۔
’آشوبِ ذات‘
نعت گوئی کا دامن اسلام کی توسیع کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا اور عرب کے بعد عجمی ممالک میں جب نورِ اسلام جلوہ گر ہوا تو اس موضوع میں کچھ مقامی رنگ کی بھی آمیزش ہوتی گئی۔ خصوصاً فارسی نعت گوئی جو طلوعِ اسلام سے کم و بیش تین صدیاں بعد وجود میں آئی اس میں ایک اور موضوع کا اضافہ ہوا اور وہ تھا آشوبِ ذات یا آشوبِ دہر پر شاعروں کی مرثیہ گوئی۔ اسلامی ممالک میں سیاسی کشمکش ، سلطنتوں کی شکست و ریخت اور اقتدار کی جنگ وجدل نے جہاں آبادیوں کو تہ و بالا کیا، وہاں لوگوں کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کو بھی زیر و زبر کیا۔ اس قسم کے آشوب و ابتلا میں شاعروں نے بھی اپنے مصائب و آلام کے نوحے کہے اور غم و اندوہ کے مرثیے لکھے۔ رنج و غم کی یہ لے نعتیہ قصائد میں بھی در آئی اور بعض شعرا نے اپنے مصائب و مشکلات کی فریاد رسی کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کو پکارنا شروع کیا اور آپ ﷺ سے غم و اندوہ سے نجات دلانے کی التجائیں کرنے لگے۔
اِفراط و تفریط: یہ مسلمہ امر ہے کہ حمد ونعت کے مابین ایک بَـیِّــن فرق ہے۔ ’حمد‘ معبود کی ثنا ہے اور ’نعت‘ عبد کی منقبت۔ اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی تعلیم مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے روشنی کا مینار ہے۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ ان دو ماخذوں سے باہر کی تعلیمات پر اپنے دینی عقائد کی بنیاد رکھے اور کسی دوسری قوم کی تقلید یا تقابل میں قال اللہ وقال الرسول سے تجاوز کرے۔ چونکہ شاعری میں جذبات و تخیلات کی جولانیاں آدمی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں، اس لئے اس کی پیش بندی کے طور پرقرآن نے شاعری کی مذمت کی۔یہ مذمت گو دورِ جاہلی کی شاعری سے مخصوص ہے مگر اس نے مسلمان شاعروں کے لئے اِبلاغ کا راستہ متعین کردیا۔
جب یہ ارشاد ہوا: ﴿وَاِنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لاَ يَفْعَلُوْنَ﴾ تو ساتھ ہی مؤمن شاعروں کو یوں مستثنیٰ کردیا: ﴿إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثيرًا وَانتَصَروا مِن بَعدِ ما ظُلِموا...٢٢٧﴾... سورة الشعراء"گویا مسلمان شاعروں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ قرآنی تعلیمات کے اندر رہتے ہوئے شاعری کریں اور بے جا غلو سے پرہیز کریں۔ وہ اپنے تو سن فکر کو بے لگام نہ ہونے دیں اور قرآنی تعلیمات سے اپنامحاسبہ کرتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حمدونعت میں بھی حفظ ِمراتب کا خیال رکھا جاتا ہے اور نعت اپنی مخصوص حدوں سے تجاوز نہیںکرنے پاتی۔ اسی بنا پر عرفی کو یہ کہنا پڑا ؎
’’اے عرفی! تو اتنی تیزی نہ دکھا۔ یہ نعت کا راستہ ہے، کوئی صحرا نہیں ہے کہ تو آنکھیں بند کرکے دوڑتا چلاجائے گا۔یہ راستہ تو بہت کٹھن ہے اور اس کی کیفیت تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے۔( یعنی مبالغہ کرو گے تو رسول ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے برابر درجہ دے دو گے اور اگر اس میں کمی کرو گے تو رسول ﷺ کو اپنے مرتبے سے نعوذ باللہ نیچے لے آؤ گے)
تجھے تو ہوشیار رہنا چاہئے اور رسول اللہ ﷺ کی مدح گوئی اور کے وجم (بادشاہوں) کے قصیدے کہنے کو ایک ہی آہنگ و انداز نہیں رکھا جاسکتا۔‘‘
’شہر آشوب‘
جہاں تک شہر آشوب کا تعلق ہے…’’اس میں زمانے کی دستبرد کا گلہ کیا جاتا ہے۔ حملہ آور بادشاہوں اور طالع آزماؤں کے ظلم و ستم پر نوحہ و فریاد کی جاتی ہے۔ عوام الناس کی بدحالی اور شکستگی کا رونا رویا جاتا ہے۔ لوٹ مار اور غارت گری کے ہاتھوں مٹ جانے والوں کا مرثیہ کہا جاتا ہے۔ عزت و ناموس لٹ جانے پر نالہ و شیون زبان پر آتا ہے۔ اور پھر ابتلا کے تدارک اور انتقام کے لئے کسی فریاد رس سے التجاکی جاتی ہے۔‘‘
اب ظاہر ہے کہ فریاد رس ایسی ہستی ہی ہوسکتی ہے جو اس رنج و بلا کے دور کرنے پر قادر ہو۔ اور وہ ہستی مخلوق نہیں، خالق ہی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اکثر شہر آشوب لکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ ہی سے فریاد کی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو ذوالقوۃ المتین ہے اور وہ انسان کے مصائب و مشکلات میں اس کی فریاد سنتا اور مدد کرتا ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہم اسی کو پکاریں اور اسی سے فریا دکریں :
﴿وَإِذا سَأَلَكَ عِبادى عَنّى فَإِنّى قَريبٌ ۖ أُجيبُ دَعوَةَ الدّاعِ إِذا دَعانِ ۖ فَليَستَجيبوا لى وَليُؤمِنوا بى لَعَلَّهُم يَرشُدونَ ١٨٦﴾... سورة البقرة
’’اور (اے رسول ﷺ!) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں (تو جواب دے کہ) میں ان کے قریب ہی ہوں۔ جب پکارنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں پس وہ مجھی سے مانگیں اور مجھی پر ایمان لائیں تاکہ وہ رشد و فلاح حاصل کریں۔‘‘
﴿قُل مَن يُنَجّيكُم مِن ظُلُمـٰتِ البَرِّ وَالبَحرِ تَدعونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفيَةً لَئِن أَنجىٰنا مِن هـٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّـٰكِرينَ ﴿٦٣﴾... سورة الانعام
’’اے نبی ان سے کہئے کہ تمہیں خشکی اور تری کی مصیبتوں سے کون بچاتا ہے جب کہ تم اسے عاجزی سے اور خفیہ طور پرپکارتے ہو (اور کہتے ہو) کہ اگر وہ ہمیں اس مصیبت سے بچائے گا تو ہم ضرور شکر گزار ہوجائیں گے۔‘‘
﴿قُلِ اللَّهُ يُنَجّيكُم مِنها وَمِن كُلِّ كَربٍ ثُمَّ أَنتُم تُشرِكونَ ﴿٦٤﴾... سورة الانعام
’’کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہیں ان سے اور دوسرے تمام مصائب سے نجات دلاتا ہے، پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔‘‘
دعا کرنے یا مدد کے لئے پکارنے کا حکم قرآن میں بے شمار مقامات پر آیا ہے۔ اور غیر اللہ کو پکارنے پر وعیدیں بھی اسی انداز میں دی گئی ہیں مثلاً:
﴿لَهُ دَعوَةُ الحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَجيبونَ لَهُم بِشَىءٍ...١٤﴾... سورة الرعد
’’اسی(اللہ) کو پکارنا برحق ہے اور جو لوگ اسے چھوڑ کر اوروں کو پکارتے ہیں، وہ ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دیتے۔‘‘
بلکہ اس سلسلے میں خو د رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو:
«ومن لم یسأل اﷲ یغضب علیه» (ترمذی :ج۲؍ص۱۷۳)
’’جوشخص اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا، اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے۔‘‘
یعنی جو اللہ تعالیٰ کی بجائے دوسروں سے حاجت طلب کرتا ہے، اس کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کی خفگی کا باعث بن جاتا ہے۔ ا س بنا پر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنی مشکلات و مصائب میں پکارے اور اسی سے داد طلب کرے۔
نعتیہ رجحانات ؛ خیر القرون میں
قرونِ اولیٰ میں ہمیں کوئی نعت و منقبت یا قصیدہ اس نہج پر دکھائی نہیں دیتا جس میں آنحضور ﷺ کی وفات کے بعد ان کو کسی نے پکارا ہو اور اپنی مشکلات کے حل کے لئے استدعا کی ہو۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر اکابرین اُمت کے وہ نوحے ہمیں ملتے ہیں جن کو پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
حضرت فاطمہ الزہرا
’’حضور کی جدائی میں وہ مصیبتیں مجھ پر ٹوٹی ہیں کہ اگر یہ دنوں پر ٹوٹتیں تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے۔‘‘
’’آسمان کی پہنائیاں غبار آلود ہوگئیں اور دن کا سورج لپیٹ دیا گیا اور زمانہ تاریک ہوگیا‘‘
’’اور زمین نبی کریم ﷺ کے بعد مبتلائے درد ہے اور ان کے غم میں سراپا ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق
’’اے آنکھ خوب رو۔ اب یہ آنسو نہ رکیں، قسم ہے سرورِ عالم پر رونے کے حق کی‘‘
’’خندف کے بہترین فرزند پر آنسو بہا جو غم و الم کے ہجوم میں سرشام گوشۂ قبر میں چھپا دیا گیا۔‘‘
’’مالک الملک بادشاہ عالم بندوں کا والی، اور پروردگار احمد ﷺ مجتبیٰ پر سلام و رحمت بھیجے‘‘
’’اب کیسی زندگی جو حبیب ہی بچھڑ گیا، اور وہ نہ رہا جوزینت دہ عالم تھا‘‘
’’کاش موت آتی تو ہم سب کو ایک ساتھ آتی آخر ہم سب اس زندگی میں بھی ساتھ ہی تھے‘‘
حضرت علی المرتضیٰ
’’نبی ﷺ کو کپڑوں میں کفن دینے کے بعد میں اس مرنے والے کے غم میں برابر غمگین ہوں جو خاک میں جابسا‘‘
’’رسول اللہ ﷺ کی موت کی مصیبت ہم پرنازل ہوئی اور اب جب تک ہم خود جی رہے ہیں، ان جیسا ہرگز نہ دیکھیں گے۔‘‘
’’انکی موت کے بعد ہم پر ایسی تاریکی چھا گئی، جس میں دن کالی رات سے زیادہ تاریک ہوگیا‘‘
ان کے علاوہ بھی بعض دوسرے صحابہ کرامy کے لکھے ہوئے مرثیے ہیں اور یہ مرثیے اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کو اس طرح زندہ تصور نہیں کرتے تھے کہ آپ ﷺ سے کچھ طلب کرسکیں اور آپ ﷺ ان کی کوئی مدد کرسکیں۔ اگر یہ صورت ہوتی تو ان مرثیوں کی ضرورت نہ تھی۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات پرحضرت عمرt کا جوش و خروش ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس پر حضرت صدیقt اکبر کا خطبہ، حضرت عمرt کی اس لغزش کی اصلاح اور امت کے لئے عقیدے کی درستی کابہترین ذریعہ تھا۔ آپ کو بھی حضور ﷺ کی وفات کا صدمہ اسی طرح تھا جیسے دیگر صحابہ کرام اور محبان و متعلقین ِرسول ﷺ کو تھا مگر اس صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے اور توحید پرست مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر رکھنے کے لئے آپ نے خطاب فرماتے ہوئے کہا :
’’أیها الناس من کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات ومن یعبد اللہ فإن اللہ حي لایموت‘‘
’’اے لوگو! تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی پرستش کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد ﷺ فوت ہوگئے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ تعالیٰ زندہ ہے جو کبھی نہیں مرتا۔‘‘
اور اس کے بعد قرآن پاک کی وہ مشہور آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَسولٌ.....﴾... سورة آل عمران" جسے سن کر نہ صرف حضرت عمرt بلکہ دوسرے لوگوں کے بھی شکوک و شبہات زائل ہوگئے۔
عربی میں بھی اگرچہ ’شہر آشوب‘ لکھے گئے ہوں گے مگر ’نعتیہ شہر آشوب‘ کا کوئی ایسا نمونہ ہمیں کئی ہجری صدیوں میں نہیں ملتا جس میں آنحضور ﷺ سے اس طرح استمداد کیا گیا ہو۔ آنحضور ﷺ کی وفات کے فوراً بعد مانعینِ زکوٰۃ اور مرتدین کا فتنہ اٹھتا ہے۔قتل وغارت کا سلسلہ اس میں بھی چلتا ہے مگر کہیں سے کوئی شاعر آنحضور ﷺ سے اس فتنے کے سد ِباب کے لئے مدد مانگتا نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد ’فتنہ‘کی صورت میں جنگ ِجمل اور جنگ ِصفین برپا ہوتی ہیں اور بے شمار صحابہ کرامyان کی نذر ہوجاتے ہیں۔مزید آگے چل کر فتنہ و فساد کے سلسلوں میں کربلا کا سانحہ اور پھر بنواُمیہ کے ابتدائی دور کا طویل عرصہ شکست و ریخت کا منظر پیش کرتا ہے۔ مگر نعت میں ان سانحات کی صدائے باز گشت اس رنگ میں سنائی نہیں دیتی کہ آنحضور ﷺ کے سامنے فریاد کی گئی ہو۔
اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگ ِجمل و صفین کے وقت حضرت کعبt بن زُہیر (م۴۲ھ) اور حضرت حسانt بن ثابت (م۶۸ھ) جیسے عظیم نعت گو شاعر موجود تھے۔ بلکہ حضرت حسانt تو واقعہ کربلاتک بھی ذی حیات تھے۔ مگر ان کے کلام میںاور خصوصاً نعتیہ قصائد میں آشوبِ ذات یا آشوبِ ملت کا ذکر دکھائی نہیں دیتا اور وہ بھی اس رنگ میں کہ رسول اللہ ﷺ سے استمداد کیا گیا ہو۔ اس دور کا ایک بلندپایہ شاعر فرزدق سانحۂ کربلا کے ایام میں حضرت حسینt سے کربلا کے راستے میں ملتا ہے اور اہل کوفہ کی مخالفانہ روش کی اطلاع دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ واقعہ گزر جانے کے بعد اس کی طرف سے کوئی ’نعتیہ شہر آشوب‘یادگار نہیں ہے۔ البتہ اہل بیت کی منقبتیں اس سے ضرور منقول ہیں۔
فارسی میں شہر آشوب
فارسی میں سب سے پہلا شہر آشوب شیخ مصلح الدین سعدی ؒ (م۶۹۱ھ) کا مرثیۃ المستعصم ہے۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں:
’’اس وقت تک مرثیہ کا عام انداز یہ تھا کہ اشخاص کا مرثیہ لکھتے تھے۔ قومی یا ملکی مرثیہ کا مطلق رواج نہ تھا۔ شیخ پہلا شخص ہے جس نے قوم اور ملک کا مرثیہ لکھا۔ عباسیوں کی سلطنت گو اب برائے نام رہ گئی تھی پھر بھی پانچ سو برس کی اسلامی یادگار تھی اور بغداد تمام اسلامی دنیا کامرکز تھا، اس لئے اس کا مٹنا قوم کا مٹنا تھا۔ اس بنا پر شیخ نے خلیفہ اور بغداد اور سلطنت کا مرثیہ لکھا۔‘‘ (شعرا لعجم: جلد۲؍ ص۶۹)
سقوطِ بغداد ساتویں صدی ہجری کا بلا شبہ ایک عظیم سانحہ تھا جس نے اسلامی سلطنت کا تاروپود بکھیر دیا۔ اگرچہ ا س وقت عالم اسلام ایک عرصے سے آشوب و ابتلا کا شکار تھا۔ سلطنتوں کی باہمی آویزش اور اقتدار کی طالع آزمائیوں نے صلیبی جنگوں کو ہوا دی تھی اور ہر طرف جدال و قتال کا منظر تھا۔ ادھر ایشیا کے شمال مشرق سے تاتاریوں کا طوفان ایک سیل بے پناہ کی طرح بڑھتا چلا آتا تھا۔ بخارا و سمرقند جیسے اسلامی مرکز اس کے سامنے تنکوں کی طرح بہ گئے۔ سلجوقی اور خوارزمی سلطنتیں دیکھتے ہی دیکھتے سرنگوں ہوگئیں۔ ترکستان اور ایران تاتاریوں کے تسلط میں چلے گئے اور اب بغداد میں عباسیوں کا آخری چراغ ٹمٹا رہا تھا جس کی حیثیت اس وقت تاتاری آندھیوں کے سامنے چراغِ رہگذر کی سی تھی۔ آخر ہلاکو نے بغداد پر یلغار کی تو اس زوال آمادہ سلطنت کا بوسیدہ محل زلزلے کے پہلے جھٹکے ہی میں زمین بوس ہوگیا۔ قتل و خون کا وہ بازار گرم ہوا کہ دجلہ کا پانی کئی دنوں تک سرخ بہتا رہا۔ شہر و دیہات زیرو زبر ہوگئے، کتب خانے، دارالعلوم اور مساجد ویران ہوگئیں اور پورے عالم اسلام کا سکون غارت ہوگیا۔ اس پر سعدیؒ جیسا حساس شاعر اس طرح لب کشا ہوتا ہے۔
اس مرثیے یا شہرآشوب میں شاعر رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہوکر گزارش کرتا ہے کہ
آپ اپنی قبر سے باہر تشریف لائیں٭اور دیکھیں کہ دنیا کے سر پر کیا قیامت گزر گئی ہے۔ نازنینانِ حرم خون میں نہا گئی ہیں۔ آپ نے بیت الحرام کی شان و شوکت دیکھی تھی جہاں قیصر و خاقان بھی زمین پر بیٹھا کرتے تھے مگر آج وہ جگہ جہاں سلطانوں کے سرجھکا کرتے تھے وہاں مصطفی ﷺ کے عم زادوں کا خون بہا دیا گیا ہے۔
اس شہرآشوب کے تقریباً اٹھائیس شعر ہیں جن میں شاعر نے اس تباہی و ہلاکت پر خون کے آنسو بہائے ہیں۔ البتہ آنحضور ﷺ سے صرف تخاطب کا انداز اختیار کیا گیا ہے کہیں استمداد نہیں کیا گیا اور احتیاط کا دامن تھامے رکھا ہے۔ مگر شیخ کے بعد کے ادوار میں بعض شعراے عجم کے ہاں رسول اللہ ﷺ سے تخاطب اور ان سے امداد طلب کرنے کی روایت عام ہوگئی۔ مولانا جامیؒ (م۸۹۸ھ) کی نعتوں میں اس قسم کی چیزیں اکثر ملتی ہیں جو قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیم سے ہٹی ہوئی ہیں۔ یہاں عام نعت پر بحث نہیں بلکہ محض شہر آشوب کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا نقطہ نگاہ پیش کرنا مقصود ہے۔ اس لئے ان کے ایک شہر آشوب کے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں جن میں وہ آنحضور ﷺ سے ابتلا و مصائب کے پیش نظر استمداد کرتے ہیں، یہ شہر آشوب دراصل آشوبِ ملت ِاسلامیہ ہے۔ علماء و صو فیا کی بدعملی اور بدعت طرازی پرمولانا دل گرفتہ ہیں اور حضور ﷺ سے اس طرح فریاد کرتے ہیں ؎
(مثنوی تحفۃ الاحرار: ص۳۴، ۳۵،مطبوعہ۱۳۲۶ھ)
مولانا جامی کے علاوہ فارسی لغت میں شہرآشوب کا بیان کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ البتہ آشوبِ ذات اکثر نعتوں میں ملتا ہے اور اکثر شعراء حضور ﷺ سے اس طرح التماس کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں روضۂ مبارک کی زیارت کا شرف عطا فرمائیے اور ہمیں اپنے شہر جاں افروز کی خاک آنکھوں سے چومنے کا مو قع مرحمت فرمائیے۔ ہم آپ سے دور فراق کی آگ میں جل رہے ہیں۔غم ہجراں سے زندگی دو بھر ہوگئی ہے، اس سے نجات دلائیے۔ اس قسم کے آشوبِ ذات میں قصائد اور نعتیں اکثر لکھی گئی ہیں جن میں حضور ﷺ سے براہِ راست استمداد کیا گیا ہے۔ اور یہ روش آگے چل کر نعت و منقبت میں عام ہوتی گئی۔ (جاری ہے)
جناب علیم ناصری صاحب ِطرز ادیب اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ آپ کے کئی شعری مجموعے شائع ہوکر اہل ذوق سے داد وتحسین وصول کرچکے ہیں۔ طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا نامی نعتیہ مجموعہ تو صدارتی ایوارڈ یافتہ ہے۔’شاہنامہ بالا کوٹ‘ اور’بدرنامہ‘میں واقعات کو اشعار میں پیش کرنے کے علاوہ ان دنوں ’جنگ ِاُحد‘ پر آپ یہی کام کررہے ہیں۔ ’نعتیہ شہر آشوب‘ نامی مضمون کے علاوہ آپکی درج ذیل نظمیں بھی ہدیۂ قارئین ہیں۔ ان دنوں آپ ضعف اور پیرانہ سالی کی وجہ سے صاحب ِفراش ہیں۔ قارئین سے ان کی صحت ِکاملہ وعاجلہ کیلئے دعا کی خصوصی درخواست ہے۔ (ح م)
عبدہٗ از علیم ناصری [۲۲؍مئی۲۰۰۱ئ]