سیّد عبدالقادر جیلانی کا تجدیدی کارنامہ

اسم مبارک عبدالقادر، کنیت ابومحمد او رلقب محئ الدین تھا۔متاخرین نے فرط عقیدت سے متعدد القاب کا اضافہ کردیا۔ ولادت باسعادت 470ھ مطابق 78۔1077ء او روفات 10 ربیع الاوّل 561ھ مطابق 11۔ اپریل 1166ء کو ہوئی۔ سیادت نسبی دونوں طرف سے حاصل تھی۔ والد ماجد کی طرف سے آپ حسنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی تھے، سایہ پدری بچپن ہی میں سراُٹھ گیا تھا۔ ابتدائی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔ 488 تا 521ھ کے درمیانی عرصہ کے بارے میں صرف اس قدر معلوم ہے کہ آپ حج کے لیے تشریف لے گئے، اسی مدت میں آپ نے شادی کی اور آپ کے انچاس بچوں میں سے ایک بچہ 508ھ میں پیدا ہوا، دیکھئے (Sharier Enecyclopedia of Islam by H.R.Rgibh, P.5)

صرف ايك مصنف نے تحریر کیا ہے کہ آپ کے مولد کا نام جیل ہے جو واسطہ اور بغداد کے درمیان ایک گاؤں کا نام ہے۔ دیگر تمام مصنفین اس بات پر متفق ہین کہ جناب شیخ بحیرہ خزر کے جنوبی صوبے جیلانی کے ایک مقام نیف یا نیف (Naf or Naif) كے رہنے والے تھے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں تحصیل علم کی غرض سےبغداد آئے اور تاوفات یہی شہر اُن کی سرگرمیوں کی جولانگاہ بن رہا۔1

شیوخ اور اساتذہ:
آپ حنبلی مکتب فکر کے جید عالم تھے۔ دیگر شیوخ و اساتذہ کے علاوہ آپ نے ادب و لسانیات کی تعلیم مشہور ادیب التبریزی (المتوفی 502ھ) سے، حنبلی فقہ کی تعلیم ابوالوفاء بن العقیل (المتوفی 513ھ) سے اور فن حدیث ابومحمد جعفر السراج (المتوفی 500ھ) سے حاصل کیا۔

تصانیف:
مارگولتھ ن انسائیکلو پیڈیا آف اسلام مقالہ ''عبدالقادر می الدین جیلانی'' میں مندرجہ ذیل کتب کے نام تحریر کیے ہیں:
1۔ عنیة الطالبین (فقہ حنبلی کی مشہور کتاب)
2۔ فتوح الغیب (تصور کے موضوع پر)
3۔ الفتح الربانی (حضرت کے خطبات)
4۔ جلاء الخاطر
5۔ الیواقیت والحکم
6۔ الفیوض الربانیہ
7۔ حزب بشائرالخیرات
8۔ المواہب الرحمانیہ


مارگولتھ کہتے ہیں کہ یہ جملہ کتب شیخ کے فضل و کمال، تفقہ فی الدین او رعلمی تبحر کی منہ بولتی تصویر ہیں۔

پس منظر:
چوتھی صدی ہجری کے آخر میں تمام عالم اسلام پر فلسفہ یونان کااثر پڑ رہا تھا۔ ہر ذہین نوجوان اس کو شوق اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اسی صدی میں اخوان الصفاء کے نام سے فری میسن کے طرز کی ایک خفیہ انجمن بغداد میں قائم ہوئی، جس میں فلسفہ یونان کو معیار قرار دے کر دینی افکار و عقائد پر گفتگو ہوتی تھی۔ اس انجمن کا منشور ان کے الفاظ میں یہ تھا:
''اسلامی شریعت ضلالت و جہالت سے گندی ہوگئی ہے، اس کو صرف فلسفہ کے ذریعے پاک کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ فلسفہ اعتقادی حکمت اور اجتہادی مصلحت پر حاوی ہے۔ اب صرف فلسفہ یونان او رشریعت محمدی کے امتزاج سے کمال مطلوب حاصل ہوسکتا ہے۔'' 2

فلسفہ کے ساتھ ساتھ او راس کے زیر اثر ایک نیا فتنہ پیدا ہوا جو اسلام کے حق میں فلسفہ سے بھی زیادہ خطرناک تھا، یہ باطنیت کا فتنہ ہے۔ اس کے بانی و داعی ان قوموں کے افراد تھے جو اسلام کے مقابلہ میں اپنی سلطنتیں کھو چکے تھے یاشہوت پرست او رلذت پسند لوگ تھے جواسلامی حدود و قیود سے گھبراتے تھے یا شخصی اقتدار و سیاست کے حریص تھے۔ یہ مختلف المقاصد لوگ باطنیت کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے۔ انہوں نےمسلمانوں کو دین سے برگشتہ کرنے کے لیے باطنیت کا راستہ اختیار کیا۔ فلسفہ کے زیر اثر لوگوں میں دقیق اور غامض مضامین کا ایسا مذاق پیدا ہوگیا تھا کہ ایک طبقہ پر باطنیوں کا جادو چل گیا تھا۔ اس طرح باطنیوں نے ایسی خفیہ تنظیم قائم کرلی تھی جس سے طاقتور اسلامی حکومتیں عرصہ تک پریشان رہیں۔ عالم اسلام کی بعض لائق ترین ہستیاں (نظام الملک طوسی و فخر الملک وغیرہ) ان کا شکار ہوئیں۔ شیخ ابن الجوزی (المتوفی 597ھ) نے لکھا ہے کہ اصفہان میں اگر کوئی شکص عصر تک اپنے گھر واپس نہ جاتا تو سمجھ لیا جاتا کہ وہ کسی باطنی کا شکار ہوگیا۔ اس بدامنی کے علاوہ انہوں نےعلم و ادب کو بھی متاثر کیا او ردین کے اصول و نصو ص اور قطعیات کی تاویل و تحریف کرکے الحاد کا دروازہ کھول دیا۔

ان فطری و نظری مفاسد کے علاوہ لوگ عام طور پر اخلاقی گراوٹ کا شکار تھے ۔مسلمانوں کی بڑی تعداد عام اخلاقی کمزوریوں، علمی کوتاہیوں اور غفلت و جہالت کا شکار تھی۔ مطلق العنان حکومت نےمسلمانوں کے اخلاق کو بگار دیا تھا او ربڑی تعداد میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیاتھا جس کا مقصد زندگی حصول دولت یا جاہ و عزت تھا۔ یہ لوگ آخرت سے غافل اور عیش میں مست تھے۔ عجمی تہذیب و معاشرت نے اسلامی زندگی میں اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ عجمی عادات او رجاہلی رسوم جزو زندگی بن گئی تھیں، زندگی کا معیار بہت بلند ہوگیا تھا۔متوسط طبقہ امراء کے نقش قدم پر گامزن تھا۔ عوام او رمحنت کش متوسط طبقہ کے اخلاق و عادات سے متاثر ہورہے تھے، جن کو وسائل معیشت حاصل تھے وہ غلط طریقہ پر ان کو استعمال کررہے تھے۔ جو امیرانہ ٹھاٹھ سے محروم تھے وہ اپنے کو چوپایہ سے بدتر سمجھتے تھے۔ اہل دولت ایثار و ہمدردی سے خالی اور تنگدست او رمحنت کش صبر و قناعت اور خود داری سے عاری ہوتے جارہے تھے۔

اس طرح زندگی ایک بحرانی کیفیت سے دوچار تھی۔ اس وقت ایک ایسی دعوت کی صرورت تھی جو دنیا طلبی کے رحجان کو کم کرے، آخرت کے یقین کو ابھارے، خدا طلبی کا ذوق پیدا کرے، اللہ تعالیٰ کی سچی معرفت، اس کی بندگی میں عالی ہمتی او ربلند حوصلگی سے کام لے اور اس راستے میں سبقت کرنے کی دعوت دے۔ ایسی دعوت مطلوب تھی جس میں توحید کامل کو واشگاف بیان کیا جائے۔ اہل دنیا او رارباب دولت کی بے وقعتی کو پوری وضاحت سے لوگوں کے سامنے رکھا جائے۔ یہ تمام حالات اس امر کے متقاضی تھے کہ کچھ غیر معمولی قسم کے بلندپایہ داعی او رمبلغ پیدا ہوں جو ان تمام مفاسد کا ازالہ کرکے لوگوں کو اسی فطری دینی ذوق سے آشنا کریں جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی خصوصیت تھی۔

حضرت شیخ کا عصر و عہد او رماحول:
حضرت شیخ اٹھارہ سال کی عمر میں 488ھ میں بغداد تشریف لائے۔ یہی وہ سال ہے جس میں امام غزالی نے تلاش حق و حصول یقین کے لیے بغداد کو خیر باد کہا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ بغداد کا شہر جب ایک جلیل القدر امام سے محروم ہوا تو دوسرا بلند پایہ مصلح اور داعی الی اللہ وہاں پہنچ گیا۔ 3

غزالی اور ابن الجوزی :
پانچویں صدی ہجری تاریخ اسلام میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس صدی کے عین نصف یعنی 450ھ میں امام غزالی کی ولادت ہوئی۔ ان کی عہد آفریں تصنیفات نے علمی حلقوں میں ایک ذہنی اور فکری حریت پیدا کری۔ اسلام کی جو چند شخصتیں صدیوں تک عالم اسلام کے دل و دماغ اور اس کے علمی و فکری حلقوں پر حاوی رہیں ان میں سے ایک امام غزالی کی شخصیت بھی ہے جن کی اثر آفرینی ، علمی پایہ، ان کی تصنیفات کی اہمیت اور تاثیر موافق و مخالف سب تسلیم کرتے آئے ہیں۔ صدہا انقلابات کے بعد ان کا نام اور کام آج بھی زندہ ہے۔ امام غزالی کی ولادت کے بیس برس بعد 470ھ میں سید جیلانی منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے۔ جناب شیخ کے ٹھیک 37 سال بعد 508ھ میں شیخ عبدالرحمٰن ابن الجوزی پیدا ہوئے جو اپنے عصر و عہد کے یکتائے روزگار مفسر، محدث ، مورخ ، نقاد، مصنف اور خطیب ہیں او ران میں سے ہر موضوع پر ان کی ضخیم تصنیفات موجود ہیں۔

ایک بلند پایہ داعی کی ضرورت :
اس مردم خیز عہد اور بغداد جیسی شاداب سرزمین میں وقیع دینی خدمات اور اذہان و طبائع کا رخ موڑنے کے لیے اعلیٰ علمی صلاحیت اور جامع کمالات شخص کی ضرورت تھی جو اس عصر و عہد کے تمام مروّجہ علوم میں بلند پایہ رکھتا ہو۔ وہ اس زمانہ کی معیاری زبان میں گفتگو کرتا ہو، اس کی مجلس میں ہر ذوق کے لوگوں کو حظ حاصل ہو او رکووی اس کو ''عابد جاہل'' یا ''واعظ بے علم'' کہہ کر نظر انداز نہ کرسکے۔ ضعیف الایمان لوگوں کو اس کی مجلس وعظ او رحلقہ درس میں یقین کی قوت، ایمان کی حرارت، اہل شک و ارتیاب کو شرح صدر کی دولت ، مضطرب طبائع او رمجروح دلوں کو سکون قلب کی نعمت، حقائق و معارف کے طالبین کو دقیق علوم او رلطیف مضامین کا خزانہ او ربے عمل اور افسردہ دلوں کو قوت عمل حاصل ہو۔

اس پر از کمالات عصر و عہد میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں از سرنو ایمانی حرارت و حرکت اور توبہ و انابت کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے مذکورہ صدرتین، ہستیوں کو پیدا کیا جن کی ذات سے دین کو بڑی قوت حاصل ہوئی۔ ذوق و رجحان طبع کے اختلاف کے باوجود تینوں نے اپنے اپنے زمانہ میں مسلمانوں کی زندگی پر بڑا اثر ڈالااو راللہ تعالیٰ نے دین کو ان سے بڑا نفع پہنچایا۔ اس میں بھی خدا کی بڑی حکمت تھی کہ بغداد ان کے قیام و دعوت کا مرکز تھا۔ جو عالم اسلام کا مرکز اعصاب اور اس کا علمی اور سیاسی دارالسطنت تھا۔ ان اصحاب ثلاثہ میں سے امام غزالی، شافعی مکتب فکر کے ساتھ وابستہ تھے جب کہ سید عبدالقادر جیلانی او رابن الجوزی کا تعلق حنبلی مدرسہ فکر کے ساتھ تھا۔

اس مختصر مقالہ میں ان اصحاب سہ گانہ کے گل سرسبد حضرت سید عبدالقادر جیلانی  کی اصلاحی و تجدیدی مساعی کا مختصر تذکرہ مطلوب ہے اس لیے کہ یہ مختصر مقالہ تو کیا، ضخیم کتب بھی اس بحر ناپیدا کنار کی تفصیلات کو سمونے کی متحمل نہیں ہوسکتیں ؎

حقی بیان شوق بیاباں نمی رسد .......... کوتاہ ساز قصہ زلف دراز را!

اصلاحی و تجدیدی مساعی :
1۔ دعوت و تبلیغ :
شیخ دنیوی سازوسامان سے بے نیاز تھے او رکسی کی پرواہ کی ےبغیر کلمہ حق بیان کرتے تھے۔ دربار خلافت بھی آپ کے مواعظ حسنہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ شیخ کی صداقت لسانی، فصاحت و بلاغت او رانداز خطابت نے سونے پرسہاگہ کا کام کیا اور آپ کی شیریں کلامی اسلام کی نشرواشاعت میں بڑی مفید ثابت ہوئی۔ پچاس سال کی عمر میں آپ نے ایک مجلس میں پہلا وعظ کیا۔ ان کے وعظ و درس کا چرچا بہت جلد دور دور تک ہونے لگا۔اس کے چھ سال بعد ان کے شیخ المخّرمی کا مدرسہ ان کے حوالے کردیاگیا۔ یہاں ان کے اہم مشاغل ، افتاء، تدریس حدیث و فقہ او روعظ و تبلیغ تھے۔ ان کا طرز خطبات اس قدر دلکش تھا کہ دنیائے اسلام کے تمام حصوں سے بے شمار سامعین حاضر ہوکر ان سےمستفید ہونے لگے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رقم طراز ہیں:
''مجلس آں حضرت ہرگز از جماعة یہود نصاریٰ و امثال ایشاں کہ بردست او بیعت اسلام آوردندی واز طوائف عصاة از قطاع طریق و ارباب بدعت و فساد در مذہب و اعتقاد کہ تائب می شدند خالی نبودی از یہود و نصاریٰ بیشتر از پانصد و از طوائف دیگر بیش از صد ہزار بردست او تائب شدند'' 4

''آپ کی مجلس یہود و نصاریٰ اور اس قسم کے لوگوں سے کبھی خالی نہ ہوئی جو حاضر ہوکر آپ کے دست حق پرست پر بیعت کرتے۔ رہزن، شریعت کے نافرمان، مفسد اور بدعتی لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر توبہ کیاکرتے تھے۔ پانچ صد سے زیادہ یہود و نصاریٰ اور دیگر گروہوں میں سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور تائب ہوئے۔''

ان کی مجلس میں صدہا اہل علم قم او رکاغذ لے کر بیٹھتے۔ عوام کے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ گویا سارا بغداد شیخ کے وعظ پر اُمد آتا۔ درس گاہ میں ناکافی جگہ ہونے کے باعث شیخ کی مجلس وعظ شہر سے باہر عید گاہ بغداد کے کھلے احاطے میں منعقد کی جانے لگی، جہاں اہل بغداد کے علاوہ دیگر بستیوں کے لوگ بھی گھوڑوں پر سوار ہوکر آتے۔سواروں کی صفیں مجلس کے ارد گرد فصیل شہر کی صورت اختیار کرلیتیں۔ 5

شیخ کے سلسلة مواعظ کے پیچھے یہ احساس کار فرما نظر اتا ہے کہ ملت اسلامیہ زوال کی زد پر ہے، جس سے بچاؤ کے لیے دوسری کوئی قوت عالم اسلام میں سرگرم عمل نہیں۔ خطیب کا یہ احساس اس جذبے میں تبدیل ہوجاتا ہے کہ عالم اسلام کے مرکز بغداد میں کھڑے ہوکر کم از کم ایک صدائے درد تو بلند کی جائے۔ شیخ کے ایک وعظ سے ایک اقتباس اردو میں ملاحظہ ہو:

''جناب رسول اللہ ﷺ کے دین کی دیواریں پے در پے گر رہی ہیں اور ا س کی بنیاد بکھر رہی ہے۔ اے باشندگان زمین! آؤ تاکہ جو گر گیا ہے اس کو مضبوط کردیں۔ یہ چیزیں ایک شخص سے پوری نہیں ہوتی، سب ہی کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ اے سورج، اے چاند او راے دن تم سب آؤ۔'' 6

حکام اور امراء کے لیے بھی امر بالمعروف کے سلسلے میں شیخ کے ہاں کسی رعایت کی گنجائش نہ تھی۔ ایک معاصر خلیفہ المقتضی لامراللہ نے ابوالوفا یحییٰ بن سعید کو عہدہ قضاء تفویض کیا حالانکہ یہ شخص ''ابن المزحم الظالم'' کے لقب سے معروف تھا۔ اس موقع پر شیخ نے خلیفہ وقت کے اس اقدام کی برسر منبر مذمت کی اور دوران وعظ خلیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

''تم نے مسلمانوں پر ایک ایسے شخص کو حاکم بنایا ہے جو ''أظلم الظالمین'' ہے کل کو قیامت کے دن اس رب العالمین کو کیا جواب دو گے جو ''أرحم الراحمین ہے؟'' خلیفہ تک یہ بات پہنچی تو کانپ اٹھا اور قاضی مذکور کو فی الفور معزول کردیا۔7

اتباع شریعت :
صحیفہ زندگی کی ہر سطر شرعی احکام کے مطابق تھی۔ وعظ بیان فرماتے تو قرآن مجید سے، مکتوب تحریر فرماتے تو بھی اسی سرچشمہ نور ہدایت سے، تعلیمات میں سب سے زیادہ زور پابندئ شریعت اور اتباع سنت پر ہوتا۔بڑے صاحبزادے سیف الدین عبدالوہاب نے عرض کی ، حضرت کچھ وصیت فرمائیے، ارشاد ہوا:
''علیك بتقوی اللہ و طاعته ولا تخف أحدا ولا ترج وکل الحوائج إلی اللہ واطلبها منه ولا تثق بأحد سوی اللہ خذ التوحید ، التوحید، التوحید إجماع الکل'' 8
''اللہ کے تقویٰ اور اطاعت کو اپنے اوپر لازم رکھو، بجز اللہ کے کسی کاخوف نہ رکھو او رنہ ہی کسی سے امید وابستہ کرو، سب حاجات و ضروریات اللہ کو تفویض کردو اور اسی سے طلب کرو۔ اللہ کے سوا کسی کا بھروسہ نہ رکھو توحید کا دامن تھامے رہو، اسی پر سب کا اتفاق ہے۔''

عبادت و ریاضت کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ شیطان اسی کی آڑ لے کرحملہ آور ہوا، چنانچہ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار مجھے بہت بڑا نور نظر آیا جو دیکھتے دیکھتے سارے افق پر چھا گیا، اس میں سے آواز آئی ''اے عبدالقادر! میں تیرا پروردگار ہوں، میں نے تیرے لیے حرام چیزوں کو حلال کردیا'' میں نے لاحول ولا قوة پڑھ کر کہا، ''دُور ہو ملعون'' پھر وہ نور تاریکی میں تبدیل ہوگیا اور اس میں سے آواز آئی، ''عبدالقادر! تو اپنے علم کی قوت سے بچ گیا ورنہ میں تجھ جیسے ستر کاملوں کو گمراہ کرچکا ہوں۔''

میں نے کہا، ''ملعون تو اب بھی مجھے گمراہ کرنے میں لگا ہوا ہے، کہتا ہے کہ تم اپنے علم کی قوت سے بچ گئے، حالانکہ مجھے بچانے والی میری کوئی بھی قوت نہیں، محض اللہ کا فضل و کرم ہے۔'' 9

صاحب ''گلستان '' شیخ سعدی کا زمانہ حضرت جیلانی سے کچھ ہی بعد کا تھا۔ شیخ سعدی ایک واسطہ سے آپ کے مرید بھی تھے اس لیے کہ شیخ سعدی حضرت شہاب الدین سہروردی کے مرید تھے او رحضرت سہروردی حضرت جیلانی کے خلیفہ تھے۔ شیخ سعدی سید جیلانی کے ذوق عبادت میں لکھتے ہیں:
''عبدالقادر جیلانی رادیدند کہ در حرم کعبہ روئے برحصانہادہ بود دمی گفت اے خداوند ببخشائے واگر مستوجب عقوبتم مرابہ روز قیامت نابینا برانگیز تادر روئے نیکاں شرمسار بناشم'' 10

آپ فرماتے ہیں:
''اگر حدود الٰہی میں سے کوئی حد ٹوٹتی ہو تو سمجھ لو کہ تم فتنہ میں پڑ گئے ہو اور شیطان تم سے کھیل رہا ہے فوراً شریعت کی طرف رجوع کرو اور اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ نفس کی خواہشات کو ترک کردو، اس لیے کہ ہر وہ حقیقت جس کی شریعت تائید نہیں کرتی، باطل ہے۔''11

سیّد جیلانی اور تصّوف :
شیخ ایسے عصر و عہد میں بقید حیات تھے جب تصّوف کا عروج تھا اور صوفیہ کا مسلک و سعت سے ہمکنار ہورہا تھا۔ شیخ کے استاد ابن عقیل کٹڑ حنبلی تھے اور تصّوف کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ دیگر حنابلہ نےبھی تصّوف کے متعلق یہی روش اختیار کی تاہم حنابلہ کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے تصوف کی تائید و حمایت میں کتابیں تصنیف کیں او رمخالفین کے ساتھ مناظرے کیے، ان میں الانصاری الہردی (المتوفی 481ھ) کا نام پیش پیش ہے۔ امام ابن تیمیہ کے شاگرد ابن القیم نے مدارج السالکین لکھ کر تصّوف میں بڑا نام پایا۔ اسی طرح ابن الجوزی (المتوفی 597ھ) کٹڑ حنبلی ہونے کے باوجود ایسی مجالس منعقد کیا کرتے جو صوفی عقائد سے ہم آہنگ ہوتی تھیں۔ 12

صوفیہ اور معتقدین کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
''ولأھل المجاھدة وأولي العزم عشر خصال جربوھا لأ نفسهم فإذا أقاموا وأحکموھا بإذن اللہ تعالیٰ و صلوا إلی المنازل الشریفة''
''اہل مجاہدہ او راولوالعزم صوفیہ کو دس باتوں کی پابندی کرنی چاہیے جن کو انہوں نے آزمایا ہے۔ جب وہ ان کی پابندی کریں گے تو بلند مراتب پرفائز ہوں گے۔''

وہ امور عشرہ حسب ذیل ہیں:
1۔ خدا کی قسم کسی حالت میں بھی نہ کھائی جائے، نہ سچے ہونےکی حالت میں نہ جھوٹے، نہ ہی دانستہ او رنہ نادانستہ۔
2۔ دروغ گوئی سے اجتناب کیا جائے ، سنجیدہ یا غیر سنجیدہ کسی طرح بھی جھوٹ نہ بولا جائے۔
3۔ وعدہ کی خلاف ورزی سے احتراز کیا جائے۔
4۔ کسی پر لعنت کی جائے نہ کسی کو ایذا دی جائے۔
5۔ کسی کے لیے بددعا نہ کی جائے، وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو۔
6۔ کسی اہل قبلہ کو حتمی طور پر مشرک، کافر یا منافق نہ کہا جائے۔
7۔ جو چیز گناہ کی موجب ہو نہ اس کو دیکھا جائے نہ اس کا ارادہ کیا جائے۔ اپنے اعضاء کو بھی اس سے روکا جائے۔
8۔ مخلوقات میں سے کسی کا دست نگر نہ ہو بلکہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہوجائے۔
9۔ لوگوں کی کسی چیز میں طمع نہ رکھے نہ اس کا امیداور ہو، اس لیے کہ یہی چیز عزت کی موجب او راصلی تونگری ہے۔
10۔ عجز و انکسار کا شیوہ اختیار کرے کہ اس سے اس کا درجہ بلندہوگا۔13


بدعت کی مذمت :
بدعت کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''لأن إمامنا أحمد بن حنبل قال من سلم علیٰ صاحب بدعة فقد أحبه لقول النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أفشوا السلام بینکم تحابوا ولا یجالسهم ولا یقرب منهم ولا یهنیهم في الأعیاد وأوقات السرور ولا یصلي إذا ماتوا ولا یترحم علیهم إذا ذکروا بل یباینهم و یعادیهم في اللہ عزوجل معتقدا بطلان مذھب أهل بدعة محتسبا بذٰلك الثواب الجزیل والأجر الکثیر'' 14
''ہمارے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ کسی بدعتی کو سلام کہنا گویا اس کے ساتھ محبت کرنا ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں، سلام کو خوب پھیلاؤ کہ اس سے تمہارے درمیان محبت بڑھے گی نہ کسی بدعتی کی ہم نشینی کرے، نہ ان کا قرب حاصل کرے، نہ عید اور خوشی کے مواقع پر ان کو مبارکباد کہے۔ جب مرجائے تو نہ اس کا جنازہ پڑھے نہ ان کے لیے رحمت کی دعا کرے، ان سے علیحدگی اختیار کرے اور خدا کے لیے ان سے عداوت رکھے، یہ عقیدہ رکھے کہ اہل بدعت کا مذہب باطل ہے او رایسا کرنے میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھے۔''

مزید فرماتے ہیں:
''وإذا علم اللہ عزوجل من رجل أنه مبغض لصاحب بدعة رجوت اللہ أن یغفرذنوبه وإن قل عمله وإذا رأیت مبتد عا في طریق فخذ طریقا آخر عن أبي أیوب السجستاني أنه قال إذا حدثت الرجل بالسنة فقال دعنا من ھٰذا و حدثنا بما في القرآن فاعلم أنه ضال'' 15
''جب کسی شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ بدعتی شخص سے عداوت رکھتا ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردے گا اگرچہ اس کے نیک اعمال کم ہوں۔ اگر بدعتی آدمی آتا دیکھو تو راستہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرلو۔ ابوایوب سجستانی فرماتے ہیں، جب تم کسی شخص کو حدیث سناؤ اور وہ کہے کہ ''چھوڑیے مجھے قرآن سے کچھ بتائیے'' تو جان لوکہ ایسا شخص گمراہ ہے۔''

یہ وہ دور تھا جس میں شیخ نے عملی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ان کی مایہ ناز تصنیف ''الغنیة'' حنبلی فقہ کی کتاب ہے۔ اس کے آغاز میں دینی احکام و فرائض کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ تفصیل حنبلی فقہ کے عین مطابق ہے جس میں رفع الیدین اور آمین بالجہر کا تذکر بھی ملتا ہے، بایں ہمہ کتاب کے آخر میں تصوف اور طریقت سے متعلق مباحث مذکور ہیں، جن میں مبتدی مریدین سے لے کر شیوخ طریقت تک کے لیے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ اس عظیم تالیف کے مندرجات میں شریعت و طریقت کا لب لباب بیان کرتے ہوئے مسلمانوں میں ایمان عمل کے احیاء کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ شیخ کی حنبلیت ان کے صوفی صافی ہونے میں حائل نہیں ہوئی۔ اس کتاب میں اگرچہ مجاہدات اور ریاضات کی ممانعت نہیں کی گئی، تاہم ان کی اجازت بعض شرائط کے ساتھ ہی دی گئی ہے۔ شیخ عبدالقادر نے فنی و اصطلاحی پیچیدگیوں سے ہٹ کر تصوف کو واضح اور سادہ اسلوب دیا۔ ان کی تصنیفات اس اعتبار سے صوفیانہ ادب میں بڑا اہم مقام رکھتی ہیں، انہوں نے تصوف کی زبان کو عام فہم بنایا اور تصوف کےساتھ وابستگی کے دروازے عام آدمی کے لیے بھی کھول دیے۔ ایک صوفی عالم اور داعی کی حیثیت سے شیخ نے چالیس برس تک لوگوں میں وعظ و تلقین کا کام کرکے عملاً ثابت کردیا کہ تصوف و طریقت پر محض اہل خلوت کی اجارہ داری درست نہیں۔ شیخ عبدالقادر تصوف میں پراسرار مزیت، جو باطنیہ یا غیر متشرع متصوفین کوتقویت پہنچاتی تھی، کے خلاف تھے۔ منصور الحلاّج کے بارے میں انہوں نےکہا تھا:
''منصور الحلاّج کے دور میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اس کا ہاتھ پکڑتا او راسے اس کی لغزش سے باز رکھتا۔ اگر میں اس کے زمانے میں ہوتا تو منصور کے معاملے کو اس صورت حال سے بچاتا جو اس نے اختیار کرلی تھی۔'' 16

شیخ نے بیعت اور خانقاہی تربیت کے طریقوں کوبھی مرکز توجہ بنایا۔ بیعت کا طریقہ اہل ارشاد میں پہلے سے مروج تھا لیکن شیخ نے اسے وسعت اور تازگی بخشی اور نظم و ضبط بھی عطا کیا۔ شیخ کی زندگی میں ان کا جاری کردہ طریقہ قادریہ لاکھوں نفوس کو فیضیاب کرچکا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خلفاء اور قادری خانقاہوں کا سلسلہ نہ صرف عالم اسلام میں اصلاح و رُشد کی ایک وسیع تحریک کی صورت اختیار کر گیا بلکہ غیر مسلموں میں اشاعت اسلام کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوا۔ شیخ کے بعد ممتاز صوفیہ نے روحانیت اور سلوک میں شیخ کے علو مقام کا تذکرہ کیا ہے۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی نے شیخ عبدالقادر کے روحانی مقام کو شیخ ابن عربی کی طرح ''مرتبہ قطبیت کبریٰ و ولایت عظمیٰ'' کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ 17

شیخ نے اپنے خطبات میں بھی اس قسم کے خیالات کا اظہار کیاہے۔ یہ خطبات الفتح الربانی 62 خطبات مطبوعہ قاہرہ 1302ھ اور فتوح الغیب (78 مقالات) کی صورت میں موجود ہیں۔ ان خطبات میں تصوف کی اصطلاحات استعمال کرنے سے احتراز کیا گیا ہے۔ یہ خطبے سامعین کے بڑے بڑے اجتماعات میں دیئے گئے تھے۔ ان میں شیخ نے جس تصوف کی تعلیم دی ہے وہ نفس و ہویٰ کے خلاف جہاد کرنے پر مشتمل ہے جو جہاد بالسیف سے بھی افضل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرک خفی یعنی اپنے نفس کے بت کی پرستش کی مذمت کی گئی ہے۔ شیخ ان خطبات میں بتاتے ہیں کہ جملہ مخلوقات کے اصنام پر غلبہ حاصل کرنے، ہر خیر و شر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو کارفرما دیکھنے او راس کی شریعت کے مطابق اس کی رضا کے سامنے سرتسلیم خم کرنےکا نام تصوف ہے۔ 18

فتوح الغیب میں فرماتے ہیں:
''اتبعوا ولا تبدعوا وأطیعوا ولا تمزقوا ووحدوا ولا تشرکوا و یفعل اللہ ما یشاء ویحکم ما یرید و نزھوا الحق ولا تتهموا و صدقوا واصبروا ولا تجزعوا واجتمعوا علیٰ الطاعة ولا تتفرقوا'' 19
''سنت کی پیروی کرتے رہو اور بدعت کی راہ اختیار نہ کرو، اطاعت کرو اور اطاعت کے دائرہ سے باہر نہ ہو۔ توحید کو مانو او رکسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ وہی جوکچھ چاہتا ہے اپنی مشیت سے کرتا ہے، اس کو ہر عیب سے پاک سمجھو اور اس پر تہمت نہ لگاؤ اور تصدیق کرو اور شک میں نہ پڑو۔ صبر سے کام لو اور بے صبری نہ کرو، اطاعت پر جمے رہو اور جماعت میں تفرقہ نہ ڈالو۔''

توحید خالص :
شیخ کے عصر و عہد میں اکثر لوگ اہل حکومت اور ارباب دولت کے دامن سے وابستہ تھے، انہوں نے مختلف انسانوں کو نفع و ضرر کا مالک سمجھ لیا تھا۔ اسباب کو ارباب کا درجہ دیتے تھے، حضرت شیخ اس ضمن میں فرماتے ہیں:
''کل مخلوقات کو یوں سمجھو کہ بادشاہ نے جس کا ملک بہت بڑا اور رعب وداب دل ہلادینے والا ہے۔ ایک شخص کو گرفتار کرکے اس کے گلے میں طوق اور پاؤں میں کڑا ڈال کر ایک صنوبر کے درخت میں ایک نہر کے کنارے جس کی موجیں زبردست ، پاٹ بہت بڑا تھا، بہت گہری، بہاؤ سمیت زوروں پر ہے، لٹکا دیا ہے اور خود ایک بلند کرسی پر تشریف فرما ہے اور اس پر پہنچنامشکل ہے اس کے پہلو میں اسلحہ کا انبار ہے جس کی مقدار خود بادشاہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اب ان میں سے جو چیز چاہتا ہے اٹھا کر اسے لٹکے ہوئے قیدی پر چانا ہے تو کیا یہ تماشا دیکھنے والے کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ سلطان کی طرف سے نظر ہٹالے، اس سے خوف و امید ترک کردے او رلٹکے ہوئے قیدی سے امید و بیم رکھے۔کیا جو شخص ایسا کرے بے عقل، دیوانہ، چوپایہ نہیں ہے؟ خدا کی پناہ بینائی کے بعد نابینائی ، ترقی کے بعد تنزل، ہدایت کے بعد ضلالت او رایمان کے بعد کفر سے۔'' 20

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
''اس پر نظر رکھو جو تم پر نظر رکھتا ہے اس کے سامنے رہو جو تمہارے سامنے رہتا ہے۔ اس سے محبت کرو جو تم سے محبت کرتا ہے۔ اس کی بات مانو جو تم کو بلاتا ہے، اپنا ہاتھ اسے دو جو تم کو گرنے سے سنبھال لے گا اور تم کو جہل کی تاریکیوں سے نکال لے گا، ہلاکتوں سے بچائے گا، میل کچیل سے صاف کرے گا۔ کہاں چلے تم اس خدا کو چھوڑ کر جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، دلوں کی محبت ، روحوں کا اطمینان، گرانیوں سے سبکدوشی، بخشش و احسان، ان سب کا رجوع اسی کی طرف ہے او راسی کی طرف سے اس کا صدور ہے۔'' 21

''ساری مخلوق عاجز ہے، نہ کوئی تجھے نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اسی کا فعل تیرے اندر اور مخلوق کے اندر تصرف فرماتا ہے جو کچھ تیرے لیے مفید یا مضر ہے اس کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے، اس کے خلاف نہیں ہوسکتا جو موحد اور نیکوکار ہیں وہ باقی مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں۔ بہادر وہی ہے جس نے اپنے قلب کو ماسوائے اللہ سے پاک بنایا او رقلب کے دروازہ پر توحید کی تلوار لے کرکھڑا ہوگیا۔'' 22

''آج تو اعتماد کررہا ہے اپنے نفس پر، مخلوق پر، اپنے دیناروں پر، اپنے شہر کے حاکموں پر، ہر چیز کہ جس پر تو اعتماد کرے وہ تیرا معبود ہے او رہر وہ شخص جس پر نفع او رنقصان کے متعلق تیری نظر نظرے، اور تو یوں سمجھے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کے ہاتھوں اس کا جاری کرنے والا ہے، وہ تیرا معبود ہے۔'' 23

ایک موقع پر فرمایا:
''شرک محض صنم پرستی کا نام نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا یا اللہ کے علاوہ غیر اللہ کی طلب کرنا یہ سب شرک میں داخل ہیں۔''24

دنیا کی حقیقت:
حضرت شیخ رہبانیت کے قائل نہیں وہ دنیا کے استعمال اور اس سے بقدر ضرورت انتفاع سے منع نہیں فرماتے، البتہ اس کی پرستش، غلامی او راس سے قلبی تعلق اور عشق سے منع فرماتے ہیں۔ ان کے مواعظ درحقیقت حدیث نبویؐ :''إن الدنیا خلقت لکم وإنکم خلقتم للآخرة''''بے شک دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے او رتم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو) کے مصداق ہیں۔''

شیخ فرماتے ہیں:
''دنیا میں سے اپنا مقسوم اس طرح مت کھا کہ وہ بیٹھی ہوئی ہو اور تو کھڑا ہو بلکہ اس کو بادشاہ کے دروازے پر اس طرح کھا کہ تو بیٹھا ہوا ہو اور وہ طباق اپنے سر پر رکھے ہوئے کھڑی ہو۔ دنیا اس کی خدمت کرتی ہے جو حق تعالیٰ کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے او رجو دنیا کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے وہ اس کوذلیل کرتی ہے۔''25

ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں:
''دنیا ہاتھ میں رکھنی جائز ، جیب میں رکھنی جائز، کسی اچھی نیت سے اس کو جمع رکھنا جائز، مگر قلب میں رکھنا جائز نہیں۔ دروازے پراس کا کھڑا ہونا جائز، مگر دروازے سے آگے گھسنا ناجائز ہے اور نہ تیرے لیے باعث عزت ہے۔''26

امر بالمعروف و نہی عن المنکر :
حضرت شیخ صرف پند وموعظت پر اکتفاء نہیں فرماتے تھے، جہاں ضرورت سمجھتے تھے نہایت صاف گوئی اور جرأت کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے۔ حکام و سلاطین پر تنقید او ران کے غلط افعال کی مذمت سے باز نہیں رہتے تھے او راس بارے میں کسی کی وجاہت اور اثر و نفوذ کی مطلق پرواہ نہیں کرتے تھے۔ حافظ عمادالدین ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
''آپ خلفاء، وزراء، سلاطین،قضاة، خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے او ربڑی صفائی اور جرأت کے ساتھ ان کو بھرے مجمعے میں او ربرسر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے جو کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور خدا کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی آپ کو پرواہ نہ ہوتی۔''27

آپ سرکاری درباری علماء و مشائخ کو جنہوں نے حکام وقت کی مصاحبت اختیار کی تھی، خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''اے علم و عمل میں خیانت کرنے والو! تم کو ان سے کیا نسبت ، اے اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنو! اے بندگان خدا کے ڈاکوؤ! تم کھلے ظلم اور نفاق میں مبتلا ہو۔ یہ نفاق کب تک رہے گا؟ اے عاملو! اے زاہدو! شاہان و سلاطین کے لیے کب تک منافق بنے رہو گے؟ کہ ان سے دنیا کا زر و مال اور اس کی شہوات و لذات لیتے رہو۔ تم اور اکثر بادشاہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے مال او راس کے بندوں کے متعلق طالم اور خائن بنے ہوئے ہیں۔ بارالٰہی! منافقوں کی شوکت توڑ دے اور ان کو ذلیل فرما، یا ان کو توبہ کی توفیق دے اور ظالموں کا قلع قمع فرما او رزمین کو ان سے پاک کردے، یا ان کی اصلاح فرما دے۔'' 28

اسی طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''تجھے شرم نہیں آتی کہ تیری حرص نے تجھ کو ظالموں کی خدمت گاری اور حرام خوری پر آمادہ کردیا۔ تو کب تک حرام کھاتا اور دنیا کے ان ظالم بادشاہوں کا خدمت گار بنا رہے گا؟ جن کی خدمت میں لگا ہوا ہے، ان کی بادشاہت عنقریب مٹ جائے گی اور تجھے حق تعالیٰ کی خدمت میں آنا پڑے گا جس کی ذات کو کبھی زوال نہیں۔'' 29

دین کے لیے دلسوزی اور فکرمندی:
حضرت شیخ دینی اور اخلاقی انحطاط کو جس کا سب سے بڑا مرکز خود بغداد تھا۔ دیکھ دیکھ کر کڑھتے تھے اور عالم اسلام میں جو ایک عام دینی زوال رونما تھا اس کے آثار دیکھ کر ان کے سینے میں حمیت اسلامی اور غیرت دینی کا جوش اٹھتا تھا ، وہ اپنے اس قلبی احساس اور درد کو چھپا نہیں سکتے تھے او ریہ دریان ان کے خطبات او رمواعظ میں امڈ آتا ہے۔

ایک موقع پر ارشاد فرماتے ہیں:
''اسلام رو رہا ہے، اور ان فاسقوں اور ان بدعتیوں، گمراہوں، مکر کا لباس پہننے والوں کے ظلم سے اپنے سر کو تھامے ہوئے فریاد مچا رہا ہے۔اپنے سابقین کو دیکھو کہ امر و نہی بھی کرتے تھے او رکھاتے پیتے بھی تھے اور دفعة انتقال پاک کر ایسے ہوگئے گویا ہوئے ہی نہ تھے۔ تیرا دل کس قدر سخت ہے؟ کتنا بھی شکار کھیلنےاو رکھیتی اور مویشی کی نگہبانی او رمالک کی حفاطت کرنے میں اپنے مالک کی خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ وہ اس کو شام کے وقت صرف ایک دو نوالے یا ذرا سی مقدار کھانا دیا کرتا ہے اور تو ہر وقت اللہ کی قسم قسم کی نعمتیں شکم سیر ہوکر کھاتا رہتا ہے مگر تو اس کی حکم عدولی کرتا او راس کی شرعی حدود کی حفاطت نہیں کرتا۔'' 30

تجدیدی مساعی کے اثرات و نتائج:
آپ کے پرتاثیر اور انقلاب آفرین مواعظ سے اہل بغداد کو عظیم الشان روحانی او راخلاقی نفع پہنچا۔ ہزاروں انسانوں کی زندگی کے دھارے بدل گئے۔ آپ نے ان میں نئی دینی زندگی، نیا نظم و ضبط او رنئی حرکت و حرارت پیدا کردی۔ پھر اپنے تجربے و اجتہاد او رکتاب و سنت کے اصول و تعلیمات کے مطابق ان میں صحیح روحانیت و تقویٰ او ران کی زندگی میں ایمان و احتساب او ران کے اعمال و عبادات میں روح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہی حقیقت ہے اس تربیت و بیعت کی جس سے دین کے مخلص داعیوں نے اپنے اپنے وقت میں احیاء و تجدید دین کا کام لیا او رلاکھوں بندگان خدا کو حقیقت ایمان اور درجہ احسان تک پہنچا دیا۔ اس سلسلہ زریں کے سرحلقہ اور گل سرسید حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ہیں، جن کا نام او رکام اس میدان میں سب سے زیادہ روشن او رنمایاں ہے۔ حقائق و واقعات کو دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس دور انتشار میں اصلاح و تربیت کا اس سے زیادہ مؤثر او رکارگر ذریعہ نہیں ہوسکتا تھا۔

سلسلہ قادریہ :
حضرت شیخ سے پہلے دین کے داعیوں اور مخلص خادموں نے اس کام کی طرح ڈالی ہے لیکن حضرت شیخ نے اپنی دلاویز شخصیت ، خداداد روحانی کمالات، فطری استعداد او رملکہ اجتہاد سے اس طریقہ کو نئی زندگی بخشی، وہ نہ صرف اس سلسلہ کے ایک نامور امام، اور ایک مشہور سلسلہ (قادریہ) کے بانی ہیں بلکہ اس فن کی نئی تدوین و ترتیب کا سہرا آپ ہی کے سر ہے۔ آپ کی زندگی میں لاکھوں انسان اس طریقہ سے مستفید ہوکر ایمان کی حلاوت سے آشنا او راسلامی زندگی او راخلاق سے آراستہ ہوئے اور آپ کے بعد آپ کے مخلص خلفاء نے تمام ممالک اسلامیہ میں دعوت الی اللہ اور تجدید ایمان کا یہ سلسلہ جاری رکھا جن سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ یمن ، حضرموت اور ہندوستان میں پھر حضرمی مشائخ و تجار کے ذریعہ جاوا اور سماٹرا میں او ردوسری طرف افریقہ کے براعظم میں لاکھوں آدمیوں کی تکمیل ایمان اور لاکھوں غیر مسلموں کے قبول اسلام کا ذریعہ بنا۔

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مقالہ نگار مارگولیتھ نے لکھا ہے کہ بغداد میں قادریہ کا ایک مشہور مدرسہ اور رباط تھا۔ بغداد کے ایک شخص نے جو 572ھ میں فوت ہوا ، وصیت کی تھی کہ اس کی وفات کے بعد اس کی کتابیں اس مدرسے کو دی جائیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ادارے 656ھ ؍1258ء میں بغداد کی تاخت و تاراج کے وقت ختم ہوگئے۔ اس وقت ان دونوں اداروں کے سربراہ شیخ عبدالقادر کے خاندان کے لوگ تھے، بیان کیا گیا ہے کہ شیخ کے بعد ان کے بیٹے عبدالوہاب (552ھ تا 593ھ) اور پھر ان کے بیٹے عبدالسلام (611ھ ؍1214ء) ان کے جانشین ہوئے۔ بغداد کی تباہی کے وقت اس خاندان کے متعدد افراد ہلاک ہوئے اور یہ ادارے بھی ختم ہوگئے۔31

قادریہ سلسلہ میں بہت زیادہ رواداری پائی جاتی ہے۔ اس کے اصول و قواعد شدت سے عاری ہیں۔ اس کے برعکس اکثر سلسلے ایسے ہیں کہ ان کے پیروؤں کے خیال میں نجات و فلاح کا دروازہ صرف اس شخص پر کھلا ہے جو اس سلسلے میں سبقت رکھتا ہے۔ یہ سختی قادریہ سلسلے میں نہیں۔ اگرچہ اس سلسلہ کے بانی حنبلی تھے لیکن اس کا دائرہ حنبلیوں تک محدود نہیں۔ ابوالفضل (تقریبا 1600ء) نے سلسلہ قادریہ کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سلسلہ نہایت محترم و معزز ہے۔ 32

خلاصہ یہ کہ سلسلہ قادریہ ان خصوصیات کا حامل ہے جو شیخ کی ذات او ران کی تعلیمات میں پائی جاتی تھیں۔

حضرت شیخ کا وجود اس مادیت زدہ زمانے میں ایک آیہ رحمت او راسلام کا ایک زندہ معجزہ تھا۔ آپ کی ذات، آپ کے کمالات ، بارگاہ ایزدی میں آپ کی مقبولیت کے آثار، آپ کے اصحاب و تلامذہ اور تربیت یافتہ اصحاب کے اخلاق، سب اسلام کی صداقت کی دلیل اور اس کی زندگی کا ثبوت تھے۔

ایک طویل مدت تک عالم کو اپنے کمالات طاہری و باطنی سے مستفید کرکے 561ھ میں نوے سال کی عمر میں وفات پائی۔ صاحبزادہ حضرت شرف الدین عیسیٰ اپ کی وفات کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

توحید پر مشتمل آخری وصیت :
جب آپ اس مرض میں بیمار ہوئے جس میں انتقال فرمایا تو آپ کے صاحبزادہ شیخ عبدالوہاب نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے کہ آپ کے بعد اس پر عمل کروں، فرمایا:
''ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہو اور خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرو او رنہ اس کے سوا کسی سے امید رکھو ، اپنی تمام ضروریات اللہ کے سپرد کردو، صرف اسی پر بھروسہ رکھو او رسب کچھ اسی سے مانگو، خدا کے سوا کسی پر وثوق اور اعتماد نہ رکھو ۔ توحید اختیار کرو کہ توحید پر سب کا اجماع ہے۔'' 33

حضرت شیخ اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن اپنے پیچھے دین کے داعیوں اور اخلاق کے مربیوں کی ایک جماعت چھوڑ گئے جس نے آپ کے کام کوجاری رکھا اس طرح آپ نے جن تجدیدی مساعی کا آغاز کیا تھا۔ ان کی تکمیل کا سلسلہ آپ کے بعد بھی سرگرم عمل رہا۔ حضرت شیخ کے بعد آپ کے خلفاء میں سے جن عارفین و مصلحین نے دعوت و تذکیر کا کام پوری مستعدی سے جاری رکھا ان میں شیخ شہاب الدین سہروردی 593ھ۔632ھ) کا نام سرفہرست ہے۔جو طریقہ سہروردیہ کے بانی اور تصّوف کی مقبول ترین کتاب ''عوارف و معارف'' کے مصنف ہیں۔ تصوف کو بدعات سے پاک کرنے اور کتاب و سنت کو اس کا ماخذ بنانے میں حضرت سہروردی نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا۔ پھر ان کے خلیفہ شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا ملتانی نے ہندوستان میں توحید کے علم کو سربلند رکھا ۔ ان تمام مساعی کا کریڈٹ دراصل شیخ جیلانی کو جاتا ہے جنہوں نے اس چشمہ فیض کو جاری رکھا۔ 34

محولہ صدر کتب کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب کی طرف رجوع فرمائیں:

مصادر و مآخذ :
1۔ فوات الوفیات الکتبی ج2 ص2
2۔ شذرات الذہب ابن العماد ج2 ص198
3۔ مرآة الجنان الیافعی ج3 ص347
4۔ ذیل طبقات الحنابلہ ابن رجب ص217
5۔ تاریخ الکامل ابن اثیر ج11 ص121
6۔ ھدیة العارفین البغدادی ج1 ص596
7۔ کشف الظنون حاجی خلیفہ ص662، 879، 124
8۔ بہجة الاسرار ومعدن الانوار علی اللخمی الشطنولی
9۔ قلائد الجواہر فی مناقب عبدالقادر محمد التاوفی
10۔ الطبقات الشعرانی ج1 ص108
11۔ النجوم الزاہرہ فی اخبار مصر و القاہرہ ج5 ص371
12۔ سفینة الاولیاء داراشکوہ لکھنؤ ص43 تا 58
13۔ منتخب اللباب خانی خاں مطبوعہ 1869ء
14۔ بغیة المرتاد مطبوعہ قاہرہ 1329ء
15۔ ارشاد الاریب یاقوت ج5 ص274
16۔ مآثر الکرام غلام علی آزاد مطبوعہ 1752ء
17۔ کشف اسرار المشائخ مطبوعہ لکھنؤ 1881ء
18۔ آئین اکبری ابوالفضل مترجمہ جیرٹ ج3 ص357
19۔ العلم الشامخ فی ایثار الحق علی الآباء والمشائخ مطبوعہ قاہرہ 1328ھ
20۔ سکینة الاولیاء دارشکوہ
21۔ انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
22۔ التکملہ رموز الغیب ص189، 192
23۔ وفیات الاعیان لابن خلکان ج4 ص120
24۔ تقصار جیود الاحرار نواب صدیق حسن کاں ص 63
25۔ تاریخ فلاسفة الاسلام لطفی جمعہ مطبوعہ قاہرہ ص253
26۔ البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج12
27۔ رحلم ابن جبیر ص223
28۔ اخبار الاخیار شیخ عبدالحق محدث دہلوی
29۔ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ ج12 مقالہ عبدالقادر جیلانی
30۔ غنیة الطالبین عربی مطبوعہ لاہور ج2 ص187


حوالہ جات
1. النجوم الزاہرة لابن تغری بردی ج1 ص698
2. تاریخ فلاسفة الاسلام محمد لطفی جمعہ ص253
3. البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج12 ص149 ذیل طبقات الحنابلہ ابن رجب
4. اخیار الاخیار، ص13
5. دائرہ المعارف للبستانی ج11 ص621
6. تاریخ دعوت و عزیمت ج1 ص200
7. قلائد الجواہر ص6
8. فتوح الغیب
9. الطبقات الکبریٰ للشعرانی، ج1 ص120 و طبقات الحنابلہ ابن رجب
10. گلستان باب 2 حکایت 3
11. الطبقات الکبریٰ للشعرانی، ج1 ص120
12. رحلة ابن جبیر ص223
13. غنیة الطالبین، ج2 ص187
14. الغنیة : ص80
15. الغنیة: ص80
16. اخبار الاخیار شیخ عبدالحق محدث دہلوی
17. تاریخ دعوت و عزیمت ، ج1 ص202۔ اخبار الاخیار ، ص11
18. اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج12 ص928
19. فتح الغیب مقالہ دوم ص10
20. فتوح الغیب مقالہ 17
21. فتوح الغیب مقالہ 63
22. فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی مجلس 13
23. فیوض یزدانی مجلس 20
24. فتوح الغیب ص42،43
25. فیوض یزدانی مجلس 21
26. فیوض یزدانی مجلس 51
27. قلائد الجواہر ، ص8
28. تاریخ دعوت و عزیمت بحوالہ فیوض یزدانی مجلس 51
29. فیوض یزدانی مجلس 52
30. فیوض یزدانی ص507
31. ارشاد الاریب للیاقوت ، ج5 ص274 نیز بہجة الاسرار، ص113 تا 117
32. دیکھئے منتخب اللباب خانی خاں مطبوعہ 1869ء بغیة المرتاد قاہرہ 1329ھ، آئین اکبری ابوالفضل مترجمہ جیرٹ ج3 ص357، کشف اسرار المشائخ لکھنؤ 1881ء نیز مآثر الکرام مطبوعہ 1752ء انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ اس شاہ ولی اللہ دہلوی، سکینة الاولیاء داراشکوہ۔ العلم الشائخ فی ایثار الحق علی الآباڈ والمشائخ مطبوعہ قاہرہ 1328ھ
33. تاریخ دعوت وعزیمت بحوالہ التکملہ رموز الغیب ص189۔192
34. مرآة الجنان یافعی ج4 ص81۔ وفیات الاعیان ج4 ص119