تبصرہ کتب
ترجمان القرآن (جلد سوم) : مولانا ابوالکلام آزاد
مرتبہ : شیخ التفسیر مولانا محمد عبدہ
ضخامت : 665 صفحات بڑا سائز
: کاغذ کتابت طباعت عمدہ مجلد سنہری ڈائی دار
قیمت : ..................
ناشر : اسلامی اکادمی، اردو بازار لاہور
وطن عزیز میں ایسے اصحاب یقیناً موجود ہیں جن کومولانا ابوالکلام آزاد کے سیاسی مسلک سے شدید اختلاف رہا ہے لیکن بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ''اس بات سے کوئی متعصب آدمی بھی انکار نہیں کرے گا کہ وہ (آزاد) ایک عظیم الشان دریائے علم تھے بلکہ فضل و کمال کے بحر بیکراں ۔ شائد اسی وجہ سے ایک زمانے میں اسلامیان ہند نے انہیں امام الہند کا خطاب عطا کیا۔ ان کے کس کس کمال کا ذکر کیا جائے۔ عالم، ادیب، مفکر انشاء پرداز، خطیب، بذلہ سنج، سیاس، خوش وضع، شعر فہم اور شاید شعر گو بھی ۔ یعنی وہ جس نے ادب اور دین کو ایک رشتے میں پرو دیا۔''
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ڈاکٹر سید عبداللہ کی رائے کےبعض پہلوؤں سے بھی اختلاف کریں، لیکن ایک بات ہم پوری تحدی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس صدی کے شروع میں بّر کوچک پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے اور اُن کے قلوب مردہ میں زندگی کی روح پھونکنے کے لیے جو آوازیں بلند ہوتی ان میں سے ایک آواز مولانا ابوالکلام آزاد کی تھی جسے رجز حریت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ابوالکلام کے رجز حریت کا منبع اور ماخذ قرآن حکیم تھا کہ مولانا کے عقیدے میں ہر وہ خیال جو قرآن کے سوا کسی اور تعلیم گاہ سے حاصل کیا گیا ہو، کفر صریح تھا۔ اس سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے جو کارنامہ انجام دیا، علامہ سید سلیمان ندوی نے اس کی عکاسی یوں کی ہے:
''اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوجوان مسلمانوں میں قرآن پاک کا ذوق مولانا ابوالکلام آزاد کے ''الہلال'' و ''البلاغ'' نے پیدا کیا اور جس اسلوب بلاغت، کمال انشا پردازی اور زور تحریر کے ساتھ انہوں نے انگریزی خواں نوجوانوں کے سامنے قرآن پاک کی ہر آیت کو پیش کیا، اس نے اُن کے لیے ایمان و یقین کے نئے نئے دروازے کھول دیے اور ان کے دلوں میں قرآن پاک کے مطالب کی بلندی اور وسعت پیدا کردی۔'' (ابوالکلام آساد مرتبہ عبداللہ بٹ)
مولانا آزاد کی تفسیر ترجمان القران کی دو ضخیم جلدیں بہت عرصہ پہلے منصہ شہود پر ائیں تو انہوں نے ملک بھر کے اہل علم اور ارباب فکر کو چونکا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ ارباب علم نے مولانا کی تفسیر کے بعض پہلوؤں سے اختلاف کا اظہار کیا تاہم بحیثیت مجموعی ترجمان القرآن کو قرآن حکیم کی دعوت کا ایک عظیم تفسیری کارنامہ قرار دیا گیا۔
زیر نظر کتاب ''ترجمان القرآن'' کی تیسری جلد ہے۔مولانا آزاد کی وفات کے سالہا سال بعد منظر عام پر آئی ہے اور جس میں سورہ نور سے سورة الناس کے مطالب ضروری تفسیر کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اس کو مرتب اور مدون کرنے میں ناشر مولانا ابومومن منصور احمد صاحب کو جن جانگسل مرحلوں سے گزرنا پڑا اس کی تفصیل انہوں نے کتاب کے آغاز میں بیان کردی ہے۔ ''عرض ناشر'' کو پڑھ کر مولانا ابومومن منصوراحمد کی ہمت اور حوصلہ کی داد دینی پڑتی ہے اور ساتھ ہی شیخ التفسیر مولانا محمد عبدہ کی کاوشوں کو خراج تحسین ادا کرنا پڑتا ہے جنہوں نے مولانا آزاد کے ترجمہ و تفسیر کو بڑے سلیقے سے کتاب میں درج کیا اور جہاں ان کی کوئی تحریر نہ مل سکی ، اپنی طرف سے اسی انداز میں ترجمہ و تفسیر لکھ خلا پر کردیا ۔ اس سلسلے میں فاصل شہیر مولانا محمد حنیف ندوی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے:
''ترجمان القرآن کی یہ تیسری جلد جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے، اگرچہ براہ راست مولانا کی تصنیف نہیں کہلائے گی مگر ان معنوں میں مولانا کے افکار کی آئینہ دار ہے کہ (محترم مولانا منصور احمد) ناشر نے بہ کمال محنت و کاوش الہلال، البلاغ اور ترجمان القرآن میں جابجا بکھرے ہوئے ان تمام موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے جن کا تعلق تفسیری فوائد سے تھا اور جہان مولانا کی کوئی تحریر نہیں ملی وہاں مولانا محمد عبدہ نے تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر توضیحی نوٹ لکھ کر کتاب کی افادیت کو بڑھا دیا ہے۔ یعنی اگر بارش کی ارزانیوں سے کشت فکر شگفتہ و شاداب نہیں ہوتی تو پھوار کیا کم ہے۔''
کتاب کا مقدمہ مولانا محمد حنیف ندوی صاحب نے لکھا ہے اور تعارف ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے۔
مقدمہ اور تعارف بجائے خود نہایت بلند پایہ مقالے ہیں جن سے ''ترجمان القرآن'' کی قدروقیمت اور صاحب ترجمان القرآن کے مقام و مرتبہ کا اندازہ کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے لاریب یہ کتاب ہمارے علمی سرمائے میں نہایت گرانقدر اضافہ ہے اور اس کا مطالعہ یقیناً انشراح قلب کا باعث ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ کوئی کتب خانہ، دارالمطالعہ اور علمی گھرانہ اس کتاب سے خالی نہیں رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔:::::۔۔۔۔۔۔۔
فقہائے پاک و ہند (تیرہویں صدی ہجری)
جلد اوّل
مؤلف : مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب
ضخامت : 344صفحات
: کاغذ کتابت طباعت عمدہ
ناشر : ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ لاہور
مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب ہماری بزم علم و ادب کا گوہر شب چراغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاں علم و فضل سے بہرہ ور کیا ۔ وہاں تحقیق اور مطالعہ کے گہرے ذوق سے بھی نوازا ہے۔ ان کی تحریری کاوشوں، جانگسل محنت اور اپنے مقصد میں لگن کی جس قدر تعریف بھی کی جائے کم ہے۔ فی الحقیقت مولانا موصوف اپنی ذات میں ایک انجمن بلکہ بہت بڑا ادارہ ہیں۔ گزشتہ چند سال سے وہ پاک و ہند کے مشاہیر علماء کمے حالات و سوانح بڑے نظم و ترتیب کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔ اب تک وہ سلسلة الذہب کی سات جلدیں ''فقہائے ہند'' کے نام سے پیش کرچکے ہیں۔ زیر نظر کتاب آٹھویں جلد کا پہلا حصہ ہے جسے انہوں نے فقہائے پاک و ہند کے نام سے پیش کیا ہے۔ یہ حصہ تیرہویں صدی کے سو سے زائد مشاہیر علماء پاک و ہند کے تذکار پر محیط ہے۔ فاضل مؤلف نے یہ تذکار قلمبند کرتے وقت تحقیق و تفحص کا حق ادا کردیا ہے۔ ان کی زبان بڑی شستہ اور شگفتہ ہے اور اسلوب نگارش نہایت دلآویز اور بلیغ۔کتاب کیا ہے؟ علم و تحقیق کی ایک جوئے رواں جس کا صاف و شفاف پانی معلومات کے بیش بہا جواہر پر اٹھکیلیاں مارتا بہہ رہا ہے۔مؤلف نے جن ارباب علم کے تذکروں سے اس کتاب کے اوراق سجائے ہیں۔ ان میں ہر مسلک، مکتب فکر کے علماء شامل ہیں۔ یہ بات بجائے خود صاحب کتاب کے ایک وسیع النظرعالم ہونے کا بین ثبوت ہے۔ کتاب کا مقدمہ ایک مبسوط مقالہ ہے۔ جس میں فاضل مؤلف نے بڑی بالغ نظری سے اس دور کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا ہے۔ اس مقدمے نے کتاب کی افادیت میں بے انتہاء اضافہ کردیاہے۔کتاب میں شامل تراجم کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اور اس حصے میں تیرہویں صدی ہجری کے ان تمام مشاہیر علماء کے تراجم کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جن کے ناموں کا پہلا حرف الف سے ظ تک ہے۔ یہ کتاب ہمارے علمی اور تحقیقی سرمائے میں گرانقدر اضافہ ہے اور ہرلحاظ سے لائق مطالعہ ہے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کو یہ مہتم بالشان سلسلہ جلد از جلد مکمل کرنے، نیز مزید علمی، دینی اور ملّی کارنامے انجام دینے کی توفیق ارزانی فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔::::::۔۔۔۔۔۔
حیات غالب
حیات غالب : از شیخ محمد اکرم (مرحوم)
ضخامت : 247 صفحات مجلد مع گردپوش
قیمت : 20 روپے
ناشر : ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور
پاکستان و ہند کے علمی حلقوں میں شیخ محمد اکرم مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مبداء فیض نے انہیں نہایت صاف ستھرا علمی اور ادبی ذوق عطاء کیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے اور ان کی سرکاری مصروفیات کی کوئی حدو نہایت نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے ان مصروفیات کو اپنے شخف علم و ادب اور ذوق مطالعہ و تحقیق میں کبھی حارج نہ ہونے دیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کے قلم سے چند ایسی گرانقدر تالیفات معرض وجود میں آئیں جو اردو زبان کے لیے مایہ افتخار ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی ان تالیفات میں سے ایک ہے۔ اس میں فاضل مؤلف نے بڑے دلکش اور پرمغز انداز میں مرزا غالب کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے۔ غالب کو ہمارے ادب میں جو اعلیٰ مقام حاصل وہ محتاج بیان نہیں۔ غالب کی قد آور شخصیت اور شیخ محمد اکرم کے بہار آفرین قلم نے اس کتاب کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ فاضل مؤلف کا اسلوب نگارش ، ثقاہت اور متانت کا حامل ہونے کے باوجود نہایت شگفتہ ہے اور قاری کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ یہ اس بلند پایہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے جسے ادارہ ثقافت اسلامیہ نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اہل ذوق اس کتاب کی اسی طرح پذیرائی کریں گے جس کی یہ مستحق ہے۔