عورت نکاح میں ولی کی محتاج کیوں ہے؟
قسط نمبر ۴ (آخری)
عورت کا بغیر ولی کے نکاح نہ ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع:
دلائل شرعیہ میں اصل قرآن و حدیث ہی ہیں سو وہ مسئلہ مذکورہ کے بارے میں بیان کر دیئے گئے ہیں۔ اب مومنِ متبعِ قرآن و حدیث کیلئے کسی دلیل کا انتظار باقی نہیں رہنا چاہئے۔ تاہم مختصر طور پر صحابہؓ کا ذِکر کر دینا بہتر ہوگا۔
بعض صحابہؓ سے نصاً صراحتاً ثابت ہے کہ ولی کے بغیر عورت کا نکاح جائز نہیں اور وہ اس میں بڑے متشدد تھے اور بعض سے اگرچہ صراحتاً مذکور نہیں لیکن ان سے اس کا خلاف بھی ثابت نہیں کتب احادیث سے امیر المومنین عمر بن الخطابؓ کا اس مسئلہ میں تشدد ملاحظہ فرمائیں۔
منتقیٰ للمجد ابن تیمیہ میں ہے:
«وعن عکرمة بن خالد قال: جمعت الطریق ركباً فجعلت امرءة منھن (ثیب) أمرھا بید رجل غیر ولي فأنکحھا فبلغ ذلك عمر فجلد الناکح والمنکح وردّ نکاحھا» (رواہ الشافعي والدار قطني)
''امام شافعیؒ نے اپنی مسند اور امام دار قطنیؒ نے اپنی سنن میں عکرمہ بن خالد سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رستہ میں کچھ اونٹ سوار مسافر اکٹھے ہو گئے جن میں سے ایک بیوہ عورت نے ایک غیر ولی شخص کو اپنے نکاح کا اختیار دے دیا جس پر اس نے اس عورت کا نکاح کر دیا۔ جب یہ بات حضرت عمرؓ کو پہنچی تو انہوں نے نکاح کرنے والے اور کرانے والے دونوں کو درّے لگوائے اور اس عورت کا نکاح توڑ دیا۔''
اور موطا امام مالک ص ۴۳۶ میں ہے:
«قال عمر بن الخطاب لا تنکح المرءة إلا بإذن ولیھا أو ذوی الرأي من أھلھا أو السلطان»
''سعیدؓ بن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا عورت کا نکاح نہ کیا جائے مگر ولی کے اذن سے یا اس کے کنبے کے عقل مند کے اذن سے یا بادشاہ کے اذن سے (اگر اس کا کوئی ولی نہ ہو)''
اور جامع ترمذی ص ۱۷۷ میں ہے:
«والعمل في ھذا الباب علی حدیث النبي ﷺ لا نکاح إلا بولي عند أھل العلم من أصحاب النبي ﷺ منھم عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد اللہ بن عباس و أبو ھریرة وغیرھم وھٰکذا روي عن بعض فقھاء التابعین إنھم قالوا لا نکاح إلا بولي منھم سعید بن المسیب والحسن البصري وشریح وإبراھیم النخعي وعمر بن عبد العزیز وغیرھم وبھذا یقول سفیان الثوري والأوزاعي ومالك وعبد اللہ بن المبارك والشافعي وأحمد وإسحق! »
''یعنی امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کرام کا عمل نبی ﷺ کی اسی حدیث لا نکاح إلا بولی پر ہے جن میں عمر بن الخطابؓ، علیؓ ابن ابی طالب، عبد اللہؓ بن عباسؓ ابو ہریرہؓ وغیرہم ہیں اور بعض فقہاء تابعینؒ سے بھی یہی مروی ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں۔ ان میں سے سعید بن المسیب، حسن بصری، شریح ابراہیم النخعی، عمر بن العزیز وغیرہم ہیں اور سفیان ثوری، اوزاعی، مالک، عبد اللہ ابن مبارک، شافعی، احمد، اور اسحاق بھی یہی فرماتے ہیں۔''
اس عبارت میں امام ترمذیؒ نے صحابہ کے ساتھ بض کا لفظ استعمال نہیں کیا اور فقہاء کے ساتھ بعض کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ صحابہ اس مسئلہ میں سب متفق ہیں۔
حضرت عائشہؓ اپنی بھانجیوں بھتیجیوں کے نکاح کا سارا معاملہ خود طے کر لیتی تھیں لیکن جب عقد نکاح کا وقت آتا تو کسی مرد کو بلا کر فرماتی تھیں کہ یہ تم کرو کیونکہ میں عورت ہوں اور عورت نکاح میں ولی نہیں ہو سکتی۔
اور جن صحابہ سے صراحتاً یہ مسئلہ مذکور نہیں ان سے بھی اس کا خلاف ثابت نہیں۔
چنانچہ سبل السلام میں ہے:
«وحکي من ابن المنذر إنه لا یعرف عن أحد من الصحابة خلاف ذلك وعلیه دلت الأحادیث »
''یعنی ابن منذر فرماتے ہیں کہ کسی صحابی سے اس کا خلاف ثابت نہیں گویا صحابہ کا اس پر اجماع ہے۔''
نیز کتبِ حدیث صحاح ستہ میں یہ باب تو جابجا ملتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں لیکن غالباً کسی محدث نے یہ باب نہیں باندھا کہ بغیر ولی کے نکاح جائز ہے۔ یہ اس پر دال ہے کہ محدثین کے نزدیک نکاح بغیر ولی کے جائز نہیں۔
میں اس وقت ایسے مقام پر ہوں کہ میرے پاس حوالہ کی کتابیں معدودے چند ہیں اور میں بیمار ہوں۔ ماہنامہ ''محدث'' کے شمارہ اکتوبر میں اس مضمون کا ختم کرنا ضروری ہے اس لئے میں فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
حاصل یہ کہ مذکورہ دلائل قرآن و حدیث سے واضح ہو گیا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں، نیز صحابہؓ بھی اس پر متفق ہیں اور کسی سے اس کا خلاف ثابت نہیں اور بعض تابعین سے بھی یہی مروی ہے جیساکہ جامع ترمذی کی مذکورہ عبارت سے واضح ہے اور ائمہ ثلاثہ مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ باقی رہے بعض علماء حنفیہ وغیرہ تو ان کا قول قرآن و حدیث کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
میں نے اپنے مضمون کے شروع میں عورتوں کے ناقص العقل وغیرہ ہونے کے الفاظ لکھے تھے۔ بعض مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا دعویٰ کرنے والی عورتیں شاید ان الفاظ کو اپنی توہین خیال کریں لیکن ایسے الفاظ قرآن و حدیث میں آئے ہیں۔ اور علماء نے اسرارِ شریعت بیان کرتے ہوئے اسی طرح لکھا ہے۔ چنانچہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی عبارت کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں، جو میرے مضمون کی تائید ہے۔ حجۃ اللہ البالغہ مترجم ج ۲ ص ۳۲۹ میں ہے:
''نبی ﷺ نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔''
واضح ہو کہ نکاح کے بارہ میں تنہا عورتوں کو مختار بنانا درست نہیں ہے کیونکہ ان کی عقلیں ناقص ہوتی ہیں اور ان کا فکر بھی کمزور ہوتا ہے۔ پس بسا اوقات ان کو مصلحت معلوم نہیں ہوتی اور اکثر ان کو شرافت کا لحاظ نہیں ہوتا۔ پس بسا اوقات ان کو غیر کفو میں رغبت ہو جاتی ہے اور اس میں ان کی قوم کو عار ہوتی ہے۔ اس واسطے ضروری ہوا کہ اس باب میں اولیاء کو بھی کچھ دخل ہوتا کہ یہ فساد بند ہو اور نیز ضرورتِ جبلّیہ کے اعتبار سے لوگوں میں عام طریقہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر اختیار ہوتا ہے اور ہر امر کا بندوبست انہیں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کے تمام اخراجات مردوں کے ذمہ ہوتے ہیں اور عورتیں ان کی مقید ہوتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس سبب سے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال میں سے خرچ کرتے ہیں۔''
اور نیز نکاح کے اندر ولی کی شرط لگانے میں مردوں کی عظمت ہے اور عورتوں کا نکاح میں خود مختار ہونا بے حیائی ہے جس کا مدار قلت حیا پر ہے اور اولیاء کی مخالفت اور ان کی بے قدری پر ہے اور نیز یہ بات ضروری ہے کہ بہ سبب شہرت کے نکاح زنا سے ممیز ہو جائے اور شہرت کی عمدہ صورت یہ ہے کہ عورت کے اولیاء نکاح میں موجود ہوں۔ نبیﷺ نے فرمایا:
''شوہر رسیدہ عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر اور باکرہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور اس کی اجازت اس کا چپ ہو جانا ہے اور ایک روایت میں ہے باکرہ سے اس کا والد اجازت لے۔''
میں کہتا ہوں صرف اولیاء کو مختار بنانا ہی جائز نہیں ہے کیونکہ عورت اپنا نفع و نقصان جس قدر جانتی ہے وہ نہیں جانتے اور نیز نکاح کا نفع و نقصان خاص اسی کی طرف رجوع کرتا ہے، اور استیمار سے مراد عورت کے حکم کا صراحتاً طلب کرنا ہے اور استیذان سے مراد، اس سے اجازت طلب کرنا اور اس کا منع نہ کرنا ہے اور اس کا ادنیٰ مرتبہ سکوت ہے۔''
شاہ صاحب نے میرے مضمون کی پوری تائید فرما دی ہے کہ عورت ناقص و کمزور عقل ہے اکثر وہ اپنی مصلحت اور فائدہ کو نہیں سمجھتی لہٰذا وہ ولی کے بغیر نکاح نہ کرے۔ نیز ولی بھی اس کی اجازت اور پسند بغیر نکاح نہ کرے جیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں ذِکر کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
الحاصل
جو نکاح بھی بغیر اجازت یا شرکت ولی کے کیا جائے وہ شرعاً نکاح نہیں ہوتا بلکہ وہ زنا کے حکم میں ہے۔ سول میرج کا یہی حکم ہے۔
تنبیہ:
اگر شریعت کی پوری پابندی کی جائے تو غلط کاریاں ظہور پذیر نہیں ہوتیں۔ یعنی اولیاء اگر پوری اسلامی ہدایات پر عمل کریں تو عورتیں غلط کاری اختیار نہ کریں۔ اولیاء پر فرض ہے کہ لڑکی لڑکا جوان ہوتے ہی ان کی شادی کا انتظام ان کی پسند کے مطابق کر دیں تو إن شاء أللہ اکثر بدکاری تک نوبت نہ پہنچے گی۔ اولیاء اکثر غفلت برتتے ہیں۔ یا کوئی طمع کرتے ہیں یا کسی قسم کی خود غرضی مقصود ہوتی ہے تو نکاح میں دیر کرتے ہیں۔ اس طرح عورتیں تنگ آجاتی ہیں اور بدکاری میں پھنس جاتی ہیں۔ اگرچہ بدکاری کے اور بھی کئی اسباب ہیں لیکن یہ بھی ایک بڑا سبب ہے لہٰذا اولیاء کو اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے ورنہ وہ ولی مرشد (خیر خواہ) نہ رہیں گے اور حدیث میں ولی کا مرشد ہونا آیا ہے لہٰذا ایسے حالات میں عورت کو اپنا نکاح خود کرنے یا بدکاری کی طرف پڑنے کی بجائے دوسرے اقرب اولیاء کو توجہ دلانی چاہئے۔ اگر کوئی اسے بے باکی پر محمول کرے تو اسے سوچنا چاہئے کہ یہ اس بے حیائی سے بہت کم ہے جو مردوں کے ساتھ بھاگ جانے اور دوسرے غلط راستوں سے اسے اختیار کرنی پڑتی ہے جبکہ مذکورۃ الصدر بے باکی شریعت کی نظر میں جائز بلکہ مستحسن ہے۔
عورت کے اولیاء کی بلحاظ رتبہ تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ باپ یا بیٹا علی الاختلاف۔ 2۔ بھائی۔ 3۔ چچا۔ 4۔ بھتیجا وغیرہ
اسی ترتیب سے جس ترتیب سے وہ وارث ہوتے ہیں۔ ذوی الأرحام ماموں وغیرہ کے متعلق اسی طرح اختلاف ہے جس طرح وراثت میں ہے۔ آخری ولی، برادری کا سربراہ یا حاکم ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
«السلطان ولي من لا ولي له» یعنی حاکم اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔
ولی کے بغیر عورت کا نکاح اب کئی مختلف صورتیں اختیار کر گیا ہے۔ مثلاً عدالتی نکاح (سول میرج) وغیرہ ان سب کا حکم ایک ہی ہے۔ اس لئے حیلے بہانے تلاش کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔
ھذا ما عندي واللہ عندہ حسن الصواب
حوالہ جات
منتقے ؍ ۲: ۵۰۶
حجۃ اللہ البالغہ ج ۲ ص ۳۶۹