آئینہ توحید
سوال: اگر آپ یہ کہیں کہ جو اہل قبور اور دیگرایسے لوگوں ، جو زندہ فاسق و فاجر او رجاہل ہیں، کے متعلق حسن عقیدت رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے، ہم تو صرف اللہ کی عبادت کرتےہیں، ہم ان کی خاطر نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، نہ حج کرتے ہیں، ہم یہ تمام امور اللہ کے لیے کرتے ہیں؟
جواب: تو میں کہتا ہوں ، یہ عبادت کے مفہوم سے عدم واقفیت او رجہالت ہے کیونکہ میں نے جوذکیا ہے، یہ اس پرمنحصر نہیں بلکہ اس کی جڑ، بنیاد اور اعتقاد ہے او روہ ان کے دل میں قائم ہے بلکہ اس کو عقیدہ کہتے ہیں۔ وہ اس کے لیے ایسے کام کرتے ہیں جو آپ نےکبھی سنے تک نہیں، جو اعتقاد سے متفرع ہوتے ہیں مثلاً ان کا قبروں کے پاس جاکر دُعا کرنا اور صاحب قبر کو پکارنا او راس کا وسیلہ پکڑنا اور اس سے استعانت اور استغاثہ وغیرہ کی درخواست کرنا، ان کے نام کا حلف او رنذر ماننا وغیرہ۔ علماء نے ذکر کیا ہے کہ جو شخص اپنے لباس میں کفار کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے او رجو کلمہ کفر بولتا ہے وہ بھی کافر ہوجاتا ہے تو اس شخص کا کیا حال ہوگا جواعتقاداً ، عملاً اور قولاً کفار کی مشابہت اختیار کرتا ہے؟
سوال: اگر کوئی یہ سوال کرے کہ قبروں کے پاس نذریں پوری کرنے اور قربانیاں دینے کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب : ہر صاحب خرد اس بات سے آگاہ ہے کہ انسان کو اپنا مال بہت عزیز ہوتا ہے۔ وہ اسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ، خواہ کسی غلط او رناجائز ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو۔ وہ حصول سیم وزر کی خاطر زمین کا چپہ چپہ چھان مارتا ہے تو کوئی شخص اس وقت تک اپنا مال خرچ نہیں کرتا جب تک اسے اس امر کا یقین نہ ہوجائے کہ اس سے اسے نفع حاصل ہوگا یااس سے کسی نقصان کی تلافی ہوگی۔ تو قبر کی نذر ماننے والا اپنے مال کو قبر پر اس لیے خرچ کرتا ہے ، تاکہ اس کا کوئی نقصان نہ ہو یا اسے کچھ نفع حاصل ہو او ریہ اعتقاد غلط ہے۔ اگر نذر ماننے والے کو یہ علم ہو کہ جس اعتقاد سے وہ خرچ کررہا ہے وہ غلط ہے تو وہ ایک درہم بھی خرچ نہ کرے کیونکہ مال و دولت انسان کو بہت عزیز ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلا يَسـَٔلكُم أَموٰلَكُم ﴿٣٦﴾ إِن يَسـَٔلكُموها فَيُحفِكُم تَبخَلوا وَيُخرِج أَضغـٰنَكُممْ ﴿٣٧﴾...سورۃ محمد
''اللہ تم سے تمہارے مال نہیں مانگتا ، اگر وہ تم سے مانگے اور اصرار کرے تو تم بخل سے کام لو گے، اس صورت میں تمہاری بدنیتی او ربخل کو وہ ظاہر کردے گا۔''
تو جو شخص ایسی نذر مانتا ہے، اسے یہ بتلانا ضروری ہے کہ تم اپنے مال کو ضائع مت کرو اس کا تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا او رنہ اس سے کوئی مصیبت دور ہوگی ۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
''إن النذر لا یغني من القدر شیئا وإنما یستخرج من البخیل'' 1
''نذر ماننے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ اس طریقے سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے۔''
ایسی نذر کو ردّ کرنا واجب ہے ۔ اسے وصول کرنا حرام ہے کیونکہ اس نے نذر ماننے والے کا مال ناجائز طریقے سے کھایا، اس نے کسی شے کے عوض اسے اس سے حاصل نہیں کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا تَأْكُلُوٓاأَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ...﴿٢٩﴾...سورۃ النساء ''تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز اور باطل طریقے سے مت کھاؤ''
نیز اسی طرح اس نے ناذر کو شرک پر پختہ کیا او راس کے گندےعقیدے پر قائم رہنے میں اس کی مدد کی اور اس پر راضی ہوا اور شرک کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ...﴿٤٨﴾...سورۃ النساء
''اللہ تعالیٰ مشرک کو ہرگز نہیں بخشے گا او رباقی گنہگاروں کو جسے چاہے گا معاف فرما دے گا۔''
قبر پر نذر وصول کرنے والا، کاہن کی مٹھائی او ربدکار عورت کی کمائی کی طرح حرام کھاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ناذر کو دھوکا دینا ہے او راسے یقین دلانا ہے کہ ولی اور بزرگ نفع و نقصان پر قادر ہوتا ہے۔
میت پر نذر و نیاز وصول کرنے سے زیادہ برا کام او رکون سا ہوسکتا ہے او راس سے بڑا فریب اور دھوکا او رکیا ہوسکتا ہے اوربرائی کو نیکی میں تبدیل کرنےکی اس سے زیادہ تعجب انگیز سازش اور کون سی ہوسکتی ہے؟ اصنام او راوثان یعنی بتوں کی نذریں ایسے ہی طریقہ پر ہوا کرتی تھیں۔نذر ماننے والا یہ سمجھتا تھا کہ یہ صنم نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ اس لیے اس کے نام پراپنے مال سے قربانیاں دیاکرتے تھے۔ زمین میں، پیداوار میں اس کا حصہ مقرر کرتے او ربتوں کے مجاوروں کے پاس ان کا حصہ لے کر آتے تھے او روہ ان سے وصول کرتے تھے اور ان کے ذہن میں اس بات کو پختہ کرتے تھےکہ ان کا یہ عقیدہ حق و صداقت پر مبنی ہے۔ اسی طرح بعض آدمی اپنے قربانیاں لاتے اور بتوں کے پاس ذبح کرتے تھے ۔ یہی وہ برائیاں تھیں جن کوختم کرنے او رمٹانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔
سوال: اگر کوئی یہ کہے کہ بسا اوقات نذر دینے والا او رمال خرچ کرنے والا اس سے نفع حاصل کرتا ہے یا اس کی کوئی تکلیف دور ہوجاتی ہے؟
جواب : میں کہتا ہوں کہ بتوں کا بھی یہی حال تھا بلکہ بتوں سے ان کواس سے زیادہ فائدہ ہوتا تھا۔ بعض بتوں کے پیٹ سے آواز آتی تھی او رانسان کے مخفی راز کی وہ خبریں دیتے تھے۔ اگر یہ دلیل قبروں کی حقانیت کی ہوسکتی ہے تو یہ بتوں کی حقانیت کی دلیل بالاولیٰ ہوسکتی ہے۔ درحقیقت یہ تو اسلام کے محل کی بنیادیں اکھیڑنے او ربتوں کے نجس پودوں کی آبیاری کے مترادف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ابلیس او راس کے ہمنوا جن و انسان اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ نے ابلیس کو یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ انسان کےبدن میں داخل ہوکر اس کے دل میں وسوسہ پیدا کرے اور اپنی سونڈ سے اس کے دل کو لقمہ بنائے۔ اسی طرح وہ بتوں کے اندر داخل ہوجاتے ہیں او رلوگوں کے کانوں میں آواز ڈالتے ہیں۔ یہ سب کچھ قبر پرستوں کے عقائد کوپختہ اور محکم کرنےکے لیے کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنا لاؤلشکر لے کر بنی آدم پر چڑھائی کریں او راسے گمراہی کے گڑھے میں پھینکیں او ران کے مال و اولاد میں حصہ دار بنیں۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ شیطان اللہ کی کچھ باتیں چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے پھر وہ ان باتوں کو کاہنوں کے کانوں میں ڈال دیتا ہے پھر یہ لوگ غیب کی خبریں دینے لگتے ہیں او رشیطان نے جو کچھ انہیں بتلایا ہوتا ہے اس کی بھی خبر دیتے ہیں۔ اس میں اپنی طرف سے کافی جھوٹی باتیں ملا کر لوگوں کوبتلاتے ہیں۔ پھر جنّوں کے شیطان انسانوں کے شیطانوں کے پاس آتے ہیں جو قبروں پرمجاور بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ اور فلاں ولی نے فلاں کام کیا۔ یہ لوگوں کو اس کی تعظیم اور عبادت کی رغبت دیتے ہین اور اس کی مخالفت او رنافرمانی سے ڈراتے ہیں۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شہروں کے حاکم او رملکوں کے بادشاہوں کو انہوں نے عزت دی ہوئی ہے۔ وہ نذریں وصول کرنےکے لیے اپنے کارندے مقرر کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے آدمی کو مقرر کرتے ہیں جن کے متعلق لوگوں کو حسن طن ہوتا ہے ، جیسے کوئی عالم، وعظ و نصیحت کرنے والا، مفتی، یا شیخ یا صوفی ہو تو ایسی صورت میں ان کا فریب کامیاب رہتا ہے او راس دجل و فریب سے ابلیس کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کام تو عام شہروں میں ہوتا ہے ، پہاڑوں او رجنگلوں میں ہوتا ہے۔مشرق و مغرب اور جنوب و شمال میں ہوتا ہے بلکہ اسلامی ممالک میں سے کوئی ایسا ملک نہیں جہاں پر پختہ قبریں اور مزار نہ ہوں او ر زندہ لوگ ان کے متعلق حسن عقیدت نہ رکھتے ہوں او ران کی تعظیم نہ کرتے ہوں، لوگ ان کی نذریں مانتے ہیں ، ان کا نام لے کر پکارتے ہیں، ان کی قسمیں کھاتے ہیں، ان کی قبروں کے گرد طواف کرتے ہیں، وہاں پر چراغ روشن کرتے ہیں، قبر کو خوشبو لگاتے ہیں او راس پر غلاف پہناتے ہیں۔ وہاں پر جس طرح کی عبادت ممکن ہوتا ہے ، کرتے ہیں۔ ان کی تعظیم ، خشوع و خضوع اور ان کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے ہیں او ران کے سامنے اپنی حاجتیں اور ضروریات پیش کرتے ہیں، بلکہ مسلمانوں کی مسجدوں میں بھی ان کی قبریں ہوتی ہیں یا ان کے قریب ہوتی ہیں یا وہاں پر کوئی مزار ہوتا ہے کہ نمازی نماز کے اوقات میں قبروں پر جاتے ہیں او روہاں پر ایسے مشرکانہ کام کرتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ کسی عاقل کی عقل یہ بات باور نہیں کرسکتی کہ ایک برا کام دنیاکےطول و عرض میں پھیل جائے لیکن علمائے اسلام، جن کا عوام میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے، ان کےلبوں پرمہر خاموشی ثبت رہے اور وہ اس بُرائی کو روکنے سے خاموش رہیں؟
جواب: میں کہتا ہوں، اگر آپ انصاف کے طالب ہیں او راسلاف کی پیروی کرنا چاہتے اور یہ بات سمجھتے ہیہں کہ حق وہی ہے جس پر دلیل قائم ہو نہ کہ وہ جس پر عوام نسل در نسل متفق رہے ہوں تو آپ جان لیں کہ وہامور جن کا ہم نے انکار کیاہے او رجس منار کو ہم گرانا چاہتے ہیں۔ یہ عام لوگوں کے افعال ہیں جن کا اسلام اپنے آباؤ اجداد کی تقلید پر مبنی ہے جو بلا دلیل ہے اور وہ اچھے برے کی تمیز کے بغیر ان کی پیروی کرتے ہیں۔ ان میں ایک پیدا ہوتا ہے وہ اپنے گاؤں اور شہرکے لوگوں کو دیکھتا ہے جو اسے بچپن میں یہ تلقین کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو پکارے جن کے متعلق ان کا حسن اعتقاد ہے اور وہ ان کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کی نذریں مانتے ہیں، اس کی تعظیم کرتے ہیں، اس کی قبر کی طرف سفر کرتے ہیں، اس کی قبر کی مٹی اپنے جسم پر ملتے ہیں، اسکی قبر کا طواف کرتے ہیں، پھر جب وہ جوان ہوتا ہے تو اس کے دل میں اس کی عظمت راسخ ہوجاتا ہے اور جن لوگوں کی وہ تعظیم کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک سب سے بڑا ہوتا ہے ، چھوٹا بچہ اسی حالت میں نشوونما پاتا ہے او ربوڑھا اسی عقیدہ پرفوت ہوجاتا ہے، لیکن اسے کوئی برا تصور نہیں کرتا۔
بلکہ آپ دیکھیں گے کہ ایک صاحب علم جو اپنے علم و فضل کا دعویٰ کرتاہے، اور قضاء ، فتویٰ اور مسند تدریس پر فائز ہے یا گورنری یا تعلیم کے عہدہ پرمامور ہے یا حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے جس کی لوگ تعظیم کرتے ہیں اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، قبروں پرنذریںاور چڑھاوے وصول کرتا ہے او روہاں پرجو قربانیاں دی جاتی ہیں انہیں کھاتا ہے اور اسے دین اسلام کا حصہ تصور کرتا ہے اور سمجھتا ہےکہ دین کی حقیقت یہی ہے۔ حالانکہ جو شخص کتاب و سنت کا علم رکھتا ہے اور صحابہؓ کے اثر سے واقف ہے اس پر یہ بات مخفی نہیں کہ کسی عالم کا کسی برائی سے سکوت یااس کا کرنا اس بُرائی کے جواز کی دلیل ہرگز نہیں۔
ہم آپ کے لیے ایک مثال بیان کرتے ہیں۔ چونگی ہوصول کرنے کے متعلق سب کو علم ہے کہ یہ کام حرام ہے۔ اس کے باوجود شہروں اور قصبوں میں یہ برائی عام ہوچکی ہے او رلوگ اس سے مانوس ہوچکے ہیں۔ اب اسے کوئی بُرا نہیں کہتا۔ مکہ معظمہ جو روئے زمین پر سب مقامات سے افضل ہے۔ وہاں پربھی چنگی وصول کرنے والے بیٹھے ہوتے ہیں جو زائرین حرم سے چونگی وصول کرتے ہیں اور بلدالحرام میں بھی یہ بُرا کام ہوتا ہے۔ حالانکہ وہاں کے باشندوں میں سے کئی جید عالم اور فاضل ہوتے ہیں او رحکام بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اس برائی سے نہیں روکتے بلکہ اس معاملہ میں سکوت اور خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اس کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ دینا پسند نہیں کرتے۔ کیا ان کاسکوت اس امر کی دلیل ہوگی کہ یہ کام جائز ہے جسے معمولی سی سوجھ بوجھ ہوگی وہ ایسا ہرگز نہیں کہے گا۔
ہم آپ کے لیے ایک او رمثال بیان کرتے ہیں۔بیت الحرام روئے زمین پر تمام ٹکڑوں سے افضل ہے۔ تمام علماء کا اس پر اتفاق او راجماع ہے ۔ کسی چراکسہ بادشاہ نے ، جو جاہل او رگمراہ تھا، بیت الحرام میں چار مصلّے بنا دیئے جوعبادت کرنے والوں کے لیے تقسیم کردیئے اس سے اس قدر خرابی پیدا ہوئی کہ بس اللہ ہی جانتا ہے ۔ مسلمانوں کی عبادت کےلیے خانہ خدا کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا۔2 اور ایک دین میں مختلف مذاہب معرض وجود میں آئے او رمسلمان مختلف مذاہب میں بٹ گئے۔اس بری رسم سے شیطان بہت خوش ہوا او رمسلمانوں کا مذاق اڑانے لگا لیکن اس موقع پر تمام مسلمانان عالم نے خاموشی اختیار کی او راس برائی کے خلاف کسی نے آواز نہ اٹھائی۔دنیا کے ہر خطہ سے علماء و فضلاء نے یہ ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھا او رکانوں سے سنا مگر کسی نے اُن کو برا کہنے کی جرأت نہ کی۔کیا ان کی خاموشی اور سکوت اس کےجواز کی دلیل بن سکتا ہے؟ جس کومعمولی سا علم ہوگا وہ ایسی بات کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا اسی طرح ان افعال پرجو اہل قبور کرتے ہیں، ان کاسکوت جواز کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ ...........(باقی)
حوالہ جات
1. مشکوٰة المصابیح ص297 بحوالہ بخاری و مسلم
2. سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن ال سعود مرحوم و مغفور کے عہد حکومت سے پہلے مذاہب اربعہ کے چار مصلّے تھے اور چار امام تھے او رہر نماز کے لیے یکے بعد دیگرے چار جماعتیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک شافعیوں کا امام تھا، دوسرا مالکیوں کا اور تیسرا احناف اور چوتھا حنابلہ کا امام تھا۔ ( الفلاح بی۔اے)