اسلام اور عیسائیت کی تعلیم اورنتائج نبوت ؛ ایک تقابل
مولانامحمد علی قصوریؒ اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں جن کے اکثر افراد نے برصغیر میں اسلام اور ملک وملت کی خدمت اورجدوجہد ِآزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ مولانا عبدالقادر قصوری(سابق صدر انجمن اہلحدیث پنجاب) کے صاحبزادے، معین قریشی (سابق نگران وزیراعظم) کے چچا اور موجودہ وفاقی وزیر خارجہ (خورشید محمود قصوری) کے تایا تھے۔
آپ نے اعلیٰ تعلیم کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بیرسٹری کا کورس بھی مکمل کیا لیکن سند حاصل نہ کرسکے تھے کہ وطن لوٹ آئے۔ انگلستان کے قیام کے دوران ہی مولانا محمد علی قصوری نے اپنی زندگی اسلامی اور ملی کاموں کے لئے وقف کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے کئی ملازمتوں کی پیشکش ہوئی لیکن ان کے دماغ میں ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح اسلامی ممالک کو مغربی استعمار کے چنگل سے آزاد کروایا جائے۔ افغانستان کی حکومت کو برطانوی سامراج کے خلاف جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے افغانستان کا سفر بھی کیا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی تو یاغستان چلے گئے اور وہاں کے قبائل کو ظلم کی قوتوں کے خلاف جہاد کے لئے تیار کیا ۔ زیر نظر مضمون کی اقساط اس سے قبل دسمبر ۲۰۰۲ء اور اپریل، مئی ۲۰۰۳ء کے شماروں میں ملاحظہ فرمائیں۔ (محدث)
ذاتی کردارکے بعد تعلیم نبوت اور نتائج نبوت کی باری آتی ہے۔ چنانچہ ہم مختصراً ان دونوں انبیا کی تعلیم اور نتائج تعلیم کامقابلہ کرتے ہیں :
انبیاء کے مدارج
اولاً انبیا کے تین مدار ج ہیں: اُمت و ملت کے مؤسس، مجدد اور متبع
مؤسّس وہ ہیں جو کسی دین کی ابتدا کریں اور اُمت ِصالحہ کی بنیاد رکھیں،علاوہ ازیں صاحب ِکتاب و شریعت ہوں،جیسے حضرت نوح ، حضرت ابراہیم اور حضرت محمد رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ والسلام اور انہی کوقرآن حکیم نے 'اولوا العزم من الرسل' سے تعبیر فرمایا ہے اور جہاں تک علو مرتبت اور اصطفیٰ کا تعلق ہے، 'اولوا العزم من الرسل' سے بڑا مرتبہ رسالت و نبوت میں قرآنِ حکیم کی رو سے اور کسی کو نصیب نہیں ہوا۔
اور ان تینوں انبیا کے والدین کا ذکر کسی طرح سے بھی قرآن حکیم میں تعریف سے مذکور نہیں ہوا، بلکہ اُلٹا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے باپ کے کفر کا بالا ستیعاب ذکر ہوا۔
مجدّد وہ ہے جو کسی مؤسس کے دین کی تجدید کے لئے آئے، اس کے پاس کتاب وشریعت ہوتی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
متّبع وہ ہے جو خود صاحب ِکتاب و شریعت ِجداگانہ نہ ہو، بلکہ اپنے سے پہلے صاحب ِ کتاب و شریعت کے اتباع میں اس کی شریعت و سنت کے احیا کے لئے مامور من اللہ ہو۔ وہ وقتاً فوقتاً حسب ِضرورت وحی الٰہی سے سرفراز ہوتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کے انبیا جو حضرت سرور عالم محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے تشریف لائے۔
حضرت مسیح کس زمرہ میں سے ہیں؟
اس تقسیم سے جو ہم نے کی ہے، صاف ظاہر ہوگا کہ مؤسس انبیاء کا رتبہ اوّل، مجددین کا دوم اور متبع انبیا کا سوم درجہ ہوگا۔ اب ہم قرآنِ حکیم اور انجیل مقدس کی رو سے دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کس زمرہ میں تھے اور ہمارے حضور سرورِ عالم کس زمرہ میں، علیہم الصلوٰۃ والسلام!
پیشتر اس کے کہ اناجیل اربعہ نے جو پوزیشن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دکھلائی ہے، وہ آپ کے سامنے آئے، اس امر کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ عیسائیوں کا بالاتفاق عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کوئی کتاب نہیں لائے اور ان کی حین حیات اور اس کے بعد بھی سالہا سال تک عیسائی دنیا اسی عقیدہ پر قائم تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ فقط تورات کے مذہب کو قائم کرنے اور یہودیوں کی اصلاح کی غرض سے تشریف لائے تھے اور موجودہ عیسائی مذہب اور مقدس کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سینٹ پال کی کوششوں سے وجود میں آئی اور قریباً تین صد سال میں متشکل ہوئی، بالآخر 'کونسل آف پنسیا' نے اس پر اِلہامی ہونے کی مہر لگا دی۔
موجودہ عیسائیت کا بانی
اس امرپرنہایت بین اور واضح دلائل موجود ہیں اور کسی منصف مزاج عیسائی کو اس امر سے انکار نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام موجودہ عیسوی مذہب کے بانی نہیں ہیں،بلکہ سینٹ پال اس مذہب کا موجد اور بانی ہے۔ پہلے اس نے عیسوی مذہب کو فنا کرنے کی کوشش کی جب مخالفت سے فنا کرنے میں ناکام ہوا تو موافق اور دوست بن کر اسے فنا کرنے کی سوجھی، کیونکہ جس قدر نقصان دوست بن کر پہنچایا جا سکتا ہے ، مدمقابل اور دشمن بن کر نہیں پہنچایا جا سکتا۔ چنانچہ اس مقصد میں سینٹ پال کو اپنی تمام توقعات سے بڑھ کر کامیابی ہوئی اور اس نے عیسوی مذہب کو فنا کرکے پالی مذہب کی بنیاد رکھی، جس کی بنا بجائے تورات و مقالاتِ حضرت مسیح علیہ السلام کے، مصری اور یونانی فلسفہ پر تھی۔ ذیل کا اقتباس ملاحظہ کیجئے
''میں یہودیوں کے لئے یہودی بنا تاکہ یہودیوں کو کھینچ لاؤں۔جولوگ شریعت کے ماتحت ہیں، ان کے لئے میں شریعت کے ماتحت بنا،تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو کھینچ لاؤں اگرچہ میں خود شریعت کے ماتحت نہ تھا۔ (۲۰) بے شرع لوگوں کے لئے بے شرع بنا ، تاکہ بے شرع لوگوں کو کھینچ لاؤں۔ میں سب آدمیوں کیلئے سب کچھ بنا ہوا ہوں، تاکہ کسی طرح سے بعض کو بچاؤں۔'' (گرنتھیوں کے نام سینٹ پال کا پہلا خط : باب ۹؍ آیت ۲۰ تا ۲۱)
ذرا ان الفاظ کا غور سے مطالعہ کیجئے تو آپ کو پال کی حقیقت فورا ً واضح ہوجائے گی۔ اس نے کمال حکمت ِعملی سے مصری اور یونانی اور لاطینی (رومی) علم الاصنام کویہودی شریعت کے ساتھ مخلوط کرکے، تمام عباداتِ یہودیت کو فنا کرکے مسیحی سادگی کی بجائے مصری، یونانی تثلیث وکفارہ کو عقائد ِمسیحیت میں لاداخل کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی و غیر یہودی سب کے لئے مسیحیت یکساں مرغوب ہوگئی۔
حضرت عیسیٰ کا مذہب
اس لئے موجودہ عیسوی مذہب کو حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کرنا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرنا ہے، ان کامذہب توموسوی ؑ تھا اور وہ تمام عمر موسوی شریعت کی دعوت دیتے رہے اور ہمیشہ اپنا مشن موسویوں کی اصلاح ظاہر کیا۔ چنانچہ انجیل متی کی رو سے حضرت مسیح فرماتے ہیں:
''یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں، منسوخ کرنے نہیں، بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتاہوں کہ جب تک آسمان و زمین ٹل نہ جائیں، ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہرگز نہ ٹلے گا، جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے کسی کو بھی توڑے گا اوریہی آدمیوں کو سکھلائے گا، وہ آسمان کی بادشاہت میں سب سے جھوٹا کہلائے گا،لیکن جو اس پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا، وہ آسمان کی بادشاہت میں بڑا کہلائے گا۔''
(متی باب ۵ آیات ۱۷ تا ۱۹)
اس میں آسمان کی بادشاہت میں عزت و ذلت کا معیار فقط قانونِ موسوی پر عمل کو بتلایا گیاہے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام جب اپنے بارہ رسولوں کو منتخب کرکے رخصت فرماتے ہیں تو ان کو ہدایت فرماتے ہیں کہ تورات کی تعلیم دینا اور فقط بنی اسرائیل کو پیغام پہنچانا :
''ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور انہیں حکم دے کر کہا کہ غیر قوموںکی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا، بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف جانا۔'' (انجیل متی: باب ۱۰؍ آیات ۵ تا ۷)
پھر ایک شخص مسیح سے پوچھتا ہے کہ میں اَبدی زندگی و نجات کس طرح حاصل کرسکتا ہوں؟ تو اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ تورات کے احکام پرکماحقہ عمل کرو۔ ہاں چونکہ بنی اسرائیل میں خیرات کا مادّہ خاص طور پر فوت ہوچکا تھا، اس لئے اُسے خیرات و ایثار فی اللہ کی خاص تعلیم دی جاتی ہے، کیونکہ مصلح کا فرضِ اوّلین یہی ہوتا ہے کہ اپنی تعلیم میں قومی اور وقتی ضروریات کی بنا پر خاص خاص اخلاقوں پر زیادہ زور دے اور ان کی تعلیم کونمایاں درجہ دے :
''اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر اس (یسوع) سے کہا: اے استاد! میں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں۔ اس نے کہا کہ تو مجھ سے نیکی کی بات کیوںپوچھتا ہے، نیک تو ایک ہی ہے (یعنی خدا کی ذات تمام نقائص سے مبرا ہے)۔ لیکن تو اگر (ابدی) زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو (تورات کے) احکام پر عمل کر۔'' (متی: باب ۱۹؍آیات ۱۶ تا ۱۷)
اس کے بعد حضرت مسیح نے اسے تمام اَحکامِ تورات گن کر بتائے اور بعد میں اسے خیراتِ حقیقی کی تعلیم دی۔
اس سارے بیان سے یہ حقیقت کماحقہ آشکارا ہوجائے گی کہ حضرت مسیحؑ نے تمام عمر تورات پرعمل کرنے کی تعلیم دی اور اسی کی تعلیمات کی نشرواشاعت میں مصروف رہے او ران کا تمام زورِ تبلیغ بنی اسرائیل کی گم گشتہ و گمراہ بھیڑوں کو راہِ راست پر لانے اور ان کی قومی و انفرادی برائیوں کی اِصلاح میں صرف ہوا۔ اور ان کو تمام عمر یہ خیال نہ آیا کہ علیحدہ مذہب کی بنیاد ڈالیں۔ حضرت مسیحؑ کی وفات کے بعد ایک مدت تک ان کے تمام حواری بھی اسی پر متفق رہے کہ حضرت مسیحؑ کوئی نیا مذہب نہیں لائے، اسی واسطے انہوں نے حضرت مسیحؑ کے مقالات کو قلم بند کرنا ضروری بھی نہیں سمجھا۔
موجودہ عیسائیت کی تاریخی حیثیت
بالآخر جب پطرس اور سینٹ جیمز حواریانِ مسیح اور سینٹ پال میں ا ختلاف بڑھا تو اس ضرورت کو محسوس کرنا پڑا۔ سینٹ پال مسیحی مذہب کو اپنی خواہشات اور یونانی معتقدات کے تابع کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہ یونانی الاصل تھا اور اس کی تمنا تھی کہ یہ مذہب کسی طرح یونانیوں اور رومیوں میں ہر دل عزیز ہوجائے۔نیز اس کو یہ معلوم تھاکہ یونانیوں اور یہودیوں کی قدیمی عداوت یونانیوں کو یہودیوں کی مذہبی تابعداری سے مانع ہوگی۔ چنانچہ اپنے پہلے خط میں گرنتھیوں کے نام وہ لکھتا ہے:
'' میں یہودیوں کیلئے یہودی بنا، تاکہ یہودیوں کو کھینچ لاؤں۔ جولوگ شریعت کے ماتحت ہیں ان کیلئے میں شریعت کے ماتحت بنا، تاکہ میں شریعت کے ماتحتوںکو کھینچ لاؤں۔ اگرچہ میں خود شریعت کے ماتحت نہ تھا اور جو لوگ بے شرع ہیں ان کیلئے میں بے شرع بنا کہ بے شرع لوگوں کو بحیثیت ِبے شرع ہونے کے کھینچ لاؤں۔'' (باب۹؍آیت ۲۰تا۲۱)
لیکن پطرس اور سینٹ جیمز اس امر کو پوری طرح سے محسوس کرچکے تھے کہ حضرت مسیحؑ یہودیوں کی کھوئی ہوئی عظمت واپس لانے کے لئے تشریف لائے۔ یہ اختلاف کونسل آف نائی سیا کے زمانہ تک قائم رہا۔ جبکہ شاہِ قسطنطنیہ نے مذہب مسیحیت کو شاہی مذہب قرار دیا او ربزورِ شمشیر سینٹ پال کے معتقدات کو رائج کیا۔
ہماری اس وضاحتسے بخوبی ظاہر ہوگیا ہے کہ انبیا علیہم السلام کے زمرہ میں حضرت مسیحؑ کا مرتبہ ایک متبع نبی کا سا ہے۔ دوسرا خود حضرت عیسیٰ ؑ کا عمل قانونِ تورات ہی پر رہا۔ چنانچہ یوحنا نبی سے بپتسمہ لینے کا واقعہ اناجیل اربعہ میں موجود ہے جو اس امر کی صاف دلیل ہے کہ ''حضرت عیسیٰ ؑ یوحنا نبی موسوی کے ہاتھ پرداخل مذہب ِموسوی ہوئے۔''
(انجیل متی: باب ۳؍ آیات ۱۳ تا ۱۶/مرقس :باب ۱؍آیات ۹ تا۱۱/ لوقا :باب ۳؍ آیات ۲۱ و ۲۲)
چہ خوش کہ ابن اللہ جوبقول مقدس ارستھاناس تورات کو اتارنے والا اور حضرت موسیٰ کو 'شجرۂ طور' پر أنا اللہ کہنے والا تھا ،دنیامیں آکر اسی تورات اور اسی موسیٰ کے ماتحت ہوگیا اور اس سے سرمو انحراف کو کفر خیال کیا ؎
ابن اللہ کی خدائی بھی عجیب قسم کی خدائی ٹھہری۔
نبی اکرم ﷺ کا منصب قرآنِ کریم کی رو سے
یہ ہے وہ دعویٰ جو عیسائی اور ان کی کتب ِمقدسہ اپنے نبی کے متعلق پیش کرتی ہیں۔اب دیکھئے قرآنِ حکیم آنحضرت ﷺ کے بارہ میں کیا فرماتا ہے:
1. جملہ انبیا اور بالخصوص حضرت موسیٰ اور ان کے متبعین مع حضرت مسیح علیہ السلام آنحضرت ﷺ کی ذاتِ مقدس صفات کی بشارت دیتے آئے ہیں۔
﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسولٍ يَأتى مِن بَعدِى اسمُهُ أَحمَدُ...٦﴾... سورة الصف"خاص طور پر حضرت مسیحؑ کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ چنانچہ انجیل متی (باب ۴؍ آیت ۱۷) میں مذکور ہے: ''اس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمانی بادشاہت نزدیک آگئی ہے۔'' ذرا 'نزدیک آگئی ہے' کے الفاظ پر غور کرو، اگر خود مسیحؑ اس کے مصداق ہوتے تو صاف فرماتے کہ آسمانی بادشاہت آگئی ہے اور میں اسے لایا ہوں۔ اور 'رفع الی السما' کے بعد یہ نہ کہتے ''مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں، مگر اب تم ان کو برداشت نہیںکرسکتے۔ لیکن جب فارقلیط آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔'' (یوحنا: باب۱۶؍ آیت ۱۲تا۱۳)
ان دونوں اقتباسات پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ حضرت مسیحؑ محض ایک مبشر اور مناد تھے جو آسمانی بادشاہت کے آنے سے پہلے اس کی منادی کرنے کو آئے تھے۔ آسمانی بادشاہت کے خود لانے والے نہ تھے اور سچائی کے مکمل راستہ کو دکھلانے کے لئے آنے والا وجودِ مقدس اورہے۔ یہ وجودِ مقدس آنحضرتﷺ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جوحضرت مسیحؑ کے بعد چھ سو سال کے اندر تشریف لائے۔
کیونکہ بقولِ کتاب ِمقدس: ''اے خداوند! خدا کا ایک ہزار سال تیری ایک آنکھ کے جھپکے کے برابر۔'' یہ عرصہ چھ صد سال بہت ہی قلیل عرصہ ہے اور انہوں نے وہ تمام باتیں بتائیں جو حضرت عیسیٰ ؑنہ بتلا سکے اور﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣﴾... سورة المائدة" کامژدہ دنیا کو سنایا، صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ واصحابہ اجمعین۔ اس طرح قرآن حکیم کی اور آیات بینات ہیں جو اس واقعہ کو اس سے بھی زیادہ واضح کررہی ہیں :
﴿الَّذينَ يَتَّبِعونَ الرَّسولَ النَّبِىَّ الأُمِّىَّ الَّذى يَجِدونَهُ مَكتوبًا عِندَهُم فِى التَّورىٰةِ وَالإِنجيلِ...١٥٧﴾... سورة الاعراف'' مؤمنوں کی جماعت وہ ہے جو نبی اُمی کی پیروی کرتے ہیں، جس نبی کا ذکر ان کو تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔''
2. آپ مؤسس نبی تھے ﴿فَاصبِر كَما صَبَرَ أُولُوا العَزمِ مِنَ الرُّسُلِ...٣٥﴾... سورة الاحقاف" پہلے آچکا ہے کہ اولوا العزم رسل صرف مؤسسین ہی ہیں۔
3. آنحضرت ﷺ سے پہلے جس قدر انبیا آئے، ان کا دائرئہ ارشاد و تبلیغ کسی خاص قوم یا اُمت ہی تک محدود تھا چنانچہ خود حضرت مسیح نے اپنے ۱۲؍حواریوں کو یہی حکم دیا تھا کہ سوائے بنی اسرائیل کی گم گشتہ بھیڑوں کے او رکسی کودعوت نہ دیویں۔ اور خود حضرت مسیحؑ نے ایک بیمارعورت کو شفا دینے سے محض اس بنا پر انکا رکیا کہ وہ یہودیہ یعنی بنی اسرائیل سے نہیں۔ (انجیل متی: باب ۱۵؍ آیت ۲۴ تا ۳۰)
بالخصوص حضرت مسیحؑ کے یہ الفاظ: ''میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔'' (آیت:۱۲۴)
لیکن حضرت سرورِ عالمﷺ تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے۔ اوربخلافِ اناجیل قرآنِ حکیم پکار پکار کرکہہ رہا ہے کہ آں حضرتﷺ کو تمام دنیا کی طرف مبعوث کیا گیاہے
﴿وَما أَرسَلنـٰكَ إِلّا رَحمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧﴾... سورة الانبياء
''تجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر بھیجا گیا ہے۔''
﴿وَما أَرسَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرًا وَنَذيرًا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٢٨﴾... سورة سبا
''اور ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (رسول) بنا کر بھیجا، لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔''
اس مضمون کی اور آیات قرآنِ مجید میں بے شمار ہیں، ہم نے مختصرا ً دو پیش کردی ہیں۔
4. آپ خاتم ِنبوت و رسالت تھے، اس لئے سب انبیا کے سردار اور ان کے اَدیان کے مکمل کرنے والے تھے:
﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلـٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ...٤٠﴾... سورة الاحزاب
''محمد ﷺ تم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین (انبیا کے سلسلہ کو ختم کرنے والے) ہیں۔''
جہاں انجیل و قرآن حکیم دونوں کی رو سے حضرت عیسیٰ محض مبشر و مناد او ر متبع نبی تھے، وہاں ہمارے حضرت سرورِ عالم ﷺ افضل ترین انبیا میں سے تھے...
موجودہ عیسائیت؛ خود مسیحی علما کی نظر میں
اب ہم تعلیم اسلامی اور تعلیم عیسوی کا مقابلہ پیش کرتے ہیں۔ فی الحقیقت جو کچھ ہم نے اوپر لکھا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوگیا ہوگاکہ کوئی ایسی تعلیم سرے سے ہے ہی نہیں جس پرصحیح معنوں میں تعلیم عیسوی کا نام عائد ہوسکے، کیونکہ حضرت مسیح ؑتو حضرت موسیٰ ؑکی تعلیم کے تابع تھے اور اناجیل اربعہ کا درجہ ہمارے ہاں موضوع،منقطع و غیر مرسل احادیث سے بھی کہیں زیادہ گرا ہوا ہے اور موجودہ عیسوی تعلیم کے مؤسس و مخترع اصل میں سینٹ پال ہیں اوراس کی تحریف کی تکمیل نائی سیا کی کونسل نے کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا موجودہ عیسائیت میں اس قدر حصہ ہے کہ ان کے مبارک وبزرگ نام کی طرف اس سینٹ پالی مذہب کومنسوب کرکے ان کی علانیہ توہین و تحقیر کی جاتی ہے۔ورنہ حضرت عیسیٰ کا خیال تو فقط مذہب ِموسوی کا احیا و تجدید تھا۔ پولس کا فتنہ اس قدر نازک وقت میں کھڑا ہوا کہ مسیحیت بالکل اس کے خیالات و معتقدات کے سانچہ میں ڈھل گئی۔ جب سینٹ پال (پولس) نے اپنے مافوق الفطرت طریق پر مسیحی ہونے کا اعلان کیا، اس وقت مسیحیت عجیب کسمپرسی کی حالت میں تھی۔ حضرت مسیحؑ پر بادشاہِ وقت ،قیصر روم کی بغاوت کا جرم عائد کرواکر ان کو صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے پیرئووں میں سوائے چند ایک کمزور کردار کے آدمیوں کے کوئی ایک بھی قابل التفات شخصیت نہ تھی۔ رومیوں اور یہودیوں کی سفاکیوں کے باعث ان کے قلوب اس قدر مرعوب ہوچکے تھے کہ وہ حضرت عیسیٰ کا نام لینا بھی اپنے لئے خطرئہ مرگ خیال کرتے تھے۔ ایسی حالت میں پولس نے ان کو اپنے آغوشِ شفقت میں لیا اور مسیحیت کو مذہب ِپال بنادیا۔ چنانچہ ریورنڈ ڈاکٹر ای اے سٹوارٹ ایم اے اپنے سالانہ وعظ میں فرماتے ہیں:
''ہم اس امر کے تصور سے کہ مسیحیت کس طرح دین موسویت میں(حضرت عیسیٰ کی وفات کے بعد)مدغم ہوچکی تھی، تھرا اُٹھتے ہیں۔ یہودی اثر اس قدر غالب ہوچکاتھا کہ اس نے قریباً اس کی تمام شاندار اُمیدوں پرپانی پھیر دیا تھا۔ یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ کے مشہور ترین حواری)برنباس او رپطرس بھی اس خیال کی رومیں بہہ گئے تھے (کہ مسیحیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے،بلکہ موسویت کے احیاء و تجدید کا دوسرا نام ہے) کہ خدانے (یا شیطان نے جس نے حضرت عیسیٰ کو ان کی زندگی میں گمراہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا (متی : باب ۴؍ آیات ۱ تا ۶) اب حضرت عیسیٰ کے اس بے وقت اُٹھ جانے اور آپ کے متبعین کے اس طرح بے یارومددگار اور متزلزل و خائف رہ جانے پر انہیں گمراہ کرنے اور اپنا پرانا غصہ نکالنے اور اپنی پہلی ناکامی کے انتقام لینے کااچھا موقعہ ہاتھ آیا تھااور اس نے سینٹ پال کو اپنا آلہ بنایا۔ [بقولِ قرآن]﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ﴾ سینٹ پال کومبعوث کیا، جس نے مسیحیت کی گرتی ہوئی عمارت کوتھام لیا۔'' (سالانہ رپورٹ چرچ مشنری سوسائٹی بابت سال ۱۹۱۵، صفحہ۸۸ )
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں'بائبل' کے آرٹیکل کا فاضل محرر زیر عنوان 'عہد نامہ جدید' لکھتا ہے:
''یسوع مسیح اور ان کے حوا ریوں کی بائبل (مذہبی کتاب) فقط عہد نامہ عتیق یعنی، اولڈ ٹیسٹامنٹ تھی۔جہاںتک ہمارا موجودہ علم ہماری رہبری کرتا ہے، وہ اورخود ان کے حواری عہدنامہ عتیق کو اپنے لئے بالکل کافی خیال کرتے تھے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ کی وفات کے بیس سال بعد تک کسی کو نئی کتاب تدوین کرنے کا خیال نہ آیا اور جب خیال آیا تو عہد نامہ عتیق کانمونہ پہلے سے موجود تھا، اسی کو سامنے رکھ کر آہستہ آہستہ جدید عیسائی مذہبی لٹریچر کی داغ بیل ڈالی جانے لگی، جس نے رفتہ رفتہ عہد نامہ جدید کی صورت اختیار کرلی۔''
(انسائیکلو پیڈیا برٹا نیکا: جلد ۳ ، ایڈیشن نمبر۱۱)
۱۹۱۷ء میں کیمبرج میں ایک لطیف مباحثہ ہوا، جس میں ڈین انگ نے ایک مضمون پڑھا ''کیا یسوع مسیح موجودہ مذہب ِمسیحیت کابانی تھا؟'' مباحثہ میں انگلستان کے تمام اکابر ومشاہیر پادری شریک ہوئے تھے اور سواے ایک دو کے سب کا اس امر پر اتفاق تھا کہ یسوع کو کبھی یہودی مذہب سے علیحدگی کا خیال تک بھی نہ تھا او رنہ ہی اس نے کوئی نیا قانون یا نئی کتاب و شریعت اپنے متبعین کے لئے چھوڑی۔ اس کی مفصل رپورٹ اخبار ٹائمز مؤرخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۱۷ء میں چھپی۔ اسکے مطالعہ سے دو حقائق کا انکشاف ہوتاہے: ایک تو یہ کہ سب مذہبی علماء کا اس پر اتفاق ہے، دوسرے یہ کہ کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ حقیقت نفس الامر کا کھلے الفاظ میں اظہار کرے۔
ایچ جی ویلز اپنی تازہ ترین تصنیف 'خدا یعنی شہنشاہ غیرمرئی' میں عہد نامہ جدید کی تکمیل کی نسبت یوں رقم طراز ہیں :
''ہماری رائے میں نائی سیاکی کونسل جس نے بالجبر دو صد سالہ مذہبی قضیوں کے نپٹانے کے لئے ان عقائد کو وضع و مرتب و متشکل کیا جن پر کہ تمام موجودہ مسیحی فرقوں کی بنیاد ہے، سب سے زیادہ مذموم اثرات پیداکرنے والااور سب سے زیادہ قابل نفرین و لعنت مذہبی مجمع تھا۔او رہمارا خیال ہے کہ اسکندریہ کے فیلسوفانہ تخیلات جو اس وقت زبردستی مسیحیت کے سر تھوپے گئے (یعنی مسیحی عقائد میں داخل کرلئے گئے، از قسم تثلیث وکفارہ) موجودہ زمانہ میں نہایت نفرت سے یاد کئے جانے کے قابل ہیں۔ '' (صفحہ ۶، دیباچہ)
پس موجودہ مسیحی مذہب کو مذہب ِعیسوی کہنا حضرت عیسیٰ جیسے پاک نبی کی درحقیقت توہین کرنا ہے، لیکن چونکہ اس وقت ہمارا روئے سخن موجودہ عیسائیوں کی طرف ہے جوعہد نامہ جدید کو الہامی اورجملہ شرائع سابقہ کاناسخ یقین کرتے ہیں اور اس کے ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ کو اِلہامی من جانب اللہ ہونے کادل و جان سے ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لئے ہم انہی عقائد کے مطابق حضرت مسیح کی تعلیم ِانجیل اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم قرآن کو لے کر مقابلہ کرتے ہیں۔ طول طویل مقالات کی یہاں گنجائش کہاں، ہم چند مختصر جملوں میں ہی یہ جھگڑا طے کرتے ہیں :
مذہب کیا ہے اور اس کی تعلیم کیا ہونی چاہئے؟ ا س کا مختصر جواب یہ ہے کہ مذہب اس راستہ کو کہتے ہیں جو انسان کی معاشرتی، اخلاقی منزل و تمدنی زندگی کی رہبری کے لئے ایک کامل ومکمل ضابطہ ،آئین و قواعد پیش کرے ،جن کی بنیاد خدا اور اس کے بندوں کے حقیقی تعلقات، یعنی توحید ِالٰہی پر استوار ہو۔ جس طرح بغیر معتقدات و عباداتِ صحیحہ کے مذہب کا قیام ناممکن ہے، اسی طرح بغیرمعاشی، تمدنی ، اقتصادی اور اخلاقی آئین و ضوابط کے وہ غیر مکمل اوربے سود ہے اور مکمل مذہب وہی ہے جو ایک طرف تو خدا کی کامل توحید کا سبق دے، دوسری طرف ایک ایسا مکمل اور جامع قانون بنی نوع کے ہر شعبہ زندگی کی ہدایت کے لئے دے جو اس کو کسی اور قانون کی احتیاج سے مستغنی کردے اور ساتھ ہی ساتھ اس مذہب کا حامل، یعنی رسول و نبی اس مذہب کی تعلیمات کا ایسا کامل و مکمل نمونہ ہو کہ جس جگہ اس مذہب کے اُصول و فروع میں ا ختلاف پیداہو، اس کی زندگی کی طرف مرافعہ کرنے سے وہ اختلاف و نزاع رفع ہوسکے!!
تعلیم انجیل
اب تعلیم انجیل کولیجئے۔ تعلیم انجیل چہ جائیکہ ایک کامل مذہبی تعلیم ہو، اس میں توحید ہی کی تعلیم اس قدر ناقص و عسیر الفہم ہے کہ خود انجیل کے مصنف کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ توحید کیا چیز ہے؟ یہی وجہ ہے کہ خود عیسائیوں میںدو فرقے ہیں۔ ایک اپنے آپ کو موحد اور حضرت عیسیٰ کو 'ربی' یعنی نبی مانتا ہے اور دوسرا اپنے آپ کو تثلیث پرست اور حضرت عیسیٰ ؑ کوابن اللہ مانتا ہے اور دونوں موجودہ اناجیل سے استنادو استشہاد کرتے ہیں اور وہ دونوں اس استناد میں سچے ہیں۔ خود مؤلفین اناجیل کو معلوم نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کیا ہیں:نبی ہیں یا ابن اللہ؟ چنانچہ کہیں تو وہ یہ لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے تئیں ابن آدم کے نام سے موسوم کیا۔ (انجیل متی:باب ؍ ۹ آیت۶ و باب ۱۷؍ آیات ۲۲ و ۲۳) بالخصوص مؤخر الذکر یہ بقول مؤلفین اناجیل ان کے قریباً آخری الفاظ ہیں جن میں وہ اپنی صلیب پر لٹکائے جانے کی پیشین گو ئی کرتے ہیں ۔ او رکہیں یہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو ابن اللہ اور خدا کو باپ کے نام سے موسوم کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خطاب ابن اللہ سے اپنے تئیں منسوب کرنا از قسم استعارہ تھا۔جیسے کہ تمام نسل اسرائیل کو تورات میں خدا کے بیٹوں، یعنی ابناء اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے او راناجیل کے مجہول مؤلفین نے ان کو لفظاً و معناً ابن اللہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عقیدۂ توحید جواصل اساسِ مذہب ہے، عیسائیوں کے ہاں بالکل ایک چیستان و معمہ رہ گیا ہے۔ انسانی دماغ تو جب تک اپنی تئیں معطل نہ کردے اسے باور نہیں کرسکتا۔ تمام یورپ کی مذہب سے برگشتگی کا سبب زیادہ تر یہی پیچیدہ ولا ینحل عقیدۂ توحید ہے اور جس قدر گمراہی از قسم عقائد تثلیث و کفارہ وغیرہ مسیحی مذہب میں داخل ہوگئی، وہ سب اسی غیر واضح تعلیم کا نتیجہ ہے۔
قرآنِ مجید کی تعلیم
برعکس اس کے قرآن مجید نے توحید کی تعلیم کواس قدر صاف صاف اور واضح طورپر کیا ہے کہ اسلام کے شدید ترین اَعدا کو بھی انکار نہیں۔ چنانچہ سرولیم میورلیکی وغیرہ کو بھی اس کے اقرار کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ والفضل ما شهدت به الأعداء
اور کیوں نہ ہو کہ قرآن مجید نے اس قدر شرح و بسط کے ساتھ اقسامِ شرک کی بحث کی ہے اور توحید ِالٰہی کو اس قدر مختلف اَسالیب میں بیان فرمایا ہے کہ شرک و توحید میں آمیزش ناممکن ہے او رجاہل سے جاہل آدمی سے لے کر عالم سے عالم تک کے لئے یکساں ایسا واضح کردیاکہ سب یک زبان ہوکر پکار اٹھے کہ ؎
قرآنِ کریم کی آیات ملاحظہ ہوں :
﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ...٢٣﴾... سورة الاسراء
'' تیرے پالنے والے نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تم سوائے اس کے اور کسی کی پرستش نہ کرو''
﴿إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ...٤٠﴾... سورة يوسف
''حکم محض اللہ کیلئے ہے، اس نے حکم کیا ہے کہ سوائے اس کے تم کسی کی پرستش نہ کرو۔''
قرآنِ حکیم کے مباحث ِتوحید اس قدر دلکش اور گوناگوں واقع ہوئے ہیں کہ اس مختصر بحث میں ان کی گنجائش نہیں۔ یہاں تو فقط مقابلہ کرنا مقصود تھا، سو اسی سے واضح ہوگیا کہ عقائد کی تعلیم میں مسیحی تعلیم اسلامی تعلیم کے مقابلہ میںبالکل فیل ہوگئی اور قرآنی تعلیم، انجیلی تعلیم سے اس لحاظ میں افضل و اعلیٰ ٹھہری۔
عقائد کے بعد عبادات کا درجہ آتا ہے۔ سو اس میں خیر سے اناجیل اربعہ اور باقی کا عہد نامہ جدید بالکل کورے ہیں۔ چونکہ مسیحؑ اپنی اُمت کے گناہوں کا کفارہ ہو کرصلیب پر چڑھ گیا، اس لئے اس کی اُمت کو نہ عبادات کی ضرورت ہے نہ اخلاق کی۔ پس عبادات کی تعلیم کا مقابلہ ہی بے سود ہے۔
انجیل کی اخلاقی اور معاشی تعلیم
اب باقی کی تعلیم کو لیں۔ باقی ماندہ تعلیم ِانجیل میں یہ بھی تو نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی خاص اخلاقی یا معاشی تعلیم ہے اور جو ہے بھی پراگندہ و پریشان اور اس کی وہی مثال ہے کہ کوئی الف لیلہ یا فسانہ عجائب سے اچھے اچھے فقرات جمع کرکے ان کو مجموعہ اخلاق بنالے۔ لیکن تاہم جس قدر بھی ہے، ہم اسی کو لیتے ہیں وہ اس قدر ناقابل عمل ہے کہ ہر مسیحی اس وقت اس کی عملاً تردید کررہا ہے اور بزبانِ حال و قال اس کے غلط ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ مسیحیوں کے روحانی ناخدا عملاً اس کی تکذیب کر رہے ہیں۔ دنیائے مسیحیت میں شائد پاپاے روم سے بڑا رومن کیتھولکس میں اور آرک بشپ آف کنٹربری اور آرک بشپ آف یارک سے بڑا پروٹسٹنٹ میں مذہبی عہدہ دار نہیں ہوتا اور وہ بقول مسیحیوں کے حضرت عیسیٰ ؑ کے جانشین ہیں۔
اب مسیح تو انجیل میں پکار پکار کر فرما رہے ہیں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزرنا آسان ،لیکن دولت مند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا ناممکن ہے۔(متی: باب۱۹؍ آیت ۲۴) اور ایک نوجوان دولت مند کو جو ہر طرح سے قانون پر عامل تھا، حکم دیتے ہیں کہ تو میرا رفیق نہیں ہوسکتا، تاوقتیکہ اپنا سب مال و دولت اور سامانِ عیش و عشرت لٹا کر فقیر بن کر میرے ساتھ نہ ہولے۔ (متی: باب ۹۱؍ آیات ۲۰،۲۱) اور آرک بشپ آف کنٹربری اوریا رک، چین سے پندرہ پندرہ ہزار پونڈ سالانہ ہضم کررہے ہیں۔ موٹروں پر سواری کرتے ہیں، محلوں میں رہتے ہیں۔ حالانکہ ہزاروں نہیں،لاکھوں بندگانِ خدا ان کی آنکھوں کے سامنے غریب خانوں میں گرسنگی سے پڑے دم توڑ رہے ہوتے ہیں۔ کیاآرک بشپ آف کنٹربری اور آرک بشپ آف یارک خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے اُمیدوار ہیں او رکیا تمام مسیحی پادری صاحبان جو ہرماہ نوٹوں کی بھری ہوئی تھیلیاں اور روپیوں اور اشرفیوں سے بھری ہوئی پوٹلیاں لے جاکر چین سے تمام مہینہ مزے لوٹتے ہیں اور گو شت و مرغ اُڑاتے ہیں، مسیح کی تعلیم کے مطابق خدا کی بادشاہت میں داخل ہوسکیں گے؟ اور کیا وہ بقول حضرت مسیح ''جو ایک دن کی کمائی میں سے دوسرے دن کے لئے رکھتا ہے، وہ میرا پیرونہیں'' (متی) اور کیا یہ سب صاحبانِ ،مسیح کی اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں جو انجیل متی باب۶ میں خدا پر بھروسہ رکھنے کے بارے میں دی گئی ہے اور جس میں یہاںتک کہا گیا ہے کہ ''صبح کی روٹی کھانے کے وقت شام کے کھانے کو جمع کرنا، باقی رکھنا بھی حرام ہے۔'' افسوس صد افسوس! او رکیا حضرت پاپاے روم جو بادشاہ سے بھی بڑے محلوں میں رہتے ہیں اور جن کی رہائش کا خرچ شاہِ اٹلی سے بھی زیادہ ہے، مسیح کی بادشاہت میں داخل ہونے کے اُمیدوار ہیں۔ اگر یہ سب مشنری صاحبان مسیح کی اس تعلیم پر عمل کرنے لگیں تو دنیا بہت جلد ان کے وجود سے خالی ہوجائے۔
کیا ہی اچھی تعلیم ِمکافات و مجازات مندرجہ ذیل آیات میں دی گئی ہے :
''ٹھوکروں کے سبب دنیا پر افسوس ہے، کیونکہ ٹھوکروں کا لگنا ضروری ہے۔ پس اگر تیرا ہاتھ یا تیرا پاؤں تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے کاٹ کر پھینک دے۔ ٹنڈا یا لنگڑا ہوکر زندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو ہاتھ یا دو پاؤں کے ہوتے تو ہمیشہ کی آگ میں ڈال دیا جائے۔ اگر تیری آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے نکال کر پھینک دے۔کانا ہو کرزندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو آنکھیں ہوتے تو آگ کے جہنم میں ڈال دیا جائے۔'' (انجیل متی: باب ۱۷؍ آیات ۸،۹)
آج کل کتنے پادریوں کا (باقی مسیحیوں کا تو کیا کہنا) اس تعلیم پر عمل ہے اور ان میں سے کتنے ٹنڈے ، لنگڑے، لولے اور کانے نظر آتے ہیں یا شائد فائر پروف پردوں کی ایجاد کے باعث آتش جہنم سے بے خوف ہوگئے ہیں ؎
العجب ثم العجب! وہ تعلیم جسے خود پادری صاحبان بے کار و ناقابل عمل سمجھ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں۔اسے بھی پادری صاحبان دنیا کے سامنے پیش کرنے سے نہیں شرماتے۔
﴿بِئسَما يَأمُرُكُم بِهِ إيمـٰنُكُم إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ٩٣﴾... سورة البقرة
''اگر تمہیں ایمان کا دعویٰ ہے تو تمہارا ایمان تمہیں بڑی بری بات کا حکم دیتا ہے۔''
کیا اس تعلیم کامقابلہ تعلیم قرآنی سے کریں؟ ع چہ نسبت خاک را باعالم پاک
ان پادری صاحبان کی کور باطنی و بے شرمی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ یہ اس تعلیم کا مقابلہ قرآنِ حکیم کی تعلیم سے کرنے سے نہیںشرماتے۔ اگر یہ لوگ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ لیں تو کافی ہو، بحث تمحیص کی ضرورت بالکل باقی ہی نہ رہے۔اس بارے میں انگلستان کے مشہور جادو بیان سیاست دان برک کی تقریر کا اقتباس کافی خیال کرتے ہیں۔ تقریر مقدمہ 'وان ہنگز' میں وہ کہتا ہے : الفضل ماشہدت بہ الاعداء
''مسلمان قرآنِ حکیم کو خدا کا کلام مانتے ہیں۔ اس میں ان کی معاشرتی، منزلی اور اخلاقی زندگی کے لئے ایک ایسا مکمل ضابطہ قانون موجود ہے کہ دنیا کے کسی مذہب کے بانی نے اپنے پیرؤں کو اس سے بہتر اورجامع تر ضابطہ آئین نہیں دیا۔''
مندرجہ ذیل کورسز (سال ۲۰۰۴ئ)میں طلبا وطالبات کا داخلہ جاری ہے
بی اے آنرز ، ایم اے آنرز اور ڈاکٹریٹ
برائے عربی، انگریزی، فارسی، اصول الدین، ایل ایل بی شریعہ اینڈ لاء ، اکنامکس وغیرہ
1. وفاق المدارس کی اسناد قابل قبول 2. نتیجے کے منتظر طلبہ بھی درخواست دے سکتے ہیں۔
3. فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ ۳۰؍ جون اور بمع لیٹ فیس ۱۵؍جولائی ۲۰۰۳ء ہے۔
عمران:ہاسٹل ۲،کمرہ ۵ فون051-9257940، عبد الحنان حامد: ۴؍ ۱۷۳، فون 9257960