حرفِ آخر
زمیں سے سوئے آسماں ہم چلے ہیں
یہ دیکھو کہاں سے کہاں ہم چلے ہیں
ستاروں کے سارے جہاں ڈھونڈ کر اب
درائے زماں و مکاں ہم چلے ہیں
ہے اپنا ہی نقش کف پا ہویدا
خراماں خراماں جہاں ہم چلے ہیں
جہاں کے مکینوں سے اکتا کے ہمدم
مکاں سے سوئے لامکاں ہم چلے ہیں
نہ بہلا کسی طرح فرقت میں یہ دل
ذرا اب سوئے آسماں ،ہم چلے ہیں
نہ معلوم منزل کہاں ہے اب اس کی
پئے دل نہ جانے کہاں ہم چلے ہیں
نہ دیتی تھی دُنیا اجازت سفر کی
اب اس کی نظر سے نہاں ہم چلے ہیں
الجھتے رہے خار زاروں میں اب تک
سفر پر سوئے گلستان ہم چلے ہیں
نہ اسرار تم دل کو اپنے دکھاتا
زمیں سے سوئے کہکشاں ہم چلے ہیں